جنوری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

اقبال اور پارلیمانی اجتہاد کے تجربات

پروفیسر نیازعرفان | جنوری ۲۰۲۵ | اقبالیات

Responsive image Responsive image

’پارلیمانی اجتہاد‘ کے بارے میں علّامہ محمد اقبال کے نظریات ہمیں ان کے سات خطبات تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ  میں شامل چھٹے خطبے بعنوان ’اسلام کی ساخت میں حرکت کا اصول‘ (The Principle of Movement in the Structure of Islam) میں ملتے ہیں۔ اس میں انھوں نے ’اجتہاد فی الاسلام‘ پر تفصیلی بحث کی ہے اور اجتہاد کو اسلامی قانون سازی میں حرکت اور جدت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔

’پارلیمانی اجتہاد‘ پر گفتگو کرنے سے پیش تر آیئے لفظ ’اجتہاد‘ کا مفہوم متعین کرلیں۔ یوں تو اس کی کئی تعریفیں کی گئی ہیں، جن میں قابلِ ذکر وہ تعریف ہے جو پاکستان عائلی کمیشن نے کی تھی جو یہ ہے: ’’لفظ اجتہاد کے معنی کوشش کے ہیں اور اسلامی قانون کی اصطلاح میں اس کا مفہوم کسی قانونی مسئلے پر آزادانہ رائے قائم کرنے کا ہے‘‘، جب کہ علّامہ محمد اقبال نے اپنے مذکو رہ بالا خطبے میں اس کی تعریف یوں کی تھی: ’’لغوی اعتبار سے تو اجتہاد کے معنی ہیں کوشش کرنا لیکن فقہ اسلامی کی اصطلاح میں اس کا مطلب ہے وہ کوشش، جو کسی قانونی مسئلے میں آزادانہ رائے قائم کرنے کے لیے کی جائے‘‘۔میری نظر میں یہ تعریفیں اور اجتہاد کی بعض دیگر تعریفیں جو میری نظر سے گزری ہیں، عمومی نوعیت کی ہیں۔ میں اجتہاد کی تعریف ان الفاظ میں کرنا موزوں سمجھتا ہوں: ’’لفظ اجتہاد کا لغوی معنی تو کوشش کرنا ہے، مگر اصطلاحی معنٰی ہے اسلامی معاشرے میں کسی نئی صورتِ حال یا کسی نئے مسئلے کے پیش آنے پر عمیق غوروفکر کے بعد قرآن و سنت اور صحابہ کرامؓ اور فقہائے عظام کی آراء کی روشنی میں اور اسلام کی روح کے مطابق آزادانہ رائے قائم کرنا یا قانون سازی کرنا‘‘۔

اجتہاد،حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایما پر ہی شروع ہوا تھا، اور اس کی نوعیت، ماخذ اور اس کے طریقِ کار کا تعین بھی خود حضور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرما دیا تھا، جب آپؐ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کو یمن کا قاضی مقرر فرمایا تھا اور پوچھا تھا کہ معاملات کا فیصلہ کیسے کرو گے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’کتاب اللہ کے مطابق‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: ’’لیکن اگر کتاب اللہ نے ان میں تمھاری رہنمائی نہ کی تو پھر؟‘‘ حضرت معاذؓ نے جواب دیا کہ ’’پھر اللہ کے رسولؐ کی سنت کے مطابق‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر استفسار فرمایا: ’’لیکن اگر سنت ِ رسولؐ بھی ناکافی ٹھیری تو؟‘‘ اس پر حضرت معاذؓ نے جواب دیا: ’’تو پھر خود ہی کوئی رائے قائم کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔ اس جواب پر حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسرت اور تشکر کا اظہار کیا تھا (روایت عبدالبر)۔

خلفائے راشدینؓ نے بھی اسی طریق کار پر عمل کیا۔ چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کے نام اپنے خط میں اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا: ’’جو مسائل ایسے پیش آئیں، جن کا حکم کتاب اللہ اور سنت ِ رسولؐ اللہ سے معلوم نہ ہو، ان پر بڑے تحمل و تدبّر، بڑی زیرکی و ذکاوت سے کام لینا۔ اور ان کے شواہد اور نظائر کو سامنے رکھنا۔ پھر جب کسی نتیجے پر پہنچ جانا تو فیصلہ کرتے وقت وہی فیصلہ کرنے کی سعی کرنا جو خدا کو پسند اور حق سے قریب تر ہو‘‘۔ آپ نے قاضی شریح کے نام بھی جو ہدایت نامہ ارسال کیا تھا اس میں لکھا تھا: ’’جب تمھارے سامنے کوئی مسئلہ پیش آئے جس میں رائے دینا ضروری ہو، تو سب سے پہلے کتاب اللہ میں اس کا حکم تلاش کرکے اس کے مطابق فیصلہ کرو، کتاب اللہ میں نہ ملے تو سنت ِ نبویؐ سے رجوع کرو۔ اگر سنت ِ نبویؐ بھی خاموش ہو تو جو فیصلہ اس قسم کے معاملے میں صلحا اور اَئمہ عدل نے کیا ہو اس کو سامنے رکھو۔ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر غوروفکر کرکے اجتہاد کرو‘‘۔

علّامہ اقبال کی رائے میں تاریخِ اسلام میں اجتہاد سے کم ہی فائدہ اُٹھایا گیا ہے۔ وہ اس کی ضرورت پر زور دیتے ہیں اور نیک نیتی سے کیے جانے والے اجتہاد ہی کے بارے میں فرماتے ہیں:

تراش از تیشۂ خود جادۂ خویش
براہ دیگراں رفتن عذاب است

گر از دستِ تو کارِ نادر آید
گنا ہے ہم اگر باشد ثواب است

[اپنا راستہ اپنے تیشے سے خود بنا، دوسروں کے بنائے ہوئے راستے پر چلنا عذاب ہے۔ اگر تیرے ہاتھ سے کوئی نادر کام ہوجائے، اگر وہ گناہ ہے تو بھی تجھے اس کا ثواب مل جائے گا۔]

علّامہ محمد اقبال نے اجتہاد کے چار ماخذ بیان کیے ہیں: یعنی قرآن، سنت ِ رسولؐ، اجتہاد اور قیاس۔ میری ناچیز رائے میں اجتہاد کے اصل ماخذ تو دو ہی ہیں، یعنی قرآن اور سنت، جب کہ اجماع اور قیاس، اجتہاد کے طریق کار ہیں۔ یعنی ’قیاس‘ انفرادی اجتہاد ہے اور ’اجماع‘ اجتماعی اجتہاد۔

علّامہ محمد اقبال کے نزدیک اجتہاد کے تین درجے ہیں: یعنی اوّل قانون سازی یا تشریح میں کامل آزادی، جس سے چاروں فقہوں کے بانیوں نے فائدہ اُٹھایا۔ دوم محدود آزادی جو کسی فقہ کی حدود کے اندر ہی استعمال کی جاتی رہی ہے، اور سوم ایسی آزادی جس کا تعلق کسی ایسے مسئلے میں، جسے فقہ کے بانیوں نے جوں کا توں چھوڑ دیا، قانون کے اطلاق سے ہو۔علّامہ اقبال نے صرف پہلے درجے کے اجتہاد پر بحث کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ نظری طور پر اجتہاد کی اجازت ہونے کے باوجود چار فقہی مسالک قائم ہونے کے بعد اجتہاد کو ترک کر دیا گیا اور اجتہاد کے لیے کڑی شرائط لگادی گئیں، جن کا پورا ہونا محال تھا۔ اس جمود کو امام ابن تیمیہؒ نے توڑا۔ ان کے نقشِ قدم پر چل کر سولھویں صدی میں سیوطی نے بھی آزادیٔ اجتہاد کا دعویٰ کی۔ بعد میں امام ابن تیمیہؒ کے نظریے سے متاثر ہوکر کئی تحریکیں اُٹھیں جو کسی نہ کسی شکل میں اب بھی چل رہی ہیں۔

اجتہاد کے بارے میں علّامہ اقبال کا نظریہ بھی یہی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو ماضی میں کی گئی اجتہادی کاوشوں کے نتیجے میں قائم کیے گئے فقہی مسالک تک محدود نہیں کرلینا چاہیے، بلکہ نئے دور کے مسائل کے حل کی خاطر اجتہاد کے لیے نئے ادارے بنانے چاہییں۔ وہ ’انفرادی اجتہاد‘ کی نسبت ’اجتماعی اجتہاد‘ کو ترجیح دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وہ ’اجماع‘ کو ’اسلام کے قانونی تصورات میں سب سے زیادہ اہم‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے خیال میں اجتہاد کو مسلم ممالک میں ایک مستقل ادارے کی شکل اختیار کرلینی چاہیے تھی لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوسکا۔ اس سلسلے میں وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے ذہن میں ابھی اجماع کی قدروقیمت اور اس کے مخفی امکانات کا شعور پیدا ہورہا ہے۔ بلادِ اسلامیہ میں جمہوری روح کی نشوونما اور قانون ساز اسمبلیوں کا بتدریج قیام ایک بڑا ترقی افزا اقدام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مذاہب ِ اربعہ کے نمائندے جو سردست فرداً فرداً اجتہاد کا حق رکھتے ہیں، اپنا یہ حق قانون ساز اسمبلیوں یعنی پارلیمانوں کو منتقل کردیں گے۔ یوں بھی مسلمان چونکہ متعدد فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، اس لیے ممکن بھی ہے تو اجماع کی یہی شکل۔ مزیدبرآں غیرعلما بھی جو اِن اُمور پر بہت گہری نظر رکھتے ہیں، اس میں حصہ لے سکیں گے۔

