اخلاق کی اہمیت انفرادی و اجتماعی زندگی میں مسلّمہ ہے۔ اچھے اور پُرامن معاشرے کی تعمیر میں اخلاقِ حسنہ کلیدی رول ادا کرتے ہیں ۔تمام آسمانی کتب میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے کامیابی کے لیے اس کو لازمی قرار دیا ہے ۔ آ ج اخلاقی زوال ہر سطح پر عام ہے۔ تعلیم گاہیں بھی اس سے محفوظ نہیں ہیں۔ اس کی روک تھام کی اشدضرورت ہے۔ اسکولوں، کالجوں اور تعلیم گاہوں میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کل ملک و ملت کی باگ ڈور سنبھالنے والے ہیں۔ لہٰذا ان تعلیم گاہوں کا ماحول ایسا بنایا جائے کہ طلبہ اچھے اخلاق کے حامل ہو سکیں ۔ اس سلسلے میں چند عوامل کا ذکر کیا جا رہا ہے ۔ ان کے ذریعے سے تعلیم گاہوں میں اخلاقیات کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
اخلاق حسنہ : اللہ تعالیٰ نے جن اخلاق کو اختیارکرنے اوراپنانے کا حکم دیا ہے، اُن کی قرآنی اخلاقیات سے واقفیت حاصل کرنا چاہیے۔
اخلاق سئیہ :جن اخلاق کو اللہ ناپسند کرتا ہے، ان کو ’رذائل اخلاق‘ کہتے ہیں۔ قرآن میں ان کے لیے منکر، فحشاء، فاحشہ، سیئہ، سوء، مکروہ ، خطا، اثم عدوان جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔
اعلٰـی اخلاق : اعلیٰ اخلاق سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق کواصولوں پر استوار کرے ۔ دوسرے لوگوں کے رویے کی پروا کیے بغیر وہ اپنا رویہ متعین کرے، خواہ دوسروں کا رویہ اس کے ساتھ حُسن سلوک کاہو یا بد اخلاقی کا، اس کا رویہ ہمیشہ حُسن سلوک ، نرمی، تعلقات کو استوار کرنے والا ہو۔ کوئی اس کا حق نہ دے، بُرا سلوک کرے، اس پر ظلم کرے ، بدتمیزی سے پیش آئے مگر ایسے لوگوں کے ساتھ بھی اس کا رویہ جوڑنے والا، نظر انداز کرنے والاہو ۔ اس رویہ کو اعلیٰ اخلاق کہتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَیْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُکَافِیءِ وَلٰکِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِیْ اِذَا قَطَعْتَ رَحِمَہٗ وَصَلَھَا( بخاری) ’’وہ شخص مکمل درجہ کی صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو بھلائی کے مقابلے میں بھلائی کا رویہ اختیار کرے لیکن مکمل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب تُو اس سے قطع رحمی کرے تو وہ اسے جوڑدے‘‘۔ صِلْ مَنْ قَطَعَکَ وَاَحْسِنْ اِلٰی مَنْ اَسَاءَ اِلَیْکَ (بخاری) جو شخص تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس سے حسن سلوک کر اور جو تجھ سے بُرا برتاؤ کرے تو اس پر احسان کر ۔
حُسنِ خلق کے مقاصد: حُسن اخلاق کو اختیار کرنے کے درج ذیل مقاصد ہیں:
رضائے الٰہی:ایک مومن جو بھی کام کرتا ہے، وہ اللہ کی رضا و خو ش نودی حا صل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ اچھے اخلاق اختیا ر کر نے سے مقصو د یہ ہوتا ہے کہ میرا رب مجھ سے خوش ہو جائے۔
امدادباہمی: کوئی انسان اپنی ساری ضرورتیںخود پوری نہیں کر سکتا۔ وہ دوسرے کا محتاج ہوتا ہے۔اچھے اخلاق اختیار کرنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئیں، ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے بنیں،تاکہ ایک اچھے معاشرے کی بنیاد بنے۔
مثبت تبدیلی:انسان اچھی وبری خصلتوں کا مجموعہ ہے: فَاَلْہَمَہَا فُجُوْرَہَا وَتَقْوٰىہَا۸۠ۙ (الشمس ۹۱:۸) ’’پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کردی‘‘۔ اچھے اخلاق کا خو گر بنانے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر مثبت تبدیلی آئے۔ وہ بُرے اخلاق کو چھوڑ دے اور اچھے اخلاق سے اپنے آپ کو مزین و آراستہ کر لے۔
خدمت خلق:اچھے اخلاق اپنانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے انسانوں کے لیے نفع بخش بن جائے اور مخلوق کی خدمت کرے۔
کردار سازی: اچھے اخلاق کو اختیارکرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ انسان کی شخصیت تعمیر کی جا سکے۔ انسان کے اندر اعلیٰ اخلاق نشوو نما پائیں اور اس کی زندگی پاکیزہ بن سکے۔
حُسنِ خلق کی اہمیت: افراد اور قوموں کی شناخت و پہچان اخلاق سے ہوتی ہے۔ جو حُسن خلق کا خوگر ہوتا ہے، لوگ اور معاشرہ اس کو قدر کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔
اسلام میں اخلاق کی اہمیت: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعثت کا مقصد بتاتے ہوئے فر مایا: بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ حُسْنَ الْاَخْلَاقِ ( موطا امام مالک) اِنَّـمَا بُعِثْتُ لِاُتَـمِّمَ مَکَارَمَ الْاَخْلَاقِ (السنن الکبریٰ، للبیہقی) ’’میں تو اسی لیے بھیجا گیا کہ اخلاق حسنہ کی تکمیل کروں‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ہی اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں آپؐ کی اخلاقی خوبیوں کا ذکر کیا ہے۔ایک مقام پراللہ تعالیٰ نے نبیؐ کے بلند اخلاق کاذکر کرتے ہوئے فر مایا : وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ۴ (القلم ۶۸:۴) ’’بے شک آپ ؑ اعلیٰ اخلاق والے ہیں‘‘۔کتب سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ایسے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دعوت کا کام کر رہے تھے تو حضرت ابوذر ؓ نے اپنے بھائی کو مدینہ سے مکہ بھیجا کہ وہ رسول اکرمؐ کے بارے میں معلومات حاصل کر کے لائیں ۔انھوں نے آکر اطلا ع دی کہ رَاَیْتُہٗ یَاْمُرُ بِـمَکَارِمِ الْاَخْلَاقِ (مسلم) ’’میںنے ان کو دیکھاکہ وہ لوگوں کواخلاق حسنہ کی تعلیم دیتے ہیں‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اخلاق کے عظیم الشان مرتبہ پر فائز تھے ۔ انسانوں کوبھی آپؐ اچھے اخلاق اپنانے کی تعلیم دیتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھے اخلاق کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا:اِتَّقِ اللہَ حَیْثُ مَاکُنْتَ وَاَتْبِعِ السَّیِئَۃَ الْحَسْنَۃَ تَمْحُھَا وَخَالِقِ النَّاسِ بِخُلُقٍ حَسَنٍ (ترمذی)’’جہاں کہیں بھی رہواللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہواور برائی کے بعد نیکی کرلو تاکہ نیکی برائی کو مٹا دے اور لوگو ں کے ساتھ خوش خوئی سے پیش آؤ‘‘۔
رسولؐ کو محبو ب لوگ:رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک وہ لوگ پسندیدہ ہیں جو اچھے اخلاق کے خو گر ہوں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا:اِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ اِلَیَّ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری) ’’تم میں سب سے زیادہ مجھے وہ لوگ محبوب ہیں جو تم میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے اچھے ہیں‘‘۔
سب سے اچھے لوگ: اِنَّ مِنْ خِیَارِکُمْ اَحْسَنُکُمْ اَخْلَاقًا (بخاری و مسلم) ’’تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو اخلاق کے لحاظ سے تم میں سب سے اچھے ہیں‘‘۔
اخلاق حسنہ کی فضیلت :دین اسلام میں نماز روزہ کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اچھے اخلاق کو اختیار کرتا ہے تو وہ عبادت کے اعلیٰ درجات کو پالیتا ہے ۔ اِنَّ الْمُوْمِنَ لَیُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِہٖ دَرَجَۃً الصَّائِمِ الْقَائِمِ (ابوداؤد ) ’’مومن اپنے حُسن اخلاق سے ان لوگوں کا درجہ حا صل کر لیتا ہے جو رات میں اللہ کے حضور کھڑے رہتے اور دن کو روزہ رکھتے ہیں‘‘۔
جنت میں داخلہ کاسبب :قیامت کے دن جنت میں جانے والوں میں وہ لوگ زیادہ ہوں گے جن کے دنیا میں اخلاق اچھے تھے ۔ابوہریر ہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: عَنْ اَکْثَرِمَا یُدْخِلُ النَّاسَ الْجَنَّۃَ ؟ قَالَ : تَقْوٰی اللہِ وَحُسْنُ الْخُلُقِ ( ترمذی) ’’اکثر لوگ کس وجہ سے جنت میں داخل ہوں گے؟ آپ ؑنے فرمایا: تقویٰ اور حسن اخلاق کی وجہ سے‘‘۔
ایک شخص نے نبی کریم ؐ سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ؐ !فلاں عورت نفل نماز پڑھنے ، نفل روزے رکھنے اور صدقہ کرنے کے لیے مشہور ہے۔ لیکن اپنی زبان سے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے ۔ آپ ؐ نے فرمایا : وہ جہنمی ہے ۔ اس آدمی نے پھر کہا : اے اللہ کے رسول ؐ !ایک دوسری عورت ہے جو کم نماز پڑھتی، کم روزے رکھتی ہے اور کم مقدار میں صدقہ کرتی ہے۔ مگر وہ پنیر کے چند ٹکڑے غریبوں کو دیتی ہے اور پڑوسیوں کو اپنی زبان سے تکلیف نہیں پہنچاتی ۔ آپ ؐ نے فرمایا:’’وہ جنتی ہے‘‘۔(احمد)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ کیا تم جانتے ہوکہ مفلس کون ہے ؟ لو گوں نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو اور نہ مال و اسباب۔ آپؐ نے فر مایا :’’ میری امت کا مفلس شخص وہ ہے، جو قیامت کے روز اس حال میں حاضر ہو کہ اس کے پاس نماز، روزہ اور زکوٰۃ سب ہو، مگر اسی کے ساتھ دنیا میں اس نے کسی کو گالی دی ہو گی ، کسی پر بہتان تراشی کی ہو گی ، کسی کا مال ہڑپ کرکے کھایا ہوگا،کسی کی پٹائی کی ہوگی،تو ان تمام مظلوموں کو اس کی زیادتیوں کی بنا پر بدلے میں اس کی نیکیاں بانٹ دی جائیں گی۔ اگر نیکیاں ختم ہوجائیں گی اور مظلوموں کے حقوق باقی رہ جائیں گے تو ان کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے اور پھر اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔(مسلم)
اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ نماز وروزہ کی دین میں اپنی جگہ پر اہمیت مسلّمہ ہے۔ لیکن یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ آخرت کی کامیابی کے لیے اچھے اخلاق کو اختیار کرنا لازمی و ضروری ہے۔
قیامت کے دن سب سے وزنی چیز: قیامت کے دن جب انسانوں کے اعمال تولے جائیں گے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اِنَّ اَثُقَلَ شَیْءٍ یُوْضَعُ فِیْ مِیْزَانِ الْمُوْمِنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خُلُقٌ حَسَنٌ ( ابوداؤد، تر مذی) ’’قیامت کے روز مومن کی میزان میں جو سب سے وزنی چیز رکھی جائے گی وہ حُسنِ اخلاق ہے‘‘۔
اخلاق و ایمان کا تعلق :نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اَکْمَلُ الْمُوْمِنِیْنَ اِیْمَانًا اَحْسَنُھُمْ خُلُقًا ، وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَاءِ ھِمْ (تر مذی)، ’’اہل ایمان میں ایمان کے لحاظ سے سب سے کامل شخص وہ ہے جوان میں اخلاق کے لحاظ سے سب سے بہتر ہے۔اور تم میں اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو‘‘۔ اِنَّ رَجُلًا سَاَلَ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا الْاِیْمَانُ ؟ قَالَ : اِذَا سَرَّتْکَ حَسَنَتُکَ وَسَاءَ تُکَ سَیِّئَتُکَ فَاَنْتَ مُوْمِنٌ ۔ قَالَ یَا رَسُوْلَ اللہِ : فَمَا الْاِثْمُ ؟ قَالَ: اِذَا حَاکَ فِیْ نَفْسِکَ شَیْءٌ فَدَعْہُ( احمد ) ایک شخص نے رسولؐ اللہ سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ آپ ؑ نے ارشاد فرمایا : جب تمھاری نیکی تمھارے لیے خوشی کا باعث ہو اور تمھاری بدی تمھارے لیے ناگواری کا سبب ثابت ہو تو تم مومن ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیکی اور گنا ہ کے بارے میںدریافت کیا گیا تو آپ ؑ نے فرمایا: الْبِرُّ حُسْنُ الْخَلُقِ ( مسلم) ’’حُسن اخلاق نیکی ہے‘‘۔
دعاکرنا:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اخلاق حسنہ کے لیے اللہ سے دعا کیا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَاَحْسِنُ خُلُقِیْ (احمد) ’’اے اللہ تو نے میری پیدائش کو حُسن و خوبی سے نوازا ، پس میر ے اخلاق کو بھی حسن و خوبی عطا کر ‘‘۔
تعلیم کا مقصد
تعلیم کا مقصد انسانی زندگی پر بہت گہرے اثرات ڈالتا ہے۔ تعلیم کا مقصد ’تعلیم برائے معاش‘، ’ تعلیم برائے علمیت‘ ہو تو طلبہ پیسے کمانے کی مشین بنتے ہیں یا ساری توجہ اچھے نمبروں کو حاصل کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اخلاقیات، انسانیت کے تقاضے نگاہوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ تعلیم کے مقاصد میں سے ایک مقصد معاش اور علمی لیاقت تو ہوسکتا ہے لیکن اس کو اصل کی حیثیت نہیں دی جا سکتی۔ تعلیم کا مقصد تویہ ہے کہ نئی نسل کی تربیت و نشوونما ایسی ہو کہ ان کی خوابیدہ فطری صلاحیتوں کو جِلا بخشی جا سکے۔ انھیں اپنی انفرادی و اجتماعی، عائلی و سماجی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی اداکرنے والا بنایا جا سکے۔پاکیزہ سیرت و کردار ، اخلاق کریمہ کا خو گر بنایا جاسکے۔ اپنی ذات ،سماج ومعاشرے کے لیے نفع بخش و مفید تر بنایا جا سکے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد ہے کہ انسان اللہ کا صالح بند ہ بن جائے،تاکہ اس دنیا میں انسانوں کے کا م آنے والا ، لوگوں میں خیر و بھلائی پھیلانے والابن سکے اور آخرت میں کامیاب ہو سکے۔ہمارے ادارے قائم کرنے کا مقصد یہی ہے۔ یہ مقصد ذمہ داران، تدریسی وغیر تدریسی عملہ ، والدین ، سر پرستوں،طلبہ سب کے سامنے رہنا چاہیے۔
ادارہ کے قیام کا مقصد: طلبہ کے اندر اخلاقیات کوفروغ دینے کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اسکول کے مقاصد و نصب العین سے اسکول سے متعلق تما م لوگ واقف ہوں اور ادارے کے اندر اخلاقی ماحول بنانے کی فکر ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ذمہ داران کا ادارے کے مقصد سے لگاؤ ہو گا تو وہ طلبہ کی نہ صرف اسکول کی حد تک بلکہ ان کے گھروں کی سرگرمیوں پر بھی نگا ہ رکھنے کی کوشش کریں گے۔
نصاب تعلیم: اداروں میںاخلاقیات کو پروان چڑھانے و فروغ کے لیے ماحول ساز گار بنانے میں نصاب تعلیم کا اہم کلیدی کردار ہو تا ہے۔ موجودہ دور میں رائج عمومی نصاب تعلیم، مادی ترقی، معاشی خوش حالی ووطن پرستی کو اہمیت دیتا ہے۔ اخلاقی اقدار کی نصاب تعلیم میںکو ئی جگہ نہیں ہے، اگر ہے تو اس کی حیثیت اضافی چیز کی ہے۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نظام کے فارغین اخلاقی اقدار سے نابلد، ناآشنا اور محروم ہوتے ہیں ، مادہ پرست ، مفاد پرست،خواہش نفس کے بندے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں حیاسوزواقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں۔
معیاری تعلیمی ادارے کا عملی خاکہ
اسلام کے نظامِ تعلیم میں اخلاقیات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اسلامی نظام تعلیم کی بنیاد توحید، رسالت اور آخرت کے عقیدے پر ہے ۔ وہ خلافت، وحدت انسانیت، احترام انسانیت، آزادیٔ رائے جیسے تصور کو اہمیت دیتا ہے۔ نظام تعلیم میں درسیات کی بنیادی حیثیت ہے ۔ کتابیں اپنا اثر چھوڑتی ہیں، لہٰذا نصاب ایسا ہو نا چاہیے، جن سے طلبہ کے اندر اعلیٰ نصب العین، پاکیزہ نظریۂ حیات اور مقصد ِزندگی ذہین نشین ہو سکے، جو بچوں کے کردار کوپاکیزہ اخلاق کا حامل بنائے۔
اسمبلی/دعا: اداروں میں اخلاقیات کو فروغ دینے میں اسکول اسمبلی کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ صبح کے وقت طلبہ و اساتذہ ترو تازہ دماغ اورتازہ دم ہوتے ہیں، لہٰذ ا اسکول اسمبلی کی بہت اچھے انداز میں منصوبہ بندی کر کے لائحہ عمل بنا کر رُوبہ عمل لا نا چاہیے۔
دعا: اسمبلی میں ہر دن کے لیے منتخب دعا پڑھنے کا نظم ہو۔ ماہانہ بنیادپر ان میں تبدیلی کی جاتی رہے تو ایک سال میں تقریباً ۲۰ دُعائیں بچے یاد کرنے میں کا میا ب ہو جائیں گے۔
نظمیں و ترانے: اسمبلی میں روزانہ اخلاقیات پر مبنی نظمیں و ترانے پڑھانے کا اہتمام کیا جائے۔ یہ بھی بچوں کے اخلاق پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
آداب:روزمرہ کے مختلف کام کرتے وقت کے آداب بتانے کا سلسلہ ترتیب سے چلا یا جائے۔ اس سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
مختصر اخلاقی کہانیاں: اسمبلی میں مسلسل اخلاقی کہانیوں یا قصوں کو سناتے رہنے سے بھی بچوں میں اچھے اخلاق کا فروغ ہو گا۔
حوصلہ افزائی: جو بچے مختلف میدانوں میں( خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی) سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہوں اور اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہوں، ان کی حوصلہ افزائی اسمبلی میں کی جانی چاہیے۔ اس سے بھی ادارے میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے میں مدد ملے گی۔
اسکول کیلنڈر: تعلیمی ادارے میں اسکول کیلنڈر کی بڑی اہمیت ہے۔ اسکول کیلنڈر سے مراد یہ ہے کہ ایک تعلیمی سال میں اسکول میں جتنی بھی سرگرمیاں انجام دی جانی ہیں، خواہ وہ نصابی ہوں یا ہم نصابی یا ثقافتی و تہذیبی مصروفیات و مشاغل ہوں، ان سب کا تعلیمی سیشن سے قبل یا آغا ز پرلائحہ عمل تیار کرنا ۔اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کا م نظم و نسق کے ساتھ انجام پاتا ہے۔
اخلاقیات پر چارٹ : طلبہ سے قرآنی آیات، احادیث ، اقوال زریں پر چارٹ تیار کرائے جائیں اور انھیں آویزاں کرنے کا اہتما م کیا جائے۔ وہ باتیں بار بار دیکھنے سے طلبہ کے ذہین نشین ہو جائیں گی۔ اس طر ح یہ اسکول میں اخلاقی ماحول پروان چڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔
اسکول کے درو دیوار: اسکول کے اہم مقامات پر قرآنی آیات و احادیث، آداب کی باتیں خوب صورت اندازمیں کاتب سے تحریر کرائی جائیں تاکہ اچھے اثرات مرتب کرسکیں۔
خصوصی لیکچرز: اخلاقیات کے موضوع پر گاہ بہ گاہ ماہرین تعلیمات وعلما سے توسیعی لیکچروں کا اسکول میں اہتمام کیا جاتا رہے۔ اسکول کے ماحول کو بہتر بنانے میں مددملے گی۔
پروجیکٹ ورک: بڑے درجات کے طلبہ کو ایسے پروجیکٹ پر کا م دیاجائے جس سے ان کے اندر معاشرے کی خدمت کا جذبہ اور اخلاقی قدریں نشو ونما پا سکیں ۔ مثلاً کسی محلہ میں سروے کا کام دیا جائے کہ اس محلہ کے کتنے بچوں نے درجہ پنجم یا ثانوی درجات کے دوران تعلیم ترک کردی۔بعد میں ان سے اور ان کے سرپرستوں سے اساتذہ کی سرپرستی میں گروپ بنا کر ملاقاتیں کی جائیں۔ اس سے طلبہ کے اندر لوگوں کے کام آنے اور سماجی امور میں دلچسپی پیدا ہوگی۔
ہم نصابی سر گرمیاں: ہم نصابی سرگرمیاں[غیر نصابی / زائد از نصابی سرگرمیاں] کسی بھی ادارے کے لیے بڑی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔ دورانِ تدریس میں طلبہ جن باتوں کو فکری، علمی انداز سے سیکھتے ہیں ،زائد از نصابی سر گرمیوں کے ذریعے سے عملی طور پر سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ طلبہ میں احسا س ذمہ داری پیدا ہوتا ہے۔ تخلیقی و انتظامی صلاحیت نشو ونما پاتی ہے۔ بچوں کے اجتماعات،طلبہ کی انجمن قائم کرنا، اسکول کی مختلف تقریبات کے موقع پر طلبہ کو انتظامی امورمیں شامل کرنا، تعلیمی سیرو سیاحت، پکنک، کھیل کود وغیرہ اخلاقی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
معلم کا طلبہ سے تعلق:اداروں میں اخلاقیات کا ماحول سازگار بنانے کے لیے طلبہ و معلّمین کا رشتہ خوش گوار ہونا چاہیے۔ معلم طلبہ کے روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے ۔معلم کی دوحیثیتیں ہیں ۔ ایک تو وہ علم سکھانے والا ہے اور دوسری حیثیت اس کی مربی کی ہے ۔آج کے دور میں یہ رشتہ کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ ایک معلم طلبہ کو پیشہ وارانہ انداز میں علمی لیاقت منتقل کرنے کو کافی سمجھتا ہے اور طلبہ کے افکار وخیالات کی پختگی، صالحیت، اور ان کے اچھے بُرے سے کوئی سروکار نہیں رکھتا ہے۔ اس جذبے کے ختم ہو جانے کی وجہ سے طلبہ اساتذہ کا احترام نہیں کرتے ہیں اور نہ معلم ہی طلبہ کے مستقبل سے سروکار رکھتے ہیں جس کے نتیجے میں پیشۂ تعلیم ایک تجارت بن کر رہ گیا ہے۔ طلبہ میں اخلاقیات کے پروان چڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ یہ رشتہ جتنا مضبوط ہو گا، طلبہ اتناہی اپنے استاد کا ادب و احترام ، ان کی خدمت اور ان کی باتوں کو غور سے سنیں گے۔
معلم وطالب علم کا انفرادی تعلق: دورانِ تدریس معلم، طلبہ پر گہری نظر رکھے ۔ ہر طالب علم کے ذوق، دلچسپیاں اور قابلیت سے اچھی طرح واقفیت حا صل کرے۔ ہرطالب علم کو ایک اکائی سمجھتے ہوئے طلبہ کے مابین انفرادی فرق اور ان کے مخصوص میلانات و رجحانات کو سامنے رکھتے ہوئے طلبہ کی رہنمائی کرے، اور ان کی تربیت کا فریضہ انجام دیے۔ جب تک معلم اس کردار کو ادا نہیں کرتا، تب تک کسی ادارے میںطلبہ کے اندراخلاقیات کا فروغ ممکن نہیں ۔
طلبہ کے باہمی تعلقات: اخلاقیات کے فروغ کے لیے طلبہ کے باہمی تعلقات بہتر ہو نا چاہییں۔ ان میں خیرخواہی و ہمدردی کا جذبہ ہو۔ ایک دوسرے کے تئیں احترام و محبت ہو۔ ایک دوسرے کے کام آئیں۔ پڑھنے لکھنے کی چیزیں مثلاً قلم، پینسل،کتاب، نوٹس بک وغیرہ ایک دوسرے کو دینے کا چلن ہو۔ پڑھنے اور ہوم ورک کے پورے کرانے کاایک دوسرے کی مدد کرنے کا داعیہ ہو۔
معلّم کی ذمہ داری: کسی بھی اسکول کا ایک اہم رکن معلم ہوتا ہے۔ ادارے میں اخلاقیات کے فروغ کے لیے اس کا رول بہت ہی اہم ہوتا ہے ۔ آپؐ نے فرمایا: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا،’’میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں‘‘۔ اَفْضَلُ الصَّدَقَۃٍ اَنْ یَتَعَلَّمَ الْمُرَءُ عِلْمًا ثُمَّ یُعَلِّمَہٗ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ (ابن ماجہ)’’بہترین صدقہ یہ ہے کہ آدمی علم سیکھے پھر اپنے کسی مسلمان بھائی کو سکھائے‘‘۔ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوْہُ النَّاسُ ( بیہقی)’’علم سیکھو اور لوگوں کو سکھاؤ‘‘۔ بلغوا عنی و لو ایۃ (بخاری) ’’میری تعلیم لو گوں تک پہنچاؤ خواہ ایک ہی آیت ہو‘‘۔
اچھی باتیں سکھانے کا بڑا اجر ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ دَلَّ عَلٰی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ اَجْرِ فَاعِلِہٖ ( مسلم) ’’جو شخص کسی بھلائی کی طرف راہ نمائی کرے اس کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ نیکی کرنے والے کو‘‘۔ مُعَلِّمُ الْخَیْرِ یَسْتَغْفِرْ لَہٗ کُلُّ شَیْ ءٍ ( ترمذی) ’’معلم خیر کے لیے تمام چیز یں دعا ئے مغفرت کرتی ہیں‘‘ ۔ ان احادیث سے پیشۂ معلمی کی اہمیت کا انداز لگا یا جاسکتا ہے ۔ اس فر ض کی ادائیگی معلم کے لیے دنیا میںباعث خیر ہے اور آخرت میں کا میابی کی ضمانت ہے۔ اس فرض سے غفلت سے ، سستی ، کوتاہی ، لاپراوہی آخرت میں نامرادی کا سبب بنے گی ۔
معلم کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ سے حسن سلوک ، محبت ، شفقت ، ایثارسے پیش آئے۔ طلبہ کی غلطیوں پر در گزرسے کام لے اور اگر قابلِ گرفت بات ہو تو بہت احتیاط کے ساتھ اس کی اصلاح کی کوشش کرے۔ ان کی غلطیوں پر ان پر طعن و تشینع سے اجتنا ب برتے ۔طلبہ کی عزّتِ نفس کا خیال رکھے۔ طلبہ کی پریشانیوں ، دقتوں، مسائل کو سمجھنے اور ان کوہمدردی سے حل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ خود بھی اخلاق کریمہ سے متصف اور اصول پسند ہو۔ اس کے قول و عمل میں مطابقت ہو۔ طلبہ کو انبیاءؑ، صحابہؓ و تابعینؒ کے واقعات ، اخلاقی کہانیاں سنا کر ان کو اخلاق حسنہ کا خوگر بنادے۔
والدین کی ذمہ داری: بچوں کواخلاق فاضل سے متصف کرنا کیا اسکولوں کی ذمہ داری ہے یا والدین کی بھی ؟ دراصل اس ذمہ داری کی ادائیگی کے دونوں ذمہ دار ہیں ۔ والدین کو یہ سوچ کر بے فکر نہیں ہو ناچاہیے کہ بچے کا اسکول میں داخلہ کراد یا ہے بس کافی ہے ۔ بچوں کی تربیت اور ان کے اندر اچھے اخلاق فروغ پائیں، یہ والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ کیونکہ تعلیم و تربیت پر اثرانداز ہونے والے عوامل میں والدین، اسکول ، معاشرہ اور حکومت ہے۔ اخلاق وکردار، سیرت، عادات ، جذبات وخیالات وغیرہ میں بچّے سب سے زیادہ والدین کے اثرات قبول کرتے ہیں۔ لہٰذا ماںباپ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کی تربیت کے سلسلے میں بہت حسا س رہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَہْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم۶۶:۶)، ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اپنے آپ کواور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤجس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘‘۔نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’کوئی باپ اپنے بیٹے کو اچھا اخلاق سکھانے سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دے سکتا‘‘۔
اس ذمہ داری کے بابت آخرت میں جواب دہی کرنی ہوگی۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھے اخلاق سکھائیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: اَكْرِمُوْا اَوْلَادَكُمْ وَ اَحْسِنُوْا أَدَبَهُمْ(ابن ماجہ ) ’’تم اپنی اولاد کی عزت کرو اور انھیں ادب سکھاؤ‘‘۔
اساتذہ اورطلبہ کے والدین کے تعلقات: طلبہ اور اسکول میں اچھے اخلاق کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ طلبہ کے والدین اور اسکول کے اساتذہ کے تعلقات استوار ، بااعتماد ، خوش گوار ہوں۔ دونوں مل کر بچوں کی شخصیت کی تعمیر میں اپنا رول ادا کریں ۔ اچھے تعلقات کی بنا پر آپس میں مشورہ ورائے لی و دی جا سکتی ہے ۔ ہر ایک بچوں کے لیے فکر مند ہو۔
سرپرستوں کی میٹنگ میں عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ معلّمین سرپرستوں سے بچوں کے سامنے بچوں کی کمزویوں کا ذکر کرتے ہیں اور بعض والدین بچوں کو وہیں تنبیہ شروع کر دیتے ہیں۔ معلّمین کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ والدین سے بچوں کی خوبیوں اور دلچسپیوں کا ذکر کر کے ان کی رہنمائی کرنی چاہیے اور اس سلسلے میں ان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اوراگر بچے میں تعلیمی یا کوئی کمزوری ہے تو بچوںکے سامنے اس کا ذکر نہ کیا جائے بلکہ علیحدہ سے بتائی جائے۔اس طر ح کا رویہ اپنانے سے سرپرستوں اور طلبہ کے والدین میں روابط اچھے ہوجائیں گے۔