امام غزالیؒ کا دور فلسفہ و تعقل پرستی کا دور تھا۔ یونانی فلسفیوں کی کتابیں خصوصاً ارسطو کی تصنیفات‘ جو عربی میں منتقل ہوچکی تھیں‘ مسلمانوں کی فکروذہن کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے دین و شریعت اور اصول و عقائد‘ کوئی چیز محفوظ نہ رہی تھی۔ دینی اصطلاحات کو نئے نئے معانی پہنائے جا رہے تھے۔ آیاتِ قرآنی کی نئی نئی تعبیریں کی جا رہی تھیں‘ جو بات عقل اور فلسفے پر پوری اترتی صرف وہی قابلِ قبول ہوتی اور باقی ہر شے لائق استرداد قرار دی جاتی۔ دوسری طرف باطنیت کا فتنہ عروج پر تھاجس نے فلسفے کی آوارہ خیالی‘ لذتیت پرستی اور رفض و تشیع کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ باطنیت محض ایک فکری رویہ نہ تھااور وہ مسلمانوں کے فکر اور عقیدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک نیا علم کلام اور دین و شریعت کی نئی تعبیرات ہی پیش نہیں کر رہا تھا‘ بلکہ وہ ایک سیاسی رویہ بھی تھا۔ باطنی عالم اسلام کی سیاسی زندگی کو تلپٹ کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے اور ان کے خنجر سے عالم اسلام کا کوئی توانا اور متحرک دینی و سیاسی رہنما اور عالم و صالح شخص محفوظ نہ تھا۔ فلسفہ اور باطنیت کی ان دو بلائوں کے درمیان مسلمان ذہنی انتشار میں مبتلا حیران و پریشان کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے دانش ور طبقے کے ایک بڑے عنصر کا رجحان فلسفے کی طرف تھا۔ باطنیت سے دانش وروں سے زیادہ خوش عقیدہ عوام الناس اور عام پڑھا لکھا عنصر مرعوب و متاثر تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ دین کی گرفت ذہنوں اور اعمال پر ڈھیلی پڑ گئی۔ دینی افکار و عقائد کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ دین کو زمانے کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کی تراش خراش شروع ہوگئی۔ اسلام کے خلاف ایک بغاوت عام برپا تھی جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہ تھا اور وہ جن پر دفاع دین کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی یا تو خود اس سیلاب بلاخیز میں بہہ رہے تھے اور زمانہ با تونسازد تو بازمانہ بساز کا درس دے رہے تھے‘ یا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں مسجدوں کے حجروں اور مدرسوں کی چار دیواریوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ اس فساد کے آگے کھڑا ہونے اور اپنے دین کا دفاع کرنے کی توفیق اللہ نے اپنے جس بندے کو دی وہ امام غزالیؒ تھے…
انھوں نے یونانی فلسفے کے تناقضات پر اسی کے نقطۂ نظر سے تنقید کی‘ اس کی کمزوریوں کو آشکارا کیا‘ اور استدلال کی قوت سے ان کے افکار و تخیلات کی بے مایگی ثابت کی۔ اس طرح فلسفۂ یونان کے اس رعب و طلسم کو توڑا جس کا مسلمانوں کا دانش ور طبقہ بری طرح اسیر ہوچکا تھا۔ اب تک فلسفہ اور اس کے نظریات پر دفاعی انداز میں تنقید کی جاتی رہی تھی۔ امام پہلے فرد ہیں جنھوں نے مدافعانہ لہجے کے بجاے جارحانہ انداز اختیار کیا۔ اسی طرح علما کے اندر اس کے مقابلے میں جو احساس کمتری اور نفسیاتی عدمِ استحکام پیدا ہوگیا تھا‘اسے نہ صرف دُور کیا بلکہ ان کے اندر اپنے عقائد و افکار پر اعتماد و یقین پیدا کیا۔ عقلیت پرستی کے تار و پود بکھیرے اور اسلام کے اصول و عقائد کو عقلیت پرستی کے نام پر جس طرح توڑا اور مسخ کیا جا رہا تھا‘ جس کے نتیجے میں بے اعتقادی جنم لے رہی تھی‘ اس کا گہرا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو عقلی استدلال کے ذریعے بتایا کہ تمھارے دینی عقائد کا اثبات نام نہاد معقولات کو اپنانے پر منحصر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی باطنیت کی فکری و سیاسی بنیادوں پر ضرب کاری لگائی جس نے بظاہر ایک نیا فلسفہ اور علمِ کلام اور نئی اصطلاحات وضع کر لی تھیں لیکن درحقیقت جس کی شاخیں یونانی و عجمی فلسفے کی جڑوں ہی سے پھوٹی تھیں۔
مسلمان معاشرے کے ایک ایک طبقے پر کڑی تنقید کی اور ان اسباب و عوامل کی نشان دہی کی جو مسلمانوں کے دینی و اخلاقی انحطاط و زوال کے پیچھے کام کر رہے تھے۔ امام کے نزدیک مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں اور مقاصد کے سب سے بڑے ذمہ دار علما اور حکمران تھے۔ انھوں نے ان دونوں طبقات پر کڑی نکتہ چینی کی‘ خصوصاً علما کی کمزوریوں اور ذمہ داریوں پر سیرحاصل تنقید و تبصرہ کیا۔ مزیدبرآں دولت مندوں اور عوام الناس کے کردار و اعمال کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس طرح پورے نظام اجتماعی کے مقاصد‘ اس کی کمزوریوں اور امراض کی نشان دہی کی اور اس میں نہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کی اور نہ کسی مصلحت اور خوف کو خاطر میں لائے…