اس طویل اقتباس سے یہ بخوبی ثابت ہوجاتا ہے کہ علّامہ اقبال ’انفرادی اجتہاد‘ کی نسبت پارلیمان یا قانون ساز اسمبلی کے ذریعے اجتہاد کے قائل تھے۔ لیکن اس عمومی نتیجے سے یہ سمجھ لینا صحیح نہ ہوگا کہ پارلیمان کی جس شکل سے ہم پاکستان اور اکثر مسلم ممالک میں متعارف ہیں، علّامہ اقبال اسے اجتہاد کا حق دینے کے قائل تھے۔ پارلیمانی اجتہاد کے بارے میں علّامہ اقبال کا صحیح صحیح منشاء معلوم کرنے کے لیے ہمیں پورے کے پورے چھٹے خطبے، بلکہ ساتوں خطبات اور ان کے ساتھ ہی ساتھ منظوم افکار کو بھی پوری طرح نظر میں رکھنا ہوگا۔اس سلسلہ میں درج ذیل نکات قابلِ غور ہیں:

            ۱-         قانون ساز اسمبلی کے ذریعے اجتہاد کے ضمن میں آپ نے یہ بھی لکھا: ’’ہندستان میں البتہ یہ امر کچھ ایسا آسان نہیں کیو نکہ ایک غیرمسلم اسمبلی کو اجتہاد کا حق دینا شاید کسی طرح ممکن نہ ہو‘‘۔ اب چونکہ بیش تر مسلم ممالک کی پارلیمانوں میں غیرمسلم ارکان بھی شامل ہوتے ہیں، اس لیے علّامہ اقبال نے ہندستان کی اسمبلی کے بارے میں جس مشکل کا اظہار کیا ہے وہ سب جگہ پیش آئے گی۔

            ۲-         علّامہ اقبال جمہوریت کے تو قائل تھے، لیکن وہ مغربی جمہوریت کے سخت ناقد تھے، مثلاً آپ کے یہ شعر لیجیے:

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

ہے وہی سازِ کہن مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

گریز اَز طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ اَز مغزِ دو صد خر فکرِ انسانے نمی آید

[طرزِ جمہوری سے گریز کر، کسی مردِ پختہ کار کا دامن پکڑ، کیونکہ دو سو گدھے مل کر بھی ایک انسان کی طرح نہیں سوچ سکتے۔]

            ۳-         عام انتخابات کے ذریعے چُنے جانے والے بیش تر مسلم نمائندے بھی نہ صرف دین سے نابلد ہوتے ہیں بلکہ ہمارے ملک میں ان کی اکثریت اَن پڑھ، نیم خواندہ اور جاہل ہوتی ہے۔ وہ جو اجتہاد کریں گے ہم اس کی صحت کا بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’موجودہ زمانے میں تو جہاں کہیں مسلمانوں کی کوئی قانون ساز اسمبلی قائم ہوگی، اس کے ارکان وہی لوگ ہوں گے جو فقہ اسلامی کی نزاکتوں سے ناواقف ہوں گے۔ اس قسم کی اسمبلیاں شریعت کی تعبیر میں بڑی شدید غلطیاں کرسکتی ہیں‘‘۔

علّامہ اقبال اس قسم کے اجتہاد سے تقلید کو بہتر قرار دیتے ہیں:

ز اجتہادِ عالمانِ کم نظر
اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر

[کوتاہ نظر عالموں کے اجتہاد سے اسلاف کی پیروی (خطرات سے) زیادہ محفوظ ہے۔]

گرمیِ گفتارِ اعضائے مجالس ، الاماں!
یہ بھی اِک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری

علّامہ محمد اقبال نے اس مشکل کے ایک حل کی طرف اشارہ کیا ہے، جو ۱۹۰۶ء کے ایرانی آئین میں پیش کیا گیا تھا اور انقلابِ ایران کے بعد بھی غالباً یہی صورت ہے۔ وہ یہ ہے کہ پارلیمان سے علیحدہ اور شاید بالاتر شیعہ فقہا کی ایک مجلس قائم کی گئی، جو قانون سازی کے لیے پارلیمان کی رہنمائی کرتی ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے اسے خطرناک چیز قرار دیا ہے کہ علما بحیثیت نائبینِ امام غائب قوم کی ساری زندگی کی نگرانی کریں۔ علّامہ محمد اقبال لکھتے ہیں:

گو میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سلسلۂ امامت کی عدم موجودگی میں وہ اپنا یہ دعویٰ کس طرح ثابت کرسکتے ہیں؟ بہرحال ایرانی نظریۂ آئین کچھ بھی ہو یہ انتظام بڑا خطرناک ہے۔ علّامہ اقبال نے مسلم ممالک میں فقہ کی تعلیم کی اصلاح کی بھی سفارش کی ہے۔

پاکستان میں دینی اُمور میں قانون سازی کے لیے پارلیمان کی مدد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل قائم کی گئی ہے۔ علاوہ اَزیں ادارہ تحقیقات اسلامی اور وفاقی شرعی عدالت کو بھی اس سلسلے میں کچھ کام تفویض کیا گیا ہے۔ لیکن ان کے کام سے استفادے کا انحصار حکومت ِ وقت کے مزاج پر ہوتا ہے۔ اب تک بیش تر ان کے کام کو نظرانداز کیاجاتا رہا ہے۔

            ۴-         ایک ہی مسئلے پر مختلف ممالک کی پارلیمانیں مختلف اجتہاد کرسکتی ہیں۔ اس طرح اجتہاد عالم اسلام میں اتحاد کے بجائے انتشار کا سبب بن سکتا ہے۔

            ۵-         چونکہ اجتہاد بذریعہ پارلیمان اجماع ہی کی ایک شکل ہے اور اجماع کو ’اجتماعی قیاس‘ قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ’پارلیمانی اجتہاد‘ پر بھی وہ شرائط لاگو ہونی چاہییں، جو ’قیاس‘ کی صورت میں اجتہاد کرنے والوں پر عائد کی گئی ہیں۔

اس تمام بحث کے بعد ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ عصرِحاضر میں علّامہ اقبال کا مطمح نظر ایک ایسا بین الاقوامی ادارہ قائم کرنا تھا، جو ایسے جید علما پر مشتمل ہو، جو نہ صرف دینی اُمور میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ دُنیوی علوم سے بھی لیس ہوں۔ یہ علما ہر مسلک اور مکتب ِفکر سے تعلق رکھتے ہوں لیکن فرقہ پرستی میں ملوث نہ ہوں اور وہ بریلوی، دیوبندی، سلفی اور شیعہ بن کر نہ سوچیں، بلکہ مسلم بن کر سوچیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام لے کر آئے تھے، کوئی فرقہ لے کر نہیں آئے تھے۔ میری رائے میں اس ادارے کا نام ’’بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد‘‘ رکھا جاسکتا ہے۔ یہ بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد، ’اسلامی تعاون تنظیم‘ (OIC) کے ذیلی ادارے کے طور پر بھی قائم کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بیش تر مسلکوں کے تعصب کی بیخ کنی کرکے اسلامی اتحاد قائم کرنا ہوگا۔

اس سلسلے میں تجویز کروں گا کہ اس ’’بین الاقوامی مجلس دینی تحقیق و اجتہاد‘‘ کاپہلا موضوع تحقیق و اجتہاد یہ معلوم کرنا ہو کہ جس روز حضو ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا۝۰ۭ (المائدہ ۵:۳) نازل ہوئی تھی، اس روز دینِ اسلام کی شکل کیا تھی؟ چونکہ اللہ تعالیٰ نے خود کہا ہے کہ آج میں نے دینِ اسلام مکمل کردیا ہے، اس لیے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ دیکھنا ہوگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں کلمہ، اذان، زکوٰۃ، نماز، حج، نکاح، طلاق، معیشت، معاشرت وغیرہ کی کیا شکل تھی؟ اتفاق رائے یا کثرتِ رائے سے اور اتحاد کے جذبے سے دین کی وہ شکل معلوم کرکے یا اجتہاد کرکے تمام مسلم ممالک اور معاشرے دین کی اس شکل کو اختیار کریں۔ اس طرح رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد ِعظیم بھی واضح ہوگا، جو کہ قرآن کے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے: ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ   لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ۝۰ۙ (التوبہ ۹:۳۳) ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دینِ  حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کردے‘‘۔