بسم اللہ الرحمن الرحیم
جمہوری ممالک میں چار سے پانچ سال ایک ایسی مدت ہے جس میں ایک حکومت یا قیادت کی کارکردگی‘ پالیسیوں کی صحت و عدمِ صحت اور قبولیت یا غیر مقبولیت کو جانچنے کے لیے کافی سمجھا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا بلاشرکت غیرے حکمران بنے‘ اب ساڑھے پانچ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ اگرچہ ان کی اور ان کے امریکی سرپرستوں کی نگاہیں ۲۰۰۷ء اور ۲۰۱۲ء پر لگی ہوئی ہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پائوں کے نیچے سے زمین تیزی کے ساتھ سرک رہی ہے۔ جن بلند بانگ دعوئوں کے ساتھ وہ ۱۲ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو فوج کی طاقت استعمال کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے تھے وہ ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔ ہوا کے رخ کا اندازہ لاکھوں افراد کے چار مظاہروں اور ۲ اپریل کی ملک گیر ہڑتال سے کیا جا سکتا ہے جو ساری سرکاری مخالفت‘ میڈیا کے ہیجانی طوفان‘ ملک کے طول و عرض میں متحدہ مجلس عمل کے ہزاروں کارکنوں کی پیش از ہڑتال گرفتاری اور پیپلز پارٹی کی زبانی ہمدردی لیکن ہڑتال سے مکمل عدم تعاون کے باوجود ایک مکمل اور مؤثر ترین عوامی احتجاج اور مجلس عمل پر عوامی اعتماد کا اظہار تھی۔
یہ عوامی جدوجہد مجلس عمل کی قیادت میں قانون کی پابندی اور جمہوری روایات کے مطابق ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اس میں مجلس عمل کے کارکنوں کے ساتھ عوام کی بڑھتی ہوئی شرکت زمینی حقائق کی صحیح تصویرکشی کرتے ہیں۔ مجلس عمل نے تمام سیاسی قوتوں کو بشمول مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی اس قومی احتجاج میں شرکت کی دعوت دی لیکن عمران خان (تحریکِ انصاف) کے سوا کسی نے بھرپور شرکت نہیں کی۔ اس طرح مجلس عمل کو تن تنہا اپنی عوامی قوت اور تائید کا اندازہ کرنے اور اسے کامیابی کے ساتھ متحرک کرنے کا بھی ایک تاریخی موقع حاصل ہوگیا جس کا اعتراف ان تمام سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نویسوں نے کیا ہے جو مجلس عمل کے مؤید نہ ہوتے ہوئے بھی سیاسی حقائق کا اعتراف کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتے اور جن کا کام بقول سیکرٹری جنرل مسلم لیگ (ق) صرف ’’سرکاری سچ‘‘ کی تشہیر نہیں۔ رہا مجلس عمل کے احتجاج کا پُرامن اور جمہوری کردار اور منظم انداز کار‘ تو اس کا اعتراف تو جنرل پرویز مشرف تک کو رائٹر کے نمایندے کو دیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں کرنا پڑا:
حقیقی جمہوریت کے احیا‘ پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے دفاع‘ اس کے اسلامی تہذیبی تشخص کی حفاظت اور عوام کے مسائل کے حل اور مصائب سے نجات کے لیے جو عوامی تحریک اب شروع ہوگئی ہے‘ وہ اگر ایک طرف پاکستان کے مستقبل کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے تو دوسری طرف اس کے ذریعے وہ ایشوز بھی کھل کر قوم کے سامنے آگئے ہیں جو حکومت اور اس کو چیلنج کرنے والی عوامی قوت (مجلس عمل ) کے درمیان باعث نزاع ہیں۔ چونکہ یہ تحریک اب عوامی احتجاج کے دور میں داخل ہوگئی ہے اور صرف سیاسی کارکن ہی نہیں بلکہ عام شہری‘ تاجر‘ دانش ور‘ علما اور طلبہ‘ سب اس میں شریک ہو رہے ہیں اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس تحریک کے مثبت قومی اہداف کو بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا جائے اور حکومت کے ترجمان اور ان کے حواری قلم کار حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کر کے اور جھوٹی خبروں سے کنفیوژن پھیلانے کی جو مہم چلا رہے ہیں اس کا پردہ پوری طرح چاک کر دیا جائے ۔
کہا جا رہا ہے کہ وردی کوئی مسئلہ نہیں‘ اصل مسئلہ تو معاشرتی ترقی اور میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا ہے اور گویا حزب اختلاف ان کی مخالف ہے‘ جب کہ جنرل پرویز مشرف اور ان کے ساتھی معاشی ترقی‘ ہمسایوں سے دوستی اور عالمی برادری سے ہم آہنگی کے لیے ساری دوڑ دھوپ کر رہے ہیں۔
سب سے بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر ہم نے انگریز اور ہندو قیادت دونوں کے خلاف جنگِ آزادی کن مقاصد کے لیے لڑی تھی؟ اگر مسئلہ صرف معاشی ترقی اور میگا پروجیکٹس ہی کا تھا اور عالمی قوتوں سے ہم آہنگی اصل منزل مراد تھی تو پھر برطانیہ سے‘ جو اس وقت کی سوپر پاور تھی‘ اور جس کے استعماری راج کا ہدف ہی ترقی اور مغرب کے نمونے پر ملک کی تعمیر تھا‘ لڑائی کس بات کی تھی؟ ریل کی پٹڑی اور سڑکوں کا جال تو انگریز کے دور میں بچھا دیا گیا تھا۔ صنعتی انقلاب بھی اس دور میں شروع ہوگیا تھا‘ نیا تعلیمی نظام بھی انھی کا مرہونِ منت تھا۔ ان کا دعویٰ تھا ہی یہ کہ ہم ساری دنیا میں ترقی اور تہذیبِ نو کے پرچارک ہیں۔ پھر مخالفت اور تصادم کس لیے تھا؟
حالات کا جتنا بھی تجزیہ کیا جائے‘ یہ بات بالکل نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ اصل لڑائی آزادی‘ حاکمیت‘ اپنے دین‘ اپنی اقدار‘ اپنی تاریخ اور اپنے قومی و ملّی تشخص کی حفاظت اور ترقی کی تھی۔ معاشی ترقی وہی معتبر ہے جو قوم و ملک کی آزادی اور اقدارِ حیات کے مطابق اور ان کو تقویت دینے والی ہو۔ عالمی قوتیں ہوں یا ہمسایہ ممالک‘ سب سے دوستی اور تعاون صرف اس فریم ورک میں مطلوب ہے جس میں ملک و ملّت کی آزادی اور نظریاتی و تہذیبی تشخص مضبوط اور محفوظ ہو۔ صرف معاشی اہداف تو برطانیہ کی حکمرانی میں بھی حاصل ہوسکتے تھے اور آزادی کی صورت میں ملک کی تقسیم کے بغیر بھی مشترک مقاصد کی حیثیت اختیار کر سکتے تھے۔ پاکستان کے قیام کا اصل جواز (raison de'tere) تو یہ صرف یہ تھا کہ نہ صرف ملک آزاد ہو بلکہ مسلمان بھی آزاد ہوں اور وہ اپنے دین و ایمان‘ اپنے اصول و اقدار اور اپنے تہذیبی تشخص کی مناسبت سے ترقی کی منزلیں طے کر سکیں۔
علامہ اقبال ؒ نے آخری زمانے (مارچ ۱۹۳۸ئ) میں واضح کر دیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے سے ہمارا مقصد یہی نہیں کہ ہم فقط آزاد ہو جائیں‘ بلکہ ہمارا اول مقصد یہ ہے کہ اس آزادی کا نتیجہ اسلام کی بنیاد پر ایک دارالسلام کی صورت میں ظاہر ہو اور مسلمان طاقت ور بن جائیں لیکن اگر یہ نتیجہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر ایسی آزادی پر ہزار مرتبہ لعنت۔ (مقالاتِ اقبال، مرتبہ عبدالاحد معین‘ ص ۳۳۷-۳۳۸)
وہ لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں اور اپنے مطالبات پیش کرنے میں خوف و خطر کو پاس نہ پھٹکنے دیں۔ نیز اپنے ملّی‘ مذہبی‘ معاشرتی اور روایاتی حقوق کی حفاظت کے لیے نبردآزما رہیں۔ میں کانگریس سے یا ہندوئوں سے مساوات کے اصول پر آبرومندانہ مصالحت کرنے پر آمادہ ہوں لیکن میں مسلم قوم کو ہندوئوں یا کانگریس کا حاشیہ بردار نہیں بنا سکتا۔ (خطاب جبل پور‘ ۷ جنوری ۱۹۳۸ئ‘ بحوالہ گفتار قائداعظم‘ مرتبہ احمد سعید‘ قومی کمیشن براے تحقیق تاریخ و ثقافت‘ اسلام آباد‘ ص ۱۹۱)
علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے اقتصادی ترقی کے سراب کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتایا کہ ہندو قیادت کا مقصد مسلمانوں کو دینی‘ اخلاقی اور تہذیبی اعتبار سے اپنا محکوم بنانا ہے۔ انھوں نے فرمایا:
وہ ہمیں بندے ماترم جیسے مشرکانہ اور ملحدانہ گیت گانے پر مجبور کر رہی ہے۔ مجھے بحیثیت مسلمان‘ دوسری اقوام کے تمدن‘ معاشرت اور تہذیب کا پورا احترام ہے لیکن مجھے اپنے اسلامی کلچر اور تہذیب سے بہت زیادہ محبت ہے۔ میں ہرگز نہیں چاہتا کہ ہماری آنے والی نسلیں اسلامی تمدن اور فلسفے سے بالکل بے بہرہ ہوں۔ مسلمانوں کے لیے یہ امر قطعاً ناقابلِ قبول ہے اور ناقابلِ برداشت ہے کہ وہ اپنی حیات اور ممات‘ زبان‘ تہذیب و تمدن ایک ایسی اکثریت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں کہ جس کا مذہب‘ تہذیب اور تمدن اس سے قطعاً مختلف ہے اور جن کا موجودہ سلوک مسلمانوں کے ساتھ نہایت برا ہے بلکہ مذموم اور غیرمنصفانہ ہے۔ (گفتار قائداعظم‘ ص ۲۰۶)
مسلمانوں کے لیے پروگرام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کے پاس تو تیرہ سو برس سے ایک مکمل پروگرام موجود ہے اور وہ قرآن پاک ہے۔ قرآن پاک ہی میں ہماری اقتصادی‘ تمدنی و معاشرتی اصلاح و ترقی کے علاوہ سیاسی پروگرام بھی موجود ہے۔ میرا اس قانونِ الٰہیہ پر ایمان ہے اور جو میں آزادی کا طالب ہوں وہ اسی کلامِ الٰہی کی تعمیل ہے۔ قرآن پاک ہمیں تین چیزوں کی ہدایت کرتا ہے: آزادی‘ مساوات اور اخوت۔ بحیثیت ایک مسلمان کے‘ میں بھی انھی تین چیزوں کے حصول کا مستحق ہوں۔ تعلیمِ قرآن میں ہی ہماری نجات ہے اور اس کے ذریعے سے ہم ترقی کے تمام مدارج طے کر سکتے ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۱۶)
