اوکسفرڈ ڈکشنری نے لفظ ’برین روٹ‘ (Brainrot)کو ۲۰۲۴ء میں سال بھر کا لفظ قرار دیا ہے۔ آخر یہ برین روٹ ہے کیا؟ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
انٹرنیٹ ہماری زندگی کا نہایت اہم اور بنیادی جز بن چکا ہے، گویا یہ ہمارے جسم کا ہی ایک اہم حصہ ہو۔ اگر یہ نہ ہو تو زندگی دشوار ہو جائے گی۔ ہر عمر کا فرد اس کا ایک طرح سے غلام بن گیا ہے۔ کیا آپ بھی اسی کیفیت سے دو چار ہیں؟ رات دیر گئے آپ اپنے موبائل میں ریلز، شارٹس، گیمز، چیٹنگ، انٹرٹینمنٹ کے لیے کلپس دیکھ رہے ہیں اور اسی طرح دیکھتے دیکھتے آپ کی آنکھ لگ جاتی ہے۔ پھر جیسے ہی صبح اٹھتے ہیں اپنے موبائل کو ہاتھ میں لینے سے ہی سکون مل رہا ہے۔ اس لیے کہ بے ساختہ آپ کا ہاتھ اپنے موبائل پر چلا جا رہا ہے۔ لہٰذا ہوشیار اور خبردار ہو جائیں، کیوں کہ اسی کیفیت کو ’برین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ درحقیقت ’برین روٹ‘ بظاہر غیر سائنسی لیکن عملاً گہرے اثرات کی حامل ایک قسم کی دماغی بیماری ہے، اسی بیماری کی وجہ سے یہ کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔
انسانی جسم یا انسانی دماغ کی خصوصیت یہ ہے کہ جتنا اس کو استعمال کیا جاتا ہے، اتنی ہی اس کے اندر صلاحیت پیدا ہوتی رہتی ہے، جس قدر مشکل ٹاسک انسانی دماغ کو دیا جائے گا، اتنی ہی اس کے اندر استعداد بڑھتی جاتی ہے۔ دماغ جتنا دانش ورانہ (Intellectual)کام کرے گا، اتنا ہی وہ تیز ہوتا جائے گا۔ ایسا دانش ورانہ کام جس میں سوچنے کی، غورو فکر کرنے، تدبر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، تو اس سے فرد کی ذہنی صلاحیت بڑھے گی، انٹلیچکول سطح بڑھے گی، ذہن تیز ہوگا۔ اس کے برعکس اگر انسان ایک ایسے کام میں مصروف ہوگا جس میں دماغ کے استعمال کی یا غور و فکر کرنے کی، تدبر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ہے، تو اس کی دماغی صلاحیت میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوگا۔ بھلا بے کار مصروفیات سے دماغی صلاحیت کیسے پروان چڑھے گی بلکہ ذہن کند ہونا شروع ہو جائے گا۔ اگر بے کار، فضولیات میں انسان مصروف ہوگا تو اس کے منفی اثرات دماغ پر بھی مرتب ہوں گے۔ اس طرح یہ بات طے ہوگئی کہ جس کام میں دماغ کا استعمال ہوگا، غور وفکر کرنے کی ضرورت ہوگی، تدبر ہوگا تو اس سے دماغی صلاحیت بڑھے گی، وہیں دوسری طرف ایسا کام جس میں دماغ کا استعمال نہ ہوگا تو اس سے لازماً دماغی صلاحیت گھٹے گی۔
اب اسی پیمانے کو اپنی مصروفیات پر لاگو کر کے دیکھیں۔ اپنے موبائل میں فضولیات یا کامیڈی ریلز دیکھنے سے، آپ کی ’دانشورانہ صحت‘ (Cognitive Health)پر اثر پڑے گا، آپ کی ’قوت ادراک‘ خراب ہو جائے گی۔ اسی دانشورانہ صحت کی خرابی کو ’برین روٹ‘ کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود بے کار مواد یا معمولی مواد یا فضول مواد دیکھنے سے برین روٹ کی بیماری لاحق ہوتی ہے۔ یعنی ضرورت سے زیادہ اشیا اور بصری مواد دیکھنے سے ’برین روٹ‘ ہوگا۔ ایک جملے میں کہا جائے تو ایسا مواد جس میں دماغ کا استعمال نہ ہوتا ہو، جیسے میمس (Memes) یا انٹرٹینمنٹ کی ویڈیوز دیکھنا وغیرہ، اس بے کار اور فضول مواد کو دیکھنے سے برین روٹ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے۔
اس معاملے کو ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ نے ملک شام میں ہونے والی تبدیلیوں سے متعلق ویڈیوز دیکھے یا الجولانی کون ہے؟ یا اکنامکس سروے سے متعلق ویڈیوز دیکھیں یا پھر سیاسی اتھل پتھل کے موضوع پر موجود مواد کو دیکھا، یا روپے کی قدر میں کمی یا زیادتی پر ویڈیوز دیکھے، تو آپ کا ذہن اس سے متعلق غور و فکر کرے گا۔ آپ کا ذہن یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ شام کی خانہ جنگی کب شروع ہوئی؟ یعنی ایسا مواد جس کو دیکھنے سے آپ کے اندر مزید تفصیل جاننے کی خواہش پیدا ہو، اس موضوع سے متعلق مزید معلومات حاصل کرنے کی طرف آپ کا دماغ مائل ہو تو آپ کی دانش ورانہ صحت بڑھے گی، انٹلیچکول لیول بڑھے گا۔ لیکن وہیں آپ نے میمس والی ویڈیو دیکھی، یا مسخرہ پن یا مزاحیہ ویڈیو یا انٹرٹینمنٹ میں ایسی ویڈیوز دیکھیں، جس سے نہ کوئی دماغی صلاحیت میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ عقل و دانش کی سطح بڑھتی ہے، تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ کی دانش ورانہ صحت خراب ہو جائے گی اور آپ کو ’برین روٹ‘ کی بیماری لاحق ہونا یقینی ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے آپ اپنی کیفیت کا جائزہ لیں۔
ایک خاص بات یہ ہے کہ یہ بیماری نوجوانوں میں زیادہ پھیلنے کا خدشہ ہے، وہ اس لیے کہ نوجوان طبقہ انٹرنیٹ کا شیدائی ہے۔ وہی اس کو اب زیادہ استعمال کرتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ ’برین روٹ‘ میں صرف نوجوان ہی مبتلا ہوتے ہیں بلکہ یہ مرض کسی بھی عمر والے کو ہوسکتا ہے۔ اس بیماری کے ہونے کی بنیادی وجہ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال ہے۔ چونکہ نوجوان نسل اس کا بے تحاشا استعمال کرتی ہے، اسی لیے ان کا اس بیماری میں مبتلا ہونے کا قوی امکان پیدا ہوجاتا ہے۔ پھر اگر کوئی بزرگ یا ادھیڑ عمر شخص بھی اسی طرح استعمال کرتا ہے تو اس کو بھی یہ بیماری لاحق ہوگی۔
مرض کی علامات
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسے پہچانا جائے کہ کوئی اس بیماری میں مبتلا ہوگیا ہے؟ اس کی علامات کیا ہیں؟ اگر اس لفظ کو اردو میں ترجمہ کیا جائے تو بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا، کیوں کہ اس کیفیت کو ’نیم پاگل پن‘ کہا جائے گا، فی الحال ہم اس کو ’برین روٹ‘ تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کہ ’برین روٹ‘ کی علامات کیا ہیں؟
پہلی علامت: کیا آپ کے دماغ میں وہی میمس یا کامیڈی یا مزاحیہ تخلیقات ریلز گھوم رہی ہیں؟ یا جو کوئی ویڈیو آپ دیکھتے ہیں، کیا وہی ویڈیو کی باتیں آپ کے ذہن میں گھوم رہی ہیں؟ اگر گھوم رہی ہیں تو یہ ’برین روٹ‘ کی علامت ہے۔
دوسری علامت: اگر آپ انٹرنیٹ کے بغیر ایک جملہ بھی اپنے طور پر لکھ نہیں پا رہے ہیں، بول نہیں پا رہے ہیں، انٹرنیٹ سپلنگ یعنی بول چال کا استعمال کر رہے ہیں، اپنے طور پر غور و فکر کر کے کوئی بات پوری نہیں کر پا رہے ہیں، تو سمجھیں کہ آپ ’برین روٹ‘ میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ یہ چیز ہم نوجوانوں میں اکثر دیکھ رہے ہیں کہ وہ انٹرنیٹ کے بغیر کوئی جملہ بھی پورا نہیں کر پارہے ہیں۔ اگر آپ انٹرنیٹ سپلنگ کا استعمال کر رہے ہیں تو سمجھیں کہ آپ ’برین روٹ‘ کا شکار ہوچکے ہیں۔
تیسری علامت: عدم توجہی کا مسئلہ، یہ مسئلہ خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ توجہ کی کمی میں اگر آپ مبتلا ہوگئے ہیں، تو سمجھیں کہ آپ کو ’برین روٹ‘ ہوگیا ہے۔ آپ کچھ دیر تک کسی ایک موضوع پر، کسی بات پر توجہ نہیں دے پا رہے ہیں، آپ کا ذہن بوریت محسوس کر رہا ہے، کسی چیز پر توجہ مرکوز نہیں کر پا رہا ہے، تو یہ ’برین روٹ‘ میں مبتلا ہونے کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر یہ سننے میں آتا ہے کہ آج کل صرف ریلز یا شارٹس ہی چلتے ہیں، کون اتنی دیر ویڈیو دیکھے گا، اپنی بات ایک منٹ کے اندر بیان کردیں۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ کتابیں پڑھنے کا کوئی شوق ہی نہیں ہوتا، نصابی کتب بھی نہیں پڑھی جاتیں، بس سوال و جواب رٹائے جاتے ہیں۔
چوتھی علامت: فوکس لیس ٹاسک، آپ اگر کوئی جسمانی کام کر رہے ہوں یا دماغی کام کر رہے ہوں یا پھر غور وفکر کر رہے ہوں اور اس ٹاسک پر فوکس نہیںکر پا رہے ہوں، تو یہ بھی علامت ہے ’برین روٹ‘ کی۔
پانچویں علامت: یہ علامت بچوں یعنی طلبہ میں ہوتی ہے، وہ ہے خراب تعلیمی کارکردگی کی۔ اس لیے کہ جب بچہ غیر ضروری، فضول کاموں میں مصروف ہوگا، تو اس کی دانش ورانہ صلاحیت کمزور پڑ جائے گی۔ اسی لیے اس کی تعلیمی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے اور تعلیمی کارکردگی خراب ہو جاتی ہے۔
چھٹی علامت: یادداشت کا مسئلہ، یہ علامت بڑوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ وہ کوئی بات یاد نہیں رکھ پاتے، یادداشت کا ختم ہو جانا۔
ساتویں علامت: آلاتِ یادداشت پر مکمل انحصار، کیوں کہ اسے چیزیں یاد نہیں رہ پاتی ہیں، اس لیے اس کا ڈیوائسز پر انحصار بڑھ جاتا ہے، بلکہ اکثر وہ ڈیوائس پر ہی منحصر ہوتا ہے۔ پرانے وقتوں میں لوگوں کی یادداشت بہت اچھی ہوتی تھی۔ جب انٹرنیٹ کا اتنا چلن نہیں تھا، تب لوگوں کو فون نمبر زبانی یاد ہوا کرتے تھے مگر اب چھوٹا سا حساب کرنا بھی محال ہوگیا ہے، جمع و ضرب کرنے کے لیے لوگ کیلکولیٹر کا استعمال کرتے ہیں۔
آٹھویں علامت: محرک کا نہ ہونا، موٹیویشن کی کمی، کسی بھی کام سے عدم دلچسپی، جوش و خروش سے کوئی کام نہیں کرسکتے۔
نویں علامت: چڑچڑاپن، ہر وقت چڑچڑے پن میں مبتلا رہتے ہیں، جھنجھلاہٹ بڑھتی رہتی ہے۔ ہر چھوٹے کام سے، ہر چھوٹی بات میں چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے۔
دسویں علامت: اپنے آپ کو خوش رکھنے کے لیے، یعنی اپنے آپ کو انٹرٹین کرنے کے لیے بھی ڈیجیٹل آلات پر منحصر ہونا، ٹی وی دیکھتے ہوئے یا نیٹ دیکھتے ہوئے ہی خوشی حاصل کرنا۔ کسی سے بات کر کے، تفریح یا دوستوں سے مزاح کرنے سے خوشی حاصل نہیں کر پانا۔
اگر یہ علامتیں آپ میں یا کسی میں پائی جاتی ہیں تو سمجھ جائے کہ اسے ’برین روٹ کی بیماری‘ لاحق ہوچکی ہے۔
علاج کے لیے تجاویز
اگر کوئی اس میں مبتلا ہوگیا ہے تو پھر اس سے کیسے باہر نکلا جائے؟ کیسے اس بیماری کو دُور کیا جائے؟ اس سے نکلنا کوئی ناممکن بات نہیں ہے، اسے بڑی آسانی کے ساتھ دُور کیا جاسکتا ہے۔ اس بیماری کو طرزِ زندگی تبدیل کر کے دُور کیا جاسکتا ہے۔ اکثر ہمارے جسمانی اور دماغی مسائل اسی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنے طرزِ زندگی کو تبدیل کرتے ہیں تو ہم بہت سارے جسمانی اور دماغی مسائل سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔ ’برین روٹ‘ کو دُور بھگانے کے کچھ عملی تقاضے بھی ہیں، وہ یہ کہ:
سب سے پہلے ہمیں اچھی نیند کی ضرورت ہے، جسے میڈیکل زبان میں ڈیپ سلیپ، گہری نیند یا معقول نیند کہا جاتا ہے۔ چار گھنٹے ہی سہی گہری نیند لینا ضروری ہے۔ نیند اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے، دن بھر کی تھکان دور ہو جاتی ہے۔
