چندماہ کے وقفے سے آزادکشمیر ایک بار پھر زوردار احتجاجی تحریک کے نعروں سے گونج اُٹھا۔اس بار اصل معاملہ بجلی اور آٹے میں رعایت (سبسڈی) کا نہیں تھا بلکہ ایک ایسے صدارتی آرڈی ننس کا تھا، جس کے تحت آزادکشمیر میں آزادیٔ اظہار پر زد پڑنے کا اندیشہ تھا۔ ’آزادکشمیر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ نے اس آرڈی ننس کو مستقبل میں احتجاج اور آزادئ اظہار پر پابندیوں کی پیش بندی قرار دے کر آزادکشمیر بھر میں عام ہڑتال اور آزادکشمیر کو پاکستان سے ملانے والے انٹری پوائنٹس کو بند کرنے کا فیصلہ کیا، اور ۵دسمبر کو آزادکشمیر کے طول وعرض سے ہزاروں افراد کے قافلے انٹری پوائنٹس کی طرف چل پڑے۔
اس بار حکومت آزادکشمیر نے ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ کے مطالبات کو تسلیم کرکے احتجاج کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا۔حکومت نے صدارتی آرڈی ننس واپس لے کر دوسرے مطالبات کو بھی تسلیم کیا، جس کے بعد عوام کے قافلے واپس اپنے علاقوں کو چلے گئے۔اپنی حساسیت،قومی منظر میں اپنی جدا گانہ اور منفرد حیثیت،۷۷ برس سے قائم ہونے والی اپنی شناخت کی مضبوط چھاپ، اوورسیز کشمیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کے باعث آزادکشمیر ایک دستی بم (گرنیڈ)ہے۔ مگر کچھ لوگ اس گرنیڈ سے فٹ بال کھیلنے کا شوق فرمانے پر اصرار کیے ہوئے ہیں۔ابھی چند ہی ماہ پہلے بجلی اور آٹے کی سبسڈی کے نام پر ہونے والے پُرتشدد احتجاج پر سب سے مختصر اور جامع تبصرہ یہ تھا: ’لیسٹ بٹ ناٹ لاسٹ‘۔
آٹے اور بجلی کا تعلق معاشرے کی معیشت اور اقتصادیات سے ہے تو آرڈی ننس کا تعلق عوام کے شعور کو محدود کرنے یا شعور کے اظہار کو زنجیر پہنانے سے ہے۔ یوں مختصر عرصے میں عوام کا ایک قوت اور سرعت کے ساتھ سراپا احتجاج ہونا بتا رہا ہے کہ معاملہ کسی ایک مسئلے تک محدود نہیں بلکہ عوام کی بڑھتی ہوئے حساسیت اور ردعمل دکھانے کی صلاحیت کا ہے، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ حکومت نے کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرنا ہے جس کی پیش بندی کے طور پر لوگوں سے احتجاج اورفریاد کا حق چھینا جانا لازمی ہے۔حکومت آزادکشمیر نے سمجھ داری کا ثبوت دیتے ہوئے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو تسلیم کرکے حالات کو پُرتشدد ہونے سے بچالیا ہے۔
دُنیا بھر کی سیاست کی طرح آزادکشمیر کی سیاسی حرکیات میں ایسی تبدیلی رُونما ہو چکی ہے، جو سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ کے پہلو بہ پہلو چلی آرہی ہے۔معاشرہ سوشل میڈیا کے باعث سیاست اور معاشرت میں پیدا ہونے والے نئے رجحانات کی زد میں ہے۔ سری نگر میں دوعشروں سے سوشل میڈیا کے ساتھ در آنے والے رجحانات اپنا کرشمہ دکھاچکے ہیں۔ ان رجحانات کو طاقت سے دبادیا گیا ہے مگر سکون کی تہہ میں یہ جذبات اور رجحانات موج زن ہیں۔اب جدید ذرائع کے باعث پیدا ہونے والے یہ رجحانات آزادکشمیر میں اپنا اثر دکھا رہے ہیں۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں اسّی کی دہائی میں تعلیمی اداروں میں اسٹوڈنٹس یونینوں پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ اگلے مرحلے میں یعنی نوّے کی دہائی میں قوم پرست تنظیموں اور سرگرم کارکنوں کی اکثریت سیاسی پناہ کے لیے بیرون ملک چلی گئی۔ باقی جو روایتی جوڑ توڑ کی رسیا سیاسی جماعتیں بچ گئیں، انھیں بدعنوانی کی ایسی فائلوں نے کھالیا جو لاٹھی پر رکھے مرے ہوئے سانپ کی طرح صرف ڈرانے کے کام آتی ہیں۔ ایک دوعشرے اس کامیاب’مینجمنٹ‘ کے باعث سکون اور سکوت میں گزر گئے۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی آمد کے اثرات نے خود آزادکشمیر کے دروازے پر دستک دی اور یہاں کے عوامی رجحانات میں تبدیلی کے آثارپیدا ہونا شروع ہوئے۔
آزادکشمیر کی تمام قابل ذکر روایتی سیاسی جماعتوں کوحکومت کی ایک ٹوکری میں جمع کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں طاقت کا ایک خلا پیدا ہوتا جا رہا ہے اور اس خلا کو ایک غیر سیاسی قوت نے تیزی کے ساتھ پُر کرنا شروع کیا۔یہ قوت پہلے ’تاجر جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ تھی، مگر جب عوام اس کی جانب مائل ہونے لگے تو پھر اس کا نام ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی‘ رکھ دیا گیا۔تب اس میں تاجروں کے علاوہ سول سوسائٹی اور دوسرے طبقات بھی شامل ہونے لگے۔ صدارتی آرڈی ننس کا براہِ راست تاجر کمیونٹی سے تعلق نہیں۔ تاہم، پڑھے لکھے چند نوجوانوں سے خطرے کی گھنٹی بجاکر ہوشیار باش کردیا۔ ممکن ہے ایسے افراد کو انڈین قرار دے دیا جائے۔ تاہم، یہ معاملہ آٹے اور بجلی سے بہت آگے نکل چکا ہے۔اُوپر تلے ان دو احتجاجوں کی شدت، حدت، سنگینی،عوام کے موڈ اور مزاج کا خیال رکھنا چاہیے۔ ان احتجاجی تحریکوں میں اسلام آباد کے فیصلہ سازوں کے لیے غور وفکر کا بہت سامان ہے۔عمومی تاثر یہ ہے کہ باجوہ ’ڈاکٹرائن‘ کے تحت اسلام آباد کے فیصلہ ساز آزادکشمیر کا انتظامی تیاپانچا کرنے کی یقین دہانی کراچکے ہیں۔اس کی شکل وصورت کیا ہوگی؟
اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں، مگر اس کی سب سے بدترین شکل جو بیان کی جا رہی ہے، وہ افواہ بھی ہوسکتی ہے یا پھر ذہن سازی کا افسوس ناک عمل بھی: آزاد کشمیر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے درمیان تین حصوں میں بانٹ دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ یہ غلطی کی گئی تو یہ ایک تباہ کن ردعمل کی بنیاد بن سکتی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہوں گی: