اسلام کا بنیادی عقیدہ یہ تصور ہے کہ انسان اللہ کا بندہ ہے۔ عربی میں اللہ کے بندے کو ’عبداللہ‘ کہتے ہیں۔ یہ نام مسلمان ملکوں میں عام پایا جاتا ہے۔ اسلام کے حقیقی معنی ہیں اللہ کی مرضی کے آگے جھک جانا۔ وہ سب لوگ جو اللہ کی اطاعت و رضا کی اس زندگی کو اختیار کرتے ہیں مسلمان کہلاتے ہیں۔ چونکہ اللہ کی ذات برترو بالا ہے اور وہی ساری کائنات کی فرماں روا ہے، اس لیے مسلمان ذہن کو کلیسا اور ریاست کی تفریق کا مسیحی تصور بالکل غیرمنطقی نظر آتا ہے۔ اسلامی حکومت کا مقصد اللہ کے قانون کا نفاذ ہے، جو قرآن و سنت میں محفوظ ہے۔ مسلمان حکمران نہ تو خود قانون کی حیثیت اختیار کرسکتا ہے، نہ وہ اپنے طور پر کوئی نیا قانون بنانے کا حق رکھتا ہے۔ شریعت ِ الٰہی کو کبھی بدلا نہیں جاسکتا۔ ہاں ، اس کی تعبیر کی جاسکتی ہے، وہ بھی کڑی حدود کے اندر۔
ہرچیز کا مالک اللہ ہے۔ انسان کی اپنی کوئی چیز نہیں ہے۔ وہ کلیتاً اللہ تعالیٰ کا دست ِ نگر ہے۔ ہر وہ شے جو انسان کے قبضہ و تصرف میں ہے، حتیٰ کہ اُس کا جسم بھی___ اللہ تعالیٰ نے محض مستعار دی ہے، تاکہ وہ اسے حتی الامکان انتہائی معقول طریقے سے کام میں لائے۔ اگر کوئی شخص اِس ذمّہ داری سے پہلوتہی کرتا ہے تو وہ عبرت ناک سزا پائے گا۔ انسان کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی بندگی کا حق ادا کرنے کے لیے بوقت ضرورت ہرشے اپنی ذاتی مسّرت،اپنا عیش و آرام، اپنی خواہشات، آسایشیں، دولت، مال و متاع، حتیٰ کہ زندگی تک راضی خوشی قربان کردینے میں کوئی پس و پیش نہ کرے۔ اِس کا اجر اُسے ابدی مسرت اور قلبی اطمینان کی صورت میں ملے گا۔ ’اللہ کا بندہ‘ ہونے کا مطلب انسانوں کے جورواستبداد سے آزادی ہے۔ سچا مسلمان کسی انسان سے نہیں ڈرتا، وہ صرف اللہ سے ڈرتا ہے۔
مسلمان دنیا کو دو مخالف کیمپوں___ دارالاسلام اور دارالکفر میں تقسیم کرتا ہے۔ نوعِ انسان کی بدترین مصیبت، غربت، بیماری یا ناخواندگی نہیں، کفر ہے۔ نوعمر حاملہ دُلھنیں، کنواری مائیں، امراضِ خبیثہ، اسقاطِ حمل، زنا بالجبر، حرامی بچے، لاوارث شرابی اور جنگ جویانہ وطن پرستی، سب کفر کے منطقی نتائج اور تلخ ثمرات ہیں۔ جو کچھ اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ ہے، سب سے بڑی نیکی اور بھلائی اُسی سے عبارت ہے۔ اس کے برعکس کفر اللہ تعالیٰ کے خلاف کھلی بغاوت ہے جسے کبھی برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان اپنے دوسرے ہم چشم انسان کی سیرت کا اندازہ اُس کے عقیدے کی صحت اور روزمرہ زندگی میں اس کے عملاً نفاذ کی اساس پر کرتا ہے۔ کسی شخص کی نسل، قومیت، دولت یا معاشرتی حیثیت کا، اس کے حقیقی انسانی وصف سے کوئی تعلق نہیں۔ ایک شخص جس چیز پر ایمان لانے کا مدعی ہے، اگر اُس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش نہیں کرتا تو وہ محض ایک منافق ہے، فی الحقیقت وہ سرے سے ایمان ہی نہیں رکھتا۔ ایک مسلمان کے نزدیک انسان کے کسی فعل کا دارومدار اُس کے عقائد پر ہے۔ کیونکہ فوق الفطرت دینی بنیادوں کے بغیر وہ حُسنِ عمل اور اخلاقیات کے وجود کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سچا مسلمان موت سے نہیں ڈرتا۔ موت وہ گھاٹی ہے جس سے گزر کر ایک مسلمان اَبدی زندگی سے ہمکنار ہوتا اور قربِ الٰہی حاصل کرتا ہے۔ مسلمان جب بیمار ہوتا ہے تو صحت یاب ہونے کے لیے ہرممکن علاج معالجہ کرواتا ہے، لیکن بایں ہمہ اگر تمام طبی وسائل اس کی صحت بحال کرنے اور زندگی بچانے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ بڑے سکون و اطمینان کے ساتھ داعی اجل کو لبیک کہتا ہے۔ اُس کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جان دار کی زندگی کی مدّت پہلے ہی سے مقرر کردی ہے۔ کوئی شخص نہ تو اس مقررہ وقت سے پہلے مرسکتا ہے نہ دنیا بھر کی دوائیں اور طبیب مل کر اس کی موت کو آنِ واحد ہی کے لیے مؤخر کرسکتے ہیں۔
سچا مسلمان متعصب نہیں ہوتا۔ قرآنِ پاک تجسس اور غیبت کی ممانعت کرتا ہے۔ کوئی مسلمان چاہے کتنا ہی غلط کار کیوں نہ ہو، جب تک وہ اپنے دین کو علانیہ نہیں چھوڑتا، اُسے دوسرا مسلمان دینی و معاشرتی حقوق سے محروم نہیں کرسکتا۔ مسلمان نہ تو دوسرے مذاہب پر دست ِ جورو وتعدّی دراز کرتے ہیں اور نہ لوگوں کو جبراً مسلمان بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی حکومت کے سایے میں مذہبی اقلیتیں خودمختار اور سالم گروہوں کی صورت میں زندگی بسر کرتی ہیں۔ انھیں اپنے مذہبی قوانین پر چلنے، اپنے بچوں کو اپنی مرضی کے مطابق تعلیم دینے اور اپنی تہذیب و ثقافت کو دوام بخشنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مزیدبرآں انھیں جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق وہ بحیثیت انسان مساوی انصاف اور عمدہ سلوک کے مستحق ہوتے ہیں۔ تاہم شریعت ِ اسلامی کے اِن تمام عطا کردہ حقوق کے باوجود کسی غیرمسلم کو مسلمان کا ہم سر نہیں سمجھا جاسکتا۔ اسلامی حکومت کے سایے میں بسنے والے غیرمسلم، فوجی خدمت سے مستثنیٰ ہوتے ہیں، کیونکہ جو لوگ اسلام کی دعوت پر ایمان رکھتے ہیں وہی اس کی خاطر جنگ کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر کسی غیرمسلم کو حکومت کے کلیدی مناصب پر بھی فائز نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مسلمان نسلی و قومی اختلاف کے باوجود دوسرے مسلمانوں کے ساتھ گہری قرابت محسوس کرتا ہے، لیکن غیرمسلموں کے درمیان وہ اپنے آپ کو ہمیشہ اجنبی پاتا ہے۔
اسلام ایک عالم گیر دین ہے۔ اُس کے دروازے تمام نوعِ انسانی پر کھلے ہیں۔ وہ غیرمسلموں کو اپنی آغوشِ رحمت میں لانے کے لیے سرگرم جدوجہد کرتا ہے۔ مسیحیوں کے برعکس ہمیں پیشہ ور مبلّغین کی ضرورت نہیں۔ ہرمسلمان بجاے خود ایک مبلّغ ہے۔ اسلام کی تبلیغ و اشاعت، اپنی امکانی حد تک، اُس کا مقدس فریضہ ہے۔ بہت سے غیرمسلم یہ جان کر ورطۂ حیرت میں ڈوب جائیں گے کہ دنیا کے وسیع و عریض علاقوں میں خصوصاً جنوب مشرقی ایشیا اور افریقہ میں ___ اسلام عام عرب اور ہندستانی تاجروں کے ذریعے پھیلا۔ اس مقصد کے لیے نہ تو جبروتشدد اور قوت سے کام لیا گیا نہ ان ممالک کو سیاسی طور پر کبھی محکوم بنایا گیا۔ یہ نتائج صرف اس لیے رُونما ہوئے کہ ان تاجروں اور بیوپاریوں نے پہلے اسلام کو پیش کیا اور پھر کاروبار کی طرف توجہ دی۔
