قومی زندگی میں بجٹ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہے۔ یہ ایسی دستاویز ہے جو ایک طرف حکومت کی پچھلے ایک سال کی آمدنی اور اخراجات اور آیندہ سال کے پورے مالی دروبست کا میزانیہ ہوتی ہے، تو دوسری طرف اس کی اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس میں ملک کو درپیش حقیقی معاشی مسائل اور چیلنجوں کی صحیح تصویر قوم اور پارلیمنٹ کے سامنے آتی ہے۔ اس میں وہ پورا نقشۂ کار بھی سامنے آجاتا ہے، جو ان حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے حکومت کے پیش نظر ہوتا ہے۔ گویا حقیقت اور وژن دونوں ہی کا عکس اس میں دیکھا جاسکتا ہے۔
قوم اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے کہ درج ذیل پہلوئوں سے بجٹ کا جائزہ لینے کا اہتمام کرے:
اوّلاً: یہ حکومت کی ایک سال کی کارکردگی کا بے لاگ جائزہ لینے کا بہترین موقع ہوتا ہے جس کی روشنی میں دیانت اور انصاف کے ساتھ حکومت اور معیشت دونوں کی کارکردگی کے مثبت اور منفی پہلوئوں کو متعین کرنا چاہیے۔ ان کی روشنی میں مستقبل کے لیے جو سبق سیکھا جاسکتا ہے، اس کی بھی واضح الفاظ میں نشان دہی ہونی چاہیے۔ حکومت کو خود بھی یہ کام کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ اور قوم کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ یہ خدمت انجام دے۔ اس کا مقصد محض ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا نہیں بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ ملک اور قوم کے وسائل کو عوام کی حقیقی بہبود کے لیے کس طرح خرچ کیا جائے اور اس سلسلے میں بہتر سے بہتر کی نشان دہی کی جانی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن، سرکاری ادارے اور سول سوسائٹی، دانش ور اور میڈیا، سب کی ذمہ داری ہے کہ اس بجٹ کے موقعے پر اس جائزے اور احتساب کے عمل میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
ثانیاً: مسئلہ محض ایک سال کی کارکردگی کا نہیں بلکہ معیشت کے باب میں حکومت کی بنیادی حکمت عملی کے تعین اور پھر اس حکمت عملی کوعملی جامہ پہنانے کے لیے بنائی جانے والی پالیسیوں، ترجیحات، ان پر عمل کے لیے وسائل کے حصول اور ان کے صحیح استعمال کے واضح نقشۂ کار کا تعین اور ان کا تنقیدی جائزہ ہے، تاکہ ملک صحیح سمت میں ترقی کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنایا جاسکے۔
ان دونوں مقاصد کا حق ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بجٹ اور اس پر بحث کو محض ان چند دنوں کی بحث اور منظوری کا قصّہ نہ سمجھا جائے، بلکہ بجٹ پر سوچ بچار کا عمل ہرمرحلے میں، اس پر پارلیمنٹ میں بحث اور منظوری کے دوران، اور منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد کے پورے عمل میں جاری و ساری رہنا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بجٹ کو محض چند دنوں کا ایک تماشا سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ دنیا کے جمہوری ممالک میں بجٹ اور اس کا جائزہ پورے سال پر پھیلا ہوا ایک مسلسل عمل ہے۔ پارلیمنٹ اور اس کی کمیٹیاں پورے سال معاشی اور مالی امور کے باب میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ بجٹ سازی صرف حکومت کا کام نہیں بلکہ اس میں معیشت و معاشرت کے تمام ہی کردار (اسٹیک ہولڈرز) دیانت داری سے اپنا اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں اور سول سوسائٹی کے ذمہ دار ادارے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور حکومت کو اپنا نتیجۂ فکر فراہم کرتے رہتے ہیں۔ نصف سے زیادہ ممالک میں پارلیمنٹ بجٹ پر بحث کے لیے دو سے چار مہینے صرف کرتی ہیں اور اس طرح بجٹ کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کم سے کم ۴۵دن سے لے کر چارمہینے تک وقف کرتی ہے، جب کہ ہمارے ملک میں اسے چند دن میں نمٹا دیا جاتا ہے۔ اس سال ۵جون کو بجٹ پیش ہوا ہے اور ۲۳ جون کو اسے منظور کرلیا گیا۔ گویا ۱۸دن میں اور اگر چھٹی کے دن نکال دیے جائیں تو صرف ۱۴ دن میں بجٹ کا ہرمرحلہ پورا ہوگیا۔ یہ بجٹ اور قوم دونوں کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہے۔ پاکستان کا سینیٹ کم از کم پچھلے سات سال سے برابر یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ بجٹ پر بحث کے دورانیے کو بڑھایا جائے، بجٹ سازی کے ہرمرحلے میں پارلیمنٹ اور عوام کو شریکِ کار بنایا جائے، سالانہ معاشی سروے بجٹ سے محض ۲۴گھنٹے پہلے شائع نہ کیا جائے، بلکہ کم از کم دو ہفتے پہلے آئے، تاکہ اس کی روشنی میں بجٹ کا جائزہ لیا جاسکے۔ ہندستان میں بجٹ پر ۴۵ دن بحث لازمی ہے، برطانیہ میں اس عمل میں چار مہینے لگتے ہیں، امریکا میں یہ عمل پورے سال اور کانگریس کے دونوں ایوانوں میں جاری رہتا ہے۔ خصوصیت سے ’تخصیصی کمیٹی‘ (Appropriation Committee) کا کردار مستقل اور مسلسل ہے اور ایک ایک سرکاری خرچ کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری ضروری ہے۔
