جولائی ۲۰۱۵

فہرست مضامین

آپ کا فیصلہ

محمد یوسف اصلاحی | جولائی ۲۰۱۵ | دعوت و تحریک

Responsive image Responsive image

دین کی پکار پر لبیک کہتے وقت آپ اس عزم کے ساتھ آگے بڑھے تھے، کہ اب پیچھے ہٹنے کا نام نہ لیں گے۔ واپسی کی کشتیاں جلا کر آپ نے اس راہ میں قدم رکھا تھا، اور اپنے خدا سے یہ عہد کیا تھا کہ پروردگار! یہ جان بھی تیری ہے، یہ مال بھی تیرا ہے اور یہ سب کچھ میں نے تیرے ہاتھ بیچ دیا ہے، میرا اپنا اب کچھ نہیں ہے، سب کچھ تیرا ہے اور تیری ہی راہ میں صرف ہوگا۔ پروردگار! مجھے معاف فرما، مجھے شعور نہیں تھا، میں غفلت میں تھا، تیرا کرم ہے کہ تو نے مجھے غفلت سے بیدار کیا، اور اپنے دین کی خدمت کی سعادت بخشی۔ پروردگار! کس زبان سے تیرا شکر ادا کروں، تو نے مجھے وہ سعادت بخشی جو تو صرف اپنے منتخب بندوں ہی کو بخشتا ہے۔

آپ نے اپنے خدا کے دین کو سب سے بڑی دولت سمجھ کر اپنایا تھا، بڑی عقیدت کے ساتھ اپنایا تھا، اور اس یقین کے ساتھ دین کی خدمت کا بیڑا اُٹھایا تھا کہ خدا نے وہ عظیم خدمت آپ کے سپرد کی ہے، جس سے زیادہ عزت و عظمت کا اور کوئی کام دُنیا میں نہیں ہے۔ آپ کو   اپنی اس سعادت پر فخر تھا اور بجا فخر تھا۔آپ نے اپنے رب سے عہد کیا تھا    ؎

مری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی

میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

آپ نے مبارک فیصلہ کیا تھا کہ میں مرتے دم تک اسی دین کی خدمت میں لگا رہوں گا، کوئی ساتھ دے نہ دے میں آگے بڑھتا رہوں گا۔ لوگ ساتھ چلنے سے انکار کردیں گے تو میں تنہا چلوں گا۔ اس لیے کہ مجھے صرف اپنے رب کی رضا مطلوب ہے۔

کیسا مبارک تھا آپ کا فیصلہ، کیسے پاکیزہ تھے آپ کے جذبات ، اور کیسی ایمان افروز تھیں آپ کی سرگرمیاں۔ آپ خفا نہ ہوں، میری نظر میں یہ ماضی کی یادیں ہیں، ولولہ انگیز یادیں۔ آپ کو اصرار ہے کہ آپ کا فیصلہ اب بھی یہی ہے ، آپ کے جذبات اب بھی یہی ہیں، آپ کی سرگرمیاں اب بھی یہی ہیں، نہ آپ کا عہد بودا تھا، نہ آپ کا فیصلہ کمزور تھا، نہ آپ کے جذبات سرد پڑے ہیں، نہ آپ کی سرگرمیاں کسی جمود کا شکار ہوئی ہیں___ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ لیکن کیا کروں اپنی ان آنکھوں کا، کہاں لے جائوں اپنے ان کانوں کو، کیا کروں اپنے احساس کا!

کبھی جب میں آپ کو دیکھا کرتا، تو اپنی زندگی پر شرم آتی اور بے اختیار لب پر دُعا بن کر یہ تمنا آتی کہ پروردگار! میری عمر کا کچھ حصہ ان کو عطا فرما دے۔ میں جب آپ کو سرگرمِ کار دیکھتا، تو ایک حیرت انگیز ولولہ محسوس کرتا، راہِ حق میں بڑھنے کی بے پناہ قوت کا احساس ہوتا، آپ کو بڑے رشک سے دیکھتا، اپنے لیے مثال بناتا، اور بہت کچھ کرنے کے بعد بھی یہ محسوس کرتا کہ آپ کی منزل مجھ سے بہت آگے ہے، بہت کچھ کرنے کے بعد بھی شاید میں آپ کو نہ پاسکوں، اور پھر عقیدت و محبت کے ساتھ میری نگاہیں آپ کے نورانی چہرے پر جم جاتیں، مگر اب__ اب مجھے نہ وہ عزائم نظر آتے، نہ وہ ولولے، نہ وہ خارا شکن جذبات ہیں، نہ حوصلے، نہ وہ سرگرمیاں ہیں، نہ وہ ہمت و ارادے۔

آپ کا کہنا بجا کہ آپ کے ساتھیوں نے حوصلے چھوڑ دیے۔ آپ کے ساتھی اپنے عہد میں بودے ثابت ہوئے۔ آپ کا یہ کہنا بھی صحیح کہ آپ سے بہت آگے چلنے والے بہت سے ساتھی آپ سے بھی پیچھے رہ گئے۔ یہ کہنا بھی بجا کہ بہت سے سو گئے، اور ایسے سوئے کہ اب بیدار ہونے کا نام نہیں لیتے۔ یہ کہنا بھی حق کہ اگر آپ کے ساتھی برابر ساتھ دیتے رہتے تو آپ بہت آگے ہوتے، مگر راہِ حق کے ساتھی! آپ ہی ذرا گردن جھکا کر سوچیے، کیا آپ کی یہ تاویلیں صحیح ہیں؟ کیا آپ اپنے خدا سے اسی وقت وفاداری کریں گے جب دوسرے بھی کریں؟ کیا آپ نے اپنے خدا سے اس شرط کے ساتھ عہد کیا تھا کہ دوسرے تیرے دین کو سربلند کریں گے تو میں بھی مدد کروں گا ورنہ پیچھے ہٹ جائوں گا؟ کیا آپ ان تاویلوں اور بہانوں پر مطمئن ہیں؟ آپ ہی بتایئے اس قافلے کا ہر راہی اگر یہی عذر اور یہی تاویل کرنے لگے تو قافلے کا کیا حشر ہوگا، اور خدا کے اس دین پر کیا بیتے گی جو آپ کو جان سے زیادہ عزیز ہے۔

دین کی پکار پر لبیک کہنا سب سے بڑی سعادت ہے اور اس راہ میں برابر آگے بڑھتے رہنا اس سعادت کی علامت ہے ، مگر آپ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں بلکہ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اس سعادت سے محروم ہو رہے ہیں اور حیرت ہے کہ آپ کو اپنی اس محرومی کا احساس بھی نہیں۔ آپ کو ذرا پریشانی نہیں کہ آپ اپنے خدا کی نظر سے گر رہے ہیں، اس کی عنایت سے محروم ہو رہے ہیں، آپ کا سینہ خدمت ِ دین کے اُن ولولوں اور حوصلوں سے خالی ہوتا جارہا ہے جو آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہیں۔ کبھی آپ کو دیکھ کر لوگ زندگی کی تڑپ محسوس کرتے تھے۔ اب وہ آپ کو یاد دہانی کرا رہے ہیں۔ بے شک دنیا کو آپ نے اپنا مقصد نہیں بنایا ہے لیکن آپ کو احساس نہیں، اس مکار بڑھیا نے نہایت چالاکی سے آپ کو اپنے جال میں پھانس لیا ہے۔ آپ سوچ رہے ہیں کہ دین کا دامن بھی آپ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا بھی آپ کے قدموں میں ہے، لیکن آپ دھوکے میں ہیں۔ آپ دین کی راہ میں بہت آگے بڑھ کر بہت پیچھے ہٹ آئے ہیں ، اور اگر آپ اس احساس سے بھی محروم ہیں تو یہ بہت بڑا سانحہ ہے، ایسا سانحہ جو آپ کی موت سے زیادہ تکلیف دہ ہے، اور اس پر اگر خون کے آنسو بہائے جائیں تب بھی غم ہلکا نہ ہوگا۔

نفس کو ڈھیل نہ دیجیے، یہ آپ کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اس کا کڑا محاسبہ کیجیے۔ انصاف اور سنجیدگی کے ساتھ اپنے جذبات کا جائزہ لیجیے۔ اپنے عزائم اور حوصلوں پر نگاہ ڈالیے، اپنے ارادوں کا جائزہ لیجیے۔ اپنی تمنائوں اور آرزوئوں پر احتساب کی نظر ڈالیے، اپنی تنہائی کی دُعائوں کو سننے کی کوشش کیجیے۔ آپ اپنے خدا سے کیا چاہتے تھے، اور اب کیا چاہ رہے ہیں۔ آپ کی تمنائیں کیا تھیں، اور اب کیا ہیں۔ آپ کی شب و روز کی دوڑ دھوپ کن کاموں کے لیے تھی، اور اب کن مقاصد کے لیے ہے۔ آپ کن آرزوئوں میں مگن تھے، اور اب کیا خواب دیکھ رہے ہیں۔

مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ اپنا پورا سبق بھولتے جارہے ہیں۔ کل تک جن قدروں کے لیے آپ سب کچھ قربان کرنے کو تیار تھے، آج وہ آپ کی نظر میں بے وزن ہوتی جارہی ہیں۔ کل تک جن بُرائیوں کو دیکھ کر آپ کی پیشانی پر غضب کی شکنیں نمودار ہوجاتی تھیں، آج آپ انھی بُرائیوں سے سمجھوتہ کر رہے ہیں۔ کل تک جن منکرات کو آپ مٹانے کے لیے سینہ سپر تھے، آج وہی منکرات دانستہ یانادانستہ آپ کے وجود سے قائم ہو رہے ہیں، اور آپ نہایت سادہ لوحی کے ساتھ حالات کی رَو میں بے اختیار بہے چلے جارہے ہیں۔

کل آپ کو خدا کے حضور کھڑا ہونا ہے، اُس خدا کے حضور جس سے آپ نے عہد کیا تھا، اور اس یقین کے ساتھ عہد کیا تھا کہ وہ اپنے مزدوروں کا اجر ہرگز ضائع نہیں کرتا۔ وہ اپنے وفادار غلاموں کی کارگزاریوں سے کسی لمحے غافل نہیں ہوتا، نہ اُسے اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔ وہ اپنے بندوں کی محنت و جانفشانی کی قدر کرتا ہے اور کبھی کسی مستحق کو محروم نہیں کرتا۔ اس خدا کے حضور کل آپ کھڑے ہوں گے، اور وہ آپ سے کہہ رہا ہوگا: میرے بندے! میں نے تجھے دین حق کا شعور دیا تھا، تیرا ہاتھ پکڑ کر خدمت ِ دین کی راہ پر لگا دیا تھا، تجھے توفیق دی تھی کہ میرے نیک بندوں کے ساتھ میرے دین کو سربلند کرنے میں لگ جائے۔ پھر تجھے کیا ہوا تو اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر کہاں بھاگ گیا؟

کیا آپ خدا کو یہ جواب دیں گے کہ پروردگار! میں اپنے دوسرے ساتھیوں کو مضمحل دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔ میں نے اس لیے تیرے دین کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیاکہ دوسروں کو بھی میں نے یہی کرتے دیکھا۔ میں نے اس لیے وفاداری کا ثبوت نہیں دیا کہ دوسرے بے وفا ثابت ہورہے تھے۔ میرے جذبات اور ولولے اس لیے سرد پڑ گئے تھے کہ دوسروں کو مَیں نے ٹھنڈا دیکھا۔ میں سب کچھ جاننے کے بعد اس لیے پیچھے پلٹ گیا، کہ مجھ سے زیادہ جاننے والے پیچھے پلٹتے ہوئے نظر آرہے تھے۔

اس سے پہلے کہ آپ کی آنکھیں بند ہوں، خدارا آنکھیں کھولیے اور اپنے رویے پر غور کیجیے، اپنے خدا سے کیے ہوئے عہد کو تازہ کیجیے۔ کوئی عہد پورا کرے یا نہ کرے، آپ اپنا عہد پورا کرنے کا عزم کیجیے۔ کوئی اس راہ میں بڑھتا نظر آئے یا نہ آئے، آپ آگے بڑھیے۔ آپ نے معاملہ خدا سے کیا ہے، کسی بندے سے نہیں کیا ہے ، اور جب دین کے کچھ خادم مضمحل ہوتے نظر آئیں تو آپ اپنے حوصلے اور بلند کردیجیے۔ جب کچھ لوگ جی چھوڑتے محسوس ہوں تو اپنا جوش و ولولہ اور بڑھا دیجیے، اور جب سب بھاگتے نظر آئیں تو آپ اپنے قدم اور جما دیجیے۔ دوسروں سے آپ جو کچھ توقعات رکھتے ہوں وہ خود پوری کردکھایئے۔ دوسروں کا شکوہ نہ کیجیے اپنے عمل سے انھیں شرم دلایئے، اور کوئی ساتھ نہ دے تو اپنے خدا سے بے پایاں اجر لینے کے لیے اپنی رفتار کو اور تیز کردیجیے    ؎

نوا را تلخ تر می زن چو ذوقِ نغمہ کم یابی

حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی

(اگر نغمے کی لذت سرد پڑتی نظر آئے تو ساز کو زور زور سے بجا، اگر ناقے کی پشت پر کجاوہ بھاری ہو اور ناقے کی رفتار سُست ہوجائے تو حدی کے ترانے تیز کردے۔)