جنوری ۲۰۲۵

فہرست مضامین

صالح و باکردار قیادت کے اوصاف

محمد یوسف اصلاحی | جنوری ۲۰۲۵ | تزکیہ و تربیت

Responsive image Responsive image

عَنْ  اَبِی ھُرَیْرَۃَ  قَالَ  قَالَ  رَسُوْلُ  اللہِ  صَلَّی  اللہُ  عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  اِذَا  کَانَ  اُمَرَائُکُمْ خِیَارَکُمْ  وَاَغْنِیَائُکُمْ  سُمَحَا ئَکُمْ  وَاُمُوْرُکُمْ  شُوْرٰی  بَیْنَکُمْ  فَظَھْرُ الْاَرْضِ  خَیْرٌ  لَّکُمْ  مِّنْ  بَطْنِھَا   وَ اِذَا  کَانَ  اُمَرَائُکُمْ شِرَارَکُمْ  وَاَغْنِیَائُکُمْ  بُخَلَائَکُمْ  وَاُمُوْرُکُمْ   اِلٰی   نِسَائِکُمْ  فَبَطْنُ  الْاَرْضِ  خَیْرٌ  لَّکُمْ  مِنْ  ظَھْرِھَا (ترمذی، مشکوٰۃ) حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تمھارے حکمران اچھے کردار کے لوگ ہوں اور تمھارے خوش حال لوگ فیاض ہوں، تو ایسے دور میں تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہت بہتر ہے۔ اور جب تمھارے حکمران بدکردار لوگ ہوں اور تمھارے معاشرے کے مال دار لوگ بخیل ہوں، اور تمھارے معاملات بیگمات کے حوالےہوں ،تو پھر زمین کا پیٹ، زمین کی پیٹھ سے تمھارے لیے بہت بہتر ہے۔

اس حدیث میں اُمت کو تنبیہہ بھی ہے، تعلیم بھی اور رہتی دُنیا تک کے لیے روشن ہدایات بھی۔ یہ اُمت خیرِ اُمت ہے، صرف اپنے ہی لیے نہیں، عالمِ انسانیت کی فیض رسانی اور بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ اس مقصد ِ وجود کو یہ اُمت اس وقت تک پورا کرتی رہے گی، جب تک اس میں تین بنیادی جوہر پائے جاتے رہیں گے:

  • اس کی قیادت صالح اور باکردار لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔
  • اُمت کے اصحابِ ثروت ، سخی اور فیاض ہوں، اور ان کی دولت صرف ذاتی عیش و عشرت کے لیے نہ ہو بلکہ اُمت کے گرے پڑے لوگوں کو اُونچا اُٹھانے، اُمت کے اجتماعی فلاح کے کاموں کو پورا کرنے اور اُمت کی ملّی ضرورتوں کے لیے ہو۔ وہ اُمت کے مسائل میں نہ صرف دلچسپی لیتے ہوں بلکہ کشادہ دلی اور فراخ دستی سے اپنی دولت بھی صَرف کرتے ہوں۔
  • یہ کہ اُمت کے اجتماعی مسائل باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں اور اس کا نظامِ زندگی جمہوری اور شورائی ہو، کسی ایک فرد، خاندان یا گروہ کی آمریت اُمت پر مسلط نہ ہو۔

صالح قیادت کی اہمیت

اجتماعی زندگی میں صالح اور باکردار قیادت کی اہمیت یہ ہے کہ اصحابِ اقتدار اگر صالح اور باکردار ہوں تو پورا معاشرہ چار و ناچار پاکیزہ اور صالح بن جاتا ہے اور بنا رہتا ہے۔ اصحابِ اقتدار کی پیروی ایک فطری اور قدرتی امر ہے۔ مشہور مقولہ ہے: اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنٍ مُلُوْکِھِمْ، لوگ اپنے حکمرانوں کے طریقے پر عامل ہوتے ہیں۔

قیادت اور اقتدار اُمت کے پاس ایک بڑی امانت ہے۔ وہ اُمت زندہ اور بیدار ہے، جس میں یہ شعور پایا جائے کہ یہ امانت انھی کے حوالے ہونی چاہیے، جو اس کے اہل ہوں اور جو اپنے اجتماعی معاملات کے لیے اپنے میں سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ کردار کے افراد منتخب کرسکتی ہو۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر کچھ بدکرداراور بداطوار دھوکے اور دھاندلی سے برسرِاقتدار آنے کی چالیں چلنا چاہتے ہوں، تو اُمت ان کی چالوں کو بروقت سمجھ کر ان کا توڑ کر سکتی ہو، اور ان کے عزائم کو ناکام کرکے ان کو بے اثر بناسکتی ہو۔

اقتدار صالح ہوگا تو پوری قوم میں صالحیت اور حُسنِ کردار کی روح جاری و ساری ہوگی، لیکن صالح اقتدار کو اپنے میں سے اُبھارنا، اور صالح افراد کو قیادت کے منصب تک پہنچانا بھی اُمت ہی کا کام ہے، اور یہ عظیم فریضہ اُمت کو بڑی بیدار مغزی، زندہ دلی، لگن اور جوش و ہوش کے ساتھ انجام دینا ہے اور اس کے لیے مسلسل فکرمند رہنا ہے___ قیادت سونپ کر احتساب سے غافل ہو جانا بھی خطرناک ہے۔ اس لیے کہ اقتدار آدمی کو غلط راہ پر لگانے کے لیے مسلسل اور خاموش سرگرمی جاری رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صالح اقتدار کی امانت اس کے اہل اور لائق اصحاب کو سونپنے کے لیے بڑا تاکیدی انداز اختیار فرمایاہے:

 اِنَّ اللہَ  يَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓى اَھْلِھَا۝۰ۙ (النساء۴:۵۸) بلاشبہہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ اپنی امانتیں (اعتماد کی ذمہ داریاں) ان لوگوں کے حوالے کرو، جو ان کے اہل یعنی امین ہوں۔

اِنَّ کی تاکید کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ وہ تمھیں ’حکم دیتا ہے‘۔ ایک بڑا غیرمعمولی تاکیدی انداز ہے۔ امانتوں سے مراد معاشرے میں ہرسطح پر اعتماد کی ذمہ داریاں ہیں۔ معاشرے میں ہرسطح پر سربراہی، قیادت، سرداری، حکمرانی اور رہنمائی کی ذمہ داریاں اُن لوگوں کے سپرد کی جائیں جو امین ہوں، اور ان ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کے اہل ہوں۔

اس غیرمعمولی تاکید کا مطلب یہ ہے کہ اپنے معاملات اور اہم ذمہ داریاں اہل تر لوگوں کے حوالے کرنا، عام قسم کا مستحسن عمل نہیں ہے جس کے لیے اُمت سے کوئی سفارش کی جارہی ہو، بلکہ اس مقصد کے لیے اللہ صاف، صریح حکم دے رہا ہے۔ اس معاملے کو افراد کی مرضی پر نہیں چھوڑا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کریں گے تو اچھے نتائج پائیں گے۔ بلکہ اس کی تعمیل ان پر واجب ہے اور وہ ایسا کرنے کے پابند ہیں۔ اللہ کا تاکیدی حکم ہے کہ وہ قیادت اور حکومت اہل تر لوگوں کے حوالے کریں۔ اس معاملے میں سہل انگاری، غفلت، لاپروائی اور بے توجہی خدا کے صریح حکم کی خلاف ورزی ہے۔

اس امانت کی تشریح و توضیح کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہی انداز میں ارشاد فرمایا: ’جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ کہا گیا: ’یارسولؐ اللہ! امانت ضائع کرنا کسے کہتے ہیں‘۔ فرمایا: ’جب حکومت اور سرداری نااہلوں کے سپرد کی جانے لگے تو قیامت کا انتظار کرو‘۔ (بخاری بروایت ابوہریرہؓ)

ان تاکیدی ہدایات کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ اُمت اس معاملے میں کبھی لاپروائی، بے تعلقی اور بے فکری کا رویہ اختیار نہ کرے۔ اس کو محض دُنیوی نظام سنبھالنے کا ڈھانچا سمجھ کر غیراہم نہ سمجھے، بلکہ اس معاملے میں ذہن و فکر کی قوتوں کو بھی لگائے اور عملاً دلچسپی بھی لے اور چاق و چوبند رہ کر پوری کوشش کرے کہ اقتدار اہل اور صالح فطرت لوگوں کے ہاتھ میں پہنچے۔ کہیں بے کردار،  مکار اور مفاد پرست افراد اپنی سازشوں سے اس پر ناجائز قبضہ نہ کربیٹھیں، اور اُمت کی بے پروائی، بے تعلقی اور سادہ لوحی سے کہیں یہ عظیم امانت نااہلوں کے ہاتھ میں نہ پہنچ جائے ورنہ پورے نظامِ اجتماعی کی گاڑی غلط رُخ پر چل پڑے گی، اور پھر رنج، افسوس، ماتم اور شکوئوں اور ملامتوں کی کوئی مقدار بھی اس کو بریک نہیں لگاسکے گی۔

اصحابِ ثروت کی ذمہ داری

دوسری خوبی جو اُمت میں مطلوب ہے وہ یہ کہ اُمت کے اصحاب ِ ثروت، اللہ کی دی ہوئی دولت کو اللہ کا انعام سمجھیں۔ وہ ذاتی عیش و آرام میں پڑ کر محض دادِ عیش دینے کے لیے اس کو استعمال نہ کرنے لگیں کہ ذاتی عیش و عشرت کے لیے تو وہ فیاضی دکھائیںاور اُمت کی ضروریات اور گرے پڑے لوگوں کے لیے وہ حددرجہ کنجوسی، تنگ دلی اور بخیلی دکھائیں۔

