دین کی پکار پر لبیک کہتے وقت آپ اس عزم کے ساتھ آگے بڑھے تھے، کہ اب پیچھے ہٹنے کا نام نہ لیں گے۔ واپسی کی کشتیاں جلا کر آپ نے اس راہ میں قدم رکھا تھا، اور اپنے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ پروردگار! یہ جان بھی تیری ہے، یہ مال بھی تیرا ہے اور یہ سب کچھ میں نے تیرے ہاتھ بیچ دیا ہے، میرا اپنا اب کچھ نہیں ہے، سب کچھ تیرا ہے اور تیری ہی راہ میں صرف ہوگا۔ پروردگار! مجھے معاف فرما، مجھے شعور نہیں تھا، میں غفلت میں تھا، تیرا کرم ہے کہ تو نے مجھے غفلت سے بیدار کیا، اور اپنے دین کی خدمت کی سعادت بخشی۔ پروردگار! کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں، تو نے مجھے وہ سعادت بخشی جو تو صرف اپنے منتخب بندوں ہی کو بخشتا ہے۔
آپ نے اپنے خدا کے دین کو سب سے بڑی دولت سمجھ کر اپنایا تھا، بڑی عقیدت کے ساتھ اپنایا تھا، اور اس یقین کے ساتھ دین کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا تھا کہ خدا نے وہ عظیم خدمت آپ کے سپرد کی ہے، جس سے زیادہ عزت و عظمت کا اور کوئی کام دُنیا میں نہیں ہے۔ آپ کو اپنی اس سعادت پر فخر تھا اور بجا فخر تھا۔آپ نے اپنے رب سے عہد کیا تھا ؎
مری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
آپ نے مبارک فیصلہ کیا تھا کہ میں مرتے دم تک اسی دین کی خدمت میں لگا رہوں گا، کوئی ساتھ دے نہ دے میں آگے بڑھتا رہوں گا۔ لوگ ساتھ چلنے سے انکار کردیں گے تو میں تنہا چلوں گا۔ اس لیے کہ مجھے صرف اپنے رب کی رضا مطلوب ہے۔
کیسا مبارک تھا آپ کا فیصلہ، کیسے پاکیزہ تھے آپ کے جذبات ، اور کیسی ایمان افروز تھیں آپ کی سرگرمیاں۔ آپ خفا نہ ہوں، میری نظر میں یہ ماضی کی یادیں ہیں، ولولہ انگیز یادیں۔ آپ کو اصرار ہے کہ آپ کا فیصلہ اب بھی یہی ہے ، آپ کے جذبات اب بھی یہی ہیں، آپ کی سرگرمیاں اب بھی یہی ہیں، نہ آپ کا عہد بودا تھا، نہ آپ کا فیصلہ کمزور تھا، نہ آپ کے جذبات سرد پڑے ہیں، نہ آپ کی سرگرمیاں کسی جمود کا شکار ہوئی ہیں___ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن کیا کروں اپنی ان آنکھوں کا، کہاں لے جائوں اپنے ان کانوں کو، کیا کروں اپنے احساس کا!
کبھی جب میں آپ کو دیکھا کرتا، تو اپنی زندگی پر شرم آتی اور بے اختیار لب پر دُعا بن کر یہ تمنا آتی کہ پروردگار! میری عمر کا کچھ حصہ ان کو عطا فرما دے۔ میں جب آپ کو سرگرمِ کار دیکھتا، تو ایک حیرت انگیز ولولہ محسوس کرتا، راہِ حق میں بڑھنے کی بے پناہ قوت کا احساس ہوتا، آپ کو بڑے رشک سے دیکھتا، اپنے لیے مثال بناتا، اور بہت کچھ کرنے کے بعد بھی یہ محسوس کرتا کہ آپ کی منزل مجھ سے بہت آگے ہے، بہت کچھ کرنے کے بعد بھی شاید میں آپ کو نہ پاسکوں، اور پھر عقیدت و محبت کے ساتھ میری نگاہیں آپ کے نورانی چہرے پر جم جاتیں، مگر اب__ اب مجھے نہ وہ عزائم نظر آتے، نہ وہ ولولے، نہ وہ خارا شکن جذبات ہیں، نہ حوصلے، نہ وہ سرگرمیاں ہیں، نہ وہ ہمت و ارادے۔
آپ کا کہنا بجا کہ آپ کے ساتھیوں نے حوصلے چھوڑ دیے۔ آپ کے ساتھی اپنے عہد میں بودے ثابت ہوئے۔ آپ کا یہ کہنا بھی صحیح کہ آپ سے بہت آگے چلنے والے بہت سے ساتھی آپ سے بھی پیچھے رہ گئے۔ یہ کہنا بھی بجا کہ بہت سے سو گئے، اور ایسے سوئے کہ اب بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ کہنا بھی حق کہ اگر آپ کے ساتھی برابر ساتھ دیتے رہتے تو آپ بہت آگے ہوتے، مگر راہِ حق کے ساتھی! آپ ہی ذرا گردن جھکا کر سوچیے، کیا آپ کی یہ تاویلیں صحیح ہیں؟ کیا آپ اپنے خدا سے اسی وقت وفاداری کریں گے جب دوسرے بھی کریں؟ کیا آپ نے اپنے خدا سے اس شرط کے ساتھ عہد کیا تھا کہ دوسرے تیرے دین کو سربلند کریں گے تو میں بھی مدد کروں گا ورنہ پیچھے ہٹ جائوں گا؟ کیا آپ ان تاویلوں اور بہانوں پر مطمئن ہیں؟ آپ ہی بتایئے اس قافلے کا ہر راہی اگر یہی عذر اور یہی تاویل کرنے لگے تو قافلے کا کیا حشر ہوگا، اور خدا کے اس دین پر کیا بیتے گی جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز ہے۔
دین کی پکار پر لبیک کہنا سب سے بڑی سعادت ہے اور اس راہ میں برابر آگے بڑھتے رہنا اس سعادت کی علامت ہے ، مگر آپ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں بلکہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سعادت سے محروم ہو رہے ہیں اور حیرت ہے کہ آپ کو اپنی اس محرومی کا احساس بھی نہیں۔ آپ کو ذرا پریشانی نہیں کہ آپ اپنے خدا کی نظر سے گر رہے ہیں، اس کی عنایت سے محروم ہو رہے ہیں، آپ کا سینہ خدمت ِ دین کے اُن ولولوں اور حوصلوں سے خالی ہوتا جارہا ہے جو آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ کبھی آپ کو دیکھ کر لوگ زندگی کی تڑپ محسوس کرتے تھے۔ اب وہ آپ کو یاد دہانی کرا رہے ہیں۔ بے شک دنیا کو آپ نے اپنا مقصد نہیں بنایا ہے لیکن آپ کو احساس نہیں، اس مکار بڑھیا نے نہایت چالاکی سے آپ کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ دین کا دامن بھی آپ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا بھی آپ کے قدموں میں ہے، لیکن آپ دھوکے میں ہیں۔ آپ دین کی راہ میں بہت آگے بڑھ کر بہت پیچھے ہٹ آئے ہیں ، اور اگر آپ اس احساس سے بھی محروم ہیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہے، ایسا سانحہ جو آپ کی موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے، اور اس پر اگر خون کے آنسو بہائے جائیں تب بھی غم ہلکا نہ ہوگا۔
نفس کو ڈھیل نہ دیجیے، یہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کا کڑا محاسبہ کیجیے۔ انصاف اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنے عزائم اور حوصلوں پر نگاہ ڈالیے، اپنے ارادوں کا جائزہ لیجیے۔ اپنی تمنائوں اور آرزوئوں پر احتساب کی نظر ڈالیے، اپنی تنہائی کی دُعائوں کو سننے کی کوشش کیجیے۔ آپ اپنے خدا سے کیا چاہتے تھے، اور اب کیا چاہ رہے ہیں۔ آپ کی تمنائیں کیا تھیں، اور اب کیا ہیں۔ آپ کی شب و روز کی دوڑ دھوپ کن کاموں کے لیے تھی، اور اب کن مقاصد کے لیے ہے۔ آپ کن آرزوئوں میں مگن تھے، اور اب کیا خواب دیکھ رہے ہیں۔
مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنا پورا سبق بھولتے جارہے ہیں۔ کل تک جن قدروں کے لیے آپ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے، آج وہ آپ کی نظر میں بے وزن ہوتی جارہی ہیں۔ کل تک جن بُرائیوں کو دیکھ کر آپ کی پیشانی پر غضب کی شکنیں نمودار ہوجاتی تھیں، آج آپ انھی بُرائیوں سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ کل تک جن منکرات کو آپ مٹانے کے لیے سینہ سپر تھے، آج وہی منکرات دانستہ یانادانستہ آپ کے وجود سے قائم ہو رہے ہیں، اور آپ نہایت سادہ لوحی کے ساتھ حالات کی رَو میں بے اختیار بہے چلے جارہے ہیں۔
کل آپ کو خدا کے حضور کھڑا ہونا ہے، اُس خدا کے حضور جس سے آپ نے عہد کیا تھا، اور اس یقین کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وفادار غلاموں کی کارگزاریوں سے کسی لمحے غافل نہیں ہوتا، نہ اُسے اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ وہ اپنے بندوں کی محنت و جانفشانی کی قدر کرتا ہے اور کبھی کسی مستحق کو محروم نہیں کرتا۔ اس خدا کے حضور کل آپ کھڑے ہوں گے، اور وہ آپ سے کہہ رہا ہوگا: میرے بندے! میں نے تجھے دین حق کا شعور دیا تھا، تیرا ہاتھ پکڑ کر خدمت ِ دین کی راہ پر لگا دیا تھا، تجھے توفیق دی تھی کہ میرے نیک بندوں کے ساتھ میرے دین کو سربلند کرنے میں لگ جائے۔ پھر تجھے کیا ہوا تو اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر کہاں بھاگ گیا؟
کیا آپ خدا کو یہ جواب دیں گے کہ پروردگار! میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو مضمحل دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے اس لیے تیرے دین کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیاکہ دوسروں کو بھی میں نے یہی کرتے دیکھا۔ میں نے اس لیے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا کہ دوسرے بے وفا ثابت ہورہے تھے۔ میرے جذبات اور ولولے اس لیے سرد پڑ گئے تھے کہ دوسروں کو مَیں نے ٹھنڈا دیکھا۔ میں سب کچھ جاننے کے بعد اس لیے پیچھے پلٹ گیا، کہ مجھ سے زیادہ جاننے والے پیچھے پلٹتے ہوئے نظر آرہے تھے۔
اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھیں بند ہوں، خدارا آنکھیں کھولیے اور اپنے رویے پر غور کیجیے، اپنے خدا سے کیے ہوئے عہد کو تازہ کیجیے۔ کوئی عہد پورا کرے یا نہ کرے، آپ اپنا عہد پورا کرنے کا عزم کیجیے۔ کوئی اس راہ میں بڑھتا نظر آئے یا نہ آئے، آپ آگے بڑھیے۔ آپ نے معاملہ خدا سے کیا ہے، کسی بندے سے نہیں کیا ہے ، اور جب دین کے کچھ خادم مضمحل ہوتے نظر آئیں تو آپ اپنے حوصلے اور بلند کردیجیے۔ جب کچھ لوگ جی چھوڑتے محسوس ہوں تو اپنا جوش و ولولہ اور بڑھا دیجیے، اور جب سب بھاگتے نظر آئیں تو آپ اپنے قدم اور جما دیجیے۔ دوسروں سے آپ جو کچھ توقعات رکھتے ہوں وہ خود پوری کردکھایئے۔ دوسروں کا شکوہ نہ کیجیے اپنے عمل سے انھیں شرم دلایئے، اور کوئی ساتھ نہ دے تو اپنے خدا سے بے پایاں اجر لینے کے لیے اپنی رفتار کو اور تیز کردیجیے ؎
نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی
حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی
(اگر نغمے کی لذت سرد پڑتی نظر آئے تو ساز کو زور زور سے بجا، اگر ناقے کی پشت پر کجاوہ بھاری ہو اور ناقے کی رفتار سُست ہوجائے تو حدی کے ترانے تیز کردے۔)
بے شک آپ پابندی سے نماز پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوٰۃ کا بھی اہتمام کرتے ہیں، استطاعت ہو تو حج کو بھی جاتے ہیں، آپ اسلامی وضع قطع کے بھی پابند ہیں، حلال و حرام کی تمیز میں بھی نہایت حساس ہیں، آپ تقویٰ و طہارت کے لوازم کا بھی التزام کرتے ہیں اور نوافل و اذکار، صدقہ و خیرات کا بھی زیادہ سے زیادہ خیال رکھتے ہیں، اس لیے کہ آپ کو اپنے مسلمان ہونے کا احساس ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس احساس میں آپ تنہا بھی نہیں ہیں، آپ کی طرح شریعت کے احکام و آداب کی اتباع اور پیروی کرنے والے اُمت میں ہزاروں نہیں لاکھوں ہیں، اور اگر مَیں یہ دعویٰ کروں تو اس کی تردید نہیں کی جاسکتی کہ اپنی عبرت ناک پستی کے باوجود آج بھی مسلمان مذہب کی پیروی اور عبادات سے شغف میں ہر مذہب کے پیروئوں سے آگے ہیں۔ اُمت مسلمہ میں لاکھوں افراد اب بھی موجود ہیں جن کی زندگیاں قابلِ رشک حد تک خداترسی اور فرض شناسی کا نمونہ ہیں، جن کی سیرت اور کردار آئینے کی طرح صاف ہے، جن کا تقویٰ ہر شبہے سے بالا ہے، اور جن پر سوسائٹی اعتماد کرتی ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی مذہبی گروہ ان کی ٹکر کے انسان پیش کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا۔
یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان تعداد کے اعتبار سے بھی دنیا میں دوسری عظیم اکثریت ہیں۔ ان کے پاس ہر طرح کے وسائل و ذرائع بھی ہیں۔ ان کے پاس کوئلہ بھی ہے، پٹرول بھی ہے، لوہا بھی ہے، سونا بھی ہے، یہ دولت مند بھی ہیں اور دنیا کے کتنے ہی حصوں میں ان کی اپنی حکومتیں بھی ہیں۔
مگر تلخ سہی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس مذہبی تقدس اور دولت و حکومت کے باوجود سب سے زیادہ ذلیل و خوار اور بے وزن یہی مسلمان قوم ہے، نہ ان کی اپنی کوئی راے ہے ، نہ کوئی منصوبہ، نہ ان کا کوئی وقار ہے اور نہ کوئی اعتبار۔ انفرادی حیثیت سے ان میں یقینا لاکھوں ایسے ہیں جن پر انسانیت فخر کرسکتی ہے، لیکن اجتماعی حیثیت سے دنیا میں ان کا کوئی مقام نہیں ہے۔
آپ اسی اُمت کے ایک فرد ہیں۔ آپ کا مستقبل اُمت کے مستقبل سے وابستہ ہے۔ کیا آپ کو یہ احساس پریشان کرتا ہے کہ اُمت کو اس ذلت سے نکالا جائے اور اس کو عظمت ِ رفتہ حاصل کرنے کے لیے پھر سے بے تاب کردیا جائے؟
کبھی آپ نے غور کیا کہ اس بے قدری اور ذلت کی وجہ کیا ہے؟ اصل بات یہ ہے کہ اُمت نے اپنا وہ فرض بھلا دیا ہے، جس کے لیے خدا نے اس کو پیدا کیا تھا۔ اُمت ِ مسلمہ عام اُمتوں کی طرح کوئی خود رو اُمت نہیں ہے۔ اس کو خدا نے ایک خاص منصوبے کے تحت ایک عظیم مقصد کے لیے پیدا کیا ہے۔ خدا نے اس کی زندگی کا وہی مشن قرار دیا ہے جو اپنے اپنے دور میں خدا کے پیغمبروں کا مشن رہا ہے۔ نبوت کا سلسلہ نبی اُمیؐ پر ختم ہوگیا۔ آپؐ کے بعد اب کوئی نبی نہیں آئے گا___ خدا کے بندوں تک خدا کا دین پہنچانے کا کام اب رہتی دنیا تک اسی اُمت کو انجام دینا ہے۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے، اسی کی خاطر خدا نے اسے ایک اُمت بن کر رہنے کی تاکید کی ہے، اور اسی فرض کی ادایگی سے اس کی تقدیر وابستہ ہے۔ خدا کا ارشاد ہے: وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ (اٰلِ عمرٰن ۳:۱۰۴) ، یعنی’’تم کو ایک ایسی اُمت بن کر رہنا چاہیے جو خیر کی طرف لوگوں کو دعوت دے‘‘۔
خیر سے مراد ہر وہ نیکی اور بھلائی ہے جس کو نوعِ انسانی نے ہمیشہ نیکی اور بھلائی سمجھا ہے، اور خدا کی وحی نے بھی اس کو نیکی اور بھلائی قرار دیا ہے۔ الخیر سے مراد وہ ساری نیکیاں ہیں جن کے مجموعے کا نام دین ہے، اور جو ہمیشہ خدا کے پیغمبر ؑ خدا کے بندوں تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اُمت کا کام یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو کسی امتیاز کے بغیر اس دین کی دعوت دے، اور اُسی سوز اور تڑپ کے ساتھ دعوت کا کام کرے جس طرح خدا کے پیغمبروں ؑ نے کیا ہے، اس لیے کہ وہی مشن خدا نے اس اُمت کے سپرد کیا ہے۔
اُمت کی زندگی میں دعوتِ دین کے کام کی وہی حیثیت ہے جو انسانی جسم میں دل کی حیثیت ہے۔ انسانی جسم اسی وقت تک کارآمد ہے جب تک اس کے اندر دھڑکنے والا دل موجود ہو۔ اگر یہ دل دھڑکنا بند کردے تو پھر انسانی جسم، انسانی جسم نہیں ہے مٹی کا ڈھیر ہے۔ اس لیے کہ جسم کو صالح خون پہنچانے والا اور اس کو زندہ رکھنے والا دل ہے۔
ٹھیک یہی حیثیت دعوتِ دین کی بھی ہے۔ اگر اُمت یہ کام سرگرمی سے انجام دے رہی ہے، خدا کے منصوبے اور منشا کے مطابق اُمت میں صالح عناصر کا اضافہ ہو رہا ہے،اور غیرصالح عنصر چھٹ رہا ہے، نیکیاں پنپ رہی ہیں اور بُرائیاں دم توڑ رہی ہیں تو اُمت زندہ ہے اور عظمت و عزت اور وقار و سربلندی اس کی تقدیر ہے، لیکن اُمت اگر اس فرض سے غافل ہوجائے، دینِ حق کے کام کا اسے احساس ہی نہ رہے تو وہ زندگی سے محروم ہے___ اور مُردہ ملّت بھلا عزت و عظمت کا مقام کیسے پاسکتی ہے۔
خدا کے نزدیک بھی اُمت کی تمام تر اہمیت اسی وقت ہے جب وہ اس منصب کے تقاضے پورے کرے جس پر خدا نے اسے سرفراز فرمایا ہے۔ اگر وہ اس منصب ہی کو فراموش کردے اور اسے احساس ہی نہ رہے کہ خدا نے مجھے کس کام کے لیے پیدا کیا ہے، تو پھر خدا کو اس کی کیا پروا کہ کون اسے پیروں میں روند رہا ہے، اور کون اس کی عزت سے کھیل رہا ہے۔(شعورِ حیات، ص ۱۳-۱۵)
دولت، جایداد، عیش و آرام کے اسباب و وسائل، سکون اور سہولت کے سامان، اللہ کی نعمتیں ہیں۔ ہر دور میں انسان نے ان نعمتوں کو حاصل کرنے اور ان سے لذّت اندوز ہونے اور لذت اندوز رہنے کی کوشش و کاوش کی ہے اور اللہ نے اپنی حکمت و مشیّت کے تحت جس کو جس قدر چاہا نوازا ہے۔ ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش کے بارے میں کون کہہ سکتا ہے کہ غلط اور ناپسندیدہ ہے، مگر دورِحاضر میں ان نعمتوں کے حصول کی فکروکاوش نے ہوس اور حرص کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اور یہ ہوس ہر انسان پر اس طرح چھائی ہوئی نظر آتی ہے کہ قناعت کا مفہوم سمجھنا اور سمجھانا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ فضائلِ اخلاق کی فہرست میں قناعت کا عنوان تو ضرور مل سکتا ہے لیکن انسانی زندگی میںقناعت کا مصداق ملنا بہت دشوار ہوگیا ہے۔
کسی مجلس میں اس ہوس اور حرص و لالچ کا ذکر چھڑ جائے تو شاید کوئی ایک سنجیدہ انسان بھی ایسا نہ ملے جو اس سے نفرت اور بے زاری کا اظہار نہ کرے، لیکن عملاً کچھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دور کے ہر انسان کا نصب العین شعوری یا لاشعوری طور پر یہی ہے کہ وہ جلد سے جلد دولت مند بن جائے اور اس کا محل دوسروں کے محل سے اُونچا نظر آئے۔
ہر ایک اسی فکر اور دُھن میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹ لے، آرام و آسایش اور عیش و عشرت کے زیادہ سے زیادہ وسائل فراہم کرے، آرایش و نمایش کی چیزوں سے اپنے دولت کدے کو سجا لے، تاکہ اپنے عزیز و اقارب اور حلقۂ احباب میں اپنی فوقیت اور عظمت کا سکّہ بٹھا سکے، محفل میں بیٹھ کر لاکھوں کی بات کرسکے اور ان اسباب و وسائل کا تذکرہ کرسکے جن کا ہونا آج زندگی کی قدروعظمت کا معیار بن چکا ہے۔ بہترین لباس، بہترین سواری، شان دار کوٹھی، اور اسباب زینت و آرایش سے دوسروں کو مرعوب کرنا اور اپنی فوقیت جتانا آج کا عام رجحان اور عام اندازِ فکر ہوگیا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ جن لوگوں کو انسانیت کی اصل قدروں کا شعور ہے، جو آخرت کی ترجیح کی باتیں کرتے نظر آتے ہیں اور جو عام رجحان پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اس فکرِبد پر غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں، وہ بھی عمل اورسماج کی زندگی میں انسان کو انھی پیمانوں سے ناپتے اوراس کے مطابق انسان کا مقام متعین کرتے اور انسانوں سے معاملہ کرتے ہیں۔
غرض پورا سماج دولت کی ہوس میں بے تحاشا دوڑ رہا ہے۔ ہر ایک کو دولت کی ہوس نے دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ہرشخص اس فکر میں سوتا ہے کہ شب میں کوئی سہانا خواب دیکھے اور صبح کو جب اُٹھے توو ہ کروڑوں کا مالک ہو۔ لمحوں میں دولت مند بن جانے کی ہوس شاید اسی دور کی خصوصی فکر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خدا کا یہ نائب شاید زمین پر اسی لیے بھیجا گیا ہے۔ وہ کائنات کا علم بھی اس لیے حاصل کرتا ہے کہ کائنات کی دولت کو قبضے میں لے آئے اور عیش کے سارے سامان فراہم کر کے دادِ عیش دینے میں لگا رہے۔ سوسائٹی کا ہر فرد، الا ماشاء اللہ اس خبط میں مبتلا ہے کہ وہ زندگی کے ان گنے چُنے دنوں میں جس قدر دولت سمیٹ سکے سمیٹ لے، اس کے سوا زندگی کا اور کوئی مقصد نہیں ہے۔ یہی انسان کی معراج ہے۔ یہی قدروعظمت کی علامت ہے اور یہی انسان کی فکروصلاحیت اور توانائیوں کا مقصد و محور ہے۔
آپ کسی سے تعلق جوڑ رہے ہوں یا کسی سے تعلق توڑ رہے ہوں، بیٹی یا بیٹے کا رشتہ کررہے ہوں، یا رشتے سے انکار کر رہے ہوں، یا سماج میں سماجی تعلق رکھنے اور جوڑنے کا سوال ہو، اولین چیز جو تعلق جوڑنے اور کسی سے قریب ہونے میں فیصلہ کن بنتی ہے وہ دنیا اور دنیا کی دولت ہے۔ رشتہ قائم کرتے وقت جو سوالات ذہن کے اُفق پر قدرتی انداز میں اُبھرتے ہیں وہ کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں: دولت و ثروت کا کیا حال ہے؟ بزنس کیسا ہے؟ عہدہ کیا ہے؟ آمدنی کس قدر ہے؟ جاگیر، جایداد اور رہن سہن کا معیار کیسا ہے؟
ان سوالات کی زبردست یلغار میں اول تو دین و اخلاق کا سوال سامنے ہی نہیں آتا اور اگر کبھی سوال اُبھرتا ہے تو دین و اخلاق کی قلیل سے قلیل مقدار کا محض تصور بھی اطمینانِ قلب کا سامان بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ فیصلہ کُن قدر مال و دولت کی فراوانی ہے نہ کہ دین و ایمان۔ اس کے برخلاف اگر ایمان و اخلاق کا اعلیٰ معیار بھی میسر آئے، لیکن غربت و افلاس اور دنیوی خستہ حالی کی تلافی، ایمان و اخلاق سے نہیں ہوپاتی، خواہ ایمان و اخلاق کا معیار جس قدر بھی بلند ہو۔
اُمت کی پستی اور ذلت و خواری کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ سوسائٹی میں ایمان و اخلاق کی ناقدری عام ہے اور قدرومنزلت کا معیار دولت و ثروت ہے۔ اللہ کے رسول صادق و امین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مسلمانوں کی سوسائٹی میں دین و اخلاق کی قدروقیمت ختم ہوجائے تو زمین میں فتنہ وفساد پھیل جائے گا۔ آج ہمارا معاشرہ اسی مصیبت اور خواری میں مبتلا ہے۔
کسی اور کے ساتھ آپ انصاف کرسکیں یا نہ کرسکیں، کسی اور کے لیے سنجیدہ ہوسکیں یانہ ہوسکیں، کم از کم اپنے ہی ساتھ انصاف کیجیے اور اپنے معاملے پر ہی سنجیدگی سے غور کیجیے۔ اللہ نے آپ کو بیٹے بھی دیے ہیںاور بیٹیاں بھی۔ دنیا کی سوسائٹی میں آپ کو بیٹوں کی شادیاں بھی کرنی ہیں اور بیٹیوں کی بھی۔ پیغام دیتے وقت اور پیغام قبول کرتے وقت کیا آپ کے سامنے دین و اخلاق کا سوال رہتا ہے؟ آپ کے حلقۂ احباب میں تعلق کی بنیاد کیا ہے؟ لڑکی کا پیغام قبول کرنا ہو یا لڑکے کا پیغام دینا ہو؟ کیا آپ کا معیار دین و ایمان رہتا ہے، یا محض دولت و ثروت؟
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو ایک معیار دیا ہے۔ اگر یہ معیار آپ کے سامنے رہتا ہے اور سوسائٹی اس معیار کو معیار قرار دیتی ہے تو یہ اُمت کبھی ذلّت و خواری کا شکار نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ اُمت اگر رسول پاکؐ کے دیے ہوئے معیار کو معیار قرار نہیں دیتی۔ اس معیارِ قدرومنزلت کو ٹھکرا کر اپنے ذہن و فکر کے معیار پر اپنی سوسائٹی اور خاندان کی تعمیر کرتی ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اور دولت و جایداد، اور دنیوی عروج کی کوئی قوت اس کو ذلت ورسوائی اور فتنہ وفساد سے نہیں بچاسکتی۔ اللہ کے رسولؐ صادق و امین نے فرمایا ہے:
