اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کے ذریعے اپنے دین کو سربلند کرتا ہے ان کے بارے میں اس کی سنت یہی ہے کہ وہ انھیں آزمایش کی بھٹی سے گزار کر ان کی تربیت کرتا ہے اور کندن بناتا ہے اور اپنی مدد و نصرت سے بالآخر ان کے ہاتھوں دین کو غلبہ عطا کرتا ہے۔ یہ سنت انبیاے کرام ؑ، رسولِ اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اہلِ ایمان کے لیے عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصائب و آلام سے پریشان ہوکر انبیا اور اہلِ ایمان پکار اُٹھتے ہیں: مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ (البقرہ ۲:۲۱۴) ’’اللہ کی مدد کب آئے گی؟‘‘جب اہلِ ایمان آزمایش میں استقامت و ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو پھر اللہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اس کی مدد آجاتی ہے اور فرمایا جاتا ہے: اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ o(البقرہ ۲:۲۱۴) ’’سنو! اللہ کی مدد قریب ہے‘‘۔
’’اللہ کی مدد ان لوگوں کے لیے ہے جو اس کے مستحق ہیں۔ اس کی نصرت کے مستحق صرف وہ لوگ ہیں جو آخر تک ثابت قدم رہیں، جو شدائد و آلام میں ثابت قدمی دکھائیں، جو ہلا ڈالنے والی مصیبتوں کے مقابلے میں چٹان ثابت ہوں، جن کے سر طوفانوں کے آگے نہ جھکیں، جنھیں اس بات کا یقین ہو کہ مدد صرف اللہ کی مدد ہے اور وہ اس وقت آتی ہے جب اللہ چاہتا ہے، اور جب آزمایش اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے وہ صرف اللہ کی نصرت کے منتظر ہوتے ہیں، کسی اور حل کے نہیں اور نہ کسی اور مدد کے، جو اللہ کی طرف سے نہ آئے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدد اور نصرت اللہ ہی کی طرف سے ہے۔
اس کے نتیجے میں اہلِ ایمان جنت میں داخل ہوتے ہیں۔ وہ جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص، صرف اللہ کے تصور اور اس کے سوا ہر شے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کے بعد جنت کے مستحق و سزاوار ہوتے ہیں۔
کش مکش اور اس میں صبرواستقامت سے نفوس کو قوت و رفعت ملتی ہے۔ مصائب و آلام کی کٹھالی میں وہ تپ تپ کر پاک صاف ہوتے اور ان کا جوہر روشن و مصفٰی ہوجاتا ہے۔ اس سے ان کے عقیدے میں گہرائی، قوت اور زندگی پیدا ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کی آب و تاب سے مخالفوں اور دشمنوں کی نظریں خیرہ ہوجاتی ہیں اور وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہونے لگتے ہیں___ جیساکہ واقع ہوا اور جیساکہ ہرحق کے معاملے میں ہوتا ہے۔ ابتدا میں اہلِ حق ہر طرح کے حالات سے دوچار ہوتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ آزمایش میں ثابت قدم رہتے ہیں تو ان سے جنگ کرنے والے خود ان کے دائرے میں آجاتے ہیں اور ان کے بدترین دشمن ان کے معاون و مددگار بن جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک اور چیز جو حقیقت کے اعتبار سے اس سے بھی بڑھ کر ہے وہ یہ ہے کہ دعوتِ حق کے حاملین کی اَرواح زمین کی تمام قوتوں اور اس کے تمام شرور و فتن سے بلند ہوجاتی ہیں۔ وہ سہولت پسندی و راحت طلبی ہی نہیں، آخرکار خودزندگی کی حرص سے آزاد ہوجاتی ہیں۔ یہ آزادی کمائی ہے پوری انسانیت کے لیے۔ یہ کمائی ہے ان اَرواح کے لیے، جو اس تک دنیا سے بے نیازی کی راہ سے پہنچتی ہیں۔ یہ کمائی ان تمام مصائب و آلام اور شدائد و مشکلات سے___ جن سے اہلِ ایمان، جو اللہ کے پرچم، اس کی امانت، اس کے دین اور اس کی شریعت کے حامل ہیں، دوچار ہوتے ہیں___ زیادہ وزنی ہے۔
یہ آزادی آخرکار انسان کو جنت کا اہل بناتی ہے۔ درحقیقت یہی جنت کا راستہ ہے!
