ستمبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

تیسیرالقرآن کے کچھ قابل ذکر پہلو

مولانا جلال الدین عمری | ستمبر۲۰۰۶ | فہم قرآن

Responsive image Responsive image

مولانا صدرالدین اصلاحیؒ کا نام تحریک اقامت دین سے وابستہ افراد اور قرآن کے طالب علموں کے لیے جانا پہچانا نام ہے۔ آپ کی سورۃ الفاتحہ اور البقرہ کی تفسیر تیسیرالقرآن کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز‘ دہلی نے شائع کی ہے۔ اس کی پہلی قسط ستمبر ۱۹۵۰ء کے  ماہنامہ زندگی رام پور میں اور آخری قسط ستمبر ۱۹۵۳ء کے شمارے میں شائع ہوئی ‘اور اب ۵۳ برس بعد ان کے صاحبزادے رضوان احمد فلاحی نے نہایت محنت سے آیات و احادیث کے حوالے فراہم کیے ہیں اور مصنف کی دیگر کتب سے بھی وضاحتیں ضمیموں کی شکل میں جمع کر دی ہیں۔ اب یہ کتاب ایک جدید طرز کی کتاب ہوگئی ہے۔ مولانا جلال الدین عمری نے اس پر ایک طویل مقدمہ لکھا ہے۔ ہم اس کا ایک حصہ شائع  کر رہے ہیں جس سے اس تفسیر کے نمایاں پہلو سامنے آتے ہیں۔ (ادارہ)

مولانا فراھیؒ کا طریقِ تفسیر

دورِ حاضر میں علامہ حمید الدین فراہیؒ کو علوم قرآن میں امامت کا مقام حاصل تھا۔ انھوں نے تفسیر قرآن کی نئی راہیں نکالیں اور قرآن مجید کو اصلاً قرآن ہی سے سمجھنے کی غیر معمولی کوشش کی۔ دیگر ذرائعِ تفسیر کو معاون ذرائع کی حیثیت دی اور اسی حیثیت سے ان سے فائدہ اٹھایا۔ انھوں نے قرآن مجید کے نظم کو صرف ایک اصول کے طور پر ہی تسلیم نہیں کیا بلکہ اسے بہت ہی قوی دلائل   سے ثابت کیا۔ ان کے نزدیک قرآن مجید کی ہر سورت کا ایک مرکزی موضوع ہے جس سے       پوری سورت کے مضامین مربوط ہیں۔ پھر ان سورتوں کے درمیان بھی ربط ہے۔ اس ربط نے پورے قرآن کو از اول تا آخر ایک مسلسل کلام کی حیثیت دے دی ہے۔

فکر فراھی کی ترجمانی

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ، فراہی اسکول کے ایک نمایاں فرد ہیں۔ انھوں نے تیسیر القرآن میں مولانا فراہیؒ کے طریقۂ تفسیر کی پابندی کی ہے اور انھی کے وضع کردہ خطوط پر اسے مرتب کیا ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی تصنیفات کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے سامنے مولانا فراہیؒ کی اس وقت تک کی تمام مطبوعہ تحریریں رہی ہیں اور غیر مطبوعہ مواد سے واقفیت کے بھی انھیں مواقع ملتے رہے ہیں اور انھوں نے اس سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔ مولانا نے اپنے مقدمے میں استاذ الاساتذہ علامہ حمید الدین فراہیؒ کا بڑے ہی احترام سے ذکر کیا ہے اور ترجمہ و تفسیر میں جو نئے نکات بیان ہوئے ہیں انھیں ان کا بالواسطہ فیض قرار دیا ہے۔

فراھی اسکول کی پھلی تفسیر

علامہ حمید الدین فراہیؒ کی دو ایک تحریروں کے علاوہ تمام تصنیفات عربی زبان میں ہیں۔ ان میں سے بعض رسائل کا ترجمہ مولانا امین احسن اصلاحیؒ کے قلم سے بہت پہلے شائع ہوچکا تھا۔ ان میں آخری پاروں کی بعض چھوٹی سورتوں کے ترجمے بھی شامل ہیں۔ مولانا فراہیؒ کے تلامذہ بھی اپنے مقالات اور مضامین میں ان کے خیالات کی ترجمانی کرتے رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود اردو داں طبقے میں مولانا فراہی کے خیالات عام نہیں ہوسکے تھے۔ تیسیر القرآن مولانا فراہی کے نہج پر لکھی گئی پہلی اردو تفسیر ہے۔ اس کے ذریعے کم از کم سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کی حد تک مولانا فراہیؒ کے خیالات کا باقاعدہ تعارف ہوا۔ اس میں شک نہیں کہ مولانا امین احسن کی تفسیر تدبر قرآن میں مولانا فراہیؒ کے خیالات زیادہ تفصیل سے پیش ہوئے ہیں اور وہ قرآن مجید کی مکمل تفسیر ہے۔    یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ تدبر قرآن کے ذریعے ایک بڑے حلقے میں اس نہج پر باقاعدہ غوروفکر کا آغاز ہوا، مولانا فراہی کی غیر مطبوعہ تحریریں سامنے آئیں اور ان کے تراجم اور خلاصے شائع ہوئے، لیکن مولانا صدر الدین اس سے بہت پہلے باقاعدہ تفسیر کا آغاز کرچکے تھے۔ اس لحاظ سے     اسے شرف تقدم حاصل ہے۔ تدبر قرآن اور تیسیر القرآن میں بعض نکات مشترک بھی ملیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مولانا فراہی کی تحقیقات پر مبنی ہیں اور دونوں ہی بزرگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

مولانا مودودیؒ سے استفادہ

مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ نے اسلام کا وسیع اور جامع تصور پیش کیا۔ غیر اسلامی     افکار و نظریات کی کم زوری واضح کی اور اسلام کو دین حق ثابت کرنے کی بڑی مؤثر کوشش کی۔  مولانا مودودیؒ کو اللہ تعالیٰ نے منطقی ذہن، استدلالی قوت اور جان دار قلم عطا کیا تھا۔ انھوں نے وقت کے نمایاں مسائل سے تعرض کیا اور اسلامی فکر کو دلائل کے ساتھ پیش کیا۔ مولانا مودودیؒ کا فکر ان کی تفسیر تفہیم القرآن میں سمٹ آیا ہے۔ وہ اپنی بعض ممتاز خصوصیات کی وجہ سے اس دور کی اُردو زبان میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی تفسیر ہے۔ اس کا ترجمہ بھی متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی کو مولانا مودودیؒ کی رفاقت حاصل رہی، انھوں نے مولانا کی وسیع فکر ہی کو نہیں اپنایا بلکہ ۲۶ اگست ۱۹۴۱ء کو مولانا مودودیؒ کی قیادت میں جماعت اسلامی کی تشکیل ہوئی تو انھوں نے آگے بڑھ کر اس کا ساتھ دیا۔ ان کا شمار جماعت کے بالکل ابتدائی ارکان میں ہوتا ہے۔ تقسیم ملک کے بعد وہ جماعت اسلامی ہند کے ایک ممتاز فکری رہنما کی حیثیت سے متعارف تھے۔ انھوں نے تفہیم القرآن سے اپنی تفسیر تیسیر القرآن میں بھرپور استفادہ کیا ہے۔ اس طرح تیسیر القرآن میں فکرِ فراہی اور فکر مودودیؒ کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ مولانا صدر الدین نے بعض مسائل کی وضاحت کے لیے تفہیم القرآن کے الفاظ مستعار لیے ہیں۔