امام غزالیؒ دوسرے تمام ائمہ و صلحا کی طرح زاہد و متورع تھے۔ بڑے بے باک اور حق گو۔ ان کا زمانہ مطلق العنان بادشاہوں کا زمانہ تھا جنھوں نے اپنے آپ کو قوانین سے بالاتر قرار دے لیا تھا۔ ان پر اعتراض کرنا‘ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف تھا‘ لیکن امام نے پوری جرأت کے ساتھ بادشاہوں‘ان کے حکام اور نظامِ حکومت پر کھلے عام تنقید کی۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور کوتاہی پر گرفت کی۔ یہ سلاطین و حکام لوگوں کے ضمیر بھاری عطیات اور مناصب دے کر خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت میں بڑے بڑے علما اور مشائخ حصہ لیتے اور اس میں ذرہ برابر کراہت محسوس نہ کرتے۔ امام غزالیؒ نے اس پر سخت تنقید کی اور سلاطین و حکام کے اموال کو ناجائز اور حرام قرار دیا‘چنانچہ احیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں: ’’بادشاہوں کے مال آج کے زمانے میں بالعموم حرمت سے خالی نہیں ہیں۔ حلال مال ان کے پاس یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے‘‘۔
آج سلاطین انھی لوگوں کے ساتھ یہ فیاضی کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں اُمید ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے سکیں گے‘ ان کے لیے سہارا بنیں گے اور ان سے اپنی اغراض پوری کر سکیں گے۔ ان سے ان کے درباروں اور مجلسوں کی رونق بڑھے گی اور وہ ہمیشہ دعاگو‘ ثناخوانی اور حاضر و غائب ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہیں گے___ اگر کوئی شخض اس کے لیے تیار نہیں ہوتا تو خواہ وہ امام شافعیؒ کے مرتبے کا ہو‘ یہ سلاطین ایک پیسہ بھی اس پر خرچ کرنا گوارا نہیں کریں گے۔ اس لیے بادشاہوں سے ایسے مال کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جس کے متعلق یہ علم ہو کہ وہ حلال ہے‘ اس لیے کہ اس کے وہ نتائج ہوں گے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس مال کا کیا مذکور جس کے متعلق حرام یا مشتبہ ہونا صاف ظاہر ہے…
امام صاحب کو ان باتوں (یعنی بگڑے ہوئے حکمرانوں پر تنقید وغیرہ) پر تسلی نہ تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ سلطنتوں کا سرے سے خمیر ہی بگڑ گیا ہے اس لیے جب تک اسلامی اصول کے موافق ایک نئی سلطنت نہ قائم کی جائے‘ اصل مقصد نہیں حاصل ہو سکتا تھا‘ لیکن امام صاحب کو ریاضت‘ مجاہدے اور مراقبے سے اتنی فرصت نہ تھی کہ ایسے بڑے کام میں ہاتھ ڈال سکتے۔ اتفاق یہ کہ جب احیا العلوم شائع ہوئی اور ۵۰۱ھ میں اسپین میں پہنچی تو علی بن یوسف تاشفین نے جو اسپین کا بادشاہ تھا‘ تعصب اور تنگ دلی سے اس کتاب کے جلانے کا حکم دیا اور نہایت بے دردی سے اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ امام صاحب کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو سخت رنج ہوا۔
اسی اثنا میں اسپین سے ایک شخص امام صاحب کی خدمت میں تحصیلِ علم کے لیے آیا جس کا نام محمد بن عبداللہ تومرت تھا۔ یہ ایک نہایت معزز خاندان کا آدمی تھا اور اس کے آباواجداد ہمیشہ سے آزادی پسند اور صاحبِ حوصلہ چلے آتے تھے۔ امام صاحب کی خدمت میں رہ کر اس نے تمام علوم میں نہایت کمال پیدا کیا اور اپنے ذاتی حوصلے یا امام صاحب کے فیض صحبت سے یہ ارادہ کیا کہ اسپین میں علی بن یوسف کی سلطنت کو مٹاکر ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالے۔ یہ خیال اس نے امام صاحب کے سامنے پیش کیا۔ امام صاحب نے جو خود ایک عادلانہ سلطنت کے خواہش مند تھے اس رائے کو پسند کیا‘ لیکن پہلے یہ دریافت کیا کہ اس مہم کے انجام دینے کے اسباب بھی مہیا ہیں یا نہیں؟ محمد بن عبداللہ نے اطمینان دلایا تو امام صاحب نے نہایت خوشی سے اجازت دی---
محمد بن عبداللہ تومرت نے واپس جاکر امر بالمعروف کے شعار سے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو مدت تک قائم رہی اور موحدین کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ علی بن یوسف کی حکومت میں بدکرداری بہت پھیل گئی تھی‘ فوج کے لوگ علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے اور عفت مآب خواتین کے ناموس کو برباد کرتے تھے۔ علی بن یوسف کے خاندان میں ایک مدت سے یہ اُلٹا دستور چلا آرہا تھا کہ مرد منہ پر نقاب ڈالتے تھے اور عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں[ہمارے ملک میں روشن خیالی کا اگلا مرحلہ یہ نہ ہو!]… محمد بن تومرت نے اول اول انھی دونوں برائیوں کے مٹانے پر کمر باندھی اور [اس کے نتیجے میں علی بن یوسف کی حکومت کی جگہ ] ایک نئی سلطنت قائم ہوگئی۔ محمدبن تومرت نے خود فرماں روائی کا قصد نہیں کیا بلکہ ایک لائق شخص کو جس کا نام عبدالمومن تھا‘ تخت پیش کیا۔
عبدالمومن اور اس کے خاندان نے جس طرز پر حکومت کی وہ بالکل اسی اصول کے موافق تھی‘ جو امام غزالی کی تمنا تھی۔ (دعوت و عزیمت کے روشن ستارے‘ ص ۱۳۰-۱۴۱)