بادشاہوں کے ’خدائی حق‘ کا تصور اتنا ہی قدیم ہے، جتنا خود بادشاہت کا ادارہ۔ دونوں ساتھ ساتھ چلے آرہے ہیں۔ اس اصول کے مطابق مشرق و مغرب دونوں جگہ یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ’بادشاہ اپنے اختیارات براہِ راست خدا سے حاصل کرتا ہے‘۔ بظاہر یہ عقیدہ مشرق کی ایجاد معلوم ہوتا ہے، جسے عیسائیت کی ابتداء کے بعد مغرب میں درآمد کیا گیا۔ اس تصور کے منطقی نتیجے میں دو اور اصول پیدا ہوتے ہیں:
بادشاہت کے اسی ’تقدس آمیز‘ تصور کی بنا پر ازمنہ وسطیٰ (Middle Ages)کی عیسائی دُنیا میں بادشاہوں کو تاج پوشی کے وقت مذہبی اداروں کی طرف سے ’اصطباغ‘ (Baptism)دیا جاتا تھا۔ شکسپیئر [م:۱۶۱۶ء] بادشاہ رچرڈ دوم کی زبان سے یہ الفاظ کہلواتا ہے: ’دُنیا کی تمام تخریبی قوتیں مجتمع ہوکر بھی اصطباغ شدہ بادشاہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘‘۔
تاریخ کے طالب علم جانتے ہیں کہ انگلستان میں سترھویں صدی کی خانہ جنگی میں کس قدر کشت و خون ہوا، یہ سب اسی اصول پر لوگوں کے سیاسی اختلافات کا نتیجہ تھا۔ شاہ پسندوں کا خیال تھا کہ ’تمام عیسائی بادشاہوں، شہزادوں اور حاکموں کو اقتدار منجانب اللہ حاصل ہوتا ہے‘۔ [اس کے برعکس] جمہوریت پسندوں کا خیال تھا کہ ’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں‘۔ بادشاہ چارلس اوّل کا پھانسی پانا، اس مؤخرالذکر اصول کے حامیوں کی جیت تھی۔ ’انقلابِ فرانس‘ [۱۷۸۹ء-۱۷۹۹ء]نے آخرکار بادشاہوں کے خدائی حق کا تصور بالکل پاش پاش کردیا۔ اگرچہ ہر مغربی ملک میں شاہ پسندوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں میں یہ نظریہ اب بھی مقبول ہے۔
بہرطور، اب سوال یہ ہے کہ اِن ’خدائی حقوق‘ کے بارے میں بادشاہوں کے دعوے یا اس اصول کے حامی عوام کا اعتقاد کہاں تک حق بجانب ہے اور انھیں اس دعوے کا استحقاق کس قدر ہے؟ اس مسئلے پر نظر ڈالتے ہی خیال آتا ہے کہ اس میں خدائی کی بات تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ان لوگوں نے اپنا اقتدار قائم کرنے کے لیے عام انسانی ذرائع استعمال کیے۔ ان کے پاس آزادی کے مطالبوں کا گلا گھونٹنے کے لیے پولیس اور جیل خانے موجود تھے۔ نیز دوست اور ہمدرد خریدنے کے لیے بے اندازہ دولت تھی۔ان لوگوں نے مادی ذرائع استعمال کرکے انسانوں پر حکومت کی۔ اگر کسی اور شخص کو بھی یہ سہولتیں مہیا کردی جائیں، تو وہ بھی حکومت کرسکتا ہے۔ اس میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ کوئی آدمی جس میں اُلوہیت کا شائبہ بھی موجود نہ ہو ، بس ذرا سی عقل رکھتا ہو، اُسے فوج، خزانہ اور جملہ شاہی لوازمات فراہم کردیجیے، وہ ایسا ہی بادشاہ بن جائے گا جیساکہ خود اعتقادی اور تقدس کے ہالے میں گھرا کوئی اور بادشاہ ہوتا ہے!
حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے سادہ لوح انسانوں پر محض طاقت کے بل پر حکومت کی ہے نہ کہ خدائی حق کے زور پر۔ ان مادی وسائل کے علاوہ بادشاہ عوام پر اپنا رُعب داب قائم رکھنے کے لیے نفسیاتی طریقے بھی استعمال کرتے تھے۔ خدا کی نیابت کے یہ دعوے دار، خدا ہی کی طرح عام لوگوں سے بہت کم میل جول رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے یہ اصول بنا رکھا تھا کہ عام لوگوں کی نظروں سے دُور رہیں۔ مغل بادشاہ اپنے محلّات کے جھروکوں سے کبھی کبھی عوام کو اپنا درشن دیا کرتے تھے، اور اس کا خاص نفسیاتی اثر ہوتا تھا۔موجودہ زمانے میں بھی کئی بادشاہ اپنی رعیّت سے آزادانہ میل جول نہیں رکھتے بلکہ بالکونی سے اپنی ایک جھلک دکھانے پر اکتفا کرتے ہیں۔ یہ بھی اسی جانب ایک قدم ہے کہ اپنے آپ کو رُعب و جلال کے لبادے میں چھپائے رکھیں۔ وہ اس عام نفسیاتی اصول پر عامل ہیں کہ لوگوں سے بہرحال کچھ فاصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ ان باتوں میں اُلوہیت کہاں سے آگئی؟ اگر کسی خدائی خوار کو بھی یہ مواقع اور ذرائع میسر آجائیں تو وہ بھی ایسا ہی کچھ کرسکے گا بلکہ شاید اس سے بہتر۔ یہ تو وہی مصنوعی انسانی طریقے ہیں، جنھیں سبھی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس میں اُلوہیت کا کوئی دخل نہیں۔
ربانی حقِ حکمرانی ان تمام مادی اور نفسیاتی ڈھکوسلوں سے بالاتر ہونا چاہیے۔ اسے نہ مال و دولت کی ضرورت ہو، نہ سنگینوں کی حاجت۔ لوگوں میں رُعب و جلال کےباطل اوہام پیدا کرنے کے لیے اُسے نفسیاتی بیساکھیوں کا سہارا بھی نہ لینا پڑے۔ یہ اقتدار تو فوج، خزانہ، جیل اور پولیس کے بغیر ہی قائم ہونا چاہیے۔ صرف ایسا حکمران ہی بجا طور پر اس امرکا دعویٰ کرسکتا ہے کہ اسے لوگوں پر حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی حکمران تھے۔ ان کے پاس لوگوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے لیے کوئی مستقل فوج نہیں تھی۔ وہ صرف ایک یتیم لڑکے تھے، جو ہرطرف پھیلی ہوئی بدی کی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تن تنہا ڈٹ گئے۔ بجائے اس کے کہ لوگوں کو زیر کرنے کے لیے آپؐ کی اپنی فوج ہوتی، فوجیں آپؐ کے خلاف صف آرا تھیں۔ ایک پوری قوم آپؐ کے خلاف مسلح ہوکر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ یہ لوگ انھیں بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے پر تلےہوئے تھے، اور پھر انجامِ کار یہی لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع فرماں ہوگئے۔ درحقیقت یہ ہے عوام پر حکومت کا خداداد حق!
اسلام کے نبیؐ برحق کے پاس دولت بھی نہ تھی کہ اس کا لالچ دےکر لوگوں کو اپنا معتقد بناتے۔ آپؐ تو [مادی زبان میں] غریب آدمی تھے، جنھیں بعض اوقات کئی کئی دن فاقہ کشی کرنا پڑتی تھی۔ عرب کے حکمران بننے کے بعد بھی آپ کھردری چٹائی پر سوتے تھے۔ اس طرح آپؐ کی پشت پر کھجور کے پتوں کے نشانات پڑ جاتے تھے۔ ایک بے کس اور مظلوم انسان سے ترقی کرتے کرتے آپؐ جزیرہ نمائے عرب کے حکمران بن گئے۔ پھر بھی نہ آپؐ کو پولیس کی حاجت ہوئی، نہ جیل کی۔ دراصل یہی وہ حکمران تھے، جن کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے کسی فوق الفطرت حق کی بناپر حکومت کی۔ اس لیے کہ آپؐ نے عام بادشاہوں کا سا اقتدار قائم کرنے والا کوئی ایک طریقہ بھی استعمال نہ کیا۔ نہ آپؐ کے پاس سلطنت کے تحفظ کی خاطر کوئی مستقل فوج تھی، نہ آپ کا ذاتی حفاظتی دستہ تھا، نہ کوئی خزانہ تھا، نہ پولیس تھی اور نہ کوئی جیل۔ ایسی کوئی چیز بھی تو نہ تھی۔
بجائے اس کے آپؐ لوگوں پر اثرانداز ہونے کے لیے انھیں کسی اُلوہیت آمیز رنگ میں اپنی طرف ملتفت کرنے کی کوشش کرتے، رسولِؐ پاک نے لوگوں کے دلوں کو اس شائبے سے پاک رکھنے کے لیے ہر وہ طریقہ استعمال کیا جو آپؐ کے بس میں تھا۔ آپؐ نے ایسے لوگوں کے درمیان زندگی بسر کی جو پتھر کے اَن گھڑ بتوں کی پوجا کرتے اور ان کی بابت اُلوہیت کے عقائد رکھنے کے عادی تھے۔ آپؐ کے لیے خدائی کا دعویٰ کرنا بھی کچھ مشکل نہ تھا، لیکن رسولِؐ پاک ایسی باتوں سے بالاتر تھے۔آپؐ نے لوگوں کے سامنے، جو بخوشی آپؐ کی پرستش کرنے کو بھی تیار ہوجاتے، صرف یہ دعویٰ کیا کہ ’’میں تو صرف تمھاری طرح ایک انسان ہوں‘‘۔
ان دُنیاوی بادشاہوں کے برعکس جو عوام کے دلوں میں اپنے فوق الفطرت مقام کا عقیدہ پیدا کرنے کے لیے سو سو جتن کرتے ہیں، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے دلوں پر ہرممکن طریقے سے یہ بات نقش کرنے کی کوشش کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسان ہیں اور بس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان بوجھ کر بطورِ حفظ ماتقدم، اس بات کو کلمہ کا جزولاینفک قراردیا کہ’’محمدؐ اللہ کے رسولؐ ہیں‘‘ مبادا آیندہ چل کر ان کے نام لیوا عقیدت کے جوش میںا نھیں خدائی کے درجے تک پہنچا دیں، جیساکہ عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شخصیت اور اختیار کے بارے میں لوگوں کے تمام شکوک و شبہات واضح الفاظ میں دُور کردیئے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تمھارے آگے یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں خزانوں کا مالک ہوں یا غیب کا علم رکھتا ہوں‘‘۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے [ابراہیم]کے انتقال کے وقت اتفاقاً سورج گرہن لگ گیا، تو لوگوں نے سمجھا کہ شاید خدا اظہارِ غم کر رہا ہے۔ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلمنے فوراً اُن کے اوہامِ باطلہ کو یہ کہہ کر رَد کردیا کہ ’انسان کی موت و حیات کے ساتھ مظاہر قدرت کا کوئی تعلق نہیں‘۔ قرآن مجید ایسی آیات سے بھرا پڑا ہے کہ رسولؐ اللہ نے کیوں کر لوگوں کو ہرممکن طریقے سے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپؐ کی ذات میں کوئی مافوق الفطرت بات موجود نہیں۔ جب ایک نابینا بوڑھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے آیا اور آپؐ نے اُس سے بے اعتنائی برتی تو خدا کی طرف سے تنبیہ نازل ہوئی۔ بجائے اس کے کہ آپؐ اُسے چھپاتے، آپؐ نے اُسے قرآن مجید میں اللہ کی مرضی کے مطابق تمام آنے والے وقتوں کے لیے محفوظ کردیا۔ کوئی دُنیاوی صاحب ِ اقتدار شخص اپنے خلاف کسی بات کو، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو، اس طرح مشتہر نہیں کرتا۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے بے تکلفانہ انداز میں عام لوگوں سے میل جول رکھتے تھے۔ آپؐ کے کردار میں دوسروں سے بالاتر ہونے کی کوئی امتیازی علامت موجود نہ تھی۔ عوام کے ساتھ آپؐ کا ربط ضبط ایسا تھا کہ جب کوئی اجنبی مسجد میں مسلمانوں کے اجتماع میں آتا، تو اُسے دریافت کرنا پڑتا کہ ’’تم میں سے محمدؐ کون ہیں؟‘‘۔ آپؐ بطور حکمران اپنے کپڑے سینا، اپنے جوتے مرمت کرنا، اپنی بکریوں کا دودھ دوہنا، اپنے گھر کی صفائی کرنا اور اُمورِ خانہ داری میں اہل خانہ کا ہاتھ بٹانا، اپنی کسرِشان نہیں سمجھتے تھے۔ ایک دفعہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی ایک جماعت کے ساتھ سفر میں تھے۔ جب کھانا پکانے کا وقت آیا تو ہرشخص نے اپنے اپنے حصے کا کام سنبھال لیا۔ رسولِؐ پاک بھی اس کام میں شریک ہوئے اور لکڑیاں چُن لائے۔ جب آپؐ کے پیروکاروں نے کہا کہ آپؐ کو تکلیف کرنے کی ضرورت نہیں، تو آپؐ نے واضح طور پر جواب دیا کہ آپؐ کو اپنے حصے کا کام کرنا ہی چاہیے۔
ایسا تھا یہ سب سے طاقت ور حکمران، جو دُنیا نے کبھی دیکھا!
وہ حکمران جس کا حکم صرف جسم پر نہیں دلوں پر بھی چلتا تھا۔ وہ حکمران جس کی کوئی فوج تھی نہ کوئی محل اور نہ خزانہ۔ اور نہ ان لاتعداد وسائل میں سے کوئی ایک وسیلہ کہ جسے دُنیاوی حکمران لوگوں کو مطیع کرنے کے لیے اختیار کرتے ہیں۔ آپؐ لوگوں سے ہر ممکن طور پر بے تکلف ہوتے اور اپنی شخصیت تمام ممکنہ اوہامِ باطلہ سے بچائے رکھنے کی کوشش کرتے، پھر بھی آپؐ حکمران تھے۔
آپؐ کے پیروکار آپؐ سے ایسی محبت کرتے تھے کہ دُنیا کے کسی اور بادشاہ کو نصیب نہ ہوئی۔ آپؐ کے ایک پیروکار کو جب اس امر کا علم ہوا کہ جنگ میں آپؐ کا ایک دانت شہید ہوگیا ہے، تو اُس نے اپنے تمام دانت خود توڑ ڈالے۔ جب کسی جنگ کے خاتمے پر مدینہ کی ایک عورت نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کی، تو اُسے بتایا گیا کہ اس کا شوہر شہید ہوگیا ہے۔ اس اندوہ عظیم سے بے پروا ہوکر اُس نے دوبارہ رسولِؐ پاک کی خیریت پوچھی۔ اُسے بتایا گیا کہ جنگ میں اس کا بیٹا بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے اپنا وہی سوال پھر دُہرایا۔ اسے جواب ملا کہ اس کا بھائی بھی شہید ہوگیا ہے۔ اُس نے زور دے کر پوچھا: ’’رسولِؐ پاک کا کیا حال ہے؟‘‘ جب اُسے بتایا گیا کہ آپؐ خیریت سے ہیں تو اُس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ اس صورت میں تمام غم قابلِ برداشت ہیں۔
تاریخ میں صرف ایک حکمران کا ذکر ملتاہے، جس کی بابت بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اسے حکومت کا خدائی حق حاصل تھا اور وہ حکمران اسلام کے نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ اگرچہ آپؐ کو لوگوں پر حکومت کرنے کا خدائی حق حاصل تھا، لیکن آپؐ نے کبھی ملوکیت کا دعویٰ نہیں کیا۔ دُنیا کے اس عظیم ترین حکمران کا پیغام اپنے پیروکاروں کے لیے صرف اس قدر تھا:
’’میں تو تمھارے ہی جیسا ایک انسان ہوں‘‘۔