وہ راستہ کیا ہے؟ ایمان وجہاد، ابتلا و آزمایش، صبروثبات اور صرف اللہ کی طرف توجہ، پھر اللہ کی مدد آتی ہے۔ پھر جنت اور اس کی نعمتیں استقبال کرتی ہیں‘‘۔(سیّد قطب شہیدؒ، فی ظلال القرآن، ج۱، ترجمہ سیّد حامد علی، ص ۵۳۳)
غزوئہ بدر وہ معرکہ ہے جسے یوم الفرقان، یعنی حق اور باطل کا فرق کردینے والا دن بھی کہا جاتا ہے۔ یہ آزمایش اتنی کڑی تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی آہ و زاری کے ساتھ اپنے رب کو پکارا اور فریاد کی کہ: ’’خداوندا بس اب آجائے تیری وہ مدد جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، اے خدا اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو روے زمین پر پھر تیری عبادت نہ ہوگی‘‘۔ گویااس آزمایش کے موقعے پر نبی اکرمؐ کے بس میں جو کچھ تھا وہ آپؐ نے پیش کر دیا اور پھر اللہ سے نصرت چاہی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کن حالات کا سامنا تھا اور آپؐ کس آزمایش سے دوچار تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ’’ آپؐ نے محسوس فرمایاکہ فیصلے کی گھڑی آپہنچی ہے اور یہ ٹھیک وہ وقت ہے، جب کہ ایک جسورانہ اقدام اگر نہ کرڈالا یا تو تحریکِ اسلامی ہمیشہ کے لیے بے جان ہوجائے گی، بلکہ بعید نہیں کہ اس تحریک کے لیے سر اُٹھانے کا پھر کوئی موقع ہی باقی نہ رہے۔
نئے دارالہجرت میں آئے ابھی پورے دو سال بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مہاجرین بے سروسامان، انصار ابھی ناآزمودہ، یہودی قبائل برسرِ مخالفت، خود مدینہ میں منافقین و مشرکین کا ایک اچھا خاصا طاقت ور عنصر موجود، گردوپیش کے تمام قبائل قریش سے مرعوب بھی اور مذہباً ان کے ہمدرد بھی۔ ایسے حالات میں اگر قریش مدینہ پر حملہ آور ہوجائیں تو ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں کی مٹھی بھر جماعت کا خاتمہ ہوجائے۔ لیکن اگر وہ حملہ نہ کریں اور صرف اپنے زور سے قافلے کو بچاکر ہی نکال لے جائیں اور مسلمان دبکے بیٹھے رہیں تب بھی یک لخت مسلمانوں کی ایسی ہوا اُکھڑے گی کہ عرب کا بچہ بچہ ان پر دلیر ہوجائے گا اور ان کے لیے ملک بھر میں پھر کوئی جاے پناہ باقی نہ رہے گی۔ آس پاس کے سارے قبائل قریش کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیں گے۔ مدینہ کے یہودی اور منافقین و مشرکین علی الاعلان سر اُٹھائیں گے اور دارالہجرت میں جینا مشکل کردیں گے۔ مسلمانوں کا کوئی رعب و اثر نہ ہوگا کہ اس کی وجہ سے کسی کو ان کی جان، مال اور آبرو پر ہاتھ ڈالنے میں تامل ہو۔ اس بناپر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عزم فرما لیا کہ جو طاقت بھی اس وقت میسر ہے اسے لے کر نکلیں اور میدان میں فیصلہ کریں کہ جینے کا بل بوتا کس میں ہے اور کس میں نہیں ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص۱۲۴)
۱۷رمضان ۲ ہجری میں بدر کے میدان میں پیش آنے والا یہ معرکہ کوئی معمولی معرکہ نہ تھا۔ ایک طرف ایک ہزار کا لشکرِ جرّار تھا اور دوسری طرف ۳۱۳ ؍ اہلِ ایمان تھے جن کی بے سروسامانی کا یہ عالم تھا کہ دو تین کے پاس گھوڑے تھے اور باقی آدمیوں کے لیے ۷۰ اُونٹوں سے زیادہ نہ تھے جن پر تین تین اور چار چار اشخاص باری باری سوار ہوتے تھے۔ سامانِ جنگ بھی ناکافی تھا۔ صرف ۶۰ آدمیوں کے پاس زرہیں تھیں۔ تین کافروں کے مقابلے میں ایک مسلمان تھا اور وہ بھی پوری طرح مسلح نہ تھا۔ گویا یہ موت کے منہ میں جانے کے مترادف تھا۔
اس موقعے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کو اپنی مدد اور نصرت سے نوازا اور نبی کریمؐ کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’اور وہ موقع، جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمھاری مدد کے لیے پے درپے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمھیں صرف اس لیے بتا دی کہ تمھیں خوش خبری ہو اور تمھارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں، ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے، یقینا اللہ زبردست اور توانا ہے۔
اور وہ وقت، جب کہ اللہ اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے خوفی کی کیفیت طاری کر رہاتھا ، اور آسمان سے تمھارے اُوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دُور کرے اور تمھاری ہمت بندھائے اور اس کے ذریعے سے تمھارے قدم جما دے۔
اور وہ وقت، جب کہ تمھارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ’’میں تمھارے ساتھ ہوں، تم اہلِ ایمان کو ثابت قدم رکھو، میں ابھی ان کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، پس تم ان کی گردنوں پر ضرب اور جوڑجوڑ پر چوٹ لگائو‘‘۔یہ اس لیے کہ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسولؐ کا مقابلہ کیا اور جو اللہ اور رسولؐ کا مقابلہ کرے اللہ اس کے لیے نہایت سخت گیر ہے....
پس حقیقت یہ ہے کہ تم نے انھیں قتل نہیں کیا بلکہ اللہ نے ان کو قتل کیا اور تو نے نہیں پھینکا بلکہ اللہ نے پھینکا (اور مومنوں کے ہاتھ جو اس کام میں استعمال کیے گئے) تو یہ اس لیے تھا کہ اللہ مومنوں کو ایک بہترین آزمایش سے کامیابی کے ساتھ گزار دے، یقینا اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘۔(الانفال ۸: ۹-۱۳، ۱۷)
قرآنِ مجید میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے غزوئہ بدر میں اہلِ ایمان کی کس طرح مدد کی۔ ان کی ہیبت دشمن پر طاری کردی اور دشمنانِ اسلام کی تعداد زیادہ ہونے کے باوجود اہلِ ایمان کو کم دکھائی۔بارش کے ذریعے مسلمانوں کے قدم جما دیے اور کفار کی طرف زمین میں کیچڑ سے پائوں دھنسنے لگے۔ خود فرشتوں نے اہلِ ایمان کی قتال میں مدد کی۔ جب مسلمانوں اور کفار کے لشکر ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹھی بھر ریت ہاتھ میں لے کر شاھت الوُجُوہ (چہرے بدنما ہوجائیں)کہہ کر پھینکی اور مسلمان یکبارگی کفار پر حملہ آور ہوگئے اور بالآخر سرخرو ہوئے۔
اھلِ ایمان کی کڑی آزمایش
’’اس معرکۂ کارزار میں سب سے زیادہ سخت امتحان مہاجرینِ مکہ کا تھا جن کے اپنے بھائی بند سامنے صف آرا تھے۔ کسی کا باپ، کسی کا بیٹا، کسی کا چچا، کسی کا ماموں، کسی کا بھائی، اس کی اپنی تلوار کی زد میں آرہا تھا اور اپنے ہاتھوں اپنے جگر کے ٹکڑے کاٹنے پڑ رہے تھے۔ اس کڑی آزمایش سے صرف وہی لوگ گزر سکتے تھے جنھوں نے پوری سنجیدگی کے ساتھ حق سے رشتہ جوڑا اور جو باطل کے ساتھ سارے رشتے قطع کر ڈالنے پر تُل گئے ہوں۔
انصار کا امتحان بھی کچھ کم سخت نہ تھا۔ اب تک تو انھوں نے عرب کے طاقت ور ترین قبیلے، قریش اور اس کے حلیف قبائل کی دشمنی صرف اسی حد تک مول لی تھی کہ ان کے علی الرغم مسلمانوں کو اپنے ہاں پناہ دے دی تھی۔ لیکن اب تو وہ اسلام کی حمایت میں ان کے خلاف لڑنے بھی جارہے تھے جس کے معنی یہ تھے کہ ایک چھوٹی سی بستی جس کی آبادی چند ہزار نفوس سے زیادہ نہیں ہے، سارے ملک عرب سے لڑائی مول لے رہی ہے۔
یہ جسارت صرف وہی لوگ کرسکتے تھے جو کسی صداقت پر ایسا ایمان لے آئے ہوں کہ اس کی خاطر اپنے ذاتی مفاد کی انھیں ذرہ برابر پروا نہ رہی ہو۔ آخرکار ان لوگوں کی صداقت ِ ایمانی خدا کی طرف سے نصرت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی اور قریش اپنے سارے غرورِ طاقت کے باوجود ان بے سروسامان فدائیوں کے ہاتھوں شکست کھاگئے۔ ان کے ۷۰ آدمی مارے گئے، ۷۰ قید ہوئے اور ان کا سروسامان غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ قریش کے بڑے بڑے سردار جو ان کے گل ہاے سرسَبد اور اسلام کی مخالف تحریک کے روحِ رواں تھے اس معرکے میں ختم ہوگئے اور اس فیصلہ کن فتح نے عرب میں اسلام کو ایک قابلِ لحاظ طاقت بنا دیا۔ جیساکہ ایک مغربی محقق نے لکھا ہے، ’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب اور ریاست تھا، مگر بدر کے بعدوہ مذہب ِ ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج۲،ص ۱۲۶-۱۲۷)
آج بھی معرکۂ حق و باطل برپا ہے۔ اہلِ ایمان، اہلِ باطل اور اسلام مخالف قوتوں کے تمام تر جبر، ظلم و ستم، سفاکیت اور سازشوں کے اسلام کے غلبے کی جدوجہد کو منظم انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس راہ میں جان و مال کی قربانیاں دے رہے ہیں، کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی منتظر ہے! شہدا کی یہ ایسی فصل ہے جو ایک طرف شہادتِ حق کے علَم برداروں کی ہے جو حق کی گواہی دے رہے ہیں، اور دوسری طرف اپنی جان راہِ خدا میں لٹاکر شہادت کی منزل پانے والوں کی ہے۔ تمام تر سفاکیت کے باوجود یہ فصل کٹنے میں نہیں آرہی، بلکہ عزیمت و استقامت کی ایک ایسی داستان ہے جو اہلِ ایمان اپنے خون سے رقم کر رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دشمن کی سازشوں سے بچتے ہوئے اور پاے استقامت میں لغزش لائے بغیر اس جدوجہد کو جاری رکھا جائے۔ اللہ کی راہ میں جہاد، آزمایش، صبروثبات، اللہ کے لیے یکسوئی و اخلاص اور اللہ کے سوا ہرشے اور ہرشخصیت سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جدوجہد جاری رکھنا ہی جنت کا راستہ اور نصرتِ الٰہی کے قانون اور اللہ کے وعدے کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ بقول اقبال:
دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش
تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو اُبھارا
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
(ارمغانِ حجاز)