دونوں قوموں کی آزادی کے لیے پاکستان بہترین ذریعہ ہے۔ مسلمانوں کو ہندو صوبوں میں پِس جانے کا خوف نہیں کرنا چاہیے۔ مسلم اقلیت والے صوبوں کے مسلمانوں کو اپنی تقدیر کا مقابلہ کرنا چاہیے لیکن مسلم اکثریت والے صوبوں کو آزادی دلانی چاہیے تاکہ وہ اسلامی شریعت کے مطابق اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ (ایضاً،ص ۲۵۴)
حیدر آباد دکن میں راک لینڈ کے سرکاری مہمان خانے میں نوجوانوں کے اجتماع میں سوال جواب کی محفل میں پاکستان کے لیے اسلامی نظام کی بحث میں بڑے بنیادی نکات کی وضاحت کی:
قائداعظم:جب میں انگریزی زبان میں مذہب کا لفظ سنتا ہوں تو اس زبان اور قوم کے محاورے کے مطابق میرا ذہن خدا اور بندے کی باہمی نسبتوں اور رابطے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ میں بخوبی جانتا ہوں کہ اسلام اور مسلمانوں کے نزدیک مذہب کا یہ محدود اور مقید مفہوم یا تصور نہیں ہے۔ میں نہ تو کوئی مولوی ہوں نہ مُلّا‘ نہ مجھے دینیات میں مہارت کا دعویٰ ہے‘ البتہ میں نے قرآن مجید اور اسلامی قوانین کے مطالعے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ اس عظیم الشان کتاب میں اسلامی زندگی سے متعلق ہدایات کے باب میں زندگی کے روحانی پہلو‘ معاشرت‘ سیاست‘ معیشت‘ غرض انسانی زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات کے احاطے سے باہر ہو۔ قرآن کی اصولی ہدایات اور اس کا سیاسی طریقۂ کار نہ صرف مسلمانوں کے لیے بہترین ہے بلکہ اسلامی سلطنت میں غیرمسلموں کے لیے بھی سلوک اور آئینی تحفظ کا اس سے بہتر تصور ممکن نہیں۔
قائداعظم: ترکی حکومت پر میری نظر میں سیکولر اسٹیٹ کی سیاسی اصطلاح اپنے پورے مفہوم میں منطبق نہیں ہوتی۔ اب اسلامی حکومت کے تصور کا یہ بنیادی امتیاز پیش نظر رہے کہ اطاعت اور وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے اس لیے تعمیل کا مرکز قرآن مجید کے احکام اور اصول ہیں۔ اسلام میں اصلاً کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ کسی پارلیمان کی‘ نہ کسی شخص یا ادارے کی۔ قرآن کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کے حدود متعین کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت دوسرے الفاظ میں قرآنی اصول اور احکام کی حکمرانی ہے۔ آپ جس نوعیت کی بھی حکمرانی چاہیں‘ بہرحال آپ کو سلطنت اور علاقے کی ضرورت ہے۔
قائداعظم: مسلم لیگ‘ اس کی تنظیم‘ اس کی جدوجہد‘ اس کا رخ اور اس کی راہ___ سب اسی سوال کے جواب ہیں۔ (ایضاً،ص ۲۶۱-۲۶۲)
ہم نے قدرے تفصیل سے قائداعظمؒ کے تصور پاکستان کے چند پہلو اس لیے بیان کیے ہیں کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ بلاشبہہ ہمیں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے معاشی استحکام مطلوب ہے لیکن اصل ہدف مسلم اُمت کی آزادی‘ حاکمیت اور تہذیبی و دینی تشخص کی حفاظت اور ترقی ہے۔ معاشی ترقی اسی کُل کے ایک حصے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے آج بھی پاکستان کی بقا‘ ترقی اور استحکام کا انحصار صرف معاشی عوامل پر نہیں بلکہ سیاسی‘ تہذیبی اور معاشی ‘سب عوامل کے ہم آہنگ اور ہم رنگ ہونے پر ہے۔
جنرل پرویز مشرف کے خلاف جو تحریک آج ملک کے طول و عرض میں پروان چڑھ رہی ہے‘ اس کا تعلق محض ان کی ذات سے نہیں بلکہ اصل چیز وہ نظامِ حکومت‘ وہ طرزِ حکمرانی اور وہ ملکی اور بین الاقوامی پالیسیاں ہیں جن کا وہ عنوان بن گئے ہیں۔ ساڑھے پانچ سال میں ان کے عزائم کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اگر ان کے اس نظامِ حکومت کو دو اور دو چار کی طرح واضح الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کے سات اجزا نمایاں ہو کرسامنے آتے ہیں۔ یہ نکات ان کے بیانات ہی نہیں‘ ان کی حکومتی پالیسیوں اور عملی اقدامات سے واضح ہوتے ہیں۔ عوامی احتجاجی تحریک ان ہی کے خلاف ہے۔
m فردِ واحد کی حکومت: ان کے نظامِ حکومت کی پہلی خاصیت فردِ واحد کی حکومت ہے۔ وہ دستور‘ قانون‘ ضابطوں اور روایات کسی کا بھی احترام نہیں کرنا جانتے اور خود اپنے بنائے دستور اور ضابطے کے بھی قائل نہیں۔ انھوں نے شخصی حکمرانی کا راستہ اختیار کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دستور ایک غیرمتعلق کتاب اور پارلیمنٹ غیر مؤثر ادارہ بن کر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ ان کی اپنی بنائی ہوئی حکومت بھی اس کھیل میں ایک بے بس تماشائی ہے۔ بظاہر وزیراعظم چیف ایگزیکٹو ہے لیکن اس کی عملی حیثیت چیف آبزور (معزز ترین تماشائی) اور من کہ ایک فدوی(most obedient servant) سے زیادہ نہیں۔ پالیسی کے معمولات ہوں‘ یا عالمی رہنمائوں سے مذاکرات اور معاہدات کے معاملات یا نظامِ حکومت کو چلانے کے لیے انتظامی اقدامات‘ حتیٰ کہ معمولی معمولی تقرریاں اور تبادلے___ سب کا انحصار ایک فردِ واحد پر ہے۔ ادارے مضمحل اور غیرمؤثر ہوکر رہ گئے ہیں اور قوانین اور ضابطے کاغذ پر بے جان‘ بے معنی اور بے توقیر الفاظ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ یہ جمہوریت اور اسلامی اصول حکمرانی کی ضد ہے اور موجودہ احتجاجی تحریک کا پہلا ہدف اس شخصی حکمرانی کو چیلنج کر کے دستور‘ قانون اور اداروں کی بالادستی کا قیام ہے۔
دستور نے فوج کے تمام افسروں اورجوانوں کے لیے لازم کیا ہے کہ وہ سیاست میں ملوث نہ ہوں اور فوج پوری قوم کی معتمد علیہ اور صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے مخصوص ہو۔ فوج کی قیادت کی تربیت اس خاصی قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے ہوتی ہے اور وہ سیاست اور نظامِ حکمرانی کو چلانے کی اہلیت اور ذہنیت دونوں سے عاری ہوتے ہیں۔ پھر فوج کے سیاست میں آجانے سے وہ ایک متنازعہ قوت بن جاتی ہے جس سے اس کی دفاعی صلاحیت بری طرح مجروح ہوتی ہے۔ جنرل مشرف نے جو پالیسی اختیار کی ہے‘ اس کی وجہ سے فوج کا عمل دخل سیاست اور حکمرانی کے ہر شعبے میں اس طرح ہوگیا ہے کہ اب ان تمام میدانوں میں اسے حریف تصور کیا جانے لگا ہے۔ ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ خطرناک کیفیت پیدا ہو رہی ہے کہ عوام چند جرنیلوںہی کو ہدف تنقید و ملامت نہیں بنا رہے بلکہ فوج بحیثیت ایک ادارے کے اپنی عزت و احترام کھو رہی ہے اور اس کے خلاف بے اعتمادی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اب اس کی طرف نگاہیں قوم اور وطن کے محافظ کی حیثیت سے نہیں اٹھ رہیں۔ وہ بگاڑ اور لوٹ کھسوٹ میں شریک اداروں میں ایک شریک کار کی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ یہ صورت حال دفاع وطن اور خود فوج کی عزت اور وقار کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ وردی پر اصرار کرکے جنرل پرویز مشرف نے اپنی ساکھ ہی کو خاک میں نہیں ملایا‘پوری فوج کے وقار اور عزت کو بھی پامال کیا ہے۔ جس طمطراق سے وہ دفاعی حصار میں منعقد کیے جانے والے سیاسی جلسوں میں فوجی وردی میں شرکت کر رہے ہیں اور ایک مخصوص سیاسی ٹولے کے لیے مہم چلا رہے ہیں‘ اس نے فوج کو بحیثیت ادارہ‘ سیاست کی دلدل میں گھسیٹ لیا ہے اور یہ مقدس وردی اس بری طرح داغ دار کر دی گئی ہے کہ اسے محض فوجی وردی قرار دینا ایک سنگین مذاق بن گیا ہے۔
جمہوری احتجاجی تحریک کا دوسرا ہدف فوج کو ایک بار پھر ایک مضبوط اور مؤثر دفاعی ادارہ بنانا‘ اسے سیاست کی آلایش سے پاک کرنا‘ اور پورے فوجی نظام کو دستور کے مطابق سول نظام کے تابع اور اس کا معاون بنانا ہے‘ حکمران رکھنا نہیں۔
کبھی پاکستان کو عالم اسلام میں عزت اور وقار کا مقام حاصل تھا اور آج عالم اسلام کے عوام پاکستان کی قیادت کو صرف امریکا کا بغل بچہ سمجھ رہے ہیں۔ ہماری خارجہ پالیسی جتنی بے آبرو آج ہے‘ اتنی کبھی نہ تھی۔ اور اب تو صاف کہا جا رہا ہے کہ ہماری کوئی خارجہ پالیسی نہیں‘ ہم اپنے قومی مفادات کی قیمت پر بھی امریکا کے مفادات بخوشی پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم اس کے کارندے کا کردار ادا کرنے میں کوئی تکلف نہیں۔ بھارت سے دوستی بھی امریکا کے زیرہدایت کی جارہی ہے‘ اور عوامی ردعمل جاننے کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنے تک کے محاسے (feeler) اس کے اشارے پر دیے جا رہے ہیں۔ ایران پر امریکی دبائو میں ہم بھی کردار ادا کررہے ہیں اور نوبت بہ اینجا رسید کہ یہ تک کہہ رہے کہ ایک ہمسایہ مسلمان ملک پر ایک صریح ظالمانہ حملے کی صورت میں ہم مظلوم کا ساتھ دینے والے نہیں بلکہ خاموش تماشائی ہوں گے جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب کل یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو تو کوئی ہمارے حق میں آواز اٹھانے والا بھی نہ ہو۔ اناللّٰہ وانا الیہ راجعون!
