امام محمد بن علی الشوکانی (۱۱۷۳ھ- ۱۲۵۰ھ) معروف محدثین میں سے ہیں۔ آپ کی کتاب الدُرر البھیّہ درس نظامی کے نصاب کاحصہ ہے۔ احادیث سے احکام کا استنباط اس کا موضوع ہے۔ اُردو زبان میں اس کی کوئی عام فہم اور جامع شرح موجود نہ تھی۔ اب حافظ عمران ایوب نے فقہ الحدیث کے نام سے یہ مفصل شرح لکھی ہے۔یہ شرح کئی حوالوں سے افادیت کی حامل ہے۔
ابتدا میں ایک مختصر مگر جامع مقدمہ لکھا گیا ہے جس میں فقہ کا معنی و مفہوم‘ اہمیت و ضرورت‘ مآخذ‘ مذاہب اربعہ‘ اور ان کا مختصر تعارف‘ اختلاف کے اسباب اور امام شوکانی اور شیخ البانی کی حیات و خدمات کو بیان کیا گیا ہے۔ الدُرر البھیّہ کے متن کا سلیس ترجمہ دیا گیا ہے اور الفاظ کی لغوی وضاحت اور اصطلاحی و شرعی تعریف کے ساتھ ساتھ تفصیلی حوالہ جات بھی درج کر دیے ہیں۔
کسی بھی مسئلے کے حوالے سے صحابہ کرامؓ، ائمہ و فقہا اور جدید و قدیم علما کے اقوال و فتاویٰ اور بعض مقامات پر اصولی قواعد کوبیان کیا گیا ہے اور پورے اہتمام کے ساتھ ان کے حوالہ جات کو درج کیا گیا ہے۔ راجح مسلک کی وضاحت اور کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے دلائل کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ایک عنوان ’متفرقات‘ ہے۔ کسی مسئلے سے متعلق ائمہ اربعہ نے کوئی بحث نہیں کی یا دورِ جدید میں کوئی مسئلہ زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے تو متفرقات میں اس کو بڑی خوب صورتی سے بیان کردیا گیا ہے۔
کسی بھی فقہی مسئلے پر متنوع مسالک و آرا کو عمدہ پیرایے میں بیان کر کے اور بلاتعصب کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر مسائل و احکام کا استنباط کیا گیا ہے۔ جملہ مسالک و مذاہب کے لوگ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ یوں اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ دکھائی گئی ہے۔ احادیث اوراقوال و فتاویٰ کی تخریج کا کام دقیق اور قابلِ قدر ہے جو نہایت عرق ریزی سے انجام دیا گیا ہے۔
روز مرہ زندگی میں درپیش مسائل کی تفہیم‘ احادیث کی تخریج و تحقیق‘ فقہی مذاہب و اقوال کا بیان‘ راجح مسلک کی وضاحت‘ اختلافی مسائل میں اعتدال کی راہ جیسی خصوصیات کی بنا پر زیرتبصرہ کتاب محض ایک شرح ہی نہیں بلکہ اپنے موضوع پر ایک انسائی کلوپیڈیا ہے۔ اساتذہ کرام‘ علوم دینیہ کے طلبہ اور عام لوگوں کی علمی ضرورت پورا کرنے کے ساتھ ساتھ علوم الحدیث و فقہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ فاضل مصنف بجاطور پر اس علمی کاوش پر تحسین کے مستحق ہیں۔ دیدہ زیب سرورق اور عمدہ طباعت کتاب کی دل کشی میں مزید اضافے کا باعث ہے۔ (فاروق احمد)
اسلام ہر زمانے کے لیے ہے۔ اس لیے پیش آمدہ مسائل کے بارے میں غوروفکر اور ان کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیشہ سے اجتہاد کیا جاتا رہا ہے۔ اسلامی کانفرنس تنظیم (OIC) سے یوں تو پوری اُمت کو بجاطور پر شکوے ہیں لیکن تنظیم کا ذیلی ادارہ بین الاقوامی اسلامی فقہ اکیڈمی ہے جو ہربرس کسی مسلم ملک میں سالانہ اجلاس منعقد کرکے تمام رکن ممالک سے اس کی کونسل کے ارکان‘ اسلامی علوم کے ماہرین اور متخصصین کو جمع کرتی ہے اور موجودہ موضوعات اور نئے پیش آمدہ مسائل پر غوروخوض اور بحث مباحثہ کرتے ہیں۔ پھر اتفاق راے سے جو فیصلے ہوتے ہیں انھیں قراردادوں اور سفارشات کی شکل میں مرتب کرلیا جاتا ہے۔
زیرنظر کتاب مذکورہ اکیڈمی کے ۱۵ سیمی ناروں میں منظور کردہ قراردادوں اور سفارشات پر مبنی ۱۴۲ موضوعات پر سفارشات کا مجموعہ ہے۔ موضوعات نہایت متنوع ہیں‘ یعنی اقتصادیات سے لے کر طبیعیات تک‘ طب سے لے کر سیاسیات تک‘ معاشرتی امور سے لے کر تہذیبی امور تک‘ نیز عقائد اور فقہی امور بھی اس میں شامل ہیں۔ مغرب میں بسنے والے مسلمانوں کے خصوصی مسائل سے متعلقہ جوابات اور حل بھی اس میں بیان کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ٹکنالوجی نے جس طرح معاشرتی ڈھانچوں پر شدید اثرات مرتب کیے ہیں اور اس وجہ سے جن الجھنوں کا سامناکرنا پڑتا ہے ان پر بھی اس کتاب میں بحث کی گئی ہے‘ مثلاً برقی بنک کاری نظام بالخصوص کریڈٹ کارڈ وغیرہ کے حوالے سے مسائل کا جواب دیا گیا ہے۔
گلوبلائزیشن پر اکیڈمی کی ۱۰ سفارشات گلوبلائزیشن کے پیچھے کام کرنے والی مغربی طاقتوں کے منفی عزائم سے نبٹنے کے لیے دی گئی ہیں۔ عقائد کے حوالے سے قادیانیت اور بہائیت کی بابت قراردادیں اور سفارشات پیش کی گئی ہیں۔
وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اجتہاد کا دروازہ بند ہے‘ انھیں اس ادارے کی تحقیقات اور علمی کام پر ضرور نظر ڈال لینی چاہیے۔ اس کے علاوہ خود عام مسلمانوں میں بھی یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اجتہاد‘ اُمت کی سطح پر مرکزی طور پر بھی جاری و ساری ہے۔ نام نہاد ماڈرن اسلام کی تبلیغ کرنے والوں سے مکالمہ کرنے والوں کے لیے بھی یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ مجموعی طور پر اکیڈمی‘ نیز ناشر لائقِ تحسین ہیں کہ انھوں نے ان قراردادوں اور سفارشات کو جو اُمت کے اجماع کے ساتھ تیار کی گئی ہیں‘ شائع کیا اور اُردو دان طبقے کے لیے پیش کیا۔ اس کتاب کے آخر میں اشاریہ دیا گیا ہے جس سے کتاب کی افادیت دوچند ہوگئی ہے۔ (محمد الیاس انصاری)
عالمِ اسلام اور عالمِ کفر کے درمیان تہذیبی و سیاسی غلبے کی کش مکش پر سیکڑوں کتابیں‘ ہزاروں مقالے اور لاکھوں صفحات پر پھیلے ہوئے مضامین‘ تجزیے اور رپورٹیں یہ ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے گئے ہیں کہ اسلام دقیانوسی مذہب ہے‘ عورتوں کو مساوی حقوق نہیں دیتا‘ خوش گوار زندگی کا مخالف ہے‘ انسانوں پر نامعقول قدغنیں عائد کرتا ہے اور دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے۔ جب تک اسلام کے پیروکار دنیا میں موجود ہیں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس خوف ناک بلا سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنا چاہیے۔ چاہے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانا پڑے‘ عراق میں شہروں اور دیہاتوں کو ملیامیٹ کرنا پڑے‘ فلسطین میں جمہوری انتخابات کے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کرنا پڑے‘ یا تین یہودی فوجیوں کی رہائی کے بہانے لبنان کے ہر ہر قصبے کو خاک وخون میں نہلانا پڑے۔
مغرب اور مغربی ممالک کی جانب سے مسلط کی جانے والی اس تہذیبی و فکری یلغار کا راستہ روکنے کی ایک علمی کوشش حال ہی میں منظرِعام پر آنے والی کتاب: Islam & The Clash of Civilizations ہے جس میں مغرب کے مفکرین کی فکری خامیوں کی نشان دہی اور اسلام کے خلاف الزامات کا جو طومار باندھا گیا ہے اُسے بے نقاب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مصنف نے مغربی افکار کا مفصل جائزہ لیا ہے۔ وہ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ آزاد دنیا کی بڑی تعداد نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں‘ اور اسلام کے پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد بھی اسلام کا پیغام صحیح انداز میں پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔
زیرنظر کتاب میں تہذیبی کش مکش پر ایک نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مغرب کے فکری اماموں اور موجودہ منظر (تحدیدِاولاد‘ تجرد‘ مادہ پرستی‘ مذہب بیزاری‘ مسلم دشمنی وغیرہ) میں سے ہر ایک کا جائزہ لیا جائے اور بتایا جائے کہ مغربی تہذیب‘ انسانوں کو پتھر کے دور میں لے جانا چاہتی ہے۔ برقعہ یا نیم لباس‘ غیرت یا مخلوط محفلیں‘ حلال و حرام یا شباب و شراب‘ بنیاد پرستی یا روشن خیالی‘ جمہوریت یا شاہوں کی غلامی جیسے موضوعات پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ ساینس و ٹکنالوجی کے میدان میں‘ تہذیب و ثقافت کے میدان میں‘ خدمتِ خلق اور حب انسانیت کے میدان میں‘ تبلیغ دین اور تمدنی ارتقا کے میدان میں مسلمان جس طرح روشن مثالیں قائم کرتے رہے ہیں‘ ان کا جائزہ ۲۵ ابواب میں لیا گیا ہے۔ ان کے مطالعے سے نئی روح بیدار ہوتی ہے اور اسلام کا پرچم سربلند کرنے کا عزم بھی۔ اسلام اور مغرب کی تہذیبی کش مکش کے موضوع پر اہم علمی کاوش اور مفید علمی اضافہ۔(محمد ایوب منیر)
