حق و باطل کے مابین عروج و زوال کی کش مکش اور غلبے کی مسابقت کو مشیتِ خداوندی میں ایک تکوینی مسلّمہ کا مقام حاصل ہے۔ اہل باطل اس امر سے واقف ہیں کہ اہلِ حق پر مکمل غلبے کے لیے محض جنگی مشینوں سے یورش اور فوجی یلغار‘ کافی اور دیرپا نہیں ہوسکتی کیوں کہ دوسری اقوام سے مختلف‘ ملت اسلامیہ کی قوت و توانائی اور عزم و حوصلہ کا اصل سرچشمہ اساسیاتِ دین اور اس کی اسلامی تہذیبی اقدار اور اخلاقی ضابطے ہیں۔ لہٰذا اس قوت کو مضمحل اور کمزور کردینا صرف فکری و نظریاتی یلغار ہی سے ممکن ہے۔
باطل نے صدیوں اس کے لیے محنت اور تیاری کی ہے۔ مستشرقین کا ایک بڑا طائفہ ایک طویل عرصے متعدد پہلوؤں سے اسلام کے مطالعے اور تحقیق و تصنیف میں غیرمعمولی محنت‘ کاوش اور جانفشانی کے ساتھ مصروفِ کار رہا ہے۔ دنیا کی تقریباً تمام یونی ورسٹیوں میں اسلامک اسٹڈیز کے شعبے قائم کیے گئے ہیں جن میں دراساتِ اسلامی کے مآخذ و مصادر بیش تر یہودی و نصرانی مفکرین‘ اسکالرز اور مصنفین کی کتابیں رہی ہیں اور ایسے ہی اساتذہ کی سرپرستی و نگرانی میں اسلامک اسٹڈیز میں ڈاکٹریٹ کے طلبہ (مسلم و غیر مسلم ریسرچ اسکالرز) اسلامیات پر تحقیق کرتے اور پی ایچ ڈی کی اسناد حاصل کرتے رہے ہیں۔ بیش تر یہی اسکالرز ہیں جو صدی دو صدی سے اسلام کی تشریح و تعبیر کررہے ہیں۔ یہ جدید دور میں جدید اسلام کے ترجمان متصور کیے جاتے ہیں اور نئی نسلوں کی علمی و فکری رہنمائی بیش تر انھی کے اور ان سے فیض یافتہ دانش وروں کے ہاتھوں میں ہے۔
مقاصد اور حکمتِ عملی
اس فکری یلغار کے مقاصد متعدد ہیں اور اس کے اثرات بے شمار اور وسیع۔ ذیل میں اختصار سے ان میں سے صرف چند کا مجمل تذکرہ کیا جارہا ہے:
۱- امت مسلمہ کے پاؤں اساسیات دین کی زمین سے اکھڑ جائیں۔ وہ عقائد و عبادات کی رسمیات و مظاہر تک سمٹی رہ کر نظریات و افکار‘ اخلاق و کردار اور اطوار و تہذیب کی وسیع تر زمین پر پہلے تشکیک و تذبذب‘ پھر مرعوبیت و احساسِ کہتری اور بالآخر شکست خوردگی سے دوچار ہوکر ایک پست حوصلہ و مغلوب قوم بن کر رہ جائے۔ اگرکچھ فعال و متحرک ہو بھی تو صرف دفاعی سطح پر۔
۲- قرآن و سنت کے بجاے دیگر ذرائع علم سے ملت رہنمائی اخذ کرنے کی خوگر بن جائے۔ قرآن و سنت پر اس کا اعتماد یا تو کمزور ہوجائے یا جملہ امور و معاملات میں وہ آیات و احادیث کی ایسی تاویل کرنے لگے جو فکری یلغار کے مقاصد سے ہم آہنگ ہو۔
۳- اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور تہذیبی اقدار‘ ملت کو تاریک خیالی‘ قدامت پسندی محسوس ہونے لگیں۔ وہ انھیں بنیاد پرستی اور شدت پسندی پر محمول کرنے لگے اور یہ یقین کرنے لگے کہ جب تک اسلام اور شریعتِ اسلامی کی جدید تعبیر نہ ہو‘ یہ عصر جدید کا ساتھ دینے والا‘ عہدِ حاضر کے ساتھ چلنے والا دین ہرگز نہ رہ سکے گا۔
۴- عورت کے مقام وحیثیت‘ خاندان‘ معاشرے اور تمدن میں اس کے رول سے متعلق اسلام کے اعلیٰ و ارفع اصولوں‘ تعلیمات اور قوانین کو مسلمانوں کی نگاہ میں صرف غیر معتبر ہی نہیں بلکہ حقیر بنادیا جائے۔
۵- باطل قوتوں کے مظالم‘ استبداد‘ استحصال اور استعمار کی مزاحمت کرنے والی قوت بازو کو جس جس منبع اور جس جس مخرج سے غذا اور توانائی بہم پہنچ سکتی ہو‘ اسے فکری یلغار اور پروپیگنڈا مشینری سے اتنا بدنام کردیا جائے کہ خود ملت کی صفوں سے ایسے مفکر‘ دانش ور‘ علما‘ صحافی‘ قائد اٹھ کھڑے ہوں جو باطل کوششوں کے مزاحمت کاروں کے خلاف ایسے بیانات‘ فتوے اور تحریریں جاری کرنے لگیں کہ ان کی نظر میں اسلام کے چہرے پر لگے ’بدنامی کے داغ‘ دھل جائیں۔
۶- اسلام کے احیا و غلبے کے لیے سرگرم تحریکاتِ اسلامی کو___ جو باطل کے لیے خطرہ اور چیلنج ہیں ___ اس قدر بدنام کردیا جائے کہ عام مسلمان ان سے نفرت کرنے لگیں اور انھیں اتنا خوف زدہ اور پریشان کردیا جائے کہ عام مسلمان ان سے دور رہنے ہی میں عافیت محسوس کریں۔
۷- اسلام کے خلاف پروپیگنڈا جہاں ایک طرف فکری یلغار کی شکل میں امتِ مسلمہ کو منفی طور پر متاثر کرے‘ وہیں دوسری طرف اسلام کی خوبیوں کو نقائص کے طور پر پیش کرکے غیرمسلمین کے لیے بھی نہ صرف اسلام کی کشش کو زائل کردے بلکہ اس کے تئیں انھیں متوحش و متنفر کردے۔
فکری و تھذیبی یلغار اور اس کے اثرات
یوں توملت اسلامیہ اپنی پوری تاریخ میں طرح طرح کی سازشوں اور فتنوں سے نبرد آزما ہوتی رہی ہے‘ تاہم ان کی کیفیت‘ نقصانات اور دائرہ ہاے اثر زمان و مکان‘ ہر دو اعتبار سے محدود اور عارضی رہے ہیں‘ لیکن بین الاقوامیت‘ عالم گیریت اور مواصلاتی تیز رفتاری و ہمہ گیری کے موجودہ دور میں فکری حملوں‘ سازشوں اور فتنوں میں وسعت‘ زود اثری اور تیز رفتاری آگئی ہے۔ تقریباً ۲۰۰ سال کے دورِ انحطاط میںایک طرح کی سیاسی غلامی نے فکری اثر پذیری اور غلامی کے لیے ملّی رجحان کو ہموار کیا ہے۔ نتیجے کے طور پر فکر و نظریہ اور علم و دانش کا کوئی بھی گوشہ اور اخلاقیات و معاشرت‘ علوم و عمرانیات‘ تہذیب و ثقافت اور معاشیات و اقتصادیات کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں ہے جو ان حملوں کی زد میں اور اس یلغار سے کم یازیادہ متاثر نہ ہوا ہو۔
اُمت کے بجاے قومیت کا تصور:مسلمانوں کو امت متحدہ اور ملت واحدہ بنائے رکھنے کا راز ’اسلامی قومیت‘ کے تصور میں مضمر تھا۔ اس پر جغرافیائی وطنی قومیت کے تصور کی فکری یلغار ہوئی‘ ملت نے اسے بحالتِ اکراہ ہی گوارا نہیں کیا بلکہ بہ شرح صدر اسے پسند اور قبول بھی کرلیا۔ اب وطنی قومیت پرستی اس کا متوازی یا ذیلی دین بن گئی اور وطن ایک ایسا خدا بن گیا ہے جس کا تعارف اقبال نے ’ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے‘ کے الفاظ میں کرایا تھا۔ اس کے اثرات و نقصانات عالمی المیوں اور بحرانوں کی شکل میں اظہر من الشمس ہیں۔ الگ الگ اوطان میں منقسم و منتشر ۱۲۵ کروڑ مسلمانوں کی اکثریت ۶۰‘ ۶۲ ایسے حکمراں سرداروں کی رعیت میں ہے جن میں سے بیش تر دشمنانِ اسلام کے حلیف یا مملوک ہیں۔ اب اس بت سے بے زاری کے مظاہرے کی رسم صرف سال میں ایک بار پانچ دن کے لیے دورانِ حج باقی رہ گئی ہے۔
خدا کے بجاے جمھور کی بالادستی:’’اجتماعی نظام اور تمدنی ساخت کی صورت گری میں فیصلہ کن رول ادا کرنے میں انسان اور انسانوں کا مجموعہ خود کفیل و خود مختار ہے اور اس کا یہ کام‘ نیز اس کے لیے یہ کام جمہور کریں گے‘‘۔ یہ ایک سراسر باطل فکر ہے اور اسلام سے راست متصادم ہے۔اس فکر پر اگر کہیں ایک نظام ’بالقوۃ‘ قائم و نافذ ہو تو اسلام اسے گوارا کرنے اور اس کی کچھ خوبیوں سے استفادہ کا موقع تو دیتا ہے لیکن اسے بہ رضا و رغبت ’بالحق‘ تسلیم کرلینے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن اس فکر کی شدید و متواتر یلغار نے مسلمانوں کو نہ صرف اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ خدا کے منصب پر جمہور کے تمکن کو بطور امرواقعہ گوارا کرلیں بلکہ اس موقف پر بھی پہنچا دیا کہ وہ اسے قانونًا بھی سند قبولیت دے دیں۔ اس فکری یلغار نے مسلمانوںکے بڑے بڑے اہل علم و دانش کو بھی یہ باور کرادیا کہ یہی صورتِ حال ملت اسلامیہ کی آخری اور مطلوبہ منزل ہے۔ وہ شعر تو پڑھتے ہیں: ’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں‘ لیکن عملاً اسی زمین کی پستیاں انھیں راس آگئی ہیں۔اس سے کتاب و سنت کا ایک بڑا حصہ عملاً اور مستقلاً معطل اور منسوخ ہوکر رہ گیا اور المیہ یہ ہے کہ نہ صرف عامۃ المسلمین سے بلکہ ان کی رہنمائی کرنے والوں سے بھی‘ اس عظیم زیاں کا احساس ہی نہیں ادراک بھی سلب ہوگیا۔
ادیان باطل اور رواداری کا غلط تصور: دین کی جامعیت اور ہمہ جہتی کے تصور کو خارجی یلغار نے سمیٹ کر نہایت ہی غیر فعال اور محدود کردیا تو خود ملت کی نگاہ میں اسلام کی امتیازی حیثیت تقریباً معدوم ہوگئی او ریہ دیگر ادیان کے گویا مساوی دین قرار پایا۔ اِنَّ الَّدِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ کا درست ترجمہ تو برقرار رہا لیکن اس کی معنویت کھوگئی۔ بڑے بڑے ذہین و زیرک مسلمانوں کے نزدیک بھی یہ بات درست قرار پائی کہ دین حق اور ادیانِ باطلہ کے درمیان خوش تعلقی‘ خیرسگالی اور پُر امن بقاے باہم بحال رہنا چاہیے۔ یہ ایک بڑا نظریاتی المیہ ہے کہ سورۃ الکافرون جو ادیانِ باطلہ سے بے زاری و براء ت کا اظہار و اعلان تھی اس کی ایسی تاویل کی جانے لگی کہ تمام ادیان اسلام کے نزدیک ٹھیک ہیں۔ اس طرح کلامِ الٰہی کو بھی مساوات بین الادیان کا ترجمان قرار دے کر اسے سیکولرزم کی اس تعبیر کا حامی بنادیا گیا جس کے مطابق سارے ادیان یکساں احترام کے مستحق ہیں۔ نتیجتاً فریضۂ دعوت کو ملّی ایجنڈے میں اور کارِ دعوت کو ملّی سرگرمیوں میں جگہ ہی نہیں ملی… إلاَّ ماشاء اللہ! فکری یلغار کا یہ مقصد پورا ہونے لگا کہ ملّت اسلامیہ اپنے دعوتی کردار سے محروم ہوجائے اور ملکی و عالمی منظر نامے پر کمزور وباطل ادیان کو قوی و توانا دین حق کی پیش رفت کا خطرہ و چیلنج باقی نہ رہ جائے۔
اسلام کو تقسیم کرنے کی کوشش: اگر کوئی یہ سوال کرے کہ اسلام کی کتنی قسمیں ہیں اور مسلمانوں کے کون کون سے ’’اسلامی زمرے‘‘ ہیں تو ہر مسلمان اس سوال پر یا تو ہنس پڑے گا یا خفا ہوجائے گا۔ لیکن کمال ہے اس فکری یلغار کا جس نے سخت گیر اسلام اور روادار (لبرل) اسلام کی د و قسمیں تصنیف کیں۔ دین و شریعت پر عامل مسلمان بنیاد پرست‘رجعت پسند‘ تاریک خیال قرار دیے گئے اوراسلام کو خود آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی کی خود ساختہ غلط تعبیر و تشریح کے خنجر سے ذبح کرنے والے مسلمان پروگریسیو۔ اب یہی پروگریسیو اور روشن خیال طبقہ نیشنل پریس کے کالموں میں‘ نیز کانفرنسوں اور سیمی ناروں میں اسلام کی ترجمانی و نمایندگی کرتا ہے۔ اس فکری یلغار کے اثرات بد نے ایک خوفناک رخ یہ اختیار کیا ہے کہ ایسے لوگ بھی جو دین و شریعت کی جڑوں سے چمٹے ہوئے ہیں آہستہ خرامی کے ساتھ‘ لبرل اسلام کی طرف محوِ سفر ہورہے ہیں۔ اب کم ہمت لوگوں کا ایک درمیانی زمرہ وجود میں آگیا ہے۔ انھیں قرآن و احادیث اور فقہ میں جو درک اور قرنِ اولیٰ کی اسلامی تاریخ کا جو علم حاصل ہے اسے دشمنانِ اسلام کی دی ہوئی لائن پر اسلام کو ’پروگریسیو‘ بنانے میں بروے کار لارہے ہیں۔
اسلامی تحریکوں کو بدنام کرنے کی کوشش: فکری یلغار کے مذکورہ بالا اثرات نے اسلام کا اصل چہرہ ایسا گرد آلود اور دھندلا بنادیا ہے کہ اس کے حقیقی چہرے سے ملّت کا سواد اعظم ایک اجنبیت اور غیر انسیت محسوس کرنے لگا ہے۔ اس صورت حال پر حضوؐر کی یہ پیشین گوئی‘ گویا صادق آنے لگی ہے: ’’اسلام جب آیا‘ تو اجنبی تھا۔ ایک وقت آئے گا جب یہ پھر سے اجنبی بن جائے گا …‘‘ یہی وجہ ہے کہ تحریکاتِ اسلامی‘ اسلام کا حقیقی چہرہ پیش کرنے کی وجہ سے ہر جگہ خود افرادِ ملت کے ذریعے مطعون‘ معتوب و مغضوب ہیں۔ بڑا دل چسپ المیہ ہے کہ ایک طرف باطل قوتوں کی چیرہ دستیوں سے گلہ و شکوہ بھی ہے اور دوسری طرف تحریکاتِ اسلامی پر الزام و اتہام‘ ان کی کردار کشی اور مخالفت و مزاحمت بھی۔
تصورِ تعلیم پر ضرب: فکری یلغار نے اسلام کے تصورِ علم پر کاری ضرب لگائی ہے‘ جس کے نتیجے میں مسلم عوام ہی نہیں خواص کے نزدیک بھی حقیقی علم کی تعریف و تعبیر اور مقصدیت کا حلیہ بگڑ گیا ہے۔ اسی مناسبت سے نظریۂ تعلیم اور تعلیم یافتگی کا مقصدِ عین‘ خالص مادّہ پرستانہ بن کر رہ گیا ہے۔ اب ایسی باتیں سنانے والے بھی کم یاب ہیں اور سننے و ماننے والے بھی کم یاب‘ کہ ’’علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است‘‘ (وہ علم‘ جو حق کی طرف راہ نمائی نہ کرے‘ جہالت ہے)‘ اور ’’اللہ سے کرے دور‘ وہ تعلیم بھی فتنہ‘‘۔ لہٰذا بیش تر ملّی تعلیمی سرگرمیوں‘ ملت کی تعلیمی پس ماندگی دور کرنے کی تقریباً تمام تحریکوں اور تعلیمی کاروانوں کو اسی خدا بے زار اور دین بے زار نظریۂ تعلیم سے قوتِ محرکہ و توانائی ملتی ہے۔ کبھی اسلام کے تئیں کچھ رعایت کا خیال آجاتا ہے تو طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ … کی حدیث اور سورئہ علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کا حوالہ بھی دے دیا جاتا ہے لیکن بالآخر تان ٹوٹتی ہے کیریئر‘ روزگار‘ تمول‘ دولت مندی‘ مادی خوش حالی‘ معاشی ترقی کے انھی اہداف پر جنھیں غیر اسلام نے متعین و مقرر کیا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ نسلوں کی کھیپ کی کھیپ مادّہ پرستوں کی بھیڑ میں گم ہوتی جارہی ہے اور دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتگی کا‘ یہ گویا ایک لازمہ سا بن گیا ہے کہ یا تو مدارس‘ اسلامی درسگاہوں اور دینی تعلیمی جامعات کی تحقیر کی جائے‘ یا ان کے نصاب تعلیم کو جدید کاری کے نام پر یہ کہہ کر سیکولرائز کرنے کا غلغلہ بلند کیا جائے کہ ان تعلیمی اداروں کے فارغین کسی کام کے نہیں رہ جاتے اور بس ملَّا‘ مولوی‘ امام اور مؤذن بن کر رہ جاتے ہیں جو جدید و اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی نگاہ میں گویا ایک حقیر‘ بے کار اور اپاہج طبقہ ہے۔
معاشی تصورات پر زد: مضبوط معیشت اور بہتر معاشی حالت کسی بھی قوم کے لیے ایک خیرِ عظیم کا درجہ رکھتی ہے۔ لیکن دیگر قوموں کے برعکس ملتِ اسلامیہ کی یہ امتیازی پوزیشن ہے کہ اس کی معیشت اسلامی عقائد و اخلاقیات سے وابستہ اور اسلامی پیمانہ ہاے ردّوقبول سے مشروط ہے۔ کسب حلال کے ساتھ کمزور معاشی حالت بھی‘ کسب حرام کے ساتھ ملت میں کروڑ پتیوں‘ ارب پتیوں کی بھیڑ لگ جانے سے بہر حال اور بدرجہا بہترہے۔ اس پس منظر کے پیشِ منظر میںایک زبردست فکری یلغار ہے جس نے عوام و خواص کے بڑے حصے کو مذکورہ فرق کے تئیں غفلت و بے اعتنائی سکھائی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ سودی قرض کے سرمایے سے صنعت کاری کی تدابیر بتائی جارہی ہیں۔ کوئی دانش ور سودی معیشت کو مباح بتارہا ہے تو کوئی پسندیدہ‘ اور کوئی ناگزیر۔ سودی معیشت و اقتصاد کے حق میں کتابوں کی تصنیف و اشاعت ہورہی ہے۔ قرآن اور احادیث کی سخت تنبیہ اور وعید سے بچنے کے لیے سود اور ربا میں فرق ثابت کیا جارہا ہے۔ دارالاسلام اور دارالکفرکی فرسودہ فقہی بحثیں زندہ کی جارہی ہیں۔ مسلمانانِ ہند پر خارجی اور داخلی‘ ہر دو سطح سے ان کی ’معاشی پس ماندگی‘ کے اعداد و شمار کی یورش ہے اور اس کے ساتھ‘ دولت مندی‘ اور انتہائی دولت مندی کی حرص و آز کی تیزو تند لہریں ہیں۔ اس مجموعی کیفیت کے درمیان زندگی کی صالح خدا پرستانہ تعبیر کمزور پڑ رہی ہے اور اس کی جگہ مادہ پرستانہ تعبیر کو فروغ مل رہا ہے۔
صارفیت کا فتنہ : انڈسٹرئیلائزیشن کی غیر معمولی ترقی‘ صنعت و حرفت کی بے پناہ وسعت اور مصنوعات کے بے تھاہ سمندر سے ایک فکری سونامی کی زبردست لہریں اٹھ رہی ہیں جسے صارفیت (consumerism) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک خاموش اور غیر محسوس فکری یلغار ہے کہ انسان کو جتنا زیادہ سکون و آرام درکار ہو‘ مارکیٹ میں دستیاب اتنی ہی زیادہ مصنوعات خرید خرید کر اٹھا لائے اور اپنے گرد ان کے ڈھیر لگا دے۔ اس کی حقیقی ضرورت کیا ہے اور کتنی ہے‘ اس سے قطع نظر‘ خریداری کا فیصلہ اس بات پر ہو کہ اس کی قوتِ خرید کتنی ہے اور دکانوں میں‘ سوپر مارکیٹوں میں اور پلازاؤں میں کتنی اشیاے صَرف دستیاب ہیں‘ فیشن اور ڈیزائنر فیشن کے کتنے آئٹمز‘ کتنے اور کیسے ملبوسات‘ تکثیرِ حسن و جمال کے کیسے کیسے کاسمیٹکس‘ مکان کی زیبایش اور ڈرائنگ روم کی آرایش کی کتنی اشیا کاؤنٹروں‘ ہینگروں اور شوکیسوں سے دل و دماغ میں ہیجان بپا کررہی ہیں۔ مسلمانوں کو اسراف اور بخل کے درمیان ایک معتدل و متوازن زندگی جینے کی تعلیم دی گئی تھی۔ اسراف کرنے والے کو قرآن میں شیطان کا بھائی کہا گیا تھا۔ سادگی اور قناعت کی زندگی کے وعظ و تذکیر کے سلسلے جاری کیے گئے تھے۔ لیکن صنعت کاروں و سرمایہ داروں اور بڑے بڑے تجارتی اداروں کی طرف سے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے توسط سے ہر وقت ہر آن ہونے والی اشتہاری یلغار نے مسلمانوں کی بھی فکر ونظر کی چولیں ہلا کر رکھ دیں‘ اور ملت پر کنزیومرزم کا فتنہ پوری طرح مسلط ہوگیا۔ کوئی خوش نصیب گھرانہ ہی ہوگا جو اس سے محفوظ و مامون ہوگا۔
تحدید آبادی کے تصور کی پذیرائی: ملحدوں‘ ڈارون ازم پر ایمان رکھنے والوں اور مالتھس کے پرستاروں کی بات ہو‘ یا دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی‘ اقوامِ عالم میں یہ شرفِ امتیاز امتِ مسلمہ اور صرف امت مسلمہ کو حاصل ہے کہ یہ خدا‘ تخلیقِ عام اور تخلیق انسانی کے درمیان حقیقی تعلق کا ادراک رکھتی ہے اور بخوبی جانتی ہے کہ یہ اللہ کا منصوبۂ عظیم ہے کہ یہ زمین انسانی آبادی سے معمور بھی ہو اور اس آبادی کو قوانینِ فطرت کے تحت چیک اور کنٹرول بھی کیا جاتا رہے۔ ان دونوں پہلوؤں سے اللہ خلاّقِ اعظم نے انسان کی سرشت اور نفس کے اندر سے لے کر خارج میں روے زمین‘ نیز زمین کے اندر و باہر کی لا محدود وسعتوں تک اتنے اہتمامات و انتظامات کیے ہیں کہ ان کا شمار ناممکن ہے۔ اس آفاقی و بدیہی حقیقت کے علی الرغم جب امت مسلمہ پر یہ فکری یلغار ہوئی کہ چھوٹا کنبہ خوش حالی کی ضمانت اور قلیل آبادی ملک کی ترقی کی ضمانت ہے تو کچھ خوش نصیب نفوس کو چھوڑ کر اکثریت کا … اور بالخصوص مسلم دانش وروں کا‘ اللہ کی رزاقیت پر یقین و اعتماد پانی کے بلبلے کی طرح ٹوٹ گیا۔ یہ فرق (قصداً یا بلا قصد) نظر انداز کیا جانے لگا کہ خالص انفرادی اور ذاتی سطح پر شوہر‘ بیوی کے لیے اس بات کا جواز کہ وہ زچّہ بچہ (ماں اور نومولود) کی صحت و زندگی سے متعلق کسی ناگزیر کیفیت میں (نہ کہ معاشی بنیاد پر) ضبطِ تولید کا فیصلہ کریں‘ ایک الگ بات ہے جس کی اجازت اسلام دیتا ہے‘ جب کہ مسلم قومی پالیسی کے طور پر ضبط ولادت کے حق میں‘ اس کی افادیت کے دلائل دینا‘ عامۃ المسلمین کو اس کی ترغیب دینا‘ مسلم سماج میں اس کے لیے ذہنی ہمواری پیدا کرنا‘ حتیٰ کہ اس کے مستحب و مستحسن ہونے کی تحریک چلانا بالکل دوسری بات ہے جو اسلامی فکر سے صریح انحراف اور بغاوت کے مترادف ہے۔
کبھی یہ لغو دلیل دی گئی کہ کچھ مسلم ملکوں (مثلاً مصر‘ پاکستان وغیرہ) میں حکومتی سطح سے تحدیدِ نسل نافذ ہے اور اسے وہاں کے علما نے ’شرعی‘ جواز فراہم کردیا ہے‘ جب کہ یہ بات غیرمعروف نہیں ہے کہ عباسی دورِ خلافت سے لے کر اب تک ہمیشہ ایسے علما موجود رہے ہیں جنھوں نے حکمرانوں کے سخت دباؤ میں آکر شریعت میں چور دروازے بھی نکالے ہیں۔ مزید یہ کہ موجودہ مسلم ممالک کے دین بیزار حکمرانوں کے سیکولر قوانین شرعی حجّت‘ یا نظیر کا درجہ نہیں رکھتے۔
کثرتِ آبادی کو غربت و افلاس‘ ناخواندگی و پس ماندگی اور آبادیوں میں جرائم کی پرورش و فروغ‘ نیز ملک کی ترقی میں حارج قرار دینے کی سازش تو مغرب نے مشرق کے لیے کی جس کے مقاصد اور تفصیلات بہت طویل ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ اتنے کھلے جھوٹ‘ فریب اور فراڈ پر ہمارے بہت سارے نام نہاد ’اسلامی‘ دانش وروں کی بھی آنکھیں‘ اور عقل‘ فواد و ضمیر کے دروازے بند ہیں۔ یہ فکری یلغاراتنی شدید اور اس کے اثرات و نتائج اتنے گہرے اور وسیع ہیں کہ کسی مختصر تحریر میں ان کا احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے۔
دھشت گردی کا الزام اور تاویلیں: ۱۵‘ ۲۰ سال قبل تک دنیا کے کئی ملکوں اور خطوں میں مسلمان‘ دشمن طاقتوں کے ظلم و استبداد اور استعمار کے خلاف وطنی و قومی جذبے سے حربی مزاحمت کرتے رہے تھے۔ پھر ان مزاحمتی تحریکات کو اسلامی ڈائمنشن دیا گیا اور فطری طور پر اس مزاحمت کو جہاد سے موسوم کیا گیا۔ پہلے دشمن طاقتیں اس مزاحمت کو ’دہشت گردی‘ کہا کرتی تھیں یا ’مسلم دہشت گردی‘۔ اب اسے ’اسلامی دہشت گردی‘ یا ’جہادی دہشت گردی‘ کا نام دے دیا گیا۔ یہ اصطلاحات مسلم انٹلکچوئلز‘ زعما اور علما کے اعصاب پر فکری یلغار بن کر حملہ آور ہوئیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اہلِ علم و دانش نے بیش تر‘ اسے سچ مچ دہشت گردی ہی باور کرلیا‘ خواہ دل سے‘ خواہ زبردست دباؤ کے تحت۔ وہ اسلام کی مدافعت کے نام پر‘ لغوی معنوں میں لفظ جہاد کی تعریف تشریح و تعبیر میں لگ گئے اور اس کے اصطلاحی مفہوم کو دبادیا‘ چھپایا جانے لگا یا اس کی ایسی تاویلات کی جانے لگیں جو دشمن طاقتوں کو پسند آجائیں۔ اس کے لیے یہ بھی کیا گیا کہ بارہ تیرہ صدی قبل مرتب کی گئی ایسی شرائط کی تکمیل حقیقی اسلامی جہاد قرار پانے کے لیے لازم بتائی گئی جو اول تو قرآن و احادیث میں منصوص نہیں ہیں اور دوسرے‘ موجودہ دور اور حالات و کوائف میں ان کی کوئی معنویت (relevance) ہی باقی نہیں رہی ہے۔ اس فکری یلغار نے انھیں اتنا مرعوب اور خوف زدہ کردیا کہ بقول مولانا مودودیؒ، اسلام کے یہ وکلا اسلامی نقطۂ نظر کو ایسے رنگ میں پیش کرنے لگے جو دشمنانِ اسلام کو پسند آجائے۔ مولانا مودودیؒ جیسی جرأت اور حق گوئی … اتنے بڑے عالَمِ اسلام میں کہیں نظر نہ آئی۔ مولانا نے لکھا تھا کہ ’’اسلام کو اسلام کے اپنے رنگ میں پیش کردیجیے۔ لوگوں کو پسند آجائے تو بہت اچھا‘ نہ پسند آئے تو کوئی پروا نہیں۔ انبیا علیہم السلام اور اولوالعزم لوگوں کا اسوہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے‘‘۔ ع
کون سنتا ہے فغانِ درویش!
دہشت گردی کی وہ قسم جس میں بے قصور عام شہری مارے جائیں‘ سب سے زیادہ مسلمانوں کے ذریعے مذمت کی مستحق ہے خواہ مجرم کوئی بھی ہو‘ بلکہ اگر مجرم مسلمان ہو تو اس کی اور زیادہ مذمت اور سخت سزا کا مطالبہ مسلمانوں کو‘ دیگر قوموں سے بڑھ کر کرنا چاہیے۔ لیکن دشمنانِ اسلام کی مذکورہ بالا حکمت عملی اور فکری یلغار سے متاثر‘ مسلم دانش ور‘ صحافی‘ علما اور قائدین کی اکثریت نے ایک یکسر غلط رویہ اختیار کیا۔ وہ کوئی حادثہ ہونے کے فوراً بعد مجرم کی مذمت اور اس کے حوالے سے اسلام کا دفاع اس طرح کرنے میں لگ گئے گویا انھوں نے تفتیش کرکے یہ یقین کرلیا ہو کہ حادثے کے مجرم مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ نہ عالمی سطح پر‘ اور نہ ملکی سطح پر یہ کوئی ڈھکی چھپی بات رہ گئی ہے کہ بیش ترحادثوں میں کچھ دیگر مسلم دشمن عناصر‘ تنظیمیں اور ایجنسیاں ملوث ہوتی ہیں اور حادثے کے بعد آناً فاناً مسلمانوں کے نام سے میڈیا اور ملک گونج اٹھتا ہے۔ اس رویے کا اثر یہ ہوا کہ دہشت گردی کے حوالے سے پوری ملت کی‘ اغیار کی نظروں میں مجرمانہ تصویر بنانے اور اسے احساسِ جرم میں مبتلا کردینے میں خود ہم ایک بڑا رول ادا کرنے لگے اور کسی بھی مسلمان کو‘ کسی بھی جگہ اور ہرحادثے کے بعد پکڑ لیے جانے کی فضا ہموار کردی۔ آج کل پوری دنیا میں یہی کچھ ہورہا ہے۔
عائلی زندگی اور خاندان کی توڑ پہوڑ: ازدواجی اور عائلی زندگی‘ معاشرہ اور تہذیب و تمدن کی عمارت کی بنیاد کے پتھر ہیں۔ یہ پتھر غیر مسلم معاشروں میں کمزور ہورہے‘ ٹوٹ رہے یا اپنی جگہ سے کھسک رہے ہیں۔ لہٰذا پوری عمارت یا تو شگاف زدہ ہورہی ہے یا منہدم ہورہی ہے۔ اسلام کا فیض ہے کہ مسلم معاشرہ اب تک اس تخریب سے محفوظ ہے۔ دشمنانِ اسلام کو‘ ظاہر ہے کہ یہ بات کیوں کر گوارا ہوتی … خصوصاً جب مسلم معاشرے کے اس امتیاز کی کشش غیر مسلم معاشروں کے مردوں اور عورتوں اور نوجوانوں کو اسلام کی طرف کھینچنے لگی ہو۔ لہٰذا اس محاذ پر طلاق اور تعدد ازدواج کے بارے میں حقوق نسواں اور مساوات مرد و زن کے نہایت خوب صورت ناموں سے ایک زبردست فکری یلغار کی گئی‘ جس سے اہل فکر و نظر‘ اہل علم و تفقہ‘ اہل دانش و بینش کے … حتی کہ اہل دین و تقویٰ کے بھی‘ جو شرعی قوانین کے محافظ و نگراں تھے …دینی اعصاب چَرمَرا اٹھے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ شرعی قوانین‘ نامکمل‘ ناکافی اور ناقص نظر آنے لگے۔ شریعتِ کاملہ و مطہرہ کی شرائطِ نکاح سے زائد اشتراط فی النکاح کا نفاذ ضروری قرار پایا۔ شوہر کے لیے عقد ثانی کو‘ شریعت پر مستزاد سخت شرط کے ساتھ مشروط کیا جانے لگا۔ شریعت کی روح اور شرعی قوانین میں مضمر عظیم حکمتیں ناقابلِ التفات ٹھیریں۔ فکری یلغار کے دباؤ کی شدت میں اس بدیہی حقیقت کا خیال بھی نہ آیا کہ یہ بظاہر د ونوں نیک کام‘ عملاً مسلم ازواج اور خاندانوں پر … اور بالآخر مسلم سماج پر … وہی راستہ کھول دیں گے جو کچھ دور جاکر غیر مسلم معاشروں اور گھرانوں کو تباہی سے دوچار کرتے رہے ہیں اور اس تباہی کے مناظر ہم معاصر تہذیب میں شب و روز کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔
مسلم عورت ، خصوصی ھدف
مسلم سماج میں کچھ عورتیں‘ کچھ مخصوص امور میں سچ مچ مظلوم و مقہور ہیں۔ تاہم‘ بحیثیت مجموعی مسلم عورت دنیا بھر کی عورتوں میں سب سے زیادہ اور محسوس طور پر‘ باعزت‘ باعصمت‘ باوقار‘ محفوظ و مامون اور مطمئن ہے۔ اس کی یہ عمومی پوزیشن‘ نیز اس کی وہ کشش جس کی تحریک پر غیر مسلم خواتین دائرۂ اسلام میں مسلسل کھنچتی چلی آرہی ہیں‘ دشمنانِ اسلام کو فطری طور پر ایک آنکھ نہیں بھاسکتی۔ اس پوزیشن کی بقا اور اس کی بحالی میں وہ شہوانیت‘ اباحیت‘ فحاشی ‘ بے لگام جنسی لذتیت اور جنسی انارکی میں لت پت اپنی بزعم خویش عظیم و بے مثال و قابل صدفخر تہذیب کی ٹوٹ پھوٹ اور موت کا پیش منظر دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذا انھوں نے عورت کے تعلق سے اسلامی اصول‘ اخلاقیات اور قوانین کے خلاف زبردست منصوبہ بندی کرکے، نقشۂ کار بناکر‘ طریقۂ کار متعین کرکے اسلام پر حملے اور ملّت اسلامیہ پر فکری یلغار کے دہانے کھول دیے۔معلوم ہوا کہ ایسے بے شمار موجود ہیں جو دشمنوں کی سازشوں کو یا تو سمجھنے کی صلاحیت اور ظرف نہیں رکھتے‘ یا قصداً سمجھنا نہیں چاہتے‘ یا دشمنوں سے اتنے زیادہ مرعوب ہیں کہ اس کمزوری کا مداوا وہ مسلم سماج اور اسلامی تہذیب کو تبدیل کردینے میں تلاش کرتے ہیں۔
اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ دانش ور حضرات مسلم سماج میں عورت کی حقیقی اور واقعی مجبوری‘ محرومی اور مظلومی کی نشان دہی کرکے (اسلامی تعلیمات سے دوری‘مسلمانوں کی انفرادی بے عملی و بدعملی‘ اور مسلم معاشرے کی بے اعتدالی‘ بے رحمی و زیادتی کی اصلاح کے لیے) کتابیں‘ مقالے اور تحقیقی مقالے لکھتے۔ مثلاً: عوام و خواص اور ناصحین و مصلحین کی ہر سطح پر پیوست جہیز کی وبا مسلم عورت کو پریشان کررہی ہے۔ سامانِ جہیز کی فراہمی اور بارات کی تواضع کا بوجھ اس کے والدین اور اہلِ خانہ کا استحصال کررہا ہے۔ اسے مہرادا نہ کرنے کے حیلے بہانے وضع کرلیے گئے ہیں۔ اسے ترکہ سے محروم رکھنا پورے اطمینان اور شان سے جاری ہے۔ جہیز کو‘ وراثت میں حصہ کا متبادل بنادینا اس پر مستزاد ہے۔ شوہر اگر بیوی کو معلق کردے تو بیوی کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ شوہر بیوی بچوں کو چھوڑ کر بھاگ جائے اور بیوی دَر دَر کی ٹھوکریں کھائے تو کھاتی رہے۔ عورت بیوہ یا مطلقہ ہوجائے تو اس کا دوسرا نکاح ہونا ویسا ہی معیوب و مشکل ہے جیسا ہندوسماج میں۔ اس کے بھائی‘ باپ کی پوری جایداد (وراثت) ہڑپ کرکے بیٹھے رہیں گے اور پھر بھی سماج میں سرخ رو رہیں گے۔ وہ امیر گھرانوں میں کام کاج کرکے‘ محنت مزدوری کرکے‘ ملازمہ و خادمہ بن کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالے گی اور نہ بھائیوں بھاوجوں اور رشتہ داروں کو رحم آئے گا نہ سماج اور اس کے مصلحین کو… الا ماشا ء اللہ۔
فکری یلغار کے مارے ہوئے دانش ور اور اہل مقالہ جات کو مسلم سماج میں عورت ٹھیک وہیں وہیں مظلوم و مقہور نظر آنے لگی جن گوشوں‘ میدانوں اور مقامات کی نشان دہی شریعتِ اسلامی کے نقص کے طور پر دشمنوں نے کی ہو۔ چند پہلوئوں کا ذیل میں تذکرہ کیا جا رہا ہے:
تعلیم نسواں کی جدید تعبیر : تعلیم نسواں کی اہمیت‘ افادیت اور ناگزیریت کی توجیہہ کے اسلامی پیمانے بدل رہے ہیں۔ انھیں اب غالب طور پر مادّی منفعت اور معاشی ترقی و خوش حالی کا رخ دیا جارہا ہے۔ بات شروع کرتے وقت اگر اسلام کا خیال بھی ملحوظ رہا تو اس حدیث کا تذکرہ بھی کردیا جائے گا کہ علم حاصل کرنا مرد اور عورت سب پر فرض ہے لیکن بات پوری ہوگی تو یوں کہ عورت کو خود کفیل اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی اہل بننا ضروری ہے۔ اس کی تعلیم کیریر کے لیے ہونی چاہیے۔ یہ ٹھیک وہی ایجنڈا ہے جسے اسلام کے بالمقابل‘ دشمنانِ اسلام نے ہمارے دانش وروں کو سجھایا ہے۔
’گہر، چھار دیواری کی قید‘: عورت کے اپنے اصل دائرۂ کار ’گھر‘ کو جس میں وہ آرام و سکون سے ہے‘ محفوظ ہے‘ عزت و آبرو سے ہے اور نئی نسل کی پرورش‘ اٹھان و تربیت کا اہم و عظیم فریضہ انجام دے رہی ہے، ’گھر کی چہار دیواری‘ کہا جانے لگا۔ پھر لَے مزید اونچی ہوئی تو اسے ’گھر کی چہار دیواری کی قید‘ بھی کہا جانے لگا۔یہ ’اپنے گھروں میں ٹکی رہو‘ کی قرآنی تعلیم کی تضحیک کے سوا اور کیا ہے؟
’بچے جننے کی مشین‘: مسلم معاشرے پر عورت کے حوالے سے یہ طنز کیا جانے لگا کہ اس میں وہ ایسی حقیر مخلوق بن کر رہ گئی ہے جیسے وہ ’بچے جننے کی مشین‘ ہو۔ اس طرح فکری یلغار کے ماروں نے اس کے مقدس و عظیم منصبِ مادری کی تذلیل کرنے میں بھی تکلف نہ کیا۔ ان کا خیال ہے کہ پیسہ کمانے کی مشین اور گھر سے باہر کی وسیع دنیا میں بھوکی پیاسی نگاہوں کو لذتِ دید فراہم کرنے والی مشین کو بچہ جننے کی مشین محـض بن کر نہیں رہنا چاہیے۔
گہر کی سربراھی کا مسئلہ : ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی اجتماعیت کو‘ خواہ وہ فیملی ہو یا بڑے بڑے ادارے‘ حسنِ انتظام اور ڈسپلن عطا کرنے کے لیے ایک منتظم‘ ذمہ دار اور سربراہ کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ فیملی کے لیے اس سربراہ کو قرآن نے ’قوام‘ کہا ہے۔ دوسرے معاشروں میں قوام کا منصب جنسی مساوات کے نام پر یا تو ختم ہوچکا ہے یا آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے۔ اسی مناسبت سے گھرانے بکھر رہے اور فیملیاں کمزور ہورہی ہیں۔ یہ صریح زیاں منصہ شہود پر ہونے کے باوجود کچھ مسلم دانش ور‘ قرآن کو خاطر میں نہ لاکر مرد کی قوام کی حیثیت کو مشکوک بنارہے ہیں یا چیلنج کررہے ہیں اور فنی مکاری کو بروے کار لاکر‘ قرآن کے تصورِ مساواتِ مرد و زن کی تاویل کرنے سے نہیں چوکتے۔
معاشی آزادی پر زور: عورت کی تخلیقی ہیئت اور مرد کے مقابلے میں اس کی مخصوص امتیازی نفسیاتی‘ جذباتی‘اعصابی ساخت‘ نیز اس کے مخصوص وظیفہ ہاے حیات کی مناسبت سے اسلام نے اس پر (استثنائی و انفرادی حالات کو چھوڑ کر) کسبِ معاش اور مشقت طلب کاموں کا بار نہیں رکھا تھا۔ لیکن اب اس پر اس دلیل کے ساتھ ان ذمہ داریوں اور مشقتوں کا بار رکھا جانے لگا ہے کہ اسلام نے اسے شوہر کا غلام نہیں بنایا ہے۔ اسے آزادی اور کسبِ معاش کا حق حاصل ہے۔ اس بات کو ’ویمن ایمپاورمنٹ‘ کے گمراہ کن لیکن خوشنما لبادے میں لپیٹ کر پیش کیا جارہا ہے۔ مضحکہ خیز اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ حضرتِ خدیجہؓ کو نظیربناکر اس فتنے کو تقدس بھی بہم پہنچادیا گیا۔
ملازمت اور پردے کی قید: کیریر کی خاطر تعلیم کے لیے‘ اور تکمیل تعلیم کے بعد ملازمت کرنے کے لیے جن متعدد اخلاقی اور تہذیبی قدروں کو توڑنا لازم سمجھا گیا‘ ان میں پردہ و حجاب سرفہرست تھا۔ لہٰذا پردے کے خلاف دلائل کا … حتیٰ کہ قرآن‘ احادیث اور فقہ سے استدلال کا بھی انبار لگا دیا گیا۔ آج کل جو عورتیں جینز اور بنیان پہنتی ہیں ان کے ’کیریئر‘ میں چارچاند لگ جاتے ہیں‘ پس مردانہ لباس کی کچھ’اسلامی‘ گنجایش پیدا کرنے کے لیے قرنِ اول کی اسلامی تاریخ سے ایک صحابیہؓ کی نظیر بھی ڈھونڈ نکالی گئی جنھوں نے دورانِ جنگ ’مردانہ‘ لباس زیب تن کیا تھا۔
کچھ عرصہ پہلے تک یہ سارے کمالات الحاد زدہ‘ دین بیزار‘ نام نہاد‘ روشن خیال‘ آزاد رو‘ لبرل اور پروگریسیو مسلمان ہی کیا کرتے تھے۔ اب مؤقر دینی جامعات کے فارغین بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ ایسی ہی ہے یہ عظیم فکری یلغار اور ایسے ہی غیر معمولی ہیں اس کے اثرات۔ اس یلغار پر اربوں ڈالر اور غیر معمولی محنت صرف کی جارہی ہے۔ فیمنسٹ تحریک کی عالم گیر تنظیمات___ جن کے منصوبوں‘ عزائم ‘ حکمت عملی اور سرگرمیوں سے ملّت کا بڑا طبقہ ناواقف یا غافل ہے ___ اس یلغار میں کارگر اسلحے کا کام کررہی ہیں۔
یہ ہیں موجودہ فکری یلغار کی طویل اور شاخ در شاخ داستان کے چند شذرات اور اس کے اثرات کی چند جھلکیاں۔ اُمت مسلمہ کو ایک بڑا خطرہ اور چیلنج درپیش ہے‘ تاہم مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ اسلامی تحریکات کے ہاتھوں بحمداللہ فکرِ اسلامی کا احیا ہورہا ہے اور اس کی پیش رفت بفضلہ تعالیٰ جاری ہے۔ ضرورت ہے کہ یہ زیادہ منظم اور مربوط ہو‘ اور اس پر زیادہ وسائل صرف کیے جائیں۔(بہ شکریہ زندگی نو، دہلی، اگست ۲۰۰۶ئ)