صحیح راسخ الاعتقاد یہودیوں کی طرح مسلمان بھی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کا تقرب اُس کے مقدس قوانین کی تعمیل اور پابندی ہی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ بنابریں وہ عبادات اور اخلاقیات کے درمیان کوئی نمایاں خط ِ امتیاز نہیں کھینچتے، جو ایک دوسرے کے ساتھ غیرمنفک طور پر مربوط ہیں۔ مسلمان روح کو اُس کے خارجی قالب سے الگ نہیں کرتے کیونکہ ان کا ایقان ہے کہ کوئی عقیدہ اپنے محسوس مظہر کے بغیر مؤثر اور کارگر نہیں ہوتا۔
وضو اور نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ادا کرنا لازمی ہے۔ نماز ایک مسلمان کے اندر حساس ضمیر اور بلندکردار کو نشوونما دیتی اور اسے پختگی عطا کرتی ہے۔ اس لیے کہ جب وہ نماز پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی یہ دیکھنے والا نہیں ہوتا کہ اُس نے یہ فرض ٹھیک ٹھیک انجام دیا ہے یا نہیں۔ شخصی حفظانِ صحت اور طہارت و پاکیزگی کی ضرورت پر اور کوئی مذہب اس قدر زور نہیں دیتا۔ جسمانی طہارت، روحانی پاکیزگی کو متاثر کرتی ہے اور خارجی انسان داخلی انسان کا مظہر ہوتا ہے۔
قرآن و سنت کا تعزیری قانون وہ اہم ترین موضوع ہے جس پر غیرمسلموں نے نکتہ آفرینی کی اور غلط فہمی پھیلائی ہے۔ اسلام جن اُمور کو معاشرے کے خلاف بدترین جرائم قرار دیتا ہے مغربی ممالک میں انھیں شاید ہی جرم سمجھا جاتا ہے، اور چوری کے سوا کسی جرم پر شاذونادر ہی قانونِ تعزیرات نافذ کی جاتی ہیں۔ مسلمان نہ تو اس بات کے قائل ہیں کہ قانون کی خوبی اور فضیلت کا انحصار اس کی نرمی پر ہے اور نہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ مجرم معاشرے سے زیادہ ہمدردی اور شفقت کے سزاوار ہیں۔
مسلمانوں کی نظر میں قرآن و سنت کا تعزیری قانون ساتویں صدی عیسوی کے قدیم عرب کا ظالمانہ اور وحشیانہ حاصل نہیں ہے اور نہ وہ آج کی دنیا سے غیرمتعلق ہے۔ اس کے برعکس ان کا ایقان یہ ہے کہ یہ قانون ہمارے جدید قیدخانوں کی اخلاقی سیہ کاریوں اور انتہائی نفسیاتی تخریب کاریوں سے زیادہ مجرموں کا شفیق و ہمدرد اور ایک حقیقی اسلامی معاشرے کو جرائم سے پاک صاف رکھنے میں انسان کے خودساختہ قوانین سے زیادہ مؤثر ہے۔
مسلمانوں کا ایمان ہے کہ ایک صحت بخش معاشرہ وجود میں لانے کے لیے مردوں اور عورتوں کی علیحدگی نہایت ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسلام مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کی ممانعت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان مخلوط معاشرتی تقریبات، مخلوط درس گاہیں یا لڑکوں اور لڑکیوں میں شادی سے پہلے عشق و محبت کی پینگیں (کورٹ شپ) برداشت نہیں کرسکتا۔ لازم ہے کہ نہ تو مرد غیرعورتوں کی طرف دیکھیں، نہ عورتیں غیرمردوں کی طرف۔ ہروقت حیادار لباس زیب تن رہے۔ عورتوں کو کسی کام سے باہر جانا ہو تو اپنا پورا جسم پردے میں ڈھانپ کرنکلیں اور حتی الامکان سیدھے سادے، غیرنمایاں انداز میں چلیں پھریں۔ عورت کا حُسن و جمال صرف اس کے اپنے لیے ہے۔ اُس کا جسم کسی حالت میں بھی بے پردگی اور آوارہ نگاہوں کا ہدف نہیں بننا چاہیے۔ مردوں اور عورتوں کے درمیان عشق و محبت کے کھلے عام مظاہرے سخت تعزیر کے لائق ہیں۔ اسلام مرد کو گھر سے باہر کے معاشرتی فرائص سونپتا ہے اور عورت کو درونِ خانہ کے تمام معاملات کا ذمہ دار بناتا ہے۔ بنابریں کاروبار یا سیاست کے میدان میں مردوں کے ساتھ مسابقت عورتوں کا کام نہیں ہے۔مسلمان خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ عورت جب ایک دفعہ گھر کو چھوڑ دیتی ہے تو گھر باقی نہیں رہتا۔
تجرد کی زندگی کو قرآن و سنت مذموم قرار دیتے ہیں۔ ہر مرد اور عورت سے ازدواجی زندگی بسر کرنے کی توقع کی جاتی ہے۔ اگرچہ مرد کو چار بیویاں کرنے کی اجازت ہے، تاہم نہ تو اسلام تعددِ ازدواج کا حکم دیتا ہے اور نہ مسلمان معاشرے میں اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ بس یہ ایک اجازت ہے جس سے خال خال لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ مسلمانوں کی غالب اکثریت ہمیشہ یک زوجگی پر عامل رہی ہے۔
اسلام کی طرف سے محدود تعددِ ازدواج کی اجازت ناجائز تعلقات کو بڑی حد تک ختم کردیتی ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص کسی دوسری عورت سے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے تو اُس کے لیے پہلے اُس عورت کے ساتھ شادی کرنا، اس کی کفالت کا بار اُٹھانا اور ربویت کی ذمہ داری کو قبول کرنا ضروری ہے۔ اسلام بھی قومی اور بین الاقوامی پیمانے پر ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کے اتنا ہی مخالف ہے جتنا کہ رومن کیتھولک چرچ اور اس مخالفت کے اسباب بھی تقریباً یکساں ہیں۔ ایک مسلمان کے نزدیک اس سے بڑھ کر فساد اور دین و مذہب سے انحراف اور نہیں ہوسکتا کہ انسان ازدواجی تعلقات بھی قائم رکھے اور ان کی اصل غرض و غایت کی راہ میں رکاوٹ بھی ڈالے۔ مانع حمل ادویات وغیرہ استعمال کرنے کی اجازت صرف غیرمعمولی انفرادی صورتوں میں ہے اور وہ بھی محض طبی بنیادوں پر۔ بچوں کی تعداد میں تخفیف کی عمداً کوشش کرنے کے لیے اقتصادی وجوہ کا عذر ناکافی ہے ، کیونکہ آدمی کا رازق خود آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔
اسلام ’فنونِ لطیفہ‘ کی حوصلہ شکنی کرتا اور اس سلسلے میں تمام دیگر مذاہب سے مختلف راے رکھتا ہے۔ ایک مسلمان قوم میں کسی میخائیلنگلو، ریمبرانٹ، بیتھوئون یا شیکسپیئر کو اپنے اُوپر نچھاور کرنے کے لیے تحسین و آفرین کے پھول نہیں ملیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان شہروں میں سمفنی سرودگاہوں، اوپیرا گھروں،تھیٹروں اور فنی عجائب خانوں کا نمایاں فقدان ہے۔ اسلامی فن کی تخلیقی قوت نے اپنا کاملاً اظہار عربی خطاطی کی صورت میں کیا ہے یا طرزِتعمیر میں، جس سے آج تک کوئی قوم سبقت نہیں لے جاسکی۔
سازوسرود کو ہرجگہ مذموم قرار دیا جاتا ہے۔ مساجد میں تو وہ بالکل ممنوع ہے۔ پیشہ ور مطرب اور سازندے پوری دنیاے اسلام میں معاشرتی لحاظ سے پست اور ذلیل سمجھے جاتے ہیں۔ سازوسرود انسان کے قلب و ذہن کو اپنے اللہ سے غافل کردیتے ہیں اور بالآخر اُسے شہوت پرستی کی پستیوں میں پہنچا دیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنے جذبات کے اظہار پر بے حد مجبور ہوجائے تو اُسے گانے کی اجازت ہے، لیکن احتراز و اجتناب اولیٰ تر ہے۔ کوئی عفیف اور پاک دامن شریف مسلمان خاتون کھلے عام نہیں گائے گی۔ قرآنِ پاک کی قرأت، اذان اور قوالی کی صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت گوئی واحد نغمہ و سرود ہے جسے مستحسن سمجھا جاتا ہے۔
