جنوری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

شامی انقلاب کی حرکیات

حافظ محمد عبداللہ | جنوری ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

۲۰۱۱ء میں ’عرب بہار‘ کے موقع پر شام میں بھی مظاہرے شروع ہوئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ عدل و انصاف اور آزادی ہی تھا۔ یہ پُرامن مظاہرے تھے اور مظاہرین انتقالِ اقتدار کی روایت کو فروغ دینے اور معاشی آزادروی کا مطالبہ کررہے تھے ۔چنانچہ نہتے مظاہرین کے خلاف باقاعدہ آتشیں اسلحہ استعمال کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ مظاہرین کو جیلوں میں ٹھونسنےکی حکمت عملی اپنائی گئی ۔ مظاہرین کی گرفتاریاں جہاں اور بہت سے الزامات میں کی گئیں، وہاں ایک اہم ترین الزام جس کی سزا بھی انتہائی سخت تھی ،یہ تھا کہ قیدی کا تعلق اخوان المسلمون سے ہے۔گرفتار ہونے والوں کو کہیں دہشت گرد قرار دیا گیا اور کہیں غیر ملکی تنظیم سے تعلق رکھنے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ حالات یہ تھے کہ اگر کوئی مظاہرے میں شریک ہوتا یا اخبار میں بیان دیتا، تو حکومتی آلہ کار اسے منظر عام سے غائب کر دیتے، پھر قیدی یا تو جان سے مار دیا جاتا یا کال کوٹھری میں ڈال دیا جاتا۔ جیلوں اور گرفتاریوں کے بارے میں شامیوں کا تجربہ بہت بھیانک تھا۔ تدمر اور صید نایا کی جیلوں میں جو بھی گیا، اس کا چہرہ ۲۰،۳۰ برس تک پھر کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوا۔

اخوان المسلمون سے تعلق کے جرم میں جو قید ہوتا، اس کے لیے نہ کوئی عدالتی شنوائی تھی، نہ اس کی اہل خانہ سے ملاقات ہو سکتی تھی، اور نہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے کسی کا پتا چلتا تھا۔ اب تک دسیوں ہزار شامی باشندے ایسے ہیں جن کی کسی کو کوئی خبر نہیں کہ وہ زندہ ہیں یا مر چکے ہیں، انھیں پھانسی دی گئی یا وہ کہاں ہیں اور کس حالت میں ہیں؟

۲۰۱۲ء کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکمرانوں کا جبر جوں جوں بڑھا، نوجوان انقلابی مظاہرین میں مسلح جدوجہد اور تصادم کا نظریہ اُبھرا اور اُن فوجی جوانوں کے زیر اثر تیزی سے مقبول ہوا جو مسلح افواج سے یہ کہہ کر الگ ہو گئے تھے کہ ہم اپنے ہی لوگوں پر گولیاں نہیں چلا سکتے۔

اب تک انقلابیوں کی سرگرمیاں مقامی نوعیت کی تھیں اور صرف اپنی گرفتاری اور ظالموں کے ہاتھوں اپنے آپ کو موت سے بچانےکے لیے تھیں۔ گویا ان کی سرگرمیوں کا کوئی متعین نظریاتی رُخ نہیں تھا۔ انقلابیوں نے اپنے اپنے طور پر اپنے قصبوں ،محلوں اور دیہاتوں کو بشارحکومت سے آزاد کروانا شروع کیا۔ جو علاقہ آزاد ہو جاتا، وہ دوسرے آزاد علاقے کے لوگوں کے ساتھ مل کر اپنے معاملات چلانا شروع کر دیتا۔ بشار حکومت نے جب دیکھا کہ لوگ اسلحہ اٹھانے لگے ہیں اور مسلح جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں، تو اس نے شام کے چند اہم علاقوں، دمشق، حمص، حماۃ کو چھوڑ کر باقی علاقوں ادلب ،حلب وغیرہ سے فوجی بندوبست ہٹالیا۔

انقلابی نوجوانوں میں روز بروز یہ یقین پختہ تر ہو رہا تھا کہ موجودہ حکمرانوں سے چھٹکارا صرف مسلح جدوجہد اور لڑائی سے ہی ممکن ہے،سیاسی دباؤ اور ڈپلومیسی کوئی حل نہیں ۔

۲۰۱۲ء میں انقلابیوں اور حکومتی افواج کے درمیان حمص میں پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی، جس میں بشار الاسد کی توپ اور ٹینک بردار اور ازکار رفتہ بھاری روسی اسلحہ سے لیس حکومتی افواج کو منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجتاً، بشار الاسد نے ۲۰۱۳ء میں باقاعدہ طور پر لبنان کی حزب اللہ ملیشیا اورایران و روس سے فوجی مدد مانگی ۔یوں شامی حکومت غیر ملکی فوجی مدد کےسبب انقلابیوں کو حمص شہر سے نکالنے اور انھیں شہر کے شمالی مضافاتی علاقوں کی طرف دھکیلنے میں کامیاب ہوسکی۔

اب شام کی زمینی صورتِ حال یہ تھی کہ دارالحکومت دمشق کا کچھ علاقہ جیسے غوطہ اور حماۃ کا کچھ علاقہ اور درعا کے کچھ حصےانقلابیوں کے کنٹرول میں تھے، جب کہ ان شہروں کے باقی حصوں پر حکومتی فوجی دستوں کا کنٹرول تھا۔ ملک کے دیگر تمام شہر یا تو مکمل طور پر حکومتی کنٹرول میں یا مکمل طور پر انقلابیوں کے کنٹرول میں جاچکے تھے۔حزب اللہ کی مداخلت کے بعد تنظیم القاعدہ اور تنظیم الدولۃ اسلامیۃ فی العراق والشام(داعش) کو بھی شام کے مسلح انقلابی گروپوں پر اثر انداز ہونے کا موقع ملا۔

۲۰۱۴ء کے اختتام پر شام میں تین طرح کے مسلح گروپ برسرِپیکار تھے : ایران کے  حمایت یافتہ مسلح گروپ اور حکومتی فوجی دستے ، القاعدہ اور داعش کے نظریات کے حامل گروپ اور مسلح تنظیمیں، اورمقامی شامی مسلح گروپ جن کا مطمح نظر صرف اور صرف بشار حکومت کا خاتمہ تھا۔

۲۰۱۵ء کے آغاز میں ایک اور مسلح گروپ ’قسد‘ کا بھی اضافہ ہو گیا جو امریکی سرپرستی میں بیک وقت بشار الاسد حکومت، تنظیم القاعدہ و داعش کے نظریات کے حامل مسلح گروپوں ،اور مقامی انقلابی مسلح گروپوں، سبھی کے خلاف لڑرہا تھا۔ یہ بنیادی طور پر کرد مسلح گروپ پر مشتمل تھا۔

۲۰۱۵ء میں روس براہِ راست اس کش مکش میں شریک ہو گیا۔ اس کی فضائی بمباری، اور کمانڈو دستوں نے انقلابی مسلح گروپوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کیا ۔ یوں بشار حکومت کو نہ صرف کچھ سانس لینے کا موقع ملا بلکہ اسے یہ حوصلہ بھی ہوا کہ وہ انقلابیوں کے زیر کنٹرول علاقوں پر دست درازی کرے۔

۲۰۱۳ء میں ہی تنظیم الدولۃ الاسلامیۃ اور جبھۃ النصرۃ کے قائد محمد الشرع الجولانی کے درمیان حکمت عملی کے حوالے سے اختلافات پیدا ہوئے اور یہ معاملہ ڈاکٹر ایمن الظواہری کے پاس گیا۔ انھوں نے محمد الجولانی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے صرف اسی کے گروپ کو شامی حدود میں کارروائیوں کا مجاز قرار دیا۔

۲۰۱۶ء میں بشار حکومت نے ایک بڑی فوجی کارروائی کرتے ہوئے حلب شہر کو انقلابی مسلح گروپوں سے چھڑوا لیا تھا۔ عالمی برادری ۲۰۱۲ء میں جنیوا میں شام کی خانہ جنگی کے حل کے لیے تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے کہہ چکی تھی۔ ۲۰۱۵ء میں اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ سامنے آئی جس میں جنیوا اعلان پر عمل درآمد کے لیے روڈ میپ تیار کرنے کی بات کی گئی تھی۔  اسی دوران وسطی ایشیائی ریاست کے دارالحکومت آستانہ میں علاقائی قوتوں ایران، ترکی اور روس کے درمیان مذاکرات ہوئے۔ آستانہ مذاکرات کی خاص بات یہ تھی کہ ان میں بشار حکومت کے علاوہ انقلابی مسلح گروپوں کو بھی باقاعدہ فریق کے طور پر شریک کیا گیا تھا ۔آستانہ مذاکرات کے دوران میں مختلف جنگی محاذوں پر فوجی کارروائیوں میں کمی کا بشار حکومت نے یوں فائدہ اٹھایا کہ فوج نے حمص کے انقلابیوں پر حملہ کر کے حمص شہر کو زیر کنٹرول لے لیا۔ اسی طرح دارالحکومت دمشق سے متصل غوطہ اور قلمون کے علاقوں پر بھی اپنا کھویا ہوا کنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا۔

