پروفیسر ملک محمد حسین | ستمبر۲۰۰۶ | روشن خیال اعتدال پسندی
’روشن خیال اعتدال پسندی‘ موجودہ حکومت کی قدرِ اساسی ہے۔ اس حکومت کی سماجی‘ معاشی اور تعلیمی پالیسیاں حتیٰ کہ خارجہ پالیسی بھی اسی قدرِ اساسی سے رہنمائی حاصل کرتی ہے۔ روشن خیال اعتدال پسندی کا نتیجہ ہے کہ دوسرے ملکوں سے مسلمان طلبہ دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے دینی مدارس میں داخلہ نہیں لے سکتے کیونکہ حکومتِ پاکستان نے اس کے لیے تعلیمی ویزا کی سہولت ختم کر دی ہے‘ جب کہ دشمن ملک بھارت سے نچیے‘ گویّے اور پاکستان کے خلاف خبثِ باطن رکھنے والے قلم کار‘ فلم سٹار اور نام نہاد دانش ور کھلے عام آسکتے ہیں۔ یہ روشن خیال اعتدال پسندی ہی کا شاخسانہ ہے کہ تعلیم کا میدان فری فار آل (free for all) کردیا گیا ہے۔ پاکستان یونی ورسٹیوں‘ غیرملکی اسکول سسٹمز اور اندرون ملک تعلیمی تاجروں کی کھلی چراگاہ بن گیا ہے۔ اسلام اور نظریۂ پاکستان کے بعض اساسی تصورات کی نفی کرنے والے نصابات اور درسی کتب بلاروک ٹوک ہماری نئی نسل کے اذہان کو منتشر‘ بے راہ رو اور مسموم کر رہی ہیں اور ۱۹۷۶ء کا ایجوکیشن ایکٹ روشن خیال اعتدال پسندی کی زنجیروں میں جکڑا بے بسی کا عبرت ناک نشان بنا ہوا ہے جس کی داد رسی کے لیے سپریم کورٹ آف پاکستان کا عدل پسند چیف جسٹس بھی شاید ہی حرکت میں آئے۔ بھارت جیسا سیکولر ملک بھی درسی کتب اور تدریسی مواد کو قومی تہذیب و تمدن اور تعلیم و تعلم کے قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ رکھنے کے لیے ٹیکسٹ بکس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کررہا ہے لیکن ہم نے روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر اپنے قومی نصابِ تعلیم کی تدوین اور درسی کتب کی تیاری‘ جرمنی کے بین الاقوامی امدادی ادارے جی ٹی زیڈ (GTZ) کے سایۂ عاطفت میں دے دی ہے۔
اساتذہ کو روشن خیال اعتدال پسندی کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے انھیں گروہ در گروہ امریکا روانہ کیا جا رہا ہے تاکہ اساتذہ کی ایک مؤثر تعداد روشن خیال اعتدال پسندی کی مشعل ہاتھ میں پکڑے پورے تعلیمی نظام کو روشن خیال اعتدال پسندی کی نعمت سے بہرہ ور کرے۔ شعبہ نصابیات اور تربیتِ اساتذہ کے بڑے بڑے اداروں کو روشن خیال اعتدال پسندی کے فریم ورک کے مطابق اہلیت کے فروغ (capacity building)کے لیے کینیڈین انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایجنسی (CIDA)کے تصرف میں دے دیا گیا ہے۔ نیز اندرونِ ملک اعلیٰ سطح کے ٹیچرز ٹریننگ کے ادرے تباہ کر کے تربیتِ اساتذہ کی ذمہ داری روشن خیال اعتدال پسند این جی اوز کو سونپ دی گئی ہیں جن کے پاس تجربہ کار ٹیچر ٹرینرز تو کجا مناسب تعلیم یافتہ اساتذہ بھی نہیں ہیں۔
دو تین ماہ پہلے ڈائریکٹوریٹ آف اسٹاف ڈویلپمنٹ پنجاب لاہور کے مین ہال میں ایک دل چسپ صورتِ حال پیداہوئی۔ سینیراساتذہ اور تعلیمی منتظمین کا ایک دورانِ ملازمت تربیتی کورس زیرعمل تھا۔ کورس کے شرکا میں بی ایڈ‘ ایم ایڈ حتیٰ کہ بعض ایم فل ایجوکیشن کی ڈگریوں کے حامل سینیر خواتین و حضرات شامل تھے۔ لاہور کی دومقامی این جی اوز کا ایک کنسوریشم کورس کنڈکٹ کرا رہا تھا۔ خاتون کورس کنوینر نے جب محسوس کیا کہ شرکا کورس اُن کی ٹریننگ سے متاثر نہیں ہو رہے تواُس نے رعب جمانے کی خاطر بڑے فخر سے شرکا کو بتایا کہ دیکھیں میں نے بی اے کے ساتھ بی ایڈ بھی کیا ہوا ہے اور ہم آپ کو بہت بلند سطح کی ٹریننگ دے رہے ہیں۔ اس پر شرکا کورس فہمی ہنسی سے پھٹ پڑے اور بڑی دیر تک ماحول سخت غیرسنجیدہ رہا۔ یہ ہے روشن خیال اعتدال پسندی کا وہ روپ جو سرخی پائوڈر اور غازے کے ہتھیاروں سے مسلح ترقی پسند خواتین کے ذریعے سے عام کیا جا رہا ہے۔ ابتدائی تربیتِ اساتذہ کے علاوہ روشن خیال اعتدال پسندی کی ترویج دو سطحوں پر کی جارہی ہے۔ ایک سطح بچپنے کی تعلیم ہے اور دوسری سطح ہائر ایجوکیشن کے ادارے ہیں۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ارلی چائلڈہڈ ایجوکیشن (Early Childhood Education) یا ECE کے نام سے منصوبوں کو زیرعمل لایا جارہا ہے۔ اس سطح پر اور اداروں کے علاوہ سب سے زیادہ متحرک اور پُرجوش ادارہ امریکا کا چلڈرن ریسورس انٹرنیشنل (CRI) ہے۔ اس ادارے نے فیڈرل کیپٹل اسلام آباد کے اسکولوں سے آغاز کیا اور اب صوبوں تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ ہائر ایجوکیشن تو سراسر روشن خیال اعتدال پسندی کی شمع فروزاں کیے ہوئے ہے۔ کیا سرکاری یونی ورسٹیاں اور کیا غیر سرکاری یونی ورسٹیاں اور انسٹی ٹیوٹس‘ کیا اسلامسٹوں کے زیراہتمام چلنے والے اور کیا سیکولرسٹوں کے سایۂ عاطفت میں فروغ پانے والے ادارے‘ سبھی مغربی تعلیم‘ مغربی تہذیب اور مغربی تصورِ علم و تحقیق کو فروغ دے رہے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے یہ مراکز مغربی علمیات (Western Epistomilogy) کی اساس پر مغربی معاشیات‘ مغربی سماجیات‘ مغربی نفسیات اور مغربی انسانیات کی تعلیم کے ذریعے طوعاً کرھاً روشن خیال اعتدال پسندی کے ایجنڈے کی ہی تکمیل کر رہے ہیں۔ حکومت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن اور اعلیٰ تعلیم کی پالیسیوں کے ذریعے آزادانہ فکروتحقیق کے سوتے خشک کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کی آب یاری کو یقینی بنا رکھا ہے۔ یونی ورسٹیاں عام طور پر جرنیلوں یا اباحیت پسند سیکولر ذہن کے سخت گیر وائس چانسلروں کے تصرف میں دے دی گئی ہیں جہاں اسلامی ذہن کے پنپنے اور آگے بڑھنے کے راستے مسدود ہیں۔
نظامِ تدریس و تعلّم کو کنٹرول کرنے کا سب سے مؤثر ہتھیار امتحان ہے۔ امتحانی سوالوں کی نوعیت‘ پرچوں کی ترتیب‘ مضامین کے کسی سرٹیفیکیٹ یا ڈگری کے حصول میں باہمی اہمیت‘ طلبہ کے جوابی پرچوں کی مارکنگ اسکیم اور امتحانی پرچوں میں سوالوں کے لیے مختلف مضامین کے درسی مواد کا انتخاب‘ وہ عناصر ہیں جو امتحانات کو پورے نظامِ تعلیم پر حاوی کردیتے ہیں۔ روشن خیال اعتدال پسندی کے ذہین مؤدین نے اس امر کو سمجھا ہے۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔ نظامِ تعلیم میں روشن خیال اعتدال پسندی کے مؤثر نفوذ اور نفاذ کے لیے شاید ہی اس سے بہتر تدبیر ممکن ہو۔ بے نظیر حکومت کے دوسرے دور سے اس کی کوشش ہورہی تھی۔ نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں اس سلسلے میں پالیسی فیصلہ کرایا گیا اورجنرل پرویز مشرف کی روشن خیال اعتدال پسند حکومت نے اسے نفاذ تک پہنچایا۔ آغا خان یونی ورسٹی امتحانی بورڈ اگر چلتا ہے (اور بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ چلے گا اور خوب چلے گا)تو کم از کم میٹرک اور انٹر کی سطح پر لبرل اور سیکولر عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی بتدریج جڑ پکڑتی جائے گی اور اسلامسٹوں کے تعلیمی ادارے بھی طوعاً کرھاً یہ راستہ اپنائیں گے جس طرح کہ اس وقت وہ او لیول اور اے لیول (O'Level & A Level) کے برطانوی امتحانات کا بہت تیزی سے شکار ہو رہے ہیں۔ یہ امر قابلِ غور ہے کہ آغا خان امتحانی بورڈ کو تو شاید ہم کچھ وقت تک اور کسی حد تک دبائو میں رکھ سکیں لیکن کیمبرج یونی ورسٹی اور ایڈیکسل کے برطانوی امتحانات تو بالکل ہمارے کنٹرول میں نہیں اور نہ اُن کے نصاب اور کتاب پر ہمارا کوئی زور ہی چلتا ہے۔
پرویز مشرف کی نیم سیاسی لیکن فوجی حکومت نے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے سہ طرفہ حکمتِ عملی (three prong strategy) اپنائی ہے۔ تعلیم ایک شعبہ ہے۔ قانونی تبدیلیاں دوسراشعبہ ہے اور میڈیا کی مادرپدر آزادی تیسرا شعبہ ہے۔ زیرنظر مضمون میں تعلیم کے ذریعے روشن خیال اعتدال پسندی کا فروغ ہمارا موضوع ہے۔ اس شعبے میں اب ایک نیا شاخسانہ اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ براے تحقیق‘ تعلیم اور مکالمہ کا قیام ہے۔
اس ادارے کے بارے میں ابتدائی غوروفکر ۲۰۰۳ء میں اسلام آباد میں کیا گیا۔ ۲۰۰۴ء میں اس سلسلے میں پیش رفت ہوئی اور حکومت کے زیراہتمام ۱۹ تا ۲۱ نومبر۲۰۰۴ئ‘ مسلم اسکالرز کی ایک بین الاقوامی مشاورت منعقد ہوئی جس کے متعلق دعویٰ کیا گیا کہ پچھلے ۲۰۰ سال میں پہلی مرتبہ ۱۴ملکوں سے ۴۵ اسکالرز اس مشاورت میں اکٹھے ہوئے۔ اس مشاورت میں روشن خیال اعتدال پسندی کو فروغ دینے والا ایک ادارہ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور روشن خیال اعتدال پسندی کا یہ ٹاسک امریکا میں ۳۴ سال سے درس و تدریس میںمشغول ڈاکٹر رفعت حسن کے ذمے لگایا گیا۔ آخرکار اس ادارے کا قیام غالباً ستمبر۲۰۰۵ء میں عمل میں آیا۔ اس ادارے کا صدر دفتر لاہور کینٹ میں ہے اور اسے جنرل پرویز مشرف نے ۵۰ کروڑ روپے کی خطیر رقم ابتدائی اخراجات کے لیے مہیا کی ہے۔ ادارے کی سربراہ نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں کوئی بیرونی پشت پناہی حاصل نہیں ہے اور ساری کی ساری مالی پشت پناہی حکومتِ پاکستان کی طرف سے ہے ۔ ادارے کے ایک تعارفی کتابچے میں اس ادارے کا بنیادی مقصد ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
مغل بادشاہ اکبر اعظم نے لاہور کو صوبائی سطح سے بلند کرکے آگرہ اور دہلی کی طرح دارالخلافہ کا مقام دیا۔ لاہور تخت شاہی کی ایک متبادل سیٹ تھی۔ اکبر دوسرے تمام مذاہب کی طرف روادارانہ رویہ رکھتا تھا۔ اس نے یہاں لاہور میں دوسرے مذاہب کے علما و فصلا کے ساتھ بحث و مباحثہ کی مجلسیں منعقد کیں۔ ان مباحثوں سے جس میں مسلمان‘ ہندو‘ سکھ‘ عیسائی اور ملحد بے دین سب شریک ہوتے تھے۔ روادارانہ مکالمے کی فضا نے نشوونما پائی۔ آج یہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ بھی اسی مقصد کے لیے کوشاں ہے تاکہ اعلیٰ سطح کے بہترین اہل عالم کے درمیان آج کی دنیا میں روشن خیال مسلم معاشرے کے لیے ان کے وژن پر بحث و مباحثہ کی گنجایش پیدا ہو۔
ادارے کے تعارفی کتابچے سے لیا گیا یہ طویل اقتباس‘ مذکورہ ادارے کے کارپردازان کا ذہن پوری طرح واضح کردیتا ہے۔ گویا مغل بادشاہ اکبر کی روشن خیال اعتدال پسندی جس کا مظہر اس کا ’دین الٰہی‘ تھا‘ ان خواتین و حضرات کا راہنما نظریہ ہے۔ اقبال انسٹی ٹیوٹ کے کارپردازوں نے حکومت کی سرپرستی میں بند دروازوں کے پیچھے یکم یا ۳ جولائی ۲۰۰۶ء لاہور کے ایک فائیوسٹار ہوٹل میں بڑی رازداری سے ایک کانفرنس منعقد کی جسے ایک روشن خیال مسلم معاشرے کی تشکیلِ نو میں پیغام اقبال کی معنویت پر جنوبی ایشیا کے اسکالرز کی لاہور مشاورت کا نام دیا گیا۔ اس نام نہاد مشاورتی اجلاس میں کسی صحافی کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ مقصد شاید یہ تھا کہ یہ نام نہاد اسکالرز اقبال کے مقدس نام پر روشن خیال اعتدال پسندی کے ضمن میں جو ہرزہ سرائی کریں اور نسلِ نو کے اذہان کو روشن خیال اعتدال پسندی کے سازشی تصورات کے تحت مسموم کرنے کے جو منصوبے بھی بنائیںوہ اقبال کے پرستاروں اور وطن عزیز کے مخلص دانش وروں تک پہنچنے پائیں۔ وہ تو بھلا ہو نواے وقت کا جس نے ۸ جولائی کے تعلیمی ایڈیشن میں اس سازش کو طشت ازبام کردیا۔
کانفرنس کے شرکا میں پاکستان کے علاوہ بھارت‘ بنگلہ دیش‘ کینیڈا‘ امریکا اور مصر سے خواتین و حضرات شامل تھے۔ جو خواتین و حضرات بھی اس مشاورت میں شریک تھے وہ سب کے سب کلامِ اقبال اور پیغامِ اقبال کے حوالے سے مجہول لوگ ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش سے اقبالیات کے نام ور محققین اور اقبال شناس خواتین وحضرات سے کوئی ایک شخص بھی ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کے اس مشاورتی اجلاس میں شرکت کے قابل نہیں سمجھا گیا حتیٰ کہ فرزندِ اقبال‘ ڈاکٹرجاوید اقبال کو بھی‘ جو ماشاء اللہ روشن خیال اعتدال پسندی کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہیں‘ اس قابل نہیں سمجھا گیا کہ وہ مذکورہ مشاورت میں جلوہ افروز ہوں۔ گویا مذکورہ مشاورتی اجلاس کی روشن خیال اعتدال پسندی کے حوالے سے سطح کچھ زیادہ ہی بلند تھی۔ علامہ اقبال کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے لیے وفاقی حکومت کی طرف سے ۵۰کروڑ روپے کی خطیر رقم فراہم کرنے کا معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے محب وطن اراکین کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ شاید صدرِ مملکت نے اپنے صواب دیدی فنڈسے روشن خیال اعتدال پسندی کے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے یہ رقم مہیا کی ہے کیونکہ اس رقم کا ذکر پچھلے بجٹ میں ہے اور نہ حالیہ بجٹ میں۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کا ہدف نئی نسل‘ تعلیم اور اساتذہ ہیں۔ گویا گراس روٹ لیول سے روشن خیال اعتدال پسندی کا شر پھیلانے کا پروگرام بنایا گیا ہے اور اس مقصد کے لیے علامہ اقبال کے نام پر ابہام اور انتشار پیدا کرنے کی ٹھانی گئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک امریکن ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو ٹیچرز ود آؤٹ بارڈرز (Teachers Without Borders) نامی کسی تنظیم کے بانی ہیں‘ بتایا کہ انھوں نے اساتذہ کے لیے اسلام کو عام فہم بنانے کے لیے اور اساتذہ کی تربیت کے لیے کہ وہ اسلام کو تدریس کے ساتھ مربوط کرسکیں‘ ایک ہینڈبک تیار کی ہے جس کا عنوان ہے Modern Teaching and Islamic Tradition۔ راقم الحروف نے اس نام نہاد ہینڈبک کا کچھ حصہ مذکورہ انسٹی ٹیوٹ کے تعارفی کتابچے میں دیکھا ہے۔ وہ واقعی سیکولر لبرل عناصر کی روشن خیال اعتدال پسندی کا شاہکار ہے۔ اسلام سے نابلد ایک جاہل امریکی سے اور توقع بھی کیا کی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر فریڈ میڈنک نے جو مستقلاً اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے صدر دفتر میں متعین ہے‘ اس سال اپنی اس ہینڈبک کے ذریعے ۱۵۰ اساتذہ کی تربیت کا ہدف مقرر کیا ہے۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ نے اس سال ۴۰ سے ۵۰ لاکھ طلبہ تک رسائی حاصل کرنے کا پروگرام بھی بنایا ہے تاکہ انھیں روشن خیال اعتدال پسندی کے اسباق دیے جائیں۔ طلبہ تک رسائی کی ابتدا ہمارے روشن خیال اعتدال پسند گورنر پنجاب عزت مآب خالد مقبول کے ہاتھوں ہوئی کہ موصوف نے مشاورتی اجلاس کے آخری دن مندوبین کو گورنر ہائوس میں کھانا دیا جس کے دوران پنجاب کی مختلف یونی ورسٹیوں سے ۴۰ منتخب طلبہ و طالبات کو ساؤتھ ایشیا کے ان نام نہاد مسلم اسکالرز سے ملاقات کا شرف بخشا گیا۔
ساؤتھ ایشیا مسلم اسکالرز کی اس لاہور مشاورت کی خفیہ کارروائی سے جو کچھ میڈیا میں سامنے آیا اس کے مطابق پاکستان میں اسلامیات کے نصاب کو ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ دینی مدارس کی تعلیم اور نصاب کو بدلنے کی سفارش کی گئی۔ اے لیول اور او لیول پاس کرنے والے طلبہ و طالبات میں مطلوبہ سطح کی روشن خیال اعتدال پسندی کے فقدان کا رونا رویا گیا۔ ابتدا ہی سے روشن خیال اعتدال پسندی کے فروغ کے لیے پہلی جماعت سے انگریزی کی تدریس لازمی مضمون کے طور پر جاری کرنے کی سفارش کی گئی۔ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کی تعلیمات پر مبنی ریسرچ پراجیکٹس شروع کرنے اور ان کی تعلیمات نئی نسل تک پہنچانے کے لیے منصوبہ بنایا گیا۔ یاد رہے کہ نذرالاسلام اور ٹیگور دونوں بنگالی شاعر اور ادیب ہیں۔ نذرالاسلام مرتے دم تک کلکتہ میں رہا اور زندگی بھر سابق مشرقی پاکستان یا بنگلہ دیش نہیں گیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور ٹیگور میں کیا قدرِ مشترک ہے کہ ان پر ریسرچ کر کے اور ان کی تعلیمات سے روشن خیال اعتدال پسندی برآمد کر کے نئی نسل تک پہنچانے کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ اس سے ساؤتھ ایشیا میں اعتماد سازی اور افہام و تفہیم کو فروغ ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گلوبلائزیشن کے تحت عالمی سطح پر جو چار وسیع البنیاد مقاصدِ تعلیم وضع کیے گئے ہیں‘ اُن میں سے ایک یعنی مل جل کر رہنا سیکھنے (Learning to live together) کی تکمیل کا ایجنڈا پیش نظر ہے۔
