جولائی ۲۰۱۵

فہرست مضامین

رسائل و مسائل

| جولائی ۲۰۱۵ | رسائل و مسائل

Responsive image Responsive image

سوال : میں ایک دینی مرکز کے کیمپس میں واقع مسجد میں پنج وقتہ نماز ادا کرتا ہوں۔ جہاں باہر سے مہمان تشریف لاتے ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات جمع بین الصلوٰتین کی نیت سے ظہر کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عصر کی نماز اور مغرب کی جماعت سے فارغ ہوتے ہی عشاء کی نمازباجماعت پڑھنے لگتے ہیں۔ چنانچہ ان کے لیے یہ جاننا مشکل ہوتا ہے کہ کون سی نماز پڑھی جارہی ہے۔ ’جمع بین الصلوٰتین‘ کے تحت ظہر یا عصر یا عشاء کی نماز پڑھی جارہی ہے یا مغرب یا عشاء کی دوسری جماعت ہو رہی ہے؟ عام لوگ ظہر یا مغرب کی دوسری جماعت سمجھ کر اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں درج ذیل سوالات جواب طلب ہیں:

۱- جب عام نمازیوں کو غلط فہمی کا اندیشہ رہتا ہو تو اس طرح مسجد کے اندر ’جمع بین الصلوٰتین‘ کہاں تک درست ہے؟

۲- جو لوگ ظہر یا مغرب کی نیت سے عصر یا عشاء کی جماعت میں شامل ہوتے ہیں، ان کی نماز ہوگی یا نہیں؟ کیوں کہ امام اور مقتدی دونوں کی نیت الگ الگ ہوگئی۔

۳- اگر مسجد میں اذان یا جماعت کے متعینہ وقت سے پہلے باجماعت نماز ادا کی جائے تو درست ہے یا نہیں؟

جواب:مسجد میں وقت ِ ضرورت دوسری جماعت کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے مناسب یہ ہے کہ ہیئت تبدیل کردی جائے، یعنی پہلی جماعت مسجد کے جس حصے میں ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ دوسری جماعت کی جائے۔ اگر مسجد میں کچھ مسافر موجود ہوں اور وہ جمع بین الصلوٰتین کی غرض سے دوسری نماز جماعت سے ادا کرنا چاہیں تو وہ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ اگر کچھ مسافر مسجد میں باجماعت عصر یا عشاء کی نماز پڑھ رہے ہوں اور کوئی شخص اسے ظہر یا مغرب کی نماز سمجھ کر جماعت میں شامل ہوجائے تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟ بہ الفاظ دیگر اگر امام اور مقتدی کی نیتیں الگ الگ ہوجائیں، امام نے کسی نماز کی نیت کی ہو اور مقتدی کی نیت کسی اور نماز کی ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟

اس سلسلے میں احناف، مالکیہ اور حنابلہ کا مسلک یہ ہے کہ نماز کی نیت کے معاملے میں امام اور مقتدی کا اتحاد ضروری ہے۔ اگر امام عصر کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ ظہر کی ہے یا امام عشاء کی نماز پڑھا رہا ہے اور مقتدی کی نیت نمازِ مغرب کی ہے تو مقتدی کی نماز درست نہ ہوگی۔ ان کا استدلال اس حدیث ِ نبویؐ سے ہے:

اِنَّمَا جُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤتَمَّ بِہٖ فَلَا تَخْتَلِفُوْا عَلَیْہِ (بخاری، کتاب الاذان) امام اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتدا کی جائے۔ اس لیے اس سے اختلاف نہ کرو۔

البتہ شوافع کہتے ہیں کہ نماز کی صحت کے لیے امام اور مقتدی دونوں کی نمازوں کا ایک ہی ہونا ضروری نہیں ہے۔ نماز کے ظاہری افعال میں یکسانیت ہو تو مقتدی کی نماز درست ہوگی، خواہ اس کی نیت کسی نماز کی ہو اور امام کوئی اور نماز پڑھا رہا ہو۔(الموسوعۃ الفقیہ، کویت، ۶/۲۲-۲۳، ۳۳)

کسی نماز کا وقت ہوجائے، لیکن ابھی اس کی اذان یا جماعت نہیں ہوئی ہے، کچھ لوگ ہیں جنھیں کسی ضرورت سے فوراً سفر پر نکلنا ہے، وہ مسجد میں اپنی جماعت کرسکتے ہیں۔ البتہ ان کے لیے مناسب ہے کہ مسجد کے جس حصے میں جماعت ہوتی ہے، اس سے ہٹ کر کسی اور جگہ اپنی جماعت کرلیں۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)


سجدئہ سہو : چند مسائل

س:  نماز میں بھول جائیں تو سجدۂ سہو لازم ہوجاتا ہے۔ اگر معمولی سی بھول ہو، مثلاً چار یا تین رکعتوں کے فرض میں دوسری رکعت کی التحیات کے بعد تیسری رکعت کے لیے اُٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔ نمازی بھول کر درود شریف شروع کردیتا ہے مگر دوچار الفاظ (اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی…) کے بعد ازخود متنبہ ہوکر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اسی طرح چار فرض کی تیسری اور چوتھی رکعت میں سورئہ فاتحہ کے بعد رکوع میں جانا ہوتا ہے۔ نمازی بھول کر آیاتِ قرآنی پڑھنا شروع کردیتا ہے (قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ…) فوراً متنبہ ہوجاتا ہے اور رکوع میں چلا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی چھوٹی موٹی بھول چوک پر بھی سجدئہ سہو لازم ہے؟