اسی طرح ’ضمنی بجٹ‘ کا معاملہ بھی فیصلہ طلب ہے۔ سینیٹ نے اس کی ہمیشہ مخالفت کی ہے اور موجودہ وزیرخزانہ جب اپوزیشن میں تھے تو یہ بھی ہماری طرح اس کے بڑے ناقد تھے۔ ان سے توقع تھی کہ وہ پارلیمنٹ کے حقوق پر شب خون مارنے کے اس مسلسل عمل کو ہمیشہ کے لیے روکنے میں کردار ادا کریں گے۔ لیکن ان کے حالیہ اور سابقہ بجٹ میں وہی پرانی کہانی دہرائی گئی ہے اور اس سال (۱۵-۲۰۱۴ئ) یہ رقم ۱۴-۲۰۱۳ء کے مقابلے میں تقریباً دوگنی ہوگئی ہے، یعنی ۲۰۵؍ارب روپے، جو پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر بجٹ سے بالابالا خرچ کیے گئے اور بعد از خرچ اب ان کی منظوری کی محض کاغذی کارروائی کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ ان ۲۰۵؍ارب روپے میں بلامنظوری اخراجات میں صرف ضابطے کی تبدیلیوں (technical reallocation) کا تعلق ۶۷؍ارب روپے سے ہے، جب کہ ۱۳۸؍ارب روپے ان مدات پر خرچ ہوئے ہیں، جن پر کوئی خرچ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتا اور جنھیں ’نئی تجاویز‘ (fresh allocations) کہا جاتا ہے ۔ جب ان تفصیلات پر نگاہ ڈالی جائے جو ان ’غیرمعمولی اہمیت‘ کے حامل نادیدہ مصارف کی رپورٹ میں بیان کرنی پڑی ہیں، تو انسان کے چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ ان میں VVIP جہاز پر ۱۳کروڑ ۴۰لاکھ روپے اور ۳۵لگژری گاڑیوں کی مد میں ۲۰کروڑ ۵۰لاکھ روپے پھونک دیے گئے ہیں۔ یہ اضافی مطالباتِ زر (ضمنی بجٹ) ایک ناقابلِ معافی زیادتی ہیں جس کا دروازہ بند ہونا چاہیے۔
بجٹ پر بحث کے دوران اگر حکومت اور اس کے اتحادیوں نے عجلت کے ساتھ اور آنکھیں بند کرکے اسے منظور کر کے قوم اور ملک کے ساتھ انصاف نہیں کیا، تو وہیں پر اپوزیشن کی جماعتیں بھی جواب دہ ہیں کہ جنھوں نے فیصلہ کن مراحل پر بحث میں عدم شرکت اور بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرکے، اپنی ذمہ داری کماحقہ ادا نہیں کی۔ البتہ جہاں ہم اپوزیشن کے اس رویے پر تنقید کر رہے ہیں، وہیں اس امر کا اعتراف بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ کم از کم دو جماعتوں نے بجٹ تجاویز بڑے مرتب انداز میں پیش کیں۔ تحریکِ انصاف نے متبادل بجٹ پیش کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ اسی طرح جماعت اسلامی پاکستان کے امیر اور سیکرٹری جنرل نے بجٹ سے پہلے بجٹ کے لیے مثبت تجاویز پیش کیں۔ اخبارات اور میڈیا میں بھی اچھی بحث ہوئی اور آزاد تحقیقی اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ خصوصیت سے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز نے بجٹ سے پہلے بھی اپنی تجاویز پیش کیں اور بجٹ کے آنے کے بعد اس پر بھی اپنا مبسوط تجزیہ پیش کیا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ بجٹ سازی میں تمام اسٹیک ہولڈرز اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
۱۶-۲۰۱۵ء کا بجٹ مسلم لیگ (ن)کی مرکزی حکومت کا تیسرا بجٹ تھا۔ حکومت کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس نے گذشتہ دو سال میں معیشت کو دیوالیہ ہونے کے بحران سے نکال کر بڑے پیمانے پر استحکام (macro stabilization) کی راہ پر ڈال دیا ہے اور اب وہ معاشی ترقی کی سمت بڑی جست لگانے کی پوزیشن میں ہے۔ بجٹ میں وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اب وہ معاشی ترقی کے لیے فیصلہ کن اقدام کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جو اگر حقائق پر مبنی ہو تو بہت خوش آیند ہے، لیکن اگر حقائق کوئی اور تصویر پیش کر رہے ہوں تو یہ ایک خطرناک مغالطہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس لیے بجٹ، اس کے وسائل اور تجاویز کی روشنی میں اس دعوے کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
گذشتہ بجٹ جسے استحکام کی راہ ہموار کرنے والی دستاویز قرار دیا گیا تھا، اس میں ۱۵اہداف سامنے رکھے گئے تھے۔ سالانہ معاشی دستاویزات کی روشنی میں جو حقیقت سامنے آئی ہے، وہ یہ ہے کہ ان ۱۵ میں سے صرف چار ایسے ہیں، جن میں حکومت اپنے اہداف حاصل کرسکی ہے۔ بیرونی ذخائر ۱۷؍ارب ڈالر کی حد پار کرگئے ہیں، جو ایک اچھی خبر ہے۔ افراطِ زر کی شرح کے بارے میں دعویٰ ہے کہ ۸ فی صد سے کم ہوکر ۸ئ۴ فی صد پر آگئی ہے۔ ٹیکس کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی بھی اپنے ہدف کے قریب پہنچ گئی ہے اور ’ٹیکسوں سے بالا سرکاری آمدنی‘ ( non-tax revenue) میں ہدف سے تقریباً ۲۵ فی صد اضافے نے مجموعی محصولات کی پوزیشن مثبت کردی ہے۔
