ستمبر۲۰۰۶

فہرست مضامین

معرکۂ لبنان __ تاریکیوں میں روشنی کی کرن

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر۲۰۰۶ | اشارات

Responsive image Responsive image

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت‘ لبنان پر حملہ کر کے ۳۴ دن رات قوت کے بے محابا استعمال اور ظلم و تشدد کی ایک نئی داستان رقم کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے (جسے خود مغرب کی انسانی حقوق کی تنظیمیں انسانیت کے خلاف جرائم (crimes against humanity) قرار دے رہی ہیں) انھی ۳۴ شب وروز میں جدید ترین اور انتہائی تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس دنیا کی چوتھی بڑی فوج کی ہمہ گیر جنگ (ہوائی‘ بحری اور بری) کے مقابلے میں حزب اللہ کے چند ہزار مجاہدوں کی سرفروشانہ مزاحمت ایک آئینہ ہے جس میں بہت سے چہرے اپنے تمام حسن و قبح کے ساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ یوں انسان کی آنکھ دنیا ہی میں یَّوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ ج (اس روز کچھ لوگ سرخ رو ہوں گے اور کچھ لوگوں کا منہ کالا ہوگا۔ اٰل عمرٰن ۳:۱۰۶) کا چشم کشا اور ایمان افروز منظر دیکھ رہی ہے۔ مسئلہ کے تجزیے اور حالات کے مقابلے پر بات کرنے سے پہلے‘ عبرت اور موعظت کے ان مناظر پر ایک نظر ڈالنا مسائل کی حقیقت کو سمجھنے اور رزم گاہ کے تمام کرداروں کے چہروں کے اصل خدوخال اور نقش و نگار کو پہچاننے میں مددگار ہوگا۔

معرکۂ لبنان کے کردار

اس آئینے میں ویسے تو سارے ہی چہرے موجود ہیں لیکن ہم ان میں سے آٹھ کا ذکر مسائل کی تفہیم کے لیے ضروری سمجھتے ہیں:

سب سے پہلا چہرہ اسرائیل کا ہے اور وہی اس خونی ڈرامے کا اصل کردار بھی ہے۔ اسرائیل کوئی عام ریاست نہیں‘ مغرب کے ملمع سازوں اور تماشا گروں نے تو اسے علاقے کی ’واحد جمہوری ریاست‘ کا امیج (image) دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اسرائیل نے خود اپنے کردار اور قوت کے نشے میں مست ہوکر انسانی تباہی‘ وسیع پیمانے پر ہلاکت خیزی اور جنگی جرائم کی نہ ختم ہونے والی حرکات کے ذریعے دنیا کو اپنی جو تصویر دکھا دی ہے‘ وہ اب کسی مصنوعی لیپاپوتی یا میڈیا کی جعل سازی سے تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ جو باتیں بالکل واضح ہو کر سامنے آگئی ہیں وہ یہ ہیں:

۱- اسرائیل کا وجود اوراس کی بقا کا انحصار کسی اصول‘ حق یا عالمی ضابطے پر نہیں‘ قوت اور صرف قوت کے بے محابا استعمال پر ہے۔ اس کا قیام بھی تشدد اور قوت کی بنیاد پر ہوا اور علاقے میں اس کا وجود بھی صرف قوت کے سہارے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ اس کے لیے کوئی قانون ہے    اورنہ کوئی ریاستی حدود۔ چنانچہ جس فلسفے پر وہ عامل ہے اور اس کے پشتی بان اسی تصور پر اپنی   خارجہ پالیسی اورجنگی سیاست استوار کیے ہوئے ہیں کہ اسرائیل کی عسکری قوت کوناقابلِ مقابلہ (unchallengable) ہونا چاہیے اور صرف ایک یا دو پڑوسی ملکوں یا عالمِ عربی نہیں‘ بلکہ ایران اور پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے مقابلے میں اسرائیل کے پاس اتنی قوت ہونی چاہیے کہ وہ اس قوت کو جب چاہے اور جس موقع پر بھی وہ بزعمِ خود اپنے لیے کوئی خطرہ محسوس کرے تو بلا روک ٹوک اور جس طرح چاہے استعمال کرے۔ امریکا اور یورپ کے سامراجی ذہن نے اسے ’دفاعی اقدام‘ کا نام دیا ہے۔ جب امریکا یہ محسوس کرتا ہے کہ اسرائیل کی جارحانہ بلکہ دہشت گردانہ قوت میں کوئی کمی آرہی ہے تو آنکھیں بند کر کے اس کی قوت کو بڑھانے کے لیے جنگی سازوسامان کی ریل پیل کردی جاتی ہے۔ اسی بنیاد پر اسے نیوکلیر پاور بنایا گیا تھا۔ اس وجہ سے اسے ہرقسم کے تباہ کن اسلحے اور آلاتِ جنگ سے لیس کیا گیا‘ اسی دلیل پر ۱۹۷۳ء میں جب جنگ کا پلڑا صرف دو دن تک اس کے خلاف تھا اس کی مدد کی گئی اور اسی شرانگیز فلسفے کی وجہ سے حالیہ لبنان پر فوج کشی کے دوران امریکا نے برطانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کر کے تباہ کن بم ہی نہیں بلکہ ڈیزی کٹر اور زیرزمین مضبوط پناہ گاہیں تباہ کرنے والے بم (bunker buster) تک جہازوں میں لاد کر اسے پہنچائے۔

اسرائیل نے جو تباہی مچائی ہے اور جس پر ساری دنیا کے غیر جانب دار انسان چیخ اُٹھے ہیں۔ ٭وہ بھی اسرائیل کے اس فلسفۂ جنگ اور فلسفۂ وجود پر ایک معمولی سا دھبّا بھی نہیں لگاسکے اور اسرائیل اسی بنیاد پر قائم ہے۔

۲- اسرائیل بنیادی طور پر اس علاقے کی کوئی ریاست نہیں بلکہ اس کی حیثیت ایک استعماری قوت (colonial power)کی ہے جس نے فلسطین پر صرف قوت سے قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ اسے آبادکاروں کی نوآبادی (settler colony) بھی بنا دیا‘ یعنی استعماری قوت کو دوام دینے کے لیے نقل آبادی اور زمینی حقائق کی تبدیلی تاکہ سرزمینِ فلسطین کے اصل باشندے یا دربدر کی ٹھوکریں کھائیں (آج ۴ ملین فلسطینی اپنے وطن سے باہر زندگی گزار رہے ہیں) یا پھر محکوم اور غلام بن کر رہیں اور یورپ اور امریکا سے کاکیش نسل کے یہودیوں کو اس سرزمین پر آباد کردیا جائے اور وہ بزور اس پر قابض رہیں۔ یہ دونوں پہلو یعنی اس کا نوآبادیاتی استعماری کردار اور آبادکاروں کی حیثیت اسرائیل کی اصل شناخت ہیں۔ لیکن اس میں ایک تیسرے پہلو کا اضافہ گذشتہ ۵۰سال میں اسرائیل اور امریکا کے سیاسی گٹھ جوڑ سے نمایاں ہوگیا ہے یعنی یہ کہ اب اسرائیل ان دونوں پہلوئوں کے ساتھ عرب دنیا میں امریکا کا ایک فوجی ٹھکانا بن گیا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ پورے  علاقے کو امریکا کے سامراجی مقاصد کی خاطر استعمال کرنے کے لیے وہ چوکیدار کا کردار ادا کرے۔ اسے ایک غیرجانب دار مبصر نے یوں بیان کیا ہے:

اسرائیل ایک ملک نہیں ہے بلکہ مغربی ممالک کا فوجی اڈہ ہے تاکہ شرقِ اوسط اور مسلم ممالک کے تیل کے ذخائر پر کنٹرول رکھا جا سکے۔

اسرائیل کے تمام مظالم اور خلافِ انسانیت ہلاکت کاریاں اپنی جگہ‘ اس کے اصل چہرے کا سمجھنا ازبس ضروری ہے۔

اس آئینے میں دوسرا چہرہ امریکا کا صاف دیکھا جاسکتا ہے۔ امریکا اور اسرائیل کے کردار میں کوئی فرق باقی نہیں رہا ہے اور من تو شدم تو من شدی کا منظر صاف نظر آرہا ہے۔ اس لیے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ امریکا کی پشت پناہی میں‘ اس کی باقاعدہ اعانت اور شمولیت سے اور اس کے علاقائی عالمی عزائم اور اہداف کے حصول کے لیے کر رہا ہے۔ یہ باہمی تعاون ایک مدت سے واضح ہے لیکن ۳۴ دن میں توہرچیز بالکل برہنہ ہوگئی ہے۔ بش اور کونڈولیزارائس نے پہلے دن سے اسرائیل کے اقدامات کی تائید کی اور صاف کہا کہ اسے حزب اللہ کو ختم کرنے اور لبنان کو سبق سکھانے کا حق حاصل ہے۔ G-8 سے لے کر روم کانفرنس تک امریکا نے تمام دنیا کی چیخ پکار اور کوفی عنان کی آہ و بکا کے باوجود فوری جنگ بندی کی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی سے مخالفت کی‘ یورپ تک کی کوششوں کو آگے نہ بڑھنے دیا اور صاف کہا کہ اس قصے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اسرائیل کو تین ہفتے چاہییں اور وہ اسے ملنے چاہییں لیکن جب بازی اسرائیل کے خلاف پلٹنے لگی اور ایک ایک دن میں اسرائیل کے ۳۵ فوجی ہلاک ہونے لگے تو جنگ بندکرانے کے لیے امریکا بہادر تیار ہوگیا۔ اس زمانے میں ایران کو گالیاں دی جاتی رہیں کہ اس نے حزب اللہ کو اسلحہ دیا ہے اور خود جہاز پر جہاز اسرائیل کو روانہ کیے گئے اور اس جنگ میں ایک کھلا رفیق بن گیا جس کے نتیجے میں لبنان کے ۱۲۰۰ افراد شہید‘ ۵ہزار زخمی اور ۴۰ سے ۵۰ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ پھر اسے زخموں پر نمک پاشی ہی کہا جاسکتا ہے کہ انسانی جانوں کی اس ہلاکت اور اس ہمہ گیر تباہی پر آنسو بہانے کے لیے امریکا نے ۵۰بلین ڈالر کی خطیرامداد کا اعلان کیا ہے۔ تفو برتو اے چرخ گرداں تفو۔ لبنان کے لیے واحد عزت کا راستہ یہی ہے کہ اس ۵۰بلین کی بھیک کو لینے سے انکار کردے اور ’عطاے تو بہ لقاے تو‘ کے اصول پر امریکا ہی کے منہ پر دے مارے!

یہ پہلو بھی قابلِ غور ہے کہ امریکا لبنان کا بڑا دوست بنتا تھا۔ رفیق حریری کے قتل کے بعد جو ڈراما ہوا اس کا اصل ہدایت کار امریکا ہی تھا۔ ماشاء اللہ لبنان کے کئی وزیراعظم بھی ہمارے شوکت عزیز کی طرح امریکا کے سٹی بنک ہی کا تحفہ ہیں اور شام کو بے دخل کرنے اور حزب اللہ کو غیرمؤثر بنانے کے منصوبے میں اہم کردارادا کر رہے تھے لیکن اسرائیل کی تائید میں لبنان کی امریکا نواز حکومت کو بھی بے سہارا چھوڑ دیا گیا اور اسرائیل کی جارحیت کو لگام دینے کی کوئی ظاہری کوشش بھی نہ ہوئی۔ جس نے ایک بار پھر اس حقیقت کو لبنان ہی نہیں پوری دنیا کے سامنے واضح کردیا کہ امریکا سے زیادہ ناقابلِ اعتماد کوئی ’دوست‘ نہیں ہوسکتا اور لبنان کے وہ عیسائی اور لبرل امریکا نواز بھی پکار اُٹھے کہ آزمایش کی اس گھڑی میں حزب اللہ اور حسن نصراللہ نے ہماری مدد کی اور جن کے دامن کو ہم نے تھاما تھا وہ گھر کو آگ لگانے والوں کا ساتھ دیتے رہے۔

یہ ہے امریکا کا اصل چہرہ!

ایک تیسرا چہرہ اقوام متحدہ کا بھی ہے۔ اس ادارے کا مقصد جارحیت کا شکار ہونے والوں کی مدد کو پہنچنا اور جارح کا ہاتھ پکڑنا ہے۔ لیکن افغانستان اور عراق پر امریکی حملوں کے وقت اس نے جو شرم ناک کردار ادا کیا‘ اس کا اظہار اس موقع پر بھی ہوا۔ ۳۴ دن تک یہ بے بسی کی تصویر بنا رہا اور امریکا کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکا۔ جب امریکا اوراسرائیل کو اپنے مقاصد میں ناکامی ہوتی نظر آئی تو جنگ بندی کی قرارداد منظور کی گئی۔

ایک چوتھا چہرہ یورپی اقوام کا بھی سامنے آتا ہے جو ایک طرف اپنے معاشی مفادات کی خاطر عرب دنیا سے قربت کا مظاہرہ کرتی ہیں اور کبھی کبھی امریکا سے کچھ اختلاف کا اظہار بھی کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب آزمایش کی گھڑی آتی ہے تو عملاً ان کا وزن اسرائیل اور امریکا ہی کے ساتھ ہوتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ امریکا کھلے بندوں دل و جان سے یہ ظلم کرتا ہے اور یورپی اقوام ذرا بے دلی اور ہمدردی کے ایک آدھ بول کے ساتھ وہی کام انجام دیتی ہیں۔ ان کی دوستی اور تعاون پر بھی اعتماد دانش مندی کا تقاضا نہیں۔

اس آئینے میں ایک پانچواں چہرہ بھارت کا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی جارحیت پر خاموشی‘ لبنان اور فلسطین کی مدد اور تائید کے باب میں بے التفاتی۔ جیسے یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ امریکا اور اسرائیل سے نئی نئی دوستی پر فلسطین اور عربوں سے ساری ہمدردی سے دست برداری‘ لیکن اس سے بڑھ کر اسرائیل کو خوش کرنے اور امریکا سے دفاعی معاہدے کومستحکم کرنے کے لیے بھارت کے تمام چینلوں اور ہوٹلوں تک پر عرب چینلوں خصوصیت سے الجزیرہ کی نمایش پر پابندی تاکہ بھارت کے عوام یا بھارت میں آنے والے عرب‘ اسرائیل کے مظالم کے تصویری عکس بھی نہ دیکھ سکیں۔ یہ ہے بھارت کی ’قابلِ اعتماد دوستی‘ اور بھارت اور پی ایل او اور یاسرعرفات کی پینگوں کا حاصل!

حزب اللّٰہ کا عزم و ایمان

آئینے میں ایک چھٹا چہرہ ان عرب اور مسلمان حکمرانوں کا بھی نظر آتا ہے جنھوںنے اپنے مفادات کو امریکا سے وابستہ کرلیا ہے اور اس دبائو میں اسرائیل کے ساتھ دوستی سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ان حکمرانوں میں سے تین نے تو کھل کر پوری دریدہ دہنی کے ساتھ حزب اللہ اور حماس کو موردالزام ٹھیرایا اور انھیں سرزنش بھی کی۔ اس میں مصر کے صدر بہادر‘ اُردن کے بادشاہ سلامت اور سعودی عرب کے وزیرخارجہ سب سے پیش پیش تھے۔ لیکن بات صرف ان تین کی نہیں‘ عرب لیگ جنگ بندی کے ۳۴ دن تک کوئی متفقہ موقف اختیار نہ کرسکی۔ او آئی سی نے ۲۳ دن بعد اپنے ایک ۱۱ رکنی رابطہ گروپ کا اجلاس بلایا اور پھر خالی خولی زبانی احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکی۔ بحیثیت مجموعی تمام ہی حکمران یا خاموش رہے یا بددلی اور بزدلی کے ساتھ چند بیانات سے آگے نہ بڑھے اور اس طرح ایک بار پھر یہ بات الم نشرح ہوگئی کہ یہ حکمران اُمت مسلمہ کے حقیقی ترجمان نہیں۔ یہ اپنے مفادات کے بندے ہیں یا امریکا اور مغربی سامراج کے کاسہ لیس‘ اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان کے دل اُمت مسلمہ کے ساتھ نہیں دھڑکتے۔ انھیں اُمت کے مفادات کا کوئی لحاظ نہیں اور یہ عیش و عشرت کی اس زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جسے اختیار کرنے کے بعد عزت کی زندگی کے سارے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔

ان چھے چہروں کے علاوہ بھی کچھ چہرے ہیں جو اسی آئینے میں نظر آتے ہیں اور بڑے روشن اور تابندہ نظر آتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اور سب سے درخشاں چہرہ حزب اللہ اور حماس کا ہے۔ جس چڑیا کو مارنے کے لیے اسرائیل نے توپ چلائی تھی وہ اسی طرح چہچہاتی رہی اور اسرائیل اپنی توپ و تفنگ کے ساتھ‘ ۳۴ دن تک آگ اور خون کی بارش برسانے کے باوجود اس کابال بھی بیکا نہ کرسکا۔ چند ہزار مجاہدین نے ایک عظیم مجاہد لیڈر حسن نصراللہ کی قیادت میں اسرائیل کے دانت کھٹے کردیے اور اس کے سارے غرور کا طلسم توڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے اللہ کے بھروسے پر جان کی بازی لگا دی۔ لبنان تباہ ہوگیا مگر ان کے عزم و ہمت پر آنچ بھی نہ آئی۔ اسرائیل نے لبنانی سرحد سے دو میل کے فاصلے پر بنت جبیل کے قصبے پر تین بارقبضہ کیا اور تینوں بار اسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ صرف ایک معرکے کی داستان نہیں‘ یہ ۳۴ دن کے خونیں معرکے کے شب و روز کی کہانی ہے     ؎

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

اللہ کے فضل سے حزب اللہ نے اسرائیل کے ناقابلِ تسخیر (invincible) ہونے کے دعوے کی قلعی کھول دی ہے۔ بے سروسامانی اور وسائل اور تعداد کے نمایاںترین بلکہ محیرالعقول فرق کے باوجود‘ اسرائیل اپنے کسی ایک ہدف میں بھی کامیاب نہیں ہوسکا۔ وہ اپنے دو فوجی چھڑانے آیا تھا‘ مگر اس نے اپنے ۲۰۰ فوجی مروا دیے اور وہ دو فوجی بدستور حزب اللہ کی قید میں ہیں‘ وہ حزب اللہ کی کمر توڑنے اور اسے صفحۂ ہستی سے مٹانے کے زعم کے ساتھ آیا تھا اور اس کی فوج ۳۴ دن کی گولہ باری اور فضائی‘ بحری اور بری جنگ کے باوجود حزب اللہ کے مقابلے کی قوت کو کم نہ کرسکی اور آخری دن میں اس نے اسرائیل پر ۲۴۶راکٹ داغے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کو ایسے جنگی نقصانات برداشت کرنے پڑے جن سے پچھلے ۶۰سال میں بھی اس کو سابقہ پیش نہ آیا تھا۔ وہ تو سمجھتا تھا کہ عرب لڑنا نہیں جانتے اور ۶ سے ۱۷ دن میں ان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتاہے۔ اس مرتبہ اسے جنگ سے نکلنے کے لیے راستے تلاش کرنا پڑے اور پہلی مرتبہ اسرائیل کے ۲۰۰ فوجی ہلاک‘ ۵۰۰ زخمی‘ اسرائیل کے اندر ۵ہزار راکٹوں کی بارش‘ ۴ لاکھ اسرائیلیوں کا حفاظتی بنکرز میں ایک مہینہ گزارنا اور ایک ملین کو نقل مکانی کرنا پڑی۔ اسرائیل پر راکٹوں کے حملے کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کا ابھی اندازہ کیا جا رہا ہے لیکن ابتدائی تخمینوں کے مطابق فوجی اور سول تنصیبات کے باب میں ۵ئ۱ ملین ڈالر اور معیشت کے میدان میں ۳ سے ۵ بلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ یہ مزہ اسرائیل نے پہلی بار چکھا ہے اور دنیا نے یہ منظر دیکھ لیا کہ ایمان‘ عزت و آبرو اور مناسب تیاری کے ذریعے کس طرح آج بھی وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان دشمن کے دانت کھٹے کرسکتے ہیں    ؎

فضاے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

حزب اللہ اور جہادی عزم و مسلک نے اگر اسرائیل کی قوت پر ضرب کاری لگاکر اس کے ناقابلِ شکست ہونے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے تو وہیں ایک طرف اس نے اُمت مسلمہ کا سر اللہ کے سامنے شکرکے جذبات سے جھکا دیا ہے اور دوسری طرف مادی وسائل اور عسکری قوت کی پجاری دنیا کے سامنے عزت سے بلند کردیا ہے‘ اوروہ جنھیں کمزور سمجھ کر اہلِ قوت پامال کرنے پر تلے ہوئے تھے‘ ان کو ایک نیا عزم‘ نئی ہمت‘ نیا ولولہ اور مقابلے کی نئی اُمنگ دی ہے۔ کونڈولیزا رائس اور جارج بش دونوں نے کہا تھاکہ لبنان کوسبق سکھانے کے اس جارحانہ اقدام کے بطن سے امریکا کے حسبِ خواہش ایک نیا شرق اوسط جنم لے گا___ لیکن ان شاء اللہ ایک نیا شرق اوسط تو ضرور جنم لے گا مگر وہ امریکا کا لے پالک نہیں ہوگا بلکہ اسلامی نشاتِ ثانیہ کا پیامبر ہوگا۔ حزب اللہ اب ایک تنظیم کا نام نہیں‘ ایک عالمی تحریک کا عنوان اور تبدیلی کے رخ کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُردن کے وہی حکمران شاہ عبداللہ جس نے چار ہفتے قبل ان پر حرف زنی کی تھی وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہوا ہے کہ:

عرب عوام کی نظروں میں حزب اللہ ہیرو ہیں‘ اس لیے کہ یہ اسرائیل کی جارحیت کا مقابلہ کر رہی ہے۔ (دی نیشن‘ ۱۲ اگست ۲۰۰۶ئ)

اور حزب اللہ کا مخالف ولید جنبلات جو دروز کمیونٹی کا لیڈر ہے اورجسے اسرائیل نے ۱۹۸۰ء کی جنگ میں حلیف بنایا ہوا تھا اب کہہ رہا ہے کہ:

آج لبنان اپنی بقا کے لیے حزب اللہ اور حسن نصراللہ کا مرہونِ منت ہے جنھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ یہ ایک یا دوسرے حصے کو حاصل کرنے یا کھونے کا مسئلہ نہیں‘ انھوں نے اسرائیل کو شکست دی ہے۔ (دی نیشن‘ ۲۱ اگست ۲۰۰۶ئ)

یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہر سطح پر اور ہر حلقے میں ہو رہا ہے بجز امریکی وائٹ ہائوس کے‘ لیکن تاریخ اسے پیچھے چھوڑ گئی ہے۔ حزب اللہ کے اس تابناک چہرے کے ساتھ ان ہزاروں مصیبت زدہ انسانوں کا چہرہ بھی اسی آئینے میں نظر آرہا ہے جو اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بنے ہیں‘ جن کے اعزہ ہمیشہ کی نیند سلا دیے گئے ہیں‘ جن کے گھر اور کاروبار تباہ کر دیے گئے ہیں‘ جن کے ملک کو کھنڈر بنا دیا گیا ہے مگر ان کا ایمان تابندہ ہے‘ ان کا عزم جوان ہے‘ جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھر تباہ ہوگئے ہیں لیکن ہمارا سر بلند ہے۔ سیکڑوں انٹرویو دنیا بھر کے میڈیا میں بشمول بی بی سی اس پر گواہ ہیں کہ ایک ماں جس کے جوان بچے شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ پورے سکون سے کہتی ہے کہ ان کا غم اپنی جگہ ‘ لیکن مجھے اپنی قربانی پر فخر ہے۔

صرف ایک دو مثالیں:

بی بی سی کا نمایندہ ایک ملبے میں تبدیل ہوجانے والے مکان کے مالک سے پوچھتا ہے: ’’آپ کو تو بڑی قیمت ادا کرنی پڑی‘‘۔ تو اس کا جواب ہے: ’’تمھیں کیا پتا    نہیں‘ ہمارے ہاں ناک کی کیا اہمیت ہے۔ ٹھیک ہے‘ کچھ نہیں رہا مگر ناک تو اُونچی ہے۔ ہم سب ہیرو ہیں۔ گھر کا کیا ہے‘ وہ تو پھر بھی بن جائے گا۔ (بی بی سی‘ سیربین‘ ۱۵اگست ۲۰۰۶ئ)

ایک باپردہ مگر باعزم ماں جس کی اولاد شہید اور گھر تباہ ہوگیا تھا اسی ملبے پر بیٹھی ہے اور کہہ رہی ہے:

یہاں سے اب کہیں اور جانا شکست ماننا ہے۔ اسرائیل اس سے زیادہ اور کر بھی کیا سکتا ہے اور گھر تباہ کردے اور بچے مار دے لیکن کیا فرق پڑتاہے۔ جو زندہ ہیں وہ ایک دن بڑے تو ہوں گے اور پھر بندوق اٹھا لیں گے۔ (ایضاً)

جس قوم میں یہ جذبات اور یہ عزائم ہوں انھیں کوئی شکست نہیںدے سکتا۔ ضرورت صحیح لیڈرشپ‘ صحیح اہداف کے تعین اور صحیح تیاری اور نقشۂ کار کے مطابق کارکردگی کی ہے۔

جن جذبات کا اظہار لبنان کے عام مسلمان ہی نہیں‘ سب مذاہب‘ مسلکوں اور قومیتوں کے لوگ کر رہے ہیں‘ وہی جذبات اور احساسات پوری دنیا کے مسلمانوں اور انصاف پسند انسانوں کے ہیں۔ اس آئینے میں عوام و خواص اور اسٹریٹ و اسٹیٹ کے درمیان جو بعدعظیم آج پایا جاتا ہے‘ اس کے ہر نقش و نگار کودیکھا جاسکتا ہے۔ استنبول کی سڑکیں ہوں یا قاہرہ کی گلیاں‘ لاہور کی   شاہ راہ ہو یا جدہ اور مدینہ کے راہ گزار‘ ہر جگہ عام آدمی کے جذبات و احساسات ایک ہیں۔ اور اس فرق کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا جو آج حکمرانوں اور عوام کے درمیان پایاجاتا ہے۔

یہ آٹھ چہرے اس دور کی سب سے اہم آٹھ حقیقتوں کے مظہر ہیں اور مستقبل کے نقوش کو ان کی آنکھوں کی چمک اور چہرے کے رنگ میں دیکھا جاسکتا ہے۔

امریکی صھیونی عزائم

معرکۂ لبنان کے اس تناظر میں اب یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جولائی کی فوج کشی کے اصل مقاصد کیا تھے؟ ۱۴ اگست کی لرزتی کانپتی جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور امریکا کے اہداف کیا ہیں اور معرکۂ لبنان کے نتیجے میں اور اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کے مطابق وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔ الانفال ۸: ۳۰)‘  اُمت مسلمہ کے لیے نقشۂ راہ کیا ہے؟ ان تینوں بنیادی امور کے بارے میں ہم مختصراً اپنی معروضات پیش کرتے ہیں:

جہاں تک ۱۲ جولائی سے شروع ہونے والی چھٹی اسرائیلی جنگ کا تعلق ہے‘ اس کی وجہ کا رشتہ فلسطین میں ایک اور لبنان میں دو اسرائیلی قیدیوں سے جوڑنا محض دھوکا اور سیاسی شعبدہ گری کا حربہ ہے۔ سرحدی چھیڑچھاڑ‘ فائرنگ‘ میزائل کا استعمال‘ ہوائی حملے‘ اس علاقے میں زندگی کا معمول ہیں۔ اسرائیل کے قبضے میں فی الوقت ایک ہزار فلسطینی‘ ایک سو سے زائد لبنانی جن میں سے ۳۰ کا تعلق حزب اللہ کے کارکنوںسے ہے اور ۳۰ اُردن کے باشندے ہیں۔ ماضی میں کئی بار قیدیوں کا تبادلہ ہواہے اور یہ ایک معمول کی کارروائی ہے۔ اس کا کوئی تعلق جولائی کے حملے سے نہیں۔ اس حملے کی تیاری اسرائیل دو سال سے کر رہا تھا‘ گذشتہ سال باقاعدہ اس کے لیے مشقوں کا اہتمام بھی کیا جاچکا تھا اور گذشتہ دو مہینے میں صرف جنگی سازوسامان اور رسد کی ترسیل ہی نہیں‘ امریکا کے مکمل تعاون کے ساتھ جنگ کا پورا نقشہ تیار کرلیا گیا تھا اور پوری تیاری سے یہ حملہ فوجیوں کی گرفتاری کو بہانہ بناکر کیا گیا۔ اس سلسلے میں سارے حقائق امریکا میںاور اسرائیل میں سامنے آچکے ہیں۔

امریکی رسالے دی نیویارکر کے ۲۱ اگست کے شمارے میں مشہور امریکی صحافی اور مصنف سائمورہرش (Seymour Hersh)کا مفصل مضمون شائع ہواہے جس میں پورے منصوبے کی اور اس میں امریکا کے کردار کی تفصیلات شائع ہوگئی ہیں۔ یہ اسرائیلی حملہ امریکا کے ایما پر اور اس کی اس خواہش کی تکمیل میں انجام دیا گیا کہ حزب اللہ پر بطور پیش بندی کارروائی کی جائے۔ ہرش کے الفاظ ہیں: a preemptive blow against Hezbollah

اس کا ایک مقصد ایک اہم امریکی شریک راز کے الفاظ میں یہ تھا: ہم چاہتے تھے کہ  حزب اللہ کو ختم کریں‘ اب ہم دوسرے سے یہ کروا رہے ہیں‘ یعنی اسرائیل نے امریکا کے پروگرام کے تحت یہ حملہ کیا۔

اس سلسلے میں ایک بڑا اہم مضمون سان فرانسسکو کرانیکل میں ۲۱ جولائی کو حملے کے ۹ دن کے بعد شائع ہوا تھا جس میں اس چار نکاتی پروگرام کی پوری تفصیل دی گئی تھی جس میں اسرائیل نے امریکی قیادت کوا پنے منصوبے سے آگاہ کیا اور اس کی تائید اور تعاون حاصل کیا۔ امریکا کی بار اِلان (Bar-Ilan) یونی ورسٹی کے شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر جیرالڈ سٹین برگ نے اس پوری تیاری اور منصوبے کو اس طرح پیش کیا ہے:

۱۹۴۸ء کے بعد اسرائیل نے جتنی بھی جنگیں لڑی ہیں‘ یہ ان میں سے وہ تھی جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ تیاری کی تھی۔ ایک طرح سے ۲۰۰۰ء میں اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے بعد سے ہی یہ تیاری شروع ہوگئی تھی۔

اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینے کی ہے کہ یہ طے شدہ منصوبے کے مطابق اسرائیل کی چھٹی جنگ تھی اور اس کے متعین اہداف تھے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت سے خاک میں مل گئے۔ مگر ان کا سمجھنا ضروری ہے‘ نیز یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس ناکامی کے باوجود اہداف نہیں بدلے ہیں اورجنگ بندی صرف تیاری اور نئی جنگ کے لیے صف بندی کا ایک وقفہ ہے‘ چین کا سانس لینے کی مہلت نہیں۔

اس وقت اسرائیل اور امریکا کا پہلا ہدف حزب اللہ کا خاتمہ‘ حسن نصراللہ کی شہادت اور لبنان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کرنا تھا جو اسرائیل کی معاون بنے اور وہاں اسلامی قوتوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے۔

حزب اللہ کے خاتمے کے ساتھ ہدف یہ بھی تھا کہ حزب اللہ کے مؤیدین کی حیثیت سے ایران اور شام پر لشکرکشی کی جائے۔ ایران پر اس کی ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے اور شام پر فلسطین کی تحریکات مزاحمت خصوصیت سے حماس اور اسلامی جہاد کی قیادت کو پناہ گاہ فراہم کرنے اور ان تحریکوں کی سیاسی مدد کرنے کے جرم میں۔ مصر اور اُردن کو قابو کرنے‘ عراق کو تباہ کرنے اور سول وار کی آگ میں جھونک دینے اور سعودی عرب اور خلیج کے ممالک کو عملاً ایک تابع مہمل بنالینے کے بعد اب ایران اور شام آنکھوں میں کانٹوں کی طرح کھٹک رہے تھے اور ساتھ ہی پاکستان اس سلسلے کا آخری ہدف ہے کہ یہ افغانستان پر امریکی قبضے کے باوجود ان کے خیال میں دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔

ایک ترتیب سے اور شاید اسی ترتیب سے___ یعنی لبنان‘ایران‘ شام اور پاکستان___ نئی جنگی حکمت کی نقشہ بندی کی گئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ پہلی ہی منزل پر اسرائیل کو منہ کی  کھانی پڑی ہے اور امریکا کا پورا منصوبہ طشت ازبام ہوگیا ہے لیکن یہ سمجھنا کہ اسے ترک کردیا گیا ہے‘ ہمالہ سے بڑی غلطی ہوگی۔

جنگ بندی ایک عارضی عمل ہے اور اب بھی پوری کوشش کی جائے گی کہ حزب اللہ کو غیرمسلح کرنے اور لبنانی فوج جس کی اس وقت کیفیت یہ ہے کہ اس میں عیسائیوں اور دروزی عناصر کو اکثریت حاصل ہے اور مثبت پہلو صرف یہ ہے کہ اپنے اسلحے اور تربیت کے اعتبار سے وہ کوئی   بڑی قوت نہیں‘ لیکن منصوبہ یہی ہے کہ اسے اور اقوام متحدہ کی نام نہاد امن فوج کو حزب اللہ کے خلاف استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس‘ جرمنی اور اٹلی تک شاکی ہیں کہ اصل کھیل کیا ہے۔ پاکستان کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اصل نقشے کو سمجھ کر اپنی پالیسی بنائے اور اس جال میں کسی قیمت پر اور کسی شکل میں نہ پھنسے۔

مستقبل کے لیے اس نقشے میںجو توسیع کی گئی ہیں ان کو دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ پہلے یہ خیال تھا کہ جن ممالک میں امریکی اسرائیلی منصوبے کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے وہاں حکمرانوں کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اب اس پر اضافہ یہ ہے کہ محض حکمرانوں کی تبدیلی سے دیرپا مقاصد حاصل نہیں ہوسکتے اس لیے علاقوں کی حیثیت میں تبدیلی (change of region) کیا جائے یعنی عرب اور مسلم دنیا (بشمول پاکستان) کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم  کیا جائے جن کی نکیل بآسانی اپنے ہاتھ میں رکھی جائے۔ اس طرح اس حکمت عملی کا پہلا ستون حکمرانوں اور علاقوں کی تبدیلی ہے۔

اس کا دوسرا اور اہم ترین ستون اسلام کی تعمیرنو ہے جس کے نتیجے میں جہاد کے تصور کو نکال دیا جائے‘ اور اسلام کے سیاسی کردار کو ختم کردیا جائے۔ روشن خیال اور اعتدال پسندی کے نام پر‘ صوفیانہ اسلام کا ایک ایسا اڈیشن تیار کیا جائے کہ ظلم اور استبداد کی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی جو عالمی تحریک اسلام کے زیراثر رونما ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی‘ اس کا دروازہ بند کردیا جائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔

معرکۂ لبنان  کی اصل اہمیت یہ ہے کہ اس نے امریکی اسرائیلی منصوبے پر اس پہلے مرحلے ہی میں بند باندھ دیا ہے۔ منصوبہ بھی کھل کر سامنے آگیا ہے اور اس کے مقابلے کا راستہ بھی کسی ابہام کے بغیر اُمت کے سامنے ہے‘ اور دشمن کو بھی اس کا پورا ادراک ہے۔

مقابلے کی حکمت عملی

اگر یہ نقشۂ جنگ ہے تو پھر مقابلے کی حکمت عملی کیا ہونا چاہیے؟ جیساکہ ہم نے عرض کیا معرکۂ لبنان میں اس کے تمام خدوخال دیکھے جاسکتے ہیں۔ ہم صرف ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

پہلی ضرورت رجوع الی اللہ کی ہے۔ مسلمان کی طاقت کا منبع اللہ کی ذات‘ ایمان کی قوت اور اخلاق و کردار کا ہتھیار‘ جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت ہے۔

دوسری بنیادی چیز اپنے اہداف اور مقاصد کا صحیح شعور اور دشمن کے اہداف اور مقاصد کا پورا ادراک ہے۔ یہ مقابلہ حقائق کے میدان میں ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ رب سے رشتہ کے ساتھ دنیاوی اعتبار سے جو نقشۂ جنگ ہے اس کا پوراشعور اور لوہے کولوہے سے کاٹنے کی حکمت عملی پر عمل ہے۔

تیسری چیز یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مسلمانوں کی قوت کا ایک بڑا سرچشمہ ان کا اتحاد ہے اور دشمن کی چالوں میں سب سے شاطرانہ چال اُمت کو قومیتوں‘ فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کرکے فاسد بنیادوں پر انھیں ٹکڑے ٹکڑے کردینا ہے۔ معرکۂ لبنان میں جس طرح شیعہ سنی مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی‘ عراق میں جس طرح یہی خونی کھیل کھیلا جارہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان میں جس طرح اسی حربے کو استعمال کیا جا رہا ہے‘ وہ ایک کھلی کتاب ہے۔ لیکن معرکۂ لبنان ہی کا یہ درس بھی ہے کہ معرکہ اُمت مسلمہ اور اسرائیل کے درمیان ہے‘ شیعہ سنی مسئلہ نہیں۔ یہ سارا امریکی منصوبہ ہے کہ عرب دنیا کی سنی قیادتوں کو شیعہ ہوّا دکھا کر شیعہ سنی تنازع کو ہوا دی جائے‘ ایک جنگی چال ہے جسے اُمت اور اس کی قیادتوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔

چوتھی بنیادی چیز جذباتیت سے بالا ہوکر دشمن کے مقابلے کی مؤثر صلاحیت پیدا کرنے اور صحیح منصوبہ بندی اور مقابلے کی حکمت عملی کے تحت دشمن کو ناکام بنانے کی ضرورت ہے۔ حزب اللہ نے صرف اللہ ہی سے رشتہ نہیں جوڑا‘ اپنے عوام سے بھی قریب ترین تعلق استوار کیا‘ ان کے اعتماد کو حاصل کیا اور انھیں یہ یقین دلایا کہ وہ ان کے خادم اور محافظ ہیں اور صادق اور امین ہیں۔ ساتھ ہی وسائل کی کمی اور شدید ترین عدمِ مساوات کے باوجود‘ اپنے وسائل کے دائرے میںایسی متبادل تیاری کی جو ایف-۱۶ اور جدید ترین ٹینکوں کے نہ ہونے کے باوجود دشمن پر کاری ضرب لگانے اور ان کی فنی ٹکنالوجی کی برتری کو غیرمؤثر کرنے کا ذریعہ بن سکی۔ حزب اللہ نے اسرائیل کے      ہیلی کاپٹروں‘ ٹینکوں‘ بحری جنگی جہازوں کو ناکارہ بنا دیا‘ اور گوریلا جنگ کے ذریعے اسرائیل کی  اعلیٰ جنگی مشینری کو غیرمؤثر بنا دیا۔ ٹکنالوجی ہمارے لیے بھی ضروری ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ مخالف کے پاس جو کچھ ہے‘ وہ ہمارے پاس بھی ہو۔ ہاں ہمارے پاس اس کا توڑ ضرور ہونا چاہیے۔ بس یہی وہ نکتہ ہے جو معرکۂ لبنان میں بہت کھل کر سامنے آگیا ہے اور قوت اور وسائل کے   شدید عدمِ تفاوت کے باوجود دشمن کو زیر کرنے کا راستہ صاف نظر آرہا ہے۔

ان نکات کی روشنی میں سب سے اہم چیز اللہ سے رجوع کے ساتھ مقابلے کی تیاری اور اس کے لیے مسلم ممالک کے اندرونی نظام کی اصلاح کو اوّلیت دینا ضروری ہے تاکہ اُمت کے وسائل اُمت کے مقاصد کے حصول کے لیے استعمال ہوسکیں اور ان پر وہ قابض نہ رہیں جن کے سامنے صرف اپنی ذات کا نفع اور اپنے وسائل کو دوسروں بلکہ دشمنوں کی خدمت میں دے دینا ہو۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ جس وقت لبنان کی تباہی اور بارہ سو جانوں کی ہلاکت کے ساتھ‘ جس کی کوئی قیمت نہیں ہوسکتی‘ مادی اعتبار سے ۴۰ سے ۵۰ بلین ڈالر کا اندازہ دیا جا رہا ہے سعودی عرب برطانیہ سے دسیوں ارب ڈالر کے عوض وہ جنگی جہاز (ہوائی) کا سودا کر رہا ہے جن کا کوئی تعلق عرب ملکوں یا اسلامی دنیا کے دفاع سے نہیں ہوگا جس طرح ماضی کی ایسی تمام خریداریوں کا رہا ہے۔ خود پاکستان ۵ ارب ڈالر کے عوض ایف-۱۶ حاصل کرنے کے لیے بے چین ہے جن کا کنٹرول امریکا کے ہاتھوں میں ہوگا اور امریکا کی اجازت کے بغیر ان کو پاکستان کی حدود میں بھی حرکت میں نہیں لایا جا سکے گا۔ ان حالات کا ایک ہی تقاضا ہے کہ مسلم دنیا کے سیاسی نظام کو اُمت کی بالادستی میں لایا جائے۔ ان حکمرانوںسے نجات پائی جائے جو استعماری قوتوں کے آلہ کار ہیں اور اُمت کے وسائل میں خیانت ہی نہیں کر رہے‘ انھیں دشمن کے مقاصد کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ اگر حزب اللہ کو لبنان کی سیاست میں وہ حیثیت حاصل نہ ہوتی جن کی بنا پر وہ اتنا کلیدی کردار ادا کر سکی ہے تو لبنان کا معرکہ بھی تباہی کی ایک اور داستان بن جاتا لیکن اللہ سے تعلق‘ جہاد سے وفاداری‘ عوام سے رشتہ‘ مناسب تیاری اور اس کے ساتھ مؤثر سیاسی حکمت عملی نے معرکۂ لبنان کو تاریکیوں میں روشنی کی ایک تابناک کرن بنا دیا ہے___ اور یہی وہ روشنی ہے جو ہمارے مستقبل کو تابناک کرسکتی ہے۔