ج:  جب فرض اور واجب کی تاخیر ہوجائے یا واجب رہ جائے اور یہ تاخیر اتنی ہو کہ اس وقت میں کوئی رکن ادا کیا جاسکتا ہو تو پھر سجدۂ سہو واجب ہوتا ہے۔ قعدہ اول میں جب ایک نمازی تشہد کے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھ لیتا ہے تو اسے فوراً تیسری رکعت کے لیے اُٹھنا چاہیے۔ اگر وہ تشہد سے فارغ ہونے کے بعد اتنی دیر بیٹھ گیا کہ اس میں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ پڑھا جاسکتا ہو تو پھر سجدئہ سہو واجب ہوگیا کیوںکہ درود شریف کے مذکورہ حروف اتنے ہیں کہ ان سے رکن ادا ہوسکتا ہے، مثلاً رکوع یا سجدہ اتنی مقدار میں تسبیحات سے ادا ہوسکتا ہے۔

۲- تیسری اور چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ کا پڑھنا جائز ہے۔ لہٰذا تیسری یا چوتھی رکعت میں فاتحہ کے بعد کوئی سورہ پڑھ لی تو اس سے سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح سورہ کے چند الفاظ پڑھ لیے تب بھی سجدئہ سہو واجب نہیں ہوتا۔(مولانا عبدالمالک)


کھانے کا ایک ادب

س : ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ پیٹ کے تین حصے کیے جائیں: ایک کھانے کے لیے، دوسرا پینے کے لیے، تیسرا خالی رکھا جائے۔ آج کل ڈاکٹرز حضرات کھانا کھانے کے ساتھ پانی پینے کو مضر گردانتے ہیں اور اس سے منع کرتے ہیں، جب کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ کھانا کھانے کے بعد پانی کے لیے جگہ خالی رکھی جائے۔ براہِ کرم وضاحت فرما دیں؟

ج:مقداد بن معدی کربؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَامَلأَ آدَمِیٌّ وِعَائً شَرًّا مِّنْ بَطْنٍ ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ اُکَیْلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہ، فَاِنْ کَانَ لَا مَحَالَۃَ فَثُلُثٌ لِطَعَامِہٖ وَثُلُثٌ لِشَرَابِہٖ وَثُلُثٌ لِنَفَسِہٖ (ترمذی: ۲۳۸۰، ابن ماجہ: ۳۳۴۹، صحیح ابن حبان: ۵۲۱۳) کسی آدمی نے پیٹ سے برابر تن نہیں بھرا۔ ابن آدم کے لیے اپنی پیٹھ سیدھی رکھنے کے لیے چند لقمے کافی ہیں۔ اگر وہ لازماً زیادہ کھانا ہی چاہے تو (پیٹ کے تین حصے کرلے) ایک تہائی کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس کے لیے)۔

علامہ البانیؒ نے اس حدیث کی تخریج اپنی کتاب ارواء الغلیل میں کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث میں بڑی حکمت کی بات بتائی گئی ہے۔ اس میں شکم پُری سے روکا گیا ہے۔ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل پیٹ کی جتنی بیماریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے زیادہ تر بسیارخوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ دعوتوں اور تقریبات کو جانے دیجیے، لوگ روزمرہ کے معمولات میں کھانے کا اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے، وہ کھانے ہی کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ اس حدیث سے یہ تعلیم ملتی ہے کہ آدمی کھانے کے لیے زندہ نہ رہے، بلکہ زندہ رہنے کے لیے کھائے۔

کھانے کے دوران یا اس سے فارغ ہوتے ہی فوراً پانی پینا طبی اعتبار سے درست نہیں ہے۔ معدے سے ایسے افرازات (secretions) خارج ہوتے ہیں جو ہضمِ غذا میں معاون ہوتے ہیں۔ کھانا معدے میں پہنچتا ہے تو وہ افرازات اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس طرح کھانا درست طریقے سے جلد ہضم ہوتا ہے۔ کھانے کے دوران یا اس کے فوراً بعد پانی پی لینے سے ان افرازات کی تاثیر کم یا ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ کھانے سے فراغت کے نصف گھنٹے کے بعد پانی پیا جائے۔

مذکورہ بالا حدیث میں کھانے کے بعد فوراً پانی پینے کا حکم نہیں دیا گیا ہے، بلکہ اس میں صرف یہ بات کہی گئی ہے کہ آدمی اپنے پیٹ کو کھانے سے مکمل نہ بھرلے، بلکہ کچھ گنجایش پانی کے لیے بھی رکھے۔ اب اگر کوئی شخص کھانے سے فارغ ہونے کے کچھ دیر بعد پانی پیے تو اس سے حدیث کی مخالفت نہ ہوگی، بلکہ طبی اعتبار سے یہ بہتر ہوگا۔(ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی)