عتیق احمد شفیق اصلاحی


غفلت قرآنی لفظ ہے۔ یہ ’غافلا‘سے ہے۔ اس کے معنی چھپانااورغفلت ہے۔انسان جب کسی چیز یا معاملے کو بھلا دیتا ہے ،اس کو نذر انداز کر دیتا ہے یا اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، اس کو غفلت کہتے ہیں۔غفلت یہ بھی ہے کہ کسی چیز کو اتنی توجہ نہ دی جائے جتنی توجہ کی وہ حق دار ہو۔

غفلت کا مفہوم

قرآن مجید میں۳۵؍آیتوں میں غفلت کا ذکر آیا ہے۔ قرآن حکیم میں یہ لفظ دو مفہوم میں آیا ہے۔ ایک بے خبر ی ، لاعلمی، ناواقفیت، اور دوسرا بھلا دینا اور نظرانداز کردینا۔ غافل کے معنی قرآن مجید میں بے خبر اور ناواقف ہونے کے بھی ہیں۔سورۂ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے اور نبی کریم ؐ کو مخاطب کرکے یہ بات فرمائی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کی سرگزشت سے آپؐ واقف نہیں تھے ۔ ہم نے وحی کے ذریعے آپؐ کو واقف کرایا۔(یوسف ۱۲:۳)

اس آیت میں غفلت بے خبری کے معنی میں ہے۔اسی سورہ میں حضرت یوسف ؑ کے والد نے ان کے بھائیوں سے، جب کہ وہ حضرت یوسف ؑ کو اپنے ساتھ بکریاںچرانے کے لیے جنگل میں لے جانا چاہتے تھے، فرمایا تھا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم کھیل کود اورشکار میں ایسے مگن ہو جاؤ کہ یوسفؑ کی طرف سے غافل ہو جاؤ اور پھر بھیڑیا اس کو کھا جائے ۔ (یوسف۱۲: ۱۳)

حضرت موسٰی کے بارے میں ہے کہ جب وہ شہر میں داخل ہوئے تو شہر کے لوگ غفلت میں تھے یعنی ایسا وقت تھا کہ اس وقت ان کے آنے کی خبر کسی کو نہ ہو سکی ۔یہ وقت رات، علی الصبح، یادوپہر کا ہو گا، جب کہ لوگ آرام کرتے ہوتے ہیں اور سڑکیں سنسان ہوتی ہیں۔اس آیت میں بھی غفلت کے معنی بے خبر ہونے کے ہیں۔

سورۂ نور کی آیت میں ’غافلات‘ کا لفظ آیا ہے ۔جس سے وہ عورتیں مراد ہیں جو سیدھی سادی اور شریف ہوتی ہیں، ان کے دل و دماغ اس طرح کے خیالات سے بالکل پاک صاف ہوتے ہیں اور جو یہ سوچ بھی نہیں سکتیں کہ کوئی ان پر بدچلنی کا گھناؤنا الزام لگا دے گا:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ  ۝۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۲۳ۙ  (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ جو اس کے مطابق عمل کریں گے ان پر اللہ کی رحمت ہوگی، اور جو اس سے غفلت برتیں گے وہ عذاب میں مبتلا ہوں گے۔ قرآن مجید کے نزول کا مقصد یہ بتا یا گیاکہ قیامت کے دن یہ حجت بن سکے اور اس دن کوئی یہ معذرت پیش نہ کر سکے کہ ہم کو صحیح راستہ معلوم نہیں تھا۔ یہود و نصاریٰ کے یہاں انبیاؑ آئے ،ان پر کتابیں نازل کی گئیں۔ ان کی طرف اشارہ کرکے فر مایا گیا کہ قرآن مجید اس لیے نازل کیا گیا تاکہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو نہیں معلوم کہ یہود و نصار یٰ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے؟:

اَنْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰي طَاۗىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا۝۰۠ وَاِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِہِمْ لَغٰفِلِيْنَ۝۱۵۶ (انعام۶ : ۱۵۶) اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کتاب تو ہم سے پہلے کے دوگروہوں کو دی گئی تھی، اور ہم کو کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کیا پڑھتے پڑھاتے تھے۔

جو شرک کرتے تھے اور جن کو خدائی میں شریک ٹھیراتے تھے، آخرت کے دن ان کو آمنے سامنے کر دیاجائے گا، تو وہ دیوی، دیوتا، فرشتے، انبیاـؑ، اولیا، شہدا وہاں اپنے پرستاروں سے صاف صاف ان کی حرکت سے لا علمی ، لاتعلقی اور بے خبری کا اظہار کریں گے ۔ جن کی وہ عبادت کرتے تھے اور سفارشی سمجھتے تھے، قیامت کے دن وہ ان سے براء ت کا اعلان کریں گے کہ نہ تو ہم نے ان سے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا اور نہ ہمیں اس کی کچھ خبر تھی ( انعام۶:۹۴)

فَكَفٰى بِاللہِ شَہِيْدًۢا بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اِنْ كُنَّا عَنْ عِبَادَتِكُمْ لَغٰفِلِيْنَ۝۲۹ (یونس ۱۰:۲۹) ہمارے اور تمھارے درمیان اللہ کی گواہی کافی ہے (تم اگر ہماری عبادت کرتے بھی تھے تو) ہم تمھاری اس عبادت سے بالکل بے خبر تھے۔

دوسرا مفہوم بھلا دینا ، بھول جانا،نظر انداز کرنا ، بے توجہی برتنا، بے پرواہی، لااُبالی پن وغیرہ ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی مختلف کیفیات و صفات کا ذکرکیا ہے ۔ایمان لانے والے،تقویٰ والے، فرماں بردار، متوجہ رہنے والے بندوں کی خوبیوں و صفات کا بھی ذکر کیا ہے، اور کفار و مشرکین،فجاروفساق ،بے پروا ،غافل انسانوں کی خرابیوں کی نشان دہی بھی کی ہے۔ عقل مندی یہ ہے کہ انسان اچھے لوگوں کی صفات کو اختیار کرے اور برے لوگوں کی خرابیوں سے اپنے آپ کو بچا لے۔ قرآن مجید نے انسانوں کی جن خرابیوں کا ذکر کیا ان میں ایک غفلت ہے۔ غفلت دل کی بیماریوں سے ایک اہم بیماری ہے ۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے جو انسان کی حس کو ختم کردیتی ہے۔ اچھائی و برائی، نیکی و بدی کی شناخت کی کیفیت کو ختم کردیتی ہے۔ شعور و ادراک سے وہ بہت دُور ہوجاتا ہے۔ انسان نقصان سے دو چار ہو تا ہے ، لیکن وہ کتنے بڑے گھاٹے و نقصان میں مبتلا ہو رہا ہوتا ہے اس کو اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔وہ اپنا نقصان کررہا ہو تا ہے مگر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ خسارہ کی زندگی گزاررہا ہوتا ہے مگر اس سے نکلنے کی فکر نہیں ہوتی۔

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد غفلت کی زندگی گزار رہی ہے۔ اللہ کے دین ،قرآن مجید، اللہ کے احکامات ،رسولؐ اللہ کی سنتوں ، عبادات ،نیکی کے کاموں،انفاق ،جہاد فی سبیل، حقوق العباد ، آخرت کی جواب دہی ، اللہ کی حرام کردہ اشیا سے غفلت برتنا ہی غفلت کی زندگی ہے اور ایسی زندگی گھاٹے کی زندگی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کو ایسی تمام غفلتوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

انبیا ؑ کی بعثت کا مقصد

اللہ کی رحمت کا تقاضا تھا کہ وہ انسانوں کی ہدایت کا سامان کرے ۔اس کے لیے اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لیے رسول بھیجے، ان پر کتا بیں نازل کیں ۔ان کے ذریعے حق کو واضح کیا اور شرک و کفر کے نتائج سے واقف کرایا۔انسان کو اختیار کی آزادی دی کہ چاہے تو اس کو قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرے اور آخرت میں کامیاب ہو جائے ، چاہے تو اس سے غفلت اختیار کرے۔ اگر وہ اس سے منہ موڑتا ہے تو ناکام ہو گا اور سزا سے دوچار ہوگا۔ انبیا ؑ کے مبعوث کیے جانے کا مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کو غفلت سے چونکا کے انجام سے باخبر کر دیں تاکہ لوگ شعور و ادراک، علم وایمان کی روشنی میں زندگی گزاریں۔ ارشاد ربانی ہے:

وَاَنْذِرْہُمْ يَوْمَ الْحَسْرَۃِ اِذْ قُضِيَ الْاَمْرُ۝۰ۘ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ وَّہُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۝۳۹  (مریم ۱۹:۳۹)اے نبی ؐ!اس حالت میں جب کہ یہ لوگ غافل ہیں اور ایمان نہیں لا رہے ہیں ، انھیں اس دن سے ڈرا دو جب کہ فیصلہ کر دیا جائے گا اور پچھتاوے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو گا ۔

اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمْ وَہُمْ فِيْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ۝۱ۚ (انبیاء۲۱:۱)قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت ،اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں ۔

یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے کہ جب لوگ اپنے رب کے حضور حاضر کیے جائیں گے اور اپنی پوری زندگی کا حساب دینا پڑے گا۔ وہ غفلت میں ایسے پڑے ہیں کہ ان پر کسی طرح کی تنبیہ کا ر گر نہیں ہوتی ہے، نہ تو خود ان کو اپنے انجام کی کی فکر ہے اور نہ پیغمبرؐ کے کے ڈرانے کی کوئی پروا ہے۔ غفلت انسان کے لیے نقصان دہ ہے اور جب کوئی سمجھائے اور جھنجھوڑے اس کے باوجود غفلت سے بیدار نہ ہو،تو یہ جرم اور سنگین ہو جاتا ہے۔قیامت کے قریب ہونے کے سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت ان دوانگلیوں کی طرح ہیں۔

غفلت کی اقسام

غفلت دو طرح کی ہے۔ ایک مذموم ہے اور دوسری محمود۔

  • محمود غفلت : محمود غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان گنا ہوں کو بھول جائے۔ بدی کی راہ سے نیکی کی راہ کی طرف ہجرت کرے اور ایسی ہجرت کرے کہ پھر برائیوں اور بڑے گناہ کرنے کے خیال تک کو بھلا دے۔انسانوں کی جانب سے ناروا سلوک ، بدسلوکی ، بے ہودہ باتیں سننے کے باوجود نظر انداز کر جائے ،انتقامی جذبے سے اپنے آپ کو بچا لے۔ ایسی غفلت محمود ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ الْمُحْصَنٰتِ الْغٰفِلٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ لُعِنُوْا فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ  ۝۰۠ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۲۳ۙ (النور۲۴ :۲۳) جو لوگ پاک دامن ، بے خبر ، مومن عورتوںپر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔

  • مذموم غفلت:  مراد یہ کہ انسان دین اور نیکی کے کاموں سے بے پرواہ ہو جائے ۔

مذموم غفلت کئی طرح کی ہوتی ہے:

  • وقتی وعارضی غفلت : وقتی غفلت سے مراد یہ ہے کہ انسان نیک طبیعت ہے، نیکی کے کام کرتا ہے ۔اعمال صالح کا خوگر ہے ، مگر زندگی میں کسی لمحہ میں یا کسی مرحلے میںاس پر غفلت طاری ہو جاتی ہے اور اس سے گناہ کا صدور ہو جاتا ہے۔پھر جیسے ہی توجہ ہوتی ہے تو اس روش کو ترک کردیتا ہے۔یہ غفلت قلیل لمحہ کی ہوتی ہے۔ اس لیے اس کو عارضی غفلت کہا جاتا ہے۔وَمَا وَجَدْنَا لِاَكْثَرِہِمْ مِّنْ عَہْدٍ۝۰ۚ وَاِنْ وَّجَدْنَآ اَكْثَرَہُمْ لَفٰسِقِيْنَ۝۱۰۲ (اعراف۷:۱۰۲) ’’ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاسِ عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا‘‘۔
  • لمبی غفلت: اس سے ایسی غفلت مراد ہے جس میں انسان ایک لمبی مدت تک رہتا ہے اور مسلسل گناہ کرتا رہتا ہے۔یہ فاجر و فاسق لو گوں کی غفلت ہے۔
  • کامل غفلت :یہ ایسی غفلت ہے جس میں انسان دائمی طور پر مبتلا رہتا ہے۔ اس کو اپنی غفلت کااحساس بھی نہیں ہو تا ہے۔ توجہ و یاددہانی اور تنبیہ کے باوجود وہ اس کیفیت سے باہر نہیں آتا بلکہ اس پر جما رہتا ہے۔ایسی غفلت کفار و مشرکین پر طاری ہوتی ہے جن کو وقت کا نبی اللہ کا پیغام پہنچاتاہے، ان کے انجام سے ڈراتا ہے مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں:

اِنَّ اللہَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ۝۰ۭ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يَتَمَتَّعُوْنَ وَيَاْكُلُوْنَ كَـمَا تَاْكُلُ الْاَنْعَامُ وَالنَّارُ مَثْوًى لَّہُمْ۝۱۲ (محمد ۴۷: ۱۲) ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو اللہ اُن جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، اور کفر کرنے والے بس دُنیا کی چندروزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں، اور ان کا آخری ٹھکانا جہنم ہے۔

غفلت کی علامات

غفلت کی علامات درج ذیل ہیں :

  • عبادات میں سستی: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان کا دل نیکی کے کاموں اور عبادات میں نہ لگے۔عبادات میںسستی و کاہلی، غفلت ، بے پرواہی کا مظاہر ہ ہو۔ایک انسان جانتا ہے کہ اس کی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت کرنا ہے۔عبادات کی درست ادائیگی پر دنیا میں خیر اورآخرت کی نجات منحصر ہے ۔ اس کے چھوڑنے یا درست طریقہ اور ذوق شوق کے بغیر ادا کی گئی عبادت کا نتیجہ خسارہ ہے۔ اس کے باوجود عبادات میں کوتاہی برتے تویہ غفلت کی علامت ہے۔ نماز میں سستی و کوتاہی اسلام میں بالکل پسند نہیں ہے۔ نماز میں سستی کو نفاق کی علامت بتا یا گیا ہے۔ آج مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو نمازسے غافل ہے اور نماز نہیں پڑھتی ہے۔ مسلمانوں میں جو نماز پڑھتے ہیں ان میں ایسے لوگ بہت قلیل ہیں جو نمازوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ دین دار طبقہ میں ایسے بے شمار لوگ ہیں جو نماز پڑھنے آتے ہیں تو دیر سے آتے ہیں۔ کبھی سنتیں چھوٹتی ہیں تو کبھی رکعتیں اور کبھی جماعت سے محروم رہتے ہیں۔ خاص کر فجر کی نماز میں تو اور بھی لاپرواہی ہوتی ہے ۔ یہ کم زوریاں دراصل نماز باجماعت کی اہمیت سے بے توجہی و غفلت کی وجہ سے ہیں:

وَاِذَا قَامُوْٓا اِلَى الصَّلٰوۃِ قَامُوْا كُسَالٰى ۝۰ۙ يُرَاۗءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللہَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۱۴۲(النساء۴:۱۴۲)جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمَساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کی خاطر اٹھتے ہیںاور خدا کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

یہ منافق کی نماز ہے کہ وہ بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب اس میں زردی آجاتی ہے اور مشرکین کی سورج کی پوجا کا وقت آجاتا ہے، تب یہ اٹھتا ہے اور جلدی جلدی چاررکعتیں مار لیتا ہے ( ایسے جیسے مرغی زمین پر چونچ مارتی ہے اور اٹھالیتی ہے)۔ یہ شخص اللہ کو اپنی نماز میں ذرا بھی یاد نہیں کرتا ہے۔  ( مسلم)

  • کبائر کا ارتکاب: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان بڑے گناہوں کا ارتکاب کرے ، حرام کاریوں میں مبتلا ہو، انسانوں کے حقوق تلف کرے ۔ اس کے باوجود وہ ان کے گناہ ہونے کے ادراک سے محروم رہے ۔وہ ان کومعمولی سمجھے اور ان کوکوئی اہمیت نہ دے۔ یہ غفلت کی علامت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:

مومن اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھاہو اور ڈررہا ہو کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر پڑے ۔ اور فاجر و بدکار شخص اپنے گناہوں کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کوئی مکھی ہو جو اس کی ناک پر سے گزرتی ہے۔ راوی نے کہا کہ وہ ایسے کر دیتا ہے ( اُڑادیتا ہے)۔( بخاری)

وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اَنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ خَيْرٌ لِّاَنْفُسِھِمْ۝۰ۭ اِنَّمَا نُمْلِيْ لَھُمْ لِيَزْدَادُوْٓا اِثْمًا۝۰ۚ وَلَھُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ۝۱۷۸(اٰل عمرٰن۳:۱۷۸)یہ ڈھیل جو ہم انھیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں ، ہم تو انھیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بارِ گناہ سمیٹ لیں ، پھر ان کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے۔

  • برائیوں کی رغبت: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان مسلسل گناہ کرتے رہنے کی وجہ سے برائیوں سے مانوس ہو جاتا ہے۔ اس کو برائیاں کرنے سے رغبت ہو جاتی ہے۔ پھر وہ علی الاعلان گنا ہ کرتا ہے ۔گنا ہ کرتے ہوئے اس کو کسی طرح کی شرمندگی، ندامت، غیرت، پاس، حیا نہیں ہوتی ہے۔ حضرت انس ؓ اپنے زمانے کے لو گوں سے فرماتے ہیں:

تم لوگ ایسے بہت سے کام کرتے ہو جو تمھاری نگا ہوں میں بال سے زیادہ ہلکے ہوتے ہیں ( حقیر ہوتے ہیں)۔ لیکن ہم انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دین و ایمان کے لیے مہلک خیا ل کرتے تھے۔ ( بخاری)

 حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فر ماتے سنا : ’’میری تما م امت کے گناہ بخشے جائیں گے سوائے ان لوگوں کے جو اپنے گنا ہوں کا پردہ خود فاش کردیتے ہیں۔ اور یہ بھی بے ہودگی اور بے حیائی ہے کہ آدمی رات کے وقت کوئی بُر اکام کرے اور صبح کے وقت اُٹھے تو اس کے گناہ پر اللہ تعالیٰ نے تو پردہ ڈال رکھا ہو لیکن وہ خود لوگوں سے کہتا پھرے ،اے شخص میں نے کل رات یہ اور یہ برے کا م کیے۔گویا اس کے رب نے تو اس کی پردہ پوشی فر مائی تھی لیکن وہ صبح اُٹھتا ہے اور اللہ کے ڈالے ہوئے پردے کو خود کھول دیتا ہے‘‘ (بخاری، کتاب الادب)۔ ’جواپنے گناہوں کا پردہ فاش کرتے ہیں‘ سے مراد یہ کہ وہ علی الاعلان سب کے سامنے گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ لگ جاتا ہے ۔ اگر وہ توبہ کرلے تو وہ نقطہ صاف ہو جاتا ہے ،لیکن اگر وہ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہی چلا جائے تو پورے دل پر وہ چھا جاتا ہے۔ ( ترمذی)

 كَلَّا بَلْ۝۰۫   رَانَ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۱۴( مطففین ۸۳: ۱۴) ہرگز نہیں،  بلکہ دراصل ان لوگوں کے دلوںپر ان کے برے اعمال کا زنگ چڑھ گیا ہے۔

  • غیر مفید  کاموں میں مصروف رہنا: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان غیرمفید اورلغو کاموں میں اپنا وقت ضائع کرے۔انسان کو بامقصد پید ا کیا گیا ۔ زندگی کی نعمت انسان کو ایک امتحان کے لیے دی گئی ہے۔دنیا آخرت کی کھیتی ہے ۔ انسان زندگی کے مقصد سے غافل ہوجائے اور اس کی تیاری نہ کرے تو اسی کیفیت کا نام غفلت ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نِعْمَتَانِ مَغْبُوْنٌ  فِیْھِمَا کَثِیْرٌ  مِنَ النَّاسِ ، الصحۃٌ و الفراغٌ  ( بخاری، کتاب الرقاق) ’’اللہ کی ان دو نعمتوں ’ صحت‘ اور ’فرصت‘ کے متعلق اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں‘‘۔ البذاءُ والبیانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ (ترمذی)’’فحش گوئی اور لا حاصل بکواس نفاق کی دو شاخیں ہیں‘‘۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص کے انتقال پر ایک شخص نے کہا کہ تجھے جنت کی بشارت ہو۔اس پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کہہ رہے ہو؟جب کہ حقیقتِ حال سے تو واقف نہیں ہے ۔ شاید اس نے لا یعنی گفتگو کی ہو یا ایسی چیز میں بخل سے کام لیا ہو جو اس کے لیے باعث نقصان نہ تھی (ترمذی) ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بے فائدہ ،غیر ضروری اور لایعنی باتیں بھی انسان کی غفلت کا سبب بنتی ہیں جواس کے جنت میں نہ جانے کی وجہ بن سکتی ہیں:

مَا يَاْتِيْہِمْ مِّنْ ذِكْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ اِلَّا اسْتَـمَعُوْہُ وَہُمْ يَلْعَبُوْنَ۝۲ۙ لَاہِيَۃً قُلُوْبُہُمْ۝۰ۭ (الانبیاء۲۱ :۲-۳) اُن کے پاس جو تازہ نصیحت بھی ان کے رب کی طرف سے آتی ہے اس کو بہ تکلف سنتے ہیں اور کھیل میں پڑے رہتے ہیں ،دل ان کے ( دوسری ہی فکروں میں ) منہمک ہیں۔

  • غافل لوگوں کی صحبت: غفلت کی ایک علامت یہ ہے کہ انسان ایسے افراد کے ساتھ رہے جو زندگی کے مقصد سے غافل ہوں۔ غافلوں کی صحبت بھی انسان کو غفلت میں مبتلا کرنے کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی صحبت اور ان کی بات ماننے سے روکا ہے، جو غافل ہوں:

وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوٰىہُ وَكَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا۝۲۸ (الکہف۱۸: ۲۸) کسی ایسے شخص کی اطاعت نہ کرو، جس کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور جس نے اپنی خواہشِ نفس کی پیروی اختیار کر لی ہے اور جس کا طریقِ کار افراط و تفریط پر مبنی ہے۔

سور ۂ فرقان میںجہنمیوں کے بارے میں ہے:

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰي يَدَيْہِ يَقُوْلُ يٰلَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِيْلًا۝۲۷  يٰوَيْلَتٰى لَيْتَنِيْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيْلًا۝۲۸  لَقَدْ اَضَلَّنِيْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَاۗءَنِيْ۝۰ۭ (الفرقان ۲۵: ۲۷-۲۹) وہ منکرین کے لیے بڑا سخت دن ہو گا ۔ظالم انسان اپنا ہاتھ چبائے گا اور کہے گا: کاش! میں نے رسول کا ساتھ دیا ہوتا۔ ہائے میری کم بختی ، کاش! میں نے فلا ں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ۔ اس کے بہکائے میں آکر میں نے وہ نصیحت نہ مانی جو میرے پاس آئی۔

حدیث میں بُری صحبت کی مثال بھٹی دھونکنے والے سے دی گئی ہے کہ جس کے پاس بیٹھنے سے آدمی کے کپڑوں پر چنگار ی آکر اس کے کپڑے جلادیتی ہے، یا پھر وہ دھوئیں اور اس کی بھٹی سے ا ٹھنے والی بدبو سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ اسی طرح برے آدمی کی سنگت اور بہت زیادہ میل جول سے آدمی یاتو گناہ کے کام کرتا ہے یا کم ازکم نیکی کے کاموں سے محروم ہو جاتا ہے۔

غفلت کے اسباب

غفلت کے درج ذیل اسباب ہیں:

  • باپ دادا کی تقلید: دین سے غفلت و دُوری کا ایک سبب خاندانی عصبیت،      قومی تعصب ہوتا ہے ۔ان کے عقیدے وخیالات،تصورات، رسم و رواج کی انسان پابندی کرتا ہے۔ اللہ و رسولؐ کے حکم کے بالمقابل اپنے خاندان کے اصولوں اور رسموں کو اہمیت دے کر ان پر کار بند رہتا ہے۔ یہ کیفیت انسان کو دین سے غافل کر دیتی ہے۔دین کو قبول کرنے میں مانع ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب جو کہ آپ ؐسے بہت محبت کرتے تھے۔ آپؐ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اپنی اولاد سے زیادہ آپؐ سے شفقت کرتے تھے۔ ہر حال میں آپؐ کا ساتھ دیا، مگر خاندانی عصبیت آپؐ کے لائے دین میں آڑے آگئی۔ وہ دینِ حق قبول کرنے سے محروم رہے:

 اِنَّا وَجَدْنَآ اٰبَاۗءَنَا عَلٰٓي اُمَّۃٍ وَّاِنَّا عَلٰٓي اٰثٰرِہِمْ مُّقْتَدُوْنَ۝۲۳ (زخرف ۴۳ :۲۳) ہم نے اپنے باپ داد ا کو ایک طریقے پر پایا ہے اور ہم انھی کے نقشِ قدم کی پیروی کررہے ہیں۔

وَاِذَا قِيْلَ لَہُمُ اتَّبِعُوْا مَآ اَنْزَلَ اللہُ قَالُوْا بَلْ نَتَّبِــعُ مَآ اَلْفَيْنَا عَلَيْہِ اٰبَاۗءَنَا۝۰ۭ اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَہْتَدُوْنَ۝۱۷۰( البقرہ۲: ۱۷۰)ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کیے ہیں اُن کی پیروی کرو، توجواب دیتے ہیں کہ ہم تو اُسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ داد کو پایا ہے۔ اچھا، اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور راہِ راست نہ پائی ہو، توکیا پھر بھی یہ انھی کی پیروی کیے چلے جائیں گے؟

