’دریا کو کوزے میں بند‘ کرنے کی مثال غالباً اس کتاب پر صادق آتی ہے جس میں صرف ۱۸۴ صفحات میں ۲۰۰ سے زیادہ عنوانات کے تحت اللہ تعالیٰ‘ انسان اور اللہ تعالیٰ اور انسان کے تعلق کے موضوع پر تین ابواب میں عام فہم لیکن تحقیقی انداز سے تمام متعلقہ مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور انسان کی تخلیق کا ذکر کرتے ہوئے ڈارون کے نظریۂ ارتقا پر صرف ۶صفحات میں مکمل ردّ پیش کر دیا گیا ہے۔
پہلے باب میں وجودِ باری تعالیٰ ‘ مختلف مذاہب کا تصورِ الٰہ اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں گمراہ کن نظریات کی تردید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وحدت الوجود‘ وحدت الشہود اور حلول کے نظریات کا بیان اور ردّ آگیا ہے۔ دوسرے باب میں انسان کی تخلیق‘ مراحلِ تخلیق‘ مقصدِ تخلیق اور نظریۂ ارتقا پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں خالق اور مخلوق‘ عابد اور معبود اور محتاج اور غنی کا تعلق بیان ہوا ہے۔ اس ضمن میں زبانی عبادتوں کے حوالے سے انبیا علیہم السلام کی دعائیں‘ دل سے عبادت کے حوالے سے ایمان‘ محبت اور رجا‘ جسمانی عبادت کے حوالے سے نماز‘ حج اور مالی عبادات کے حوالے سے زکوٰۃ‘ صدقہ‘ نذر اور قربانی کا ذکر ہے۔ آخری حصے میں یہ بحث ہے کہ تکلیف اور پریشانی میں انسان کو کیا کرنا چاہیے؟ اس ضمن میں عام طور پر جو شرک کی صورتیں اختیار کی جاتی ہیں‘ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درست وسیلے بتائے گئے ہیں‘ مثلاً: صدقہ خیرات‘ اعمالِ صالحہ‘ صبر و نماز اور خدمتِ خلق وغیرہ۔ (مسلم سجاد)
زیرِنظر کتاب جلیل احسن ندوی مرحوم کی مرتب کردہ احادیثِ نبویؐ کی کتاب زادِ راہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ ہے۔ مترجم کی نظر میں: احادیثِ مبارکہ کے اس مجموعے کے ذریعے‘ اسلام کو جدید دنیا اور بالخصوص امریکی معاشرے میں‘ واحد طرزِ زندگی کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے‘ اور قارئین کو باور کرایا جا سکتا ہے کہ صرف اسلام ہی پریشان اور مصیبت زدہ انسانیت کو عدل و انصاف اور امن و امان مہیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور وہی آخرت میں نجات کی ضمانت دلاتا ہے۔
مترجم نے کتاب کے دیباچے میں اسلامی تحریکوں کی کامیابی اور ناکامی پر بحث کی ہے۔ (بظاہر ‘ یہاں اس بحث کا محل نہیں ہے) ان کا خیال ہے کہ اسلامی تحریکوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلوبِ دعوت اور طریق کار کو اپنانے میں کوتاہی کی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اسوۂ حسنہ کی روشنی میں موجودہ اسلامی تحریکات کو بھی جاہلی معاشروں سے اسی سانچے میں ڈھلے ہوئے افراد نکالنے ہوں گے۔ اور یہ کام ان کی ترجیحات میں سرِفہرست ہونا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی مقصد کے پیشِ نظر میں نے زادِ راہ کو منتخب کیا۔یہی جذبہ اسے انگریزی میں منتقل کرنے کا محرّک بنا ہے۔ انھیں امید ہے کہ معاشی‘ معاشرتی اور سیاسی بلکہ زندگی کے جملہ معاملات پر مشتمل‘ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کا یہ مجموعہ‘ امریکا میں کارکنانِ تحریک کی کردار سازی‘ ان کے اہل و عیال کی زندگیوں میں اسلامی اصولوں کو پروان چڑھانے اورانھیں ذمہ دار شہری بنانے میں مددگار ہوگا۔ نیز یہ مجموعہ دعوتی کام میں گرم جوشی پیدا کرے گا۔