اِذَا خَطَبَ اِلَیْکُمْ مَن تَرْضَوْنَ دِیْنَـہٗ وَخُلُقَہٗ فَزَوِّجُوْہٗ اِنْ لَّا تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ (ترمذی، عن ابی ہریرہؓ) جب تمھارے یہاں کسی ایسے شخص کا پیغام آئے جس کے دین و اخلاق سے تم مطمئن ہو تو (بلاتاخیر) اس سے اپنی دوشیزہ کا نکاح کردو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ پھیل جائے گا اور بہت بڑا فساد برپا ہوجائے گا۔
اسی طرح آپؐ نے لڑکی کے انتخاب کے بارے میں ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
تُنْکَحُ الْمَرْئَ ۃُ لِاَرْبَعِ لِمَالِھَا وَلِحَسْبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْـنِھَا فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ (بخاری، مسلم، عن ابی ہریرہؓ)، عورت سے شادی چار بنیادوں پر کی جاتی ہے: مال و دولت کی وجہ سے، حسب و نسب کی وجہ سے، حُسن و جمال کی وجہ سے اور دین کی وجہ سے، تو تم دین دار خاتون کو حاصل کرو، تمھارا بھلا ہو۔
اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ دین میں مال ودولت، حسب و نسب اور حُسن و جمال کی کوئی حیثیت اور مقام ہی نہیں ہے۔ یقینا ان چیزوں کا پاس و لحاظ بھی رکھنا ہے اور یہ بھی خدا کی نعمتیں ہیں، نہ ان سے صرفِ نظر کی بات کہی جارہی ہے اور نہ ان کی ناقدری کوئی دانش مندی کی بات ہے۔ دنیا میں تعلق جوڑنے اور سماج میں رہنے، یا رشتہ قبول کرنے نہ کرنے میں ان نعمتوں کو نظرانداز کرنا اور ان کی تحقیر و تذلیل کرنا ہرگز درست نہیں۔ بات جو کہی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ یہی زندگی کا محور و مرکز نہ بن جائیں۔ اصل فیصلہ کن چیز دین و ایمان ہے، زندگی کا مقصود اور نصب العین، دین و اخلاق ہو اور دین و اخلاق کو بنیاد بنا کر زندگی کی تعمیر کی جائے۔ اس بنیاد کے ساتھ دنیا کی جو نعمتیں بھی میسر آجائیں وہ خدا کا انعام و اکرام ہے اور ان کو اللہ کا انعام و اکرام سمجھ کر ہی شکرگزاری کے گہرے جذبات کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔ لیکن دین وایمان سے محروم ہوکر جو بھی ملے وہ انعام و اکرام نہیں بلکہ خدا کا عذاب ہے، اس سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول یہ تھا کہ رمضان آنے سے پہلے آپؐ رمضان کے استقبال کے لیے لوگوں کے ذہن تیار کرتے تھے، تاکہ رمضان سے خاطر خواہ فائدہ اُٹھا سکیں۔ احادیث میں ایسے خطبوں کا تذکرہ آتا ہے، جو خاص اس مقصد کے لیے آپؐ نے رمضان کی آمد سے پہلے دیے ہیں۔ خاص طور پر وہ خطبہ تو بہت ہی طویل اور مشہور ہے جو شعبان کی آخری تاریخ کو آپؐ نے دیا ہے اور جس کے راوی حضرت سلمان فارسیؓ ہیں۔ اس خطبے میں آپؐ نے یہ خوش خبری دیتے ہوئے کہ تم لوگوں پر جلد ہی ایک عظیم مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے، اس مہینے کی عظمت اور فضیلت کے مختلف پہلو پیش فرمائے۔ اس میں روزے کے فیوض و برکات کا ذکر فرمایا اور اس طرح ذہنوں کو تیار کیا کہ اس سنہری موقع سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان پورے ذوق و شوق اور یکسوئی کے ساتھ کمربستہ ہوجائے۔
رمضان سے پوری طرح مستفیض ہونے اور اس کی خیروبرکت کا واقعی مستحق ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس سے استفادے کے لیے ذہن و فکر اور قلب و روح کو پوری طرح تیار کرے۔
مسلم میں انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں سفر کر رہا تھا، اُونٹ پر اس کے کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ ایک جگہ وہ سَستانے کے لیے رُکا، اتفاق سے اس کی آنکھ لگ گئی۔ آنکھ جب کھلی تو اُونٹ غائب ہے۔ وہ اِدھر اُدھر دوڑا، اُونٹ کو تلاش کیا، مگر اُونٹ کا کچھ پتا نہ چلا۔ اب وہ زندگی سے مایوس ہوگیا، کہ اس بے آب و گیاہ ریگستان میں اس کا کھانا پینا سب کچھ اُونٹ پر لدا ہوا تھا اور اُونٹ غائب ہے۔ وہ زندگی سے مایوس ہوگیا تھا۔ پھر اس کی آنکھ لگ گئی۔ اب جو آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اُونٹ سامنے کھڑا ہے۔ اس نے اُونٹ کی لگام پکڑی اور خوشی کی انتہائی مدہوشی میں کہتا ہے: اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب! خوشی کی انتہا میں اُلٹا کہہ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جب اس کا بھٹکا ہوا بندہ توبہ کے ذریعے واپس ملتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس اُونٹ والے بندے سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے۔
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o (الزمر ۳۹:۵۳) (اے نبیؐ!) کہہ دیجیے، اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتیاں کی ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ اللہ تمھارے تمام گناہوں کو معاف فرما دے گا۔ وہ بڑا ہی معاف کرنے والا اور انتہائی رحم فرمانے والا ہے۔
اللہ تو کہے کہ میں سارے ہی گناہ معاف کر دوں گا اور بندہ کچھ ہی گناہ معاف کرانے کا معاملہ کرے تو یہ درحقیقت قلب کی صفائی کا وہ معاملہ نہیں ہے جو مطلوب ہے۔
توبہ کی تین شرطیں ہیں اور اگر بندے نے کسی انسان کا حق مارا ہے اور کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو پھر چار شرطیں ہیں:
توبہ کے بعد ہی آدمی اس لائق بنتا ہے کہ وہ رمضان کا شایانِ شان استقبال کرسکے اور اس حال میں رمضان کا آغاز کرے کہ وہ فی الواقع رمضان سے استفادے کے لائق ہو۔ آپ کسی زمین میں اگر لہلہاتی کھیتی اور رنگارنگ مہکتے پھول کھلے دیکھنا چاہتے ہیں تو بیج ڈالنے سے پہلے زمین کے جھاڑ جھنکاڑ صاف کرنا، اینٹ روڑے نکال باہر کرنا اور زمین کو پہلے نرم کرنا ضروری ہے۔ آپ سنگلاخ زمین میں یا جھاڑ جھنکاڑ سے ڈھکی ہوئی زمین میں لہلہاتی کھیتی اور مہکتے پھول دیکھنے کی توقع پوری نہیں کرسکتے۔ اگر واقعی یہ سنجیدہ خواہش ہے کہ دل کی سرزمین میں نیکیوں کی بہار آئے تو دل کی سرزمین کو پہلے گناہوں اور خدا کی نافرمانیوں سے پوری طرح صاف کیجیے، تب ہی توقع کیجیے کہ اس میں نیکیوں اور بھلائیوں کی بہار آئے گی اور آپ اس بہار سے فیض یاب ہوسکیں گے۔
اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ رمضان کا صحیح صحیح حساب لگانے کے لیے شعبان کی تاریخیں محفوظ رکھنے کا پورا پورا اہتمام کرو۔ آپ نے اُمت کو بھی یہ تاکید فرمائی اور خود بھی آپؐ کا یہی عمل تھا۔ حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کی صحیح تاریخ معلوم کرنے کی خاطر ہلال شعبان معلوم کرنے کا اہتمام رکھو‘‘۔
حضرت عائشہؓ کی شہادت ہے کہ آپؐ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے کی تاریخوں کو یاد رکھنے کا اتنا اہتمام فرماتے تھے، کہ کسی اور مہینے کا اتنا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔ پھر جب چاند نظر آجاتا تو روزہ رکھنے لگتے اور اگر بدلی چھائی رہتی تو پھر شعبان کے ۳۰ دن پورے کرتے‘‘۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ (البقرہ ۲:۱۸۳) اے ایمان والو! روزہ تم پر فرض کر دیا گیا جس طرح ان اُمتوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے ہوگزری ہیں۔
کُتِبَ کے معنی ہیں لکھ دیا گیا۔ یہ لفظ فرض کر دینے کے معنی میں آتا ہے۔ یہ خطاب آپ ہی سے ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ ایمان والے ہیں۔ روزہ ایمان والوں پر ہی فرض کیا گیا ہے اور ان کے ایمان کا تقاضا ہے کہ وہ اس فرض کا پورا پورا حق ادا کریں۔ پھر یہ روزہ صرف محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہی پر فرض نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کے فرمان کے بموجب پچھلی اُمتوں پر بھی فرض رہا ہے اور کسی اُمت کا نظامِ عبادت روزے سے خالی نہیں رہا ہے۔ قرآن کے اس اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ انسان کی تربیت کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ہر اُمت کے نظامِ عبادت میں روزہ لازماً شامل رہا ہے۔
روزے کا مقصود کیا ہے؟ اس کو بھی قرآن نے اسی آیت میں بیان کر دیا ہے: لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o (البقرہ ۲:۲۱) ’’تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو‘‘۔ گویا کہ روزہ تقویٰ پیدا کرنے کا ناگزیر ذریعہ ہے۔
تقویٰ یہ ہے کہ آدمی حرام چیزوں سے نہ صرف اجتناب کرے بلکہ بیزاری دکھائے، اور حلال چیزوں کو نہ صرف اختیار کرے بلکہ جائز اور حلال چیزوں کا حریص ہو۔ خدا کی عبادت، اطاعت اور فرماں برداری میں اسے لذت محسوس ہو، اور خدا کی نافرمانی اور منکرات سے اس کا اندرون بیزار اور متنفر ہو۔ یہ کیفیت اور یہ جوہرِ ایمان پیدا کرنے میں روزہ اس قدر مؤثر اور کامیاب ہے کہ کوئی بھی دوسری عبادت اس کا بدل نہیں بن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کی شہادت کے مطابق روزہ ہر اُمت کے نظامِ عبادت میں لازمی جز کی حیثیت سے شامل رہا ہے۔
اِنَّآ اَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ o (القدر۹۷:۱) ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے۔
لیلۃ القدر یقینا رمضان المبارک ہی کی ایک رات ہے۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی اس کی شہادت دیتا ہے۔ اس لیے کہ دوسری جگہ خود قرآن ہی میں ارشاد ہے کہ ہم نے قرآن کو رمضان میں نازل کیا ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْٰانُ (البقرہ ۲:۱۸۵) رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ یہ ارشادات قطعی شہادت ہیں، اس حقیقت کے کہ قرآن رمضان کے مہینے میں نازل ہوا۔
ایک اہم مناسبت قرآن اور رمضان میں یہ بھی ہے کہ روزہ آدمی میں جوہرِ تقویٰ پیدا کرتا ہے۔ یہی جوہرِ تقویٰ انسان کو اس لائق بناتا ہے کہ وہ قرآن پاک سے ہدایت پائے۔ ارشاد ہے: ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ o (البقرہ ۲:۲)’’یہ ہدایت ہے متقیوں کے لیے‘‘۔
عیدالاضحی میں دنیا بھر کے مسلمان اللہ کے حضور اپنے جانوروں کی قربانی کرکے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہیں۔ ایک بار صحابہ کرامؓ نے اسی کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! یہ قربانی کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: یہ تمھارے باپ ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت ہے۔ (ابن ماجہ، ابواب الاضحی، باب ۳)
بے شک ہر سال مسلمانانِ عالم کروڑوں جانوروں کی قربانی کرکے جاں نثاری اور فدائیت کے اس بے نظیر واقعے کی یاد تازہ کرتے ہیں جو آج سے تقریباً سوا پانچ ہزار سال پہلے عرب کی سرزمین میں اللہ کے گھر کے پاس پیش آیا تھا--- کیسا رقت انگیز اور ایمان افروز ہوگا وہ منظر جب ایک بوڑھے اور شفیق باپ نے اپنے نوخیز لختِ جگر سے کہا: یٰـبُـنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰیط (الصافات ۳۷: ۱۰۲) ’’پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتا تیری کیا راے ہے؟‘‘ اور لائق فرزند نے بے تامل کہا: یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ (الصافات ۳۷: ۱۰۲) ’’اباجان! آپ کو جو حکم دیا جا رہا ہے اسے کرڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے‘‘۔ اور پھر اخلاص و وفا کے اس پیکر نے خوشی خوشی اپنی معصوم گردن زمین پر اس لیے ڈال دی کہ اللہ کی رضا اور تعمیلِ حکم کے لیے اس پر تیز چھری پھیر دی جائے، اور ایک ضعیف اور رحم دل باپ نے اپنے محبوب لختِ جگر کے سینے پر گھٹنا ٹیک کر اس کی معصوم گردن پر اس لیے تیز چھری پھیر دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس کے رب کی مرضی اور حکم یہی ہے۔
اطاعت و فرماں برداری کا یہ بے نظیر منظر دیکھ کر رحمت خداوندی جوش میں آگئی اور ندا آئی: وَنَادَیْنٰہُ اَنْ یّٰا۔ِٓبْرٰھِیْمُ o قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا اِِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ o اِِنَّ ہٰذَا لَھُوَ الْبَلٰٓؤُا الْمُبِیْنُ o (الصافات ۳۷: ۱۰۴-۱۰۶) ’’اور ہم نے انھیں ندا دی کہ اے ابراہیم ؑ! تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا، ہم وفادار بندوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقینا یہ ایک کھلی آزمایش تھی‘‘۔ اس وقت ایک فرشتے نے ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ایک مینڈھا پیش کیا کہ وہ اس کے گلے پر چھری پھیر کر جاں نثاری اور وفاداری کے جذبات کی تسکین کریں، اور اللہ نے رہتی دنیا تک یہ سنت جاری کر دی کہ دنیا بھر کے مسلمان ہر سال اسی دن جانوروں کے گلے پر چھری پھیر کر اس بے نظیر قربانی کی یاد تازہ کریں۔
وَفَدَیْنٰہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ o (الصافات ۳۷: ۱۰۷) اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس (نوعمر بچے) کو چھڑا لیا۔
بڑی قربانی سے مراد قربانی کی یہی سنت ہے جس کا اہتمام ہر سال اسی دن مسلمانانِ عالم دنیا کے گوشے گوشے میں کرتے ہیں اور لاکھوں مسلمان تو مکہ کی اس سرزمین پر اس سنت کو تازہ کرتے ہیں جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نہ تو اس قربانی کا یکایک مطالبہ کیا گیا تھا اور نہ وہ یکایک اس عظیم قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے بلکہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں کی یادگار ہے۔ حیاتِ ابراہیم ؑکو اگر قربانی کی تفسیر کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا۔ اللہ کی راہ میں قربانی دینے کا مفہوم اگر آپ جاننا چاہیں تو ضروری ہے کہ آپ ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو پڑھیں۔ اللہ کی خاطر آپ ماں باپ کی شفقتوں سے محروم ہوئے، ان کی دولت اور آسایش سے محروم ہوئے، خاندان اور برادری کی حمایت اور سہارے سے محروم ہوئے، خاندانی گدی سے محروم ہوئے، وطنِ عزیز سے نکلنا پڑا۔ اللہ ہی کی خاطر آتشِ نمرود میں بے خطر کود کر آپ نے اللہ کے حضور اپنی جان نذر کر دی، اور اللہ ہی کی رضا اور اطاعت میں آپ نے اپنی محبوب بیوی اور اکلوتے بچے کو ایک بے آب و گیاہ ریگستان میں لاکر ڈال دیا، اور جب یہی بچہ ذرا سنِ شعور کو پہنچ کر کسی لائق ہوا تو حکم ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے اس کے گلے پر چھری پھیر کر دنیا کے ہرسہارے اور تعلق سے کٹ جائو اور مسلم حنیف بن کر اسلام کامل کی تصویر پیش کرو: اِذْ قَالَ لَہٗ رَبُّہٗٓ اَسْلِمْ قَالَ اَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o (البقرہ۲:۱۳۱) ’’جب ان سے ان کے رب نے کہا: مسلم ہوجا تو اس نے بے تامل کہا: میں رب العالمین کا مسلم ہوگیا‘‘۔
اسلام کے معنی ہیں: کامل اطاعت، مکمل سپردگی اور سچی وفاداری۔ قربانی کا یہ بے نظیر عمل وہی کرسکتا ہے جو واقعتا اپنی پوری شخصیت اور پوری زندگی میں اللہ کا مکمل اطاعت گزار ہو، جو زندگی کے ہرمعاملے میں اس کا وفادار ہو اور جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کر دیا ہو۔ اگر آپ کی زندگی گواہی نہیں دے رہی ہے کہ آپ اللہ کے مسلم اور وفادار ہیں اور آپ نے اپنی پوری زندگی اللہ کے حوالے نہیں کی ہے تو آپ محض چند جانوروں کا خون بہا کر ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ نہیں کرسکتے، اور اس عہد میں پورے نہیں اُتر سکتے جو قربانی کرتے وقت آپ اپنے اللہ سے کرتے ہیں۔
دنیا کے مسلمان اس دن جانوروں کا خون بہا کر اللہ سے عہد کرتے ہیں کہ اے رب العالمین! ہم تیرے مسلم ہیں۔ تیری کامل اطاعت ہی ہمارا شیوہ ہے۔ ہم تجھ سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور اپنے بزرگوار اسماعیل کی طرح تیرے حضور اپنی گردن پیش کرتے ہیں۔ پروردگار تو نے ہی قربانی کی یہ سنت جاری کر کے اسماعیل علیہ السلام کی گردن چھڑائی تھی۔ ہم جانوروں کا خون بہا کر اپنی گردن چھڑاتے ہیں مگر ہمارا سب کچھ تیرا ہی ہے، تیرا اشارہ ہوگا تو ہم تیرے دین کی خاطر اپنی گردن کٹانے اور اپنا خون بہانے سے ہرگز دریغ نہ کریں گے۔ ہم تیرے ہیں اور ہمارا سب کچھ تیرا ہے۔ ہم تیرے وفادار اور جاں نثار بندے حضرت ابراہیم ؑاور حضرت اسماعیل ؑ کے پیرو ہیں اور انھی کی عقیدت سے سرشار ہیں۔ قربانی کرتے وقت آپ جو دعا پڑھتے ہیں وہ دراصل وفاداری اور جاں نثاری کے انھی جذبات کا اظہار ہے:
اِنِّیْ وَجَّھْتُ وَجْھِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ o اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ o اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ، میں نے پوری یکسوئی کے ساتھ اپنا رُخ ٹھیک اس اللہ کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ بلاشبہہ میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب رب العالمین کے لیے ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مسلم اور فرماں بردار ہوں۔ خدایا! یہ تیرے ہی حضور پیش ہے اور تیرا ہی دیا ہوا ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرْ ، اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلَہٗ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ عَلَیْھِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ، اللہ کے نام سے اللہ سب سے بڑا ہے۔ اے اللہ! تو اس قربانی کو میری جانب سے قبول فرما جس طرح تو نے اپنے دوست ابراہیم علیہ السلام اور اپنے حبیب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی قبول فرمائی۔ دونوں پر درود و سلام ہو۔
دراصل اسی واقعے کو تازہ کرنا اور انھی جذبات کو دل و دماغ پر حاوی کرنا قربانی کی روح اور اس کا مقصد ہے۔اگر یہ جذبات اور ارادے نہ ہوں، اللہ کی راہ میں قربانی کی آرزو اور خواہش نہ ہو، اللہ کی کامل اطاعت اور سب کچھ اس کے حوالے کردینے کا عزم اور حوصلہ نہ ہو، تو محض جانوروں کا خون بہانا، گوشت کھانا اور تقسیم کرنا قربانی نہیں ہے، بلکہ گوشت کی ایک تقریب ہے جو ہرسال آپ منا لیا کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی سنت کو تازہ کردیا۔ اللہ کو نہ جانوروں کے خون کی ضرورت ہے نہ گوشت کی۔ اس کو تو اخلاص و وفا اور تقویٰ و جاں نثاری کے وہ جذبات مطلوب ہیں جو آپ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ ط (الحج ۲۲:۳۷) ’’اللہ کو نہ ان جانوروں کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ ان کا خون، اسے تو صرف تمھارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔
یہی تقویٰ اور اطاعت و فرماں برداری کا جو ہر قربانی کی روح ہے اور اللہ کے یہاں صرف وہی قربانی شرفِ قبول پاتی ہے جو متقی لوگ اطاعت اور فرماں برداری و جاں نثاری کے جذبات کے ساتھ پیش کرتے ہیں: وَاتْلُ عَلَیْھِمْ نَبَاَابْنَیْ اٰدَمَ بِالْحَقِّ اِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ اَحَدِھِمَا وَ لَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْاٰخَرِط قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَط قَالَ اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَo (المائدہ ۵:۲۷) ’’اور انھیں آدم ؑ کے دو بیٹوں کا قصہ ٹھیک ٹھیک سنا دو۔ جب ان دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قبول نہ کی گئی۔ اس نے کہا: میں تجھے مار ڈالوں گا۔ اس نے جواب دیا: ’’اللہ تو متقیوں ہی کی قربانی قبول کرتا ہے‘‘۔ یعنی تیرے دُنبے کو اگر آسمانی آگ نے نہیں جلایا اور اللہ نے اسے قبول نہیں کیا تو اس میں میرا کیا قصور ہے جو مجھے قتل کی دھمکی دے رہا ہے۔ اپنی اصطلاح کی فکر کر، تیرے اندر ہی کھوٹ ہے، اللہ تو صرف متقی لوگوں کی قربانی ہی قبول کرتا ہے۔
تقویٰ اور اخلاص اور وفاداری و جاں نثاری کے یہ جذبات اس طرح پیدا نہیں ہوتے کہ آپ گاہے گاہے اللہ کو یاد کرلیں اور کچھ ایسے مخصوص اعمال کبھی کبھی کرلیں جو اللہ سے تعلق اور اس کی راہ میں قربانی کی علامات ہیں اور پھر اپنے افکار و خیالات، احساسات و جذبات، اخلاق و معاملات اور اطاعت وفاداری میں آپ آزاد ہیں کہ جو چاہیں سوچیں، جو چاہیں ارادے رکھیں، جو چاہیں کریں اور جس کی اطاعت و فرماں برداری کا چاہیں دم بھریں۔ اللہ سے یہ عہد کرنے کے بعد کہ ’’میں ربّ العالمین کا مسلم ہوں‘‘، اس کی کیا گنجایش ہے کہ ہم دوسرے ازموں اور طریقوں کو اطاعت کے لیے اپنائیں، یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دے کر اپنے لیے جائز اور قابلِ قبول قراردیں اور اپنے من مانے طریقوں کی پیروی کریں۔ کیا جانوروں کا فدیہ دے کر ہم نے اپنی جانوں کو اس لیے چھڑایا ہے کہ ہم اپنی جانوں اور اپنی قوت و صلاحیت کو جہاں چاہیں کھپائیں اور قربان کریں اور اللہ سے یہ اُمید کریں کہ وہ ان جانوروں کے گوشت اور خون کو قبول کرلے گا!
اللہ کا دین آپ کی پوری شخصیت اور آپ کی پوری زندگی چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ آپ اس کی اطاعت کے ساتھ کسی اور کی اطاعت کا جوڑ نہ لگائیں۔ جن برگزیدہ بندوں کی سنت کو آپ تازہ کر رہے ہیں، انھیں دیکھیں کہ وہ کس طرح زندگی کے ہرمعاملے میں مسلم حنیف تھے۔ اللہ سے اسلام اور بندگی کا عہد کرنے والے ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی اسلام کی کیا تصویر پیش کرتی ہے، ان کی زندگی کو آپ بار بار پڑھیں اور ذی الحجہ کے پہلے ۱۰ ایام میں خصوصی اہتمام کے ساتھ پڑھیں اور اپنے دل و دماغ اور شخصیت اور معاشرے پر اُن جذبات اور کیفیات کو طاری کرنے کی کوشش کریں جو اس پاکیزہ زندگی میں آپ کو نظر آئیں، ورنہ قربانی کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ گوشت کھانے اور کھلانے کے لیے آپ ایک جشن منارہے ہیں۔
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ o وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ o وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ o (الزمر ۳۹:۵۳-۵۵) اے رسولؐ! کہہ دیجیے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ رہو، یقینا اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، بے شک وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔ پلٹ آئو، اپنے رب کی طرف اور اطاعت گزار بن جائو اس کے، اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آجائے، پھر کہیں سے تمھاری مدد نہ ہوسکے، اور پیروی کرو، اس بہترین ہدایت کی جو تمھارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اس سے پہلے کہ تم پر اچانک عذاب آجائے اور تمھیں خبر بھی نہ ہو۔
یہ تین آیتیں سورئہ زمر سے منتخب کی گئی ہیں۔ سورئہ زمر کا مرکزی مضمون ہے توحیدِ خالص، دینِ خالص اور بندگیِ خالص۔ اور واقعہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں انسانیت کے سارے مسائل کا حل اور دونوں جہان کی عظمت اور کامرانی کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ بندہ اللہ کے لیے خالص ہوجائے اور صرف اسی کا ہوکر رہے۔
ان تین آیتوں میںسے پہلی آیت خدا کی بندوں کے لیے ان کے رب رحیم کی جانب سے ایک پیغامِ اُمید، نویدِ مسرت اور ایک مژدۂ جانفزا ہے، جو بندے کو وسعتِ رحمت کے تصور اور اللہ سے پُرامیدی کے احساس سے سرشار کر دیتا ہے۔
یہ آیت ایک طرف تو خدا کی شانِ رفعت و عظمت، اس کے بے پایاں عفو و درگزر اور اس کی بے مثال وسعتِ رحمت کا تعارف کراتے ہوئے بندے کو ہمیشہ پُرامید رہنے اور خدا سے کسی حال میں بھی مایوس نہ ہونے کا سبق دیتی ہے، اور دوسری طرف ابلیس لعین کی مکاری، چال بازی اور بندوں کو خدا سے مایوس کرنے والی سازشوں پر ابلیس کا دل ہلا دینے والی کاری ضرب لگاتی ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا کہہ کر آواز دیتا ہے کہ اے میرے بندو! تم نے اپنی جانوں پر جو زیادتی بھی کی ہو، کافر و مشرک ہو یا ملحدو زندیق، قاتل و زانی ہو یا فاسق و فاجر، تم سرکش و باغی ہو یا خدا کے نافرمان، تم گناہوں کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہی کیوں نہ ہو، اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، اللہ کا دَر وہ دَر ہے جس سے کبھی کوئی مایوس نہیں لوٹایا جاتا، وہ ایسا قادرِ مطلق ہے کہ اس کے کیے ہوئے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا۔ روے زمین پر اپنی کارگزاری دکھانے والے سارے انسان اس کے بندے ہیں۔ وہ سب کا خالق ہے اور خالق کے پاس اپنی مخلوق کے لیے بے پناہ پیار بھی ہے اور ان کے لیے بیکراں عفو و رحمت بھی، جب کوئی باغی اور گنہگار بندہ سچے ارادے سے اس کی طرف پلٹتا ہے تو وہ ہرگز اس کو مایوس نہیں کرتا۔
یہ آیت اپنے دل نواز پیغام اور خدا کی شانِ رحمت کے انوکھے اندازِ بیان کی وجہ سے اپنے اندر غیرمعمولی تاثیر رکھتی ہے اور کٹر سے کٹر انسان کے دل کو بھی ایک بار موم بنادیتی ہے اور بندہ بے اختیار اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے مہبط وحی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَا اُحِبُّ اَنَّ لِی الدُّنْیَا وَمَا فِیھَا بِھٰذِہِ الْاَیَـۃِ ’’مجھے اس آیت کے بدلے یہ دنیا اور دنیا کی ساری چیزیں بھی ملیں تو مجھے پسند نہیں‘‘۔ یعنی میری نظر میں اس آیت کے مقابلے میں یہ ساری دنیا اور اس کی تمام متاع قطعاً درخورِ اعتنا نہیں۔ اس ایک آیت کے مقابلے میں یہ سب کچھ ہیچ ہے۔
پھر آیت کا انداز محض تذکیر یا ضابطہ بیان کرنے کا نہیں ہے، بلکہ اللہ نے اپنے رسولؐ کو اس پر مامور فرمایا اور حکم دیا کہ اے نبیؐ! میرا یہ پیغام اور میرا یہ اعلان میرے بندوں تک پہنچا دو اور اس پیار بھرے اسلوب اور انداز میں پہنچا دو کہ اے بندو! تمھارا رب تمھیں خطاب کررہا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اے میرے پیارے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، دیکھو اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو، وہ سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ (اس لیے کہ) یقینا وہ بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور انتہائی مہربان ہے۔
قرآن کی بنیادی تعلیم سے ناآشنا، یا دانستہ خود کو قرآن کی ہدایت سے محروم کرنے والے بعض لوگ جن کی تعداد ناقابلِ التفات ہے، اس آیت کی ترجمانی یوں کرتے ہیں: ’’اے محمدؐ! تم بندگانِ خدا سے کہو: اے میرے بندو! یعنی محمد کے بندو! اللہ کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو‘‘۔ یہ ترجمانی قرآن کی اُس اصل اور بنیادی تعلیم کی نفی ہے جس کے لیے یہ قرآن نازل کیا گیا ہے۔ قرآن کی بنیادی اور جوہری تعلیم یہ ہے کہ سارے انسان صرف ایک ہی خدا کے بندے ہیں، اس کے سوا ہر ایک کی بندگی باطل ہے۔ پیغمبروں کی بعثت کا اصل اور بنیادی مقصد ہی یہ ہے، خدا کا ارشاد ہے:
وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ (النحل ۱۶:۳۶) اور ہم نے ہر اُمت میں ایک رسول اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ اللہ ہی کے بندے بنو اور طاغوت سے بچے رہو۔
یعنی دنیا میں جو رسول بھی بھیجا گیا، اسی غرض سے بھیجا گیا کہ وہ انسانوں کو ایک ہی خدا کی بندگی کی تعلیم دے اور اس کے سوا ہر طاغوت کی بندگی سے بچنے کی ہدایت کرے۔ سب سے آخر میں اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی پیغام کے ساتھ مکّے میں بھیجا۔ آپؐ نے بھی یہی تعلیم دی کہ اے انسانو! ایک اللہ کے بندے بن کر رہو، اور ہر طاغوت کی بندگی سے انکار کرو۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ تصور کرنا، کہ انھوں نے لوگوں کو لات و عزیٰ کا بندہ بننے کے بجاے بندۂ محمدؐ بننے کی دعوت دی، بدترین بہتان ہے۔
توحید کی اس بصیرت افروز آیت سے توحید کے خلاف یہ مفہوم پیدا کرنا، بدترین تحریف ہے، یہ قرآن کی بنیادی تعلیم سے انحراف ہے۔ رسول کریمؐ پر بہتان ہے اور کھلی ہوئی گمراہی ہے۔ پیغمبر یہ بنیادی تعلیم لے کر آتے ہیں کہ انسانوں کو خدا کا بندہ بنائیں، صرف اسی کی بندگی کی راہ پر لگائیں۔ کبھی کسی رسولؐ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ میرے بندے بن جائو۔ یہ رسول کے مشن سے متصادم تعلیم ہے بلکہ وہ تعلیم ہے جس کو مٹانے ہی کے لیے رسول آتے ہیں، اور قرآن کی زبان میں خدا کے سوا کسی اور کا بندہ بننا کفر ہے۔ قرآن کا ارشاد ہے:
مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّؤْتِیَہُ اللّٰہُ الْکِتٰبَ وَ الْحُکْمَ وَ النُّبُوَّۃَ ثُمَّ یَقُوْلَ لِلنَّاسِ کُوْنُوْا عِبَادًا لِّیْ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ لٰکِنْ کُوْنُوْا رَبّٰنِیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُعَلِّمُوْنَ الْکِتٰبَ وَ بِمَا کُنْتُمْ تَدْرُسُوْنَ o وَ لَا یَاْمُرَکُمْ اَنْ تَتَّخِذُوا الْمَلٰٓئِکَۃَ وَالنَّبِیّٖنَ اَرْبَابًا ط اَیَاْمُرُکُمْ بِالْکُفْرِ بَعْدَ اِذْ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ o (اٰل عمرٰن ۳:۷۹-۸۰) کسی انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ تو اس کو کتاب اور حکم اور نبوت عطا فرمائے اور وہ لوگوں سے کہے کہ اللہ کے بجاے تم میرے بندے بن جائو۔ وہ تو یہی کہے گا کہ سچے ربانی بنو جیساکہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو۔ وہ تم سے ہرگز یہ نہ کہے گا کہ فرشتوں کو یا پیغمبروں کو اپنا رب بنا لو۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک نبی تمھیں کفر کا حکم دے جب کہ تم مسلم ہو۔
’ربانی‘ یہودیوں کے یہاں ان علما کو کہتے ہیں جو دینی ذمہ داریوں کے منصب پر فائز ہوتے تھے، ان کا کام یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کی دینی رہنمائی کریں، ان کی عبادت اور دینی مراسم میں قیادت و امامت کریں، احکامِ دین بتائیں اور نافذ کریں۔ عیسائیوں کے یہاں اپنے مذہبی پیشوائوں کے لیے لفظ Divine بھی اسی مفہوم میں ہے۔
ان دونوں آیتوں کا ماحصل یہ ہے کہ رسولؐ اسی مشن پر بھیجے جاتے ہیں کہ انسانوں کو ہرایک کی بندگی سے آزاد کر کے صرف ایک خدا کا بندہ بنائیں۔ بھلا وہ اپنے مقصد بعثت کے خلاف لوگوں سے یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ میرے بندے بن جائو۔ بندگی کا مستحق تو صرف اللہ ہے۔ ہر وہ تعلیم جو اس کے خلاف کسی اور کی بندگی سکھاتی ہو یا کسی انسان اور فرشتے کو بندگی کی حد سے بڑھا کر خدائی کے مقام پر پہنچاتی ہو، اور انسانوں کو کسی انسان یا فرشتے کا بندہ بناتی ہو، سراسر باطل ہے۔ وہ کسی پیغمبر کی تعلیم ہرگز نہیں ہوسکتی، وہ آسمانی ہدایت نہیں، بلکہ وہ تحریف اور آسمانی ہدایت سے انحراف ہے۔
اس آیت میں خوش خبری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سارے گناہ معاف کردیتا ہے تو ہونا یہی چاہیے کہ بندہ سارے گناہوں سے پاک ہونے کے جذبے سے خدا کی طرف پلٹے۔ مگر انسان کا نفس کبھی کبھی اس دھوکے میں مبتلا کردیتا ہے کہ یکایک میں سب گناہوں کو تو نہیں چھوڑ سکتا، دھیرے دھیرے چھوڑوں گا۔ کچھ سے توبہ کرتا ہوں، کچھ معاملات میں بدستور رب کی نافرمانی اور اس کے حکم سے سرکشی کرتا رہوں گا۔ تو درحقیقت یہ وہ توبہ نہیں ہے جو اللہ کو مطلوب ہے، خالص اور مطلوب توبہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بالکلیہ اللہ کے حوالے کردے اور توبہ کے بعد کی زندگی کامل فرماں برداری کی زندگی ہو۔
آگے دو آیتوں میں گناہوں کی معافی کے لیے تین باتوں کی تلقین کی گئی ہے جو یک گونہ شرائط بھی ہیں اور علامات بھی، یعنی اللہ کی طرف رجوع، اس کے حضور خود سپردگی، اور کلام اللہ کی کامل اطاعت و پیروی۔
ایک شخص کا تصور کرو جو کسی لق و دق ریگستان میں اس حال میں سفر کر رہا ہے کہ اس کے کھانے پینے کا سامان اس کی اُونٹنی پر رکھا ہے، اس کی وہ اُونٹنی صحرا میں کھو گئی، اس نے اُونٹنی اِدھر اُدھر تلاش کی مگر نہیں ملی۔ آخرکار وہ مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے سایے میں دراز ہوگیا۔ (کہ اب تو بس موت ہی کا انتظار کرنا ہے) وہ اسی کیفیت میں تھا کہ کیا دیکھتا ہے۔ اُونٹنی اس کے پاس کھڑی ہے، اس نے جھٹ اس کی لگام پکڑ لی اور پھر خوشی کی شدت میں مدہوش ہوکر کہتا ہے:’’اے پروردگار! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں‘‘۔ یعنی خوشی میں ایسا بے خود ہوگیا کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے کچھ نکل رہا ہے۔ جب کوئی بندہ توبہ کر کے خدا کی طرف پلٹتا ہے تو خدا کو اس بندے سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
ہر انسان خدا ہی کا بندہ ہے اور خدا چاہتا ہے کہ میرا بندہ میرے احکام کی پیروی کرے کہ آخرت میں اُسے انعامات سے نوازا جائے۔ لیکن ناشکرا بندہ اپنے رب کی مرضی کے خلاف چل پڑتا ہے اور سرکشی کی روش اختیار کرلیتا ہے، لیکن جب بھی وہ اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے تو ربِ رحیم اپنے بندے کو دھتکارتا نہیں، بلکہ خوش ہوتا ہے اور انتہائی خوش ہوتا ہے کہ میرا بندہ پھر میری طرف پلٹ آیا۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ اسی آیت کے بارے میں کسی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یارسولؐ اللہ! اگر کوئی شرک میں مبتلا ہو تو؟ آپؐ لمحہ بھر کے لیے خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: ہاں، خوب سن لو، شرک کرنے والا بھی اگر خدا کی طرف پلٹ آئے، اور یہ بات آپ نے تین بار فرمائی۔
واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی وسعتِ رحمت کی کوئی تھاہ نہیں، اس کی شانِ عفو و کرم سے بندہ کو کبھی مایوس نہ ہونا چاہیے۔ بڑے سے بڑے گناہ میں مبتلا ہونے والا بلکہ گناہوں سے زمین و آسمان کی فضا بھر دینے والا بھی جب اپنے رب کی طرف پلٹتا ہے اور واقعتا توبہ اور انابت کی کیفیت کے ساتھ رب کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو وہ کریم و رحیم اپنے بندے کو مایوس نہیں کرتا۔
رمضان کے مبارک شب و روز رخصت ہوگئے۔ عید کی صبح نمودار ہوگئی۔ مسلمان عید کی خوشیوں سے سرشار، عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ آج اظہارِ مسرت کا دن ہے، جشن منانے کا دن ہے، ایک دوسرے سے ملنے اور مبارک باد لینے دینے کا دن ہے، خدا کی حمدوثنا اور تکبیرو تہلیل کا دن ہے، خدا کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا دن ہے۔ عید خدا کا مقرر کیا ہوا تہوار ہے۔ آج کے دن نہانا دھونا، صاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، تکبیر وتہلیل کہتے ہوئے عیدگاہ جانا، عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ میٹھا کھانا، ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا اور سب کے ساتھ مل کر شوکتِ اسلام کا مظاہرہ کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب اعمال ہیں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو مخصوص دنوں میں کھیل و تفریح کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا:یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دورِ جاہلیت سے ان دو دنوں میں اسی طرح خوشی مناتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خدا نے تمھیں ان دو دنوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد)
اس مختصر سی روایت سے ایک نہایت اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے، وہ یہ کہ ایک بامقصد ملّت کے تہوار بھی بامقصد ہوتے ہیں۔ اسلامی تہواروں کا مقصد صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمان ملّت بھی سال بھر میں دو دن جشنِ مسرت منا لیا کرے، اور تہوار منانے کے فطری جذبے کو تسکین دے لیا کرے۔ اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی، تو ان دو دنوں کے بدلے دوسرے دو دن مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مسلمان انھی دو دنوں میں جشنِ مسرت مناتے رہتے، جیساکہ مدینے والے ایک زمانے سے مناتے چلے آرہے تھے، لیکن خدا کے رسولؐ نے فرمایا: ’’ان دو دنوں سے بہتر دو دن خدا نے تمھیں اظہارِ مسرت کے لیے عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی‘‘۔
عیدالفطر شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے اور عیدالاضحی ذوالحجہ کی ۱۰ تاریخ کو۔ یکم شوال کو عیدالفطر منانے کا بھی ایک اہم مقصد ہے اور ۱۰ ذوالحجہ کو اظہارِ مسرت کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔ وقت کی مناسبت سے ان سطروں میں صرف عیدالفطر کے مقصد پر اظہارِ خیال کرنا ہے۔
رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے فارغ ہوتے ہی خوشی منانا اور دوگانہ شکر ادا کرنا دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ خدا ہی کے فضل وکرم سے ہمیں رمضان کی یہ مبارک ساعتیں حاصل ہوئیں اور اسی کی توفیق سے ہم قیام و صیام، تلاوت و تسبیح، صدقہ و خیرات اور دوسری عبادتیں بجا لاسکے۔ اگر خدا کی توفیق و اطاعت نہ ہوتی تو ہم کچھ بھی نہ کرسکتے۔
عید منانے کی اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی کہ عید کی خوشی میں اس بدنصیب کا کوئی حصہ نہیں ہے، جو رمضان کی برکتوں سے محروم رہا اور رمضان کے بابرکت شب وروز پانے کے باوجود اس نے اپنی مغفرت کا سامان نہیں کیا۔ لیل و نہار کی گردش جب تک باقی ہے، یکم شوال کی تاریخ آتی رہے گی، مگر محض اس صبح کا طلوع ہونا ہی پیغامِ مسرت نہیں ہے۔ یہ صبح تو ہر ایک پر طلوع ہوتی ہے، لیکن اس جشن میں حقیقی مسرت صرف اسی کا حصہ ہے جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر یہ کہہ سکے کہ پروردگار تو نے جو مبارک مہینہ مجھے عطا فرمایا تھا، میں نے اسے ضائع نہیں کیا، میں دن میں بھی تیری خوشی کے کام کرتا رہا اور شب میں بھی تیری عبادت میں لگا رہا۔
عید کا دن عید بھی ہے اور وعید بھی، یہ مبارک باد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارک باد کا دن ان خوش نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان شکرگزاری کی حالت میں گزرا اور تعزیت کا دن ان کم نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان اس طرح گزرا کہ وہ اس کی برکتوں سے محروم ہی رہے۔ بے شک ایسے لوگوں کے لیے عید، وعید کا دن ہے، یہ مبارک باد کے نہیں تعزیت کے مستحق ہیں:
یہ مبارک باد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارک باد اس کے لیے جس سے رمضان خوش خوش رخصت ہوا اور تعزیت کا دن ہے، اس کے لیے جس سے رمضان رخصت ہوگیا اور وہ اس سے محروم ہی رہا۔
عیدالفطر یقینا مسلمانوں کے لیے اظہارِ مسرت کا دن ہے، یہ خدا کا دیا ہوا تہوار ہے مگر یہ ضرور سوچنے کی بات ہے کہ خوشی کس بات کی؟ رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوا۔ آپ نے اس کو خدا کا انعام سمجھ کر اگر اپنی عاقبت بنانے، اور مغفرت و نجات کا سامان کرنے کی فکر کی ہے تو بے شک یہ خوشی کی بات ہے، اور آپ عیدالفطر کا تہوار منانے کے مستحق ہیں، مگر جس کم نصیب نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں ذرا بھی اپنی مغفرت و نجات کی فکر نہیں کی، رمضان کا سارا مہینہ اس نے یوں ہی غفلت اور محرومی میں گزار دیا، خدا کو خوش کرنے کے بجاے اس نے خدا کا غضب اور بھڑکایا، اس کو بھلا کیا حق ہے کہ وہ عید کا تہوار منائے اور خوشی کا اظہار کرے۔ وہ آخر کس بات کی خوشی منائے اور کس منہ سے خدا کی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے تکبیر کہے۔
اس شخص کی ہلاکت اور محرومی میں کس کو شک ہوسکتا ہے، جس کی تباہی اور ہلاکت کے لیے جبرئیل امین ؑبددعا کریں اور بددعا پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں۔
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھنے لگے۔ پہلے زینے پر جب آپؐ نے قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ دوسرے زینے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ تیسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ خطبہ دے کر جب آپؐ فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے پوچھا: حضوؐر! آج ہم نے یہ ایسی بات دیکھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ فرمایا: جب میں خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھنے لگا اور منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرئیل امین ؑ نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا: خدا اس شخص کو ہلاک کردے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اپنی مغفرت کا سامان نہیں کیا‘‘۔ اس پر میں نے کہا: آمین!___ جن کم نصیبوں کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محروم اور تباہ حال کہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ان کو بھی عید کی خوشی منانے اور مبارک باد لینے کا حق ہے۔
جو خوش نصیب عید کی مبارک باد اور خوشی کے واقعی حق دار ہیں، ان کا ایمان افروز حال خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنیے اور اس آرزو کو پورا کرنے میں لگ جایئے کہ آپ کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ہرشہر اور ہر بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے، فرشتے زمین میں اُتر کر ہرگلی اور ہر راستے کے موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں۔ ان کی پکار ساری مخلوق سنتی ہے، مگر انسان اور جِن نہیں سن پاتے… وہ پکارتے ہیں:
اے محمدؐ کی اُمت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف! تمھارا پروردگار بہت ہی زیادہ دینے والا اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ اور جب مسلمان عیدگاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خداے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا؟ فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے۔ اس پر خدا کا ارشاد ہوتا ہے: فرشتو! تم سب گواہ ہوجائو کہ میں نے اپنے بندوں کو جورمضان بھر روزے رکھتے رہے اور تراویح پڑھتے رہے، اس کے صلے میں اپنی خوش نودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی۔
پھر خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے: میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! آج عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے، اس میں بھی تمھاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا… جب تک تم میرا دھیان رکھو گے، میں تمھارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل اور رسوا نہ کروں گا۔ جائو تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جائو، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے ہو، میں تم سے راضی ہوگیا۔
فرشتے اس بشارت پر خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں اور خدا کی اس بخشش اور نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں، جو وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے، جو رمضان بھر کے روزے رکھ کر آج اپنا روزہ کھولتے ہیں (الترغیب، ج۲، ص ۱۰۱)۔ (شعورحیاتِ سے انتخاب)
آپ نے سنا کہ ایک شخص گناہوں میں مبتلا ہے یا خود اپنی آنکھوں سے اس کو گناہ میں مبتلا دیکھا تو بے تعلق ہوکر گزر گئے کہ جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔ دل میں نفرت اور بے زاری کی ہلکی سی خلش رہ گئی مگر جلد ہی آپ نے ذہن جھٹک دیا اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بے شک وہ گناہ گار شخص اپنے کیے کی سزا پائے گا اور آپ جن اچھے کاموں میں اللہ کی رضا کے لیے لگے ہوئے ہیں ان کا بھرپور صلہ پائیں گے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آپ نے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیکھا ہے اور جن کی طرف سے بے زاری اور حقارت کا جذبہ دل میں محسوس کر رہے ہیں، کیا اس کے ساتھ آپ کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دل میں ہلکی سی خلش لے کر اس سے بے تعلق ہوجائیں اور بغیر کسی حق کے یہ فیصلہ کرلیں کہ جو بوئے گا، وہ کاٹے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس معاملے میں آپ کی یہ روش اللہ کو پسند نہ ہو۔
دین سر تا سر خیرخواہی کا نام ہے۔ اس گناہ گار کے ساتھ آپ نے کیا خیرخواہی کی؟ کیا اتنا کافی ہے کہ آپ اس سے بے تعلق رہیں؟ اپنا دامن بچائے رکھیں اور خود کو اس گناہ سے محفوظ رکھ کر یہ اطمینان کرلیں کہ کل خدا کے حضور آپ کہہ دیں گے کہ پروردگار میں نے اس گناہ گار سے تعلق نہیں رکھا اور خود کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی، یا اس سے آگے بھی اس گناہ گار کا آپ پر کچھ حق ہے؟ وہ غافل ہے اور آپ باشعور ہیں۔ وہ آخرت سے بے پروا ہے اور آپ کو آخرت کی فکر ہے۔ وہ دین سے ناواقف ہے اور آپ دینی علم رکھتے ہیں۔ اس کو صالح ماحول نہیں مل سکا ہے اور آپ صالح ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ پر اس کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو آخرت کی سخت پکڑ سے بچائیں اور گناہ کے بدترین اثرات اور ہولناک انجام سے ڈرائیں۔ کیا آپ کے نزدیک اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کرلے اور توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ آئے۔
وہ شخص جس گناہ میں مبتلا ہے، اس سے اپنا دامن بچا کر آپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اور آپ جیسا شعور رکھنے والے سارے لوگ یہی اندازِ فکر وعمل اپنا لیں گے تو گناہ بڑھتے چلے جائیں گے اور پورامعاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آپ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی نسلیں بھی،گناہ کی قباحت و شناعت دھیرے دھیرے کم ہونے لگے گی۔ گناہوں سے مصالحت اور برداشت کرلینے کی کیفیت بڑھتی چلی جائے گی اور نبی صادق و امینؐ کے الفاظ میں آپ گناہ بطور خود نہ کرنے کے باوجود گناہ کرنے والوں ہی میں شامل قرار دیے جائیں گے۔ بات کسی اور کی ہو تو آپ سنی اَن سنی بھی کردیتے لیکن یہ بات تو اُن کی ہے جن کی صداقت پر آپ کا ایمان ہے اور جن کے واسطے سے ہی آپ آخرت میں نجات کا یقین رکھتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جس مقام پر لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں اور کچھ ایسے لوگ وہاں موجودہوں جو اس گناہ کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو وہ گویا وہاں موجود ہی نہیں ہیں، اور جو لوگ ان گناہوں پر مطمئن ہوں اور ان کو برداشت کررہے ہوں، وہ اگر موقع پر موجود نہ بھی ہوں تو بھی وہ گویا ان لوگوں میں موجود ہیں‘‘۔
حدیث کے اس صاف شفاف آئینے میں اپنے عمل و کردار کا چہرہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، وہ کس حد تک صحیح ہے اور حقیقت میں صحیح رویہ آپ کے لیے کیا ہے؟ صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ آپ گناہگاروں کے گناہ پر کُڑھیں اور اس کی کُڑھن سے بے چین ہوکر ان بھٹکے ہوئے بندوں کو انجامِ بد سے ڈرائیں۔ گناہ کے اثراتِ بد سے بچائیں اور اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گناہ آپ کی بستی میں ہو رہا ہو، یا محلے میں یا آپ کا کوئی پڑوسی اس میں مبتلا ہو، بہرحال آپ کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے روکیں اور گناہگار کے خیرخواہ بن کر اس کو گناہ سے بچانے کی فکر کریں اور ہرگز خود کو اس سے بے تعلق رکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کل خدا کے حضور پکڑے نہ جائیں گے۔ آپ کا پڑوسی کل خدا کے حضور میدانِ حشر میں آپ پر خیانت کا الزام لگائے گا اور آپ کے اس رویے پر رب سے فریاد کرے گا۔ امام حنبلؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کا دامن پکڑ کر یہ فریاد کرے گا: اے میرے رب! اس نے میرے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ جواب دے گا: پروردگار! میں تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کے اہل و عیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ فریادی کہے گا: پروردگار! یہ بات تو یہ سچ کہتا ہے لیکن اس نے خیانت یہ کی کہ اس نے مجھے گناہ کرتے دیکھا لیکن کبھی مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔(مسند احمد)
اللہ نے آپ کو دین کا شعور اور حلال و حرام کی تمیز دے کر اس ذمہ داری کے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آپ رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کریں۔ لوگوں کو معصیت اور منکرات سے روکیں اور بھلائیوں کی ترغیب دیں، دل سوزی کے ساتھ شیریں گفتاری کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ اور اس کوشش میں اپنے اثرات بھی استعمال کریں۔ اگر آپ نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو گویا آپ نے خیانت کی اور آپ کا پڑوسی کل حشرکے میدان میں آپ سے اسی خیانت کا الزام لگائے گا چاہے وہ آپ کے محلے کا پڑوسی ہو یا آپ کی بستی کا۔
ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے کہ جب عام لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شعور رکھنے والے صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مبتلاے گناہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، بلکہ اس سوچ سے خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ان کے گناہوں کو برداشت کرنے لگتے ہیں،تو یہ گناہ اور رب کی نافرمانیاں بڑھنے لگتی ہیں اور دھیرے دھیرے پورے سماج اور بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اب تو ذرائعِ ابلاغ کی مدد سے پورے پورے ملک اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ کی جانب سے عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان لوگوں کو موت آئے یہ سب لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو گناہوں سے دور رہتے ہیں۔ حضوؐر کا ارشاد ہے:
جن لوگوں کے درمیان بھی کوئی شخص گناہ کے کام کررہا ہو اور وہ لوگ اس کو روک سکتے ہوں پھر بھی نہ روکیں، تو اس سے پہلے کہ یہ لوگ مریں سب کے سب خدا کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔(ابوداؤد)
دراصل اللہ نے مومن کا وصف ہی یہ بتایا ہے کہ وہ منکرات کو گوارا نہیں کرتا، بلکہ اس کو روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رب سے وفاداری کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ زمین پر رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کرے اور رب کی فرماں برداری اور بھلائی کے پرچار پر لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے آمادہ کرے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ کرامؓ کا دورِ سعادت اس کی بہترین اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جو قرآن پاک میں قطعی طور پر خیراُمت کے لقب سے یاد کیے گئے ہیں، اسی بنیاد پر ان کو اس لقب سے نوازا گیا کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے۔
انفرادی طور پر بھی صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہرہر موقع پر نیکی اور اصلاح کے حریص رہتے تھے اور اس معاملے میں اپنا فرض اور دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا اور انھوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں کے نیک نتائج سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کیں۔
حضرت عمرؓ کے پاس شام کا رہنے والا ایک شخص اکثر آیا کرتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ بہت دن گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی یاد آئی، لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات کیں تومعلوم ہوا کہ وہ کچھ بُرے کاموں میں پڑ گیا ہے، پینا پلانا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب کو بلایا اور اس کو ایک خط لکھوایا:
یہ خط ہے عمر بن الخطاب کی طرف سے… فلاں ابن فلاں ابن فلاں شامی کے نام۔
تمھارے اس اللہ کی حمدو تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور زبردست احسان کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
یہ خط لکھوا کر امیرالمومنین نے اس شامی شخص کی طرف روانہ فرمایا اور اپنے پاس کے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب لوگ اس شخص کے لیے رب سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ادھر اس شامی خطاکار کو جب امیرالمومنین کا خط ملا تو اس نے اس کو بار بار پڑھا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ اور اپنے عذاب سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر مجھ سے گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ خط اس نے کئی بار پڑھا، رویا اور اللہ سے توبہ کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ اللہ نے اس کی زندگی بدل دی۔
حضرت عمرؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ انتہائی خوش ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیکھو کہ وہ بھٹک گیا ہے تو اس کو چھوڑ نہ دو، بلکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔
نیک اعمال میں توبہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے ذریعے کسی کو اگر توبہ کی توفیق ہوجائے تو یہ آپ کی سب سے بڑی سعادت اور اللہ کی نظر میں سب سے بڑی نیکی ہے۔
دین کا صحیح شعور ہو یا نہ ہو‘ تاہم یہ حقیقت ہے کہ خواتین میں دینی احساس مردوں کے مقابلے کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ میلاد کی محفلیں‘ نعت خوانی کی مجلسیں‘ نذرونیاز‘ تیجا‘ چالیسواں‘ نوحہ خوانی‘ یہ سب دراصل خواتین ہی کے دم سے قائم ہیں اورمسلمان معاشروں میں ان کے چرچے خواتین ہی کی بدولت ہیں___ یہی خواتین اگر دین کا صحیح شعورحاصل کرلیں‘ قرآن و سنت کی صحیح تعلیم سے واقف ہوجائیں‘ دین کے صحیح تصور اور صحیح فہم سے آشنا ہوجائیں اورانھیں واقعی یہ احساس ہوجائے کہ وہ بھی خیراُمت کا حصہ ہیں‘ تو ہمارے گھروں کی فضا‘ خاندانوں کے حالات اور معاشرے کے طورطریق سب بدل جائیں۔
خداکی کتاب کا یہ خطاب کہ مسلمانو! تم خیر اُمت ہو‘ تمھیں لوگوں کی فلاح و ہدایت کے لیے اٹھایا گیا ہے‘ تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو‘ برائیوںسے روکتے ہو اور تم واقعی خدا پرایمان رکھتے ہو___ یقینا تمام مسلمانوں سے ہے۔ یہ خطاب صرف مردوں سے نہیں عورتوں سے بھی ہے۔ لازمی طور پر خواتین بھی اس حکم کی پابند ہیں‘وہ بھی دین کی نمایندہ اور دین کی ترجمان ہیں اور دین کی دعوت و تبلیغ ان کا بھی دینی فریضہ ہے___ بے شک ہر وہ خاتون جو خدا پر ایمان رکھتی ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے حلقۂ کار میں دینِاسلام کی تبلیغ کرے۔ اپنے محرم مردوں کو دین سمجھنے اور دین پر عمل کرنے کی تلقین کرے اور خواتین میں عمومی حیثیت سے دین کی اشاعت کے لیے جدوجہد کرے۔ اگر خواتین میں اپنے منصب کا یہ احساس بیدارہوجائے تو گھروں میں اسلامی زندگی اور اسلامی روایات و تہذیب کا چرچا رہے‘ اسلامی تعلیمات تازہ رہیں‘ اور ہمارے گھرواقعی اسلام کے لیے فداکار سپاہی تیار کرنے کا مدرسہ بن جائیں۔
مغربی تہذیب کے زبردست غلبے نے اور پھر موجودہ تعلیم و تربیت نے دین سے دُوری اور بے گانگی کی عام فضا پیدا کردی ہے۔ اس بے دینی اور جاہلیت کا مقابلہ اگر کیا جاسکتا ہے تو صرف اس طرح کہ ہم اپنے گھروں کی طرف توجہ دیں‘ گھر میں ایسا ماحول پیدا کریں کہ ہماری خواتین دین کو سمجھنے‘ دین کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے‘ دین کی روشنی میں اپنے گھر کے ماحول کو سدھارنے اوردین ہی کے مطابق بچوں کی تربیت اور پرورش کرنے کو اپنی زندگی کا سب سے عزیز مقصدسمجھنے لگیں۔ گھروں میں دینی فضا قائم رکھنے کا اہتمام اور بچوں کو دین کے مطابق اٹھانے کا اہم کام خواتین ہی انجام دے سکتی ہیں۔
دورِ سابق میں جب اسلامی تعلیمات کا چرچا تھا‘ عورتیں شروع ہی سے بچوں میں اسلام کی رغبت پیدا کردیتی تھیں۔ بچے دین کی معلومات اور دینی عبادات میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن پاک پڑھنے پڑھانے کا عام چرچا تھا۔ بچوں کوعام طور پر دعائیں یاد ہوتی تھیں: سوتے وقت کی دعا‘اُٹھتے وقت کی دعا‘ مسجد میں داخل ہوتے وقت کی دعا‘ مسجد سے نکلتے وقت کی دعا‘ کھانا شروع کرتے وقت کی دعا‘ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کی دعا‘ پھل کھاتے وقت کی دعا‘ نیا لباس پہنتے وقت کی دعا‘ آئینہ دیکھتے وقت کی دعا‘ غرض بچوں کو یہ دعائیں اس طرح یاد ہوتی تھیں کہ وہ شوق اوردل بستگی کے ساتھ ان کو رٹتے رہتے تھے اور یہ معمولی بات نہ تھی۔ دراصل ان سادہ لوح بچوں کے پاک ذہنوں میں اس وقت جو نقوش ثبت ہوجاتے تھے ان کی آیندہ زندگی انھی نقوش کی آئینہ دار ہوتی تھی اور یہ زندگیاں اسی لیے اسلام کا پیکر ہوتی تھیں۔
ماں کی محبت بھری گود میں بیٹھ کر جو کچھ وہ رٹ لیا کرتے تھے‘ پھر زندگی بھر اُسے کبھی نہ بھولتے تھے۔ انھی بنیادوں پر ان کی زندگیاں استوار ہوتی تھیں‘ پھر نہ انگلستان کی فضا اُنھیں بدل سکتی تھی‘ نہ زمستانی ہوائیں ان پر اثر کرتی تھیں‘ اور نہ کوئی خوف اور لالچ ان پر اثرانداز ہوسکتا تھا۔ وہ جہاں رہتے تھے دین کے دردمند اور دین کے داعی اور حامی بن کر رہتے تھے___ تاریخ اسلامی کی جن عظیم ہستیوں پر ہم فخر کرتے ہیں اور ان کے کارناموں کو یاد کرکے سردُھنتے ہیں وہ دراصل کارنامے ہیں ان گودوں کے جن میں یہ عظیم ہستیاں پل کرجوان ہوئی تھیں۔ اگر آپ اپنی تاریخ دُہرانا چاہتے ہیں اور اپنی عظمت رفتہ کو آواز دینا چاہتے ہیں‘ توضرورت ہے کہ آپ ایسی گودیں مہیا کرنے کے لیے کوشش و کاوش کریں___ اگر ہم واقعی یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ اسلامی معاشرہ بنے اور ہمارے سماج میں اسلامی اقدارو روایات کا چرچا ہو‘ ہر طرف اسلامی روایات اور تعلیمات کا تذکرہ ہو‘ تو اس کا کامیاب طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنی عورتوں میں دین کا شعور پیدا کریں۔ گھر کے ماحول کو دین کے لیے سازگار بنائیں اور اپنی خواتین کو متوجہ کریں کہ وہ اپنے گھروں کو دین کا مدرسہ بنائیں۔ اگر ہمارے گھر دین کا مدرسہ بن جائیں تو پھر باہر کاماحول ہمارے گھروں میں ہرگز کوئی انقلاب لانے کی جرأت نہ کرسکے گا‘ بلکہ گھر کی یہ فضائیں باہر کے ماحول میں خوش گوار انقلاب لائیں گی اور اس انقلاب کا مقابلہ آسان نہ ہوگا۔
گھر کے ماحول پرسب سے زیادہ جو چیز اثرانداز ہوتی ہے‘ وہ ایک نیک دل‘ وفاشعار‘ دردمند‘ عالی حوصلہ اور دین دار خاتون کا اعلیٰ کردار اور پاکیزہ سیرت ہی ہوتی ہے۔ خواتین کی مدد اورتعاون کے بغیر نہ گھر کے ماحول میں سدھار آسکتا ہے اور نہ باہر کی فضا میں کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ کوئی ایسا خوش گوار پاکیزہ انقلاب جس کی جڑیں بہت مضبوط ہوں اور جو واقعی انسانوں کے قلب و دماغ کو بدل سکے، اسی وقت لایا جاسکتا ہے جب خواتین اس کی داعی بن جائیں اور وہ اپنے شب وروز اس کے لیے وقف کردیں۔
گھروں میں اسلامی تعلیم کی آسان کتابیں ضرور رکھیے۔ ان کے پڑھنے پڑھانے کا اہتمام کیجیے۔قرآن پاک کی تفسیر و ترجمے‘حدیثِ رسولؐ کے ترجمے‘دعاؤں کی کتابیں اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے متعلق کتابیں ضرور گھروالوں کے لیے فراہم کیجیے۔ پھر اپنے اوقات میں سے کچھ وقت ضرور فارغ کیجیے کہ گھر کے سارے افراد بیٹھ کر اجتماعی طور پر کچھ مطالعہ کریں‘ غوروفکر کریں‘ تبادلۂ خیال کریں‘ اور پھر یہ کوشش بھی کریں کہ دین کا جو علم و شعور حاصل ہوتا جائے اس کے مطابق دھیرے دھیرے زندگیوں میں تبدیلی لانے کی کوشش کی جائے۔ تھوڑے ہی عرصے میں آپ دیکھیں گے کہ آپ کے گھر کی فضا بدلی ہوئی ہے___ اور یقین کیجیے کہ اس سے بڑی نعمت اور کوئی نہیں ہے کہ آپ کے گھر اسلامی زندگی کا حسین نمونہ بن جائیں___ اور آپ کے گھر والے اسلام کے داعی اور نمایندہ بن کر زندگی گزارنے لگیں۔
۱- رمضان المبارک کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی ۱۵ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی - رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ
خدا سب سے بڑا ہے۔ خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بنا کر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔
اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے۔ (ترمذی‘ ابن حبان وغیرہ)
۳- رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔
لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا‘ اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔
۴- پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں‘ تب بھی احترامِ رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔
۵- تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اس مہینے کو قرآنِ پاک سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآنِ پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں نازل ہوئیں… اس لیے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت جبرئیل ؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے‘ اور آخری سال آپ نے رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دو بار دَور فرمایا۔
۶- قرآن پاک ٹھیر ٹھیر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔
۷- تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کیجیے۔ ایک بار رمضان میں پورا قرآنِ پاک سننا مسنون ہے۔
۸- تراویح کی نماز خشوع خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں ۲۰رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے‘ بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔
۹- صدقہ اور خیرات کیجیے۔ غریبوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ مواسات کا مہینہ ہے‘‘، یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی۔ ان کے ساتھ گفتار اور سلوک میں نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے۔
۱۰- شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔ اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (حصن حصین)
خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے۔
۱۱- رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری ۱۰ دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
۱۲- رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخ دلی کے ساتھ اُن کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔
۱۳- نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے۔ درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔
۱۴- صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام سے ادا کیجیے اور عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیجیے‘ بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جا سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
۱۵- رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز‘ تڑپ‘ نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریے تاکہ پوری فضا پر خدا ترسی‘ خیرپسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہا برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