۱۶ جون کو اکثر مسلمان ممالک میں شعبان کی ۲۹ تاریخ تھی، رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کا دن۔ بدقسمتی سے عین اسی روز کچھ بدنصیب اپنا نام مزید ظلم و ستم ڈھانے والوں میں لکھوا رہے تھے۔ قاہرہ کی عدالت میں ملک کے منتخب صدر محمد مرسی اور اخوان کے مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع سمیت اخوان کے درجنوں قائدین جمع تھے اور انھیں ایک بار پھر سزاے موت اور عمر قید کی سزائیں سنائی جارہی تھیں۔ حالانکہ کمرۂ عدالت میں انصاف کرنے کا حکم دینے والی آیت قرآنی بھی جلی حروف میں لکھی تھی، لیکن مصر کے جج، احکام الٰہی کے نہیں، ’مصری فرعون‘ کے احکام پر عمل کے پابند ہیں۔ سب سزا یافتہ اپنے اپنے پیشہ ورانہ میدان کے شہ دماغ ہیں۔ صدر محمد مرسی انجینیرنگ میں پی ایچ ڈی، مرشد عام ڈاکٹر محمد بدیع میڈیکل یونی ورسٹی کے پروفیسر، نائب مرشد عام خیرت کامرس میں پی ایچ ڈی اور عالم عرب کے چوٹی کے ۱۰۰ کامیاب ترین ماہرین اقتصادیات میں سے ایک۔یہی نہیں بلکہ درجنوں کی تعداد میں یہ سب نابغہء روزگار دلوں میں قرآن بسائے، دن رات قرآن کی صحبت میں گزارنے والے حفاظ کرام بھی ہیں۔
تمام سزا یافتگان نے فیصلہ سن کر تکبیر تحمید اور تہلیل بلند کی، اللّٰہ اکبر وللّٰہ الحمد لااِلٰہ اِلَّا اللّٰہ۔ صدر محمد مرسی ایمان افروز خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:’’ ان سے کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو خود تمھاری موت جب آئے اُسے ٹال کر دکھا دینا۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوئے ہیں انھیں مُردہ نہ سمجھو، وہ تو حقیقت میں زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پارہے ہیں، جو کچھ اللہ نے اپنے فضل سے انھیں دیا ہے، اُس پر خوش و خرم ہیں، اور مطمئن ہیں کہ جو اہل ایمان ان کے پیچھے دنیامیں رہ گئے ہیں اور ابھی وہاں نہیں پہنچے ہیں ان کے لیے بھی کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں ہے۔ وہ اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر شاداں و فرحاں ہیں اور ان کو معلوم ہوچکا ہے کہ اللہ مومنوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا۔(ایسے مومنوں کے اجر کو) جنھوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسولؐ کی پکار پر لبیک کہا___ ان میں جو اشخاص نیکو کار اور پرہیز گار ہیں ان کے لیے بڑا اجر ہے___ جن سے لوگوں نے کہا کہ ’’تمھارے خلاف بڑی فوجیں جمع ہوئی ہیں، اُن سے ڈرو‘‘، تو یہ سن کر ان کا ایمان اور بڑھ گیا اور انھوں نے جواب دیا کہ ’’ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے‘‘۔ آخر کار وہ اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل کے ساتھ پلٹ آئے، ان کو کسی قسم کا ضرر بھی نہ پہنچا اور اللہ کی رضا پر چلنے کا شرف بھی انھیں حاصل ہوگیا، اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ اب تمھیں معلوم ہوگیا کہ وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خوامخواہ ڈرارہا تھا۔ لہٰذا آیندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سے ڈرنا، اگر تم حقیقت میں صاحبِ ایمان ہو‘‘(اٰل عمرٰن ۳:۱۶۸-۱۷۵) ۔ محمد مرسی نے تلاوت مکمل کی تو پورا کمرۂ عدالت ایک بار پھر اس آیت سے گونج اُٹھا: حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُo (الِ عمرٰن ۳:۱۷۳) ۔پورے خطاب کے دوران، ظالم جج شرمندگی سے سرجھکائے بیٹھے رہے، جب کہ سزاے موت کا حکم سننے والے یہ قائدین تمتماتے چہروں کے ساتھ سرخرو تھے۔ ان میں سے کئی بزرگ کہہ رہے تھے: ’’سب نے اپنے اپنے مقررہ وقت پر یقینا جانا ہے۔ ہم نے تو اسی موت کے لیے ۴۰سال انتظار اور جدوجہد کی ہے‘‘۔
اللہ کی قدرت ملاحظہ ہو کہ اسی کمرۂ عدالت میں اسی چیف جج نے چند روز قبل بھی ان رہنماؤں کو سزاے موت سنائی تھی۔ اس وقت اس کے دائیں طرف ایک کرخت چہرے والا جج (جمال عبدہ) بیٹھا تھا۔ سزا سنانے کے چند روز بعد ۱۳ جون کو کمرۂ عدالت میں بیٹھے بیٹھے ہی اس کی حرکت قلب بند ہوئی اورسامنے کھڑے اللہ والوں کو دھڑا دھڑ موت کی سزا سنانے والا، خود ان سے پہلے اللہ کی عدالت میں حاضر کردیاگیا۔ اس سے پہلے ۱۹ مارچ کو بھی اسی طرح کے ایک حیرت انگیز واقعے میں ایک جج احمد سعد کا دل ڈوبا، اور وہ دنیا سے کوچ کرگیا۔ یہ وہی جج تھا جس نے موت سے تین ہفتے قبل تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا تھا۔ رب ذو الجلال کی بے آواز لاٹھی اور اس کی قدرت ملاحظہ کیجیے کہ یہ سطور لکھتے ہوئے ٹی وی پر تازہ ترین خبر چل رہی ہے: ’’مصری صوبے دَمَنہور کا چیف جسٹس حازم الکحیلی اب سے پانچ منٹ پہلے ٹریفک حادثے میں ہلاک ہوگیا، حادثہ اتنا شدید اور عجیب تھا کہ جج کا سرتن سے کٹ کر دور جاگرا۔ یہ جج بھی اخوان کے کئی بے گناہ اللہ والوں کو سزائیں سنا چکا ہے۔ان میں ۱۷ سالہ معصوم طالبہ سارہ رضوان بھی شامل ہے، جسے اکتوبر ۲۰۱۴ء میں اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا، اور دہشت گردی کے جھوٹے الزامات لگا کر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ پروردگار عالم نے فرمایا ہے: اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَعِبْرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰیo (النازعات ۷۹:۲۶)’’ اس میں (اللہ سے) ڈرنے والوں کے لیے بڑی عبرت ہے‘‘۔ وَّاللّٰہُ مِنْ وَّرَآئِھِمْ مُّحِیْطٌ o(البروج۸۵:۲۰)’’ اور اللہ نے انھیں گھیرے میں لے رکھا ہے‘‘۔
ظالم حکمران ہیں کہ کسی بھی تنبیہہ سے عبرت حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ ۵۲ فی صد مصری عوام کے منتخب صدر کو کئی بار مختلف سزائیں سنانے کے بعد اب سزاے موت کا حتمی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ ۲۱جون کو انھیں عدالت میں لایا گیا تو انھیں پہلی بار سرخ لباس میں لایا گیا۔ کسی قیدی کا سرخ لباس اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اسے کسی بھی وقت پھانسی دی جاسکتی ہے۔ صدر محمد مرسی سے پہلے یہ سرخ جوڑا اخوان کے مرشدعام کو بھی پہنایا جاچکا ہے، اور اب ڈاکٹر محمد بلتاجی کو بھی۔ ڈاکٹر بلتاجی کا ایک بیٹا بھی ان کے ساتھ جیل میں بند ہے۔ بیٹی اسماء بلتاجی رابعہ میدان میں شہید کردی گئی تھی اور دوسرا بیٹا لاپتا ہے۔ لیکن سرخ جوڑا پہنے ڈاکٹر بلتاجی عدالت آئے تو چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ سامنے بیٹھے جج کے سامنے کھڑے ہوکر بلندآواز سے کہا: جج صاحب! آپ لوگ ہمیں روزانہ بھی کئی کئی بار پھانسیاں چڑھائو ہم تب بھی کسی صورت تم سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
اخوان کی اولوالعزمی ہے کہ بدترین جبر و تشدد کے دو برس گزر جانے کے بعد بھی ان کی تحریک ختم نہیں کی جاسکی۔ ۳۰ جون سیسی کے خونیں انقلاب کی دوسری سال گرہ بلکہ ’برسی‘ ہے۔ عین ممکن ہے اس موقعے پر سزائوں پر عمل درآمد کردیا جائے لیکن مظلوم قیدیوں سے زیادہ جابر حکمرانوں کو یقین ہے کہ بالآخر ظلم کا انجام بدترین اور عبرت ناک ہوگا، بالکل فرعون کی طرح۔ اس موقعے پر ایک کوشش اخوان کے اندر غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا کرنے کی بھی ہورہی ہے۔کچھ جذباتی نوجوانوں کو پُرامن تحریک سے مسلح جدوجہد کی طرف دھکیلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ لیکن یہ کوششیں بھی کوئی نئی بات نہیں پرانا ابلیسی ہتھکنڈا ہے اور الحمدللہ اخوان اس سے نمٹنا خوب جانتے ہیں۔