چونکہ رقص ناجائز جنسی تعلقات کا نہایت طاقت ور محرک ہے، اس لیے اسلام میں اس کی مکمل ممانعت ہے۔ شاید عیدالفطر اور عیدالاضحی کے تہوار، جب کہ لوگوں کو جہاد کے لیے جوش میں لانا مقصود ہو، یا شادی کی تقریبات اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اس قسم کے جشن کبھی مخلوط نہیں ہوتے۔ مرد مردوں کے ساتھ مل کر رقص کرتے ہیں اور عورتیں صرف عورتوں کے ساتھ۔
اسٹیج، سینما یا ٹیلی ویژن کے پردوں پر سوانگ بھرنے کی بھی اسی بناپر حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ کھیل، تماشے، خواہ ان میں کوئی شخص ایک کردار کی حیثیت میں شریک ہوتا ہے یا تماشائی کی، نہ صرف فسق و فجور کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، بلکہ لوگوں کو اپنے ذاتی تصورات میں اس حد تک گم کردیتے ہیں کہ حقیقی زندگی سے اُن کی دل چسپی جاتی رہتی ہے۔
لٹریری فکِشن، خواہ ڈرامے کی شکل میں ہو یا ناول کی، کسی مسلمان ملک سے کوئی فطری تعلق نہیں رکھتا۔ البتہ خطابت اور شاعری کو بے حد ترقی دی جاتی ہے اور فصیح تقریروں کو مسلمان ہرجگہ بڑی قدرووقعت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسلام کا نظامِ حیات بدیہی اقدار پر مبنی ہے۔ اخلاق و صداقت ابدی اور عالم گیر ہیں۔ انھیں انسان نے نہیں اللہ نے جاری کیا ہے۔ بنابریں انسان ان میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ مسلمانوں کے نزدیک قرآنِ کریم حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں، اللہ کی کتاب ہے۔ ان کا ایمان ہے کہ اس کا ایک ایک لفظ حقیقی معنوں میں سچا ہے اور اس کی اطاعت لازمی ہے۔ قرآنِ کریم علمِ کُل کا منبع ہے اور اُس کے کسی جزو کے متعلق شک و ریب کا اظہار اللہ تعالیٰ کی ہدایت کو مسترد کردینے کے مترادف ہے۔ حدیث یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور سنت___ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا عمل___ قرآن کریم کی صحیح تعبیروتشریح کے لیے لازمی ہیں۔ دوسرے کے بغیر تنہا کسی ایک پر انحصار بے معنی ہے۔ چونکہ قرآنِ کریم اللہ تعالیٰ کی خطا سے مبریٰ، مکمل اور آخری وحی ہے جو انسان کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس لیے اسلام کی نہ تو ’تہذیب و اصلاح‘ کی جاسکتی ہے، نہ اس میں کسی قسم کا ردّ وبدل کیا جاسکتا ہے۔ اس کو ’ترقی دینے‘ کی ضرورت کبھی پیش نہیں آسکتی۔ اسلام ایک مکمل اور خودمکتفی دین ہے۔ اخذ وانتخاب کی اس میں کوئی گنجایش نہیں ہے۔ مسلمان کے نزدیک ’ترقی‘ یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو قرآنِ کریم کے الفاظ اور روح کے عین مطابق ڈھالیں۔ اُن کا دنیاوی مقصود مادی کامیابی نہیں، آخرت کی زندگی کے لیے سازوسامان مہیا کرنا ہے۔
اسلام مسلمانوں سے کامل اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ مسلمان شب و روز کے ہرلمحے میں مسلمان رہتا ہے۔ اسلام کی ضابطہ پسندی کسی دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لیے ناقابلِ تصور ہے۔ اس کے قوانین ایک مسلمان کی پیدایش سے لے کر موت تک، زندگی کے ہرپہلو پر حاوی ہیں۔ وہ بیداری کے عالم میں ہو یا خوابیدہ، اسلام ہروقت مسلمان کے ساتھ رہتا ہے۔ اُسے ایک لمحے کے لیے بھی اپنی اسلامی حیثیت کو فراموش کرنے کی اجازت نہیں۔ (اسلام ایک نظریہ، ایک تحریک، ص۵۳-۶۱)
امام غزالیؒ کا دور فلسفہ و تعقل پرستی کا دور تھا۔ یونانی فلسفیوں کی کتابیں خصوصاً ارسطو کی تصنیفات‘ جو عربی میں منتقل ہوچکی تھیں‘ مسلمانوں کی فکروذہن کو بری طرح متاثر کر رہی تھیں۔ فلسفیانہ موشگافیوں سے دین و شریعت اور اصول و عقائد‘ کوئی چیز محفوظ نہ رہی تھی۔ دینی اصطلاحات کو نئے نئے معانی پہنائے جا رہے تھے۔ آیاتِ قرآنی کی نئی نئی تعبیریں کی جا رہی تھیں‘ جو بات عقل اور فلسفے پر پوری اترتی صرف وہی قابلِ قبول ہوتی اور باقی ہر شے لائق استرداد قرار دی جاتی۔ دوسری طرف باطنیت کا فتنہ عروج پر تھاجس نے فلسفے کی آوارہ خیالی‘ لذتیت پرستی اور رفض و تشیع کی کوکھ سے جنم لیا تھا۔ باطنیت محض ایک فکری رویہ نہ تھااور وہ مسلمانوں کے فکر اور عقیدے کو سبوتاژ کرنے کے لیے ایک نیا علم کلام اور دین و شریعت کی نئی تعبیرات ہی پیش نہیں کر رہا تھا‘ بلکہ وہ ایک سیاسی رویہ بھی تھا۔ باطنی عالم اسلام کی سیاسی زندگی کو تلپٹ کرنے کے لیے سرگرم عمل تھے اور ان کے خنجر سے عالم اسلام کا کوئی توانا اور متحرک دینی و سیاسی رہنما اور عالم و صالح شخص محفوظ نہ تھا۔ فلسفہ اور باطنیت کی ان دو بلائوں کے درمیان مسلمان ذہنی انتشار میں مبتلا حیران و پریشان کھڑے تھے۔ مسلمانوں کے دانش ور طبقے کے ایک بڑے عنصر کا رجحان فلسفے کی طرف تھا۔ باطنیت سے دانش وروں سے زیادہ خوش عقیدہ عوام الناس اور عام پڑھا لکھا عنصر مرعوب و متاثر تھا۔ نتیجہ یہ تھا کہ دین کی گرفت ذہنوں اور اعمال پر ڈھیلی پڑ گئی۔ دینی افکار و عقائد کی بنیادیں متزلزل ہوگئیں۔ دین کو زمانے کے جدید ترین تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس کی تراش خراش شروع ہوگئی۔ اسلام کے خلاف ایک بغاوت عام برپا تھی جس سے کوئی طبقہ محفوظ نہ تھا اور وہ جن پر دفاع دین کی ذمہ داری عائد ہوتی تھی یا تو خود اس سیلاب بلاخیز میں بہہ رہے تھے اور زمانہ با تونسازد تو بازمانہ بساز کا درس دے رہے تھے‘ یا بے بسی اور بے چارگی کے عالم میں مسجدوں کے حجروں اور مدرسوں کی چار دیواریوں میں پناہ گزیں ہوگئے تھے۔ اس فساد کے آگے کھڑا ہونے اور اپنے دین کا دفاع کرنے کی توفیق اللہ نے اپنے جس بندے کو دی وہ امام غزالیؒ تھے…
انھوں نے یونانی فلسفے کے تناقضات پر اسی کے نقطۂ نظر سے تنقید کی‘ اس کی کمزوریوں کو آشکارا کیا‘ اور استدلال کی قوت سے ان کے افکار و تخیلات کی بے مایگی ثابت کی۔ اس طرح فلسفۂ یونان کے اس رعب و طلسم کو توڑا جس کا مسلمانوں کا دانش ور طبقہ بری طرح اسیر ہوچکا تھا۔ اب تک فلسفہ اور اس کے نظریات پر دفاعی انداز میں تنقید کی جاتی رہی تھی۔ امام پہلے فرد ہیں جنھوں نے مدافعانہ لہجے کے بجاے جارحانہ انداز اختیار کیا۔ اسی طرح علما کے اندر اس کے مقابلے میں جو احساس کمتری اور نفسیاتی عدمِ استحکام پیدا ہوگیا تھا‘اسے نہ صرف دُور کیا بلکہ ان کے اندر اپنے عقائد و افکار پر اعتماد و یقین پیدا کیا۔ عقلیت پرستی کے تار و پود بکھیرے اور اسلام کے اصول و عقائد کو عقلیت پرستی کے نام پر جس طرح توڑا اور مسخ کیا جا رہا تھا‘ جس کے نتیجے میں بے اعتقادی جنم لے رہی تھی‘ اس کا گہرا تجزیہ کیا اور مسلمانوں کو عقلی استدلال کے ذریعے بتایا کہ تمھارے دینی عقائد کا اثبات نام نہاد معقولات کو اپنانے پر منحصر نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی باطنیت کی فکری و سیاسی بنیادوں پر ضرب کاری لگائی جس نے بظاہر ایک نیا فلسفہ اور علمِ کلام اور نئی اصطلاحات وضع کر لی تھیں لیکن درحقیقت جس کی شاخیں یونانی و عجمی فلسفے کی جڑوں ہی سے پھوٹی تھیں۔
مسلمان معاشرے کے ایک ایک طبقے پر کڑی تنقید کی اور ان اسباب و عوامل کی نشان دہی کی جو مسلمانوں کے دینی و اخلاقی انحطاط و زوال کے پیچھے کام کر رہے تھے۔ امام کے نزدیک مسلمان معاشرے میں پھیلی ہوئی دینی‘ اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں اور مقاصد کے سب سے بڑے ذمہ دار علما اور حکمران تھے۔ انھوں نے ان دونوں طبقات پر کڑی نکتہ چینی کی‘ خصوصاً علما کی کمزوریوں اور ذمہ داریوں پر سیرحاصل تنقید و تبصرہ کیا۔ مزیدبرآں دولت مندوں اور عوام الناس کے کردار و اعمال کا ناقدانہ جائزہ لیا۔ اس طرح پورے نظام اجتماعی کے مقاصد‘ اس کی کمزوریوں اور امراض کی نشان دہی کی اور اس میں نہ کسی ملامت گر کی ملامت کی پروا کی اور نہ کسی مصلحت اور خوف کو خاطر میں لائے…
امام غزالیؒ دوسرے تمام ائمہ و صلحا کی طرح زاہد و متورع تھے۔ بڑے بے باک اور حق گو۔ ان کا زمانہ مطلق العنان بادشاہوں کا زمانہ تھا جنھوں نے اپنے آپ کو قوانین سے بالاتر قرار دے لیا تھا۔ ان پر اعتراض کرنا‘ اپنے آپ کو موت کے منہ میں دینے کے مترادف تھا‘ لیکن امام نے پوری جرأت کے ساتھ بادشاہوں‘ان کے حکام اور نظامِ حکومت پر کھلے عام تنقید کی۔ ان کی ایک ایک کمزوری اور کوتاہی پر گرفت کی۔ یہ سلاطین و حکام لوگوں کے ضمیر بھاری عطیات اور مناصب دے کر خریدا کرتے تھے۔ اس خرید و فروخت میں بڑے بڑے علما اور مشائخ حصہ لیتے اور اس میں ذرہ برابر کراہت محسوس نہ کرتے۔ امام غزالیؒ نے اس پر سخت تنقید کی اور سلاطین و حکام کے اموال کو ناجائز اور حرام قرار دیا‘چنانچہ احیاء علوم الدین میں لکھتے ہیں: ’’بادشاہوں کے مال آج کے زمانے میں بالعموم حرمت سے خالی نہیں ہیں۔ حلال مال ان کے پاس یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں یا بہت کم ہوتا ہے‘‘۔
آج سلاطین انھی لوگوں کے ساتھ یہ فیاضی کرتے ہیں جن کے بارے میں انھیں اُمید ہوتی ہے کہ وہ ان سے کام لے سکیں گے‘ ان کے لیے سہارا بنیں گے اور ان سے اپنی اغراض پوری کر سکیں گے۔ ان سے ان کے درباروں اور مجلسوں کی رونق بڑھے گی اور وہ ہمیشہ دعاگو‘ ثناخوانی اور حاضر و غائب ان کی تعریف و توصیف میں لگے رہیں گے___ اگر کوئی شخض اس کے لیے تیار نہیں ہوتا تو خواہ وہ امام شافعیؒ کے مرتبے کا ہو‘ یہ سلاطین ایک پیسہ بھی اس پر خرچ کرنا گوارا نہیں کریں گے۔ اس لیے بادشاہوں سے ایسے مال کا قبول کرنا بھی جائز نہیں جس کے متعلق یہ علم ہو کہ وہ حلال ہے‘ اس لیے کہ اس کے وہ نتائج ہوں گے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس مال کا کیا مذکور جس کے متعلق حرام یا مشتبہ ہونا صاف ظاہر ہے…
امام صاحب کو ان باتوں (یعنی بگڑے ہوئے حکمرانوں پر تنقید وغیرہ) پر تسلی نہ تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ سلطنتوں کا سرے سے خمیر ہی بگڑ گیا ہے اس لیے جب تک اسلامی اصول کے موافق ایک نئی سلطنت نہ قائم کی جائے‘ اصل مقصد نہیں حاصل ہو سکتا تھا‘ لیکن امام صاحب کو ریاضت‘ مجاہدے اور مراقبے سے اتنی فرصت نہ تھی کہ ایسے بڑے کام میں ہاتھ ڈال سکتے۔ اتفاق یہ کہ جب احیا العلوم شائع ہوئی اور ۵۰۱ھ میں اسپین میں پہنچی تو علی بن یوسف تاشفین نے جو اسپین کا بادشاہ تھا‘ تعصب اور تنگ دلی سے اس کتاب کے جلانے کا حکم دیا اور نہایت بے دردی سے اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ امام صاحب کو اس واقعے کی اطلاع ہوئی تو سخت رنج ہوا۔
اسی اثنا میں اسپین سے ایک شخص امام صاحب کی خدمت میں تحصیلِ علم کے لیے آیا جس کا نام محمد بن عبداللہ تومرت تھا۔ یہ ایک نہایت معزز خاندان کا آدمی تھا اور اس کے آباواجداد ہمیشہ سے آزادی پسند اور صاحبِ حوصلہ چلے آتے تھے۔ امام صاحب کی خدمت میں رہ کر اس نے تمام علوم میں نہایت کمال پیدا کیا اور اپنے ذاتی حوصلے یا امام صاحب کے فیض صحبت سے یہ ارادہ کیا کہ اسپین میں علی بن یوسف کی سلطنت کو مٹاکر ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالے۔ یہ خیال اس نے امام صاحب کے سامنے پیش کیا۔ امام صاحب نے جو خود ایک عادلانہ سلطنت کے خواہش مند تھے اس رائے کو پسند کیا‘ لیکن پہلے یہ دریافت کیا کہ اس مہم کے انجام دینے کے اسباب بھی مہیا ہیں یا نہیں؟ محمد بن عبداللہ نے اطمینان دلایا تو امام صاحب نے نہایت خوشی سے اجازت دی---
محمد بن عبداللہ تومرت نے واپس جاکر امر بالمعروف کے شعار سے ایک نئی سلطنت کی بنیاد ڈالی جو مدت تک قائم رہی اور موحدین کے لقب سے پکاری جاتی تھی۔ علی بن یوسف کی حکومت میں بدکرداری بہت پھیل گئی تھی‘ فوج کے لوگ علانیہ لوگوں کے گھروں میں گھس جاتے تھے اور عفت مآب خواتین کے ناموس کو برباد کرتے تھے۔ علی بن یوسف کے خاندان میں ایک مدت سے یہ اُلٹا دستور چلا آرہا تھا کہ مرد منہ پر نقاب ڈالتے تھے اور عورتیں کھلے منہ پھرتی تھیں[ہمارے ملک میں روشن خیالی کا اگلا مرحلہ یہ نہ ہو!]… محمد بن تومرت نے اول اول انھی دونوں برائیوں کے مٹانے پر کمر باندھی اور [اس کے نتیجے میں علی بن یوسف کی حکومت کی جگہ ] ایک نئی سلطنت قائم ہوگئی۔ محمدبن تومرت نے خود فرماں روائی کا قصد نہیں کیا بلکہ ایک لائق شخص کو جس کا نام عبدالمومن تھا‘ تخت پیش کیا۔
عبدالمومن اور اس کے خاندان نے جس طرز پر حکومت کی وہ بالکل اسی اصول کے موافق تھی‘ جو امام غزالی کی تمنا تھی۔ (دعوت و عزیمت کے روشن ستارے‘ ص ۱۳۰-۱۴۱)