یوسف نے کہا: ملک کے خزانے میرے سپرد کر دیجیے ‘ میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ (یوسف ۱۲:۵۵)
حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دور انحطاط کے مسلمانوں کی کچھ اُسی ذہنیت کااظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اُتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ اب مسلمان بھی کررہے ہیں۔ اِنھیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی ہے۔ مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علَم برداروں کی بلندی دیکھ کر انھیں شرم آتی ہے‘ لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اُس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرنا چاہتے ہیں جس کی زندگی دراصل انھیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کرسکتا ہے‘ اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہو) فوج اور اسلحے اور سروسامان کے بغیر بھی ملک فتح کرسکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کرلیتی ہے۔(تفہیم القرآن‘سورۂ یوسف‘ ابوالاعلیٰ مودودی‘ ترجمان القرآن‘ جلد ۲۹‘ عدد ۴‘ شوال ۱۳۶۵ھ‘ ستمبر ۱۹۴۶ئ‘ ص ۱۹-۲۱)