  ۲۰۱۹ء میں دہشت گردی کے خلاف ایک ’عالمی فوجی اتحاد‘ کا قیام عمل میں آیا، جس کا مقصد داعش اور اس کی دہشت گردی کے خلاف جنگی کارروائی کرنا تھا۔ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بشار حکومت نے بھی انقلابی مسلح گروپوں کے خلاف اور حزب اللہ اور روس کی مدد سے مسلح کارروائی تیز کر دی۔ عالمی اتحاد کی کارروائی کے نتیجے میں ۲۰۱۹ء میں شام سے داعش کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔ ترکی نے بھی اپنی سرحد کے ساتھ ساتھ موجود علاقوں پر فوجی کارروائی کرتے ہوئے اسے کرد مسلح گروہ کے وجود سے پاک کر دیا۔

ابو محمد الجولانی – آپریشن ردع  العدوان کے روح رواں

ابو محمد الجولانی کا تعلق اسرائیل کےزیر قبضہ شامی علاقہ گولان ہائیٹس سے ہے ۔انھوں نے عراق میں القاعدہ کے ساتھ مل کر جہاد میں حصہ لیا۔ برسوں امریکی قیدی رہے ۔القاعدہ کے نظم سے مشورہ کرکے ۲۰۱۸ء میں شام میں ’جبھۃ النصرۃ‘قائم کی پھر اس کانام تبدیل کرکے ’جبھۃ فتح الشام‘ رکھا اور بالآخر اب ان کی تنظیم کا نام ’ھئیۃ تحریر الشام‘ہے۔ادلب کے علاقے پر ان کا کنٹرول ہے۔ انھوں نے ۲۰۱۹ء میں یہاں ’حکومت انقاذ‘ قائم کی اور ’جامعہ ادلب الحرۃ‘ کی بنیاد رکھی ۔ ۲۰۲۰ء  کے بعد ’ھئیۃ تحریر الشام‘ نے ابو محمد جولانی کی سربراہی میں علاقے میں موجود دیگر مسلح تنظیموں کے اثر و رسوخ کو کم یا ختم کر دیا اور عملاً انھیں ایک ہی اسٹرےٹیجک کمان میں لے آئے۔ انھوں نے اپنے علاقے میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے ’ادارہ امن العام‘ (پولیس فورس) قائم کیا۔ ۲۰۲۰ء میں ادلب میں اعلیٰ معیار کے ایک ’آرمی ٹریننگ کالج‘ کی بنیاد رکھی، جہاں ساری مسلح تنظیموں کے ارکان تربیت حاصل کرنے لگے۔ اب تک اس کالج نے ۴۰۰ فوجی افسران کو تربیت دی ہے۔ یہی فوجی افسر حالیہ آپریشن ’ردع العدوان‘ کی قیادت بھی کر رہے ہیں۔ نئے اسلحے کے حصول اور ترقی و ارتقاء پر بھی توجہ دی گئی، خصوصاً ڈرون فورس ’شاہین‘ تشکیل دی گئی۔ حالیہ برسوں میں، ’ھئیۃ تحریر الشام‘ کے قائد ابو محمد الجولانی نے القاعدہ سے تعلقات ختم کر دیے ہیں، سخت گیر عہدے داروں کو نکال باہر کیا ہے، اور تنوع اور مذہبی رواداری کو اپنانے کا وعدہ کیا ہے۔

آپریشن: ’ردع العدوان ‘

۸ دسمبر۲۰۲۴ء کو شام میں ایک غیر متوقع جنگی پیش رفت پر مبنی انقلاب نے ۱۹۷۰ء سے جاری اسدخاندان کی حکمرانی کا خاتمہ کر دیا۔اس اچانک حملے کے دوران شامی انقلابی اپوزیشن فورسز نے حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تیز رفتار پیش قدمی کی اور محض گیارہ دنوں میں دارالحکومت دمشق میں داخل ہوگئے۔ صبح ہوتے ہی عوام مسجدوں میں نماز کے لیے جمع ہو گئے اور چوراہوں پر جشن منایا، ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگائے، اور بشار الاسد کے خلاف نعرے بازی کی۔ کچھ علاقوں میں جشن کے طور پر ہوائی فائرنگ بھی کی گئی۔فوجی اور پولیس افسران اپنی وردیاں چھوڑ کر فرار ہوچکے تھے۔

اس سے ایک دن پہلے، اپوزیشن فورسز نے شام کے تیسرے بڑے شہر حمص پر قبضہ کر لیا تھا۔ حلب اور حماۃ کے شہر پہلے ہی اپوزیشن فورسز کے قبضہ میں آچکے تھے۔ اس موقع پر عوامی جذبات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ بشار حکومت نے جو خوف اور دہشت مسلط کررکھی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ ہربڑے شہر میں قائم جیل کے دروازے ٹوٹ چکے ہیں اور جرمِ بے گناہی میں ماخوذ ہزاروں شامی قیدی رہا کیا جاچکے ہیں۔

صورتِ حال کے بارے میں اخوان المسلمون شام کے تازہ ترین بیان کو یہاں درج کیا جارہا ہے: وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا ۝۰۠  ،ہم جماعت اخوان المسلمون شام ،ایک بار پھر اپنی قوم کو اس فتح و نصرت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں اور ایک ایسے روشن مستقبل کی امید رکھتے ہیں جہاں آزادی اور شرفِ انسانی کی قدر ہو،نیز اس موقع پر زور دینا چاہتے ہیں:

۱- مجرم بشار الاسد کے آمرانہ نظام کی برطرفی بہت مشکل سے اور بے حساب قربانیاں دے کر حاصل ہوئی ہے۔ہمارے ذمے ہے کہ عدل اور قانون کی بالادستی پر مبنی ریاست قائم کرنے کے لیے یک آواز ہو جائیں۔ ملک کی تعمیرِ نو اس طرح کریں جہاں سارے شہریوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔

۲- ہم ،سیّد محمد بشیر کی قیادت میں قائم موجودہ عبوری حکومت کی طرف دستِ تعاون بڑھاتے ہیں اورشامی ریاست کی تعمیرِ نو کے لیے اپنی ساری صلاحیتیں کھپادینے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں، اور ریاست کے قانون ساز ،انتظامی اور عدالتی اداروں کی تعمیر و تشکیل کے لیے ہرطرح کا تعاون فراہم کرنے کو تیار ہیں ۔

۳- جماعت اخوان المسلمون شام یہ سمجھتی ہے کہ اقوام متحدہ کی قرارداد ۲۲۵۴ جس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کے نمائندوں پر مشتمل عبوری حکومت بنانے کا کہا گیا تھا، وہ قرارداد غیرمؤثر ہو چکی ہے کہ بشار الاسد کا نظام زمین بوس ہوچکا ہے۔ تاہم، ملک شام کے لیے نئے دستور اور آزادانہ نئے انتخابات کی ضرورت برقرار ہے ۔

۴- اخوان المسلمون اس موقع پر تجویز کرتی ہے کہ عبوری دور میں دستوری تضادات سے بچنے کے لیے اور جب تک کہ نئے دستور کی تشکیل کے لیے دستورساز اسمبلی وجود میں نہیں آجاتی، ۱۹۵۰ء کے دستور کو نافذ العمل قرار دیا جائے۔ دستور بنانے کے بعد قانون ساز اسمبلی اور صدارت کے لیے نئے آزادانہ انتخابات کا انعقاد کروایاجائے۔

۵- سابقہ بعث پارٹی کے نظام میں شریک ان تمام لوگوں پر جن کے ہاتھ شامیوں کے خون سے آلودہ ہیں ،خواہ وہ لوگ شام میں موجود ہیں یا شام سے باہر ان مجرموں کوگرفتار کیا جائے ، اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ان پر باقاعدہ مقدمات چلائے جائیں۔

۶-ایک وزارت برائے لاپتا افراد وشہدا قائم کی جائے جو ان افراد کے حالات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرے جو لاپتہ ہیں یا شہید کر دیئے گئے ہیں۔ ان کے خاندانوں کی کفالت کرے اور جو لوگ متاثرین ہیں ان کی دادرسی کرے اور ان کے خاندانوں اور وارثوں کو ان کا شرعی اور قانونی حق اور عوضانہ دلائے۔

۷-اسی طرح ہم یہ بھی تجویز کرتے ہیں کہ ایک ایسا ادارہ بنایا جائے جو صرف اور صرف شام کے لوٹے ہوئے اور یہاں سے لے جائے گئے مال و دولت کا سراغ لگانے اور شامی قوم کو اس کے اثاثے واپس دلانے کے لیے مختص ہو۔

۸-ماہرین پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی جائے، جو ان تمام ظالمانہ ایمرجنسی قوانین کی تصحیح کرے جن کے ذریعے شامی باشندوں کی آزادیوں کی پامالی کی گئی اور نظریاتی وابستگی کو ان کا جرم بنا دیا گیا۔ علاوہ ازیں سول افراد کے فوجی عدالتوں میں ہر قسم کے مقدمات کا سلسلہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند اور یکسر موقوف کرے۔

۹- قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ یہ ادارہ حقیقی معنوں میں شام کے باشندوں کی سیکیورٹی ،اورامن عامہ کو یقینی بنا سکے اور اسی طرح ملک کی مسلح افواج کی تشکیلِ نو کی جائے تاکہ مسلح افواج وطن کی سرحدوں کی مؤثر حفاظت کر سکیں۔

۱۰- ایسے بین الاقوامی تعلقات قائم کیے جائیں جن کی بنیاد باہمی خیرخواہی اور منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو اور کسی بھی ملک کو داخلی معاملات میں دخل اندازی کی اجازت نہ دینا ہی ریاستوں کے استحکام اور استقرار کی بنیاد ہے۔