اب آیئے شرعی تقویٰ کی حقیقت پر غور کیجیے۔ ظاہر ہے کہ شریعت فطرت کے برخلاف نہیں بلکہ عین فطرت ہے۔ فطرۃ اللّٰہ التی فطر الناس علیھا۔ اس وجہ سے شریعت کی نسبت یہ گمان کرنا تو کسی طرح صحیح نہیں ہوسکتا کہ وہ کسی ایسے تقویٰ کا مطالبہ کرے گی جو انسان کی زندگی میں کسی طرح کا تعطل پیدا کرے‘ یا اس کی جائز رغبتوں کی نفی کرے‘ خواہ ان کا تعلق ابتدائی ضروریات سے ہو یا کمالیات سے‘ یا اس کا حصول زندگی کی شاہراہ سے الگ ہو کر کسی ایسے بعید گوشے اور دُور دراز جزیرہ ہی میں ممکن ہو جہاں حرکت کے بجاے صرف سکون اور زندگی کی جگہ صرف موت ہو‘ یا اس کی شناخت کے لیے وہ کوئی ایسی علامت ٹھیرائے جو رد و قبول‘ ترک و اختیار‘ اور ہدایت و ضلالت کے اس قانون ہی کو یکسر باطل کردے جو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں جاری فرمایا ہے اور جو انسان کی فطرت اور خدا کی حکمت کا عین مقتضٰٰی ہے۔ ان باتوں میں سے کوئی بات بھی اگر تسلیم کرلی جائے تو اس سے لازم آتا ہے کہ شریعت اور فطرت میں کامل توافق کی جگہ ایک مستقل نزاع اور جنگ کی حالت قائم ہو حالانکہ ایسا سمجھنا خود شریعت کی تکذیب ہے۔ شریعت کا اعلان تو یہ ہے کہ اس نے فطرت پر نہ سرمو اضافہ کیا ہے نہ اس میں کوئی کمی کی ہے البتہ انسان کی فطرت جو کچھ مطالبہ کرتی اس کو اس نے بالکل مبرہن اور آشکارا کردیا ہے۔ فطرت کے اشارات مخفی تھے ان کو شریعت نے بالکل روزِ روشن کی طرح نمایاں کر دیا تاکہ ان کے خفا کی وجہ سے انسان کے لیے کوئی عذر باقی نہ رہے۔ فطرت کے صحیح مقتضیات کے تعین میں انسان کی بعض کمزوریوں کی وجہ سے اختلاف پیدا ہو سکتا تھا۔ شریعت نے مقتضیات کو معین کر کے اس اختلاف کا خدشہ دُور کردیا۔ اس سے زیادہ شریعت کسی بات کی مدعی نہیں ہے۔ اس وجہ سے جبلی اور فطری تقویٰ اور شرعی تقویٰ میں جو کچھ فرق ہوسکتا ہے وہ نفس تقویٰ کی حقیقت اور اس کے مقصد میں نہیں ہو سکتا‘ البتہ اس کے محرک میں ہوسکتا ہے۔
جبلت میں صرف ذات کی حفاظت کا جذبہ مخفی ہوتا ہے‘ فطرت میں حفاظت نفس کے ساتھ مذاق سلیم اور انجام بینی کا پہلو بھی نمایاں ہوجاتا ہے‘ اور شریعت میں آکر صاف صاف ایک خداے منعم و دیان کا خوف اور رجاب اور عدل الٰہی کا ڈر ہے جو انسان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اس کی زندگی کے لیے جو سیدھی راہ متعین کر دی گئی ہے اس پر چلے اور بے راہ روی اور گمراہی سے اس کو بچائے‘ جو حدود شریعت نے قائم کر دیے ہیں ان سے تجاوز کرنے کی جسارت نہ کرے۔ پس شرعی تقویٰ کی حقیقت یہ ہونی چاہیے کہ آدمی اپنی زندگی کو خدا کے مقرر کیے ہوئے حدود کے اندر رکھے اور دل کی گہرائیوں کے اندر اس بات سے ڈرتا رہے کہ جہاں اس نے خدا کی قائم کی ہوئی کسی حد کو توڑا‘ تو اس کو خدا کی سزا سے بچانے والا خدا کے سوا کوئی نہیں ہوسکتا۔ (’’اشارات‘‘، مولانا امین احسن اصلاحی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۶‘ عدد ۳-۶‘ ربیع الاول تا جمادی الثانی ۱۳۶۴ھ‘ مارچ تا جون ۱۹۴۵ئ‘ ص ۱۰۳)