وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ o ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ o مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیْبِنِ o ادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ o (قٓ ۵۰:۳۱-۳۴) اور جنت متقین کے قریب لے آئی جائے گی، کچھ بھی دُور نہ ہوگی۔ ارشاد ہوگا: ’’یہ ہے وہ چیز جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو بہت رجوع کرنے والا اور بڑی نگہداشت کرنے والا تھا، جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔ داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘۔ وہ دن حیاتِ ابدی کا دن ہوگا۔
تقویٰ: [اہلِ جنت کی صفات میں سے پہلی صفت تقویٰ ہے۔] اللہ تعالیٰ کی عدالت سے جونہی کسی شخص کے متعلق یہ فیصلہ ہوگا کہ وہ متقی اور جنت کا مستحق ہے، فی الفور وہ جنت کو اپنے سامنے موجود پائے گا۔ وہاں تک پہنچنے کے لیے اُسے کوئی مسافت طے نہیں کرنی پڑے گی کہ پائوں سے چل کر یا کسی سواری میں بیٹھ کر سفر کرتا ہوا وہاں جائے اور فیصلے کے وقت اور دخولِ جنت کے درمیان کوئی وقفہ ہو، بلکہ اِدھر فیصلہ ہوا اور اُدھر متقی جنت میں داخل ہوگیا۔ گویا وہ جنت میں پہنچایا نہیں گیا ہے بلکہ خود جنت ہی اُٹھا کر اس کے پاس لے آئی گئی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عالمِ آخرت میں زمان و مکان کے تصورات ہماری اِس دنیا کے تصورات سے کس قدر مختلف ہوں گے۔ جلدی اور دیر اور دُوری اور نزدیکی کے وہ سارے مفہومات وہاں بے معنی ہوں گے جن سے ہم اس دنیا میں واقف ہیں۔
رجوع الی اللّٰہ: اصل میں لفظ اَوّاب استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جس نے نافرمانی اور خواہشاتِ نفس کی پیروی کا راستہ چھوڑ کر طاعت اور اللہ کی رضا جوئی کا راستہ اختیار کرلیا ہو، جو ہر اُس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کو ناپسند ہے، اور ہر اُس چیز کو اختیار کرلے جو اللہ کو پسند ہے، جو راہِ بندگی سے ذرا قدم ہٹتے ہی گھبرا اُٹھے اور توبہ کرکے بندگی کی راہ پر پلٹ آئے، جو کثرت سے اللہ کو یاد کرنے والا اور اپنے تمام معاملات میں اُس کی طرف رجوع کرنے والا ہو۔
اللّٰہ سے تعلق کی نگھداشت: اصل میں لفظ حفیظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں: ’حفاظت کرنے والا‘۔ اس سے مراد ایسا شخص ہے جو اللہ کے حدود اور اس کے فرائض اور اس کی حُرمتوں اور اس کی سپرد کی ہوئی امانتوں کی حفاظت کرے، جو اُن حقوق کی نگہداشت کرے جو اللہ کی طرف سے اُس پر عائد ہوتے ہیں، جو اُس عہدوپیمان کی نگہداشت کرے جو ایمان لاکر اُس نے اپنے رب سے کیا ہے ، جو اپنے اوقات اور اپنی قوتوں اور محنتوں اور کوششوں کی پاسبانی کرے کہ ان میں سے کوئی چیز غلط کاموں میں ضائع نہ ہو، جو توبہ کرکے اس کی حفاظت کرے اور اسے پھر نہ ٹوٹنے دے، جو ہروقت اپنا جائزہ لے کر دیکھتا رہے کہ کہیں میں اپنے قول یا فعل میں اپنے رب کی نافرمانی تو نہیں کر رہا ہوں۔
بے دیکہے خدا سے ڈرنا: یعنی باوجود اس کے کہ رحمن اُس کو کہیں نظر نہ آتا تھا، اور اپنے حواس سے کسی طرح بھی وہ اس کو محسوس نہ کرسکتا تھا، پھر بھی وہ اس کی نافرمانی کرتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اس کے دل پر دوسری محسوس طاقتوں اور علانیہ نظر آنے والی زورآور ہستیوں کے خوف کی بہ نسبت اُس اَن دیکھے رحمن کا خوف زیادہ غالب تھا۔ اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ رحمن ہے، اس کی رحمت کے بھروسے پر وہ گناہ گار نہیں بنابلکہ ہمیشہ اس کی ناراضی سے ڈرتا ہی رہا۔ اِس طرح یہ آیت مومن کی دو اہم اور بنیادی خوبیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک یہ کہ وہ محسوس نہ ہونے اور نظر نہ آنے کے باوجود خدا سے ڈرتا ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ خدا کی صفت ِ رحمت سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود گناہوں پر جَری نہیں ہوتا۔ یہی دو خوبیاں اسے اللہ کے ہاں قدر کا مستحق بناتی ہیں۔
اس کے علاوہ اِس میں ایک اور لطیف نکتہ بھی ہے جسے امام رازی نے بیان کیا ہے۔ وہ یہ کہ عربی زبان میں ڈر کے لیے خوف اور خشیت، دو لفظ استعمال ہوتے ہیں جن کے مفہوم میں ایک باریک فرق ہے۔ خوف کا لفظ بالعموم اُس ڈر کے لیے استعمال ہوتاہے جو کسی کی طاقت کے مقابلے میں اپنی کمزوری کے احساس کی بناپر آدمی کے دل میں پیدا ہو۔ اور خشیت اُس ہیبت کے لیے بولتے ہیں جو کسی کی عظمت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہو۔ یہاں خوف کے بجاے خشیت کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ مومن کے دل میں اللہ کا ڈر محض اس کی سزا کے خوف ہی سے نہیں ہوتا، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اللہ کی عظمت و بزرگی کا احساس اُس پر ہروقت ایک ہیبت طاری کیے رکھتا ہے۔
دلِ گرویدہ: اصل الفاظ ہیں قلب ِ مُنیب لے کر آیا ہے۔ مُنیب انابت سے ہے جس کے معنی ایک طرف رُخ کرنے اور باربار اُسی کی طرف پلٹنے کے ہیں۔ جیسے قطب نما کی سوئی ہمیشہ قطب ہی کی طرف رُخ کیے رہتی ہے اور آپ خواہ کتنا ہی ہلائیں جلائیں، وہ ہِرپھر کر پھر قطب ہی کی سمت میں آجاتی ہے۔ پس قلب ِ مُنیب سے مراد ایسا دل ہے جو ہر طرف سے رُخ پھیر کر ایک اللہ کی طرف مڑ گیا اور پھر زندگی بھر جو اَحوال بھی اُس پر گزرے ان میں وہ بار بار اسی کی طرف پلٹتا رہا۔ اِسی مفہوم کو ہم نے دلِ گرویدہ کے الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے ہاں اصلی قدر اُس شخص کی ہے جو محض زبان سے نہیں بلکہ پورے خلوص کے ساتھ سچے دل سے اُسی کا ہوکر رہ جائے۔
[ایسے لوگوں سے کہا جائے گا: ’’داخل ہوجائو جنت میں سلامتی کے ساتھ‘‘]۔ اصل الفاظ ہیں: اُدْخُلُوْھَا بِسَلَامٍ۔سلام کو اگر سلامتی کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہرقسم کے رنج اور غم اور فکر اور آفات سے محفوظ ہوکر اس جنت میں داخل ہوجائو۔ اور اگر اسے سلام ہی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ آئو اس جنت میں اللہ اور اس کے ملائکہ کی طرف سے تم کو سلام ہے۔
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے وہ صفات بتا دی ہیں جن کی بنا پر کوئی شخص جنت کا مستحق ہوتا ہے، اور وہ ہیں: ۱-تقویٰ ۲-رجوع الی اللہ ۳-اللہ سے اپنے تعلق کی نگہداشت ۴-اللہ کو دیکھے بغیر اور اس کی رحیمی پر یقین رکھنے کے باوجود اس سے ڈرنا، اور ۵- قلب مُنیب لیے ہوئے اللہ کے ہاں پہنچنا، یعنی مرتے دم تک انابت کی روش پر قائم رہنا۔(تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص ۱۲۲-۱۲۳)