بات صرف سیاسی آزادی اور حاکمیت کے باب میں سمجھوتے تک محدود نہیں‘ اس دورحکومت میں خطرناک رجحانات کو ہوا دی جا رہی ہے: نظریاتی انتشار‘ دو قومی نظریے کے بارے میں شدید ژولیدہ فکری و مغرب کی آبرو باختہ تہذیب و ثقافت کا فروغ‘ بھارت کی مشرکانہ اور ہندو تہذیبی یلغار کے لیے خوش آمدید کا رویہ___ یہ سب باتیں پاکستان کے وجود اور اس کی تہذیبی شناخت کے لیے شدید خطرے کا باعث ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) کی قیادت عام حالات میں اسلام اور مسلمانوں کی اقدار ہی کی باتیں کیا کرتی تھی‘ اب وہ بھی بھارت کے ساتھ مشترک تہذیب کے راگ الاپ رہی ہے۔ کوئی مشترک پنجابی تہذیب کی بات کرتا ہے تو کوئی اپنے ماتھے پر تلک لگاکر‘ ہندو جنونیوں کے لیڈر شری ایل کے ایڈوانی کو لاہور کے قلعے میں مندر کا سنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دے رہا ہے ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
اسی لَے میں ایک آواز ’’اعتدال پسندی اور روشن خیالی‘‘ کی بلند کی جارہی ہے جس کے نام پر کبھی داڑھی اور حجاب کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ کبھی چوروں کے ہاتھ کاٹنے کو وحشت اور ظلم قرار دیا جاتا ہے‘ کبھی حدود قوانین کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے تو کبھی توہین رسالتؐ کا قانون کانٹا بن کر چبھنے لگتا ہے۔ کبھی بسنت کے نام پر شراب و شاہد اور فحاشی کا بازار گرم کیا جاتا ہے‘ کبھی مخلوط میراتھن ریس کا ڈراما رچایا جاتا ہے‘ کبھی دینی تعلیم اور مدارس کو زیرِعتاب لایا جاتا ہے اور کبھی انتہاپسندی کے نام پر ہر اصول و ضابطے اور تمام اقدار و روایات کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور سمجھا جاتا ہے کہ ترقی نام ہے بے حجابی‘ عریانی اور فحاشی کو فروغ دینے کا۔
یہ سب کچھ اقبال اور قائد اعظم کے تصورِجدیدیت کے نام پر کیا جا رہا ہے حالانکہ قائداعظم نے جس پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی اور مسلمانوں نے قربانیاں دی تھیں وہ اسلامی تہذیب و معاشرت کی حفاظت اور فروغ کے ہدف کے لیے تھی‘ مغربی تہذیب اور ہندو ثقافت کے فروغ کے لیے نہیں۔ اور رہا اقبال‘ تو اس نے تو ساری زندگی ہی جس کارعظیم کے لیے وقف کی اس میں ترقی اور روشن خیالی کے اس فتنے کا پردہ چاک کرنے کو مرکزیت حاصل تھی۔ جاوید نامہ میں کس بالغ نظری اور کس صاف گوئی اور راست فکری کے ساتھ وہ کہتا ہے:
شرق را از خود برد تقلیدِ غرب
باید ایں اقوام را تنقیدِ غرب
قوتِ مغرب نہ از چنگ و رباب
نے زرقصِ دخترانِ بے حجاب
نے ز سحرِ ساحرانِ لالہ روست
نے ز عریاں ساق ونے از قطعِ موست
محکمی او را نہ از لا دینی است
نے فروغش از خطِ لاطینی است
حکمت از قطع و بریدِ جامہ نیست
مانعِ علم و ہنر عمّامہ نیست
علم و فن را اے جوانِ شوخ و شنگ
مغز می باید نہ ملبوسِ فرنگ
اندریں رہ جز نگہ مطلوب نیست
ایں کُلہ یا آں کُلہ مطلوب نیست
فکرِ چالا کے اگر داری بس است
طبعِ درّا کے اگر داری بس است
گر کسے شبہا خورد دودِ چراغ
گیرد از علم و فن و حکمت سراغ
ملکِ معنی کس حدِ او را نہ بست
بے جہادِ پیہمے ناید بدست
مشرق کو مغرب کی تقلید نے اپنا آپ بھلا دیا ہے۔ ان اقوامِ مشرق کو چاہیے کہ وہ مغرب کو تنقید کی نظر سے دیکھیں۔ مغرب کی قوت چنگ و رباب سے نہیں‘ نہ یہ بے پردہ لڑکیوں کے رقص کی وجہ سے ہے۔ نہ یہ سرخ چہرہ‘ محبوبوں کے جادو کی وجہ سے نہ یہ ان کی عورتوں کی ننگی پنڈلیوں اور بال کٹانے سے ہے۔ نہ اس کا استحکام لادینی کی وجہ سے ہے اور نہ اس کی ترقی رومن رسم الخط کے باعث ہے۔ افرنگ کی قوت ان کے علم اور فن کے سبب سے ہے۔ ان کا چراغ اسی آگ سے روشن ہے۔ ان کی حکمت لباس کی قطع و برید کے سبب سے نہیں‘ عمامہ علم و ہنر سے منع نہیں کرتا۔ اے شوخ و شنگ جوان علم و فن کے لیے مغز چاہیے نہ کہ مغربی لباس۔ اس راہ میں صرف نگاہ مطلوب ہے‘ یہ ٹوپی یا وہ ٹوپی مطلوب نہیں۔ اگر تیرے اندر زود و رس فکر اور تیزبین طبع ہے تو یہ دونوں چیزیں علم و فن کے لیے کافی ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی راتیں فکر اور مطالعہ میں بسر کرتا ہے تو وہ علم و فن اور حکمت کا سراغ پالیتا ہے۔ معانی کی سلطنت جس کی حدود کا تعین کوئی نہیں کرسکا‘ کوشش پیہم کے بغیر ہاتھ نہیں آتی۔