تصویر کے اس مثبت پہلو کے ساتھ منفی پہلو کا ادراک بھی ضروری ہے: معیشت کی شرح نمو (growth rate) جسے ۱۴-۲۰۱۳ء کے ۴ فی صد سالانہ کے مقابلے میں ۱ئ۵ فی صد ہونا تھا، وہ صرف ۲ئ۴ فی صد ہوسکی، یعنی ہدف سے ۲۵ فی صد کم۔ زراعت میں ترقی کی رفتار مایوس کن رہی، یعنی چار فی صد کے ہدف کے مقابلے میں صرف ۹ئ۲ فی صد۔مویشیوں کی افزایش (livestock) کے باب میں غیرمعمولی اضافے (یعنی ۷ فی صد) کی وجہ سے مجموعی پیداوار میں اضافے کا سراب رُونما ہوا۔ حکومت کے انتظامی اخراجات ہدف سے زیادہ اور ترقیاتی اخراجات میں کمی واقع ہوئی جس سے محصولاتی خسارہ بڑھ گیا۔ یہی معاملہ تجارتی خسارے کا رہا کہ درآمدات اور برآمدات کا فرق آسمان کو چھو رہا ہے۔ برآمدات میں ۴ فی صد کمی ہوئی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں نصف سے زیادہ کی کمی کے باوجود درآمدات میں خاطرخواہ کمی نہیں ہوئی۔ اگر بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلات میں نمایاں اضافہ نہ ہوتا اور ۳-جی اور ۴-جی کی فروخت سے’اندھی آمدنی‘ (windfall income) نہ ہوتی تو ملک دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا ہوتا۔ زراعت کی طرح سب سے پریشان کن صورت حال صنعت کی ہے ۔ بڑے پیمانے کی صنعت (LSM) اپنے ہدف کا نصف بھی حاصل نہیں کرسکی جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں ۳۰ فی صد کمی ہوئی اور اس کی وجہ سے ۲۰لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ اس پر مستزاد وہ اضافہ ہے، جو ہرسال محنت کاروں (labour force) میں آبادی کے اضافے کی وجہ سے ہو رہا ہے، یعنی تقریباً ۱۸لاکھ افراد سالانہ۔ بیرونی سرمایہ کاری گذشتہ ۱۵ سال کے مقابلے میں اس سال سب سے کم رہی ہے، یعنی اب ۸۰۰ ملین ڈالر کے پھیرے میں آگئی ہے، جو سالِ گذشتہ کی تقریباً نصف ہے۔ اور اگر اس کا مقابلہ اس رقم سے کیا جائے، جو غیرملکی سرمایہ کارسابقہ سرمایہ کاری کے منافعے کے طور پر سالانہ ملک سے باہر لے جاتے ہیں، تو اس سال کی سرمایہ کاری، منافع کی منتقلی سے جو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے، سے بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر اس کے ساتھ پاکستانی سرمایے کی غیرممالک میں منتقلی کو بھی شامل کرلیا جائے، جو ایک باخبر اندازے کے مطابق ۲۰؍ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے، تو بڑی ہی بھیانک تصویر سامنے آتی ہے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دو سال استحکام کے ہدف کے حصول کے لیے وقف کیے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ نام نہاد استحکام (stabilization)کی یہ پالیسی حکومت سے زیادہ ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ کی پالیسی ہے۔ اس پالیسی پر پچھلے دو سال نہیں، سات سال سے عمل ہو رہا ہے۔ اس کے موجودہ دور کا آغاز پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت نے کیا تھا اور موجودہ حکومت نے ماضی کی حکومت سے کچھ زیادہ ہی مستعدی سے اس پر عمل کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان سات برسوں میں بھی ہم معاشی استحکام حاصل نہیں کرسکے۔ ملک کا پیداواری عمل سخت جمود کا شکار ہے۔ زراعت اور صنعت دونوں ہی کی حالت دگرگوں ہے۔ صرف مالیاتی سیکٹر اور سروسز سیکٹر متحرک اور نفع بخش ہیں، جن کے نتیجے میں امیرامیر تر اور غریب غریب تر ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران ملک اس صورت حال سے دوچار تھا، جسے معاشیات کے ماہر stagflation کہتے ہیں، یعنی معیشت میں جمود اور ملک میں افراطِ زر ۔ ان دوسال میں ہم ’افراطِ زر کے ساتھ معاشی جمود‘ سے تو نکلے ہیں، لیکن ایک دوسری دلدل میں دھنس گئے ہیں، جسے Low-growth trap (پیداوار میں سُست روی کا جال)کہا جاتا ہے۔ حکومت نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اور جس پر ’عالمی مالیاتی فنڈ‘ اور عالمی ادارے تعریفوں کے ڈونگرے برسا رہے ہیں، وہ اس دلدل سے نہیں نکال سکتی۔ اس کے نتیجے میں تو قرضوں کا بار بڑھتا ہی رہے گا اور ماضی کے قرض ادا کرنے کے لیے نئے قرض لینے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا، جو کسی صورت قابلِ برداشت (sustainable ) نہیں ہے۔
ہماری قرضوں کی غلامی کی کیفیت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان سے ۲۰۰۱ء تک ۵۴برسوں میں قرض کا بار ملک پر ۳۱۷۲؍ارب روپے تھا جو جنرل پرویز مشرف دورِ حکومت میں بڑھ کر ۲۰۰۸ء تک دوگنا ہوگیا، یعنی ۶۱۲۶؍ارب روپے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ سال کے تحفے کے طور پر یہ قرض بڑھ کر ۱۴ہزار۲سو۹۳ ؍ارب روپے ہوگیا۔ اب مسلم لیگ حکومت کا عطیہ یہ ہے کہ مجموعی قرض ۱۶ہزار۹سو۳۶؍ارب روپے ہے۔ ان سوا دو سال میں تقریباً تین ہزار ارب کا اضافہ ہوگیا ہے اور آج صرف سود کی ادایگی حکومت کے مصارف میں سرفہرست ہے، یعنی سرکاری مصارف کا تقریباً ۳۱فی صد، جو اَب دفاعی مصارف سے بھی ۵۰ فی صد زیادہ ہے، اور اگلے سال ۱۲۸۰ ؍ارب روپے صرف سود کی ادایگیوں کے لیے درکار ہیں۔ پاکستان کا ہربچہ، جوان اور بوڑھا ایک لاکھ تین ہزارروپے فی کس کا مقروض ہے۔ نیز حکومت ۲۰۰۵ء کے قرضوں کی حد پر پابندی کے قانون کی بھی مسلسل خلاف ورزی کرر ہی ہے اور پارلیمنٹ اور عدالتیں سب ’ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم‘ کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ’معاشی استحکام‘ کا نہیں ’دائمی معاشی عدم استحکام‘ کا راستہ ہے، اور حکومت کا حال یہ ہے کہ
زہر دے ، اس پہ یہ اصرار کہ پینا ہوگا
حکومت کا دعویٰ تھا کہ وہ: انتظامی اخراجات میں کمی کرے گی، کفایت شعاری کی روش اختیار کرے گی اور ملک میں اپنی چادر کے مطابق پائوں پھیلانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہوگی اور خود وزیراعظم اس کی پہلی مثال قائم کریں گے‘‘۔ وزیرخزانہ نے بجٹ کی تقریر میں بڑے واضح الفاظ میں فرمایا تھا:’’وزیراعظم صاحب نے فیصلہ کیا ہے کہ اس عمل کا آغاز وہ اپنے دفتر سے کریں گے‘‘۔
۱۳-۲۰۱۲ء میں وزیراعظم کے آفس کا بجٹ ۷۲ کروڑ ۵۰ لاکھ روپے تھا، جسے ۱۴-۲۰۱۳ء کے لیے ۴۵ فی صد کم کر کے بجٹ میں ۳۹کروڑ۶۰ لاکھ پر رکھا گیا۔ لیکن عمل کی کیفیت کیا رہی؟ ۱۴-۲۰۱۳ء کا ترمیم شدہ بجٹ ۷۵ کروڑ ۵۰لاکھ تھا جو ۱۵-۲۰۱۴ء میں بڑھ کر ۸۰ کروڑ ۱۰ لاکھ ہوگیا اور اب ۱۶-۲۰۱۵ء کے بجٹ میں ۸۴کروڑ ۲۰لاکھ مقرر کیا گیا ہے۔ نیز خبر ہے کہ ایک ارب روپے اس کے علاوہ ہیں، جو گذشتہ سال میں وزیراعظم کے دفتر کو فراہم کیے گئے ہیں، مگر اس کی تصدیق کرنے کے باوجود کہ ایسا ہوا ہے، بجٹ کی دستاویزات میں اس کا ذکر نہیں (ایکسپریس ٹریبیون، ۶جون ۲۰۱۵ئ)۔اس طرح وزیراعظم آفس کے روزانہ اخراجات ۲ لاکھ ۷۴ہزار روپے بنتے ہیں۔ دوسری طرف ایوانِ صدر کے اخراجات ۷۴کروڑ ۳۴ لاکھ تھے، جنھیں نظرثانی شدہ بجٹ میں ۷۴کروڑ۹۲لاکھ کردیا گیا اور اب تازہ بجٹ میں بڑھا کر ۸۰کروڑ ۱۰لاکھ تک پہنچا دیا گیا ہے۔ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔
بدقسمتی سے شاہ خرچیوں کا بازار ہر شعبۂ زندگی میں گرم ہے۔ اور اچھی حکمرانی کا کہیں وجود نہیں۔شخصی پسند و ناپسند کی بنیاد پر پورا کاروبارِ حکومت تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ ملک کو ہمہ وقتی وزیرقانون، وزیردفاع، وزیرخارجہ میسر نہیں۔ ۵۰ سے زیادہ اہم سرکاری عہدوں اور اداروں کے سربراہ یا ڈائرکٹرز میں سے عدالت عظمیٰ کے حکم پر صرف دوچار جگہ تقرریاں ہوئی ہیں، باقی سب خالی پڑی ہیں۔ خالص ٹیکنیکل وزارتوں اور عہدوں پر ایسے لوگوں کا تقرر کیا گیا ہے، جنھیں متعلقہ فن کی ہوا بھی نہیں لگی۔ کرپشن کا دوردورہ ہے اور میڈیا اور عدالتوں میں ایک سے ایک بڑا اسکینڈل ہر روز سامنے آرہا ہے، مگر حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
وزیرخزانہ صاحب بڑے فخریہ انداز میں عددی، اسٹینڈرڈ اینڈ یوور، وال اسٹریٹ جرنل اور دی اکانومسٹ کے مثبت تبصرے بیان کرتے نہیں تھکتے، لیکن اس سوال کا کوئی جواب دینے کو تیار نہیں کہ اگر یہ سب سبز باغ ارضِ وطن کو آراستہ کرچکے ہیں تو ملک میں غربت ۵۰ فی صد سے زیادہ کیوں ہے؟ اور یہ بھی عالمی بنک ہی کی رپورٹ ہے کہ ۹کروڑ سے زیادہ افراد آج غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور آبادی کا ۲۰ فی صد اس کس مپرسی کے عالم میں ہے، جسے شدید غربت اور موت و حیات کی کش مکش کہا جاتا ہے۔
عالمی بنک ہی کی رپورٹ کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کا ۶ئ۳۱ فی صد کم خوراکی اور ’کسرِ وزن ‘ (under weight)کا شکار ہے۔ پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات اور زچہ کی شرحِ اموات میں پاکستان عالمی برادری میں پست ترین سطح پر ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈکس میں ہم دنیا کے ۱۸۷ ممالک میں ۱۴۴ ویں مقام پر ہیں۔ ۲کروڑ ۵۰لاکھ بچے ایسے ہیں، جو اسکول جانے کی عمر میں ہیں لیکن تعلیم سے یکسر محروم ہیں اور جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا کیا حال ہے___ یہ ایک دوسری دل خراش داستان ہے ع تن ہمہ داغ داغ شد ، پنبہ کجا کجا بہم۔
