غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘سے ہے۔ اس کے معنی چھپانااورغفلت ہے۔انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے ،اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔
قرآن مجید میں۳۵؍آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبر ی ، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریم ؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے ۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔(یوسف ۱۲:۳)
اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔اسی سورہ میں حضرت یوسف ؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اورشکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے ۔ (یوسف۱۲: ۱۳)
حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی ۔یہ وقت رات، علی الصبح، یادوپہر کا ہو گا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔
سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے ۔جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتا یا گیاکہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیاؑ آئے ،ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فر مایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:
اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۱۵۶ (انعام۶ : ۱۵۶) اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔
جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیاجائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیاـؑ، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی ، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے ۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے براء ت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی ( انعام۶:۹۴)
فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ۲۹ (یونس ۱۰:۲۹) ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔
دوسرا مفہوم بھلا دینا ، بھول جانا،نظر انداز کرنا ، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااُبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے ۔ایمان لانے والے،تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین،فجاروفساق ،بے پروا ،غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دُور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہو تا ہے ، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔
آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین ،قرآن مجید، اللہ کے احکامات ،رسولؐ اللہ کی سنتوں ، عبادات ،نیکی کے کاموں،انفاق ،جہاد فی سبیل، حقوق العباد ، آخرت کی جواب دہی ، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اللہ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرے ۔اس کے لیے اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے رسول بھیجے، ان پر کتا بیں نازل کیں ۔ان کے ذریعے حق کو واضح کیا اور شرک و کفر کے نتائج سے واقف کرایا۔انسان کو اختیار کی آزادی دی کہ چاہے تو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرے اور آخرت میں کامیاب ہو جائے ، چاہے تو اس سے غفلت اختیار کرے۔ اگر وہ اس سے منہ موڑتا ہے تو ناکام ہو گا اور سزا سے دوچار ہوگا۔ انبیا ؑ کے مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غفلت سے چونکا کے انجام سے باخبر کر دیں تاکہ لوگ شعور و ادراک، علم وایمان کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ۰ۘ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۳۹ (مریم ۱۹:۳۹)اے نبی ؐ!اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ، انھیں اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا ۔
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ۱ۚ (انبیاء۲۱:۱)قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ،اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔
یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے رب کے حضور حاضر کیے جائیں گے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ غفلت میں ایسے پڑے ہیں کہ ان پر کسی طرح کی تنبیہ کا ر گر نہیں ہوتی ہے، نہ تو خود ان کو اپنے انجام کی کی فکر ہے اور نہ پیغمبرؐ کے کے ڈرانے کی کوئی پروا ہے۔ غفلت انسان کے لیے نقصان دہ ہے اور جب کوئی سمجھائے اور جھنجھوڑے اس کے باوجود غفلت سے بیدار نہ ہو،تو یہ جرم اور سنگین ہو جاتا ہے۔قیامت کے قریب ہونے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں۔
غفلت دو طرح کی ہے۔ ایک مذموم ہے اور دوسری محمود۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ ۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
مذموم غفلت کئی طرح کی ہوتی ہے:
اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۰ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۱۲ (محمد ۴۷: ۱۲) ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دُنیا کی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔
غفلت کی علامات درج ذیل ہیں :
وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى ۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۱۴۲(النساء۴:۱۴۲)جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیںاور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے اور مشرکین کی سورج کی پوجا کا وقت آجاتا ہے، تب یہ اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چاررکعتیں مار لیتا ہے ( ایسے جیسے مرغی زمین پر چونچ مارتی ہے اور اٹھالیتی ہے)۔ یہ شخص اللہ کو اپنی نماز میں ذرا بھی یاد نہیں کرتا ہے۔ ( مسلم)
مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور ڈررہا ہو کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر پڑے ۔ اور فاجر و بدکار شخص اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی مکھی ہو جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے۔ راوی نے کہا کہ وہ ایسے کر دیتا ہے ( اُڑادیتا ہے)۔( بخاری)
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۱۷۸(اٰل عمرٰن۳:۱۷۸)یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔
تم لوگ ایسے بہت سے کام کرتے ہو جو تمھاری نگا ہوں میں بال سے زیادہ ہلکے ہوتے ہیں ( حقیر ہوتے ہیں)۔ لیکن ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین و ایمان کے لیے مہلک خیا ل کرتے تھے۔ ( بخاری)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فر ماتے سنا : ’’میری تما م امت کے گناہ بخشے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو اپنے گنا ہوں کا پردہ خود فاش کردیتے ہیں۔ اور یہ بھی بے ہودگی اور بے حیائی ہے کہ آدمی رات کے وقت کوئی بُر اکام کرے اور صبح کے وقت اُٹھے تو اس کے گناہ پر اللہ تعالیٰ نے تو پردہ ڈال رکھا ہو لیکن وہ خود لوگوں سے کہتا پھرے ،اے شخص میں نے کل رات یہ اور یہ برے کا م کیے۔گویا اس کے رب نے تو اس کی پردہ پوشی فر مائی تھی لیکن وہ صبح اُٹھتا ہے اور اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو خود کھول دیتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الادب)۔ ’جواپنے گناہوں کا پردہ فاش کرتے ہیں‘ سے مراد یہ کہ وہ علی الاعلان سب کے سامنے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے ،لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے۔ ( ترمذی)
كَلَّا بَلْ۰۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۱۴( مطففین ۸۳: ۱۴) ہرگز نہیں، بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوںپر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے انتقال پر ایک شخص نے کہا کہ تجھے جنت کی بشارت ہو۔اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہہ رہے ہو؟جب کہ حقیقتِ حال سے تو واقف نہیں ہے ۔ شاید اس نے لا یعنی گفتگو کی ہو یا ایسی چیز میں بخل سے کام لیا ہو جو اس کے لیے باعث نقصان نہ تھی (ترمذی) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ ،غیر ضروری اور لایعنی باتیں بھی انسان کی غفلت کا سبب بنتی ہیں جواس کے جنت میں نہ جانے کی وجہ بن سکتی ہیں:
مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْہُ وَہُمْ يَلْعَبُوْنَ۲ۙ لَاہِيَۃً قُلُوْبُہُمْ۰ۭ (الانبیاء۲۱ :۲-۳) اُن کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں ،دل ان کے ( دوسری ہی فکروں میں ) منہمک ہیں۔
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۲۸ (الکہف۱۸: ۲۸) کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔
سور ۂ فرقان میںجہنمیوں کے بارے میں ہے:
وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۲۷ يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۲۸ لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۰ۭ (الفرقان ۲۵: ۲۷-۲۹) وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا ۔ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ، کاش! میں نے فلا ں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی۔
حدیث میں بُری صحبت کی مثال بھٹی دھونکنے والے سے دی گئی ہے کہ جس کے پاس بیٹھنے سے آدمی کے کپڑوں پر چنگار ی آکر اس کے کپڑے جلادیتی ہے، یا پھر وہ دھوئیں اور اس کی بھٹی سے ا ٹھنے والی بدبو سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح برے آدمی کی سنگت اور بہت زیادہ میل جول سے آدمی یاتو گناہ کے کام کرتا ہے یا کم ازکم نیکی کے کاموں سے محروم ہو جاتا ہے۔
غفلت کے درج ذیل اسباب ہیں:
اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۲۳ (زخرف ۴۳ :۲۳) ہم نے اپنے باپ داد ا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقشِ قدم کی پیروی کررہے ہیں۔
وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۱۷۰( البقرہ۲: ۱۷۰)ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو، توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داد کو پایا ہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو، توکیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟
اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۴۳ۙ ( الفرقان ۲۵:۴۳) کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟
فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۵۰ (القصص۲۸:۵۰)اب اگر وہ تمھارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیروہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا ۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ، سوچنے سمجھنے کے لیے دل و دماغ عطا کیا ۔ انسان جب ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتا ہے ،ان سے ٹھیک انداز سے فائد اٹھاتا ہے تو اس کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وہ انسانی مجدو شرف کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ اگر وہ ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے، تووہ انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے نتیجے میں ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اس کی آنکھیں صحیح بات دیکھنے، کان اچھی بات سننے اور دل و دماغ حق بات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتے ہیں اور حق قبول کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ (اعراف ۷ :۱۷۹، فرقان ۲۵:۴۴)
اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تواُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ اُن لو گوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے ،اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھادیتے ۔اب تو یکساں ہے ، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ (ابراھیم۱۴ :۲۱)
اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۷ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۸ (یونس ۱۰:۷-۸) حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔
اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۲ۭ (التکاثر ۱۰۲: ۱-۲) تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حا صل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ ( اسی فکر میں )تم لب ِگور تک پہنچ جاتے ہو۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: مَنْ اَحَبُّ دُنْیَا ہٗ اَضَـرَّ بَآخِرَتِہٖ (مشکٰوۃ المصابیح)،’’جو شخص دنیا سے پیار کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔
اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا اور اگر دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا ۔اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ( بخاری)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: الا نَـاۃُ مِنَ اللہِ وَالعَجَلَۃُ مِن الشَّیْطَانِ (ترمذی) ’’کام کو اطمینان و متانت کے ساتھ انجام دنیا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے تعلق رکھتا ہے‘‘ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا: بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس کے کہنے سے اس کی غرض محض لو گوں کو ہنسانا ہوتاہے۔اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر تا ہے۔ مومنین کی صفت قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے گزر جاتے ہیں۔(المومنون ۲۳:۳)
غفلت میں خواہ فرد مبتلا ہویا قوم، دونوں کا انجام یکساں ہے ۔دنیا میں غفلت کے نتیجے میں دونوں ہی بُرے نتائج سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی انجام برا و رسواکن ہو گا۔
فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۱۳۵ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۱۳۶ (اعراف ۷:۱۳۵-۱۳۶) مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے ، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیوں کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایاتھا اور اُن سے بے پرواہ ہو گئے تھے ۔
ان آیات میں قومِ فرعون کی ہلاکت کا سبب تکذیب اور غفلت بتائی گئی ہے۔ قومِ فرعون پر تنبیہ کے لیے پہلے قحط، طوفان، ٹڈی دل ،سرسریاں، مینڈک، خون کا عذاب نازل کیا گیالیکن جب قوم غفلت میں پڑی رہی اور رسول کی تکذیب کرتی رہی تو اس کو ہلا ک کر دیا گیا:
فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۹۲( یونس۱۰ : ۹۲) اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔
lتوفیق کا سلب ہونا: جو افراد، گروہ اور اقوام اللہ اور اس کے رسول ؐکے دیئے گئے احکامات سے غفلت برتتی ہیں ۔ اس پر دھیا ن و توجہ کے بجائے لاپرواہی اختیا ر کرتی ہیں ۔اللہ ان سے نیک اعمال کی توفیق چھین لیتا ہے اور ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں:
وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۰ۡ وَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِہَا۰ۡ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۱۷۹ ( اعراف۷: ۱۷۹)۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں ۔ اُن کے پاس کا ن ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں ۔ وہ جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔
غافل انسان سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے اور عقل و شعور، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے۔ وہ کان رکھتا ہے، بات سنتا ہے مگر بھلی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔آنکھوں سے دیکھتا ہے مگر آنکھیںعبرت و نصیحت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔
آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے ،پتھر وں کی طرح سخت ، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھر وں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ ( البقرہ ۲: ۷۴)
وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ۲۱ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ (قٓ ۵۰:۲۱ ،۲۲) ہر شخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا ۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا۔
انبیا علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے ۔ ان کو رب کریم سے واقف کرایا جائے اور وہ غفلت ولاپرواہی چھوڑکر رب کی بندگی اختیار کر لیں:
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۶ ( یٰسٓ ۳۶:۶)تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو، جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
لہٰذا دُنیامیں مادی فوائد کے حصول کی کوشش سے غفلت دُنیا کا نقصان ہے، مگر دین سے غفلت دنیا و آخرت دونوںجگہ نقصان ہے۔ دنیا میں بداعمالیوں وگمراہیوں کی وجہ سے دنیا ظلم سے بھر جائے گی اور آخرت میں آخرت خراب ہو گی ۔عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچے۔