بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، چین، لائوس، بھارت اور خلیج بنگال کے درمیان گھرا ہوا میانمار (برما) مسلم اقلیت کے ساتھ جو ظالمانہ و وحشیانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔
بُدھ دہشت گردوں (جنھیں حکومت کی سرپرستی حاصل ہے)نے مسلم رُوہنگیا آبادی کو دو ہی راستے فراہم کیے۔ یہاں سے فرار ہوجائو، ورنہ پوری آبادی کو جلاکر راکھ کردیا جائے گا۔ ۱۰۰، ۱۰۰؍ افراد پر مشتمل رُوہنگیا مسلمانوں کے قافلے چھوٹی کشتیوں پر بٹھا کر کھلے پانیوں میں نامعلوم منزل کی طرف دھکیل دیے گئے کہ یہاں سے نکل کر کہیں پناہ تلاش کرو یا سمندر میں ڈوب مرو۔
۱۳ سے ۱۵ لاکھ رُوہنگیا آبادی کے بارے میں اُن کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ مسلم لوگ بنگال سے ترکِ وطن کرکے برما میں زبردستی آگئے تھے۔ یہ بنگالی غیرملکی ہیں، اجنبی ہیں، انھیں واپس جانا چاہیے، ان کی موجودگی غیرقانونی ہے۔
سابقہ فوجی بُدھ حکومت کی طرح موجودہ جمہوری حکومت بھی اراکانی رُوہنگیا مسلمانوں کو کسی قسم کے حقوق دینے کے لیے تیار نہیں۔ اگرچہ رُوہنگیا مسلمان یہاں ۵۰۰سال سے بھی زائد عرصے سے رہ رہے ہیں۔ اراکان کے نام سے اُن کی ریاست تھی۔ اراکانی ریاست کا نام بھی پانچ اراکینِ اسلام کی وجہ سے اراکان رکھا گیا تھا۔
مئی کے تیسرے ہفتے میں ملائیشیا کے ساحلی علاقوں سے کم و بیش ۱۳۵؍افراد کی لاشیں ملیں۔ اُنھیں بے سروسامانی ، بیماری اور غذائی قلت سے ہلاک ہونے والے رُوہنگیا شناخت کیا گیا۔ یہ حقیقت ہے کہ لاتعداد افراد ابھی سمندر میں موجود ہیں اور خدشہ ہے کہ ان کشتیوں کا پٹرول ختم ہوتے ہی یہ افراد غرق ہوجائیں گے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے حوالے سے رسائل و جرائد میں تصاویر بھی شائع ہوئیں۔ سیکڑوں رُوہنگیا مسلمان نوجوانوں کی کھلے سمندروں میں موجودگی کا پتا لگا۔ جب کہ انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ، آسٹریلیا، کمبوڈیا اور بنگلہ دیش کی سیکورٹی افواج ان کشتیوں کو ساحل تک پہنچنے ہی نہیں دیتیں، کجا یہ کہ ان کی جان بچائیں۔
خوراک کی عدم دستیابی، کشتیوں میں مسلسل موجودگی اور بدترین حالات کی وجہ سے ۵۰۰ سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ایک اہل کار نے خلیج بنگال سے ملحقہ ممالک سے اپیل کی کہ وہ سمندری قوانین کی پاس داری کرتے ہوئے کم از کم ان کی زندگی کو بچانے کی کوشش کریں اور ان کو عارضی قیام گاہیں فراہم کریں یا انسانی ہمدردی کی بنا پر جو کرسکتے ہوں کریں لیکن اس کا خاطرخواہ اثر نہ ہوا۔ تاہم تھائی لینڈکی حکومت نے فضائی ذرائع سے خوراک کی تقسیم کا معمولی سا سلسلہ شروع کیا لیکن خوراک اور پینے کے پانی کے حصول کے لیے چھیناجھپٹی کے دوران سمندر میں گرکر ہلاک ہونے والوں کی تعداد بھی دل دہلا دینے والی ہے۔ اس المیے کے بارے میں غور کے لیے انڈونیشیا، ملایشیا، تھائی لینڈ اور میانمار کے وزراے خارجہ کی میٹنگ ۲۱مئی کو طے کی گئی۔ مگر میانمار نے شرکت نہ کی اور موقف اختیار کیا کہ اس کانفرنس میں ’رُوہنگیا‘ کا لفظ استعمال کیا جارہا ہے۔ یاد رہے انتہاپسند بُدھ شہری اور سرکاری افراد اُس اجلاس میں شرکت ہی نہیں کرتے جہاں ’رُوہنگیا‘ لفظ استعمال ہو۔نوبل انعام یافتہ آن سان سوچی کی خاموشی بھی ناقابلِ فہم ہے۔
رُوہنگیا اپنے علاقے میں محدود رہتے ہیں۔ اُن کے علاقوں کے اردگرد بھاری فوج تعینات رہتی ہے۔ اپنے علاقے سے باہر نکلنا اُن کے لیے ممکن نہیں۔ کسی بھی وقت اُن پر مسلح دہشت گرد حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ پولیس اور فوج اِن دہشت گردوں کی مددگار ہوتی ہے۔ کوئی ادارہ اُن کی آہ و بکا پر رپورٹ درج کرنے اور قانونی کارروائی کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جبری مشقت کے ذریعے بھی وہ اراکانی مسلمانوں کو ختم کرنے یا سزا دینے پر عمل پیرا ہیں۔
۲۰۱۲ء میں بُدھ دہشت گردوں کے حملوں سے ڈیڑھ لاکھ افراد اپنے گھربار سے محروم کر دیے گئے تھے۔ ۸۰۰ ؍افراد ظالمانہ طریقے سے ہلاک کردیے گئے تھے۔ اُس وقت سے اب تک تنائو اور خوف کی کیفیت طاری ہے اور اسی دہشت کے نتیجے میں مسلمانوں کے لیے یہاں رہنا مشکل ترین بن کر رہ گیا ہے۔ ۲۰۱۲ء کے افسوس ناک واقعات کے بعد سے کشتیوں کے ذریعے جبری انخلا کہیے، فرار کہیے، یا انسانی اسمگلروں کا جال___ ایک لاکھ افراد میانمار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس سرگرمی میں بُدھ دہشت گرد بھی شامل ہیں جنھوں نے انسانی اسمگلروں کو قانونی تحفظ اور ایسی سہولتیں فراہم کر رکھی ہیں کہ وہ رُوہنگیا لوگوں کو اغوا کریں، قید کریں یا لالچ دیں اور انھیں کشتیوں میں بھر کر سمندر میں لے جائیں۔ رُوہنگیا قوم ’دُنیا کی انتہائی بے سہارا اور بے یارومددگار قوم‘ ہے۔ کشتیوں میں عموماً نوجوان کو سمگل ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ مزاحمت کرنے والے باقی نہ رہیں اور بعد میں میانمار کی سرزمین پر بوڑھے لوگوں، عورتوں اور بچوں کا بآسانی صفایا کیا جاسکے۔ نوجوان مسلم لڑکیوں کی عصمت دری کی داستانیں اس کے علاوہ ہیں۔
نقشے پر دیکھا جائے تو میانمار راکھن صوبہ ( سابقہ اراکان ریاست) بھی بنگلہ دیش کے ساتھ جغرافیائی طور پر ملحق ہے۔ اس کی برما سے قربت سمندر کے ذریعے ہے۔ کئی ہزار اراکانی مسلمان گذشتہ برسوں سے بنگلہ دیش میں قیام پذیر ہیں۔ اُن کی داستانِ غم علیحدہ ہے۔ موجودہ المیے کے آغاز میں یہ خبریں بھی آئیں کہ کشتیوں میں سوار ہونے والے لوگوں میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رُوہنگیا بھی ہیں، تاہم بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد نے ساحلی پٹی پر تعینات سیکورٹی گارڈز کو یہ پیغام دینے کا موقع ضائع نہ کیا کہ ان کشتی سواروں میں سے کوئی بھی فرد بنگلہ دیش میں داخل نہ ہو۔ بنگلہ دیش کم از کم اُنھیں موت کے منہ میں جانے سے بچاسکتا ہے لیکن یہ کون سوچتا ہے۔ ۲۰۱۲ء میں بھی پناہ کے طلب گاروں کو بنگلہ دیشی حکومت نے ساحلی علاقوں پر نہ اُترنے دیا تھا۔ طوفانی لہروں کا مقابلہ کرنے والے کشتی والے دربدر انسانوں کا معاملہ بین الاقوامی برادری کے سامنے آیا تو امریکی صدر باراک اوباما نے صرف یہ بیان دینے پر اکتفا کیا کہ ’’برما کی حکومت کو چاہیے کہ وہ نسلی و لسانی بنیاد پر امتیاز ختم کرے‘‘۔ امریکا نے حسب معمول مسلمانوں کے قتلِ عام، بے دخلی ، نسلی تطہیر اور جلاوطنی کو برداشت کرلیا۔ گذشتہ ۵۰، ۶۰برس سے جو دہشت گردی میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کر رہی ہے اُس کے خلاف امریکا ، روس اور چین نے کوئی بامعنی موقف اختیار نہیں کیا۔
میانمار کے اندر ایسے بُدھ بھکشو دندناتے رہے کہ جو اسلام کو اور مسلمانوں کا صفایا کرنے کی تعلیم دینے میں مصروف ہیں۔ چند بُدھ عبادت گاہوں سے باقاعدہ یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اس سرزمین کو مسلم غیرملکیوں سے پاک کردو۔ ان کو زندگی سے محروم کردو۔ پیدایش اور موت کا اندراج، پاسپورٹ ، تعلیم، علاج، سفر، رہایش ایسے معاملات میں مسلمانوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملازمت اور سرکاری اداروں میں عمل دخل کا سوال ہی نہیں۔ ان کے لیے زندہ رہنے کے لیے یہی راستہ چھوڑا گیا ہے کہ وہ باپ دادا کے نام بدھوں جیسے ظاہر کرکے بُدھ تہذیب اور کلچر کو اختیار کرلیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، نکاح چھوڑ دیں۔
پاکستان، بنگلہ دیش، سعودی عرب، انڈونیشیا، ملایشیا، برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں چندہزار یا ایک لاکھ کے لگ بھگ جو اراکانی مسلمان موجود ہیں اُن کا مستقبل بھی محفوظ نہیں ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ وغیرہ نے مسئلے کو شدت سے اُٹھایا اور عالمی برادری کے سامنے اسے سمندروں میں تیرتے تابوت کی صورت میں پیش کیا۔ان تنظیموں کے نمایندوں نے جن الم ناک حالات کی نشان دہی کی وہ بیان سے باہر ہے۔
مادرِ وطن چھوڑ کر سمندروں میں زندگی اور ٹھکانے کی تلاش کرنے والے دربدر رُوہنگیا مسلمانوں کے حق میں ترکی کے علاوہ پاکستان میں بھی مختلف دینی تنظیموں نے مظاہرے کیے۔ حکومت پاکستان نے خصوصی کمیٹی بناکر اسلامی ممالک کی تنظیم سے بھی رابطہ کیا، اقوامِ متحدہ میں اس مسئلے کو اُٹھانے کا جائزہ لیا اور ۵۰لاکھ ڈالر کی امداد بھی مختص کی تاکہ اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ذریعے اِن درماندہ لوگوں کی خوراک کا بندوبست کیا جاسکے۔
امیرجماعت اسلامی جناب سراج الحق نے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط کے ذریعے اس کا فریضہ یاد دلایا کہ برما کی حکومت پر دبائو ڈال کر ان مسلمانوں کو اپنے وطن بھیجا جائے اور اقوامِ عالم کی توجہ اس طرف بھی مبذول کرائی کہ جنوبی سوڈان، مشرقی تیمور کی طرح اراکانی مسلمان بھی انسان ہیں، ان کے بھی حقوق ہیں اور ان کو کم از کم زندہ رہنے اور اپنی ہی سرزمین پر سانس لینے کی اجازت تو دی جائے۔ اراکان مسلمانوںکو اپنی ہی سرزمین پر رہنے کا حق دیا جائے۔ وگرنہ میانمار پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں۔