مؤلف نے زادِ راہ کے اردو ترجمے اور تفسیر میں ترجمانی کا اسلوب اپنایا ہے۔ مترجم نے اسے محنت کے ساتھ انگریزی زبان میںمنتقل کرنے کی کوشش کی ہے‘ اگرچہ ترجمے کی زبان پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
ترجمے میں عربی زبان کی متعدد اصطلاحات کو برقرار رکھاگیا ہے۔ ہمارے خیال میں ان اصطلاحات کے انگریزی مترادفات بھی دینا ضروری تھا۔ یا ان کی وضاحت دیباچے میں ہوجانی چاہیے تھی۔ (S) اور (R) جیسے تخفیفی حروف کی وضاحت کی بھی ضرورت تھی۔ (خدا بخش کلیار)
سلطان نورالدین محمود زنگی (۵۱۱ھ-۵۶۹ھ) بارھویں صدی عیسوی میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا پیش رو تھا۔ وہ ایک درویش منش‘ خدا ترس اور متقی شخص تھا۔ اس نے اپنے دور میں مسلم سلطنت پر صلیبیوں کی یلغار کا کامیاب دفاع کیا۔ عیسائی مؤرخین نے بھی اس کی صدق شعاری‘ عدل وا نصاف اور شجاعت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس نے بیت المال کو کبھی خوانِ یغما نہیں سمجھا بلکہ وہ بادشاہ ہوتے ہوئے بھی مالِ غنیمت میں سے اتنا ہی حصہ وصول کرتا جس قدر عام سپاہیوں کو ملتا۔ ایک دفعہ اس کی چہیتی ملکہ نے تنگیِ خرچ کی شکایت کی۔ نورالدین نے جواب دیا: ’’بانو! افسوس ہے تمھاری خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ خدا کا خوف بیت المال کی طرف میرا ہاتھ بڑھنے نہیں دیتا‘ یہ مسلمانوں کا مال ہے۔ میں صرف اس کا امین ہوں اور اس میں سے ایک درہم کا بھی مستحق نہیں‘‘۔ (ص ۱۷-۱۸)
سلطان نورالدین وہی خوش بخت ہے جسے خواب میں ۳ بار رسولِ کریمؐ کی زیارت ہوئی اور آپؐ نے ہر مرتبہ دو آدمیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے شر کا اِستیصال کرو۔ وہ فی الفور مدینہ منورہ پہنچا اور اس نے زہد و تقویٰ کا لباس اوڑھے دو نصرانیوں کو پکڑ لیا جو ایک سُرنگ کھود کر نبی کریمؐ کا جسدِ مبارک وہاں سے نکال لے جانے پرمامور تھے۔ سلطان نے انھیں کیفرِکردار تک پہنچایا۔ پھر روضۂ نبویؐ کے گرد گہری خندق کھدوا کر اُسے پگھلے ہوئے سیسے سے پاٹ دیا۔
جناب طالب الہاشمی نے صلیبیوں کے خلاف سلطان کے جنگی محاربوں کی تفصیل بھی دی ہے‘ جس سے سلطان کی جنگی مہارت‘ دُور اندیشی اور بصیرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ وہ ایک مثالی حکمران تھا۔ اس نے صرف جنگیں ہی نہیں لڑیں‘ مملکت کے نظم و نسق کو بھی بہتر بنیادوں پر استوار کیا۔
