عبدالغفار | ستمبر۲۰۰۶ | پاکستانیات
برعظیم پاک و ہند پر قبضے کے فوراً بعد انگریزوں نے وسیع پیمانے پر قانون سازی کا کام کیا اور متعدد بنیادی قوانین وضع کیے۔ عدالتی کارروائیوں کو ضبط میں لانے کے لیے ضابطۂ دیوانی اور ضابطۂ فوجداری مرتب کر کے نافذ کر دیے گئے۔ عدالتوں کی اعانت کے لیے برعظیم میں پہلی مرتبہ پیشۂ قانون وجود میں لایا گیا۔ انگریز چاہتے تھے کہ وہ ایسا نظام وضع کریں جس سے ان کی حکومت کی بنیادیں مستحکم ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ان کی اپنی زبان اور اپنے قوانین ہی موزوں ثابت ہوسکتے تھے‘ لہٰذا انگریزوں نے اولین فرصت میں نئے نظام کی قیام کی کوششیں تیز کردیں۔
مطالعے اور تجزیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انگریزی دور کا نظامِ عدل پیچیدہ اور مہنگا ہے‘ نالشوں میں اضافے کا باعث ہے‘ مقدمہ بازی کے لامتناہی سلسلے کو متحرک رکھنے میں معاونت کرتا ہے اور پھر یہ نظام انصاف مہیا کرنے میں اتنی تاخیر روا رکھتا ہے کہ مقدمہ بازی ختم نہیں ہوتی مگر نالش کنندگان کی زندگیاں ختم ہوجاتی ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد جس ادارے کی اصلاح کی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ فکر کرنی چاہیے تھی وہ عدلیہ کا ادارہ ہے۔ لیکن بوجوہ آج ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول سب سے مشکل بن گیا ہے۔ پولیس کی بدعنوانی اپنی جگہ‘ لیکن عدلیہ کا ادارہ انصاف فراہم کرنے اور اپنے آپ کو مفادات‘ بااثر عناصر کے دبائو اور خود حکومت وقت کی دراندازیوں سے بالا رکھ کر اصلاح احوال کے لیے جو کردار ادا کرسکتا ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روز بروز عوام کا اعتماد پورے نظامِ عدل پر‘ نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ ترین سطح تک بری طرح مجروح ہوا ہے۔ اس ضمن میں قوم جن مسائل سے دوچار ہے ان میں سے اہم ترین یہ ہیں:
اوّلاً یہ کہ قوانین کی تو بھرمار ہے مگر قانون کا احترام عنقا ہے۔ نافذالعمل قوانین کی اکثریت سامراجی دور کا ورثہ ہے اور آزادی کے حصول کے بعد طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ان قوانین میں آزادی کے تقاضوں اور اسلامی قانون و روایات سے ہم آہنگی کے حصول کے لیے کوئی ہمہ گیر تبدیلی نہیں کی گئی۔ دسیوں قانونی کمیشن بنے ہیں اور اسلامی نظریاتی کونسل اور اعلیٰ عدالتی کمیشن نے سفارشات پیش کی ہیں‘ لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ حالانکہ ۱۹۷۳ء کے دستور کے تحت بنیادی حقوق کے نقطۂ نظر سے ملک کے قوانین کی اصلاح دوسال کے اندر‘ اور اسلامی احکام و قوانین کے اعتبار سے سات سال کے اندر مکمل ہوجانا چاہیے تھی۔
دوسری بنیادی چیز ہر سطح پر عدلیہ میں ججوں کے انتخاب‘ ان کی تربیت اور احتساب کے نظام کا غیرمؤثر ہونا ہے۔ ججوں کے انتخاب میں دو ہی بنیادیں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں‘ ایک قابلیت اور دوسری دیانت۔دوسرے شعبوں کی طرح عدلیہ میں بھی تقرر کا نظام نہایت ناقص‘ سیاسی اور دوسری مصلحتوں کے تابع ہے جس کے نتیجے میں ہرسطح پر عدلیہ میں ایسے عناصر بھی در آئے ہیں جن کی صلاحیت اور دیانت دونوں شک و شبہے سے بالا نہیں۔ عدلیہ کو جس تربیتی نظام اور جس نظامِ احتساب کی ضرورت ہے وہ سخت غیرمؤثر ہے۔ دستور نے اعلیٰ عدالتوں کے لیے تقرری کا جو نظام تجویز کیا ہے اس پر بھی نظرثانی کی ضرورت ہے۔
۱- عدلیہ کو مکمل طور پر انتظامیہ سے آزاد کیا جائے۔ اس سلسلے میں طے شدہ پالیسیوں پر مکمل طور پر عمل ہونا چاہیے جس میں مرکزی وزارتِ قانون میں ججوں کا بطور سیکرٹری اور صوبوں کے چیف جسٹس صاحبان کا بطور قائم مقام گورنر تقرر کو ختم کرنا شامل ہونا چاہیے۔
۲- ججوں کے تقرر کے لیے دستوری ترمیم کے ذریعے بالکل آزاد ایک ادارہ نیشنل جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے جو مرکز اور صوبوں کی سطح پر ججوں کے تقرر کے لیے صدرِمملکت کو ایک پینل کی سفارش کرے اور صدر اسی پینل میں سے تقرر کرنے کا پابند ہو۔
۳- ججوں کی تعداد میں بھی ضرورت کے مطابق اضافے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ملک میں مقدمات کی بھرمار ہے اور پورے ملک میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد مقدمات جن میں سے ۵ہزار سے زائد سزاے موت کے مقدمات ہیں‘ زیرسماعت ہیں۔ انصاف میں تاخیر‘ انصاف سے محرومی کی ایک شکل ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جن میں ججوں کی تعداد میں کمی‘ ججوں کی آسامیوں کا بلاجواز خالی رکھنا (اس وقت اعلیٰ عدالتوں میں مجموعی طور پر ۲۶ سیٹیں خالی ہیں۔ سپریم کورٹ میں ۴‘ لاہور ہائی کورٹ میں ۱۲‘ سندھ میں ۶‘ پشاور میں ۲‘ اور بلوچستان میں ۱۲)‘ وکیلوں کا بار بار مقدمات کی سماعت ملتوی کرانا‘ عدالت کے انتظامی نظام میں کرپشن اورناقص کارکردگی‘ ججوں کی کارکردگی کے جائزے اور احتساب کے نظام کی کمزوریاں قابلِ ذکر ہیں۔ دنیا بھر میں قاعدہ ہے کہ ایک مقدمہ جب ضروری تفتیش مکمل ہونے کے بعد شروع ہوجاتا ہے تو پھر اسے فیصلے تک تسلسل سے جاری رکھا جاتا ہے۔ مقدمات کے فیصلے میں تاخیر کی ذمہ داری عدالت‘ پولیس‘ وکلا اور عوام سب پر آتی ہے اور اس کے مؤثر تدارک کی ضرورت ہے۔
۴- ججوں کی مدت ملازمت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد مختلف بامعاوضہ ذمہ داریوں کے لیے ان کے دستیاب ہونے کے بھی اچھے نتائج سامنے نہیں آتے ہیں۔ لہٰذا مناسب ہوگا کہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھائی جائے‘ پنشن میں اتنا اضافہ ہو کہ ان کو ملازمت کی حاجت نہ رہے اور ان کی صلاحیتوں سے صرف تعلیم و تحقیق اور نیم عدالتی نوعیت کے کاموں میں فائدہ اٹھایا جائے‘ جس کی تنخواہ نہ ہو بلکہ ضروری سہولیات فراہم کی جائیں۔
۵- ہرسطح پر ججوں کے تقرر‘ ترقی اور احتساب کا نظام قائم کیا جائے۔
۶- ہر سطح پر ججوں کے لیے تربیت‘ تحقیق اور کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری انتظامات کیے جائیں۔
۷- عدلیہ سے متعلق افراد کو خود بھی اپنے احتساب کی فکر کرنی چاہیے۔ ماضی میں جج حضرات میں سے کچھ نے جس طرح قانون اور عدل پر سیاسی اثرات کو قبول کیا‘ وہ عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو مجروح کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ جج حضرات جس طرح سیاسی اور سماجی محفلوں میں شریک ہو رہے ہیں‘ اس سے ان کی غیر جانب داری کا تاثر مجروح ہو رہا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ جس طرح کا سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں وہ ان کے ماقبل کے دورکے بارے میں بھی لوگوں کے اعتماد پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں آداب و روایات کی پاس داری کی ذمہ داری خود عدلیہ پر ہے تاکہ اس کا کردار ہر طرح کی انگشت نمائی سے بالا رہے۔
پاکستان کے دستور کے تحت عدلیہ کی ذمہ داری صرف قانون کی حفاظت نہیں بلکہ دستور کی اطاعت اور حقوق انسانی کے سلسلے میں عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ہے۔ اس پس منظر میں عدلیہ کا ہر قسم کی سیاسی جانب داری سے پاک ہونا‘ حکومت کے اثرات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا اور دیانت اور ذہانت کے اعلیٰ ترین معیارات پر پورا اترنا ازبس ضروری ہے۔
۱- مناسب تعداد میں تقرری کا معیار میرٹ اور اعلیٰ کردار ہونا چاہیے‘ مگر عمر کی قید پر زیادہ سختی سے عمل نہیں ہونا چاہیے۔
۲- بعض اوقات عدالتیں مدتوں خالی پڑی رہتی ہیں‘ اس کا سدّباب کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایڈہاک جج یا مجسٹریٹ مقرر کیے جانے کے لیے وکلا کی ایک فہرست مرتب کی جاسکتی ہے جو حکامِ عدالت کی رخصت یا ترقی کی صورت میں عارضی طور پر عدلیہ میں تعینات کیے جائیں۔ مستقل آسامیوں کے پُر کرنے میں بھی انھیں ترجیح دی جائے۔ اس طرح ان کا تجربہ بڑھے گا‘ اور ان کے کردار اور کارکردگی کا امتحان بھی ہوتا رہے گا‘ نیز یہ کہ کسی عدالت کا کام بھی نہیں رُکے گا۔
اگر اس قسم کے مستقل پیشہ ور وکلا موجود ہوں جو مدعی سے فیس لے کر قانونی موشگافیوں‘ فقہی جزئیات اور شاذاقوال نکال کر قاضیوں اور ججوں کو مرعوب اور متاثر کرنے اور درست شرعی رہنمائی کے بجاے اپنے مقدمے کو کامیاب کرنے کے سارے ماہرانہ حربے استعمال کریں تو اس طریقے سے عادلانہ نظام قائم نہیں ہوسکے گا۔ اگر خدا کا خوف دامن گیر نہ ہو اور مطمح نظر محض فیس کا حصول ہو تو اسلامی قانون ہی کے نام پر بھی ظلم و جور کے دروازے کھولے جاسکتے ہیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں موجودہ دور کی طرح وکالت کا پیشہ ایک مستقل ذریعہ اکتسابِ رزق کے طور پر ثابت نہیں۔ اسلامی نظامِ عدل کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ قاضیوں اور ججوں کی مجالس کے اردگرد سیکڑوں اشخاص شرعی قوانین و احکام کی مہارت کی اسناد اور لائسنس حاصل کیے ہوئے اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی گاہک آئے گا۔ خلاصے کے طور پر اعلاء السنن کی ایک عبارت درج کی جاتی ہے:
(ترجمہ:) جو کوئی موجودہ زمانے کے وکیل حضرات کے حالات کا آنکھوں دیکھے مشاہدہ کرے کہ وہ کس طرح باطل کو حق ثابت کرتے ہیں اور حق کو باطل بنا دیتے ہیں تو اس کو اس بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں رہے گا کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بالکل درست تھا اور یہ کہ سنت نبویؐ کے فہم میں وہ کس قدر باریک بین اور حقیقت شناس تھے۔ ہم پورے یقین کے ساتھ اس حقیقت کو جانتے ہیں کہ اگر وکالۃ بالخصومات کا یہ دروازہ بند کر دیا جائے اور فیصلہ کرنے والے قاضی حضرات مدعی اور مدعا علیہ کی بات بلاواسطہ خود ان کی زبانی سنیں اور گواہی دینے والے خود براہِ راست ان کے سامنے گواہی دیں اور وکلا حضرات گواہوں کو پٹی نہ پڑھایا کریں تو قاضیوں کے سامنے جب مقدمات پیش ہوجائیں تو پہلے ہی دن اس مقدمے میں واضح ہوجائے گا کہ ان میں سے کون حق پر ہے اور کون ناحق۔ اکثر باطل کی پہچان میں تاخیر واقع ہوجاتی ہے اور جلد فیصلہ نہیں ہوسکتا تو اس کی وجہ صرف یہی ہوتی ہے کہ وکلا حضرات خواہ مخواہ تلبیس کرتے ہیں‘ حق کے خلاف باطل کی حمایت میں حیلے بیان کرتے ہیں اور اپنی فنی مہارت سے حق و باطل کو خلط ملط کرکے معاملے کو مشتبہ بنا دیتے ہیں۔ اصل فقیہہ وہ ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے حالات کو دیکھ کر اور ان کو پیش نظر رکھ کر احکام بتا دیا کرے۔ گویا فقاہت کا تقاضا یہی ہے کہ پیشہ ورانہ وکالۃ بالخصومہ کی اصلاح کی جائے۔ (ظفراحمد عثمانی‘ اعلا السنن‘ کتاب الوکالۃ‘ باب الوکالۃ بالخصومۃ‘ ۱۵/۳۴۵‘ دارالکتب العلمیۃ‘ بیروت ۱۹۹۷ئ)
فراھمی انصاف میں وکلا کا کردار: تاخیر سے عدل کی فراہمی سے خود عدل کے تقاضے مجروح ہوتے ہیں اور فریقین میںاختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ عدل رسانی میں تاخیر‘ عدل کی نفی کے مترادف ہے۔ ایسے معاشرے میں فوری انصاف بھلا کیسے ممکن ہے جہاں کامیاب وکیل وہ شمار ہوتا ہے جو لمبی پیشی دلوانے میں کامیاب ہوجائے۔ بلاتاخیر انصاف کی فراہمی وکلا کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب وکلا اپنے حقیقی منصب اور ذمہ داری کا پاس کریں۔ وکلا کے حقیقی فرائض حسب ذیل ہیں: l اپنے حقوق سے ناواقف افراد کی طرف سے وکالت کرکے ان کو استحصال سے بچانا l عوام میں ان کے حقوق اور ذمہ داریوں کا شعور بیدار کرنا l مظلوم کی مدد کرنا اور غاصب و جابر کو عدالتی استقرار حق کے ذریعے مظلوم کا حق دینے پر مجبور کرنا l عدالتی معاملات میں معاونت‘ یعنی عدل کی بنیاد پر فریقین کے مابین مصالحت میں تعاون کرنا l تنازعات کو نمٹانے اور قانون کی تشریح میں عدالت کی معاونت l خائن افراد کی وکالت قبول کرنے سے انکار کے ذریعے سے معاشرے میں دیانت داری‘ سچائی اور نیکی کو فروغ دینا۔
پیشۂ وکالت کو اصلاً مندرجہ بالا فرائض کا پابند ہونا چاہیے لیکن شومئی قسمت اس پیشے کے تقدس کو بحال نہیں رکھا گیا۔ اکثر وکلا زیادہ مقدمات لینے کی وجہ سے مناسب تیاری نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے یا تو تاریخ لی جاتی ہے یا پھر صحیح طور پر دلائل نہیں دیے جاسکتے اور اس طرح اپنے حقیقی فرائض سے خیانت کرتے ہیں۔ موجودہ وکالت کی ایک بڑی خرابی جو فراہمی انصاف میں تاخیر کاسبب بنتی ہے وہ یہ ہے کہ پیشۂ وکالت سرمایہ دارانہ نظام کا ایک حصہ ہے۔ جس کی جیب بھاری ہو‘ وہی اس نظام سے استفادہ کرسکتا ہے۔ غریب آدمی یا تو اس سے محروم رہتا ہے یا اپنی ساری جمع پونجی وکیل صاحب کے حوالے کردیتا ہے اور رہی سہی کسر وکیل صاحب کے منشی حضرات نکال دیتے ہیں جو ہر پیشی پر نقول کے نام پر ہزاروں روپے اینٹھ لیتے ہیں۔ مختصراً یہ کہ پیشہ وکالت بذاتہ درست اور مستحسن ہے لیکن بوجوہ خراب اور غیرمستحسن ہے۔ لہٰذا اس پیشے کا تقدس بحال رکھنے کے لیے طریقہ تدریس اور نصاب تدریس پر نظرثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
موجودہ نصابِ تعلیم عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہے۔ زبان شستہ اور عام فہم ہے۔ مشکل اور پیچیدہ عبارات سے حتی المقدور اجتناب کیا جاتا ہے لیکن ہماری عدالتوں میں مستعمل اُردو زبان انتہائی پیچیدہ‘ اُلجھی ہوئی اور متروک ہے۔ مزید یہ کہ انگریزی سے اُردو تراجم بھی انھی متروک الفاظ اور عبارات سے کیے گئے ہیں۔ اصحاب الرائے کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے۔
۱- ہرضلع کی سطح پر کم از کم ایک جج مقرر ہوجو صرف دعاوی اندر میعاد دائر نہ کرنے کی وجوہ کی سماعت کر کے اس بات کا تعین کرے کہ مدعی کے پاس دعویٰ دائر نہ کرنے کا معقول عذر تھا یا نہیں۔ عذرِ شرعی پر انسان قدرت نہیں رکھتا‘ لہٰذا وہ جج ایسے دعوے کی بغیر اضافی اخراجات اور جرمانہ کے سماعت کی سفارش کرے اور اسے متعلقہ عدالت میں ارسال کردے۔ بصورتِ دیگر عدالت جرمانے یا جو بھی مناسب کارروائی ہو‘ کرسکتی ہے‘ تاہم دعوے کی سماعت ہر صورت کی جائے۔ اس طرح بقیہ عدالتیں اپنے روز مرہ کے معمولات اور مقدمات کے تصیفے میں مصروف رہیںگی اور ان کا طویل وقت اس بات پر صرف نہیں ہوگا کہ دعویٰ زائد المیعاد ہے یا اندرمیعاد ہے۔
۲- یہ بھی ہوسکتا ہے ایسے مقدمات کو ثالثی کے ذریعے طے کرلیا جائے‘ لیکن یہ تبھی ممکن ہے جب دوسروں کا مال ناحق کھانے کی جواب دہی کی فکر اور دل میں خدا خوفی ہو۔
۳- ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایسے مقدمات کو سیاسی سطح پر جوڑتوڑ کرکے نمٹا لیا جائے۔ مذکورہ تینوں صورتوں میں سے جو بھی ممکن ہو اس سے متعلقہ عدالت کو باخبر کردیا جائے اور عدالت اس فیصلے کی توثیق کر کے اس کا اجرا کردے تاکہ بعد میں کوئی تنازعہ پیدا نہ ہو۔
حاصلِ کلام یہ کہ اللہ رب العالمین حاکمِ تشریعی بھی ہے۔ جس طرح اس نے انسان کی مادی زندگی کو بحال رکھنے کا بندوبست کیا ہے‘ اسی طرح اس کی روحانی اور تمدنی زندگی کے لیے کامل اور مبنی بر عدل نظامِ حیات بھی دیا ہے جس میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے قوانین و ہدایات موجود ہیں۔ اس کے احکام و قوانین کسی خاص فرد‘ قبیلے یا قوم کی خواہشات و اغراض کے تابع نہیں ہیں‘ بلکہ پورے نوع انسانی کی مصلحت پر مبنی ہیں۔ خلافتِ الٰہی اور نیابتِ خداوندی کے ساتھ سب سے پہلا فریضہ جو انسان کے سپرد کیا گیا ہے وہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرنا ہے‘ لہٰذا ایک آزاد عدلیہ کا قیام اسلامی حکومت کے لیے فرضِ عین کا درجہ رکھتا ہے۔