کچھ خواتین نے کتاب و سنت کے اتباع اور عملی تطبیق کے ذریعے اپنے اخلاق اور طرزِ حیات کو بدلنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اندر یہ جذبہ اس لیے پیدا ہوا کہ انھوں نے تحرّک بالقرآن والسنۃ کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی۔ اس میں انھیں اس کی عملی تربیت دی گئی تھی۔
پروگرام کا آغاز معلمہ نے ان الفاظ سے کیا کہ قرآن کریم ۶ہزار سے زائد آیات پر مشتمل ہے۔ یہ آیات ہم سے مخاطب ہیں اور عمل اور معاشرے میں ایک تحرک اور بیداری کی فضا پیدا کرنے کی دعوت دے رہی ہیں۔ سنت ِ رسولؐ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ کتنی احادیث ہیں جن کا تقاضا ہے کہ ہم اُن کا قُرب اختیار کریں تاکہ معاشرے میں عمل کے لیے ایک تحرک پیدا ہو۔ معلمہ نے شرکاے تربیت سے گفتگو میں آیات و احادیث کو تحرک کا ذریعہ بنانے اور ان کے نفاذ و تطبیق کی عملی کوشش پر زور دیا۔ معلمہ نے کہا کہ اس کام کا آغاز اُن آیات و احادیث سے کیا جائے جن کا تعلق براہِ راست ہماری روزمرہ زندگی سے ہے اور جو ہمارے دوست احباب اور گھر، خاندان اور عزیز و اقارب کے معاملات کو درست کرنے کا سبب بن سکیں۔
عملی تربیت کے بعد خواتین میں رفتہ رفتہ آیات و احادیث کے ساتھ تعامل شروع ہوگیا اور پھر عملی جدوجہد کرنے والی خواتین نے تبدیلی کو رُونما ہوتے ہوئے محسوس کیا ۔
طالبات اپنے منفرد عملی تجربات پر بہت خوش تھیں۔ معلّمہ اُن کی حوصلہ افزائی اور اُن کے تجربات پر تبصرہ و راے بھی دے رہی تھی۔ طالبات کے ذہنوں میں یقینا بہت سے سوال ہوں گے جن کا وہ جواب معلوم کرنا چاہتی تھیں۔ ایک طالبہ نے کہا: یہ تو ممکن نہیں ہے کہ ہم قرآن کریم کی تمام آیات کے ذریعے تحرک پیدا کرسکیں۔ کچھ آیات تو صرف احکام اور فرائض بیان کرتی ہیں، مثلاً:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ o(البقرہ ۲:۱۸۳) اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑکے پیروکاروں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔
معلمہ نے کہا: یہ آیت اہلِ ایمان سے مخاطب ہے کہ روزے اُن پر اُسی طرح فرض ہیں جس طرح اُن سے پہلے لوگوں پر فرض تھے تاکہ وہ اس طریقے سے تقویٰ اختیار کرسکیں۔
معلمہ نے طالبہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا: کیا آپ اس سے قبل تقویٰ کے موضوع پر ہونے والے دروس میں شریک ہوئی تھیں؟ طالبہ نے جواب دیا: جی ہاں، مگر میں تقویٰ کے بارے میں درس سنتی ہوں اور گھر پہنچنے سے پہلے اُسے بھول جاتی ہوں۔ یوں بہت تھوڑی باتیں میری یادداشت میں محفوظ رہ سکی ہیں حالانکہ ان دروس میں مَیں پوری توجہ اور انہماک سے شریک رہی ہوں۔ معلمہ یہ سن کر مسکرائی اور دورے میں شریک تمام خواتین سے یہی سوال پوچھ لیا کہ اس بارے میں اُن کا تجربہ کیا ہے؟ جواب ملا جلا تھا، کچھ اِس طالبہ کی طرح اور کچھ مختلف۔
یہ کیفیت دیکھنے کے بعد معلّمہ نے ہرطالبہ کو اپنے لیپ ٹاپ پر وَمَن یَتَّقِ اللّٰہَ کے الفاظ تلاش کرنے کے لیے کہا۔ یہ بھی کہا کہ ہرطالبہ سکرین پر نمودار ہونے والی عبارتوں کے بارے میں مجھے آگاہ بھی کرے۔ طالبات نے یہ الفاظ تلاش کرتے ہی بلند آواز میں ان عبارتوں کو پڑھنا شروع کر دیا۔ اگرچہ آوازیں متعدد و متنوع تھیں مگر مضمون سب کا ایک تھا، یعنی:
معلمہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ذرا بتایئے کہ ہم میں سے کون ہے جس کو اپنے معاملات میں آسانی کی ضرورت نہیں ہے؟ دوسری عبارت اس آیت کی تھی:
معلمہ نے کہا:تکفیر ذنوب اور تعظیم اجروثواب کا مطلب ہے ہمیں سابقین میں شامل کردیا گیا۔ یہ تو ربِ کریم کا فضل اور مہربانی ہے۔اس سے اگلی عبارت تھی:
سبحان اللہ! تقویٰ کے بدلے میں نہ صرف راہِ نجات کھول دی گئی بلکہ رزق کا بھی وعدہ مل گیا۔
اسی سرگرمی کو دُہراتے ہوئے جب لفظ تَتَّقُوْا تلاش کیا گیا تو یہ آیت سامنے آگئی:
معلمہ نے شرکا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہم اُس وقت کتنی بدنصیبی کا شکار ہوتے ہیں جب باطل کے ساتھ حق خلط ملط ہوجائے اور کوئی فرد اُن کے درمیان فرق و امتیاز نہ کرسکے۔ ایسے موقعے پر کیا ہی بہتر ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لیے دونوں چیزوں کے درمیان فرق واضح کردے اور ہم حق کو حق کے رنگ میں دیکھ لیں، اور اُسی وقت اللہ سے اتباعِ حق کی دُعا کریں ۔اللہ تعالیٰ صرف یہی چیزیں واضح نہیں کرے گا بلکہ بُرائیوں کو مٹا دے گا اور گناہوں کو بخش دے گا۔پھر اگلی آیات یہ تھیں:
یہ آیات پڑھنے کے بعد معلمہ نے کہا: کیا ہم ان آیات میں دیکھ نہیں رہے کہ تقویٰ تو دائمی طور پر مطلوب ہے۔ یہاں تک کہ ایمان، صبر، احسان اور اِصلاح سب کیفیات اور اعمال میں مطلوب ہے۔
روزہ تقویٰ کے عملی وسائل میں سے ہے۔ یہ نفس کو تقویٰ کے لیے تیار کرتا ہے اور نفس اس کے ذریعے تقویٰ کی منزل تک رسائی پاتا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑی اور خوب صورت کوئی بات ہے کہ اللہ تیرے لیے کافی ہوجائے، تیرے معاملات آسان ہوجائیں، تیرا رزق وافر ہوجائے، تیرے گناہ معاف ہوجائیں اور بُرائیاں مٹا دی جائیں، تیری حسنات کا اجر عظیم سے عظیم تر ہوجائے، تیرا عزم و ہمت بلند ترین سطح پر پہنچ جائے، اور یہ سب کچھ اللہ کریم و خبیر و بصیر کے علم میں ہو؟
روزہ ان تمام چیزوں کے حصول میں معاون ہے۔ دل جب ان مفاہیم سے لبریز ہوجائے اور ان کی حلاوت محسوس کرنے لگے تو اس کے لیے نفل روزوں کا اہتمام کرنا آسان تر ہوجاتا ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ روزے رکھنے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے۔ پھر جب شیطان وسوسہ پیدا کرتا ہے کہ گرمی بہت شدید ہے، پیاس ناقابلِ برداشت ہے، دن بہت لمبا ہے، معاملہ بہت مشکل اور کٹھن ہے، یہ اور اس طرح کے عزم و ہمت کو کمزور کرنے والے کئی وسوسے جب انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں تو مذکورہ آیت ِ کریمہ اُس کی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے اور اُسے اُس عظیم خبر کی یاد دہانی کراتی ہے جس کا انسان منتظر ہوتا ہے۔ یہ بات کسی شک و شبہے سے بالا ہے کہ صبر صاحب ِ عزیمت لوگوں کا امتیازی وصف ہے اور انھیں خیرواطاعت کی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ رمضان کو دیکھیے کہ جب یہ مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے تو دل اس آیت ِ کریمہ پر توجہ مرکوز کرلیتا ہے جو دلوں کو صیامِ رمضان کے اجر کی خوش خبری سے شاداں و فرحاں کرتی ہے۔ انھیں دعوت دیتی ہے کہ وہ اس بات پر فخر و انبساط کا اظہار کریں کہ وہ بھی قافلۂ مومنین و سابقین میں شامل ہوگئے ہیں۔ یہ آیت انھیں یاد دلاتی ہے کہ وہ تقویٰ کی منزل تک جانے والی شاہراہ پر محوِسفر ہیں۔ یوں صیام و قیامِ رمضان اور افعالِ خیر کی سرگرمی رواں دواں رہتی ہے۔ یہ ہے اس آیت کریمہ کے ذریعے عملی تحرک و تطبیق کا ایک نمونہ!
معلمہ کی گفتگو جاری تھی کہ نمازِ عشاء کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی۔ معلمہ نے گفتگو روک دی اور کلماتِ اذان کا جواب دیتی رہیں۔ ہال میں موجود خواتین اس دوران سلام دعا، حال احوال جاننے اور تعارف میں مصروف ہوگئیں۔ معلمہ نے اختتامِ اذان پر دُعا پڑھی اور دوبارہ حاضرین مجلس سے مخاطب ہوکر کہا: کلماتِ اذان کا جواب اور اختتامی دُعا ایک خیرِعظیم ہے جسے تمھاری غفلت نے ترک کیے رکھا۔ یہ بھی اعمالِ تقویٰ میں سے ہے۔ معلمہ نے ابھی آیت وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآئِرَ اللّٰہِ تک پڑھی تھی کہ پورا ہال بہ یک زبان پکار اُٹھا:فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ (الحج ۲۲:۳۲)’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘۔
معلمہ نے پوچھا: پھر تم اس کا عملی نفاذ کیوں نہیں کرتیں؟ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلماتِ اذان کو مؤذن کے ساتھ ساتھ دُہرانے کی ہمیں تعلیم و تلقین نہیں فرمائی؟ جو شخص ان کلمات کو دہرائے گا وہ اُن تمام انعامات و اکرامات سے نوازا جائے گا جو اللہ سے تقویٰ رکھنے والے شخص کو عطا ہوں گے، یعنی اُس کے معاملات میں آسانی، گناہوں کی بخشش، رزق میں فراوانی، مصائب و مشکلات سے نجات اور اللہ مالک الملک کا اُس کے لیے کافی ہوجانا۔ اسی طرح اذان و اقامت کے درمیان کی جانے والی دعا کا ردّ نہ ہونا۔ یہ تمام نوازشیں اُس شخص کے لیے ہیں جو تقویٰ کی اہمیت کو جانتا پہچانتا ہو اور پھر اُسے اختیار کرتا ہو، یعنی عملی تقویٰ۔
خواتین نے ان باتوں کو نہایت انہماک سے سنا۔ ایک نے تو کہا: یہ باتیں سنتے ہوئے ہمیں تو یوں لگ رہا تھا کہ پہلی بار سن رہے ہیں۔ اس طرح سے روزے اور اذان کی عملی تطبیق کا شوق دلوں میں بیدار ہوگیا۔ آیندہ پروگرام میں خواتین کی غالب تعداد روزے سے تھی اور جونہی نماز کے لیے مؤذن کی آواز بلند ہوئی تو پورے ہال پرعاجزانہ خاموشی کی چادر تن گئی۔ سب خواتین اذان کے اختتام تک کلماتِ اذان دہراتی رہیں۔ اللہ اکبر! یہ عظیم دین کتنا خوب صورت ہے!! (magmj.com)