کتاب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ مصنف نے سلطان نورالدین کے عہد کا تفصیلی پس منظر بھی (۱۰۰صفحات میں) پیش کردیا ہے۔ اس چوکھٹے میں سلطان کی تصویر زیادہ واضح اور نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے۔ دوسری خوبی یہ ہے کہ سوانح نگار نے جگہ جگہ نہایت مفید اور معلومات افزا حواشی دیے ہیں۔ بلاشبہہ فاضل مصنف موضوع پر ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ واقعات کی پیش کش‘ اسی طرح آیاتِ قرآنی کی صحت‘ عربی اشعار و عبارات کے تراجم‘ مختلف شخصیات و مقامات اور مشکل الفاظ کی صحت اور اِعراب کے ساتھ ان کے صحیح تلفظ کا اہتمام لائقِ تحسین ہے‘ بلکہ دیگر مصنفین اور اشاعتی اداروں کے لیے بھی دلیلِ راہ اور سبق آموز ہے۔ ایسی ہی محنت و کاوش‘ تحقیق و تدقیق اور اہتمام سے ہمارے علمی سرمائے کا معیار بلند ہو سکتا ہے۔ نئی نسل کو خاص طور پر ایسی کتابیں پڑھانے کی ضرورت ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
اقامتِ دین کے لیے جدوجہد میں مولانا مودودی کو کئی قسم کے ناقدین کا سامنا کرنا پڑا۔ ان میں اپنے بھی تھے اور پرائے بھی‘ بالکل مخالف بھی تھے اور گئے وقتوں کے دوست بھی۔ اختلاف اور پھر اس میں ہنگامِ جنگ کا سماں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جب جنگ کا طبل بجا دیا جائے تو پھر حملہ آوروں کے ہاں سب کچھ مباح سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ ’سب کچھ‘ انصاف کے بھی منافی ہوتا ہے‘ اور اخلاقیات سے بھی کوسوں دُور۔
مولانا مودودی نے اپنے ناقدین کی قلمی نیش زنی کے جواب میں وقت صرف کرنے کے بجاے‘ اپنے اوقاتِ کار کو تعمیری سمت میں لگانے کو ترجیح دی۔ لیکن ایسی صورت میں متعدد احباب نے مولانا مودودی کے ناقدین کی تنقیدات کا جواب دیا۔ ایسے قابلِ قدر فاضلین میں‘ مولانا شبیراحمد عثمانی کے بھتیجے مولانا عامر عثمانی[م: ۱۹۷۴ئ] کا نام سرفہرست ہے۔
زیرِنظر کتاب بنیادی طور پر: مولانا عبدالماجد دریابادی‘ مولانا امین احسن اصلاحی اور کوثر نیازی کی بعض تنقیدوں کا جواب ہے‘ جو انھوں نے ۱۹۶۴ء کے (فاطمہ جناح بمقابلہ ایوب خاں) صدارتی انتخاب کے زمانے میں مولانا مودودی پر کی تھیں۔ ان مضامین میں عامر عثمانی مرحوم کا اسلوب‘ دلیل سے مرصّع ہے۔ کرم فرمائوں کی طنزیات کا جواب انھوں نے خوب خوب دیا ہے۔ یہ قندِمکرّر‘ نہ صرف گئے دنوں کی کش مکش سے روشناس کراتی ہے‘ بلکہ حالات کی نزاکت اور ماحول کے جبر کی بہت سی پرچھائیاں بھی پیش کرتی ہے۔
ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ: ’’کیا ضرورت تھی انھیںشائع کرنے کی‘‘ ؟لیکن ایسے ناصح کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ مذکورہ حضراتِ گرامی نے اپنی زندگی میں‘ اور انتقال کے بعد ان کے فکری پس ماندگان نے‘ مولانا مودودی پر اس نوعیت کی تنقیدات کو شائع کرنے کا پے بَہ پے اہتمام کیا ہے۔ جب مولانا مودودی پر سنگ زنی کے یہ مظاہر پڑھنے والوں کو بآسانی دستیاب ہیں تو پھر مولانا مودودی کی پوزیشن واضح کرنے والی کسی تحریر کی اشاعت کا جواز آخر کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ استغاثہ دائر کرنے کو حق و صواب اور تاریخ کا ریکارڈ کہنا‘ جب کہ وضاحت میں پیش کی جانے والی معروضات کو ’’کیا ضرورت تھی انھیں شائع کرنے کی‘‘ کہنا عدل نہیں‘ بے انصافی ہے۔ (سلیم منصور خالد)
انسانوں کی کثیر تعداد ہر روز ‘ دنیاے فانی سے منہ توڑ کر قبر کی تاریک آغوش میں جا سماتی ہے۔ لیکن کچھ خوش نصیب اپنے پیچھے روشنی کی ایسی کرنیں چھوڑ جاتے ہیں‘ جن سے خلقِ خدا تادیر فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔ ڈاکٹر عذرا بتول ایسی ہی حیاتِ جاوداں پانے والی خاتون تھیں۔
پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ‘ تحریک اسلامی کی حد درجہ مخلص کارکن‘ خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار‘ دنیا میں باعمل اور متحرک مگر نظر‘ آخرت پر۔ ۶ستمبر ۲۰۰۳ء کو اوکاڑہ سے لاہور کے لیے روانہ ہوئیں اور بھائی پھیرو کے مقام پر ان کی کار اینٹوں کے ٹرالے سے ٹکرا گئی اور وہ موقع ہی پر جامِ شہادت نوش کر گئیں۔
صحیح معنوں میں ڈاکٹر عذرا بتول کا تعارف ان کی شہادت کے بعد ہی ہوا۔ اپنی ذات کی نفی کر کے دوسروں کو سکھ بہم پہنچانے کا رویّہ نفسانفسی کے اس دور میں بہت کم ملتا ہے۔ عذرا بتول نے شادی کے بعد اپنی ذاتی کمائی اپنے سسرال کا مکان بنانے‘ انھیں حج کروانے اور ان کی ہمہ پہلو اعانت میں لگا دی۔ ان کے چھے بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں‘ بحیثیت ماں ان کی اولین خواہش یہی تھی کہ میرے بچے دنیا کے بجاے دین کا علم حاصل کریں۔ کہا کرتی تھیں کہ بے شک میرے بچے موچی بنیں یا نائی یا ریڑھی لگائیں لیکن حلال کی روزی کمائیں اور باعمل انسان بنیں۔
ڈاکٹر عذرا کی زندگی ایک ایسے باعمل انسان اورمسلمان کی زندگی تھی‘ جس کا ایک ایک لمحہ ایمان افروز واقعات سے بھرپور ہوتا ہے‘انھیں دنیاوی آزمایشیں‘ مصائب اور مشکلات پیش آئیں‘ تو ان کے پاس ایک ہی حل تھا: وہ کہتیں: ’’جو اللہ کی مرضی‘‘--- مرحومہ کی پوری زندگی ہمارے لیے ایک مثال ہے اور سبق آموز بھی۔
عباس اختر اعوان صاحب نے مرحومہ کے بارے میں مختلف اصحاب و خواتین کی تحریروں کو یکجا کر کے‘ حیاتِ جاوداں کی ایک عمدہ تصویر بنائی ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے خواتین کارکنوں کو ایک نیا حوصلہ اورتازگی ملتی ہے۔(قدسیہ بتول)
اساتذہ‘ طلبہ اور والدین معاشرے کی تعمیر میں بنیادی کردار انجام دیتے ہیں۔ یہ تینوں شعبے اگر ایک ساتھ آگے بڑھیں تو قوم اپنے مقاصد کے حصول میں کسی رکاوٹ کی پروا نہیں کرتی اور دنیا کو بڑی آسانی سے اپنے روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
مصنف نے اپنے ۲۳ پُرمغز مقالات میں تعلیم اور اس کے متعلقات پر تفصیلی بحث کی ہے۔ موضوعات مستقل نوعیت کے ہیں اور ان میں غوروفکر اور جدید دور کے تقاضوں کی بھی عکاسی کی گئی ہے۔ استاد‘ بچے کی شخصیت کی تعمیر‘ والدین کا احساسِ ذمہ داری‘ تعلیمی عمل کے معاونات‘ کوالٹی ایجوکیشن کی حقیقت‘ ہم نصابی اور غیرنصابی سرگرمیوں جیسے اہم موضوعات پر سیرحاصل تبصرے کے علاوہ ٹیوشن‘ سزا کا مسئلہ اور نائن الیون کے اثرات وغیرہ جیسے چبھتے مسائل پر بھی مصنف نے بوضاحت و دلائل بحث کی ہے۔ آج کی تعلیمی دنیا جس شدت کے ساتھ اصلاح کا تقاضا کرتی ہے‘ اس کی طرف مصنف نے بڑی دل سوزی سے ہماری توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی ہے۔
آج کی ہرلحظہ پھیلتی تعلیمی دنیا میں کام کرنے والے ہر شخص کو (خواہ وہ کوئی ادارہ قائم کرنے والا ہو یا اس کا انتظام چلانے والا) یہ کتاب دعوتِ فکر دیتی ہے اور اس کی بھرپور رہنمائی بھی کرتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ یہ احساس بھی پیدا کرتا ہے کہ ہمیں نونہالانِ وطن کو جدید اور تیزی سے ترقی کرتی دنیا کے تقاضوں سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہے۔ (پروفیسر سعید اکرم)
جریدہ کی غیرمعمولی متنوع علمی کارگزاری کا اظہار زیرنظر تین ضخیم کتابوں سے ہوتا ہے۔ ان میں نئی نادر غیرمطبوعہ کتابوں کے ساتھ کئی تازہ طبع زاد تحریریں بھی پڑھنے کو ملتی ہیں۔
جلد اول میں جدیدیت اور اسلام کی کش مکش کا حال پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے: ’’میں نے یہ جانا کہ گویا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے‘‘۔ خالد جامعی اور عمرحمید ہاشمی کی کتاب: عالم اسلام--- جدیدیت اور روایت کی کش مکش کے بعد‘ اُردو حصے میں ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری نے مغربی فکروفلسفے کا محاکمہ کیا ہے۔’’تاریخ ہندستانی‘ ایک معروضی مطالعہ‘‘ (ڈاکٹر معین الدین عقیل) میں فرانسیسی مستشرق گارسین دتاسی کے کام کا جائزہ لیا گیا ہے۔عزیز حامد مدنی مرحوم کی ۱۶ غیرمطبوعہ خوب صورت غزلیں اور مائیکل ین کی تحریر ’’جمہوریت اور نسل کشی میں تعلق: ایک تحقیقی جائزہ‘‘ (اُردو ترجمہ اکرم شریف) اور پھر مولانا حسن مثنیٰ ندوی کے قلم سے پاکستان کی حصول آزادی کی ولولہ انگیز داستان پُرلطف انداز میں دو حصوں میں بیان کی گئی ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی انگریزی کتاب Education in Pakistan کے ترجمے (از اکرم شریف) بہ عنوان: ’’پاکستان میں تعلیم‘‘کے بعد اقبال حامد نے ’’بلندوپست‘‘ میں روزنامہ جنگ کے مختلف ادوار کا جائزہ لیا ہے۔ علی محمد رضوی نے اپنے انگریزی مضمون میں ثابت کیا ہے کہ امام غزالیؒ نے یونانی فلسفے کے غلبے کے تاثر کو ختم کر کے‘ اسلامی تہذیب و فلسفے کے تناظر میں جو کام کیا‘ وہ اسلام کی احیاے نو کا کام تھا اور تاریخ‘ امام غزالی کے اس کام کو فراموش نہیں کرسکتی۔
جلد دوم کے مشمولات: بروشسکی زبان: بعض اہم مباحث۔ ہندستانی تناظر: ’تہذیب اسلامی مطالعات‘۔ ’ہندستان میں مسلم تمدن‘ (ڈاکٹر ریاض الاسلام)۔ ’بیدل عظیم آبادی پر اڑھائی سو صفحات کا سیکشن‘ نام ور اصحاب کے مقالات‘ بیدل کے کلام اور شخصیت کی ایک عمدہ تصویر۔ کلاسیکی مغربی ادب پر عزیزاحمد کے نو مقالات (مرتب: ابوسعادت جلیلی)
جلد سوم میں ڈاکٹر سہیل بخاری مرحوم کی اشتقاقی لغت شامل ہے اور اس پر مشفق خواجہ (م: فروری ۲۰۰۵ئ) کی راے بھی شامل ہے۔ مرتبین کہتے ہیں کہ اگر شعبے کو مشفق خواجہ کے ذخائر تک رسائی ہوگئی تو وہ آیندہ بہت کچھ پیش کریں گے۔
لسانی‘ تہذیبی‘ نظری اور فلسفیانہ پہلوئوں سے متنوع موضوعات پر یہ اہم عالمانہ تحریریں ہیں۔ ان جلدوں کا مطالعہ ہر اس فرد کو کرنا چاہیے جو اس دور میں تہذیبی اور ثقافتی محاذوں پر جاری جنگ کو دیکھنا اور سمجھنا اوراسلام کی علمی سربلندی چاہتا ہے۔تینوں اشاعتوں کی پیش کش خوب صورت ہے‘ سفید کاغذ پر اچھی طباعت قابلِ تحسین بات ہے۔ (مرزا محمد الیاس)