مولانا صدر الدین مرحوم نے تفہیم القرآن کے طویل اقتباسات بھی اپنی تفسیر میں لیے ہیں،ان میں تھوڑی بہت ترمیم بھی کی ہے اور کہیں صرف چند جملے اخذ کیے ہیں۔ ان کی کل تعداد  ۳۲ ہے اور یہ تیسیر القرآن کے زیادہ سے زیادہ  ۱۰،۱۲ صفحات پر مشتمل ہوں گے، لیکن مولانا نے جس فراخ دلی سے اپنے مقدمے میں اس کا اعتراف کیا ہے وہ ان کی عظمت کی دلیل ہے۔

تیسیر القرآن کا اسلوب

۱- مولانا صدر الدین اصلاحیؒ جب تفسیر لکھ رہے تھے تو ان کے پیشِ نظر غیرمسلموں کی اکثریت بھی تھی۔ اس لیے انھوں نے، جیسا کہ خود صراحت کی ہے، بہت سے ان مباحث سے گریز کیا ہے، جو عام طور پر تفسیر کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان مباحث سے کسی ایسے شخص کو تو دل چسپی ہوسکتی ہے جو قرآن پر ایمان رکھتا ہو، لیکن ایک غیر مسلم کے لیے ان کی کوئی خاص اہمیت نہ ہوگی اور وہ اس کے لیے دل چسپی کا باعث نہ ہوں گے۔

۲- مولانا کاقلم بڑا ہی شائستہ اور مہذب ہے۔ کہیں بھی ثقاہت اور سنجیدگی کے منافی کوئی تعبیر بلکہ کوئی لفظ نہیں ملتا۔ ساتھ ہی ان کے ہاں زبان و بیان کا حسن اور شگفتگی پائی جاتی ہے۔ انھوں نے قرآن کے منشا اور مقصد کو صاف ستھرے اور واضح الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں وہ کامیاب ہیں۔مولانا صدر الدین کے سامنے قرآن مجید کے تراجم رہے ہوں گے، ان سے فائدہ بھی اٹھایا ہوگا، لیکن انھوں نے جو ترجمہ کیا ہے اس میں قرآن کے الفاظ کی پوری پوری رعایت بھی ہے اور مفہوم کی وضاحت بھی بخوبی ہو رہی ہے۔ اس طرح اس میں ایک انفرادیت پائی جاتی ہے۔ اس مضمون میں آیات کے ترجمے تیسیر القرآن ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ اس سے ترجمے کے حسن و خوبی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

۳- مولانا کے نزدیک نظم قرآن کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ انھوں نے آیات کے ترجمے میں اس کی پوری رعایت کی ہے۔ ترجمے کا مطالعہ کرتے وقت یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہم ایک مربوط اور مسلسل مضمون کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی نیا مضمون شروع ہوتا ہے یا سابقہ مضمون اور بعد کے مضمون میں بہ ظاہر خلا نظر آتا ہے تو توضیحی کلمات اور حواشی کے ذریعے ربط کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی ایک عمدہ مثال سورۂ بقرہ کی آیت (۱۷۸) کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُکا حاشیہ ہے۔

اس آیت کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اچانک قصاص کے احکام بیان ہونے لگے ہیں۔ سابقہ مباحث سے ان کا کوئی ربط و تعلق نہیں ہے۔ مولانا نے تفصیل سے بتایا ہے کہ اس کا تعلق پوری سورت کے مضمون سے ہے اور اس میں ایک معنوی ترتیب ہے۔ حضرت ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت اپنی ذریت میں ایک ایسے پیغمبر کی بعثت کی دعا کی تھی، جو انھیں اس کی آیات پڑھ کر سنائے، اس کے احکام کی تعلیم دے، حکمتِ دین سمجھائے اور ان کا تزکیہ کرے۔ اس دعا کے عین مطابق رسولؐ اللہ کی بعثت ہوئی۔ اس سورت کے مضامین کی ترتیب بھی وہی ہے جو حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں ہے۔ ’’اس آیت سے پہلے جو کچھ گزر چکا ہے وہ آیات کی تلاوت کا باب تھا، یعنی اس میں توحید اور قیامت اور رسالت کے بنیادی مسائلِ دینی پر دلیلیں دی گئی ہیں اور اب تعلیمِ احکام کا باب شروع ہو رہا ہے۔ حاشیہ (۳۱۳)

۴-  مولانا نے سورۂ بقرہ کا مرکزی موضوع اثبات رسالت محمدی قرار دیا ہے اور سورہ کے تمام مضامین کو اس سے مربوط دکھایا ہے۔

۵-  مولانا نے اپنے مدعا کی وضاحت کے لیے حسبِ ضرورت قرآن کی آیات اور احادیث سے استشہاد کیا ہے، لیکن بالعموم وہ ان کے اصل الفاظ نقل نہیں کرتے، صرف ترجمہ یا ان کا مفہوم پیش کرتے ہیں۔

۶-  مولانا نے کتبِ تفسیر میں سے کسی مفسر اور محقق کا حوالہ نہیں دیا ہے۔ اسی طرح قرآن کے الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق بھی کتب لغت کے حوالے سے پیش نہیں کی ہے۔ اس لیے کہ پیش نظر مقصد کے لیے یہ کچھ زیادہ سود مند نہ تھی، البتہ کہیں کہیں مفسرین کی مختلف آرا کا ذکر کیا ہے۔ ذیل میں اس کی مثالیں دی جا رہی ہیں:

۱-  سورۂ بقرہ کی آیت (۷۳) میں ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کا قتل ہوا۔ قاتل کا پتا نہیں چل رہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا:

فَقُلْنَا اضْرِبُوْہُ بِبَعْضِھَا ط کَذٰلِکَ یُحْیِ اللّٰہُ الْمَوْتٰی وَ یُـرِیْکُمْ اٰیٰتِـــہٖ لَعَلَّــکُمْ تَعْقِلُوْنَ o (البقرہ ۲:۷۳)ہم نے حکم دیا کہ اس کو اس کے ایک حصہ سے ضرب لگاؤ۔ (دیکھو) یوں اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کر دیتا ہے اور تمھیں اپنی نشانیاں دکھاتا رہتا ہے تاکہ تم سمجھو۔

مولانا فرماتے ہیں: اس مجمل جملے کی تفصیل کافی دشوار ہے، البتہ اکثر مفسرین نے کہا ہے کہ جس گائے کے ذبح کرنے کا اوپر ذکر آیا ہے یہاں اسی کا ذکر ہے۔ وہ اسی حادثے کے سلسلے میں ذبح کرائی گئی تھی۔ اس کے ایک ٹکڑے سے مقتول کو ضرب لگانے کا حکم تھا۔ اس سے تھوڑی دیر کے لیے مردہ میں جان آگئی اور اس نے اپنے قاتل کا نام بتا دیا۔ حاشیہ (۱۳۳)

۲-  ہاروت و ماروت کے ذیل میں ارشاد ہے:

وَمَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ ماَرُوْتَ ط وَمـَــا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰی یَقُوْلاَ اِنَّمــَـا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلاَ تَکْفُرْ ط فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمـــَا مَا یَفَرِّقُوْنَ بِــہٖ بَیْنَ الْمَـــرْئِ وَ زَوْجِــــہٖ ط (البقرہ ۲:۱۰۲) نیز اس چیز کی پیروی میں (منہمک ہوگئے) جو بابل میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ (ان فرشتوں کا حال یہ تھا کہ) جب بھی کسی کو اپنا یہ فن سکھلاتے تو پہلے سے اس کو متنبہ کردیتے کہ ’’دیکھو! ہم تو آزمایش ہیں سو تم ہمارا (یہ آزمایشی فن سیکھ کر ہرگز) کفر کی راہ نہ اختیار کرنا‘‘ (مگر اس تنبیہہ کے باوجود یہ کج فطرت لوگ) ان سے وہ چیز سیکھتے رہے جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈالنے لگے۔

ہاروت و ماروت کو جو علم دیا گیا تھا مولانا نے ترجمہ و تشریح کے ذریعے اس کو تفصیل سے واضح کیا ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں : ہمارے اکثر مفسرینِ قرآن نے اس علم کو بھی جو ان دونوں فرشتوں کے ذریعے بنی اسرائیل کو سکھایا گیا تھا، جادو ہی کا علم قرار دیا ہے۔ مگر یہ بات متعدد وجوہ سے صحیح نہیں۔ ایک تو یہ کہ واو عطف کے ذریعے دو الگ الگ چیزیں بیان کی گئی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جادوگری کی وبا تو یوں ہی ان میں پھیلی ہوئی تھی، پھر اس جدید اہتمام کی کیا حاجت تھی؟ تیسرے فرشتوں کو ایک کارِ حرام کے لیے بھیجا جانا کچھ غیر مناسب سی بات ہے۔ چوتھے فتنے کا اصل مفہوم جس کی توضیح ہم اوپر کرچکے ہیں، کسی طرح جادو اور شعبدے کی تاویل کو قبول نہیں کرتا۔ حاشیہ(۱۷۸)

۳- حج کے سلسلے میں ایک ہدایت یہ کی گئی ہے:

فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ ج وَلاَ تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ ط (البقرہ۲:۱۹۶)  لیکن اگر (کہیں راستے ہی میں) گھِرجاؤ تو جو قربانی کا جانور میسر آئے (اللہ کی جناب میں پیش کرو) اور (اس وقت تک) اپنے سروں کو نہ منڈواؤ جب تک کہ وہ جانور اپنی جگہ نہ پہنچ جائے۔

اس کے ذیل میں مولانا فرماتے ہیں: جگہ سے مراد بعض علما کے نزدیک کعبہ کے ارد گرد کی وہ زمین ہے جہاں حج میں قربانیاں کی جاتی ہیں، اور بعض کے خیال میں یہ وہی جگہ ہے جہاں آدمی گھِر گیا ہو۔ پہلا خیال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے ورنہ ’’پہنچنے‘‘ کا لفظ کیوں استعمال کیا جاتا۔ اب جو جانور اسے میسر آیا ہو خواہ اونٹ یا گائے یا بھیڑیا بکری، اس کو کعبہ تک بھیجنے کی شکل یہ ہوگی کہ کسی جانے والے کے ہم راہ کردے یا اس کو قیمت دے کر کہہ دے کہ وہاں پہنچ کر جانور خرید لینا اور میری طرف سے ذبح کر دینا۔ ذبح کرنے کا وقت بھی بتا دے اور جب یہ وقت آجائے تو سرمنڈا کر احرام کھول لے۔ اب آیندہ سال اس حج کو، جس کی نیت کی تھی مگر موانع کی وجہ سے ادا نہ کرسکا، ازسرنو ادا کرے۔ حاشیہ (۳۷۰)

علمی مباحث

تیسیر القرآن میں جگہ جگہ بڑے قیمتی مباحث اور خوب صورت تشریحات ملتی ہیں:

۱-  تفسیر کے شروع ہی میں ’اللہ‘ کا تعارف ان الفاظ میں کرایا گیا ہے: ’اللہ‘ اسم ذات ہے اس ہستی کا جو تمام کائنات کی پیدا کرنے والی‘ دیکھ بھال کرنے والی اور براہ راست سب پر فرماں روائی کرنے والی ہے۔ وہ ہر کمال سے متصف اور ہر جمال کا سرچشمہ ہے۔ وہ اپنی صفات میں یکتا اور بے مثل ہے۔ اس کو کسی چیز سے، کسی حیثیت سے بھی تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔ وہ نہ تو جسم رکھتا ہے، نہ کوئی جسمانی قالب اختیار کرتا ہے، نہ کوئی چیز اس سے، یا وہ کسی چیز سے متحد ہوتا ہے۔ وہ ہر جگہ موجود، ہر شے سے واقف، ہر امر پر قادر ہے۔ ذرے سے لے کر آفتاب تک، ہر چھوٹی بڑی چیز اسی کی، اور صرف اسی کی محکوم ہے اور سب اس کے سامنے یکساں طور پر عاجز اور بے بس ہیں۔ حاشیہ(۱)

اس کی مزید وضاحت ایک اور جگہ ہمیں ملتی ہے۔ سورۂ بقرہ کی آیت (۱۳۳) میں کہا گیا ہے کہ حضرت یعقوبؑ نے انتقال کے وقت اپنی اولاد سے سوال کیا مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْم بَعْدِیْ؟ اس کے جواب میں ان کی اولاد نے کہا: نَعْبُدُ اِلٰھَکَ وَ اِلٰـہَ آبَائِکَ ’’ہم آپ کے اور آپ کے بزرگوں کے معبود کی بندگی کریں گے‘‘۔

مولانا نے ’الٰہ‘ کا پورا مفہوم، ان الفاظ میں بیان کیا ہے:وہ جس کے آگے جھکا جائے، جس کی پرستش کی جائے، جس سے دعائیں مانگی جائیں، جس سے حاجتیں طلب کی جائیں، جس کی پناہ ڈھونڈی جائے، جسے نفع اور نقصان کا مالک سمجھا جائے اور جو اپنے بالاتر اقتدار کی بنا پر اس کا مستحق ہو کہ انسان اس کی بندگی و اطاعت کرے اور اس کے آگے اپنا عجز و نیاز پیش کرے۔ حاشیہ (۲۳۱)

۲- ابلیس نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار کیا۔ (البقرہ۲:۳۴)

مولانا فرماتے ہیں: ابلیس کے معنی ہیں انتہائی مایوس۔ آگے چل کر فرماتے ہیں: اس کا دوسرا نام شیطان بھی ہے، جس کے لفظی معنی ہیں ’ہلاک و نابود ہونے والا‘ یا ’دور ہونے والا‘۔

شیطان کے بارے میں ایک غلط خیال یہ ہے کہ اس کا کوئی متعین وجود یا شخصیت نہیں ہے بلکہ وہ انسان کے اندر پائی جانے والی سرکش قوتوں کا نام ہے۔ مولانا کے نزدیک شیطان اور ابلیس کے الفاظ ہی اس غلط خیال کی تردید کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:ان الفاظ کے بعد غالباً یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ابلیس یا شیطان محض کسی مجرد قوت کا نام ہے بلکہ ایک ایسی ہستی ہے جو اپنی مستقل شخصیت رکھتی ہے۔ حاشیہ(۵۳)

ابلیس کا حضرت آدمؑ کو سجدہ کرنے سے انکار واضح ہے۔ مولانا فرماتے ہیں: ابلیس کے اس واقعے سے اسلام کے تصور توحید کے متعلق ایک بڑی اہم حقیقت روشنی میں آتی ہے۔ عموماً لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا اور اس کے سوا کسی کو سجدہ نہ کرنا ہی توحید کا کل مفہوم ہے۔ لیکن اگر ایسا ہوتا تو ابلیس سے بڑا موحد کون ہوسکتا تھا کہ فرمانِ خداوندی کے بعد بھی اس نے غیر اللہ کو سجدہ نہ کیا۔ مگر ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اسی ’موحدانہ‘ کارنامے پر فاسق اور کافر قرار دے دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے تشریعی احکام کی اطاعت بھی جزوِ توحید ہے۔ اگر عقل کی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کا بدیہی فیصلہ بھی یہی ہوگا۔ حاشیہ( ۵۳)

۳- اللہ تعالیٰ نے سینا کے چٹیل میدان میں بنی اسرائیل پر بدلیوں کا سایہ کیا اور  من و سلویٰ اتارا۔ (البقرہ۲:۵۷)

اس پر بحث کے ذیل میں مولانا نے اللہ کی رحمت کے ایک خاص پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے جو بالعموم نگاہوں سے اوجھل رہتا ہے۔ کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے سورۂ ذاریات میں فرمایا ہے کہ انسان کا کام میری بندگی کرنا ہے اور اس کی روزی فراہم کرنے کا بار مجھ پر ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی افکار کا مرکز اللہ کی بندگی اور رضا جوئی ہونی چاہیے نہ کہ معاشی ضروریات و مادی ذرائع کی فراہمی۔ یہ کام در اصل دنیا کے پالنہار کا ہے کہ اپنی چاکری کے کاموں میں مشغول بندوں کو روزی مہیا کرے۔ پس جو شخص یا گروہ خدا کی رضا جوئی میں جس حد تک منہمک ہوگا مخلوق کا پالنے والا روزی کمانے کی ذمہ داریاں اسی حد تک اس پر سے ساقط کردے گا، یہاں تک کہ اس سلسلے میں روزی حاصل ہونے کے عام اسباب کا پردہ بھی بیچ سے اٹھایا جاسکتا ہے جس کی واضح مثال یہ من و سلویٰ کا نزول ہے۔ حاشیہ(۱۰۵)

۴- آگے اسی حقیقت پر آیت (۶۱) کے ذیل میں مزید روشنی ڈالی ہے۔  بنی اسرائیل نے کہا کہ ہم من و سلویٰ کھاتے کھاتے اکتا گئے ہیں۔ دعا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جگہ زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں عطا کرے۔ اس کے جواب میں حضرت موسٰی ؑ نے فرمایا:

اَتَسْتَبْدِلُوْنَ الَّذِیْ ھُوَ اَدْنٰی بِالَّذِیْ ھُوَ خَیْرٌ ط کیا تم ایک بہتر چیز کو ادنیٰ شے سے بدلنا چاہتے ہو؟

اس کا مطلب بالعموم یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں کا تم مطالبہ کر رہے ہو وہ  من و سلویٰ کے مقابلے میں کم تر درجہ کی یا بے حیثیت چیزیں ہیں۔ تم ایک بہتر چیز کے مقابلے میں کم تر چیز کی مانگ کر رہے ہو لیکن مولانا نے اس کاایک دوسرا مفہوم بیان کیا ہے جو زیادہ بامعنیٰ ہے: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ من و سلویٰ جیسی مزے دار اور بلا مشقت حاصل ہونے والی چیزوں کو چھوڑ کر ایسی چیزیں مانگ رہے ہو جو کم لذیذ ہیں یا پسینہ بہانے کے بعد ہی مل سکتی ہیں‘ بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی انتظام تمھیں فکر معاش سے آزاد کیے ہوئے ہے۔ ان حالات میں تمھیں اس کا ممنون کرم ہوتے ہوئے دعا کرتے رہنا چاہیے تھا کہ پروردگار! کرم کی یہ نگاہ یوں ہی باقی رہے تاکہ ہم ان مادی ضروریات کی فکر سے آزاد ہوکر اپنے زندگی کے اصل مقصد کے حصول میں پوری طرح مشغول رہیں اور ہمارا کام اس کے سوا اور کچھ نہ رہ جائے کہ ایک طرف تو تیرے پیغمبر کے فیضِ تربیت سے فائدہ اٹھا کر اپنا دل پاک کریں، اپنے اخلاق سدھاریں، دین اللہ کی معرفت بڑھائیں اور اچھے اعمال کا نمونہ بن جائیں، دوسری طرف تیرے نور ہدایت کو لے کر آگے بڑھیں اور کفر و شرک سے تاریک فضاؤں میں اسے پھیلا دیں۔ پر افسوس ہے تمھاری پست نگاہی پر کہ بچوں کی طرح زبان کے چٹخاروں پر ریجھے جا رہے ہو۔ لذت پرستی کی ذلیل ذہنیت نے تمھیں زندگی کے پاک اور اصل مقصد سے اس درجہ بے گانہ کر رکھا ہے۔ حاشیہ(۱۱۴)

۵-  سورۂ بقرہ آیت (۹۹) کے الفاظ ہیں:

وَلَقَدْ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ اٰیٰتٍ بَیِّنٰتٍط وَمَا یَکْفُرُ بِھَآ اِلاَّ الْفٰسِقُوْنَ ط (البقرہ ۲:۹۹) ہم نے تمھاری طرف ایسی آیتیں نازل کی ہیں جن کا آیات الٰہی ہونا بالکل روشن ہے۔ ان کا انکار صرف فاسق ہی کرسکتے ہیں۔

اس کی تشریح میں مولانا نے اس غلط فہمی کا ازالہ فرمایا ہے کہ : قرآن دنیا کے ان تمام لوگوں کو یکساں طور پر فاسق قرار دیتا ہے جو اس پر ایمان نہیں رکھتے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پر ایمان لانے کی ذمے داری دنیا کے کسی شخص پر اس وقت عائد ہوتی ہے جب وہ اس سے واقف ہوجائے اور اس کی دعوت اس تک پہنچ جائے۔ اس سے قبل وہ اس امر خاص میں خدا کے حضور جواب دہ نہیں ہوسکتا کہ وہ قرآن پر ایمان کیوں نہیں لایا ۔۔۔ قرآن سے ناواقف فاسق نہیں بلکہ دراصل قرآن کا منکر فاسق ہے۔ یعنی وہ دشمن حق جس کو قرآن کی دعوت پہنچ چکی لیکن وہ ایمان نہیں لایا بلکہ وہ بدستور نفس پرستی، آبائی تقلید یا نسلی یا قومی عصبیت کا شکار بنا رہا۔ حاشیہ(۱۷۰)

۶-  سورۂ بقرہ کی آیت (۱۰۶) میں نسخ کا ذکر ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں:

مَا نَنْسَخْ مِنْ آیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَانَاْتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا ط اَلَمْ تَعْلَمْ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (البقرہ ۲:۱۰۶) ہم (اپنی نازل کردہ) جس آیت کو بھی منسوخ کردیتے ہیں تو اس کے بجائے اس سے بہتر آیت، اور جس آیت کو بھلوا چکے ہوتے ہیں (اور اب اس کے ظاہر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے) تو اس کی جگہ ویسی ہی آیت نازل کردیتے ہیں۔ کیا تمھیں نہیں معلوم کہ اللہ ہر بات کی قدرت رکھتا ہے۔

اس آیت کے ذیل میں مفسرین نے دو باتیں کہی ہیں۔ ایک یہ کہ شریعت کے بعض احکام پہلے دیے گئے تھے وہ بعد میں منسوخ کردیے گئے تو فتنہ پرداز اعتراض کرنے لگے کہ کیا نعوذ باللہ‘ اللہ تعالیٰ سے غلطی ہوگئی تھی جس کی بعد میں اصلاح کی گئی۔ آیت میں اس کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے بعض حضرات نے شریعت کے قانون نسخ کی تفصیل پیش کی ہے۔ آیت کے ذیل میں دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ اس میں یہود کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اعتراض یہ تھا کہ توریت اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب ہے۔ پھر قرآن اس کے بعض احکام کو کیوں منسوخ قرار دیتا اور اس کی جگہ دوسرے احکام پیش کرتا ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن من جانب اللہ نہیں ہے، ورنہ اللہ کی ایک کتاب دوسری کتاب کے قوانین پر اس طرح خطِ تنسیخ نہ پھیرتی۔ آیت میں اسی کا جواب دیاگیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر: ۱/۱۵۰-۱۵۱)

دوسری بات آیت کے سیاق و سباق سے زیادہ قریب معلوم ہوتی ہے۔ مولانا صدر الدین مرحوم نے یہی رائے اختیار کی ہے اور اتنی تفصیل سے اس پر گفتگو کی ہے کہ اس سے پہلے شاید کسی اور نے اس تفصیل سے بحث نہیں کی ہے۔ ملاحظہ ہو۔حاشیہ (۱۸۶)

۷- حج کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی ز وَ اتَّقُوْنِ یٰـٓاُولِی الْاَلْبَابِ ط (البقرہ ۲:۱۹۸) (تقویٰ کا) زادِ راہ جمع کرو کہ بہترین زادِ راہ یہی تقویٰ ہے۔ لہٰذا اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔

اس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ حج کے سلسلے میں سفر کی ضروریات کا اہتمام کیا جائے، بہترین زادِ راہ تقویٰ ہے‘ یعنی یہ کہ آدمی دوسروں کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے اور ان پر بوجھ نہ بنے۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہونے کے باوجود حج کے سیاق سے بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتی۔

مولانا نے اس کی تشریح ایک نئے ڈھنگ سے کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ: اہل عرب ’حج‘ کرنے کثرت سے آتے مگر حج کا مقصود کب کا بھلا چکے تھے، سچی خدا پرستی کی روح سے ان کا حج بالکل خالی ہوچکا تھا۔ ’حج‘ کرنے آتے مگر دنیا کمانے کی غرض سے، تجارتی منافع بٹورنے کے لیے اور سیر و تفریح کی خاطر۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا عبادتیں آخرت کی پونجی جمع کرنے کے لیے ہیں، نہ کہ دنیا کمانے کا آلہ۔ اس لیے حج کرنے آؤ تو پیش نظر خداپرستی کی روح پیدا کرنا ہو، تقویٰ کی روشنی سے دل کو منور کرنا ہو، آخرت کی سعادت اور فیروز مندی کے لیے خوش نودیِ رب کا ذخیرہ جمع کرنا ہو۔ معلوم ہوا کہ دوسرے احکام شرع کی طرح حج کا مقصد بھی اللہ کا تقویٰ پیداکرنا ہے، وہ تقویٰ جو قرآن سے ہدایت پانے کی ایک ہی شرط ہے۔ حاشیہ (۲۸۰)

آیت کے آخر میں ارشاد ہے کہ (اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو) اس سے مولانا نے بہت عمدہ نکتہ نکالا ہے کہ:

یہ اور اس طرح کی بہت ساری آیتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ دین اور تقویٰ عقل کا تقاضا ہیں، اور بنی نوع انسان کی عقل ہی اس ذمے داری کی بنیاد ہے۔ قرآن ان لوگوں کے نظریے کی پرزور تردید کرتا ہے، جن کا خیال ہے کہ دین کا عقل سے کوئی تعلق نہیں، وہ صرف دل کے لطیف احساسات کی پیداوار ہے۔ حاشیہ (۳۷۹)

۸-  قرآن مجید نے انسانوں کے ’امت واحدہ‘ ہونے کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

کَانَ النَّاسُ اُمَّـــۃً وَّاحِـدَۃً (البقرہ ۲:۲۱۳) (در حقیقت) سارے انسان (ہمیشہ سے) ایک ہی گروہ ہیں۔

اس آیت کا مفہوم مفسرین نے یہ بیان کیا ہے کہ تمام انسان آغاز میں ایک امت تھے اور ان کا دین بھی ایک تھا۔ پھر ان میں اختلافات رونما ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان اختلافات کو ختم کرنے اور حقیقت حال کو واضح کرنے کے لیے اپنے رسول بھیجے۔ یہ اختلافات بعد کی پیداوار ہیں جو دنیا کی طلب اور ظلم و عدوان کی وجہ سے رونما ہوئے، لیکن مولانا اسے یہاں ماضی کی جگہ ایک حقیقت واقعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک آیت میں بتایا گیا ہے کہ سارے انسان اپنی اصل کے لحاظ سے ایک ہیں اور ان کا دین بھی ہمیشہ ایک رہا ہے۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجود دنیا کی طلب میں اختلافات رونما ہوتے رہے اور پیغمبروں نے اس کی اصلاح کا فرض انجام دیا۔ مولانا نے اس آیت کا ترجمہ ان الفاظ میں کیا ہے:

(در حقیقت) سارے انسان(ہمیشہ سے) ایک ہی گروہ ہیں اور (سب کے لیے ایک ہی دین ہے لیکن دنیا پرستی کی وجہ سے ان میں اختلافات رونما ہوگئے) تو اللہ نے (راست روی پر) بشارت دینے والے اور (کج روی پر) ڈرانے والے پیغمبر بھیجے، اور ان کے ساتھ پیغام حق رکھنے والی کتاب نازل فرمائی، تاکہ وہ ان اختلافات کا فیصلہ کردے جس میں لوگ مبتلا ہوچکے تھے۔ اور (امر حق میں) یہ اختلافات انھی لوگوں نے کیے جن کو یہ حق بخشا جاچکا تھا (اور اس وقت کیے تھے)‘ جب کہ روشن ہدایتیں ان کے پاس آئی ہوئی تھیں، (صرف) آپس میں (ایک دوسرے پر) زیادتی کرنے کی خاطر (انھوں نے ایسا کیا)۔ پس (اس وقت) جو لوگ (نبی پر) ایمان لائے، اللہ نے انھیں اپنے اذن سے اس حق کا راستہ دکھا دیا جس میں لوگ مختلف الرائے ہوگئے تھے۔ اللہ (اپنی حکمت اور سنت کے مطابق) جس کو چاہتا ہے راہ راست دکھاتا ہے۔

مولانا نے حواشی میں اس کی جو تشریح کی ہے وہ بڑی قابل قدر ہے۔ فرماتے ہیں:

قرآن کی یہ آیت ان بہت ساری آیتوں میں سے ایک ہے جو اعلان پر اعلان کرتی ہیں کہ سارے انسانوں کو ہمیشہ سے ایک ہی دین عنایت ہوتا رہا ہے۔ اصل دین میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں ہوا۔ حاشیہ(۴۰۶)

۹- آیت الکرسی (البقرہ۲:۲۵۵) قرآن مجید کی بڑی اہم آیت ہے۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے اس کی تفسیر میں شفاعت کے صحیح اور غلط تصور کی نہایت عمدہ وضاحت کی ہے: جہاں قرآن نے اس شفاعت کی تردید کی ہے، جس کے مشرکین قائل تھے اور ہیں وہیں شفاعت کا اثبات بھی کیاہے۔

دونوں طرح کی شفاعتوں کے فرق کو مولانا نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: قرآن اس نظریۂ شفاعت کو رد کرتا ہے جو انسان کو عقیدۃً و عملاً خدا کے مقابلے میں کسی مخلوق کے قریب لے جائے، اور اس تصور شفاعت کی توثیق کرتا ہے جو اسے ہر ماسوا کے مقابلے میں خدا سے قریب کرے۔ حاشیہ( ۵۴۳)

اس کی وضاحت آگے اس طرح کی ہے کہ :پہلا نظریہ انسان کو یہ باور کراتا ہے کہ تیری فلاح اور بخشش عملی طور پر اصلاً فلاں بزرگ اور فرشتے (اور کسی) مخلوق کے ہاتھ میں ہے۔ کیوں کہ وہ بالذات تیری بخشش کا مالک اور صاحب امر نہیں، بلکہ اصل صاحب امر کے دربار میں بڑا زور اور اثر رکھتا ہے۔

اس کے بالمقابل دوسرا قرآنی تصور شفاعت انسان کو اس ٹھوس حقیقت سے دوچار کراتا ہے کہ سارا اقتدار اور فیصلے کا حق صرف خدا کو ہے۔ سب اس کے دربار میں یکساں مجبور ہیں۔ اس کے حضور زبان کھولنے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ ایک تویہ کہ وہ بولنے کی اجازت دے اور دوسرے یہ کہ جو بات کہی جائے بالکل ٹھیک ٹھیک مطابق واقعہ کہی جائے۔ اسی لیے اگر کوئی شخص قیامت کے دن کسی کی شفاعت کرے گا بھی تو اس کی حیثیت صرف دعا اور التجا کی ہوگی اور وہ بھی اس وقت جب داورِ حقیقی اس کی اجازت دے۔

عقلی انداز

مولانا صدر الدین اصلاحی کا اسلوب عقلی اور استدلالی ہے۔ قرآنی تعلیمات پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں انھیں رفع کرنے کی انھوں نے نہایت عمدہ کوشش کی ہے اور عقل کو مطمئن کرنے والے دلائل فراہم کیے ہیں۔ لیکن اس میں بڑی احتیاط سے کام لیا ہے۔ عام طور پر جن اصحابِ فکر پر عقلیت کا غلبہ ہوتا ہے وہ ان تمام امور کی توجیہ کرنے لگتے ہیں جنھیں وہ خلاف عقل سمجھتے ہیں۔ خواہ قرآن مجید کے الفاظ اس کا ساتھ دیں یا نہ دیں۔ اس کی زد میں بعض اوقات ملائکہ، جن اور شیاطین، وحی و رسالت اور برزخ جیسے حقائق اور ایمانیات بھی آجاتے ہیں۔ اسی میں انبیا ؑ کے معجزات بھی شامل ہیں ۔ مولانا کی تفسیر اس مرعوبیت سے پاک ہے۔ ان تمام امور میں ان کے سامنے اصلاً الفاظِ قرآن رہے ہیں اور انھوں نے وہی تفسیر اختیار کی ہے جو قرآن کے الفاظ سے  ہم آہنگ ہو یا جن کی الفاظ میں گنجایش ہو۔ اس سے باہر جانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ اسے بعض مثالوں سے سمجھا جاسکتا ہے۔

۱- حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کے لیے بحر احمر کے شق ہونے کا ذکر سورۂ بقرہ آیت(۵۰)میں ان الفاظ میں آیا ہے:

وَ اِذْ فَرَقْنَا بِکُمُ الْبَحْرَ فَاَنْجَیْنٰـکُمْ وَ اَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَط (یاد کرو وہ وقت) جب ہم نے تمھارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا اور پھر (درمیان سے) تمھیں صحیح سلامت گزار دیا تھا، لیکن فرعونیوں کو تمھاری نگاہوں کے سامنے غرق کر دیا۔

اس کے ذیل میں مولانا کہتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر‘ جب کہ کوئی انسانی تدبیر ممکن نظر نہیں آتی تھی، اپنے معمولی قوانین کے بجاے غیر معمولی قوانین کا حکم دیا اور سمندر یکایک اس طرح پھٹ گیا کہ بیچ میں خشک گزرگاہ نمودار ہوگئی اور دائیں بائیں پانی کی پہاڑیاں نصب ہوگئیں۔ حضرت موسیٰؑ مع اپنی پوری قوم کے خدا کا نام لے کر اس گزرگاہ سے ہوتے ہوئے دوسرے ساحل پر جاپہنچے۔ فرعون نے جو تعاقب کرتا ہوا اب ساحل پر پہنچ چکا تھا، سمندر کے بیچ سے انسانی گروہ کو گزرتے دیکھ کر خود بھی اپنا گھوڑا ڈال دیا، جب پورا لشکر اتر چکا تو دائیں بائیں کی ’آبی پہاڑیاں‘ باہم مل گئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا لشکر غائب تھا۔ حاشیہ(۹۳)

۲- سورۂ بقرہ کی آیت (۶۰) کے الفاظ ہیں: وَ اِذِ اسْتَسْقٰی مُوْسٰی لِقَوْمِہٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاکَ الْحَجَرَ ط فَانْفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشَرَۃَ عَیْنًا ط قَدْ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَھُمْ ط ’’(یاد کرو وہ وقت) جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی کی درخواست کی تھی اور ہم نے کہا تھا کہ ’’اپنی لٹھیافلاں چٹان پر مار‘ چنانچہ (لٹھیا کا مارنا تھا کہ) اس سے ۱۲ چشمے پھوٹ نکلے اور ہر گروہ کو یہ معلوم (بھی) ہوگیا کہ اس کے پانی لینے کی جگہ کون سی ہے۔

مولانا نے اسے بھی غیر معمولی اور غیر عادی واقعہ قرار دیا ہے: سایہ اور غذا کی طرح پانی کا بھی غیر معمولی طور سے انتظام کیا گیا۔ بالکل معجزے کے طور پر چٹان کا سینہ چاک ہوا اور پانی اُبل پڑا، اور اس انداز سے ابلا کہ اگر بنی اسرائیل کے ۱۲ قبیلے تھے تو چشمے بھی ۱۲ ہی پھوٹے تاکہ پانی کی یہ تقسیم بھی خدا ہی کی طرف سے ہوجائے۔ حاشیہ (۱۰۹)

اس کے بعد مولانا نے ان حیرت انگیز اور غیر عادی واقعات کی حکمت بھی بیان فرمائی ہے۔

۳- بنی اسرائیل میں جن لوگوں نے سبت کے حکم کی خلاف ورزی کی تھی، اللہ نے ان کو جو سزا دی اس کا ذکر قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے:

وَ لَقَـدْ عَلِمْتُمُ الَّــذِیْنَ اعْتَــدَوْا مِنْــکُمْ فِی السَّبْتِ فَقُلْنـَا لَھُمْ کُوْنُـوْا قِـرَدَۃً خٰسِئِیْنَo (البقرہ ۲:۶۵) چنانچہ تمھیں اپنی قوم کے ان لوگوں کا قصہ     بہ خوبی معلوم ہے جنھوں نے سبت کے معاملے میں سرکشی اختیار کرلی تھی اور ہم نے (بطور عذاب) ان سے فرما دیا تھا کہ بن جاؤ بندر، ذلیل اور دھتکارے ہوئے۔

اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ شکل و صورت کی تبدیلی نہیں تھی بلکہ ذہن و مزاج کی تبدیلی تھی، لیکن مولانا کہتے ہیں: ’’ہوسکتا ہے کہ ان کی صورتیں نہ بدلی ہوں صرف باطن مسخ ہوکر بندروں جیسا ہوگیا ہو یا یہ صرف ایک مجازی تعبیر ہو ان کے ذلیل و خوار ہوجانے کی‘ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ظاہراً و باطناً دونوں حیثیتوں سے مسخ کرکے بالکل بندر بنادیے گئے ہوں‘ اور یہ بھی قرین قیاس ہے کہ دماغ تو انسانوں جیسا دیا گیا ہو مگر صورتیں مسخ کردی گئی ہوں۔ یہی آخری شکل زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیوں کہ اس شکل میں خود ان کو بھی اپنے ذہن میں یہ محسوس کرتے رہنے کا موقع تھا کہ یہ سب کچھ ہماری شرارتوں کا نتیجہ ہے۔ حاشیہ (۱۲۶)

۴- بعض لوگ عالم برزخ کا انکار یا اس کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اسے اللہ تعالیٰ کے قانونِ عدل کے منافی سمجھتے ہیں، حالاں کہ برزخ کی زندگی قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مولانا صدر الدین کے ہاں وضاحت کے ساتھ برزخ کے عقیدے کا ذکر ہے اور اس پر سورۂ بقرہ کی آیت (۱۵۴) سے استدلال کیا ہے۔ آیت کے الفاظ ہیں:

وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَائٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ط ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل ہو جائیں مردہ نہ کہو وہ تو زندہ ہیں لیکن تمھیں (ان کی زندگی)کا شعور نہیں۔

مولانا لکھتے ہیں: قرآن اور حدیث دونوں سے یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ مرنے کے بعد انسان بالکل ایسا مردہ نہیں ہو جاتا کہ اس کو حیات سے کوئی واسطہ ہی نہ ہو اور جب قیامت آئے گی اسی وقت جاکر اسے اس کامل حالتِ مرگ سے نکال کر دوبارہ زندگی عطا کی جائے گی، بلکہ اس دوران میں بھی اس کو ایک طرح کی جزوی زندگی حاصل رہتی ہے، جسے برزخی زندگی کہتے ہیں۔ اس زندگی میں بھی ہر شخص پر اس کے اعمال کے مطابق جنتی نعمتوں اور لذتوں کا یا پھر دوزخی مصیبتوں اور کلفتوں کا ترشح ہوتا رہتا ہے۔ یہاں اس آیت میں اسی زندگی کا ذکر ہے۔ حاشیہ (۲۷۵)

۵-  سورۂ بقرہ کی آیت (۲۵۹) میں ایک ایسے شخص کا ذکر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حیات بعد الموت کا تجربہ کرایا تھا:

اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَۃٍ وَّھِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا ج قَالَ اَنّٰی یُحْیٖ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مَوْتِھَا ج فَاَمَاتَہُ اللّٰہُ مِائَۃَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہٗ ط قَالَ کَمْ لَبِثْتَ ط قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ ط قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَۃَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ ج وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ قف وَلِنَجْعَلَکَ آیَۃً للِنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا  لَحْمًا ط فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہٗ لا قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ o (البقرہ ۲:۲۵۹) یا کیا اس شخص کے حال پر تم نے غور نہیں کیا جس کا گزر ایک بستی پر سے ہوا تھا، جو اپنی چھتوں کے بل ڈھئی پڑی تھی؟ (اسے دیکھ کر بے اختیار) اس کے منہ سے نکلا: ’’یوں ہلاک ہو جانے کے بعد اللہ اس بستی کو دوبارہ کیسے زندہ کرے گا؟ اس پر اللہ نے ۱۰۰ برس کے لیے اس پر موت طاری کردی، پھر اس کو (زندہ) اٹھا کھڑا کیا۔ دریافت کیا: ’’تم (یہاں) کتنی دیر رہے؟‘‘ بولا: ’’ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ‘‘فرمایا: (نہیں) بلکہ تم (یہاں اس حالت میں پورے) ۱۰۰ برس رہے ہو۔ سو اب ذرا اپنے کھانے پینے کی چیزوں کا جائزہ لو کہ ان پر سالہا سال گزر جانے کا کوئی اثر نہیں ، دوسری طرف اپنے گدھے کو دیکھو (کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہو رہا ہے)۔ (ہم نے تمھیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس لیے کرایا ہے تاکہ تم کو نور یقین حاصل ہو) اور اس لیے تاکہ ہم تمھیں لوگوں کے واسطے (بھی) ایک نشانی بنا دیں۔ اور پھر دیکھو کہ ہم کس طرح ہڈیوں کو اٹھا کر (ان کا ڈھانچا بناتے اور) پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں‘‘۔ جب اس کے سامنے حقیقت یوں    بے حجاب ہوگئی تو بول اٹھا: ’’مجھے یقین ہے کہ اللہ ہر بات پر قادر ہے‘‘۔

بعض لوگوں کو اسے بھی غیر عادی اور معجزانہ واقعہ ماننے میں تأمل ہوسکتا ہے، لیکن مولانا نے اسے ایک غیر عادی واقعے ہی کی حیثیت سے دیکھا ہے۔ فرماتے ہیں کہ جس ہستی پر اللہ نے موت طاری کردی:’’ہوسکتا ہے کہ انھیں بالکل مردہ حالت میں رکھا گیا ہوا اور اس کا بھی امکان ہے کہ ان پر ایک طویل نیند طاری کردی گئی ہو۔ قرآن میں نیند کے لیے موت کااستعمال یا استعارہ نایاب نہیں گو کم یاب ضرور ہے۔ حاشیہ (۵۶۰)

یہ بات کہ ۱۰۰برس گزرنے کے باوجود کھانے پینے کی چیزیں جوں کی توں رہیں اور دوسری طرف گدھے کا ڈھانچا بوسیدہ ہوچکا تھا، اس پر مولانا لکھتے ہیں:

گویا جس چیز پر موسمی حالات اور تغیرات کا‘ نیز امتداد وقت کا اثر نسبتاً کچھ دیر میں ہوتا ہے (یعنی جانور) وہ تو یوں گل سڑ چکی تھی، مگر جس پر یہ اثر بہت جلد ہوتا ہے (یعنی کھانا یا پانی) وہ بدستور تروتازہ موجود تھی۔ یوں اگر ایک شے اس امر کی شاہد تھی کہ یہاں کا قیام ایک لمبی مدت کا قیام ہوچکا ہے، تو دوسری اس حقیقت کی گواہ تھی کہ قوانین قدرت اور عناصر فطرت اپنے فعل و تاثیر میں آزاد اور مستقل نہیں ہیں، بلکہ کسی بالاتر قوت (یا) قدرت الٰہی کے تابع فرمان ہیں، لہٰذا ضروری نہیں کہ عام قانونِ حیات کسی شے کو اپنے ضابطے کے تحت فنا کی منزل پر پہنچا ہی دے‘ اور جب یہ امر واقعہ ہے تو پھر کیا فرق ہے اس بات میں کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت جب چاہے قوانین فطرت کو ان کے اپنے عمل سے روک دے‘ اور اس بات میں کہ یہی قدرت عناصر طبیعت کو اس شے کی واپسی کا حکم دے دے، جس کے اجزا بکھر کر ان کے معدوں میں جذب یا مستور ہوچکے ہیں۔ اور پھر یہ بکھرے ہوئے اجزا اس کے حکم سے از سرنو سمٹ کر ایک مکمل قالب اور حسب سابق ایک زندہ جسم کی شکل میں تبدیل ہو جائیں۔ حاشیہ (۵۶۲)