قرآن پر عمل قرآنی آیات کے مطابق عمل اور ان کے معجزاتی اثرات کے بیان پر مشتمل ایک خوب صورت کتاب ہے۔ یہ کتاب محترمہ سمیہ رمضان کے تجربات پر مشتمل ان کے سلسلہ وار مضامین کا مجموعہ ہے۔ مصنفہ ایک عرب معلمہ ہیں۔ انھوں نے مدت سے درسِ قرآن کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس کے ذریعے بالخصوص خواتین کے ذہنوں میں تبدیلی لانے اور ان کی الجھنوں اور پریشانیوں کا علاج دریافت کرنے میں کوشاں ہیں۔ وہ ہر دفعہ ایک قرآنی آیت کا انتخاب کرتی ہیں اور پھر وہ اور ان کی ساتھی دوسری خواتین اس آیت کے مطابق عمل کرتی ہیں تو اپنے مسائل حل ہوتے دیکھتی ہیں۔ شرکا تجربے سے سیکھتی ہیں کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے میں کتنے فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔
ترجمہ رواں اور سلیس زبان میں کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں محض قرآن کی تبلیغ پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا‘ اس پر عمل کرنے اور زندگی کے ہرمعاملے میں اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی گئی ہے۔ یہ کتاب خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کو بھی قرآن فہمی اور اس کے مطابق عمل کرنے اور زندگی گزارنے کا جذبہ و سلیقہ فراہم کرتی ہے۔ حال ہی میں اس کا اعلیٰ کاغذ پر خوب صورت اور دل کش نیا اڈیشن سامنے آیا ہے۔(سعید اکرم)
تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب انفرادیت کے ساتھ ساتھ بہت سی خوبیوں کی حامل ہے۔ ہرعمر کے بچوں کے لیے لکھی گئی اس کتاب میں اسلوبِ بیان شستہ‘ رواں اور سادہ و عام فہم ہے۔ واقعاتی اور افسانوی انداز قاری کو کھینچ لیتا ہے اور وہ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ تحریر دل نشین‘ مؤثر اور اثرانگیز ہے۔ پہلی جلد نبی کریمؐ کے احوال‘ دین ابراہیمی کی تکمیل کے مشن کے لیے جدوجہد‘ دشمنانِ اسلام سے مقابلہ اور اہلِ مکہ کے مظالم پر مبنی ہے۔ دوسری جلد مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام‘ اسلامی معاشرے کی تشکیل‘ دشمنوں کی سازشوں اور آپؐ کی دفاعی‘ سیاسی اور سفارتی حکمت عملی کی تفصیلات پر مشتمل ہے۔ تیسری جلد عرب میں اللہ کے دین کے مکمل غلبے اور نبی کریمؐ کے مشن کی تکمیل اور رفیق اعلیٰ سے ملاقات کی تفصیلات کا احاطہ کرتی ہے۔ اس طرح مکمل سیرتِ رسولؐ سامنے آجاتی ہے۔
ہر باب کے آخر میں درسی کتاب کی طرح ’تعاون‘ کے عنوان سے مشکل الفاظ کے معنی دیے گئے ہیں اور ذہنی مشق اور سیرت کے اسباق کو ذہن نشین کرنے کے لیے ’اپنے شاباش کے نمبر لگائیں‘ عنوان کے تحت مختلف سوالات اور ان کے جواب دیے گئے ہیں۔ رنگین تصاویر اور نقشوں سے بھی کتاب کو مزین کیا گیا ہے۔
دینی مدارس اور اسلامی تربیت کرنے والے اسکول اسے نصاب میں شامل کرسکتے ہیں۔ والدین بچوں کو پڑھوا کر سوالات کرائیں تو ساری زندگی کے لیے سیرت کے واقعات ذہن پر نقش ہوجائیں گے۔ (امجد عباسی)
زیرتبصرہ کتاب ایک صاحبِ بصیرت اور ملک و قوم کے لیے دردِ دل رکھنے والے زرعی سائنس دان چودھری محمد ابراہیم کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے جس میں انھوں نے بھارت میں اپنے مختصرقیام کے مشاہدات کو قلم بند کیا ہے۔ بقول دیباچہ نگار ’’ایک ہفتے میں انھوں نے بھارت کی تاریخ و ثقافت‘ تہذیب و تمدن‘ مذاہب و ادیان‘ معاشرت و معیشت‘ سیاست و حکمت اور آثار و شواہد کے کتنے ہفت خواںطے کیے‘ اس کا اندازہ سفرنامے کے تفصیلی مطالعے ہی سے ممکن ہے‘‘۔
پروفیسر عبدالجبار شاکر نے پیش لفظ میں سفرناموں کی پوری تاریخ خصوصاً ہندستان کے سفرناموں کو ایجاز و اختصار مگر جامعیت سے پیش کیا ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)