اس کے تحت ضروری قرار دیا گیا ہے کہ پوری دنیا کے بچوں اور جوانوں کے ہیروز مشترک ہوں تاکہ وہ ہیروز جو قوموں میں باہمی نفرت اور افتراق کا باعث بنتے ہیں انھیں تعلیمی نصابات سے خارج کردیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا‘ بھارت اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ہمارے ہم وطن ترقی پسند‘ روشن خیال اور لبرل سیکولر عناصر بھی ہمارے اُردو‘ معاشرتی علوم اور مطالعۂ پاکستان کے نصابات پر معترض ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ محمد بن قاسم‘ محمود غزنوی اور شہاب الدین محمد غوری تو ہندستان پر حملہ آور ہوئے۔ وہ جارح اور لٹیرے تھے۔ اگر ہم انھیں اپنے نصاب میں اپنے ہیروز بناکر نئی نسل کو پڑھائیں گے تو ہم ہندوئوں کے ساتھ مل کر کیسے رہ سکتے ہیں۔ یہ لوگ قدیم ہندو راجائوں کے ساتھ مغل بادشاہ اکبر جیسے نام نہاد ہیروز کو نصاب کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بعض بھارت پرست ادیب و شاعر اور نام نہاد ترقی پسند دانش ور تو گاندھی کو بھی ہمارا بھارت کے ساتھ مشترکہ ہیرو کے طور پر آگے بڑھا رہے ہیں اور اسی آئیڈیالوجی کے تحت اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ والے علامہ اقبال‘ نذرالاسلام اور رابندر ناتھ ٹیگور کو باہم خلط ملط کرکے ہماری نئی نسل کے اذہان میں ہیروز کے طور پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔
اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ کے تحت منعقد ہونے والے لاہور مشاورت براے ساؤتھ ایشین مسلم اسکالرز کی سہ روزہ میٹنگ کے بعد آواری ہوٹل میں ۴ تا ۵ جولائی ٹیچرز ٹریننگ گروپ کا اجلاس بھی ہوا جس میں یونی ورسٹی آف ایجوکیشن کے نمایندے کے علاوہ ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونی ورسٹی کے ڈائرکٹر اور بعض دیگر خواتین و حضرات کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ اس دو روزہ اجلاس میں ٹیچرز ٹریننگ اور طلبہ میں نفوذ کی راہیں سوچی گئیں اور آیندہ کے پروگرام بنائے گئے۔
محب وطن حلقوں کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ کس طرح ہمارے ہی مشاہیر کا نام استعمال کر کے روشن خیال اعتدال پسندی کا جال پھیلایا جارہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت عوام کے ٹیکسوں سے جمع شدہ رقم اپنی ریاستی قوت کے زور سے ایسے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے جو تحریکِ پاکستان کے مقاصد‘ نظریۂ پاکستان کے تقاضوں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین سے پوری طرح متصادم ہیں۔ اگر کچھ حلقے خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کی اوچھی حرکتوں سے کچھ نہیں ہوگا‘ اور شترمرغ کی طرح ریت میں دے کر سمجھتے ہیں کہ عافیت میں ہیں‘ تو یہ اُن کی خام خیالی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اندھی ریاستی قوت‘ میڈیا کا ظالمانہ اور جانب دارانہ استعمال اور مسلسل پروپیگنڈا عقائد و نظریات کو کمزور کرنے اور آخرکار مکمل طور پر استیصال کا سبب بن سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم اُمہ عموماً اور ملّتِ پاکستان خصوصاً پوری قوت اور ذہنی بیداری کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہو اور روشن خیال اعتدال پسندی کے نام پر ہونے والی سازشوں کا ہرمحاذ پر مقابلہ کرے۔ اس جدوجہد میں سب سے اہم محاذ تعلیم کا ہے‘ لہٰذااساتذہ کرام کو ہراول دستے کا کردار انجام دینا ہوگا۔