  • خواہشِ نفس کی پیروی: دین سے غفلت کا ایک سبب یہ ہے کہ انسان اپنی خواہشِ نفس کی پیروی کرے ۔اس کے دل میں جو آئے وہ کرے۔جو چیز اس کو پسند آئے اس کو کرے اور جونا پسند ہو ،اس کو نہ اختیار کرے ۔ایسا شخص اپنے نفس کا بندہ بن کر رہ جا تا ہے :

اَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تَكُوْنُ عَلَيْہِ وَكِيْلًا۝۴۳ۙ ( الفرقان ۲۵:۴۳) کبھی تم نے اس شخص کے حال پر غور کیا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟

فَاِنْ لَّمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَكَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا يَتَّبِعُوْنَ اَہْوَاۗءَہُمْ۝۰ۭ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ بِغَيْرِ ہُدًى مِّنَ اللہِ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ لَا يَہْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِـمِيْنَ۝۵۰ (القصص۲۸:۵۰)اب اگر وہ تمھارا یہ مطالبہ پورا نہیں کرتے تو سمجھ لو کہ دراصل یہ اپنی خواہشات کے پیروہیں اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہو گا جو خدائی ہدایت کے بغیر بس خواہشات کی پیروی کرے ؟ اللہ ایسے ظالموں کو ہر گز ہدایت نہیں بخشتا ۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو مختلف طرح کی صلاحیتیں ودیعت کی ہیں۔ سننے کے لیے کان، دیکھنے کے لیے آنکھ، سوچنے سمجھنے کے لیے دل و دماغ عطا کیا ۔ انسان جب ان صلاحیتوں کا صحیح استعمال کرتا ہے ،ان سے ٹھیک انداز سے فائد اٹھاتا ہے تو اس کو ہدایت نصیب ہوتی ہے۔ وہ انسانی مجدو شرف کے اعلیٰ مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اس کے لیے جنت کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔  اگر وہ ان صلاحیتوں کا غلط استعمال کرتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کرتا رہتا ہے، تووہ انسانیت کے مقام سے گر جاتا ہے۔ خواہشاتِ نفس کی پیروی کے نتیجے میں ایسے مقام پر جا پہنچتا ہے کہ اس کی آنکھیں صحیح بات دیکھنے، کان اچھی بات سننے اور دل و دماغ حق بات کو تسلیم کرنے کی صلاحیت کھوبیٹھتے ہیں اور حق قبول کرنے کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ (اعراف ۷ :۱۷۹، فرقان ۲۵:۴۴)

  • انسانوں کی اطاعت: دین سے غفلت کا ایک سبب یہ ہے کہ انسان اپنے جیسے انسانوں کو یہ درجہ دے دے کہ ان کی ہر بات بغیر سوچے سمجھے ماننے لگے۔صاحب ِاقتدار، مذہبی پیشوا، دولت مندلوگوں کے بارے میں یہ تصور بٹھالے کہ یہ بھی کچھ نفع و نقصان کے مالک ہیں۔ اور ان کو غیر معمولی اہمیت دیتے ہوئے ان کی ہر بات تسلیم کر لینا، یہ چیز اس کو دین سے غافل کر دیتی ہے:

اور یہ لوگ جب اکٹھے اللہ کے سامنے بے نقاب ہوں گے تواُس وقت ان میں سے جو دنیا میں کمزور تھے وہ اُن لو گوں سے جو بڑے بنے ہوئے تھے، کہیں گے: ’’دنیا میں ہم تمھارے تابع تھے ،اب کیا تم اللہ کے عذاب سے ہم کو بچانے کے لیے بھی کچھ کر سکتے ہو؟‘‘ وہ جواب دیں گے: ’’اگر اللہ نے ہمیں نجات کی کوئی راہ دکھائی ہوتی تو ہم ضرور تمھیں بھی دکھادیتے ۔اب تو یکساں ہے ، خواہ ہم جزع فزع کریں یا صبر ، بہرحال ہمارے بچنے کی کوئی صورت نہیں‘‘۔ (ابراھیم۱۴ :۲۱)

  • دنیا میں انہماک:دین سے غفلت کا ایک سبب دنیامیںحد سے زیادہ انہماک ہے۔ جب انسان مادی چیزوں پر زیادہ بھروسا کرلیتا ہے ۔دولت ، کھیتی باڑی، دنیا کا آرام، عزّت و شہرت کی طلب حد سے زیادہ ہوجاتی ہے تو انسان اللہ کے حقوق سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔کارو بار، کیرئیر، خاندان، بچوں کی ترقی اور کامیابی کی فکر اس پر طاری رہتی ہے۔ ہر وقت دنیوی مفاد کے حصول اور دُنیوی کا میابیوںکے حصول کابھوت اس پر ایسا مسلط ہو جاتا ہے کہ وہ قبر تک پہنچ جاتا ہے اور وہ زندگی کے اہم مقاصد و امور سے غافل رہتا ہے۔جسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے سرگرم رہنا مطلوب ہے۔ لیکن جب یہ انہماک حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے تو انسان کو اتنی بھی فرصت نہیں ملتی کہ وہ زندگی کے حقیقی مقصد و تقاضوں کے بارے میں سوچ سکے۔ اسی کیفیت کا نام غفلت ہے:

اِنَّ الَّذِيْنَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاۗءَنَا وَرَضُوْا بِالْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا وَاطْمَاَنُّوْا بِہَا وَالَّذِيْنَ ھُمْ عَنْ اٰيٰتِنَا غٰفِلُوْنَ۝۷ۙ اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸ (یونس ۱۰:۷-۸) حقیقت یہ ہے کہ جولوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے اور دنیا کی زندگی ہی پر راضی اور مطمئن ہوگئے ، اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ، ان کا ٹھکانا جہنم ہو گا اُن برائیوں کی پاداش میں جن کا اکتساب وہ کرتے رہے۔

اَلْہٰىكُمُ التَّكَاثُرُ۝۱ۙ حَتّٰى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ۝۲ۭ (التکاثر ۱۰۲: ۱-۲) تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اور ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا حا صل کرنے کی دھن نے غفلت میں ڈال رکھا ہے یہاں تک کہ ( اسی فکر میں )تم لب ِگور تک پہنچ جاتے ہو۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: مَنْ اَحَبُّ دُنْیَا ہٗ اَضَـرَّ بَآخِرَتِہٖ (مشکٰوۃ المصابیح)،’’جو شخص دنیا سے پیار کرتا ہے وہ اپنی آخرت کو ضرور نقصان پہنچاتا ہے‘‘۔

اگر ابن آدم کو سونے سے بھری ہوئی ایک وادی دے دی جائے تو وہ دوسری کی خواہش کرے گا اور اگر دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری کی تمنا کرے گا ۔اور ابن آدم کے پیٹ کو تو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ ( بخاری)

  • لااُبالی پن : دین سے غفلت کا ایک سبب لااُبالی پن ہے۔ انسان اپنی زندگی کے مقصد پر کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کرتا ہے۔ زندگی کے مختلف مراحل میں مختلف طرح کے مسائل و مشکلات آتی ہیں، تب بھی وہ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ ان کے اسباب پر رُک کر سوچتا نہیں ہے۔ اس کی یہ روش اس کو لااُبالی بنادیتی ہے ۔ لااُبالی پن انسان کو غافل بنا دیتا ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: الا نَـاۃُ مِنَ اللہِ وَالعَجَلَۃُ مِن الشَّیْطَانِ (ترمذی) ’’کام کو اطمینان و متانت کے ساتھ انجام دنیا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے تعلق رکھتا ہے‘‘ ۔ دوسری حدیث میں فرمایا: بعض اوقات بندہ ایسی بات کہتا ہے جس کے کہنے سے اس کی غرض محض لو گوں کو ہنسانا ہوتاہے۔اس کی وجہ سے وہ دوزخ میں گر تا ہے۔ مومنین کی صفت قرآن نے یہ بتائی ہے کہ وہ غیر ضروری باتوں سے گزر جاتے ہیں۔(المومنون ۲۳:۳)

  • گھمنڈ و غرور: حق سے دور رکھنے اور حق کی جانب متوجہ ہونے میں گھمنڈ رکاوٹ بنتا ہے ۔گھمنڈ و تکبرایسی بیمار ی ہے جس میں مبتلا شخص اپنے آپ کو بڑا اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے۔ مال و دولت ، مذہبی ، قومی، سیاسی یا کسی بھی وجہ سے گھمنڈ میں مبتلا فرد کسی کو بھی خاطر میں نہیں لاتا، حتیٰ کہ وقت کے پیغمبر وں اور ان کی دعوت کو بھی جھٹلا دیتا ہے۔ حضرت موسٰی اور حضرت ہارون ؑ نے فرعون اور اس کے سرداروں کے سامنے بڑی بڑی نشانیاں پیش کیں مگر انھوں حق کا انکار کردیا (المومنون۲۳: ۴۶)۔ شیطان نے حضرت آدمؑ کو سجد ہ نہیں کیا اس کی وجہ بھی استکبا ر ہی تھا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ اللہ نے اس کو ذلیل کر کے جنت سے نکال دیا۔ (اعراف۷:۱۲،۱۳)