حکومت خوش ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ ایک معما ہے کہ ملک کا پیداواری سیکٹر سکڑ رہا ہے، برآمدات کم ہو رہی ہیں، ٹیکسٹائل صنعت جو کبھی ہمارا طرئہ امتیاز تھی، آج زبوں حالی کا شکار ہے ۔ دوسری طرف بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل برآمدات ،پاکستان کی برآمدات سے دوگنی ہوگئی ہیں۔ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی ہورہی ہے۔ گذشتہ سال نجی شعبے کی سرمایہ کاری میں ۳۰ فی صد کمی ہوئی ہے لیکن اسٹاک ایکسچینج میں حصص کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ صرف سٹے کی وجہ سے ہی ممکن ہے، اور یہی وجہ ہے کہ امیر طبقہ روپے سے روپے ڈھال رہا ہے اور ملک کی معیشت اور عام آدمی اس بہتی گنگا سے کوئی حصہ نہیں پارہے۔ ۲۰ فی صد متوسط طبقہ اور خصوصیت سے اشرافیہ کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں اور عام آدمی دوقت کی روٹی سے محروم ہے۔ بڑے بڑے ہوٹلوں، شادی ہالوں، اُونچے طبقے کے خریداری کے مراکز پر نظر ڈالیے، قیمتی گاڑیوں کے کاروانوں کو دیکھیے، شہروں میں محلات کی اُگلتی فصلوں پر نگاہ ڈالیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر طرف فراوانی ہی فراوانی ہے۔ لیکن اگر آبادی کے نصف سے زیادہ کے حالات کو دیکھیے تو آنکھیں خون کے آنسو روتی ہیں۔ ملک میں عدم مساوات بڑھ رہی ہے ۔ ایک حالیہ سرکاری رپورٹ Household Integrated Economic Survey کے مطابق ملک میں ۵۰ لاکھ افراد ایسے ہیں، جن کی خاندانی آمدنی ۱۵لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے۔ لیکن انکم ٹیکس دینے والوں کی تعداد صرف ۸لاکھ ہے۔ دوسری طرف ۴۷ فی صد آبادی وہ ہے جس کی روزانہ آمدنی ۲۰۰ روپے سے بھی کم ہے۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں کہ بھوک کی بناپر کوئی موت واقع ہوئی ہو، یا کسی نے اس کی وجہ سے خودکشی کی ہو۔ لیکن آج پاکستان میں یہ مثالیں بھی رُونما ہورہی ہیں اور بڑھ رہی ہیں۔
کیا بجٹ میں ان حالات کا کوئی حقیقی ادراک موجود ہے؟ کیا حکومت نے کوئی ایسی حکمت عملی بنائی ہے، جس سے ملک ایسی معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے، یا جس میں ملک کے وسائل سے عام آدمی مستفید ہوسکے؟ اس کی زندگی میں تبدیلی آسکے، اسے روزگار میسر آسکے، وہ اپنی ضروریاتِ زندگی عزت کے ساتھ پوری کرسکے؟اس کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں، اس کے سر پر چھت اور پیٹ میں روٹی ہو۔ ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کے اس تیسرے بجٹ میں کوئی جھلک ایک حقیقی تبدیلی کی نظر نہیں آتی۔ نہ معاشی ترقی کا کوئی ایسا واضح تصور سامنے آتا ہے جو معاشی اور معاشرتی انصاف پر مبنی ہو۔ جس میں قوم ترقی اور خودانحصاری کے راستے پر گامزن ہوسکے، جس کے نتیجے کے طور پر عام افراد کی زندگی میں خوش حالی رُونما ہوسکے۔ جو دولت کی منصفانہ تقسیم اور ملک کے تمام علاقوں، خصوصیت سے پس ماندہ علاقوں، طبقوں کو شادکام کرسکے۔
وزیرخزانہ نے اگلے سال کے لیے ۵ فی صد شرحِ نمو کی بات کی ہے اور ۲۰۱۸ء تک ۷فی صد پر لے جانے کی خوش خبری دی ہے۔ لیکن لبرل سرمایہ دارانہ معیشت کا جو راستہ یہ حکومت آئی ایم ایف، عالمی بنک اور عالمی مالیاتی اداروں کی خواہش کے مطابق اختیار کیے ہوئے ہے، اس کے نتیجے میں ہمیں دُور دُور تیزرفتار، مستحکم اور منصفانہ ترقی کے وقوع پذیر ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ معیشت کو حقیقی ترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ بیرونی اور اندرونی قرضوں کے چنگل سے نکلا جائے اور ملک کے اپنے وسائل کو دیانت اور محنت کے ساتھ بروے کار لایا جائے۔ اس کے لیے قیادت کو فکری اور اخلاقی دونوں اعتبار سے ایک اعلیٰ مثال قائم کرنی ہوگی۔ ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے، ضرورت صحیح قیادت، صحیح منصوبہ بندی، اچھی حکمرانی اور سب سے بڑھ کر معاشی ترقی کے اس عمل میں پوری قوم کو، خصوصیت سے اس کے نوجوانوں کی شرکت کو عملی صورت دینے کی ہے۔ اس قوم میں بڑی صلاحیت ہے، لیکن بدقسمتی سے وہ قیادت مفقود ہے جو اس صلاحیت کو بیدار اور منظم کرسکے۔ ۲۰۰۵ء کے زلزلے کے موقعے پر سب نے دیکھا کہ کس طرح خیبر سے کراچی تک قوم کے ہر طبقے اور خصوصیت سے نوجوانوں نے آفاتِ سماوی کے مقابلے کے لیے ایک دوسرے کی مدد کی اور خدمت کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ کیا قوم کی اس صلاحیت کو آزادی کی حفاظت اور ایک خوش حال اسلامی پاکستان کی تعمیر کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا؟
مسلم لیگ (ن)نے اپنے ۲۰۱۳ء کے منشور میں ’مضبوط معیشت، مضبوط پاکستان‘ کا خواب دکھایا تھا اور ’ہم بدلیں گے پاکستان‘ کا جھنڈا لے کر قوم کو تعاون و تائید کے لیے پکارا تھا۔ اس میں جس منزل کو اپنی منزل قرار دیا گیا تھا وہ ’خوددار، خوش حال، خودمختار پاکستان‘ تھا۔ وعدہ کیا گیا تھا کہ:
ہم وی آئی پی کلچر کا خاتمہ اور کفایت کی مہم کا آغاز کریں گے، خاص طور پر صدر، وزیراعظم، گورنر اور وزراے اعلیٰ سے متعلق اخراجات غیرمعمولی طور پر کم کیے جائیں گے۔
ہم نے تذکیر کے مخلصانہ جذبے سے مسلم لیگ کے منشور کے ان دعوئوں کو یہاں پیش کیا ہے۔ مگر کیا کوئی دیانت داری سے یہ کہہ سکتا ہے کہ اس تیسرے بجٹ میں جو درمیانی مدت (mid-term) کی حیثیت رکھتا ہے، اس وژن کی کوئی جھلک بھی نظر آتی ہے؟ ہم تو بار بار کی کوشش کے باوجود روشنی کی کوئی کرن نہ دیکھ سکے! ہمیں دُکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ غالباً منشور کا یہ وژن عوام کو سبزباغ دکھانے کے لیے تھا، حکومت کی پالیسیوں اور بجٹ پر اس کا کوئی سایہ دُور دُور تک نظر نہیں آتا ہے۔
ہماری نگاہ میں اس بجٹ کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اس میں حالات کا صحیح تجزیہ اور معیشت کو درپیش مسائل اور چیلنجوں کا کوئی ادراک موجود نہیں ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ اعدادوشمار کی ایک اچھی مشق ہے، جس میں حالت ِ زار کو جوں کا توں (status quo) باقی رکھنے کا بندوبست ہے۔ اس حقیقی تبدیلی اور وہ بھی بنیادی تبدیلی کا کوئی اشارہ ہمیں دُور دُور نظر نہیں آتا جس کے بغیر ملک کو معاشی بحرانوں اور قرض کی غلامی کی دلدل سے نکالنا ممکن نہیں۔
بجٹ اور سروے میں پوری کوشش کی گئی ہے کہ تصویر کا ایک رُخ دکھایا جائے اور ماضی کی غلطیوں اور خود اپنی پالیسیوں کے نتائج کے بے لاگ اور معروضی تجزیے کے صحت مند راستے کے مقابلے میں الفاظ کے گورکھ دھندے اور اعداد وشمار کے دائوپیچ سے ایک ایسی منظرکشی کی جائے ،جس کے ذریعے اصل حقائق کو نظروں سے اوجھل رکھا جاسکے۔ ہم اس سلسلے میں چند مثالیں اہلِ نظر کے غوروفکر کے لیے پیش کرتے ہیں:
افراطِ زر کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ ۸ئ۴ فی صد پر آگیا ہے، حالانکہ عام آدمی کا تجربہ یہ ہے کہ اشیاے خوردونوش جن کا ایک عام آدمی کے بجٹ میں بڑا حصہ ہوتا ہے، نہ صرف یہ کہ ان کی قیمتوں میں کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ دی نیوز کے نمایندے نے جون سالِ گذشتہ اور جون ۲۰۱۵ء کے بازار سے حاصل کردہ جو نرخ دیے ہیں، وہ نہ صرف اضافہ بلکہ ۱۰ سے ۲۰ فی صد اضافے کی خبر لاتے ہیں۔
وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ بے روزگاری میں کمی ہوئی ہے اور لیبرفورس کے ۳ئ۶ فی صد سے کم ہوکر ۶ فی صد پر آگئی ہے، جب کہ ’پاکستان پلاننگ کمیشن‘ اور ’قومی اقتصادی کونسل‘ (NEC) کی دستاویزات کی روشنی میں اس وقت بے روزگاری کی شرح ۳ئ۸ فی صد ہے۔ حکومت ہی کے اداروں کے دیے ہوئے اعداد و شمار میں ۲۵ فی صد کا فرق ہے ؎
کس کا یقین کیجیے، کس کا یقین نہ کیجیے
لائے ہیں ان کی بزم سے یار خبر الگ الگ
وزیرخزانہ کا دعویٰ ہے کہ اس سال معیشت ۲۵ لاکھ افراد کو نیا روزگار دے سکے گی۔ لیکن معاشی ماہرین انگشت بدندان ہیں کہ معیشت کے ۵ فی صد شرحِ نمو پر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے کم از کم ۸ فی صد شرحِ نمو ضروری ہے۔ پھر جس ملک میں کئی کروڑ افراد بے روزگار ہوں یا رزق کی عام سہولتوں سے محروم ہوں، اور جس میں ۲ئ۲ فی صد آبادی میں سالانہ اضافے کے نتیجے میں ہرسال ۱۸لاکھ افراد کا روزگار کی تلاش کرنے والی فوج میں اضافہ ہورہا ہو، اس میں ۵ فی صد کی شرحِ نمو سے ۲۵لاکھ افراد کے لیے روزگار کے مواقع کیسے پیدا ہوسکتے ہیں؟ معاشیات کے طالب علموں کے لیے یہ باور کرنا محال ہے۔
حکومت کا اپنی پالیسیوں کے باب میں نظرثانی سے اجتناب اور غیرمتعلق اُمور کو معاشی مشکلات کا سبب قرار دینے کی روش کبھی صحت مند نہیں ہوسکتی۔
وزیرخزانہ نے کہا ہے: ’’معاشی ترقی میں اضافے کی رفتار کو مجروح کرنے والے عوامل میں عالمی منڈیوں میں قیمتوں کی کمی اور ملک میں پانچ مہینے تک دھرنوں کا بڑا دخل ہے‘‘۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عالمی منڈیوں میں قیمتوں کے اُتارچڑھائو کا اثر صرف پاکستان پر کیوں پڑا؟ ہمارے ہی جیسے دوسرے ملکوں کی ترقی کی شرح ان سے کیوں متاثر نہیں ہوئی؟ بھارت، بنگلہ دیش، ملایشیا، سری لنکا، سب کی شرحِ نمو اور برآمدات پر منفی اثرات کیوں نہیں پڑے؟ پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ ہماری درآمدات کے سستا ہوجانے کے مثبت اثرات ہماری معیشت پر کیوں نہیں پڑے؟ قیمت کم ہونے سے درآمدات کی مقدار (volume) کے مقابلے میں قدر (value) میں کمی ہونا چاہیے تھی مگر درآمدات کی قدر میں براے نام کمی ہوئی ہے ا ور تجارتی خسارہ اور بڑھ گیا ہے۔
اسی طرح دھرنے کے نقصانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، حالانکہ اگر اس کا کوئی اثر پڑا بھی ہوگا تو وہ محدود ہوگا۔ البتہ ایک مطالعے کے مطابق پاکستان میں افراطِ زر کی شرح دھرنے سے پہلے ۹ئ۷ فی صد تھی جو اگست ۲۰۱۴ء میں ۷ فی صد اور دسمبر ۲۰۱۴ء میں ۳ئ۴ فی صد تھی۔ یہ تبدیلی مثبت ہے یا منفی، حکومت کو غور کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر ملک کی برآمدات کو لیا جائے، تو جولائی اور اگست میں درآمدات میں کمی واقع ہوئی یعنی ۹ئ۷ فی صد اور ۶ئ۳ فی صد ،لیکن نومبر میں ۵ئ۹ فی صد کا اضافہ ہوا۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اس عمل اور دھرنوں میں کوئی باہم تعلق نہیں۔ ملک میں بڑی صنعتوں کی پیداوار کے رجحان کو اگر دیکھاجائے تو صورت حال یہ سامنے آتی ہے کہ: جولائی میں اضافہ ۴۵ئ۰ فی صد، اگست میں ۴ئ۴ فی صد، ستمبر میں ۳ئ۳ فی صد، اکتوبر میں ۲ئ۲ فی صد، نومبر میں ۴ئ۵ فی صد، دسمبر میں ۶۹ئ۰ فی صد۔ یہاں بھی اعداد و شمار کسی واضح منفی رجحان کی خبر دینے سے قاصر ہیں۔ (ایکسپریس ٹریبیون، ۱۳ جون ۲۰۱۵ئ)
دھرنے کی افادیت یا اس کا مضر ہونا ہمارا موضوع نہیں۔ ہماری دل چسپی صرف اس بات سے ہے کہ وزیرخزانہ کو دلیل اور مبالغہ آمیز نعرے بازی میں فرق کرنا چاہیے اور معاشی حقائق کی روشنی میں پالیسیوں اور ان کے اثرات کا تجزیہ معروضی انداز میں کرنا چاہیے، تاکہ ان سے صحیح سبق حاصل کیاجاسکے ورنہ ہم خود بھی مغالطے کا شکار ہوں گے اور قوم کی بھی صحیح حالات کے سمجھنے میں مدد نہیں کرپائیں گے۔
ملک کو جن معاشی حالات اور چیلنجوں سے سابقہ درپیش ہے، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مناسب حکمت عملی درکار ہے۔ اس کی کوئی جھلک اس بجٹ میں نظر نہیں آتی، بلکہ مسئلے کے پورے پورے اِدراک کا بھی فقدان ہے۔ توانائی کے مسئلے کو جو اہمیت دی جانا چاہیے تھی وہ مفقود ہے۔ ٹیکس کی چوری، ٹیکس کے نیٹ ورک کی تنگ دامنی، معیشت میں ضیاع کے بڑے بڑے جھرنوں کا بدستور پھیلنا لاپروائی اور بے حسی کا عذاب، اسمگلنگ اور بڑے پیمانے پر کرپشن اور اس کی تباہ کاریوں کے سلسلے میں حکومت کوئی واضح پالیسی اور پروگرام دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس بارے میں دو آرا مشکل ہیں کہ ملک میں ٹیکس وصولی کے جو امکانات ہیں اس کا بمشکل ایک تہائی اس وقت حاصل ہو رہا ہے اور وہ بھی اس انداز میں کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو‘ (ایف بی آر)کا کردار اس میں محدود اور مشتبہ ہوتا جارہا ہے۔ ذرائع آمدنی پر ٹیکس جمع کرنے کے نظام کو بھی عملاً ٹھیکے پر دے دیا گیا ہے۔ ۳۵ لاکھ سے زیادہ افراد کو ’ٹیکس کے دائرے‘ میں ہونا چاہیے، مگر عملاً صرف ۸لاکھ افراد ہیں جو ٹیکس دے رہے ہیں۔ ساری معلومات اور دعوئوں کے باوجود ٹیکس نادہندہ افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ایف بی آر ناکام رہا ہے۔ عالمی بنک اور لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ایک تحقیقی مطالعہ (۲۰۱۳ئ) کے مطابق پاکستان کے موجودہ ٹیکس ادا کرنے والے ۸لاکھ افراد سے جو ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے، وہ ان کے واجب الادا ٹیکس کا صرف ۳۸ فی صد ہے، باقی ۶۲ فی صد کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اگر ان لاکھوں افراد کو نظرانداز بھی کردیا جائے، جن کو ٹیکس دینا چاہیے اور وہ نہیں دے رہے، تب بھی جو ٹیکس دے رہے ہیں، صرف ان کا اگر تمام واجب الادا ٹیکس وصول کیا جائے تو اس وقت ۳ہزار ارب روپے کے بجاے اسے ۸ہزار ارب روپے ہونا چاہیے۔گویا ۵ہزار ارب روپے صرف ان ٹیکس دینے والوں کے کھاتے سے کرپشن کی نذر ہو رہا ہے۔ تحقیق میں یہ بھی متعین کیا گیا ہے کہ اس ۵ہزار ارب روپے کو ٹیکس گزار افراد، ٹیکس جمع کرنے والے عملے اور دوسرے سہولت کاروں کے درمیان تقریباً درج ذیل تناسب سے اُڑایا جا رہا ہے:l۷۰ فی صد ٹیکس دینے والے l۲۵ فی صد ٹیکس جمع کرنے والے l۵ فی صد ٹیکس میں سہولیات فراہم کرنے والے۔
اگر ان تمام ۳۰ سے ۳۵ لاکھ کو بھی ٹیکس کے نیٹ ورک میں لے آیا جائے، جو اس وقت ٹیکس کے نیٹ ورک سے باہر ہیں اور اگر ٹیکس کی شرح میں کمی بھی کردی جائے، تب بھی کم از کم ۸ہزار سے ۱۰ہزار ارب روپے تک مزید محصولات حکومت کو حاصل ہوسکتے ہیں۔
وسائل کے غلط استعمال اور اخراجات کے باب میں کرپشن کی کہانی اس کے علاوہ ہے۔ اندازہ ہے کہ کم از کم ۱۳؍ارب ڈالر کی سالانہ اسمگلنگ ملک میں ہورہی ہے۔ ’غیردستاویزی معیشت‘ کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ ’دستاویزی معیشت‘ سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔گویا اس وقت کُل معیشت کا صرف ۳۰ فی صد دستاویز شدہ ، باقی قانون کی گرفت سے باہر ہے۔
ایک حالیہ مطالعے کی روشنی میں صرف چین سے تجارت کے باب میں یہ حیرت ناک بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان کی چین سے درآمدات ۹؍ارب ڈالر سالانہ دکھائی جارہی ہیں، جب کہ چین کے شعبۂ تجارت اور شماریات کے مطابق چین کی پاکستان کو برآمدات ۱۵؍ارب ڈالر ہیں۔ جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ہمارے اور چین کے دیے ہوئے اعداد و شمار میں ۶؍ارب ڈالر کا فرق ہے۔ کیا یہ حکومت کی ذمہ داری نہیں کہ بیرونی اور ملکی قرضوں کے ذریعے حکومتی اخراجات اور ترقیاتی مصارف پورے کرنے کے بجاے خود اپنے وسائل کو ملکی معیشت کی تعمیر کے لیے منظم و متحرک کرے اور بیرونی وسائل کو متوازن انداز سے خرچ کرے تاکہ خودانحصاری کے ذریعے ترقی کا راستہ اختیار کیا جاسکے۔
ہماری نگاہ میں ایف بی آر کو مکمل طور پر ’اوورہال‘ کرنے، اس ادارے سے کرپشن کا خاتمہ کرنے، ایمان دار اور باصلاحیت افراد کو اس ادارے کی ذمہ داری سونپنے اور مناسب نگرانی کا نظام بنانے کو اوّلیت دینے کی ضرورت ہے۔ اس ادارے میں مکمل خوداختیاری بھی ضروری ہے، جس کی برسوں سے مزاحمت کی جارہی ہے۔ صرف اس ایک اصلاح سے حالات میں جوہری تبدیلی رُونما ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ ہانگ کانگ ۱۹۸۱ء کی دہائی تک دنیا کے کرپٹ ترین ممالک میں سے تھا، لیکن چینی حکومت نے وہاں کرپشن کو ختم کرنے کے لیے مؤثر انتظام کیا اور سیاسی مداخلت سے پاک نظام قائم کیا، جس نے صرف تین سال میں ہانگ کانگ سے کرپشن کا بڑی حد تک خاتمہ کردیا۔ یہ محض دیوانے کا خواب نہیں۔ اگر ایمان دار اور باصلاحیت قیادت ہو تویہ کام چند سال میں انجام دیا جاسکتا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ترقی کے وژن اور ترجیحات کا ہے۔ ہمیں لبرل سرمایہ دارانہ تصورات کے طلسم سے نکلنا ہوگا۔ خوش حالی اس وقت ممکن ہے جب معاشی ترقی محض دولت مند طبقے کے لیے مالی فراوانی کے مترادف نہ ہوجائے، بلکہ ہراعتبار سے معاشی اور سماجی، تمام طبقات اور تمام علاقوں کی ترقی اور خوش حالی سے عبارت ہو۔ اس کے لیے مارکیٹ کا وجود تو ضروری ہے مگر ’مارکیٹ کی حکمرانی‘ میں یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ ریاست کو اس پورے عمل میں ایک مثبت کردار ادا کرنا ہوگا، لیکن خود کاروباری بن کر نہیں، بلکہ تمام عوام کے حقوق کے محافظ اور ان کی خوش حالی کو یقینی بنانے والے کی حیثیت سے۔ ریاست کا یہ تصور ’واشنگٹن کنسنسس‘ (Washington Consensus)اور عالمی مالیاتی فنڈ اور عالمی بنک کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ ’حکومت کا بزنس میں کوئی کام نہیں‘ محض سرمایہ داروں کا بنایا ہوا ایک فلسفہ ہے، جس کے نتیجے میں اس نعرے کے نام پر بزنس مین، حکومت اور ریاست پر قابض ہوجاتا ہے اور انھیں اپنے مفادات میں استعمال کرتا ہے۔ اگر حکومت کا بزنس سے کوئی کام نہیں ہے تو اس سے زیادہ بزنس مین کا یہ کام نہیں کہ وہ حکومت کرے۔ حکومت اور بزنس دو الگ الگ میدان ہیں۔ بزنس مین کو قانون اور اجتماعی مفاد کے دائرے میں بزنس کا ہر موقع ملنا چاہیے، لیکن ریاست کی مشینری کا اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ ریاست کو سب کا مائی باپ ہونا چاہیے، اور اس سے بھی زیادہ اس کا کام وہ ہونا چاہیے جس کا اعلان حضرت ابوبکر صدیقؓ نے زمامِ اختیار سنبھالتے وقت کیا تھا کہ ’’تمھارا طاقت ور میرے لیے کمزور ہے جب تک میں اس سے تمھارا حق حاصل نہ کرلوں، اور تمھارا کمزور میرے لیے اس بات کا حق دار ہے کہ میں طاقت ور سے اس کا حق حاصل کر کے اصل حق دار تک پہنچائوں‘‘۔
یہ ہے وہ تصورِ ریاست جس میں معاشی ترقی اور حقیقی خوش حالی قائم ہوسکتی ہے اور ایک بار پھر یہ کیفیت پیدا ہوسکتی ہے کہ زکوٰۃ دینے والے ان لوگوں کو تلاش کریں جو زکوٰۃ کے مستحق ہوں، اور معاشرے میں زکوٰۃ دینے والے ہوں اور لینے والے ناپید ؎
آج بھی ہو جو براہیمؑ کا ایماں پیدا
آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا