اسلام محض ایک روایتی مذہب نہیں___ یہ ایک مکمل دین اور جامع نظام زندگی ہے، جو عقیدے، عبادات، انفرادی اخلاق، اجتماعی نظام، قانون، عدالت، دعوت و تبلیغ اور ان کے زیر اثر وجود میں آنے والی عالم گیر اور درخشاں تاریخی روایت سے عبارت ہے۔ اسلام کی یہ جامعیت ایک نظری و عملی حقیقت اور اس کی امتیازی شان ہے۔
جہاں اس امر واقعہ کا احساس اور اس پر افتخار بجا ہے، وہاں اس بات کا اعتراف بھی ضروری ہے، کہ آج بڑی حد تک مسلم دنیا میں اور خصوصیت سے پاکستان میں مسلم معاشرہ اپنی اصل شان کھو رہا ہے۔ بنیادی طور پر ایک ’اسلامی معاشرے‘ کے بجائے آج ہمارا واسطہ ایک ایسے مخلوط معاشرے سے ہے، جس میں اسلام اور جاہلیت گڈمڈ نظرآتے ہیں۔ ایک طرف اسلامی تعلیمات اور ہماری تہذیبی روایات کی روشن جھلکیاں ہیں، تو دوسری طرف قدیم روایت کے جاہلی تاریخی اثرات اور مغربی تہذیب و ثقافت کے بڑھتے ہوئے تاریک سائے ہیں۔ بہت سی خیر اور بظاہر بڑی قیمتی دینی علامات کی موجودگی کے باوجود بڑے پیمانے پر معاشرہ غفلت کا شکار ہے۔ اسلامی روح اور اس جوہر کی کمی نظر آتی ہے، جو فکر و نظر اور معاشرے اور تمدن کو امتیازی اسلامی شان عطا کرتا ہے۔ بقول علّامہ محمداقبال ؎
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں، تو باقی نہیں ہے
اس غفلت اور محرومی کا احساس اس وقت شدید ترہو جاتا ہے، جب معاشرے میں کوئی چونکا دینے والا واقعہ رونما ہو جاتاہے اور سارے دل خوش کن دعوؤں اور احساسات کے باوجود، ایک لمحے کے لیے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں ہمارا حال بھی خوش فہمی میں مبتلا اس خودپسند بادشاہ کا سا تو نہیں، جو برہنہ ہونے کے باوجود اس زعم میں مبتلا تھا کہ وہ قیمتی لباس میں ملبوس ہے، اور ایک بچے کے معصوم مگر بے باک اظہارِ خیال نے کہ ’’بادشاہ تو ننگا ہے‘‘، اس کی خود پسندی اور خودستائی کا سارا طلسم کافور کر دیا۔بالکل اسی طرح معاشرے میں اچانک رونما ہونے والے حادثات، ہمارے معاشرتی افلاس کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔
چند برس پہلے ہماری عدالت اور ہماری صحافت ایک ایسے ہی چونکا دینے والے واقعے کے مالہ و ماعلیہ سے نبرد آزما رہی ہے___ جس میںوالدین کے خلاف ایک دینی گھرانے کی نوجوان لڑکی کی بغاوت، ’’پسند کی شادی‘‘، گھر سے فرار، تھانے اور کچہری کے چکر، مقدمہ بازی، قیدورہائی، اپنوں کی گراں باریاں، نام نہاد این جی اوز کی کارستانیاں، انسانی حقوق کے نام لیوائوں کی کرم فرمائیاں، میڈیا کی کرشمہ سازیاں، ملکی ہی نہیں بین الاقوامی ایجنسیوں کی دلچسپیاں___ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک تکلیف دہ واقعے کا عدالتی تصفیہ مطلوب نہیں بلکہ اسلام، اس کے ’عائلی قانون‘ (Family Law)بلکہ پوری مسلم تہذیبی روایت پر تارکول پھیرنے کی کوشش اور وہ بھی میڈیا ٹرائل کی شکل میں اصل ہدف ہے۔ ایک خاندان ہی نہیں پورا ملک اس کرب ناک عمل سے گزرا ہے، اور عدالت کے فیصلے کے بعد بھی میڈیا ٹرائل جاری رہا۔ گویا دو نظریات اور دو تہذیبی روایات دست و گریبان ہیں!
اس طرح یہ واقعہ محض ایک فرد یا ایک خاندان کا مسئلہ نہ رہا، بلکہ ایک ایسی بحث کا عنوان بن گیا، جس کی زد میں ہمارا خاندانی نظام بلکہ پوری اسلامی معاشرت آئی۔ نیز اجتماعی اصلاح اور بگاڑ کے سلسلے میں والدین، عدالت اور صحافت کے رول اور ذمہ داریوں کے بارے میں بھی غوروفکر کے متعدد گوشے اس قضیے میں سامنے آئے۔ ان تمام پہلوئوں پر تفکر اور عبرت کی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے، تاکہ اصلاحِ احوال کے لیے مناسب تدابیر اور اقدامات کی نشان دہی کی جا سکے۔
زندگی کے ان تلخ حقائق اور معاشرے کے رستے ہوئے ناسوروں سے صرفِ نظر کرنا یا ان پر پردہ ڈالنا مسائل کا حل نہیں___ آنکھیں بند کرنے سے خطرات کبھی ٹلا نہیں کرتے، ان کا بہادری سے مقابلہ ہی تاریکیوں کو روشنی میں بدل سکتا ہے۔ آج بھی ضرورت ہے کہ ٹھنڈے دل سے مرض کی تشخیص اور صبر و ہمت سے علاج کا سامان کیا جائے۔
جن خاندانی، معاشرتی اور تہذیبی مسائل سے اس وقت ہمارا معاشرہ دو چار ہے، وہ محض کسی خاص فرد یا چند افراد اور خاندانوں کا معاملہ نہیں اور مسئلہ بھی صرف یہ نہیں ہے کہ: ’’ایک مسلمان لڑکی اپنی مرضی سے شادی کر سکتی ہے یا نہیں؟ــ’’یا ولی کی مرضی کی قانونی حیثیت کیا ہے؟‘‘
بلاشبہ یہ معاملات بھی اپنی جگہ اہم ہیں اور شریعت نے ان کے بارے میں بہت واضح رہنمائی فراہم کی ہے، لیکن اس وقت سب سے اہم یہ سوالات ہیں کہ:
کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہمیں دعوتِ عمل نہیں دے رہا:
جب کچھ لوگ کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر رہے ہوں تو کشتی کے دوسرے لوگوں کو خاموش اور بے نیاز نہیں رہنا چاہیے…اب اگر وہ اس کا ہاتھ پکڑتے ہیں تو اسے بھی بچاتے ہیں اور خود بھی بچتے ہیں۔ لیکن اگر اسے چھوڑ دیتے ہیں (یعنی کشتی میں سوراخ کرنے دیتے ہیں) تو اسے بھی ہلاک کرتے ہیں اور خود بھی ہلاک ہوتے ہیں۔ (مشکوٰۃ)
ہم پورے شرح صدر کے ساتھ اور مشرق و مغرب کا ذاتی مشاہدہ کرنے کے بعد یہ اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ آج کا مسلم معاشرہ اپنی تمام تر کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باوجود اپنے اندر بڑا خیر رکھتا ہے اور اخلاق اور سماجی استحکام کے اعتبار سے مغرب کے نام نہاد ترقی یافتہ معاشرے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے، جس پر اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے، بلکہ اس کا اعتراف نہ کرنا کفرانِ نعمت کے مترادف ہوگا۔
جن لوگوں کی نگاہ مغربی تہذیب اور اس کے جلو میں آنے والی اخلاقی تباہی، خاندانی نظام کی زبوں حالی، عصمت و عفت کی تحقیر و تذلیل اور بے حیائی اور بے وفائی کی توقیر، بچوں کی کسمپرسی، بے باپ گھرانوں کی کثرت، طلاق کی فراوانی اور ان کے جلو میں رونما ہونے والے طوفانوں پر ہے۔ وہ پکار رہے ہیں ؎
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے لیے اس کا ثمر موت
نوبیل پرائز یافتہ فرانسیسی سائنس دان الیکس کاریل (Alexis Carrel) ۱۹۳۵ءمیں اس نسبت سے علامہ محمد اقبال کا ہم نوا ہو کر اپنی کتاب Man The Unknown (انسان نامعلوم) میںکہتا ہے:
ہم جائز و ناجائز کی تمیز کھو چکے ہیں، ہم نے طبیعی قوانین کی خلاف ورزی کرکے ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا ہے جس کا مرتکب سزا پائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ جب بھی کوئی شخص زندگی سے ناجائز امر کی اجازت لیتا ہے، زندگی اس کے جواب میں اسے کمزور بنا دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ [مغربی] تہذیب رُوبہ زوال ہے۔