ملّت کے تعلیمی ادارے اور تربیتی تنظیمیں مالی وسائل نہ پاکر دم توڑ رہی ہوں، اُمت کے نادار نانِ شبینہ کو محتاج ہوں، وسائلِ رزق کے لیے ترس رہے ہوں اور اہلِ دولت اپنے عیش و عشرت میں مگن ہوں، اور اپنے دسترخوان کے ریزے بھی ان کے حلق میں ڈالنے کو تیار نہ ہوں۔ یہ صورتِ حال بلاشبہہ اُمت کے لیے بدترین زوال کا ذریعہ ہے، مگر دوسری طرف یہ خود اصحابِ ثروت و دولت کے لیے بھی عبرت ناک تباہی ہے۔ اُمت کے دولت مندوں کی عزّت و عظمت ملّت کی عزّت و عظمت سے وابستہ ہے۔ اُمت کے زوال کے اسباب اپنے ہاتھوں فراہم کرکے اور اُمت کے زوال پر راضی رہ کر اگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ اسی طرح دادِ عیش دیتے رہیں گے تو وہ سخت فکری گمراہی اور ایمانی زوال میں مبتلا ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کی عزّت ملّت کی عزّت میں ہے، ان کی عظمت و سربلندی جو کچھ ہے ملّت کے دم سے ہے۔ملّت زوال پذیر ہوئی تو وہ ہرگز عزّت نہ پاسکیں گے بلکہ انتہائی عبرت ناک ذلّت اور تباہی سے دوچار ہوں گے۔ ان کا اپنا بھلا اسی میں ہے کہ ملّت کو سربلند رکھنے کے لیے اپنی تجوریوں کا منہ کھول دیں۔ اپنے عیش و عشرت کی فہرستیں مختصر کر دیں، بلکہ ضرورت ہو تو پھاڑ کر پھینک دیں اور دونوں ہاتھوں سے اپنی دولت ملّت پر لٹائیں کہ ملّت کے اجتماعی مسائل حل ہوں، ملّی ادارے اور ملّی نظم مضبوط ہو اور مالی وسائل کی کمی سے ملّت کا کوئی کام ہرگز نہ رُکے۔ ملّت کی سربلندی ملّت کے اصحابِ ثروت کی سربلندی ہے اور پھر اس سخاوت اور فیاضی کا جو صلہ حشر کے میدان میں ملنے والا ہے اس کے تو تصور ہی سے روح جھوم اُٹھتی ہے۔ تصور تو کیجیےان شاداب اور خوش و خرم چہروں کا جن پر نُور برس رہا ہوگا، اوران خوش نصیبوں کے آگے اور دائیں نُور دوڑ رہا ہوگا۔

قرآن کا ارشاد ہے: ’’کون ہے جو اللہ کو قرض دے؟ اچھا قرض، تاکہ اللہ اسے کئی گنا بڑھاکر واپس کردے، اور اس کے لیے باعزّت اجر ہے اس دن، جب کہ تم مومن مردوں اور عورتوں کو دیکھو گے کہ ان کا نُور ان کے آگے آگے اور ان کے دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا: آج بشارت ہے، تمھارے لیے جنتیں ہوں گی جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہی ہے بڑی کامیابی‘‘۔ (الحدید ۵۷:۱۱-۱۲)

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور حضوؐر کی زبانِ مبارک سے لوگوں نے اس کو سنا تو حضرت ابوالدحداح انصاریؓ نے عرض کیا: یارسولؐ اللہ، کیا اللہ تعالیٰ ہم سے قرض چاہتا ہے؟ حضوؐر نے جواب دیا: ہاں! اے ابوالدحداح۔ انھوں نے کہا: ذرا اپنا ہاتھ مجھے دکھایئے۔ آپؐ نے اپنا ہاتھ ان کی طرف بڑھا دیا۔ انھوں نے آپؐ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا: میں نے اپنے ربّ کو اپنا باغ قرض دے دیا۔

حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کا بیان ہے کہ اس باغ میں کھجور کے چھ سو درخت تھے۔ اسی میں ان کا گھر تھا اوروہیں ان کے بیوی بچّے رہتے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات کرکے سیدھے گھر پہنچے اور دُور سے بیوی کو پکار کر کہا: دحداح کی ماں! نکل آئو، میں نے یہ باغ اپنے ربّ کو قرض دے دیا ہے۔ وہ بولیں: تم نے نفع کا سودا کیا ہے، اے دحداح کے باپ۔

اوراسی وقت اپنا سامان اور اپنے بچّے لے کر باغ سے نکل گئیں۔

اپنا دل پسند مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے وقت انسان بلاشبہہ ذہنی اور جذباتی کش مکش میں مبتلا ہوتا ہے اور شیطان ورغلاتا ہے۔ مگر ایمان خدا پر اعتماد کا نام ہے___ اور خدا پر اعتماد کرکے جو شخص اقدام کرتا ہے اس کو خدا حکمت کی دولت سے نوازتا ہے۔

