جنوری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

ٹیپو سلطان: ’ہندوتوا‘ کاہدف

ڈاکٹر اسلام الدین مجاہد | جنوری ۲۰۲۵ | اخبار اُمت

Responsive image Responsive image

علامہ محمداقبال کا یہ تاریخی جملہ ہے کہ کسی قوم کی تاریخ اس کا اجتماعی حافظہ ہو تی ہے۔ اگر کوئی قوم اپنی تاریخ سے ناواقف رہے تو وہ اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ تاریخ صرف فخر و مباہات کے اظہار کے لیے نہیں ہوتی بلکہ تاریخ سے درسِ بصیرت حاصل کرتے ہوئے آنے والے حالات کے لیے پیش بندی بھی کی جا سکتی ہے۔ انڈیا کی تاریخ کا مطالعہ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کے کارناموں سے واقف ہو کر اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ بتاسکیں کہ اس ملک کی آزادی اور اس کی تعمیر میں مسلمانوں نے کتنا اہم تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ یہ ایک ناقابلِ تردیدحقیقت ہے کہ اس خطۂ ارضی کو آزاد کرانے کے لیے تاریخ کے ہر دور میں مسلمانوں نے ہی میرِ کارواں کا کردار ادا کیا ہے۔ ان سرفروشانِ وطن کی فہرست میں ایک نمایاں نام ٹیپو سلطان کاہے۔ یہ وہ مجاہد ِآزادی ہے جس نے میدان جنگ میں انگریزوں سے مقابلہ کرتے ہوئے وطن کے لیے جان دے دی۔

  ٹیپو سلطان کو شہید ہوئے دو صدیاں گزر چکی ہیں۔ ان کی حب الوطنی اور مذہبی رواداری کے چرچے آج تک زبانِ زدِ خاص و عام ہیں۔ انصاف رسانی اور رعایا پروری کے جو نمونے ان کے دور میں نظر آتے ہیں اس کی نظیر اور مثال یہاں بہت ہی کم ملتی ہے۔ میسور کی وادیوں میں ٹیپو سلطان نے ۲۰ نومبر ۱۷۵۰ء میں ایک ایسے وقت آنکھ کھولی، جب کہ غیرمنقسم انڈیا میں انگریزی حکومت نے اپنا اقتدار قائم کرلیا تھا۔ مقامی حکمران بھی انگریزوں سے سمجھوتے کر کے ان کے باج گزار بن چکے تھے۔ لیکن ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے طوقِ غلامی کو پہننے سے انکار کر دیا اور اپنے والدحیدر علی کے ساتھ میدانِ کار زار میں ڈٹا رہا۔ٹیپو سلطان وہ پہلا شخص تھا، جس نے برطانوی سامراج کے اقتدار کو انڈیا سے ختم کرنے کے لیے بیرونی ممالک اپنے سفیر روانہ کیے۔ اس نے نپولین بوناپارٹ سے بھی ربط پیدا کیا۔ نپولین نے وعدہ بھی کیا کہ وہ اپنی افواج کو روانہ کرے گا، لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بیرونی مدد کے نہ ہونے اور دیسی راجاؤں کی جانب سے بھی کسی حمایت کے نہ ملنے کے باوجود ٹیپو سلطان نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل انگریزوں سے بر سرِ پیکار رہا، اور بالآخر میسور کی چوتھی جنگ میں انگریزی فوج سے مقابلہ کرتے ہوئے ٹیپو سلطان نے ۴ مئی ۱۷۹۹ء کو شہادت پائی۔ ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد انگریز جنرل فرطِ مسرت سے چیخ اُٹھے کہ’’آج سے انڈیا ہمارا ہے‘‘۔ انگریزوں کا یہ خواب ٹیپو سلطان کی شہادت کے بعد واقعی پورا ہوگیا اور وہ قابض ہوگئے۔

 ٹیپو سلطان کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ ان کی سلطنت میں کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا تھا۔ مشہور مؤرخ اور سابق گورنر اڈیشہ پروفیسر بشمیرناتھ نے ٹیپو سلطان کے دور حکومت پر ریسرچ کر کے ثابت کیا کہ ان کا دور ہرلحاظ سے قابلِ تحسین رہا ہے۔ انھوں نے اپنی کتاب Islam and Indian Culture میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’’نصابی کتابوں میں یہ من گھڑت بات لکھ دی گئی کہ جب ٹیپو سلطان نے برہمنوں کو زبردستی مسلمان بنانا چاہا تو تین ہزار برہمنوں نے خودکشی کرلی۔ جب میں نے تحقیق کی تو یہ بات غلط ثابت ہوئی‘‘۔

