یہ ایک یادگار مجلہ ہے، رنگین، دیدہ زیب، زرِ کثیر سے شائع کردہ، جس کی پیش کش دل نواز اور ترتیب و تدوین خوش کن۔ یہ چیزیں تو اور بھی جگہوں پر ہوتی ہیں، مگر اس اشاعت کی اس ثانوی خوبی کے ساتھ اصل خوبی اس کا پیغام اور اس کے مندرجات کی انفرادیت ہے۔ اس مجلے کی خوبی یہ ہے کہ قاری، رواں دواں اسے دیکھتا اور پڑھتا چلا جاتا ہے۔ نئی نسل کے جذبات اور تعمیری اہداف سے واقفیت حاصل کرتا ہے اور مسلم دانش وروں کی تخلیقی سوچ سے متعارف ہوتا ہے۔
مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس چانسلر جنرل (سابق) ضمیرالدین شاہ کے عالی دماغ نے، دینی مدارس پر یلغار کے بجاے انھیں عمومی دھارے میں لانے کے لیے نومبر ۲۰۱۳ء میں ’’برج (Bridge:پل) کو رس‘‘ کا اجرا کیا۔ یعنی دینی اور دنیاوی تعلیم کے درمیان ربط و تعاون کی عملی، تدریسی اور تحقیقی صورتوں کی ٹھوس بنیادوں پر تشکیل۔ اس پروگرام کے تحت دینی مدارس کے طلبا و طالبات کو ایسی صلاحیت و قابلیت سے آراستہ کرنے کا اہتمام کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ وہ دینی و علمی میدان میں کارہاے نمایاں انجام تو دیں ہی، لیکن اگر چاہیں تو میڈیکل، انجینیرنگ، انتظامیات اور سائنس کے شعبوں میں بھی داخلہ حاصل کرسکیں۔
مسلکی اور گروہی بنیاد پر دینی مدارس کی تقسیم بڑی واضح ہے۔ اس کورس کے ذریعے، زیرتعلیم طالب علموں کو اس محدود دائرے سے بلند ہوکر وسیع تر بنیادوں پر اُمت ِ مسلمہ کا رہنما بنانا پیش نظر ہے۔جس کے لیے فیکلٹی میں جملہ مکاتب ِ فکر کے فاضل علما بھی شامل ہیں۔ اس کورس کے فاضلین عملی میدان میں کس فکرونظر کے حامل ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ لیکن اگر اس کورس کی تدریس کے دوران ’تجدد پسندی‘ ،’مداہنت روی‘ اور انکار حدیث و سنت کے سایے گہرے ہوئے، تو سمجھ لیجیے کہ خواب بکھر جائے گا۔ اللہ کرے ایسا نہ ہو۔اس ’سووینیر‘ (اُردو،انگریزی) میں بہت سے طلبا و طالبات نے کورس کی تکمیل یا زیرتعلیم ہوتے ہوئے اپنے مشاہدات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ضمیرالدین شاہ صاحب کی کوششیں رنگ لاتی دکھائی دیتی ہیں۔ (سلیم منصورخالد)
زیرنظر کتاب بنیادی طور پر ۷۸-۱۹۷۷ء میں، جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لا کے دوران صحافت پر گزرنے والی کٹھن رات کی رُوداد ہے۔ اسی طرح تمام مکاتب ِ فکر سے متعلق صحافی کارکنوں کی جدوجہد، مشکلات، قربانیوں اور قیدوبند کی صعوبتوں کی تفصیلات ہیں۔کتاب پر سوشلسٹ گروہ کی گہری چھاپ ہے جن کا طرزِفکر یہ ہے کہ: ’پاکستان کی تاریخ کے تمام مسائل، ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۸ء کے دوران ہی پیدا ہوئے‘۔ اس کتاب میں بھی یہی آہنگ موجود ہے اور جماعت اسلامی کے لیے طعنہ زنی کا اہتمام بھی۔ مگر اس کے باوجود اگر کوئی ایسا مقام آیا کہ جب احفاظ الرحمن کا کوئی ممدوح راستے میں آیا تو اس کو کٹہرے میں لانے کی راہ میں مؤلف نے کوئی ہچکچاہٹ نہیں برتی۔
مثال کے طور پر: ’بھٹو کے دور میں تعزیراتِ پاکستان میں اس قسم کی ترامیم کی گئی تھیں‘ جن کے نتیجے میں الزام لگانے والے پر ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری کے بجاے [اپنی] بے گناہی کا ثبوت فراہم کرنے کی ذمہ داری ملزم پر ڈال دی گئی تھی۔ قانون کے نام پر اس ظالمانہ لاقانونیت کے نفاذ کے خلاف بھی [ہم نے] ملک گیر تحریک چلائی‘‘ (ص۵۱۵)۔ اسی طرح ۱۹۷۴ء میں روزنامہ مساوات میں خودپیپلزپارٹی کی جانب سے صحافی کارکنوں کے خلاف ’بھٹوگردی‘ اور اس کی قیادت کرتے ہوئے عباس اطہر کی یلغار (ص ۵۲۴-۵۳۰) کا حوالہ عبرت ناک ہے۔
اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۷۷ء کے مارشل لا کی فوجی عدالتیں کس انداز سے ’فراہمی عدل‘ کا اہتمام کرتیں اور کیسے خودساختہ گواہوں کے ’حلفیہ‘ بیانات پر، ملزم کو جرح و صفائی کا موقع دیے بغیر کوڑوں اور قید کی سزائیں دیتیں۔
۱۸جولائی سے ۱۲ستمبر ۱۹۷۸ء کے دوران ۲۱۸ صحافی گرفتار ہوئے (ص ۱۹۶-۲۰۸)۔ ان قیدیوں کے خطوط اور رُودادِ اسیری میں بہت سے نکات، جذبے کو مہمیز لگاتے، اور ادب و اظہار کے زاویے نمایاں، دُکھ اور عمل کی راہوں کو واشگاف کرتے ہیں۔(سلیم منصور خالد)
الایام ایک غیر سرکاری ادارے کے تحت شائع ہوتا ہے۔ زیرنظر جنوری تا جون ۲۰۱۵ء کا شمارہ ہے۔ الایامکثیراللسانی رسالہ ہے۔ انگریزی میں دو، فارسی اور عربی میں ایک ایک مضمون شامل ہے۔ یہ مجلہ ایچ ای سی کی منظور شدہ فہرست میں شامل ہے۔
اس میں تاریخ، حدیث، ادب، مصوری وغیرہ کے موضوعات پر وقیع مقالات شامل ہیں، مثلاً: ’صحیح بخاری کے اشکالات اور ان کے حلول‘، ’مسلمان اور فنِ مصوری‘، ’مستشرقین اور ڈاکٹر محمد حمیداللہ‘، ’برصغیر میں قرامطہ کا سیاسی اثرورسوخ‘، ’علامہ راشدالخیری، بحیثیت تاریخ و سیرت نگار‘۔ ’پروفیسر محمد شکیل اوج مرحوم‘ پر چھے مضامین شامل ہیں، جو ان کی شخصیات اور علمی و دینی خدمات کی تفصیل پیش کرتے ہیں۔
’حضور بے حضوری‘ کے عنوان سے جناب عارف نوشاہی کے عمرے کے دوسفرنامے اپنے اندر علمی اور تحقیقی پہلو رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر نگار سجاد نے کلیم عاجز کا مختصر خاکہ پیش کیا ہے جس میں ان کے ادبی و شعری کمالات بھی سامنے آئے ہیں۔’مطبوعات جدیدہ‘ الایامکا مستقل حصہ ہے۔ محمد سہیل شفیق نے ۱۹ تازہ رسالوں اور کتابوں کا مختصر مختصر تعارف کرایا ہے، اور ’بیادِ رفتگان‘ میں زیباافتخار نے مرحومین کا مختصر تذکرہ کیا ہے۔
الایام میں موضوعات اور مضامین کا جو تنوع ہے، وہ یونی ورسٹیوں کے رسالوں میں کم ہی دیکھنے میں آتا ہے، چنانچہ اساتذہ اور تحقیق کرنے والے طلبا و طالبات کے علاوہ عام قارئین کے لیے بھی اس میں دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ اگر آیندہ اشاعتوں میں مضامین پر مراسلات کا سلسلہ بھی شامل کیا جائے تو مفید ہوگا۔ (رفیع الدین ہاشمی)
نام ور شخصیات جنھیں اہم مناصب پر فائز رہنے اور ملکی تاریخ کے اہم مراحل کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہو ان کی سرگزشت یا سوانح تاریخی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ کتاب بھی اسی نوعیت کی ہے۔ یہ ۹۶ سالہ ریٹائرڈ جرنیل اور نام ور سیاست دان جنرل عبدالمجیدملک کی آپ بیتی ہے۔ ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبدالمجید فوج میں سپاہی کلرک کی حیثیت سے بھرتی ہوئے اور ترقی کرتے کرتے جرنیل بنے۔
یوں تو زیر نظر کتاب ایک فرد کی بھرپور زندگی کی کہانی ہے لیکن دیکھا جائے تو یہ تقریباً ایک صدی کی تاریخ ہے ۔صدی بھی ایسی جس میں جنگ عظیم اوّل و دوم،تحریکِ پاکستان، قیامِ پاکستان اورہجرت جیسے تاریخ ساز واقعات رُونما ہوئے۔ابتداے ملازمت میںانھیں تحریک پاکستان سے دل چسپی پیداہوئی ۔۱۹۴۸ء میں ایک ہفتے کے لیے قائداعظم کے (عارضی) اے ڈی سی بھی رہے۔ مسلم لیگ اور کانگریس کی جن نام وَر شخصیات کو انھیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، ان کا تذکرہ بھی ہے۔
مصنف کی زندگی میں اہم موڑ اس وقت آیا جب ذوالفقارعلی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو پاک فوج کا سربراہ بنا دیا تو انھوں نے استعفا دے دیا۔۱۹۸۵ء کے انتخابات میںقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوکر میدانِ سیاست میں وارد ہوئے۔
۱۹۵۸ء کے پہلے مارشل لا کے منصوبہ سازوں میں شامل تھے، تاہم بعد میں وہ مارشل لا کے ناقد رہے اورایک طویل عرصے تک فوجی حکمرانی کے مقابلے میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ مصنف کے بقول سانحۂ کارگل کی تمام تر ذمہ داری جنرل پرویزمشرف اور ان کے تینوں ساتھی جرنیلوں پرعائد ہوتی ہے جنھوںنے وزیراعظم نوازشریف اور پوری سیاسی قیادت کو اس آپریشن سے بے خبر رکھا تھا(ص ۲۴۲)۔انھوں نے جہاں پرویز مشرف کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہاں نوازشریف کے مختارِکل بننے کے شوق کے بھی ناقد ہیں۔ یہ کتاب اہم واقعات و حوادث اور فیصلوں کے گہرے مشاہدے کی داستان ہے۔(حمیداللّٰہ خٹک)
زندگی گزارتے ہوئے اور مطالعہ کرتے ہوئے بہت سے ایسے مسائل سامنے آتے ہیں جن کا بہ ظاہر کوئی اطمینان بخش حل نظر نہیں آتا۔ کسی صاحب ِ علم کی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ زیرتبصرہ ۱۰۰صفحے کی کتاب میں اسی طرح کے ۳۸ موضوعات پر اظہارِ خیال کیا گیا ہے۔ محترم مؤلف نے کتاب و سنت کی روشنی میں اور جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے جامع اور مختصر جواب دیے ہیں، جو قاری کو مطمئن کرتے ہیں۔ چند موضوعات درج کر رہا ہوں تاکہ اس مختصر کتاب کی وسعت کا اندازہ ہو: پست انسانی جذبات اور تعلیمی اداروں کی زبوں حالی، اسلام میں محبت کی شادی کا تصور، غیرمسلم فوج میں ملازمت، حبط عمل کا مطلب، اسلام اور جنسی تعلیم، عمر بڑھ سکتی ہے، انسانی کلوننگ کی شرعی حیثیت، روزہ اور ہوائی سفر، بنک کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔ محترم مؤلف نے اظہارِ خیال کیا ہے ، اپنی راے دی ہے، فتویٰ نہیں دیا۔ اسی لیے کتاب کا نام سوچنے کی باتیں مناسب ہے۔ (مسلم سجاد)
آلودگی پوری دنیا کے لیے ایک گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔ ماحول سے دوستی کیجیے، اُردو سائنس بورڈ کی ’اُردو سائنس سیریز‘ کے تحت ایک ایسی کاوش ہے جس میں ایک دل چسپ کہانی کے انداز میں ماحول کی بہتری کے لیے اقدامات اُٹھانے کے لیے رہنمائی دی گئی ہے۔ چین میں کس طرح سے ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، ان کا بھی تذکرہ ہے، مثلاً بچوں کو بورڈنگ سکول میں پڑھایا جاتا ہے تاکہ سڑکوں پر ٹریفک کم ہو اور دھویں سے بچا جاسکے۔ اکثر لوگ ذاتی سواری کے بجاے ٹرین یا سائیکل استعمال کرتے ہیں، نیز ماحول کی بہتری کے لیے لوگ آگے بڑھ کر تعاون کرتے ہیں۔ اسی طرح صحت مند ماحول کے لیے اپنے محلے اور گردونواح کو اپنی مدد آپ کے تحت صاف ستھرا رکھنے، کوڑا کرکٹ کو جلانے کے بجاے ری سائیکل کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
مصنفہ نے بجاطور پر توجہ دلائی ہے کہ ہمیں ماحولیاتی آلودگی کے ساتھ ساتھ معاشرتی آلودگی کا بھی سامنا ہے۔ صفائی نصف ایمان ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے ساتھ ساتھ اچھی اقدار و روایات کو بھی پروان چڑھایا جائے اور ہر ایک اپنے اپنے دائرے میں اس کے لیے کام کرے۔ صاف ستھرا ماحول ہی صحت مند زندگی کا ضامن ہے۔(امجد عباسی)
oتیرا کوئی شریک نہیں، محمد ارشد۔ ناشر: مثال پبلشرز، رحیم سنٹر، پریس مارکیٹ، امین پور بازار، فیصل آباد۔ صفحات: ۱۷۸۔ قیمت: ۲۰۰ روپے۔[زیرنظر کتاب حج کا سفرنامہ ہے۔ مصنف نے حرمین شریفین کے سفرِسعادت کے تاثرات، مشاہدات اور احساسات نہایت اختصار سے بیان کیے ہیں۔ جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، سپردِ قلم کردیا ۔ مصنف کو بعض اُمور میں نہایت تعجب ہوا کہ حرمین شریفین میں لوگ نمازیوں کے آگے سے بے تکلف گزر جاتے ہیں (ص۲۶)۔ اُونچی آواز سے روضۂ رسولؐ پر دعائیں مانگتے ہیں۔ موبائل پر اپنے دیس میں کسی عزیز سے کہہ رہے ہوتے ہیں: ’’میں یہاں روضۂ رسولؐ کی جالیوں کے پاس ہوں‘‘ (ص ۳۲)۔ مصنف نے دل چسپ مشاہدات قلم بند کیے ہیں۔ ]
o توہین رسالتؐ: اسباب اور سدّباب ، ڈاکٹر حبیب الرحمن۔ ناشر: ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۵۶۔ قیمت: درج نہیں۔[ مغرب میں توہین رسالتؐ کے بڑھتے ہوئے واقعات کے پیش نظر اس کے اسباب کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لیتے ہوئے تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے لیے انفرادی، اجتماعی اور حکومتی سطح پر لائحہ عمل تجویز کیا گیا ہے۔ اسلام مخالف قوتیں توہین ناموسِ رسالتؐ سے جو مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور مؤثر احتجاج کے لیے مثالوں کے ذریعے تجاویز دی گئی ہیں۔ اپنے موضوع پر مفید مطالعہ ہے۔]
o مجلہ السیرۃ ، مدیراعلیٰ: ڈاکٹر حبیب الرحمن، ڈی بی ایف، سیرت ریسرچ سنٹر، سی-۲، ہائی لینڈ ٹریڈرز بلڈنگ، سیکنڈ فلور،فیز۲، ڈیفنس، کراچی۔ فون: ۳۵۳۹۵۹۲۸-۰۲۱۔ صفحات:۴۸۔ قیمت: درج نہیں۔[دلشاد بیگم فائونڈیشن (ڈی بی ایف) کے تحت سیرت ریسرچ سنٹر قائم کیا گیا ہے اور مجلہ السیرۃ کا اجرا کیا گیا ہے۔ مجلے کا مقصد: احیاے سنت اور عظمت سیرۃ النبیؐ کو علمی و تحقیقی تحریک میں بدلنا اور اصلاحِ معاشرہ ہے (اداریہ)۔ رمضان المبارک کی مناسبت سے خصوصی اشاعت پیش کی گئی ہے۔ رمضان کی اہمیت، نبی کریمؐ کے معمولات، رمضان کے تقاضے اور جدید فقہی مسائل وغیرہ زیربحث آئے ہیں۔]
o عورت کیا کچھ کرسکتی ہے؟ خدیجہ نوید عثمانی۔ ناشر: ادارہ بتول، ۱۴-ایف، سیّد پلازا، ۳۰-فیروز پور روڈ، لاہور۔ فون: ۳۷۵۸۵۴۴۹-۰۴۲۔ صفحات: ۶۴۔ قیمت: ۹۰ روپے۔[صحابیاتِ رسولؐ کا دل نشین تذکرہ اور ادبی چاشنی لیے ہوئے ایمان افروز واقعات۔ عورت کے کردار کے مختلف پہلو: ایمان کے لیے تڑپ، تلواروں کی چھائوں میں، راہِ حق میں استقامت و عزیمت کے مراحل اور نیکی میں سبقت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ان نقوش سے عمل کے لیے تحریک اور آخرت کی فکر کو تقویت ملتی ہے۔ تاہم قیمت زیادہ ہے۔]
الفرقان پارہ عَمَّ (تیسواں پارہ) جو اس سے پہلے دوچار دفعہ چھپ کر مقبول ہوچکا ہے، احباب کے اصرار پر دیدہ زیب نیاایڈیشن شائع کیا گیا ہے۔ ان خواتین و حضرات کے لیے پیش کیا جا رہا ہے جو دعوتِ دین میں مصروف ہیں۔ خواہش مند خواتین و حضرات ۶۰روپے کے ڈاک ٹکٹ ارسال کریں۔
براے رابطہ: شیخ عمر فاروق 15-B وحدت کالونی، وحدت روڈ، لاہور ۔ فون: 042-37810845