غفلت کا انجام

غفلت میں خواہ فرد مبتلا ہویا قوم، دونوں کا انجام یکساں ہے ۔دنیا میں غفلت کے نتیجے میں دونوں ہی بُرے نتائج سے دوچار ہوتے ہیں اور آخرت میں بھی انجام برا و رسواکن ہو گا۔

  • تباہی و ہلاکت : جو افراداللہ اوراس کی کتاب ، اس کے رسولؐ کی تعلیمات سے اعراض کرتے ہیں ۔ان کے اس اعراض و استکبار کی سزا دنیا میں مقدر کردی جاتی ہے اور آخرت میں جہنم رسید ہوں گے۔ جوقومیں اس روش کو اپناتی ہیں اور کھلم کھلا رسول کی بات کو جھٹلاتی ہیں، ان کو دنیا میں ہی تباہ و بر باد کر دیا جاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کا ذکر کیا ہے کہ جب انھوں نے رسول کو جھٹلایا ، اس کا مذاق اڑایا، اس پر نازل کردہ کتاب کی تکذیب کی تو اللہ نے ان کو ہلاک کر دیا:

فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْہُمُ الرِّجْزَ اِلٰٓي اَجَلٍ ہُمْ بٰلِغُوْہُ اِذَا ہُمْ يَنْكُثُوْنَ۝۱۳۵ فَانْتَقَمْنَا مِنْہُمْ فَاَغْرَقْنٰہُمْ فِي الْيَمِّ بِاَنَّہُمْ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوْا عَنْہَا غٰفِلِيْنَ۝۱۳۶ (اعراف ۷:۱۳۵-۱۳۶) مگر جب ہم اُن پر سے اپنا عذاب ایک وقتِ مقرر تک کے لیے ، جس کو وہ بہر حال پہنچنے والے تھے، ہٹا لیتے تو وہ یکلخت اپنے عہد سے پھر جاتے۔ تب ہم نے ان سے انتقام لیا اور انھیں سمندر میں غرق کر دیا کیوں کہ انھوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایاتھا اور اُن سے بے پرواہ ہو گئے تھے ۔

ان آیات میں قومِ فرعون کی ہلاکت کا سبب تکذیب اور غفلت بتائی گئی ہے۔ قومِ فرعون پر تنبیہ کے لیے پہلے قحط، طوفان، ٹڈی دل ،سرسریاں، مینڈک، خون کا عذاب نازل کیا گیالیکن جب قوم غفلت میں پڑی رہی اور رسول کی تکذیب کرتی رہی تو اس کو ہلا ک کر دیا گیا:

فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُوْنَ لِمَنْ خَلْفَكَ اٰيَۃً۝۰ۭ وَاِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ النَّاسِ عَنْ اٰيٰتِنَا لَغٰفِلُوْنَ۝۹۲( یونس۱۰ : ۹۲) اب تو ہم صرف تیری لاش ہی کو بچائیں گے تاکہ بعد کی نسلوں کے لیے نشانِ عبرت بنے اگرچہ بہت سے انسان ایسے ہیں جو ہماری نشانیوں سے غفلت برتتے ہیں۔

lتوفیق کا سلب ہونا: جو افراد، گروہ اور اقوام اللہ اور اس کے رسول ؐکے دیئے گئے احکامات سے غفلت برتتی ہیں ۔ اس پر دھیا ن و توجہ کے بجائے لاپرواہی اختیا ر کرتی ہیں ۔اللہ ان سے نیک اعمال کی توفیق چھین لیتا ہے اور ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں:

وَلَقَدْ ذَرَاْنَا لِجَــہَنَّمَ كَثِيْرًا مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ ۝۰ۡۖ لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡ وَلَہُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ  بِہَا۝۰ۡ وَلَہُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِہَا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ۝۱۷۹ ( اعراف۷: ۱۷۹)۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جِنّ اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ اُن کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ اُن کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ اُن سے دیکھتے نہیں ۔ اُن کے پاس کا ن ہیں مگر وہ اُن سے سنتے نہیں ۔ وہ جانور وں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے گئے ہیں ۔

 غافل انسان سے اللہ ناراض ہو جاتا ہے اور عقل و شعور، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کرلیتا ہے۔ وہ کان رکھتا ہے، بات سنتا ہے مگر بھلی بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی ہے ۔آنکھوں سے دیکھتا ہے مگر آنکھیںعبرت و نصیحت حاصل کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔

  • ا للّٰہ کی نشانیوں سے سبق لینے  سے محرومی :غافل انسان اللہ کی نشانیوں کو جھٹلاتا ہے۔ جب کسی کی عقل پر غفلت کے پردے پڑجاتے ہیں تو انسا ن اللہ کی نشانیوں کو دیکھتا ہے مگر غور نہیں کرتا ، سنبھلتا نہیں ہے جیسا کہ فرعون کی قوم پر اللہ نے کئی عذاب بھیجے کہ قوم نصیحت حاصل کرے اور اپنے رویہ میں تبدیلی لائے ۔جب کئی عذاب آگئے اور ان کے اندر رجوع الی اللہ کی فکر نہیں ہوئی تو اللہ نے ان کو تباہ کر دیا ۔دریائے نیل میں غرق کر دیا:

آخر کار تمھارے دل سخت ہو گئے ،پتھر وں کی طرح سخت ، بلکہ سختی میں کچھ ان سے بھی بڑھے ہوئے، کیوں کہ پتھر وں میں سے تو کوئی ایسا بھی ہوتا ہے جس میں سے چشمے پھوٹ بہتے ہیں ، کوئی پھٹتا ہے اور اس میں سے پانی نکل آتا ہے ، اور کوئی خدا کے خوف سے لرز کر گر بھی پڑتا ہے ۔اللہ تمھارے کرتوتوں سے بے خبر نہیں ہے۔ ( البقرہ ۲: ۷۴)

  • غفلت جہنم میں لے جانے والا عمل : غفلت ایک ایسا موذ ی مرض ہے کہ اس میں گرفتار انسان لوگو ں کو مرتے دیکھتا ہے ، مگر اثر حاصل نہیں کرتا۔ غفلت کی وجہ سے دنیا میں بھی انسان آزمائشوں سے گزرتاہے اورآخرت میں بھی اس کے حصہ میں دوزخ کی آگ آئے گی: اُولٰۗىِٕكَ مَاْوٰىھُمُ النَّارُ  بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ۝۸ (یونس ۱۰ :۸)
  • قیامت کے دن عار دلائی جائے گی: قیامت کے دن جب اللہ کے حضور حاضری ہو گی اس دن جو لوگ دنیا میں غافل رہے ان کو عار دلائی جائے گی:

وَجَاۗءَتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَہَا سَاۗىِٕقٌ وَّشَہِيْدٌ۝۲۱ لَقَدْ كُنْتَ فِيْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاۗءَكَ (قٓ ۵۰:۲۱ ،۲۲) ہر شخص اس حال میں آگیا کہ اس کے ساتھ ایک ہانک کر لانے والا ہے اور ایک گواہی دینے والا ۔ اس چیز کی طرف سے تو غفلت میں تھا، ہم نے وہ پردہ ہٹا دیا۔

  انبیا علیہ السلام کی بعثت کا مقصد یہی تھا کہ انسانوں کو غفلت سے بیدار کیا جائے ۔ ان کو رب کریم سے واقف کرایا جائے اور وہ غفلت ولاپرواہی چھوڑکر رب کی بندگی اختیار کر لیں:

 لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّآ اُنْذِرَ اٰبَاۗؤُہُمْ فَہُمْ غٰفِلُوْنَ۝۶ ( یٰسٓ ۳۶:۶)تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو، جس کے باپ دادا خبردار نہ کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

  •  شیطان غالب ہو جاتا ہے : جو شخص غافل ہوتا ہے ، دینی تعلیمات و احکامات سے مسلسل لاپرواہی برتتا ہے، تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شیطان اس شخص پر غالب ہو جاتا ہے۔ اور پھر وہ اس کو اللہ سے مسلسل غافل رکھنے کی کوشش کر تا رہتا ہے:
  • وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللہَ فَاَنْسٰـىہُمْ اَنْفُسَہُمْ۝۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْفٰسِقُوْنَ۝۱۹ (الحشر ۵۹:۱۹) اُن لوگوں کی طرح نہ ہوجائو، جواللہ کو بھول گئے تو اللہ نے انھیں خود اپنا نفس بھلادیا، یہی لوگ فاسق ہیں۔

لہٰذا دُنیامیں مادی فوائد کے حصول کی کوشش سے غفلت دُنیا کا نقصان ہے، مگر دین سے غفلت دنیا و آخرت دونوںجگہ نقصان ہے۔ دنیا میں بداعمالیوں وگمراہیوں کی وجہ سے دنیا ظلم سے بھر جائے گی اور آخرت میں آخرت خراب ہو گی ۔عقلمندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان غفلت سے بچے۔

اخلاق کی اہمیت انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسلّمہ ہے۔ اچھے اور پُرامن معاشرے کی تعمیر میں اخلاقِ حسنہ کلیدی رول ادا کرتے ہیں ۔تمام آسمانی کتب میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے کامیابی کے لیے اس کو لازمی قرار دیا ہے ۔ آ ج اخلاقی زوال ہر سطح پر عام ہے۔ تعلیم گاہیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی روک تھام کی اشدضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کل ملک و ملت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں۔ لہٰذا ان تعلیم گاہوں کا ماحول ایسا بنایا جائے کہ طلبہ اچھے اخلاق کے حامل ہو سکیں ۔ اس سلسلے میں چند عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ان کے ذریعے سے تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

  • اخلاق حسنہ : اللہ تعالیٰ نے جن اخلاق کو اختیارکرنے اوراپنانے کا حکم دیا ہے، اُن کی قرآنی اخلاقیات سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔
  • اخلاق سئیہ :جن اخلاق کو اللہ ناپسند کرتا ہے، ان کو ’رذائل اخلاق‘ کہتے ہیں۔  قرآن میں ان کے لیے منکر، فحشاء، فاحشہ، سیئہ، سوء، مکروہ ، خطا، اثم عدوان جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
  • اعلٰـی اخلاق : اعلیٰ اخلاق سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کواصولوں پر استوار کرے ۔ دوسرے لوگوں کے رویے کی پروا کیے بغیر وہ اپنا رویہ متعین کرے، خواہ دوسروں کا رویہ اس کے ساتھ حُسن سلوک کاہو یا بد اخلاقی کا،  اس کا رویہ ہمیشہ حُسن سلوک ، نرمی، تعلقات کو استوار کرنے والا ہو۔ کوئی اس کا حق نہ دے، بُرا سلوک کرے، اس پر ظلم کرے ، بدتمیزی سے پیش آئے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ جوڑنے والا، نظر انداز کرنے والاہو ۔ اس رویہ کو اعلیٰ اخلاق کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ  اِذَا قَطَعْتَ رَحِمَہٗ وَصَلَھَا( بخاری) ’’وہ شخص مکمل درجہ کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو بھلائی کے مقابلے میں بھلائی کا رویہ اختیار کرے لیکن مکمل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب تُو اس سے قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑدے‘‘۔ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ (بخاری) جو شخص تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس سے حسن سلوک کر اور جو تجھ سے بُرا برتاؤ کرے تو اس پر احسان کر ۔

حُسنِ خلق کے مقاصد: حُسن اخلاق کو اختیار کرنے کے درج ذیل مقاصد ہیں:

  • رضائے الٰہی:ایک مومن جو بھی کام کرتا ہے، وہ اللہ کی رضا و خو ش نودی حا صل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اچھے اخلاق اختیا ر کر نے سے مقصو د یہ ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ سے خوش ہو جائے۔
  • امدادباہمی: کوئی انسان اپنی ساری ضرورتیںخود پوری نہیں کر سکتا۔ وہ دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔اچھے اخلاق اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئیں، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بنیں،تاکہ ایک اچھے معاشرے کی بنیاد بنے۔
  •  مثبت تبدیلی:انسان اچھی وبری خصلتوں کا مجموعہ ہے: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۝۸۠ۙ (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کردی‘‘۔ اچھے اخلاق کا خو گر بنانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر مثبت تبدیلی آئے۔ وہ بُرے اخلاق کو چھوڑ دے اور اچھے اخلاق سے اپنے آپ کو مزین و آراستہ کر لے۔
  • خدمت خلق:اچھے اخلاق اپنانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش بن جائے اور مخلوق کی خدمت کرے۔
  •  کردار سازی: اچھے اخلاق کو اختیارکرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ انسان کی شخصیت تعمیر کی جا سکے۔ انسان کے اندر اعلیٰ اخلاق نشوو نما پائیں اور اس کی زندگی پاکیزہ بن سکے۔
  • حُسنِ خلق کی اہمیت: افراد اور قوموں کی شناخت و پہچان اخلاق سے ہوتی ہے۔ جو حُسن خلق کا خوگر ہوتا ہے، لوگ اور معاشرہ اس کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔
  • اسلام میں اخلاق کی اہمیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے فر مایا: بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ ( موطا امام مالک) اِنَّـمَا بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ مَکَارَمَ الْاَخْلَاقِ (السنن الکبریٰ، للبیہقی) ’’میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں‘‘۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں آپؐ کی اخلاقی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے نبیؐ کے بلند اخلاق کاذکر کرتے ہوئے فر مایا : وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۝۴ (القلم ۶۸:۴) ’’بے شک آپ ؑ اعلیٰ اخلاق والے ہیں‘‘۔کتب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دعوت کا کام کر رہے تھے تو حضرت ابوذر ؓ نے اپنے بھائی کو مدینہ سے مکہ بھیجا کہ وہ رسول اکرمؐ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے لائیں ۔انھوں نے آکر اطلا ع دی کہ رَاَیْتُہٗ یَاْمُرُ بِـمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ (مسلم) ’’میںنے ان کو دیکھاکہ وہ لوگوں کواخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اخلاق کے عظیم الشان مرتبہ پر فائز تھے ۔ انسانوں کوبھی آپؐ اچھے اخلاق اپنانے کی تعلیم دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:اِتَّقِ اللہَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاَتْبِعِ السَّیِئَۃَ الْحَسْنَۃَ تَمْحُھَا وَخَالِقِ النَّاسِ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی)’’جہاں کہیں بھی رہواللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہواور برائی کے بعد نیکی کرلو تاکہ نیکی برائی کو مٹا دے اور لوگو ں کے ساتھ خوش خوئی سے پیش آؤ‘‘۔

  •  رسولؐ کو محبو ب لوگ:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ لوگ پسندیدہ ہیں جو اچھے اخلاق کے خو گر ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:اِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری) ’’تم میں سب سے زیادہ مجھے وہ لوگ محبوب ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں‘‘۔
  • سب سے اچھے لوگ: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری و مسلم) ’’تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے تم میں سب سے اچھے ہیں‘‘۔
  • اخلاق  حسنہ  کی فضیلت :دین اسلام میں نماز روزہ کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اچھے اخلاق کو اختیار کرتا ہے تو وہ عبادت کے اعلیٰ درجات کو پالیتا ہے ۔ اِنَّ الْمُوْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃً  الصَّائِمِ  الْقَائِمِ (ابوداؤد ) ’’مومن اپنے حُسن اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حا صل کر لیتا ہے جو رات میں اللہ کے حضور کھڑے رہتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں‘‘۔
  • جنت میں داخلہ کاسبب :قیامت کے دن جنت میں جانے والوں میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جن کے دنیا میں اخلاق اچھے تھے ۔ابوہریر ہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: عَنْ اَکْثَرِمَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ ؟ قَالَ : تَقْوٰی اللہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ  ( ترمذی) ’’اکثر لوگ کس وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے؟ آپ ؑنے فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق کی وجہ سے‘‘۔

ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ !فلاں عورت نفل نماز پڑھنے ، نفل روزے رکھنے اور صدقہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : وہ جہنمی ہے ۔ اس آدمی نے پھر کہا : اے اللہ کے رسول ؐ !ایک دوسری عورت ہے جو کم نماز پڑھتی، کم روزے رکھتی ہے اور کم مقدار میں صدقہ کرتی ہے۔ مگر وہ پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں کو دیتی ہے اور پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچاتی ۔ آپ ؐ نے فرمایا:’’وہ جنتی ہے‘‘۔(احمد)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم جانتے ہوکہ مفلس کون ہے ؟ لو گوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ مال و اسباب۔ آپؐ نے فر مایا :’’ میری امت کا مفلس شخص وہ ہے، جو قیامت کے روز اس حال میں حاضر ہو کہ اس کے پاس نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب ہو، مگر اسی کے ساتھ دنیا میں اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ،  کسی پر بہتان تراشی کی ہو گی ، کسی کا مال ہڑپ کرکے کھایا ہوگا،کسی کی پٹائی کی ہوگی،تو ان تمام مظلوموں کو اس کی زیادتیوں کی بنا پر بدلے میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ جائیں گے تو ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم)

اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نماز وروزہ کی دین میں اپنی جگہ پر اہمیت مسلّمہ ہے۔ لیکن یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے لیے اچھے اخلاق کو اختیار کرنا لازمی و ضروری ہے۔

  • قیامت کے دن سب سے وزنی چیز: قیامت کے دن جب انسانوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اِنَّ اَثُقَلَ شَیْءٍ  یُوْضَعُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُوْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ حَسَنٌ ( ابوداؤد، تر مذی) ’’قیامت کے روز مومن کی میزان میں جو سب سے وزنی چیز رکھی جائے گی وہ حُسنِ اخلاق ہے‘‘۔
  • اخلاق و ایمان کا تعلق :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا ، وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَاءِ ھِمْ (تر مذی)، ’’اہل ایمان میں ایمان کے لحاظ سے سب سے کامل شخص وہ ہے جوان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔اور تم میں اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو‘‘۔ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا الْاِیْمَانُ ؟ قَالَ : اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَاءَ تُکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُوْمِنٌ ۔ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ : فَمَا الْاِثْمُ ؟ قَالَ: اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْءٌ  فَدَعْہُ( احمد ) ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا : جب تمھاری نیکی تمھارے لیے خوشی کا باعث ہو اور تمھاری بدی تمھارے لیے ناگواری کا سبب ثابت ہو تو تم مومن ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گنا ہ کے بارے میںدریافت کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا: الْبِرُّ حُسْنُ الْخَلُقِ ( مسلم) ’’حُسن اخلاق نیکی ہے‘‘۔
  • دعاکرنا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے لیے اللہ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنُ خُلُقِیْ (احمد) ’’اے اللہ تو نے میری پیدائش کو حُسن و خوبی سے نوازا ، پس میر ے اخلاق کو بھی حسن و خوبی عطا کر ‘‘۔

تعلیم کا مقصد

 تعلیم کا مقصد انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ’تعلیم برائے معاش‘، ’ تعلیم برائے علمیت‘ ہو تو طلبہ پیسے کمانے کی مشین بنتے ہیں یا ساری توجہ اچھے نمبروں کو حاصل کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اخلاقیات، انسانیت کے تقاضے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد معاش اور علمی لیاقت تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو اصل کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ تعلیم کا مقصد تویہ ہے کہ نئی نسل کی تربیت و نشوونما ایسی ہو کہ ان کی خوابیدہ فطری صلاحیتوں کو جِلا بخشی جا سکے۔ انھیں اپنی انفرادی و اجتماعی، عائلی و سماجی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی اداکرنے والا بنایا جا سکے۔پاکیزہ سیرت و کردار ، اخلاق کریمہ کا خو گر بنایا جاسکے۔ اپنی ذات ،سماج ومعاشرے کے لیے نفع بخش و مفید تر بنایا جا سکے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان اللہ کا صالح بند ہ بن جائے،تاکہ اس دنیا میں انسانوں کے کا م آنے والا ، لوگوں میں خیر و بھلائی پھیلانے والابن سکے اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔ہمارے ادارے قائم کرنے کا مقصد یہی ہے۔ یہ مقصد ذمہ داران، تدریسی وغیر تدریسی عملہ ، والدین ، سر پرستوں،طلبہ سب کے سامنے رہنا چاہیے۔

  • ادارہ کے قیام کا مقصد: طلبہ کے اندر اخلاقیات کوفروغ دینے کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اسکول کے مقاصد و نصب العین سے اسکول سے متعلق تما م لوگ واقف ہوں اور ادارے کے اندر اخلاقی ماحول بنانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ذمہ داران کا ادارے کے مقصد سے لگاؤ ہو گا تو وہ طلبہ کی نہ صرف اسکول کی حد تک بلکہ ان کے گھروں کی سرگرمیوں پر بھی نگا ہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔
  • نصاب تعلیم: اداروں میںاخلاقیات کو پروان چڑھانے و فروغ کے لیے ماحول ساز گار بنانے میں نصاب تعلیم کا اہم کلیدی کردار ہو تا ہے۔ موجودہ دور میں رائج عمومی نصاب تعلیم، مادی ترقی، معاشی خوش حالی ووطن پرستی کو اہمیت دیتا ہے۔ اخلاقی اقدار کی نصاب تعلیم میںکو ئی جگہ نہیں ہے، اگر ہے تو اس کی حیثیت اضافی چیز کی ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نظام کے فارغین اخلاقی اقدار سے نابلد، ناآشنا اور محروم ہوتے ہیں ، مادہ پرست ، مفاد پرست،خواہش نفس کے بندے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں حیاسوزواقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔

معیاری تعلیمی ادارے کا  عملی خاکہ

اسلام کے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے پر ہے ۔ وہ خلافت، وحدت انسانیت، احترام انسانیت، آزادیٔ رائے جیسے تصور کو اہمیت دیتا ہے۔ نظام تعلیم میں درسیات کی بنیادی حیثیت ہے ۔ کتابیں اپنا اثر چھوڑتی ہیں، لہٰذا نصاب ایسا ہو نا چاہیے، جن سے طلبہ کے اندر اعلیٰ نصب العین، پاکیزہ نظریۂ حیات اور مقصد ِزندگی ذہین نشین ہو سکے، جو بچوں کے کردار کوپاکیزہ اخلاق کا حامل بنائے۔

  • اسمبلی/دعا: اداروں میں اخلاقیات کو فروغ دینے میں اسکول اسمبلی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ صبح کے وقت طلبہ و اساتذہ ترو تازہ دماغ اورتازہ دم ہوتے ہیں، لہٰذ ا اسکول اسمبلی کی بہت اچھے انداز میں منصوبہ بندی کر کے لائحہ عمل بنا کر رُوبہ عمل لا نا چاہیے۔
  • دعا: اسمبلی میں ہر دن کے لیے منتخب دعا پڑھنے کا نظم ہو۔ ماہانہ بنیادپر ان میں تبدیلی کی جاتی رہے تو ایک سال میں تقریباً ۲۰ دُعائیں بچے یاد کرنے میں کا میا ب ہو جائیں گے۔
  • نظمیں و ترانے: اسمبلی میں روزانہ اخلاقیات پر مبنی نظمیں و ترانے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ بھی بچوں کے اخلاق پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
  • آداب:روزمرہ کے مختلف کام کرتے وقت کے آداب بتانے کا سلسلہ ترتیب سے چلا یا جائے۔ اس سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
  • مختصر اخلاقی کہانیاں: اسمبلی میں مسلسل اخلاقی کہانیوں یا قصوں کو سناتے رہنے سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
  • حوصلہ افزائی: جو بچے مختلف میدانوں میں( خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی) سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوں اور اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی اسمبلی میں کی جانی چاہیے۔ اس سے بھی ادارے میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
  • اسکول کیلنڈر: تعلیمی ادارے میں اسکول کیلنڈر کی بڑی اہمیت ہے۔ اسکول کیلنڈر سے مراد یہ ہے کہ ایک تعلیمی سال میں اسکول میں جتنی بھی سرگرمیاں انجام دی جانی ہیں، خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی یا ثقافتی و تہذیبی مصروفیات و مشاغل ہوں، ان سب کا تعلیمی سیشن سے قبل یا آغا ز پرلائحہ عمل تیار کرنا ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کا م نظم و نسق کے ساتھ انجام پاتا ہے۔
  • اخلاقیات پر چارٹ : طلبہ سے قرآنی آیات، احادیث ، اقوال زریں پر چارٹ تیار کرائے جائیں اور انھیں آویزاں کرنے کا اہتما م کیا جائے۔ وہ باتیں بار بار دیکھنے سے طلبہ کے ذہین نشین ہو جائیں گی۔ اس طر ح یہ اسکول میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔
  • اسکول کے درو دیوار: اسکول کے اہم مقامات پر قرآنی آیات و احادیث، آداب کی باتیں خوب صورت اندازمیں کاتب سے تحریر کرائی جائیں تاکہ اچھے اثرات مرتب کرسکیں۔
  • خصوصی لیکچرز: اخلاقیات کے موضوع پر گاہ بہ گاہ ماہرین تعلیمات وعلما سے توسیعی لیکچروں کا اسکول میں اہتمام کیا جاتا رہے۔ اسکول کے ماحول کو بہتر بنانے میں مددملے گی۔
  • پروجیکٹ ورک: بڑے درجات کے طلبہ کو ایسے پروجیکٹ پر کا م دیاجائے جس سے ان کے اندر معاشرے کی خدمت کا جذبہ اور اخلاقی قدریں نشو ونما پا سکیں ۔ مثلاً کسی محلہ میں سروے کا کام دیا جائے کہ اس محلہ کے کتنے بچوں نے درجہ پنجم یا ثانوی درجات کے دوران تعلیم ترک کردی۔بعد میں ان سے اور ان کے سرپرستوں سے اساتذہ کی سرپرستی میں گروپ بنا کر ملاقاتیں کی جائیں۔ اس سے طلبہ کے اندر لوگوں کے کام آنے اور سماجی امور میں دلچسپی پیدا ہوگی۔
  • ہم نصابی سر گرمیاں: ہم نصابی سرگرمیاں[غیر نصابی / زائد از نصابی سرگرمیاں] کسی بھی ادارے کے لیے بڑی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ دورانِ تدریس میں طلبہ جن باتوں کو فکری، علمی انداز سے سیکھتے ہیں ،زائد از نصابی سر گرمیوں کے ذریعے سے عملی طور پر سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ طلبہ میں احسا س ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ تخلیقی و انتظامی صلاحیت نشو ونما پاتی ہے۔ بچوں کے اجتماعات،طلبہ کی انجمن قائم کرنا، اسکول کی مختلف تقریبات کے موقع پر طلبہ کو انتظامی امورمیں شامل کرنا، تعلیمی سیرو سیاحت، پکنک، کھیل کود وغیرہ اخلاقی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
  • معلم کا طلبہ سے تعلق:اداروں میں اخلاقیات کا ماحول سازگار بنانے کے لیے طلبہ و معلّمین کا رشتہ خوش گوار ہونا چاہیے۔ معلم طلبہ کے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔معلم کی دوحیثیتیں ہیں ۔ ایک تو وہ علم سکھانے والا ہے اور دوسری حیثیت اس کی مربی کی ہے ۔آج کے دور میں یہ رشتہ کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ ایک معلم طلبہ کو پیشہ وارانہ انداز میں علمی لیاقت منتقل کرنے کو کافی سمجھتا ہے اور طلبہ کے افکار وخیالات کی پختگی، صالحیت، اور ان کے اچھے بُرے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے۔ اس جذبے کے ختم ہو جانے کی وجہ سے طلبہ اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ہیں اور نہ معلم ہی طلبہ کے مستقبل سے سروکار رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں پیشۂ تعلیم ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ طلبہ میں اخلاقیات کے پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ جتنا مضبوط ہو گا، طلبہ اتناہی اپنے استاد کا ادب و احترام ، ان کی خدمت اور ان کی باتوں کو غور سے سنیں گے۔
  • معلم وطالب علم کا انفرادی تعلق: دورانِ تدریس معلم، طلبہ پر گہری نظر رکھے ۔ ہر طالب علم کے ذوق، دلچسپیاں اور قابلیت سے اچھی طرح واقفیت حا صل کرے۔ ہرطالب علم کو ایک اکائی سمجھتے ہوئے طلبہ کے مابین انفرادی فرق اور ان کے مخصوص میلانات و رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ کی رہنمائی کرے، اور ان کی تربیت کا فریضہ انجام دیے۔ جب تک معلم اس کردار کو ادا نہیں کرتا، تب تک کسی ادارے میںطلبہ کے اندراخلاقیات کا فروغ ممکن نہیں ۔
  • طلبہ کے باہمی تعلقات: اخلاقیات کے فروغ کے لیے طلبہ کے باہمی تعلقات بہتر ہو نا چاہییں۔ ان میں خیرخواہی و ہمدردی کا جذبہ ہو۔ ایک دوسرے کے تئیں احترام و محبت ہو۔ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ پڑھنے لکھنے کی چیزیں مثلاً قلم، پینسل،کتاب، نوٹس بک وغیرہ ایک دوسرے کو دینے کا چلن ہو۔ پڑھنے اور ہوم ورک کے پورے کرانے کاایک دوسرے کی مدد کرنے کا داعیہ ہو۔
  • معلّم کی ذمہ داری: کسی بھی اسکول کا ایک اہم رکن معلم ہوتا ہے۔ ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کے لیے اس کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا،’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اَفْضَلُ الصَّدَقَۃٍ اَنْ یَتَعَلَّمَ الْمُرَءُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہٗ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ (ابن ماجہ)’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ آدمی علم سیکھے پھر اپنے کسی مسلمان بھائی کو سکھائے‘‘۔ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسُ ( بیہقی)’’علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ‘‘۔ بلغوا عنی و لو ایۃ (بخاری) ’’میری تعلیم لو گوں تک پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو‘‘۔

اچھی باتیں سکھانے کا بڑا اجر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ اَجْرِ فَاعِلِہٖ ( مسلم) ’’جو شخص کسی بھلائی کی طرف راہ نمائی کرے اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ نیکی کرنے والے کو‘‘۔ مُعَلِّمُ الْخَیْرِ  یَسْتَغْفِرْ لَہٗ کُلُّ شَیْ ءٍ ( ترمذی) ’’معلم خیر کے لیے تمام چیز یں دعا ئے مغفرت کرتی ہیں‘‘ ۔ ان احادیث سے پیشۂ معلمی کی اہمیت کا انداز لگا یا جاسکتا ہے ۔ اس فر ض کی ادائیگی معلم کے لیے دنیا میںباعث خیر ہے اور آخرت میں کا میابی کی ضمانت ہے۔ اس فرض سے غفلت سے ، سستی ، کوتاہی ، لاپراوہی آخرت میں نامرادی کا سبب بنے گی ۔

معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ سے حسن سلوک ، محبت ، شفقت ، ایثارسے پیش آئے۔ طلبہ کی غلطیوں پر در گزرسے کام لے اور اگر قابلِ گرفت بات ہو تو بہت احتیاط کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ ان کی غلطیوں پر ان پر طعن و تشینع سے اجتنا ب برتے ۔طلبہ کی عزّتِ نفس کا خیال رکھے۔ طلبہ کی پریشانیوں ، دقتوں، مسائل کو سمجھنے اور ان کوہمدردی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ خود بھی اخلاق کریمہ سے متصف اور اصول پسند ہو۔ اس کے قول و عمل میں مطابقت ہو۔ طلبہ کو انبیاءؑ، صحابہؓ و تابعینؒ کے واقعات ، اخلاقی کہانیاں سنا کر ان کو اخلاق حسنہ کا خوگر بنادے۔

  • والدین کی ذمہ داری: بچوں کواخلاق فاضل سے متصف کرنا کیا اسکولوں کی ذمہ داری ہے یا والدین کی بھی ؟ دراصل اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دونوں ذمہ دار ہیں ۔ والدین کو یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہو ناچاہیے کہ بچے کا اسکول میں داخلہ کراد یا ہے بس کافی ہے ۔ بچوں کی تربیت اور ان کے اندر اچھے اخلاق فروغ پائیں، یہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں والدین، اسکول ، معاشرہ اور حکومت ہے۔ اخلاق وکردار، سیرت، عادات ، جذبات وخیالات وغیرہ میں بچّے سب سے زیادہ والدین کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا ماںباپ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت حسا س رہیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ  اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کواور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’کوئی باپ اپنے بیٹے کو اچھا اخلاق سکھانے سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا‘‘۔

اس ذمہ داری کے بابت آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا:  اَكْرِمُوْا اَوْلَادَكُمْ‌ وَ اَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ(ابن ماجہ ) ’’تم اپنی اولاد کی عزت کرو اور انھیں ادب سکھاؤ‘‘۔

  • اساتذہ اورطلبہ کے والدین کے تعلقات: طلبہ اور اسکول میں اچھے اخلاق کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ طلبہ کے والدین اور اسکول کے اساتذہ کے تعلقات استوار ، بااعتماد ، خوش گوار ہوں۔ دونوں مل کر بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا رول ادا کریں ۔ اچھے تعلقات کی بنا پر آپس میں مشورہ ورائے لی و دی جا سکتی ہے ۔ ہر ایک بچوں کے لیے فکر مند ہو۔

سرپرستوں کی میٹنگ میں عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ معلّمین سرپرستوں سے بچوں کے سامنے بچوں کی کمزویوں کا ذکر کرتے ہیں اور بعض والدین بچوں کو وہیں تنبیہ شروع کر دیتے ہیں۔ معلّمین کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ والدین سے بچوں کی خوبیوں اور دلچسپیوں کا ذکر کر کے ان کی رہنمائی کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اوراگر بچے میں تعلیمی یا کوئی کمزوری ہے تو بچوںکے سامنے اس کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ علیحدہ سے بتائی جائے۔اس طر ح کا رویہ اپنانے سے سرپرستوں اور طلبہ کے والدین میں روابط اچھے ہوجائیں گے۔