۱- رمضان المبارک کا شایانِ شان استقبال کرنے کے لیے شعبان ہی سے ذہن کو تیار کیجیے اور شعبان کی ۱۵ تاریخ سے پہلے پہلے کثرت سے روزے رکھیے۔ حضرت عائشہؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سب مہینوں سے زیادہ شعبان کے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔
اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰھُمَّ اَھِلَّہٗ عَلَیْنَا بِالْاَمْنِ وَالْاِیْمَانِ وَالسَّلَامَۃِ وَالْاِسْلَامِ وَالتَّوْفِیْقِ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی - رَبُّنَا وَرَبُّکَ اللّٰہُ
خدا سب سے بڑا ہے۔ خدایا! یہ چاند ہمارے لیے امن و ایمان و سلامتی اور اسلام کا چاند بنا کر طلوع فرما اور ان کاموں کی توفیق کے ساتھ جو تجھے محبوب اور پسند ہیں۔ اے چاند! ہمارا رب اور تیرا رب اللہ ہے۔
اور ہر مہینے کا نیا چاند دیکھ کر یہی دعا پڑھیے۔ (ترمذی‘ ابن حبان وغیرہ)
۳- رمضان میں عبادات سے خصوصی شغف پیدا کیجیے۔ فرض نمازوں کے علاوہ نوافل کا بھی خصوصی اہتمام کیجیے اور زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے لیے کمربستہ ہو جایئے۔ یہ عظمت و برکت والا مہینہ خدا کی خصوصی عنایت اور رحمت کا مہینہ ہے۔
لوگو! تم پر ایک بہت عظمت و برکت کا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ خدا نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دیے ہیں اور قیام اللیل (مسنون تراویح) کو نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اِس مہینے میں دل کی خوشی سے بطور خود کوئی ایک نیک کام کرے گا وہ دوسرے مہینوں کے فرض کے برابر اجر پائے گا‘ اور جو شخص اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا خدا اس کو دوسرے مہینوں کے ۷۰ فرضوں کے برابر ثواب بخشے گا۔
۴- پورے مہینے کے روزے نہایت ذوق و شوق اور اہتمام کے ساتھ رکھیے اور اگر کبھی مرض کی شدت یا شرعی عذر کی بنا پر روزے نہ رکھ سکیں‘ تب بھی احترامِ رمضان میں کھلم کھلا کھانے سے سختی کے ساتھ پرہیز کیجیے اور اس طرح رہیے کہ گویا آپ روزے سے ہیں۔
۵- تلاوتِ قرآن کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ اس مہینے کو قرآنِ پاک سے خصوصی مناسبت ہے۔ قرآنِ پاک اسی مہینے میں نازل ہوا اور دوسری آسمانی کتابیں بھی اسی مہینے میں نازل ہوئیں… اس لیے اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ حضرت جبرئیل ؑ ہر سال رمضان میں نبیؐ کو پورا قرآن سناتے اور سنتے تھے‘ اور آخری سال آپ نے رمضان میں نبیؐ کے ساتھ دو بار دَور فرمایا۔
۶- قرآن پاک ٹھیر ٹھیر کر اور سمجھ سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کیجیے۔ کثرتِ تلاوت کے ساتھ ساتھ سمجھنے اور اثر لینے کا بھی خاص خیال رکھیے۔
۷- تراویح میں پورا قرآن سننے کا اہتمام کیجیے۔ ایک بار رمضان میں پورا قرآنِ پاک سننا مسنون ہے۔
۸- تراویح کی نماز خشوع خضوع اور ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیے اور جوں توں ۲۰رکعت کی گنتی پوری نہ کیجیے‘ بلکہ نماز کو نماز کی طرح پڑھیے تاکہ آپ کی زندگی پر اس کا اثر پڑے اور خدا سے تعلق مضبوط ہو۔ خدا توفیق دے تو تہجد کا بھی اہتمام کیجیے۔
۹- صدقہ اور خیرات کیجیے۔ غریبوں‘ بیوائوں اور یتیموں کی خبرگیری کیجیے اور ناداروں کی سحری اور افطار کا اہتمام کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’یہ مواسات کا مہینہ ہے‘‘، یعنی غریبوں اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔ ہمدردی سے مراد مالی ہمدردی بھی ہے اور زبانی ہمدردی بھی۔ ان کے ساتھ گفتار اور سلوک میں نرمی برتیے۔ ملازمین کو سہولتیں دیجیے اور مالی اعانت کیجیے۔
۱۰- شب قدر میں زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کیجیے اور قرآن کی تلاوت کیجیے۔ اس رات کی اہمیت یہ ہے کہ اس رات میں قرآن نازل ہوا۔
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (حصن حصین)
خدایا! تو بہت ہی زیادہ معاف فرمانے والا ہے کیونکہ معاف کرنا تجھے پسند ہے‘ پس تو مجھے معاف فرما دے۔
۱۱- رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیجیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری ۱۰ دنوں میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔
۱۲- رمضان میں لوگوں کے ساتھ نہایت نرمی اور شفقت کا سلوک کیجیے۔ ملازمین کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں دیجیے اور فراخ دلی کے ساتھ اُن کی ضرورتیں پوری کیجیے اور گھر والوں کے ساتھ بھی رحمت اور فیاضی کا برتائو کیجیے۔
۱۳- نہایت عاجزی اور ذوق و شوق کے ساتھ زیادہ دعائیں کیجیے۔ درمنشور میں ہے کہ جب رمضان کا مبارک مہینہ آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ بدل جاتا تھا اور نماز میں اضافہ ہو جاتا تھا اور دعا میں بہت عاجزی فرماتے تھے اور خوف بہت زیادہ غالب ہوجاتا تھا۔
۱۴- صدقہ فطر دل کی رغبت کے ساتھ پورے اہتمام سے ادا کیجیے اور عید کی نماز سے پہلے ادا کر دیجیے‘ بلکہ اتنا پہلے ادا کیجیے کہ حاجت مند اور نادار لوگ سہولت کے ساتھ عید کی ضروریات مہیا کر سکیں اور وہ بھی سب کے ساتھ عیدگاہ جا سکیں اور عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
۱۵- رمضان کے مبارک دنوں میں خود زیادہ سے زیادہ نیکی کمانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نہایت سوز‘ تڑپ‘ نرمی اور حکمت کے ساتھ نیکی اور خیر کے کام کرنے پر ابھاریے تاکہ پوری فضا پر خدا ترسی‘ خیرپسندی اور بھلائی کے جذبات چھائے رہیں اور سوسائٹی زیادہ سے زیادہ رمضان کی بیش بہا برکتوں سے فائدہ اٹھا سکے۔