اللہ کے محبوب اور پسندیدہ بندوں میں استکبار کے بجاے خاکساری نمایاں ہوتی ہے۔ دین کی دعوت پیش کرتے ہوئے اور تبادلۂ خیال کرتے ہوئے وہ اکڑنے اور الجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘ جہلا اگر ان کے منہ آنے لگیں تو وہ کج بحثی کے درپے نہیں ہوتے بلکہ خوب صورتی اور شایستگی کے ساتھ سلام کر کے رخصت ہوجاتے ہیں۔ سورہ الفرقان میں اس خصوصیت کو یوں بیان کیا گیا ہے ع
اور جاہل ان کے منہ آئیں تو کہہ دیتے ہیں کہ تم کو سلام
صاحب تفہیم القرآن رحمن کے بندوں کے اس وصف کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’جاہل سے مراد اَن پڑھ یا بے علم آدمی نہیں‘ بلکہ وہ شخص ہے جو جہالت پر اتر آئے اور کسی شریف آدمی سے بدتمیزی کا برتائو کرنے لگے۔ رحمن کے بندوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گالی کا جواب گالی سے اور بہتان کا جواب بہتان سے اور اسی طرح کی بے ہودگی کا جواب بے ہودگی سے نہیں دیتے جیساکہ دوسری جگہ فرمایا: ’’اور جب وہ کوئی بے ہودہ بات سنتے ہیں تو اسے نظرانداز کر دیتے ہیں‘ کہتے ہیں بھائی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ سلام ہے تم کو‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۴۶۲-۴۶۳)
مولانا شبیراحمد عثمانی ؒ فرماتے ہیں: ’’اور بندے رحمن کے وہ ہیں جو ’کم عقل اور بے ادب لوگوں کی بات کا جواب عفو و صفح سے دیتے ہیں۔ جب کوئی جہالت کی گفتگو کرے تو ملائم بات اور صاحبِ سلاست کہہ کر الگ ہوجاتے ہیں۔ ایسوں سے منہ نہیں لگتے نہ ان میں شامل ہوں‘ نہ ان سے لڑیں۔ ان کا شیوہ وہ نہیں کہ ’’خبردار ہم سے کوئی جہالت کرے‘ ہم اس کے جواب میں جہالت کی تمام حدود پھاند جائیں گے‘‘ ؎
اَلَا لا یجھلن احدٌ علینا
فنجھل فوق جھل الجاھلینا
معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں: ’’جاہل سے مراد بے علم آدمی نہیں بلکہ وہ جو جہالت کے کام اور جاہلانہ باتیں کرے خواہ واقع میں وہ ذی علم بھی ہو اور لفظ سلام سے مراد یہاں عرفی سلام نہیں بلکہ سلامتی کی بات ہے۔ قرطبی نے نحاس سے نقل کیا ہے کہ اس جگہ سلام تسلیم سے مشتق نہیں بلکہ تسلُّم سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سلامت رہنا۔ مراد یہ ہے کہ جاہلوں کے جواب میں وہ سلامتی کی بات کہتے ہیں جس سے دوسروں کو ایذا نہ پہنچے اور یہ گنہگار نہ ہو۔ یہی تفسیر حضرت مجاہد‘ مقاتل وغیرہ سے منقول ہے (مظہری)۔ (معارف القرآن‘ ج ۶‘ ص ۵۰۳)
سید مودودی رقمطراز ہیں: ’’جاہلوں سے نہ اُلجھا جائے خواہ وہ اُلجھنے اوراُلجھانے کی کتنی ہی کوشش کریں۔ داعی کو اس معاملے میں سخت محتاط ہونا چاہیے کہ اس کا خطاب صرف ان لوگوں سے رہے جو معقولیت کے ساتھ بات کو سمجھنے کے لیے تیار ہوں۔ اور جب کوئی شخص جہالت پر اتر آئے اور حجت بازی‘ جھگڑالوپن اور طعن و تشنیع شروع کردے تو داعی کو اس کا حریف بننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس جھگڑے میں الجھنے کا حاصل کچھ نہیں ہے اور نقصان یہ ہے کہ داعی کی جس قوت کو اشاعت دعوت اور اصلاح نفوس میںخرچ ہونا چاہیے وہ اس فضول کام میں ضائع ہوجاتی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ سورۂ اعراف‘ ج ۲‘ ص ۱۱۲)
حافظ عماد الدین (ابن کثیر) فرماتے ہیں کہ: ’’جب جاہل لوگ (رحمن کے بندوں سے) ان سے جہالت کی باتیں کرتے ہیں تو یہ بھی ان کی طرح جہالت پر نہیں اتر آتے بلکہ درگزر کرلیتے ہیں‘ معاف فرما دیتے ہیں اور سواے بھلی بات کے گندی باتوں سے اپنی زبان آلودہ نہیں کرتے‘ جیسے کہ رسولؐ کی عادت مبارک تھی۔ جوں جوں دوسرا آپؐ پر تیز ہوتا آپؐ اتنے ہی نرم ہوتے… رسولؐکے سامنے کسی شخص نے دوسرے کو برا بھلا کہا لیکن اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ تجھ پر سلام ہو۔ آنحضرتؐنے فرمایا: ’’تم دونوں کے درمیان فرشتہ موجود تھا۔ وہ میری طرف سے گالیاں دینے والے کو جواب دیتا تھا۔ وہ جو گالی تجھے دیتا تھا فرشتہ کہتا تھا‘ یہ نہیں بلکہ تو‘ اور جب تو کہتا تھا تجھ پر سلام تو فرشتہ کہتا تھا: اس پر نہیں بلکہ تجھ پر‘ تو ہی سلامتی کا پورا حق دار ہے‘‘ (مسنداحمد)۔ پس فرمان ہے کہ یہ اپنی زبان کو گندی نہیں کرتے۔ برا کہنے والوں کو برا نہیں کہتے۔ سوائے بھلے کلمے کے زبان سے اور کوئی لفظ نہیں نکالتے۔ امام حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ‘‘دوسرا ان پر ظلم کرے‘ یہ صلح اور برداشت کرتے ہیں‘’۔ (ابن کثیر‘ ج ۴‘ ص ۲۵)
ابن ہشام نے لکھا ہے کہ ’’ہجرتِ حبشہ کے بعد جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور دعوت کی خبریں حبش کے ملک میںپھیلیں تو وہاں سے ۲۰ کے قریب عیسائیوں کا ایک وفد تحقیق حال کے لیے مکہ معظمہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مسجد حرام میں ملا۔ قریش کے بہت سے لوگ بھی یہ ماجرا دیکھ کر گردوپیش کھڑے ہوگئے۔ وفد کے لوگوں نے حضوؐر سے کچھ سوالات کیے جن کا آپؐ نے جواب دیا۔ پھر آپؐ نے ان کو اسلام کی طرف دعوت دی اور قرآن مجید کی آیات ان کے سامنے پڑھیں۔ قرآن سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور انھوں نے اس کے کلام اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضوؐر پر ایمان لے آئے۔ جب مجلس برخاست ہوئی تو ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے ان لوگوں کو راستے میں جالیا اور انھیں سخت ملامت کی کہ ’’بڑے نامراد ہو۔ تمھارے ہم مذہب لوگوں نے تم کو اس لیے بھیجا تھا کہ تم اس شخص کے حالات کی تحقیق کرکے آئو اورانھیں ٹھیک ٹھیک خبر دو‘ مگر تم ابھی اس کے پاس بیٹھے ہی تھے کہ اپنا دین چھوڑ کر اس پر ایمان لے آئے۔ تم سے زیادہ احمق گروہ تو کبھی ہماری نظر سے نہیں گزرا‘‘۔ اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’’سلام ہے بھائیو تم کو۔ ہم تمھارے ساتھ جہالت بازی نہیںکرسکتے۔ ہمیں ہمارے طریقے پر چلنے دو اور تم اپنے طریقے پرچلتے رہو۔ ہم اپنے آپ کو جان بوجھ کر بھلائی سے محروم نہیں رکھ سکتے‘‘۔ (سیرت ابن ہشام ‘ ج ۲‘ ص ۳۲بحوالہ تفہیم القرآن‘ ج۳‘ ص ۶۴۵)
اسی واقعے کا ذکر سورۂ قصص میں بھی آیاہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں اور جب وہ انھیں سنایا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اس پر ایمان لائے‘ یہ حق ہے ہمارے رب کی طرف سے‘ ہم اس سے پہلے بھی اسی دین اسلام پر تھے… اور جب انھوں نے بے ہودہ باتیں سنیں تو اُلجھنے سے پرہیز کیا اور بولے: ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے‘ تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا طریقہ پسند نہیں کرتے‘‘۔ (تفہیم القرآن‘ ج ۳‘ ص ۵۳۷-۵۳۸)
یہ اللہ کے نیک اور صالح بندوں کی ایک اہم صفت ہے کہ وہ متانت‘ سنجیدگی اور معقولیت سے کام لیتے ہیں‘ اپنی بات کو نہایت شایستگی سے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ بحث و جدال میں نہیں پڑتے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ جاہلوں سے اُلجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی اپنے والد سے بحث و تمحیص اور الجھائو سے بچنے کی خاطر سلامٌ علیکم کہہ کر مفارقت کا ایک شائستہ طریقہ اختیار کیا تھا۔ اس لیے کہ ضدی‘ ہٹ دھرم اور جھگڑالو لوگ دلیل سے بات کرنے کے بجاے گالم گلوچ اور دشنام طرازی پر اتر آتے ہیں۔ ایسے میں عفو و درگزر سے کام لینے‘ معروف انداز میں بات کرنے اور ان سے اعراض کرنے ہی میں عافیت ہے۔ اس طرح اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مومن کے شریفانہ طرزِعمل سے کسی موقع پر اس کا دل پسیج جائے۔ قرآن نے بھی اپنے نبی کو یہی تعلیم دی اور آپؐ نے بھی دعوت و تبلیغ اور عام گفتگو میں یہی انداز اپنایا۔ فرمایا:
اے نبیؐ! نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو‘ معروف کی تلقین کیے جائو‘ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔ اگرکبھی شیطان تمھیں اُکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو‘ وہ سب کچھ سننے اور جاننے والاہے۔ حقیقت میں جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال اگر انھیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انھیںصاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لیے صحیح طریق کار کیا ہے۔ رہے ان کے (یعنی شیاطین کے) بھائی بند‘ تو وہ انھیں کج روی میں کھینچے لیے جاتے ہیں اور انھیں بھٹکانے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھتے۔ (الاعراف۷: ۱۹۹-۲۰۲)