بعض اختلافی مسائل

مولانا صدر الدین نے اپنی تفسیر میں بعض اختلافی مسائل سے بھی تعرض کیا ہے۔   قرآن مجید نے منکرین حق کے بارے میں فرمایا (خٰلِدِیْنَ فِیْھَا) کہ وہ جہنم میں ہمیشہ رہیں گے۔ مولانا فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جب تک جہنم رہے گی۔ رہی یہ بات کہ جہنم کب تک رہے گی تو اس کی بابت قرآن صرف یہ بتاتا ہے کہ جب تک اللہ چاہے گا۔ (ھود ۱۱:۱۰۷)، حاشیہ (۶۷)

اس سے خیال ہوتا ہے کہ مولانا غالباً جہنم کو ابدی نہیں سمجھتے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض علما کی یہ رائے ہے، لیکن عام علما اور محققین کے نزدیک جنت کی طرح جہنم بھی ابدی ہے۔

۲- اسلام کے جن احکام و مسائل پر اعتراض کیا جاتا ہے ان میں ایک قتل مرتد کا مسئلہ بھی ہے۔ اسے آزادیِ فکر کے منافی سمجھا جاتا ہے۔

حضرت موسیٰؑ کی عدم موجودگی میں بنی اسرائیل کے ایک گروہ کی گئو سالہ پرستی اور اس پر ان کی سزا کا ذکر سورۂ بقرہ (۵۴)میں ان الفاظ میں آیا ہے:

وَاِذْ قَالَ مَوْسٰی لِقَوْمِہٖ یٰـقَوْمِ اِنَّکُمْ ظَلَمْتُمْ اَنْفُسَکُمْ بِاتِّخَاذِکُمُ الْعِجْلَ فَتُوْبُوْٓا اِلٰی بَارِئِکُمْ فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ عِنْـدَ بَارِئِـکُمْ ط فَتـَـابَ عَلَیْـکُمْ ج اِنَّــہٗ ھُـوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ o (یاد کرو وہ وقت) جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’اے میری قوم کے لوگو! تم نے بچھڑے کو اپنا معبود بنا کر یقینا اپنے اوپر (سخت) ظلم کیا ہے، پس اپنے خالق کے حضور توبہ کرو اور اپنے (اندر کے مجرموں) کو قتل کر ڈالو، اسی میں تمھارے خالق کے نزدیک تمھاری بھلائی ہے‘‘۔ چنانچہ (اس وقت ایسا ہوا تھا کہ تمھاری عفو خواہی پر) اس نے تمھاری توبہ قبول فرمالی بلاشبہہ اس کی درگزر اور رحم فرمائی بڑی بے پایاں ہے۔

مولانا صدر الدین اصلاحی نے (فَاقْتُلُوا اَنْفُسَکُمْ) کا جو ترجمہ کیا ہے بالعموم مفسرین نے ان الفاظ کے یہی معنی لیے ہیں۔ اس کے حاشیے میں مولانا فرماتے ہیں: یعنی جن لوگوں نے اس شرک کا ارتکاب کیا ہے انھیں قانون شریعت کے مطابق ارتداد کی سزا دی جائے اور قتل کر دیا جائے۔ حاشیہ(۹۷)

کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ توریت یا موسوی شریعت میں مرتد کی سزا قتل تھی، کیا توریت میں اب بھی یہ حکم موجود ہے؟ اس کے متعلق میں کچھ عرض نہیں کرسکتا، لیکن اگر یہ ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ آخری رسول محمدؐ کی شریعت نے اس حکم کو باقی رکھا جو پہلے سے توریت میں موجود تھا۔

۳- دیت کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں کہ: آزاد، غلام اور عورت میں سے ہر ایک کے خون کی قیمت کیا ہوگی تو شریعت نے اس کی کوئی تعیین نہیں فرمائی ہے بلکہ اسے دستور عام پر چھوڑ دیا ہے۔ جس ملک یا سوسائٹی میں اہل الرائے کے درمیان جو قیمتیں طے قرار پا جائیں، شریعت کے نزدیک وہی قیمتیں قابل تسلیم ہوں گی۔ حاشیہ (۳۶)

عام طور پر علما نے حدیث کی بنیاد پر دیت ۱۰۰ اُونٹ مانی ہے۔ اونٹ کی قیمت بھی ادا کی جاسکتی ہے۔ آزاد، غلام اور عورت کی دیت میں کوئی فرق ہے یا نہیں، اس پر بھی اہل علم نے بہت تفصیل سے بحث کی ہے۔ مولانا کی اس رائے کو ایک صاحب علم کی رائے کی حیثیت سے دیکھا جاسکتا ہے۔

اصلاح اُمت

مولانا کی تفسیر کا انداز خالص علمی ہے۔ اس میں ملکی و غیر ملکی حالات، سیاسی تغیرات اور امت کے مسائل کا ذکر نہیں ملتا، لیکن کہیں کہیں امت کی کم زوریوں کی طرف اشارے کیے گئے ہیں اور اصلاح حال کی دعوت دی گئی ہے۔ سورۂ بقرہ کے آغاز ہی میں قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گیا (ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْن)‘ یعنی یہ سراپا ہدایت ہے ان لوگوں کے لیے جن کے اندر تقویٰ ہے۔

مولانا نے تقویٰ کی تفصیل سے وضاحت کی ہے۔ اس کے آغاز میں فرماتے ہیں کہ     یہ قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے اور اس سے مراد انسان کے دل کی وہ کیفیت ہے جو اس کو ہرلمحے اس بات پر آمادہ رکھتی ہے کہ وہ اپنے محسن حقیقی کے احسانوں کو یاد رکھے، ان کے تقاضوں سے غافل نہ ہو۔

اس کے بعد قرآن نے متقیوں کی صفات بیان کی ہیں۔ مولانا فرماتے ہیں کہ :

قرآن نے یہاں جو انداز بیان اختیار کیا ہے اس پر انھیں (مسلمانوں کو) گہری نظر ڈال کر محسوس کرنا چاہیے کہ ہدایت کا مفہوم کتنا وسیع ہے، اور کس طرح وہ پوری زندگی کو گھیرے ہوئے ہے۔ ہدایت صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آدمی بس خدا اور آخرت پر اپنے اعتقاد کا اظہار کردے اور جوں توں کرکے نماز پڑھ لے اور زکوٰۃ دے دے، بلکہ اس کا تعلق انسان کی زندگی کے ایک ایک شعبے اور ایک ایک معاملے سے ہے ۔۔۔۔۔ ورنہ اگر ہدایت یافتگی کا مطلب صرف یہ ہوتا کہ انسان توحید، رسالت اور آخرت کا اقرار کرے اورنماز روزے کی پابندی اختیار کرے، جیسا کہ تنگ نظر لوگ سمجھے بیٹھے ہیں، تو قرآن کے اس قول کے کوئی معنیٰ نہیں رہ جاتے کہ یہ کتاب ان لوگوں کے لیے ہدایت ہے جو ایسا ایسا کرتے ہیں۔ کیوں کہ وہ ایسا ایسا کرکے ہدایت یاب ہو ہی چکے ہیں۔ انھیں اب قرآن کیا ہدایت بخشے گا؟ حاشیہ(۱۰)

اس طرح کے بعض اور بھی مقامات ہیں جہاں مولانا نے مسلمانوں کو ان کی خامیوں کی نشان دہی کی ہے اور اصلاح کی طرف متوجہ کیا ہے۔