دوسری چیز یہ کہ روحانی پاکیزگی کو اپنانا ضروری ہے۔ جس کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ اس میں اپنے جسم، دل و دماغ کو لگانا۔ ایک جگہ کونے میں بیٹھے رہنے سے روح کو تسکین حاصل نہیں ہوتی۔ مراقبے میں بیٹھنے سے بھی روح کو تسکین حاصل ہوتی ہے، لیکن کسی غریب کی مدد کرنے سے، کسی بیمار کی عیادت کرنے سے روح کو زیادہ سکون ملتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو کارِ خیر میں مصروف رکھنے سے اس مسئلے سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔
تیسری چیز یہ کہ اس کے ساتھ ساتھ جسمانی ورزش سے دماغی صحت بھی اچھی رہتی ہے۔ ورزش سے خون کی گردش اچھی طرح سے ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں دماغ کی طبعی کیفیت بھی بہتر رہتی ہے۔ ایک جگہ بیٹھے رہنے سے، فزیکلی ایکٹیو نہ رہنے سے ’برین روٹ‘ کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
چوتھی بات یہ کہ اور یہ بات مصدقہ ہے کہ جتنا انسان فطرت سے قریب ہوگا اتنی اس کی دماغی صحت اچھی ہوگی، اور فطرت کی گود میں جتنا رہے گا اتنی ذہنی صحت مستحکم رہے گی۔ گرین ٹائم اور اسکرین ٹائم کی بات کہی جا رہی ہے، کم از کم ہر دن ایک سے دو گھنٹے خدا کی پیدا کردہ اس خوب صورت دنیا کو دیکھنا چاہیے۔ چرند پرند، سبزہ و پہاڑ، ندی و آبشار کو دیکھنے سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔
پانچویں بات یہ کہ اچھی غذا وہ بھی غذائیت سے بھرپور ہو، استعمال کریں۔ کھانے کے آداب بھی یہی ہیں کہ پیٹ کو تین حصوں میں تقسیم کرو۔ ایک حصہ غذا کے لیے، دوسرا پانی کے لیے اور تیسرا حصہ خالی رکھو سانس کے لیے، پھر یہ بھی کہ شکم سیری نہ کرو۔
چھٹی بات یہ کہ اپنے ذہن کو پاک صاف رکھو، فضولیات سے پاک رکھو، بے کار و ناکارہ باتیں اس میں نہ بھرو۔ بے کار باتیں اس میں رہیں گی تو ہمیشہ الجھن کا شکار رہے گا۔ اس لیے اپنے دماغ کو پراگندہ عناصر سے پاک رکھو۔ بد قسمتی سے ہم جسمانی گندگیوں کو دُور کرنے پر ہی توجہ دیتے ہیں، ذہنی پراگندگی پر ہماری توجہ نہیں ہے۔مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ لغویات سے دُور رہتا ہے۔ (المؤمنون۲۳:۳)
ساتویں بات یہ کہ غور و فکر، تدبر کرنے کی عادت ڈالیں۔ اپنے انٹلکچول لیول کو بڑھانے کی کوشش کریں۔ ایسا مواد پڑھیں یا تلاش کریں جس سے آپ اپنا انٹلکچول لیول بڑھا سکتے ہوں۔ دانش وروں سے گفتگو کریں، کسی موضوع کا گہرائی سے مطالعہ کریں، اپنے دوستوں سے بامقصد مباحثے کریں۔ایک حقیقی مسلمان کی طرح بامقصد زندگی گزاریئے۔ دعوتِ دین اور خدمت ِ خلق کے لیے کچھ نہ کچھ وقت ضرورت مختص کیجیے۔
آٹھویں بات یہ کہ تنہائی میں زیادہ نہ رہیں۔ ان آلات کی سب سے بڑی بیماری یہ ہے کہ یہ انسان کو تنہائی میں دھکیل دیتے ہیں۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کو ایک جگہ قید کرسکتے ہیں، لیکن دماغ تو ہمیشہ خیالات میں غوطہ زن رہتا ہے، اسی لیے اچھے خیالات میں غوطہ زن ہونا ضروری ہے۔ یہ انٹرنیٹ اور آلات ہمارے دماغ کو خیالات میں غوطہ زن ہونے سے روک رہے ہیں، وہ ہمارے ذہن کو بھی مقید کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ’برین روٹ‘ کا مسئلہ پیدا ہو رہا ہے۔ اپنے طرزِ زندگی سے متعلق مذکورہ بالا آٹھ باتوں کو اپنا کر ’برین روٹ‘ جیسی ذہنی بیماری سے بچا جا سکتا ہے۔