گاندھی جی نے بھی ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کا ذکر اپنے اخبارYoung India میں، مؤرخہ ۲۳جنوری۱۹۳۰ء کو کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ٹیپو سلطان نے مندروں کے لیے بڑی فیاضی سے جائیدادیں وقف کیں۔ ان کے محل کے چاروں طرف سری وینکٹا رمنّا، سری نواس اور رنگ ناتھ کے مندروں کی موجودگی سلطان کی وسیع النظری کا ثبوت ہے‘‘۔

’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ کی رپورٹوں سے بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے میسور کے مختلف علاقوں کے مندروں کو نہ صرف عطیات دیئے، بلکہ جاگیریں بھی عطا کیں۔ وہ ہندو مذہبی پیشواؤں کی بھی بڑی قدر و منزلت کرتے تھے۔ جب مرہٹہ افواج نے سری نگری کے مندر کو لوٹا تو اس کے گرو نے ٹیپو سلطان کو خط لکھا: ’’مرہٹہ فوج نے مندر کو لوٹ لیا اور مندر کے ہاتھی اور گھوڑے بھی لے کر چلے گئے ہیں‘‘۔ اس خط کے جواب میں مؤرخہ ۳۰ مارچ ۱۷۹۱ء کو ٹیپوسلطان نے لکھا کہ ’’ہم ان دشمنوں کو ضرور سزا دیں گے جو ہمارے ملک پر چڑھائی کرکے رعایا کو ستا رہے ہیں۔ آپ اور دوسرے برہمن ملک کے دشمنوں کی تباہی کے لیے خدا سے دعا کریں‘‘۔

 بعد میں ٹیپو سلطان نے مندر کی حفاظت کے لیے اپنی فوج بھیجی۔ راما شیام سندر نے اپنے ایک مضمون میں جو بھارت ٹائمز میں ۱۶نومبر ۱۹۸۵ءکو شائع ہوا، اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ یہ تمام خطوط اور فرمان آج بھی موجود ہیں۔ ہندوؤں کے جگت گرو کا بھی ٹیپو سلطان بڑا خیال رکھتے تھے۔ انھوں نے اپنے خط میں جگت گرو کے تعلق سے جن جذبات کا اظہار کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دیگر مذہبی پیشواؤں سے کتنی عقیدت رکھتے تھے۔ ایک خط جو گاندھی جی نے اپنے اخبار ینگ انڈیا میں بھی اصل عبارت میں نقل کیا ہے اور پروفیسر بشمیر ناتھ پانڈے نے بھی اپنی کتاب اسلام اینڈ انڈین کلچر میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

 ایسے مایہ ناز فرزند کے کردار کو آج انڈیا میں مسخ کرنے کی منظم، مسلسل اور ہمہ پہلو کوشش کی جارہی ہے۔ تاریخ کی سچائیوں کو جھٹلا کر من مانی تاریخ وضع کی جا رہی ہے۔ خاص طور پر مسلم سلاطین کو نشانہ بنا کر ان پر کیچڑ اُچھالا جا رہا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوان نسل کے ذہن میں مسلم سلاطین کی نسبت سے نفرت کے جذبات پیدا ہوتے جا رہے ہیں۔ بی این پانڈے نے اسی سچائی کو بیان کرتے ہوئے ۲۹ جولائی ۱۹۷۷ء کو راجیہ سبھا میں اپنی تقریر کے دوران کہا تھا: ’’انگریز مؤرخوں اور استادوں نے جو کچھ پڑھایا، اس کے اثرات ہم اب تک دور نہیں کرسکے ہیں۔ اسی تاریخ سے جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ ہماری قومی زندگی کے سرچشمے کو آلودہ کیے ہوئے ہیں‘‘۔

 ایک اور معروف انڈین مؤرخ این سی سکسینہ نے اپنی کتاب Muslim India میں اس تلخ حقیقت کو منظرعام پر لاتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’بدقسمتی سے اب تک بھارت کی تاریخ پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان پر فرقہ وارانہ رنگ چھایا رہا ہے۔ تعلیمی اداروں میں تاریخ کی جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، وہ نسلی اور فرقہ وارانہ تعصب سے بھری ہوئی ہیں‘‘۔

غیر جانب دار مؤرخین کی ان آراء سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ انگریزوں نے جو تاریخ بیان کی اسی میں اور کئی چیزیں بغیر کسی تحقیق و تفتیش کے شامل کرکے اسے تاریخ کا نام دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں نے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔

بی این پی کی حکومت کے تحت انڈیا میں مسلم تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل حکومتی سطح پر ہو رہا ہے۔ اسی طے شدہ پالیسی کے تحت مسلم حکمرانوں کے تعلق سے حقیقت سے بعید باتیں بیان کرکے ملک کے ایک خاص طبقے میں نفرت اور عداوت کے جذبات پیدا کیے جا رہے ہیں۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان خلیج کو بڑھا کر اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کی جارہی ہے۔ تاریخ میں زہرگھولنے کا یہ عمل اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتابوں میں شروع ہو چکا ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تاریخ کے نام پر دیومالائی قصوں اور کہانیوں کو شامل کر دیا گیا ہے۔ اس سے مسلمانوں کے مذہبی عقائد پر بھی ضرب پڑتی ہے۔ ملک کی کئی یونی ورسٹیوں بشمول عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدرآباد سے پوسٹ گریجویشن سطح پر پڑھائی جانے والی تاریخ سے مسلم دورِ حکومت کو نصاب سے خارج کردیا گیا ہے۔ اب بھارت کے عہد وسطیٰ کی مسلم تاریخ ایک قصۂ پارینہ بن جائے گی۔ یہ حقائق کو جھٹلانے اور علمی بددیانتی کی بدترین مثال ہے۔

مسلمانوں کی آئندہ نسلیں یہ جان بھی نہ سکیں گی کہ مسلمانوں نے اس ملک پر کتنے طویل عرصے تک حکمرانی کی تھی۔ پورے ایک ہزار سالہ دور حکومت کو بیک جنبش قلم حذف کر دینا تاریخ کے ساتھ ایک بھونڈا مذاق ہے۔ ٹیپو سلطان ہو کہ سراج الدولہ، اورنگ زیب ہو کہ بہادر شاہ ظفر، یہ اس ملک کے حکمراں رہے ہیں اور انھوں نے اپنے دورِحکومت میں جو نمایاں کارنامے انجام دیے ہیں، ان سب کو فراموش کرنا ڈیڑھ ارب آبادی پر مشتمل اہل ہند کو گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔

یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ عہدحاضر کے انصاف پسند مؤرخین جن میں بیش تر غیر مسلم ہیں، انگریزوں کی کارگزاریوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تاریخ کو اس کے صحیح پس منظر میں پیش کر رہے ہیں۔ اس ضمن میں کئی غیر مسلم مؤرخین اور صحافیوں کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو اس اہم کام کو انجام دے رہے ہیں۔ پروفیسر بی این پانڈے کے علاوہ بھگوان ایس گڈوانی کا نام خاص طور پر ٹیپو سلطان کے حوالے سے لیا جانا ضروری ہے۔ ان کی کتاب Sword of Tipu Sultan تاریخی حیثیت سے ایک مستند کتاب تسلیم کی جا تی ہے۔ گڈوانی نے ایک ایک واقعہ کی چھان بین کرکے یہ ثابت کیا کہ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو متعصب مؤرخین نے جس انداز میں بیان کیا ہے وہ مکمل طور پر غلط ہے۔ گڈوانی کی کتاب کی بنیاد پر ٹیپو سلطان پر ٹی وی سیریل بنی تھی جو کافی مقبول ہوئی۔

یاد رہے گڈوانی نے اپنی کتاب میں خاص طور پر ٹیپو سلطان کی مذہبی رواداری کے واقعات کو قلم بند کر کے آنے والی نسلوں کو یہ بتا دیا کہ ایک حریت پسند اور مذہبی روادار شخصیت کے کردار کو تنگ نظر تاریخ دانوں نے کیسے داغ دار کرنے کی گھناؤنی حرکتیں کی ہیں۔ تاریخ کے اس نازک موڑ پر، جب کہ انڈیا ’ہندوتوا‘ کے نام پر ایک نئی انگڑائی لے رہا ہے۔ ملک کے دستور کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے وقت میں انصاف پسند محققین کے ساتھ خود انڈین مسلم دانش وروں کو بھی تاریخ سے سبق لیتے ہوئے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

تاریخی واقعات یا مسلم حکمرانوں کے کارناموں کو بیان کرکے ہم ’سلطان پدرم بود‘ کی ذہنیت اپنے پر مسلط کرلیں تو یہ بھی کوئی دانش مندی نہیں، مگر حقیقتِ حال کو بیان نہ کرنا بھی مجرمانہ فعل ہے۔ علّامہ محمد اقبال نے ’سلطان ٹیپو کی وصیت‘ کے نام سے جو نظم لکھی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں، یہ نئی نسل کے لیے ایک بہترین پیغام بھی ہے :

تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول
لیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول

اے جُوئے آب بڑھ کے ہو دریائے تُند و تیز
ساحل تجھے عطا ہو تو ساحل نہ کر قبول

کھویا نہ جا صَنم کدۂ کائنات میں
محفل گداز! گرمیِ محفل نہ کر قبول

صُبحِ ازل یہ مجھ سے کہا جِبرئیل نے
جو عقل کا غلام ہو، وہ دِل نہ کر قبول

باطل دُوئی پسند ہے، حق لا شریک ہے
شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول