’قرآن فہمی: فروغ کی جدوجہد‘ (اگست ۲۰۰۶ئ) مفید معلوماتی ہے‘ تاہم اس میں اختصار سے کام لیا گیا ہے۔ بعض تفاسیر اپنے اعلیٰ دینی و علمی مقام و مرتبے کے باوجود مناسب تعارف سے محروم رہیں۔ ’بہائیت، عقائد، تاریخ، سرگرمیاں‘ کے مطالعے سے اپنے اردگرد ارتداد کے مخفی عناصر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ (جولائی ۲۰۰۶ئ) پاکستانی عوام کے لیے مژدۂ جانفزا ہے۔ پاکستانی عوام تمام تر محرومیوں‘ بے انصافیوں اور مسائل کے باوجود پاکستان کے روشن مستقبل کے خواہاں ہیں۔ ہرپاکستانی کے دل میں آج پرویز مشرف کے خلاف بیزاری و نفرت کا لاوا پک رہا ہے۔ محترم امیرجماعت کا بروقت عوامی تحریک کا آغاز عوام کے دلوں کی آواز ہے۔
’پاکستان کا روشن مستقبل اور عوامی تحریک‘ دورحاضر میں پاکستانی عوام بالخصوص اسلامی جماعتوں کے کارکنان کے لیے مایوسی کے اس دور میں آیات قرآنی اور فرموداتِ اقبال کی صورت میں امید کا سامان ہے۔ خداکرے کہ یہ تحریک اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ٹھیرے۔
بہائیت کی پیش رو بابیّت کے بانی علی محمد کو جب حکومتِ ایران نے اُس کے گمراہ کن عقائد کے پیشِ نظر گولی مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا تو فوجیوں نے اُس کی لاش شہر کے باہر خندق میں پھینک دی جو رات کی تاریکی میں اس کے متبعین نے اٹھا کر ایلیسا نبی کے غار کے قریب اسرائیل میں واقع کوہ کرمل میں دفن کی جہاں اس کا عالیشان روضہ ہے۔ اسے اتفاق کہیے یا سازشوں کی کڑی کہ قادیانیوں کا تبلیغی مشن بھی اسی جگہ ہے۔
صبح ازل (مرزا یحییٰ نوری) بہاء اللہ کاماں کے لحاظ سے سوتیلا بھائی تھا اور علی محمد باب نے الہامی کتب کی تکمیل و تدوین کا کام اس کے سپرد کر رکھا تھا۔ بہاء اللہ (حسین علی) کا تعلق مغل خاندان سے تھا۔ اِن کے والد عباس یحییٰ حکومتِ ایران کے وزیر اور اپنے دور کے صاحبِ حیثیت تھے۔ بہاء اللہ نے ترکی سے جلاوطنی کے بعد اسرائیل کے شہر حیفہ میں اپنا مشن اور تبلیغی مرکز قائم کیا۔ امریکا میں واقعی اس فرقے کو بڑی پذیرائی ملی کیونکہ ان کے یہودیوں سے خاص مراسم تھے۔ بہاء اللہ کے نظریات کا اصل تدوینی کام اور تشریح و تفسیر اُن کے بیٹے عبدالبہا نے کی۔ بہائیت میں مردوں کی نسبت عورتوں کی تعلیم اور آزادی پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ان کے ہاں سال میں ۱۹مہینے رائج ہیں اور ہرمہینہ ۱۹ دن کا ہے۔ اِن کے ہاں عیدالفطر وغیرہ نام کی عیدوں کا رواج نہیں بلکہ اِن کی اپنی عیدیں ہیں۔
بہائی اپنی عبادت گاہ کے لیے مسجد کے بجاے مشرق الاذکار کا لفظ استعمال کرتے ہیں اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو عبادت گاہ میںجمع ہوتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ موت کے بعد جسم زندہ نہیں کیا جائے گا۔
آپ نے محترم ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے دروس قرآن کی آٹھ جلدوں پر تبصرہ (جولائی ۲۰۰۶ئ) کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ان کے جو دروس نقل کیے گئے اور ایک نظر ڈال کر شائع کردیے گئے‘‘، اور تبصرہ کے آخر میں مزید توجہ دلائی ہے کہ ’’اس کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ماہر مدیر خطیبانہ رنگ برقراررکھتے ہوئے اس کی تدوین نو کرے تو اس کے فائدے اور تاثیر میں اضافہ ہو‘‘۔ میرے علم کے مطابق ڈاکٹر صاحب کا معمول ہے کہ اپنی تحریروں کی آپ باقاعدہ املا کراتے ہیں اور بعد میں ان کی نوک پلک سنوارتے ہیں۔ ان کا خطیبانہ انداز ان کے خطابات کے کیسٹوں میں یقینا نمایاں ہوتا ہے اور وہ بھی اپنی ایک علمی شان رکھتا ہے‘ تاہم ان کی تصنیفات‘ بلاشبہہ اپنے ربط و تسلسل اور تصنیفی ترتیب کے حوالے سے ارفع و اکمل حیثیت کی حامل ہیں۔