لیکن یہ کیاستم ہے کہ آج اس رُوبہ زوال مغربی تہذیب و ثقافت کے تاریک سائے ہمارے نظامِ معاشرت و تمدن پر بڑھتے ہی جا رہے ہیں اور ہماری بنیادی اقدار اور روایات بھی ان کی زد میں ہیں؟ اس کی بنیادی وجہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے ناواقفیت اور اس حقیقت سے پہلو تہی ہے کہ فی الواقع ہمارا اپنا معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بلکہ ایک ایسا مخلوط معاشرہ ہے، جس میں اسلامی تعلیمات اور روایات کے ساتھ قدیم ہندو جاہلی تہذیب کی بہت سی روایات مل جل گئی ہیں۔
اسلام کے احکامات اور تعلیمات کے کچھ اجزا ضرور ہماری روایت کا حصہ ہیں، لیکن اس کے بہت سے دوسرے نہایت اہم اجزا ہم نے شعوری یا غیر شعوری طور پر ترک کردیے ہیں۔ اس طرح شریعت کے مقاصد اور اس کے اصل مشن اور روح سے ہم بے پروا ہو گئے ہیں۔ اس سب پر مستزاد مغربی افکار و اقدار کے اثرات ہیں،جو ہماری معاشرت کا شیرازہ منتشر کیے چلے جا رہے ہیں۔ یہ تباہی صرف مغرب کی فکری یلغار اور میڈیا کے سامراجی حملوں ہی کے ذریعے نہیں آ رہی بلکہ ہم ہی میں سے کچھ عناصر اس مغربی ثقافتی امپزیلزم کے کارندوں اور اس دور کے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس لیے ضروری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو جاہلی اثرات سے بالکل نمایاں طور پر واضح کیا جائے۔ خاندان اور معاشرت کے حقیقی اسلامی تصور کو اسلامی احکام اور ان کی روح کے مطابق سمجھا اور نافذ کیا جائے۔ مغرب کی اندھا دھند نقالی سے پرہیز کیا جائے اور خالص اسلامی بنیادوں پر فرد اورمعاشرے کی تعلیم اور تشکیلِ نو کی جائے۔ یہی وہ راستہ ہے جس پر چل کر ہم اسلام کی تمام برکتوں سے فیض یاب ہو سکیں گے اور وقت کے چیلنج کا جواب دینے کے لائق بن سکیں گے۔
اسلامی معاشرے کی بنیاد مسلمان فرد اور مسلمان خاندان ہے۔
اسلام نے انسانی اجتماعی زندگی کے ان دونوں بڑے مسائل یعنی: مرد اور عورت کے رشتے اور فرد اور اجتماع کے تعلق___ کو بڑی خوش اسلوبی سے حل کیاہے۔ بلاشبہ انسانی تاریخ کے بڑے بڑے تہذیبی فتنے انھی دونوں رشتوں میں بگاڑ، افراط و تفریط اور کمزوری و انتشار کے پیدا کردہ ہیں۔
اسلام نے اپنی دعوت کا اوّلیں مخاطب فرد کو بنایا ہے اور اس کے قلب و نظر کو ایمان کا گہوارہ قرار دیا ہے۔ ہر فرد کی سیرت سازی اس کا پہلا ہدف ہے۔ اسلام ہر مرد اور عورت کو ایک اسلامی شخصیت سے آراستہ کر کے ہی معاشرتی اور تہذیبی انقلاب برپا کر تا ہے۔ فرد کو سنوارنے کے ساتھ ساتھ اسلام اس کا رشتہ معاشرے سے جوڑتا ہے اور اس کے لیے ایسے ادارے قائم کرتا ہے، جو زندگی میں استحکام پیدا کر سکیں اور تمام انسانوں کی قوت وصلاحیت کو تعمیر و ترقی کے لیے استعمال کرسکیں۔ اسلامی اجتماعیت میں فرد، معاشرے اور ریاست کے درمیان تعلق کش مکش اورمحض حقوق کی جنگ سے عبارت نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل بنیاد ہمدردی، تعاون، احترام، ایثار اور تکافل کا رشتہ ہے۔ شریعت کی روشنی میں دونوں کے رول متعین ہیں اور دونوں ایک ہی مقصد___ یعنی اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے مصروفِ کار ہیں۔
اس طرح مرد اور عورت کا رشتہ بھی الہامی ہدایت کے تحت استوار کیا گیا ہے۔ خاندان کا نظام محض انسانی تجربے کا حاصل اور ٹھوکریں کھانے کے بعد کسی موہوم معاشی مفاد کے حصول کا ذریعہ نہیں (جیسا کہ کارل مارکس، اینجلز اور درکھیم نے اپنے اپنے انداز میںکہا ہے) بلکہ یہی پہلا انسانی ادارہ ہے، جسے وحی الٰہی کے تحت قائم کیا گیا اور جس سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوتا ہے۔ اللہ کی شریعت نے اس ادارے کے مقاصد اور خطوطِ کار متعین کر دیے ہیں اور اسلامی تہذیب و ثقافت کا پودا تناور اور پھل دار درخت اس بیج کی پیداوار ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے:
یہاں زوجی رشتے اور نسل کے تخلیقی عمل کے تعلق کو واضح کر کے خالق کائنات نے اس ادارے کی ابدی حکمت کی طرف انسان کو متوجہ کیا ہے۔
پھر قرآنِ عظیم میں خاندان کے دوسرے وظیفے یعنی محبت، مودت اور سکینت کو نمایاں کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
اسلام نے خاندان کے نظام کو جو تقدس عطا کیا ہے، وہ منفرد ہے۔ یہ محض انسان کی تلاش و جستجو اور تجربے سے حاصل ہونے والا ادارہ نہیں بلکہ اللہ کا قائم کردہ نظام ہے، جو انسان کی فطرت کا تقاضا ہے اور معاشرے اور تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس الہامی طور پر قائم ہونے والے ادارے کے بارے میں ساری ضروری ہدایات خود اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں فراہم کر دی گئی ہیں۔
قرآن پاک میں جو قانونی احکام ہیں، ان کا دو تہائی حصہ صرف خاندان کے مسائل کے بارے میں ہے۔ مسلم معاشرے کو آج تک اسلام کی بنیاد پر قائم رکھنے اور ہر انحراف کے بعد اصل کی طرف رجوع کی تحریک پیدا کرنے والے عوامل میں سب سے اہم، قرآن و سنت کی موجودگی کے بعد خاندان ہی کا ادارہ ہے، جو ہمارا اصل قلعہ اور مامن رہا ہے۔ جس کے حصار میں اس امت نے بڑے سے بڑے فتنے کے مقابلے میں پناہ لی ہے اور جس سے وہ انسان پیدا ہوتے رہے ہیں، جن کے ہاتھوں تجدید واحیا کی نئی تاریخ رقم ہوئی ہے۔
مسلمان خاندان اور خصوصیت سے ’مسلمان ماں‘ وہ اہم ترین جائے پناہ رہی ہے، جس نے اس امت کو راہِ ثواب پر قائم رکھا ہے اور ہر پستی کے بعد نئی بلندی کی راہیں ہموار کی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج دشمن انھی چیزوں کو خاص نشانہ بنا رہا ہے، یعنی وحی اور الہامی ہدایت (قرآن و سنت اور خاندان کا نظام)۔ اس کا ہدف مسلمان عورت کو اس کے دین سے برگشتہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی پروگراموں سے لے کر مخصوص ایجنڈے کی حامل غیر ملکی اور ملکی این جی اوز اس تخریبی کام میں مصروف ہیں۔
اسلام میں خاندان کے نظام کا اپنا مخصوص مزاج اور متعین نظام ہے۔ اسے انسانی تہذیبوں کے دوسرے نمونوں(models) سے گڈمڈ اورکنفیوز نہیں کیا جانا چاہیے۔ خواہ ہندو مذہب اور سماج میںپروان چڑھنے والا تصور خاندان ہو، یا یونان، روم اور کلیسا کے دور کا خاندانی نظام، یا صنعتی انقلاب اور مغربی اقدار کے زیر اثر رونما ہونے والا مختصر بلکہ منتشر خاندان کا یورپی اور امریکی نمونہ___ ان سب کے مقابلے میں اسلام نے خاندان کا جو تصور دیا ہے، وہ بالکل مختلف اور منفرد ہے۔ اسے تاریخ کے پدری (partiachal) نظام یا مغربی ممالک کی نشات ثانیہ کے زیر اثر آزاد محبت گیری (romantic love) سے کوئی نسبت نہیں۔ اس لیے اس امر کی ضرورت ہے اسلام کے خاندانی نظام کی حقیقت اور اس کی روح کو اچھی طرح سمجھا جائے اور نئی نسلوں میں اس کی صحیح تفہیم پیدا کی جائے۔
اسلام میںنکاح محض شہوت کی تسکین کا ایک ذریعہ نہیں، اگرچہ جنسی عمل اور فطرت کے حقیقی تقاضوں کی جائز تسکین اس کا حصہ ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ایک نئے خاندان کے قیام کا ذریعہ ہے۔ دوخاندانوں میں نئے روابط کی ایک صورت، اور معاشرے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے اور استوار رکھنے کا ایک تخلیقی عمل ہے۔ اسی لیے ناجائز سے بچنے اور جائز ذریعے کو لائق اجر عمل قرار دیا گیا ہے۔
نکاح کی حیثیت اسلام میں ایک سنت اور کچھ حالات میں سنت موکدہ کی ہے۔ پھر نئے خاندان کے قیام کے عمل کو محض وقتی جذبات پر نہیں چھوڑا گیا، بلکہ اس کے لیے بڑے واضح اصولوں، ضابطوں اور ایسے تحفظات کا اہتمام کیا گیا ہے، جو خاندان کے قیام کو محض ایک کھیل اور تجربہ نہ بننے دیں۔
اسلام نے اپنے پوری عائلی نظام کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی ہے، وہ یہ ہیں:
۱-اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت، انسان کی خدائی کی جگہ رب العالمین کی حاکمیت کو تسلیم کرنا اور بندگی اور اطاعت کے راستے کو خوش دلی سے اور والہانہ انداز میں اختیار کرنا۔
۲-اللہ کی حاکمیت کے عقیدے کا لازمی نتیجہ انسانوں کی مساوات اور برابری، حقوق و فرائض کی پاس داری اور ایک ہی مقصد اور منزل کی جستجو میں رفاقت اور ہم سفری کا احساس اورتجربہ ہے۔ یہ تمام انسانوں کو، مرد اور عورت کو، شوہر اور بیوی کو، والدین اور اولاد کو، بزرگوں اور بچوں کو، غرض معاشرے کے ہر فرد کو ایک دوسرے سے ایک نئے رشتہ میں جوڑ دیتا ہے اورزندگی گزارنے کے لیے ایک نئے اسلوب اور آہنگ سے روشناس کرتا ہے، جسے قرآن نے بڑے خوب صورت انداز میں کامیابی کے معیار کی صورت میں پیش کیاہے:
دنیا اورآخرت میں برتری اور کامیابی کا معیار نہ تو جنس (gender)ہے، نہ نسب، نہ دولت اور نہ اقتدار، بلکہ مرد اور عورت سب کے لیے صرف تقویٰ ہی واحد معیار ہے:
اور پھر سورۂ توبہ میں مرد اور عورت کو ایک دوسرے کا رفیق اور مددگار بتایا ہے۔ دونوں کے لیے کارگۂ حیات میں ذمہ داریاں متعین کی ہیں، اور دنیا اور آخرت میں اصل کامیابی کا ایک ہی راستہ اورایک ہی معیار اس دو ٹوک انداز میں بیان فرما دیا:
مسلم خاندان اور مسلم معاشرہ زندگی اور کامیابی کے اسی انقلابی اصول پر قائم ہوتا ہے اوریہ مسلم امت کو ان تمام گمراہ کن بحثوں سے نجات دے دیتا ہے، جن میں دورِ غلامی سے لے کر، عصرِ حاضر کی مادر پدر آزادی تک کے انسانی سماج میں وہ اُلجھا رہا ہے۔ اسلام نے زندگی گزارنے کے لیے جو میدان (matrix) ہمارے لیے بنایا ہے، اور وہ سب سے جدا اور سب سے امتیازی نشان والا ہے۔
۳-اسلام کے عائلی نظام کی تیسری بنیاد مہرو محبت اور صلہ رحمی ہے۔ نکاح دراصل اخلاق اور عصمت کے تحفظ کے لیے قلعے کی مانند ہے اور اس قلعے کے مکین ایک دوسرے کے لیے تسکین، محبت اور رحمت کا سرچشمہ ہیں: لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْہَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً (الروم ۳۰:۲۱)۔ اور اس رشتے کو ایک دوسرے کے لباس کے قریبی رشتے سے تعبیر کیا گیا ہے: ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّہُنَّ(البقرہ۲:۱۸۷)۔اور پھر اس رحمت اور محبت کو ازواج یا اولاد تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ صلہ رحمی کے حکم کے ذریعے وسیع تر خاندان اور تمام دوسرے رشتہ داروں کو بھی اس کی ٹھنڈک اور مٹھاس میں شریک کر لیا گیا ہے۔
۴-اللہ کی حاکمیت، اس کے تحت رونما ہونے والی مساوات اور شرکتِ مقاصد، عصمت کی حفاظت اور محبت اور رحمت کے بعد چوتھی بنیاد عدل و انصاف ہے۔ اسلام میں کوئی انسان کسی بھی دوسرے انسان کی ملکیت نہیں ہے اور کوئی کسی کا تابع مہمل نہیں ہے۔ سب حقوق و فرائض کے ایک الہامی اور منصفانہ نظام کے پابند ہیں۔ اور اگر ایک طرف اختیارات اور ذمہ داریوں کی تقسیم اور خاندانی نظام کے کامیاب نظم کی خاطر مرد کو ایک درجہ فوقیت دی گئی ہے، تودوسری طرف اس کا اختیار بھی قانون کے تابع اور جواب دہی کے نظام سے مشروط ہے۔ جبراور من مانی کا اختیار (arbitrary power) شریعت الٰہی کے نظام میں کسی کو حاصل نہیں، نہ مرد کو، نہ عورت کو:
وَلَہُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْہِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ (البقرہ۲:۲۲۸) عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں۔ البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔
ہر فرد اپنے اعمال کا ذمہ دار اور ان کے لیے جواب دہ ہے:
وَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ مِنْ ذَکَرٍ اَوْاُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یُظْلَمُوْنَ نَقِیْرًا(النساء۴:۱۲۴)اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرّہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی۔
اختیارات ذمہ داریوں اور جواب دہی کے اس نظام کو رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے دل نشیں انداز میں بیان فرمایا ہے:
تم میں سے ہر شخص نگران ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ امام، نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی، آدمی اپنے اہل پر نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں باز پرس ہوگی، اورعورت اپنے گھر کی نگران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق باز پرس ہوگی۔(بخاری)
اس پس منظر میں آیت کریمہ: وَاَمْرُہُمْ شُوْرٰی بَیْنَہُمْ(الشوریٰ۴۲:۳۸)نے الٰہی قانون کے تحت منظم اور مرتب ہونے والے اس ادارے کے مزاج اور طرزِ کار کو بالکل واضح کردیا ہے۔ جس طرح اسلامی ریاست اور اسلامی معاشرہ ایک شورائی ریاست اور شورائی معاشرہ ہیں، اسی طرح اسلام میں خاندان بھی ایک شورائی ادارہ ہے۔ مولانا مودودی اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
اسلامی طرزِ زندگی یہ چاہتا ہے کہ مشاورت کا اصول ہر چھوٹے بڑے اجتماعی معاملے میں برتا جائے، گھر کے معاملات ہوں تو ان میں میاں اور بیوی باہم مشورے سے کام کریں، اور بچے جب جوان ہو جائیں تو انھیں بھی شریکِ مشورہ کیا جائے۔ خاندان کے معاملات ہوں تو ان میں کنبے کے سب عاقل و بالغ افراد کی رائے لی جائے۔(تفہیم القرآن، جلدچہارم، ص۵۰۹)
۵- عدل و انصاف اور مشاورت کے اس نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمان خاندان کی پانچویں بنیاد فرد کی معاشی آزادی اوراجتماعی تکافل کا ایک ایسا نظام ہے، جو مرد اور عورت کی عزّتِ نفس اور آزادی کی مکمل ضمانت کے ساتھ ان کے درمیان تعاون اور شراکت کا رشتہ استوار کرتا ہے۔ دونوں کو اپنی اپنی مِلک پر پورا اختیار دیتا ہے۔ مرد کو نان نفقہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اورعورت کو محض بچوں کی پرورش کرنے والی اور جبری طور پر گھر کا کام کاج کرنے والی نہیں بناتا، بلکہ ان تمام معاملات کو ان کی اہمیت اور خاندانی نظام کی ضرورت کے مطابق حقوق کی باہم پاس داری کے ساتھ انجام دلانا چاہتا ہے۔
اس کے ساتھ گھر کے اندر بھی اور خاندان اور معاشرے کے وسیع تر میدان میں ایک ایسا نظام قائم کرتا ہے، جو بھی مالی اعتبار سے مضبوط ہو، وہ مالی اعتبار سے کمزوروں کی مدد، ان کے ایک حق کی ادائیگی کے جذبے سے کرے۔ یہ عمل زندگی اور موت دونوں صورتوں میں جاری رہے، یعنی نفقہ، صدقات، صلہ رحمی، وراثت، ولایت، اور نفقہ الاقارب کے قوانین اور ہدایت کی روشنی میں۔
مسلم خاندان کی ان امتیازی خصوصیات پر اگر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے: lیہ نظام دوسری تہذیبوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خاندانی نظام سے بہت مختلف ہے۔ lیہ ایک دینی اور شرعی ادارہ ہے۔ اس کی حد بندی اور کارکردگی خود الہامی ہدایت کی روشنی میں اورآخرت کی کامیابی کے جذبے سے کی جاتی ہے۔ lیہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ lیہ انسانی فطرت کے تقاضوں کی تسکین اور تکمیل کے لیے ایک موزوں اور دل کش انتظام ہے۔ lیہ نئی نسلوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین گہوارہ ہے۔ lیہ جسم اورروح کو محبت، مودت اور سکینت سے شاد کام کرنے اور اس پاکیزہ فضا میں نئی نسلوں کو پروان چڑھانے کا ادارہ ہے۔ lیہ اپنے دین، تہذیب اور تمدن اور انسانی معاشرے کے علوم و فیوض سے روشناس کرانے کا ایک نظام ہے۔ lیہ معاشی تکافل اور سوشل سکیورٹی کا ایک فطری نظام ہے، جس میں عزّتِ نفس کی مکمل پاسداری کے ساتھ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بنتے ہیں اور سب کو معاشی دوڑ میں شرکت اور وسائل سے استفادے کا موقع دیتے ہیں۔ lخاندان کا یہ نظام سیرت کے نکھار، معاشرتی استحکام اور تہذیبی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔
ملت اسلامیہ کا اصل مشن ایسے خاندانی نظام کا قیام اور استحکام ہے، جو ان اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر ہو۔ آج جس بگاڑ سے ہم دو چار ہیں، وہ اچانک رونما نہیں ہوا اور محض کسی ایک سبب کی بنا پر پیدا نہیں ہوا ہے۔ خرابی کی اصل جڑ دین کے علم کی کمی، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور تعلیمات سے عدم واقفیت اور عملی غفلت ہے۔ مقصد ِزندگی کے شعور کی کمی، جاہلی افکار کا غلبہ، مؤثر قیادت کا فقدان اور معاشی ذمہ داریوں سے اغماض کا نتیجہ ہے۔ دورِ غلامی کے اثرات اور مغربی ثقافت کے زیر اثر حالات کا مزید بگاڑ، مفاد پرستی، محض معاشی اور مادی ترقی کے بتوں کی پوجا ہے۔ علما، مشائخ، اساتذہ، والدین اور میڈیا کا اپنے اصل فرائض کی انجام دہی میںکوتاہی برتنا اور بہت سے غلط اثرات کے فروغ کا ذریعہ بن جانا ہے۔ یہ ہیں وہ چند موٹے موٹے اسباب، جن کی وجہ سے یہ صورت حال رُونما ہوئی ہے۔
اصلاح کا راستہ بھی یہی ہے کہ ہم اپنی انفرادی واجتماعی ترجیحات کو درست کریں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی طرف خلوص اور یکسوئی کے ساتھ مراجعت کریں۔ اس وقت تو حال یہ ہے کہ ہم متضاد سمتوں کی طرف لپک رہے ہیں اور یوں دکھائی دیتاہے ؎
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک تیز رو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہ بر کو میں
ہم میں سے ہر شخص کو ان حالات پر بڑی سنجیدگی اور دل سوزی سے غور کرنا چاہیے اوربحیثیت فرد اور من حیث القوم یکسو ہو جانا چاہیے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ کسی فرد اورکسی قوم کے لیے اس سے زیادہ تباہی کا راستہ کیا ہوگا کہ بقول غالب اس کا حال یہ ہوجائے کہ ؎
رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے
نے ہاتھ باگ پر ہے ، نہ پا ہے رکاب میں
اگر ہماری منزل اسلام ہے اور یقینا اسلام ہی ہے، تو پھر دورنگی اور عملی تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ اسلام تو علم کی روشنی میں زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے کہ مسلمان معاشرے کی اکثریت کو دین کی بنیادی تعلیمات سے بھی آگہی نہیں۔ نئی نسلوں کو اسلامی آداب اور شعائر سے آشنا نہیں کیا جا رہا۔ میڈیا بالکل دوسری ہی تہذیب اور ثقافت کا پرچارک ہے، جو ذہنوں کو مسلسل مسموم بنا رہا ہے اور اخلاق اور معاشرت کو انتشار کا شکار کر رہا ہے۔
بااثر افراد کا ایک گروہ بڑے منظم طریقے پر نوجوانوں کو بے راہ روی اور اباحیت پسندی کی طرف لے جا رہا ہے۔ ہمارے علما، دانش ور اور اربابِ سیاست اپنے اپنے ذاتی، گروہی، مسلکی اور سیاسی مفادات کی جنگ میں مصروف ہیں۔ طبقۂ علما اور سیاست دانوں کو فرصت ہی نہیں کہ ان معاشرتی ناسوروں کے علاج کی فکر کریں۔
عدالتیں، اینگلوسیکسن قانونی روایت کی تقلیدمیں قانون کے الفاظ کو انصاف کے حصول پر فوقیت دے رہی ہیں۔ جن معاملات کو گھر کی چار دیواری اور خاندان کے حصار میں طے ہونا چاہیے ان کو تھانے اور کچہری کی نذر کیا جارہا ہے۔ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا فواحش کی تشہیر کی خدمات انجام دیتے ہوئے اس گندگی کو ملک کے طول وعرض میں پھیلانے کا کردار ادا کررہے ہیں۔
ان حالات میں ملک کے تمام سوچنے سمجھنے والے عناصر اور جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ ملک و ملّت کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ سیاست محض نعروں کی تکرار کا نام نہیں، سیاست تو تدبیرِ منزل سے عبارت ہے۔ یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب ایک گروہ اصلاح کے لیے عملاً میدان میں اُتر آئے۔ خیر و شر میں تمیز کے احساس کو بڑے پیمانے پر بیدار کرنا، وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ بلاشبہ حکومت کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے، لیکن اگر حکومت اپنی اس ذمہ داری کو ادا نہیں کر رہی، تو کیا حالات کو تباہی کی طرف جانے کے لیے چھوڑا جا سکتا ہے؟ اس کشتی میں تو ہم سب ہی بیٹھے ہیں۔ اس کو بچانے کی ذمہ داری بھی ہم سب کی ہے۔ اگردوسرے اس میں چھید کررہے ہیں، تو ہم ان سب کو ڈبونے کا موقع کیسے دے سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں سب سے بڑی ذمہ داری اسلامی فکر سے سرشار اور معاشرے کے سوچنے سمجھنے والے قابلِ قدر افراد کی ہے۔
ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہو کر جدوجہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیبِ نو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ جو کش مکش آج برپا ہے اور جس کا ایک ادنیٰ ساعکس ایک خانگی حادثے پر عدالتی فیصلے اور اس کے تحت رو نما ہونے والی بحثوں میں دیکھا جا سکتا ہے، وہ ہمیں دعوتِ غوروفکر ہی نہیں، دعوتِ عمل و جہاد بھی دیتی ہے۔
آئیے، سب سے پہلے اپنی منزل کے بارے میں یکسو ہو جائیں۔ اگر وہ اسلام ہے، اوراسلام کے سوا کوئی دوسرا راستہ زندگی کا راستہ ہو ہی نہیں سکتا، تو پھر بیک وقت دو مختلف سمتوں میں جانے والی کشتیوں میں سواری کرنے کا احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک راستہ بھی ہمیں ترک کرنا ہوگا۔ فرد کی ذاتی تربیت سے لے کر خاندان کے نظام کی تشکیل، معاشرے کا سدھار، معیشت کی تنظیم نو، صحافت، سیاست، قانون اور عدالت کے نظام کی اصلاح اس کا لازمی حصہ ہیں۔
وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور مہلت بہت کم ہے۔ ہم ملک کے اہلِ نظر کو دعوت دیتے ہیں کہ ان بنیادی مسائل کے بارے میں عوام کی مؤثر رہنمائی کریں۔ ناخوش گوار واقعات پر سے صرف کبیدہ خاطر ہو کر گزر نہ جائیں، بلکہ اصلاح کے لیے منظم طور پر عملی اقدام کریں۔