’’شیطان تمھیں فقروفاقے سے ڈراتا ہے اور بے شرمی کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ مگر اللہ تمھیں اپنی بخشش اور فضل کی اُمید دلاتا ہے۔ اور اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے، جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے اور جس کو حکمت ملی اسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی۔ ان باتوں سے صرف وہی سبق لیتے ہیں جو دانش مند ہیں‘‘۔(البقرہ ۲:۲۶۸-۲۶۹)

یہ فرمان کہ ’’جسے حکمت ملی اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی‘‘ بڑی اہم حقیقت ہے، جس کی طرف قرآن نے متوجہ کیا ہے۔ شیطان آدمی کو ڈراتا ہے کہ اگر تم آج ملّت کی بھلائی کے لیے اپنا مال صرف کر دو گے تو کل تم خود دست نگر ہوجائو گے اور صرف تمھارے دے دینے سے ملّت کے عظیم مسائل اور انسانیت کی بہبودی کے عظیم کام انجام نہیں پاجائیں گے۔ البتہ تم ضرور فقروفاقے میں مبتلا ہوجائو گے، جس طرح آج معاشرے میں کچھ دوسرے لوگ ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ خوش حالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارتے رہو۔ خوب دادِ عیش دیتے رہو، اور پھر وہ نمود و نمائش اور عیاشی کے شرمناک کاموں پر اُکساتا ہے اور کہتا ہے: آج تمھارے پاس دولت ہے۔ تمھاری محنت سے کمائی ہوئی دولت ہے۔ اس سے تم ہی فائدہ نہ اُٹھائو گے تو کون اُٹھائے گا۔ تمھارا عیش و آرام اور تمھاری یہ زندگی کی سہولتیں لوگوں کو گوارا نہیں ہورہی ہیں۔ اس لیے جو اعتراضات کرتے ہیں، جلنے دو انھیں حسد کی آگ میں،تمھاری اپنی کمائی ہے۔ خوب خوب فائدہ اُٹھائو۔

شیطان کے مکروفریب کے اس جال سے وہی بچ سکتا ہے، جس کی نظر اللہ کی مغفرت پر اور اللہ کے فضل پر ہوتی ہے۔ جو اس فراوانی اور اسبابِ عیش کو اللہ کا فضل سمجھتا ہے اور پھر اللہ کے لیے وسعت ِ قلب اور کشادہ دستی کے ساتھ خرچ کرتا ہے، اور خود کو رسولؐ اللہ کی اُمت کا ایک فرد تصور کرکے اپنی عزّت و عظمت کو ملّت کی عزّت و عظمت پر موقوف سمجھتا ہے۔ ملّت بھی سربلند ہوتی ہے اور وہ بھی سربلند ہوتا ہے۔ یہی حکمت و بصیرت جس کو مل گئی اُسے سب کچھ مل گیااور پھر وہ پوری آمادگی اور نشاط کے ساتھ ملّت کی اجتماعی بھلائی کے کاموں میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ اُسے فقروفاقے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ جس ہستی کی ہدایت پر اپنی دولت لٹاتا ہے، اس کے بارے میں اس کا یقین یہ ہے کہ وہ واسع اور علیم ہے۔ اُس ہستی کو یہ بھی علم ہے کہ یہ شخص کن جذبات کے ساتھ اپنی دولت خرچ کر رہا ہے اور یہ بھی علم ہے کہ کن کاموں میں خرچ کر رہا ہے۔

پھر وہ واسع،بہت کشادگی والا ہے، جس نے اتنا دیا ہے وہ اس سے زیادہ بھی دے سکتا ہے۔ اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ کشادہ ظرف بھی ہے اور کشادہ دست بھی۔ جو کچھ ہے وہ بھی اسی نے دیا ہے اور مزید کچھ دینا چاہے تو اس کے پاس کمی بھی نہیں ہے اور اس کو کوئی روکنے والابھی نہیں ہے۔ پھر داد و دہش کے نتیجے میں ملّت جس سربلندی اور سرفرازی سے نوازی جائے گی، وہ میری بھی تو عظمت اور سرفرازی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہ زندگی یہی مختصر سی مہلت تو نہیں ہے جو موت پر ختم ہوجاتی ہے۔ یہ تو طویل زندگی کا بہت معمولی سا وقفہ ہے۔ زندگی کی تمہید، بلکہ اس کو بنانے، سنوارنے کا ایک قدرتی موقع ہے۔ مجھ سے زیادہ محروم اور نادان کون ہوگا، اگر میں اس زرّیں موقع کو کھو دوں، جو پھر دوبارہ مجھے کبھی بھی نہیں مل سکتا۔ یہ ہے وہ سبق جو اہلِ دانش و بینش، اللہ کی ان تعلیمات سے حاصل کرتے ہیں۔

جمہوری اور شورائی نظام

تیسری جوہری خوبی جو اُمت کی زندگی میں مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ ملّت میں جمہوری اور شورائی نظام ہو۔ ان پر کسی کی آمریت مسلط نہ ہو، نہ کسی شخص کی نہ کسی خاندان کی نہ کسی گروہ کی بلکہ ان کے اجتماعی اُمور صلحائے اُمت اور اصحابِ فکرونظر کے باہمی مشورے سے طے ہوں، ان کی زندگی کا نظام جمہوری اور شورائی نظام ہو۔

پھراس حدیث میں ایک اور واضح اشارہ بھی ہے، اُمت کی تباہی اور زوال کی جو باتیں نبیؐ نے گنائی ہیں۔ ان میں ایک بات یہ بھی ہے کہ تمھارے اجتماعی اُمور عورتوں کے ہاتھوں میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دورِ عروج کے لیے ناگزیر ہےکہ اجتماعی اور سیاسی معاملات کی سربراہی مردوں کے ہاتھوں میں ہو اور شورائی نظام کے تحت اُمور انجام پائیں۔

اسلامی معاشرے کا تو بنیادی وصف ہی یہ ہے کہ ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے ہوتے ہیں: وَاَمْرُھُمْ شُوْرٰی بَیْنَھُمْ، ’’اور وہ اپنے معاملات باہمی مشورے سے چلاتے ہیں‘‘۔

یہ باہمی مشورہ اجتماعی معاملا ت میں ہرسطح پر ناگزیر ہے۔ جو معاملات جتنے افراد سے متعلق ہوں، ان میں سب کی رائے لینا ایک فطری تقاضا پورا کرنا ہے۔ اپنے معاملے اور مفاد سے ہرایک کو قدرتی اور ذاتی دلچسپی ہوتی ہے اور وہ اپنی ذاتی دلچسپی کی خاطر اپنے مفاد کے لیے برابر فکرمند بھی رہتا ہے، اور نئی نئی راہیں بھی سوچتا ہے۔ ایک فرد نہ سب کے مفاد کو پیش نظر رکھ سکتا ہے اور نہ ذاتی اغراض سے بلند ہونے کا اس کے بارے میں مستقل اطمینان کیا جاسکتا ہے، اور نہ ایک فرد میں ایسی صلاحیت ہوسکتی ہے کہ وہ بیک وقت ہرہرپہلو پر وسعت کے ساتھ نگاہ رکھ سکے، اور جانب داری یا کبرو نخوت جیسے ناپاک جذبات سے خود کو پاک رکھ سکے۔ اور ان گھٹیا جذبات سے معاشرے میں جو فساد پھیل سکتا ہے اور ظلم و زیادتی کی جو راہ کھل سکتی ہے وہ بھی نگاہ میں رہے تو کبھی کوئی خداترس نہ آمریت کے مسلّط کرنے پر راضی ہوسکتا ہے اور نہ آمریت جیسی لعنت کو برداشت کرسکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ رسولؐ جیسی بے مثال ہستی کو بھی ہدایت کی گئی کہ مسلمانوں سے معاملات میں مشورہ لیجیے، اس لیے کہ آپؐ رہتی زندگی تک کے لیے زندگی کے تمام معاملات میں نمونہ ہیں اور آپؐ کی پوری زندگی اُسوئہ حسنہ ہے۔ اس اُسوئہ حسنہ کی پیروی کی سفارش ہی نہیں کی گئی بلکہ اللہ اور یومِ آخرت پر یقین کا لازمی تقاضا بتایا گیا ہے۔ خدا کے حضور انسان کا کوئی انفرادی یا اجتماعی عمل قطعاً شرفِ قبول نہیں پاسکتا، اگر وہ اُسوئہ حسنہ کے مطابق نہ ہو۔ اسلام اِتباع رسولؐ کا نام ہے ۔ اللہ سے تعلق اور محبت کا دعویٰ قابلِ تسلیم ہی نہیں ہے، اگر رسولؐ کی اِتباع اور پیروی سے اس کا ثبوت مہیا نہیں کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس فرد یا اجتماعیت پر محبت کی نظر ڈالتا ہی نہیں، جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بے نیاز اس کے حضور پہنچا ہو۔

اللہ کی رضا اور محبت کی سند وابستہ ہے، اس عمل سے جس کو پیرویٔ رسولؐ کہتے ہیں۔سخت ترین نادان اور محروم ہیں، وہ لوگ جو اِتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ سے ہٹ کر خدا کی محبوبیت اور اس کی رضا پانے کا دعویٰ کرتے ہیں یا ڈھونگ رچاتے ہیں۔ مسلمانوں کے مخلص سربراہ وہی ہیں اور ملّت انھی کی سرکردگی میں سربلندی اور عروج حاصل کرسکتی ہے، جو جمہوری اور شورائی نظام کے تحت ملّت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں اور جن کے سینے میں پیرویٔ رسولؐ کی تڑپ ہے، اور یہ سربراہ وہی ہوسکتا ہے جو باہمی مشورے، انتخاب اور رضامندی سے قیادت کے منصب پر سرفراز ہو۔

پھر یہ قائد اور یہ شوریٰ بھی مطلق العنان اور مختارِ کُل نہیں ہیں کہ جو چاہیں باہمی مشورے سے فیصلہ کریں اور جس طرح چاہیں مسلمانوں کے معا ملات چلائیں، بلکہ یہ سب بھی اس دین اور قانون کے پابند ہیں، جس کا اللہ نے ان کو پابند بنایا ہے، اور یہ سب مامور ہیں اس بات پر کہ یہ رسولؐ کی کامل پیروی کریں اور اپنے ہرفیصلے کے لیے اپنے ضمیر اور مسلمانوں کو مطمئن کرنے کے لیے قرآن و سنت سے سند پکڑیں اور خود بھی دین و شریعت کی اِتباع کریں، بلکہ اِتباعِ شریعت میں دوسروں کے لیے نمونہ پیش کریں کہ رسولؐ کے اُسوۂ حسنہ سے یہی تعلیم و ہدایت ملتی ہے۔

قرآن کریم میں ہے: ’’اے رسولؐ! کہیے مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کے آگے سرتسلیم خم کردوں، اور یہ کہ تم ہرگز مشرکوں میں سے نہ ہو۔ اگر میں اپنے ربّ کی نافرمانی کروں تو ڈرتا ہوں کہ ایک بڑے خوفناک دن مجھے سزا بھگتنی پڑے گی‘‘۔ (انعام ۶:۱۴-۱۵)

اور دوسرے مقام پر رسولؐ اللہ کو صاف صاف ہدایت دی گئی ہے کہ وَاتَّبِعْ  مَا یُوْحٰی  اِلَیْکَ ،’’اور پیروی کیجیے اس ہدایت کی جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے‘‘۔

یہ تین جوہری بنیادیں اگر ملّت کی اجتماعی زندگی میں موجود ہوں تو وہ خود بھی عزّت و عظمت اور عروج و سربلندی کی زندگی گزارے گی اور دُنیا بھی اس کے وجود سے فیض یاب ہوگی اور پورا انسانی معاشرہ خدا کی نازل کردہ ہدایات کی خیروبرکت سے مالا مال ہوگا۔

اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت بلیغ انداز میں یوں واضح فرمایا:’’تو تمھارے لیے زمین کی پیٹھ زمین کے پیٹ سے بہتر ہے، یعنی زمین کی پیٹھ پر تمھارا موجود رہنا تمھارے لیے باعث ِ فخر اور باعث ِ عزّت و عظمت ہے اور دُنیا کے لیے بھی باعث ِ خیر، تم بھی اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو، اور دُنیا بھی تمھارے وجود کی بدولت خیروبرکت سے فیض یاب ہوگی۔ تم دُنیا میں اچھے اثرات قائم کرکے اور ایسی زندگی گزار کر جب خدا کے حضور پہنچو گے تو وہاں بھی سرخروئی اور رضائے الٰہی کے بلند مقام پر سرفراز ہوگے۔

اس کے برخلاف اگر کبھی کسی دور میں بدقسمتی سے اُمت تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیوں میں مبتلا ہوگئی، تو وہ اپنے لیے بھی باعث ِ ننگ ہوگی اور دُنیا کے لیے بھی ناگوار بوجھ۔ خدانخواستہ جب اُمت پر یہ روزِ بد آجائے تو اس وقت اس کے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہوگا۔ وہ تین رُسوا کن اجتماعی بُرائیاں یہ ہیں:

  • اُمت کی قیادت پر بدکردار اور بداطوار لوگ قابض ہوجائیں۔
  • اُمت کے اصحابِ دولت و ثروت، بخل اور کنجوسی میں مبتلا ہوجائیں۔
  • اور اُمت کے معاملات کی باگ ڈُور عورتوں کے ہاتھوں میں آجائے۔

بدکردار قیادت

لیڈرشپ ہمیشہ قوم کے اندر سے اُبھرتی ہے۔ بدکردار قیادت کسی قوم میں اسی وقت اُبھرتی ہے، جب پوری قوم کا مزاج و عمل اس کے اُبھرنے کا موقع فراہم کرتا ہے اور قوم اس احساس و شعور سے محروم ہوجاتی ہے ، کہ نیکی اور بھلائی ہی قابلِ قدر ہے۔ یہی وہ جوہر ہے جس کی بنیاد پر کسی فرد کی قدروقیمت قائم ہونی چاہیے۔

ان کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتی ہے، نتیجتاً بدکردار اور بداطوار لوگ اپنی عیاری، سازش اور جوڑتوڑ سے قیادت پر قابض ہوجاتے ہیں اور اشرار کی قیادت اللہ کی طرف سے سرزنش بھی ہوتی ہے اور زوال اور رُسوائی کی مہر اور علامت بھی۔ اور پھر پوری قوم گراوٹ، زوال، بے عملی اور بُرائیوں کے طوفان میں پھنس جاتی ہے۔ بُرائی، گراوٹ اور کرپشن کی رفتار انتہائی تیز ہوجاتی ہے اور اچھے اچھے دانشور یہ کہنے لگتے ہیں کہ اب معاشرے کے سدھرنے کی کوئی اُمید نہیں اور اب تو تباہی اس کے لیے مقدر ہے۔ اس لیے کہ بُرائیوں کو پھلنے پھولنے کے لیے اقتدار کے مضبوط ہاتھ اور اقتدار کے سارے طاقتور وسائل فراہم ہوجاتے ہیں۔

عیش پرست اور بخیل قیادت

دوسری اجتماعی بُرائی، جس کی طرف رسولؐ نے ارشاد فرمایا ہے وہ یہ کہ اصحابِ دولت و ثروت اللہ کے عطا کردہ مال کو اپنی ذاتی عیش پرستی میں بے دریغ صَرف کرنے لگتے ہیں، رنگ رلیاں منانے اور عیش و عشرت کے سامان مہیا کرکے دادِ عیش دینا ہی ان کا مقصد ِ زندگی بن جاتا ہے۔ اس سے اُونچا کوئی مقصد ان کے سامنے نہیں رہتا۔ معاشرے کے ناداروں،کمزوروں اور گرے پڑے لوگوں کے مسائل سے انھیں قطعاً دلچسپی نہیں رہتی۔ وہ ان کے دُکھ درد کی صدا سننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ وہ ان سے قریب ہوکر ان کے ٹوٹے دل کی دھڑکن پر کان لگانے کی فرصت ہی نہیں پاتے۔ انھیں یہ حقیقت ممکن ہے پڑھنے پڑھانے کی حد تک کبھی یاد آجاتی ہو، لیکن عملاً وہ اس حقیقت کو بالکل فراموش کربیٹھتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور جانوروں کی طرح گاڑیاں کھینچتے ہوئے ہانپنے والے مزدور بھی انھی کے ماں باپ آدمؑ اور حوا ؑکی اولاد ہیں۔ آباواجداد سے پانے والی دولت یا معاشرے  میں رہ کر کمائی ہوئی دولت میں ان کا بھی حق ہے۔ مگر کسی اجتماعی ، فلاحی اور عوامی بہبود کے کام پر ان کی دولت کا کوئی حصہ صَرف نہیں ہوتا۔ ناداروں، غریبوں، مصیبت کے ماروں کے مسائل سن کر وہ نہ اپنے عیش کو خراب کرنا چاہتے ہیں اور نہ اپنی ذاتی سہولتوں کے لیے ہزار جتن سے جمع کی ہوئی دولت ان ضرورت مندوں کو دینے کے لیے ان کے دل میں کوئی گنجایش پیدا ہوتی ہے۔ ملّت کے تعلیمی ، رفاہی اور فلاحی ادارے اگر دم توڑ رہے ہیں تو وہ کیوں سوچیں اور اپنے ہنر اور محنت سے کمائی ہوئی دل پسند دولت ان پر کیوں صرف کریں؟ ملّت کے اصحابِ دولت و ثروت جب اس قدر بخیل و کنجوس ہوجاتے ہیں تو ملّت اس وقت زوال و خستگی کے آخری مرحلے پر ہوتی ہے، اور ملّت کے نزاع کا عالم ہوتا ہے۔

عورت کی سربراہی

اس عیش کوشی، سہل انگاری اور رنگ رلیوں میں پھنسنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ اصحابِ دولت و ثروت نفس کے غلام ہی نہیں عورت کے غلام بن جاتے ہیں اور یہی وہ تیسری بُرائی اور ملّی ذلت ہے جس کی طرف آپؐ نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے:

وَاُمُوْرُکُمْ  اِلٰی نِسَاءِکُمْ، اور تمھارے معاملات تمھاری بیگمات کے حوالے ہوں۔

دراصل عیش و عشرت میں ڈوبنے کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ عوام و خواص سب کے اعصاب پر عورت سوار ہوجاتی ہے اور زندگی کے ہر میدان میں عورت کی سربراہی باعث ِ افتخار سمجھی جانے لگتی ہے۔

ملّت سنجیدہ غوروفکر، بلند مقاصد ، اُونچے عزائم اور محنت و جانفشانی، قربانی اور جانبازی، جرأت و شجاعت اور ٹکر لینے کی ہمت جیسے اعلیٰ اوصاف سے عاری ہوجاتی ہے۔وہ شرمناک ترین دور ہے، جس کو نبوت کی زبان نے ان الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے: ’’اس وقت تمھارے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پیٹھ سے بہتر ہے‘‘۔گویا یہ اُمت کا وہ دور ہے کہ اُمت زندگی کی سانسیں لینے کے باوجود ایک مُردار لاشہ ہے جس کی جگہ زمین کی پیٹھ نہیں، زمین کا پیٹ ہے۔

اس مقام پر ایک پہلو سوچنے کا یہ بھی ہے کہ گھر ایک چھوٹا سا ادارہ ہے۔ اس چھوٹے سے ادارے کے لیے بھی قرآن نے فیصلہ کن انداز میں یہ ہدایت دی ہے کہ: اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ  عَلَی النِّسَاءِ ، ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں‘‘۔

حالانکہ گھر وہ ادارہ ہے، جس کے بنانے سنوارنے اور چلانے میں عورت کا کردار  نہایت اہم اور مثبت ہے تو پھر اسلام انسان کے وسیع تر اجتماعی معاملات میں عورت کی سربراہی اور حکمرانی کو کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ اس لیے کہ اس میدان میں آنے کے بعد وہ اپنے فطری وظائف اور مقاصد کی تکمیل اور نگہبانی نہیں کرسکتی۔ نہ صرف یہ کہ اپنے فطری مقاصد کی تکمیل نہیں کرسکتی بلکہ گوناگوں مفاسد کو جنم دے گی، جو میدان اللہ تعالیٰ نے عورت کے فرائض اور عظیم تر کارناموں کے لیے مخصوص فرمایا ہے، اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں بھی اللہ نے اس کو خصوصیت کے ساتھ عطا فرمائی ہیں اور جو کام اس کے سپرد کیے ہیں اس کو وہی اور صرف وہی انجام دے سکتی ہے۔ اس میدان میں نہ کوئی مرد اس کی برابری کا دعویٰ کرسکتا ہے، نہ ان فرائض کو ادا کرنے کا دعویٰ کرسکتا ہے اور نہ عورت کے ان فرائض کی اہمیت اور قدروعظمت گھٹانے کی حماقت کرسکتا ہے۔

حضورؐ کی اس تنبیہ اور آگاہی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کبھی اگر اُمت اپنی نالائقی اور عبرت ناک اجتماعی کوتاہی کی وجہ سے اس صورتِ حال سے دوچار ہو تو وہ خود کو کوسنے لگے اور اپنے مرنے کی دُعائیں مانگنے لگے۔ یا ہاتھ پیر توڑ کر قوموں کے رحم و کرم پر اپنے کو مطمئن کرکے ہرطرح کی ذلّت اور مسکنت کو اپنا مقدر سمجھنے لگے۔

تنبیہہ کا مطلب یہ ہے کہ اُمت ہوشیار ہو۔وہ اس شرمناک زندگی پر ہرگز راضی نہ ہو۔ اس ذلّت کی زندگی سے نکلنے کے لیے ہاتھ پیر مارے، اُمت کے باشعور اور غیور جواں مرد اُٹھیں، اُمت کو موت کے استقبال کا سبق پڑھائیں۔ اس زبوں حالی، شکست خوردگی اور شرمناک زندگی سے اُمت کو نکالنے کے لیے سر سے کفن باندھ کر میدان کشاکش میں اُتریں۔ عزّت کے ساتھ جینے کی خاطر مرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ جب کوئی زخمی قوم جھرجھری لے کر بیدار ہوتی ہے اور ظالم کو للکارتی ہے تو ماحول میں ایک انقلابی ارتعاش پیدا ہوتا ہے اور موت بھی ایسی سربکف قوم کا سامنا کرتے ہوئی جھجکتی ہے۔ قومی موت تو اُس مُردہ قوم کے لیے مقدّر ہے جو موت سے ڈر کر بھاگ کھڑی ہوتی ہے، نہ کہ اس زندہ قوم کے لیے جو موت سے پنجہ آزمائی کا حوصلہ رکھتی ہے۔ قرآن میں ایک مُردہ قوم کا ذکر ان الفاظ میں ہے:

اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ۝۰۠ فَقَالَ لَہُمُ اللہُ مُوْتُوْا۝۰ۣ (البقرہ ۲:۲۴۳) کیا تم نے ان لوگوں کے حال پر غور کیا جو موت کے خوف سے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے حالانکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے تو اس وقت اللہ نے ان سے کہا: تم مر رہو۔

دُنیا اُمت کی زندگی کاحق تسلیم کرنے کے لیے آج بھی تیار ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ملّت اٹل عزائم، بلند حوصلوں اور ناقابلِ تسخیر ہمت کے ساتھ صرف اللہ ذوالجلال کے بھروسہ پر اس شاہراہ پر چل پڑے جو اللہ نے اس کے لیے تجویز کی ہے۔