مئی۲۰۰۵

فہرست مضامین

مصر:جمہوری جدوجہد نئے مرحلے میں

حافظ محمد ادریس | مئی۲۰۰۵ | عالم اسلام

Responsive image Responsive image

امریکی حکومت نے مصر کی معروف دینی و اسلامی تحریک اخوان المسلمون سے باقاعدہ رابطہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لاہور کے ایک قومی اخبار نے اپنے نمایندہ مقیم نیویارک کے حوالے سے مندرجہ ذیل خبر شائع کی ہے:’’امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے فیصلہ کیا ہے کہ مصر کی کالعدم اسلامی تنظیم اخوان المسلمون سے براہ راست اور مستقل بنیادوں پر مذاکرات کیے جائیں۔ بش انتظامیہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ اخوان المسلمون مصر کی سب سے زیادہ طاقت ور تنظیم ہے۔ قاہرہ کے ایک مغربی سفارت کار نے معتبر عربی اخبار الشرق الاوسط کوبتایا کہ امریکا سمجھ چکا ہے کہ مصر میں اخوان المسلمون تنظیم اپوزیشن کی ایک طاقت ور تنظیم کا کردار ادا کر رہی ہے‘ لہٰذا بش انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ اخوان المسلمون کے نمایندوں کو واشنگٹن مدعو کر کے ان سے مذاکرات کیے جائیں اور مصر میں اصلاحات کے سلسلے میں اخوان المسلمون سے ہم آہنگی پیدا کرنے کے لیے بات چیت کی جائے‘‘۔ (نواے وقت‘ ۶اپریل ۲۰۰۵ئ)

امریکا اور برطانیہ نے اخوان کو ہمیشہ ایک انتہا پسند مذہبی تنظیم اور مغربی تہذیب سے متنفر بنیاد پرستوں کا ٹولہ قرار دیا ہے۔ اخوان کے رہنمائوں نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالے سے بہت سے دل چسپ واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ اخوان کے تیسرے مرشدعام سید عمر تلمسانی ؒ تحریر فرماتے ہیں:

امام حسن البناؒ دو مرتبہ انتخابات میں کھڑے ہوئے۔ دونوں مرتبہ غیرملکی استعمار کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اُس دور کے وزیراعظم نحاس پاشا مرحوم سے حکومتِ برطانیہ نے مطالبہ کیا کہ وہ امام کو انتخاب لڑنے سے منع کر دیں۔ چنانچہ وزیراعظم نے اُنھیں ملاقات کے لیے میناہائوس بلایا۔ امام نے انتخاب سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ اس پر نحاس پاشا نے امام کو بتایا کہ برطانیہ کی جانب سے دھمکی ملی ہے کہ اس صورت میں مصر کو زبردست خطرے کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ چنانچہ آپ نے ملک ووطن کی سالمیت کو ترجیح دیتے ہوئے انتخاب سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کرلیا۔

دوسری مرتبہ بھی استعماری نظام نے آپ کو انتخاب سے باہر رکھنے کی پوری کوشش کی مگر آپ نے اس بار دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ غیر جانب دار حلقوں کے مطابق راے دہندگان نے بھاری اکثریت سے امام کے حق میں ووٹ ڈالے‘ مگر انتظامیہ نے ووٹوںکی گنتی کے دوران ایسا خوف و ہراس پھیلایا اور ایسی دھاندلی کی کہ جس کی   کوئی مثال نہیں ملتی۔ یوں آپ کی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کر دیا گیا۔ (یادوں کی امانت‘ ص ۱۶۱)

دوسری جگہ عمر تلمسانی ؒ لکھتے ہیں کہ ’’مصر میں نقراشی پاشا کی وزارت کے دوران مغربی ممالک کے سب سفیر ایک جگہ جمع ہوئے اور انھوں نے دھمکی آمیز لہجے میں وزیراعظم سے اخوان پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔ چنانچہ نقراشی پاشا نے اخوان پر پابندی لگادی۔ یہ پہلی پابندی تھی‘ اس کے بعد تو ہماری تاریخ پابندیوں ہی کی تاریخ بن کر رہ گئی‘‘۔ (ایضاً‘ ص ۲۵۰)

اخوان کے چوتھے مرشدعام محمد حامد ابوالنصرؒ نے اپنے احساسات کا تذکرہ یوں کیا ہے: ’’برطانوی سفارت خانے سے مجھے ایک خط ملا جس کے مطابق سفارت خانے کے نمایندے میجرلینڈل مجھ سے ملاقات کے آرزومند تھے۔ میں نے خط کا جواب دینے سے پہلے امام حسن البنا سے اس کی اجازت مانگی۔ انھوں نے مجھے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا کہ ملاقات میں کوئی حرج نہیں۔ ساتھ ہی اخوان کی پالیسی پر مشتمل ایک خط مجھے برطانوی سفارت کاروں کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اس ملاقات میں کئی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں برسبیل تذکرہ میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ برطانوی سفارت خانے میں اخوان المسلمون کے متعلق ایک البم تیار کیا گیاتھا جس میں امام حسن البنا کی تصویر کے نیچے انگریزی کی ایک عبارت لکھی ہوئی تھی: ’’مشرق وسطیٰ کا خطرناک ترین آدمی‘‘۔ (وادی نیل کا قافلہ سخت جان‘ ص ۴۷-۵۱)

اب مصر میں نصف صدی کے بعد پہلی مرتبہ یہ امید پیداہوئی ہے کہ ملک کے صدارتی انتخاب میں ایک ہی امیدوار (جو کہ کرنل ناصر کے وقت سے ہمیشہ برسراقتدار صدر ہی ہوا کرتا ہے) کے بجاے ایک سے زاید امیدواران میدان میں اتر سکیں۔ کرنل ناصر‘ انور السادات اور حسنی مبارک نے بالترتیب مصر پر ۱۷ سال‘۱۲ سال اور ۲۴ سال تک حکمرانی کی۔ آخر الذکر ابھی تک تخت پر براجمان ہیں۔ ان کے دونوں پیش رو موت ہی کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئے تھے ورنہ جیتے جی انھوں نے کسی کو مدمقابل آنے کی اجازت نہ دی۔ یوں مصر میں صدارتی انتخاب دراصل ’’ریفرنڈم‘‘ ہوتا ہے۔

آمریت کبھی آسانی سے قوموں کی جان نہیں چھوڑا کرتی۔ اس وقت حکمران ٹولے کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ ملک کے اندر حسنی مبارک اور ان کے چیلوں کے خلاف شدید نفرت ہے۔ عالمی تناظر میں کثیرجماعتی انتخابی نظام کے لیے دبائو بھی ہے لیکن مغرب کو ’’بنیاد پرستوں‘‘ کا بیلٹ کے ذریعے منتخب ہونا بھی کسی صورت قبول نہیں۔ ترکی اور الجزائر اس کے کھلے ثبوت ہیں جہاں نام نہاد مغربی جمہوریت پسندوں نے پوری ڈھٹائی اور منافقت سے عوام کے واضح مینڈیٹ کو ’’جمہوریت کی شکست‘‘ قرار دے کر ’’برعکس نہند نامِ زنگی کافور‘‘ کے معکوس معنی متعین کر دیے تھے۔

مصر کے صدارتی اور عام انتخابات سے قبل وہاں کی بارکونسل کے حالیہ انتخابات کے نتائج بھی ہوا کے رخ کا پتا دیتے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون پر قانوناً آج بھی پابندی عائد ہے۔ وہ ملکی انتخابات میں اخوان کے نام پر حصہ نہیں لے سکتے‘ البتہ آزادانہ حیثیت میں یا کسی دوسری اپوزیشن پارٹی کے ممبر کے طور پر انتخاب لڑسکتے ہیں۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اخوان کے تقریباً تین درجن ارکان اسی انداز میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ پیشہ ورانہ تنظیمیں‘ یعنی بار کونسلیں‘ انجینیروں‘ ڈاکٹروں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی یونینوں اور سوسائٹیوں میں بھی اخوان کی نمایندگی بھرپور ہے کیونکہ ان تنظیموں میں کسی بھی نام سے انتخاب لڑنے کی اجازت مل جاتی ہے۔

مصرمیں گذشتہ سال بار کونسل کے ناظم اعلیٰ‘ اخوان کے پہلے مرشدعام امام حسن البناشہیدؒ کے بیٹے سیف الاسلام البنا ایڈوکیٹ تھے۔ اس مرتبہ اخوان نے حزب الوطنی اور بعض دیگر گروپوں سے اتحاد کر کے یہ انتخاب لڑنے کا فیصلہ کیا۔ کل ۲۴ ارکان ملک بھر سے منتخب کیے جاتے ہیں جو بعد میں صدر‘ سیکرٹری اور ایگزیکٹو کونسل وغیرہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ مقابلہ کانٹے دار تھا۔ ایک   جانب اخوان اور حزب الوطنی کے امیدواران تھے تو دوسری جانب حکومتی پارٹی اور ناصری جماعت کا اتحاد میدان میں تھا۔ ایک گروپ کی قیادت سیف الاسلام البنا کر رہے تھے‘ دوسرے کے رہنما سامح عاشور تھے۔

عرب دنیا کے تمام پڑھے لکھے لوگوں بالخصوص شعبہ قانون و عدل سے تعلق رکھنے والے افراد کی نگاہیں ۱۲ مارچ ۲۰۰۵ء پر لگی تھیں۔ اس مرتبہ ان انتخابات کو مغرب میں بھی بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جا رہا تھا۔ مصر میں کل رجسٹرڈ وکلا کی تعداد ایک لاکھ ۲۵ ہزار ہے۔ اخوان نے اپنی حکمت عملی بہت حکمت و تدبر کے ساتھ مرتب کی‘ وہ شراکت کے اصول پر میدان میں اترے۔ کل ۲۴امیدواران کی فہرست میں اخوان کے ۱۰ وکلا اور دیگر پارٹیوں کے ۱۴ وکلا کا نام دیا گیا تھا۔ شام کو نتائج کا اعلان ہوا تو اخوان کے گروپ سے ۱۵ امیدوار کامیاب قرار پائے‘ جب کہ حکومتی اور ناصری اتحاد نے باقی ۹ نشستیں جیت لیں۔ نتائج کی پہلی دل چسپ بات یہ ہے کہ مصری بار کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہوا ہے اور وہ یہ کہ سابقہ بار کے ناظم اعلیٰ سیف الاسلام البنا ۳۶ ہزار ۹ سو ووٹ حاصل کر کے ممبر منتخب ہوئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کل ۷۵ ہزار کے قریب پڑنے والے ووٹوں میں سے ۱۲ ہزار ۲ سو ۳۳ ووٹ مسترد ہوئے۔ اگر یہ ووٹ مسترد نہ ہوتے تو شاید نتائج حکومتی اتحاد کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوتے (وکلا جیسی برادری کے اتنی بڑی تعداد میں ووٹوں کا مسترد ہونا بھی حیرت کی بات ہے)۔ (المجتمع کویت ‘شمارہ ۱۶۴۴‘ یکم اپریل ۲۰۰۵ئ۔ مزید تفصیلات اخوان کی ویب سائٹ www.ikwanonline.net پر دیکھی جاسکتی ہیں)

ان انتخابی نتائج سے حکومت بھی پریشان ہے اور ان کے مغربی سرپرست بھی خطرے کی بو سونگھ رہے ہیں۔ مصر میں جمہوریت کی بحالی کے لیے امریکا چند برسوں سے اعلانات کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکا کے عرب اور مسلم دنیا میں جمہوری نظام کی حمایت کرنے کے دعوے کی اصل حقیقت کیا ہے؟ یہ ایک الگ سوال ہے مگر اس شور و ہنگامے میں موروثی حکمران اور مستبد آمرانہ حکومتیں اپنی جگہ لرزہ براندام ضرور ہیں۔ حسنی مبارک ایک تسلسل کے ساتھ مغربی دنیا کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ انتخابات اور آزادانہ ماحول کا نتیجہ مصر اور خطے کے دیگر ممالک میں بنیاد پرستوں کی جیت کی صورت میں نکلے گا۔ اٹلی‘ فرانس اور امریکا کے تمام ابلاغی اداروں سے حسنی مبارک کا یہ الارم نشرہوچکا ہے۔

اس سال فروری کے آخر میں حسنی مبارک نے بعض دستوری ترامیم کا اشارہ دیا ہے۔ اس کے مطابق آئین کی دفعہ ۷۶ میں ترمیم کرتے ہوئے صدارتی انتخاب میں دیگر امیدواروں کو بھی شرکت کی اجازت دے دی جائے گی۔ اس انتخاب کا طریق کار اور قواعد کیا ہوں گے؟ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

اخوان المسلمون نے صدر کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے۔ مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مکتب ارشاد سے مشاورت اور غوروخوض کے بعد قاہرہ میں ۲۳ مارچ کو مطالبات پر مشتمل ایک جامع بیان جاری کیا‘ جسے عالم عرب و غرب کے پریس میں نمایاں جگہ ملی۔ اس کے نمایاں نکات درج ذیل ہیں:

۱- ایمرجنسی کا فوری اور مکمل خاتمہ۔ ایک ایسی فضا کا قیام جس میں حقیقی جمہوریت پنپ سکے۔ عام جلسے جلوسوں کی آزادی‘ تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی‘ خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے روا رکھے جانے والے جسمانی و نفسیاتی تشدد کا مکمل خاتمہ۔

۲- تمام خصوصی عدالتوں اور قوانین کا مکمل خاتمہ‘ بالخصوص پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ اور   ٹریڈ یونینز لا وغیرہ کا خاتمہ جن کی وجہ سے موجودہ سیاسی جمود طاری ہے۔ اخبارات و جرائد کے اجرا اور بلاقید و تفریق سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی آزادی۔

۳- ایسے آزاد ماحول اور فضا کا قیام جس میں مکمل طور پر آزادانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو اور قوم کی اصل رائے سامنے آسکے۔ صاف شفاف انتخابی فہرستوں کی تیاری‘ قومی شناختی کارڈوں کے اجرا کی جلد تکمیل‘ انتخابات کے تمام مراحل کی عدلیہ کے زیرنگرانی تکمیل‘ انتخابی عمل میں ہر طرح کی بیرونی مداخلت کا کلی سدباب اور امیدواروں کو اپنی مہم چلانے کی مکمل آزادی۔

۴- دستور کے آرٹیکل ۷۶ اور صدارتی انتخابات سے متعلق دیگر دفعات کے لیے صدر کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جائے۔ دو مرتبہ سے زاید صدارتی میعاد کے لیے امیدوار بننے پر پابندی لگائی جائے اور عرصۂ صدارت کو چار برس تک محدود کر دیا جائے۔

ان مطالبات کے آئینے میں مصر کی موجودہ تصویر صاف دیکھی جا سکتی ہے۔ ابھی ان مطالبات کے نتائج و عواقب کے بارے میں سیاسی و فکری حلقے ردعمل اور تجزیے پیش کر رہے تھے کہ دستور کے آرٹیکل ۷۶ میں مثبت اور عوامی جذبات کی ترجمان ترمیم کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ صدر حسنی مبارک نے ترمیم کا ایسا تصور پیش کیا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ترمیم بھی کی جائے گی‘ مگر اپنی صدارت کے لیے خطرہ بننے والے ہر امیدوار کا راستہ بھی روکا جائے گا۔ یوں یہ کثیر امیدواری انتخاب ایک ڈھونگ سے زیادہ کچھ نہیں ہوگا۔

دوسری طرف حکومتی سطح پر پروپیگنڈے کا ہتھیار بھی خوب استعمال ہورہا ہے (جس کا مشاہدہ ہم اپنے ملک میں بھی کرتے ہیں)۔ حسنی مبارک نے اعلان کیا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو بیرونی ممالک سے لاکھوں کروڑوں پونڈ آنے شروع ہوگئے ہیں تاکہ مصر کی حکومت کو غیرمستحکم کیا جائے۔ ایسی صورت میں دوسرے امیدوار کی ترمیم پر دوبارہ غور کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور کام یہ کیا گیا کہ اخوان کے نائب مرشد عام اور سیاسی معاملات کے نگران ڈاکٹر محمد حبیب کی طرف سے یہ بیان میڈیا میں پھیلا دیا گیا کہ انھوں نے صدرحسنی مبارک یا ان کے بیٹے جمال مبارک کے بطور امیدوار میدان میں آنے کی تائید کی ہے۔ ڈاکٹر محمد حبیب نے زوردار الفاظ میں اس کی   تردید کی مگر اس وقت تک یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح دُور و نزدیک زہر پھیلا چکی تھی۔ (المجتمع‘ شمارہ۱۶۴۵‘ ۸ اپریل ۲۰۰۵ئ)

حکومتی بدنیتی سامنے آجانے کے بعد کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف مزاحمت کا پروگرام بنایا ہے۔ بائیں بازو کی تنظیم سوشلسٹ پارٹی نے اپنے اس نعرے کی بنیاد پر کہ حسنی مبارک کی امیدواری کسی صورت منظور نہیں‘ قاہرہ میں ایک بڑے اجتماعی مظاہرے کا اہتمام کیا۔ حکومت نے اس میں زیادہ رکاوٹ نہیں ڈالی۔اسی طرح حزب الوطنی نے بھی مظاہرہ کیا اور اسے بھی بلاروک ٹوک مظاہرہ کرنے دیا گیا۔ اس کے برعکس اخوان نے ۲۷ مارچ کو پارلیمنٹ کے سامنے پُرامن اور خاموش مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا تو اوپر سے نیچے تک پوری مشینری حرکت میں آگئی اور اس مظاہرے کو ناکام بنانے کے لیے پکڑدھکڑ شروع ہوگئی۔ اخوان کے اہم رہنمائوں کو مظاہرے سے قبل ہی پکڑ کر تھانوں میں بند کر دیا گیا۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شرکت کے لیے دیگر مقامات سے آنے والوں کے لیے راستے مسدود کر دیے گئے۔ مختلف بڑے شہروں میں سے  ۶۰اہم رہنما رات کی تاریکی میں گھروں سے گرفتار کر کے نامعلوم مقامات پر منتقل کر دیے گئے (گویا سب جگہ ایک ہی طریق کار ہے)۔ اس کے باوجود اخوان نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا۔

اخوان کے مرشدعام محمد مہدی عاکف نے مظاہرے سے ایک دن قبل ہنگامی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق مصری پارلیمنٹ کے سامنے پرامن اور خاموش مظاہرہ ضرور کریں گے۔ جو لوگ رکاوٹوں کی وجہ سے وہاں پہنچنے میں کامیاب نہ ہوں وہ عوامی جلسوں کے لیے مختص معروف میدانوں میں خاموش مظاہرہ کریں گے۔ چنانچہ پارلیمنٹ پہنچنے والے راستوں کو بند کرنے کے باوجود ہزاروں لوگ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان میں نائب مرشد عام اول  ڈاکٹر محمد حبیب بھی شامل تھے۔ ۱۰ ہزار مسلح دستوں نے قاہرہ میں بری طرح خوف و ہراس پھیلا رکھا تھا۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کے علاوہ قاہرہ کے تین دیگر میدانوں میں بھی ہزاروں لوگ مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ان میں خاص طور پر قاہرہ کے مرکزی حصے کا میدان رمسیس ثانی اور میدان  سیدہ زینب قابلِ ذکر ہیں جو ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بنے۔ مظاہرے کے بعد ڈاکٹر محمد حبیب نے کویت کے رسالے المجتمع سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اشتعال کے باوجود ہمارے مظاہرے مکمل طور پر پُرامن رہے۔ ہم نے پابندیاں قبول کرنے سے انکار کیا اور جبر کی  قوتوں کے مقابلے پر اپنے سیاسی صبروتحمل اور نظم و ضبط کے ساتھ پوری دنیا کو یہ پیغام دیا کہ دستوری ترمیم کے متعلق حکومتی دھوکے بازیوں کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ تحریک کفایہ بائیں بازو کے عناصر پر مشتمل سیاسی جماعت ہے۔ اس کا نعرہ ہے ’’بہت ہوگیا!‘‘ (حسنی مبارک اب نہیں)‘ یعنی Enough is enough۔قاہرہ کے آئی جی پولیس نیبل العزبی نے اس موقع پر اعلان کیا کہ وہ اپوزیشن کی جماعت تحریک کفایہ کے ۳۰ مارچ کے مظاہرے کو بھی قوت کے ساتھ روک دیں گے۔

ایک روز قبل مصر کی تمام بڑی یونی ورسٹیوں میں طلبہ نے بڑے بڑے مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔ ان میں ازھر‘ عین شمس‘ اسیوط‘ قاہرہ‘ منیا‘ منصورہ یونی ورسٹیاں شامل ہیں۔ طلبہ دستور میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ اور حسنی مبارک کے بیٹے کو نیا صدر بنانے کی مخالفت کر رہے تھے۔ علاوہ ازیں طلبہ یونینوں پر عرصہ دراز سے عائد پابندی کے خلاف بھی سراپا احتجاج تھے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ان میں سے ہر ایک مظاہرے میں ہزاروں طلبہ نے شرکت کی۔

اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے یوں معلوم ہوتا ہے کہ امریکا اخوان کی بے پناہ مقبولیت کو دیکھ کر اس خطے کے لیے کوئی خاص سازش تیار کرنا چاہتا ہے۔ اخوان مغرب کے لیے کبھی بھی قابلِ قبول نہیں رہے۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اعتدال پسند‘ پُرامن اور جمہوری اقدار کے  علم بردار ہیں۔ امریکا کو وہ لوگ قبول ہیں جو اس کی پالیسیوں کو لے کر چلنے والے ہوں خواہ وہ موروثی بادشاہ ہوں‘ فوجی آمر ہوں یا نام نہاد سیکولر سیاست دان۔ عرب دنیا کے مسائل کا حقیقی حل منصفانہ جمہوریت ہے‘ مگر وہ کب اور کیسے آئے گی‘ یہ سوال اپنا جواب چاہتا ہے۔

عرب تجزیہ نگاروں کے مطابق اگرچہ جبر کی گرفت ڈھیلی پڑی ہے‘ تاہم ابھی منزل کافی دُور ہے۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ آمریت اپنے پیچھے موروثی آمریت چھوڑ جاتی ہے تو مغرب   اسے برداشت کر لیتا ہے‘ مثلاً شام کے حافظ الاسد کی جانشینی بشارالاسد کے حصے میں آئی۔ لیبیا کے معمر قذافی نے اپنے بعد اپنے بیٹے سیف الاسلام القذافی کو تیار کرلیا ہے اور مصر کے حسنی مبارک اپنے بیٹے کو جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ شاہی حکومتوں کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اُردن کے     شاہ حسین کے ربع صدی سے زیادہ ولی عہد کے طور پر معروف بھائی شہزادہ حسن بن طلال بیک جنبش قلم اس منصب سے محروم کر دیے گئے اور مغرب نواز شہزادہ عبداللہ تخت پر براجمان ہوگئے۔ ان سب واقعات کے باوجود لوگوں کی نظریں مصر پر جمی ہوئی ہیں جہاں اخوان ایک مضبوط سیاسی قوت کی حیثیت سے موجود ہیں۔ تبدیلی کا آغاز شاید مصر سے ہو اور اللہ کی توفیق اور عوامی تائید سے کامیابی حاصل ہو۔