آج کی جمہوری تحریک کا چوتھا ہدف پاکستان کی نظریاتی شناخت کا تحفظ اور اسلامی تہذیب و ثقافت پر اس حکومت کی سرپرستی میں پروان چڑھنے والی تہذیبی اور تمدنی یلغار کی بھرپور مزاحمت اور پاکستان کے اصل تصور کے مطابق اس کی تعمیرنو کے لیے اجتماعی جدوجہد اور نئی قیادت کو بروے کار لانے کی کوشش ہے۔
بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے نام پر قومی غیرت اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی قیمت پر بنیادی پالیسی کے معاملات میں ایسی قلابازیاں (U-turns) کھائی جارہی ہیں جن کے نتیجے میں نہ صرف ملک کی سلامتی اور استحکام معرضِ خطر میں ہے بلکہ پورے علاقے کا نقشہ ہی تہ و بالا ہوسکتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ محض کوئی سرحدی تنازع نہیں‘ یہ ڈیڑھ کروڑ انسانوں کی آزادی اور حقِ خودارادیت کا مسئلہ ہے اور پاکستان کے اسٹرے ٹیجک مفادات کے ساتھ ساتھ تقسیمِ ہند کے نامکمل ایجنڈے کا حصہ ہے۔ کسی فردِ واحد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنے کھلنڈرانہ رویوں اور اپنی طالع آزمائیوں کا نشانہ بنائے۔ کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ قوم کے تاریخی موقف کو محض اپنے زعم میں تبدیل کر دے۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں جہاں ایک اخلاقی اور قانونی معاہدہ ہیں‘ وہیں وہ ایک عالمی میثاق کی حیثیت رکھتی ہیں جس کے تین بنیادی فریق ہیں: پاکستان‘ بھارت اور جموں و کشمیر کے عوام۔ اقوام متحدہ اور پوری عالمی برادری اس میثاق کی ضامن ہے۔ تعجب کا مقام ہے کہ ایک فوجی جسے عالمی سفارت کاری اور بین الاقوامی قانون اور آداب کے باب میں کوئی مہارت حاصل نہیں‘ کسی مشورے اور مجاز اداروں کے کسی فیصلے کے بغیر‘ ترنگ میں آکر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے بارے میں عالمی میڈیا کے سامنے یہ کہنے کی جسارت کرتا ہے کہ انھیں ایک طرف رکھا (set aside) جاسکتا ہے۔ صدافسوس یہ ہے کہ ایسا کہنے والے کا کوئی احتساب نہیں ہوتا‘ اور اقتدار کے پجاری نہ صرف اس کی تاویلیں کرنے لگتے ہیں بلکہ پوری کشمیر پالیسی کا رخ ہی بدل دیتے ہیں۔
اس قیادت کی سیاسی سوجھ بوجھ کے بارے میں کیا کہا جائے جو اسی پسپائی‘ عاقبت نااندیشی اور قومی مفادات سے بے وفائی کو اپنی ’’جرأت اور بہادری‘‘ کا نام دیتی ہے اور پھر خود اپنی تعریف کے راگ الاپتی ہے۔ ’’جرأت و فراست‘‘ کا عالم یہ ہے کہ جب امریکا بہادر کہتا ہے کہ ہمارا ساتھ دو‘ ورنہ ہماری دشمنی کے لیے تیار ہوجائو تو غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتی ہے۔ لبنان اور شمالی کوریا جیسے کمزور اور چھوٹے ممالک سفارت کاری میں جوہر دکھاتے ہیں‘ ہم اس کے گردِراہ کو بھی نہیں پاسکتے۔ ۱۹۷۱ء کی شکست کے بعد بھی‘ شملہ معاہدے کے موقع پر سیاسی قیادت نہ صرف اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے اصولوں کا ذکر شامل کرا لیتی ہے بلکہ جو بات بھی کرتی ہے وہ ’’دونوں حکومتوں کے اصولی مؤقف پر کسی اثر کے بغیر‘‘کے فریم ورک میں کرتی ہے اور کشمیر کے مسئلے کے آخری حل (final solution) کو ایجنڈے میں رکھتی ہے۔ لیکن ہمارے فوجی حکمران ان تمام قانونی اور سفارتی نزاکتوں کا کوئی ادراک نہیں رکھتے اور بس جرأت کا صرف یہ مفہوم سمجھتے ہیں کہ مستعدی سے دوسروں کے مطالبات کے آگے سپر ڈال دیں اور اپنے مؤقف کو چشم زدن میں ترک کر دیں۔
جمہوری جدوجہد کا پانچواں ہدف کشمیر کے معاملے میں قوم کے جذبات اور عزائم اور پاکستان کے حقیقی مفادات کی روشنی میں ایک ایسے محکم اور مبنی برحق موقف کا اعادہ ہے جو جموں و کشمیر کے عوام کے عزائم اور اہداف سے مطابقت رکھتی ہو‘ جو ان کی تاریخی جدوجہد کی قربانیوں کی لاج رکھنے والی ہو اور جو پاکستان اور جموں و کشمیر کے عوام کے بہترین مفاد میں ہو۔ پاکستانی قوم بھارت سے دوستی ضرور چاہتی ہے لیکن غیرت اور ملکی اور ملّی مفادات پر کوئی سمجھوتہ کیے بغیر۔
m غربت اور مھنگائی: عوامی احتجاج کا ایک اور ہدف وہ معاشی مشکلات ہیں جو اس حکومت کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور جن کی وجہ سے عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخیرے میں اضافہ بجا‘ لیکن جس زرمبادلہ کا کوئی فائدہ عوام کو اور خصوصیت سے مجبور اور پسے ہوئے طبقات کو نہیں اس کا کیا حاصل؟ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے اور آج ۵ کروڑ سے زیادہ افراد دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں۔ اگر ۱۹۹۰ء میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی آبادی کُل آبادی کا ۲۰-۲۲ فی صد تھی تو ۲۰۰۴ء میں ان کی تعداد ۳۲-۳۴ فی صد ہوگئی ہے۔ اگر ۱۹۹۹ء میں بے روزگاری کا تناسب صرف ۵ فی صد تھا تو ۲۰۰۴ء میں وہ بڑھ کر ۸ فی صد سے بڑھ گیا ہے۔ تیل اور گیس کی قیمتوں میں ان پانچ سالوں میں ۸۰ فی صد اضافہ ہوا ہے۔ پٹرول ۱۹۹۹ء میں ۲۶ روپے لٹر تھا جو آج ۴۶ روپے لٹر ہے۔ آٹا ۹روپے کلو تھا‘ اب ۱۹ روپے کلو ہے۔ چینی ۱۳ روپے کلو تھی ‘ اب ۲۰ روپے کلو ہے۔ عوام چیخ رہے ہیں‘ اور جنرل پرویز مشرف اور ان کے ارب پتی معاشی مینیجر مبادلہ خارجہ کے ذخائر کے اضافے پر شادیانے بجا رہے ہیں اور کل تک جس اسٹاک ایکسچینج کی ہوش ربا ترقی پر نازاں تھے‘ اب مہینے بھر میں ہی اس میں ۴۰ فی صد کمی پر بغلیں جھانک رہے ہیں۔ جنرل مشرف اور ان کی حکومت بے شک ’ابن مریم‘ ہونے کا دعویٰ کریں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ عوام کے دکھوں کا مداوا کون کرے‘ ان کے زخموں پر مرہم کا پھاہا کون رکھے؟
عوامی جدوجہد کا ایک اہم ہدف اس معاشی استحصال اور ظلم کا خاتمہ اور ملک کی معاشی ترقی کا وہ آہنگ اختیار کرنا ہے جس کے نتیجے میں ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں‘ بے روزگاری ختم ہوسکے‘ مہنگائی کا عفریت قابو میں لایا جاسکے‘ دولت کی غیر مساویانہ تقسیم کو حدود کا پابند کیا جا سکے۔ اشیاے ضرورت عام آدمی کی دسترس میں ہوں‘ معاشی ترقی کے مواقع سب کو حاصل ہوں۔
عوامی جمہوری تحریک کا ایک ہدف حقیقی وفاقی نظام کا قیام اور مرکز اور صوبوں میں اختیارات کی ایسی تقسیم اور اس کا نفاذ ہے جو صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کا باعث ہو اور صوبوں کی مضبوطی اور ترقی کے ذریعے پاکستان مضبوط اور مستحکم ہو سکے۔
جو سیاسی تحریک متحدہ مجلس عمل کی قیادت میں مارچ ۲۰۰۵ء میں شروع ہوئی ہے اور جس کو ۲اپریل ۲۰۰۵ء کو ہڑتال نے مہمیز دی ہے وہ انھی اہداف کے حصول کے لیے ہے اور ان کے مکمل حصول تک ان شاء اللہ جاری رہے گی۔
یہ اہداف عوام کے اصل جذبات اور عزائم کے آئینہ دار ہیں۔ مجلس عمل نے ان کو زبان دی ہے اور انھیں حاصل کرنے کے لیے جمہوری اور عوامی تحریک شروع کی ہے۔ تاہم یہ بھی ایک چشم کشا حقیقت ہے کہ جس طرح چاروں ملین مارچ اور ۲ اپریل کی ہڑتال میں یہ اہداف اور مقاصد ہرکسی کی زبان پر رہے ہیں‘ ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ جنرل مشرف کی ذاتی ویب سائٹ پر بھی سوالات کی شکل میں انھی کی بارش ہو رہی ہے اور جنرل صاحب جو الٹے سیدھے جوابات دے رہے ہیں‘ وہ ان کی بوکھلاہٹ کے غماز ہیں۔ دی نیوز انٹرنیشنل لندن میں ۸ اپریل ۲۰۰۵ء کو شائع ہونے والے ایک جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ویب سائٹ پر سب سے زیادہ سوالات اور اعتراضات مہنگائی کے مسئلے پر آئے ہیں اور دوسرے نمبر پر آنے والے سوالات کا تعلق جنرل صاحب کی نام نہاد ’’روشن خیال اعتدال پسندی‘‘ پر لوگوں کے احساسات اور اضطرابات ہیں۔ تجزیہ نگار لکھتا ہے کہ: جہاں تک روشن خیال اعتدال پسندی کا تعلق ہے‘ بظاہر عوام زیادہ آزاد روی سے خوش نہیں ہیں جو الیکٹرانک میڈیا کے بعض چینلوں میں ظاہر ہو رہی ہے۔
جنرل صاحب نے اس کے جواب میں کہا ہے کہ وہ خود بھی حد سے زیادہ مغرب زدگی (over westernization) کے حق میں نہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ مسئلہ محض الیکٹرانک میڈیا کا نہیں‘ ان کی ملک گیر پالیسی کا ہے اور پھر اصل مسئلہ حد سے زیادہ مغرب زدگی کا نہیں بلکہ جدیدیت (modernization) کے نام پر مغرب زدگی ہے جو اُمت مسلمہ کے عقیدے‘ تہذیب‘ تاریخ اور روایات کے خلاف ہے اور جسے ایک مفاد پرست طبقہ بیرونی میڈیا‘ این جی اوز اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت جنرل صاحب کی سرپرستی میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
تیسرے نمبرپر آنے والے سوالات کا تعلق پاکستان کی آزادی اور حاکمیت سے ہے اور عوام نے امریکا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کی کاسہ لیسی کو ہدفِ تنقید بنایا ہے۔ چوتھے نمبر پر پاکستان کے نیوکلیر اثاثوں کی حفاظت اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں سے کیے جانے والے سلوک کے بارے میں عوام کا اضطراب ہے۔ جائزے میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ عوام کے ایک حصے کا خیال ہے کہ: Pakistan is selling its sovereignity cheaply (پاکستان اپنی خودمختاری اور حاکمیت کو کوڑیوں کے دام فروخت کر رہا ہے)۔
جنرل صاحب اس پر بہت برافروختہ ہیں اور جس نوعیت کے جوابات دے رہے ہیں اس میں دلیل سے زیادہ غصہ‘ اور حقائق کی بنیاد پر بات کرنے کے بجاے اپنی ذات پر اعتماد اور بھروسے کا سہارا زیادہ ہے۔ اس ویب سائٹ سے جنرل صاحب یا پالیسی سازی کے ذمہ دار کوئی فائدہ اٹھاتے ہیں یا نہیں‘ لیکن اس سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جو بات ایم ایم اے کے ملین مارچوں میں کہی جا رہی ہے اور جس کا اظہار ۲ اپریل کی عوامی ہڑتال میں ہوا ہے‘ وہی اصل عوامی جذبات‘ احساسات اور مسائل کا آئینہ ہے۔ جنرل صاحب کی ویب سائٹ پر بھی اسی کا پرتو دیکھا جاسکتا ہے۔ اسے دی نیوز کے جائزے میں Let this be a wakeup call for all(اس سے سب لوگوں کی آنکھیں کھل جانا چاہییں)کہا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وی وی آئی پی کلچر سے نکلنے کی ضرورت ہے۔ نقارۂ نقارہ
انھی دنوں راے عامہ کا ایک فیصلہ کن اظہار ۹ اپریل ۲۰۰۵ء کو جناح کنونشن سنٹر میں منعقد ہونے والے قومی طلبہ کنونشن میں جنرل مشرف کی موجودگی میں ہوا۔ اس کنونشن کے مقررین اور حاضرین سب چھلنیوں سے گزر کر پہنچے تھے لیکن اس کے باوجود جب کچھ دبنگ طلبہ مقررین نے وردی پر وعدہ خلافی‘ وانا میں ترقیاتی کاموں کے نام پر فوج کے استعمال‘ بلوچستان والوں کو وہاں سے ہِٹ (hit)ہونے کی دھمکی جہاں سے وہ سوچ بھی نہیں سکتے‘ فوج کے اقتدار سنبھالنے‘ اور بسنت منانے جیسے پروگراموں پر عوام کا نقطۂ نظر پیش کیا تو بھرا ہوا ہال تالیوں سے گونج گونج اٹھا۔ جنرل مشرف نے جواب میں اپنی گھسی پٹی باتیں دہرائیں لیکن وہ بھی جانتے تھے کہ وہ اپنے سوا کسی کو قائل نہیں کررہے۔ اگر اس پر بھی وہ نوشتۂ دیوار نہ پڑھیں تو ان کی بالغ نظری کو کیا کہا جائے۔
متحدہ مجلس عمل نے ایک بڑی قومی خدمت بروقت انجام دی ہے کہ اس نے عظیم عوامی تحریک کے ذریعے قوم کے اصل مسائل اور اس کے حقیقی عزائم اور اہداف پر سب کی توجہ کو مرکوز کیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ بہت سی احزاب اختلاف ساحل سے نظارۂ طوفان کر رہی ہیں اور اپنی اپنی مخصوص ترجیحات میں گرفتار ہیں۔ ملک کی ضرورت آج یہ ہے کہ سب محب وطن اور جمہوری قوتیں مل کر ملک کو بحران سے نکالنے کی اجتماعی جدوجہد کریں اور امریکا کے اس کھیل کا پردہ بھی چاک کردیں کہ جنرل صاحب کسی روشن خیال اعتدال پسندی کے داعی ہیں اور دوسری نام نہاد لبرل قوتوں کو ان کا حلیف ہونا چاہیے۔ آج مسئلہ نام نہاد روشن خیالی اور اعتدال پسندی نہیں‘ یہ تو جنرل صاحب کی انتہاپسندی اور شخصی حکومت کو دوام بخشنے کے لیے محض ایک حربہ اور دھوکا ہے۔ پاکستان کی بنیاد اور پاکستان کے دستور کے ستون اسلام‘ پارلیمانی جمہوریت اور اصول وفاق ہیں۔ یہی تین ستون عوامی جمہوری جدوجہد کی بنیاد ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب کا حاصل پاکستان کی آزادی اور حاکمیت کے تحفظ کے ساتھ‘ اس کی اسلامی تہذیبی شناخت کی ترقی اور استحکام اور سب کے لیے عدل و انصاف کا قیام ہے۔ یہی آج عوام کے دل کی آواز ہے اور پاکستان کی ترقی اور استحکام کا اصل نسخہ ہے۔