رمضان کے مبارک شب و روز رخصت ہوگئے۔ عید کی صبح نمودار ہوگئی۔ مسلمان عید کی خوشیوں سے سرشار، عید کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ آج اظہارِ مسرت کا دن ہے، جشن منانے کا دن ہے، ایک دوسرے سے ملنے اور مبارک باد لینے دینے کا دن ہے، خدا کی حمدوثنا اور تکبیرو تہلیل کا دن ہے، خدا کے حضور سجدۂ شکر بجا لانے کا دن ہے۔ عید خدا کا مقرر کیا ہوا تہوار ہے۔ آج کے دن نہانا دھونا، صاف ستھرے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، تکبیر وتہلیل کہتے ہوئے عیدگاہ جانا، عیدگاہ جانے سے پہلے کچھ میٹھا کھانا، ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے آنا اور سب کے ساتھ مل کر شوکتِ اسلام کا مظاہرہ کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ اور مطلوب اعمال ہیں۔
حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو مخصوص دنوں میں کھیل و تفریح کرتے اور خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا:یہ دو دن کیسے ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دورِ جاہلیت سے ان دو دنوں میں اسی طرح خوشی مناتے رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خدا نے تمھیں ان دو دنوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد)
اس مختصر سی روایت سے ایک نہایت اہم حقیقت پر روشنی پڑتی ہے، وہ یہ کہ ایک بامقصد ملّت کے تہوار بھی بامقصد ہوتے ہیں۔ اسلامی تہواروں کا مقصد صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ دوسری قوموں کی طرح مسلمان ملّت بھی سال بھر میں دو دن جشنِ مسرت منا لیا کرے، اور تہوار منانے کے فطری جذبے کو تسکین دے لیا کرے۔ اگر بات صرف اتنی ہی ہوتی، تو ان دو دنوں کے بدلے دوسرے دو دن مقرر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مسلمان انھی دو دنوں میں جشنِ مسرت مناتے رہتے، جیساکہ مدینے والے ایک زمانے سے مناتے چلے آرہے تھے، لیکن خدا کے رسولؐ نے فرمایا: ’’ان دو دنوں سے بہتر دو دن خدا نے تمھیں اظہارِ مسرت کے لیے عطا فرمائے ہیں، ایک عیدالفطر اور دوسرا عیدالاضحی‘‘۔
عیدالفطر شوال کی پہلی تاریخ کو منائی جاتی ہے اور عیدالاضحی ذوالحجہ کی ۱۰ تاریخ کو۔ یکم شوال کو عیدالفطر منانے کا بھی ایک اہم مقصد ہے اور ۱۰ ذوالحجہ کو اظہارِ مسرت کا بھی ایک خاص پس منظر ہے۔ وقت کی مناسبت سے ان سطروں میں صرف عیدالفطر کے مقصد پر اظہارِ خیال کرنا ہے۔
رمضان کے شب و روز کی عبادتوں سے فارغ ہوتے ہی خوشی منانا اور دوگانہ شکر ادا کرنا دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ خدا ہی کے فضل وکرم سے ہمیں رمضان کی یہ مبارک ساعتیں حاصل ہوئیں اور اسی کی توفیق سے ہم قیام و صیام، تلاوت و تسبیح، صدقہ و خیرات اور دوسری عبادتیں بجا لاسکے۔ اگر خدا کی توفیق و اطاعت نہ ہوتی تو ہم کچھ بھی نہ کرسکتے۔
عید منانے کی اس حقیقت کو سامنے رکھیے تو اس بات کو دہرانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی کہ عید کی خوشی میں اس بدنصیب کا کوئی حصہ نہیں ہے، جو رمضان کی برکتوں سے محروم رہا اور رمضان کے بابرکت شب وروز پانے کے باوجود اس نے اپنی مغفرت کا سامان نہیں کیا۔ لیل و نہار کی گردش جب تک باقی ہے، یکم شوال کی تاریخ آتی رہے گی، مگر محض اس صبح کا طلوع ہونا ہی پیغامِ مسرت نہیں ہے۔ یہ صبح تو ہر ایک پر طلوع ہوتی ہے، لیکن اس جشن میں حقیقی مسرت صرف اسی کا حصہ ہے جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہوکر یہ کہہ سکے کہ پروردگار تو نے جو مبارک مہینہ مجھے عطا فرمایا تھا، میں نے اسے ضائع نہیں کیا، میں دن میں بھی تیری خوشی کے کام کرتا رہا اور شب میں بھی تیری عبادت میں لگا رہا۔
عید کا دن عید بھی ہے اور وعید بھی، یہ مبارک باد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارک باد کا دن ان خوش نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان شکرگزاری کی حالت میں گزرا اور تعزیت کا دن ان کم نصیبوں کے لیے ہے جن کا رمضان اس طرح گزرا کہ وہ اس کی برکتوں سے محروم ہی رہے۔ بے شک ایسے لوگوں کے لیے عید، وعید کا دن ہے، یہ مبارک باد کے نہیں تعزیت کے مستحق ہیں:
یہ مبارک باد کا دن بھی ہے اور تعزیت کا دن بھی۔ مبارک باد اس کے لیے جس سے رمضان خوش خوش رخصت ہوا اور تعزیت کا دن ہے، اس کے لیے جس سے رمضان رخصت ہوگیا اور وہ اس سے محروم ہی رہا۔
عیدالفطر یقینا مسلمانوں کے لیے اظہارِ مسرت کا دن ہے، یہ خدا کا دیا ہوا تہوار ہے مگر یہ ضرور سوچنے کی بات ہے کہ خوشی کس بات کی؟ رمضان اپنی تمام برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ آپ پر سایہ فگن ہوا۔ آپ نے اس کو خدا کا انعام سمجھ کر اگر اپنی عاقبت بنانے، اور مغفرت و نجات کا سامان کرنے کی فکر کی ہے تو بے شک یہ خوشی کی بات ہے، اور آپ عیدالفطر کا تہوار منانے کے مستحق ہیں، مگر جس کم نصیب نے رمضان کی مبارک ساعتوں میں ذرا بھی اپنی مغفرت و نجات کی فکر نہیں کی، رمضان کا سارا مہینہ اس نے یوں ہی غفلت اور محرومی میں گزار دیا، خدا کو خوش کرنے کے بجاے اس نے خدا کا غضب اور بھڑکایا، اس کو بھلا کیا حق ہے کہ وہ عید کا تہوار منائے اور خوشی کا اظہار کرے۔ وہ آخر کس بات کی خوشی منائے اور کس منہ سے خدا کی بڑائی ظاہر کرنے کے لیے تکبیر کہے۔
اس شخص کی ہلاکت اور محرومی میں کس کو شک ہوسکتا ہے، جس کی تباہی اور ہلاکت کے لیے جبرئیل امین ؑبددعا کریں اور بددعا پر رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم آمین کہیں۔
ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھنے لگے۔ پہلے زینے پر جب آپؐ نے قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ دوسرے زینے پر قدم رکھا تو پھر فرمایا: آمین۔ تیسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین۔ خطبہ دے کر جب آپؐ فارغ ہوئے تو صحابہ کرامؓ نے پوچھا: حضوؐر! آج ہم نے یہ ایسی بات دیکھی کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ فرمایا: جب میں خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھنے لگا اور منبر کے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرئیل امین ؑ نمودار ہوئے اور انھوں نے کہا: خدا اس شخص کو ہلاک کردے جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور پھر بھی اپنی مغفرت کا سامان نہیں کیا‘‘۔ اس پر میں نے کہا: آمین!___ جن کم نصیبوں کو خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم محروم اور تباہ حال کہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ان کو بھی عید کی خوشی منانے اور مبارک باد لینے کا حق ہے۔
جو خوش نصیب عید کی مبارک باد اور خوشی کے واقعی حق دار ہیں، ان کا ایمان افروز حال خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے سنیے اور اس آرزو کو پورا کرنے میں لگ جایئے کہ آپ کا شمار بھی انھی لوگوں میں ہو۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب عید کی صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو ہرشہر اور ہر بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے، فرشتے زمین میں اُتر کر ہرگلی اور ہر راستے کے موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں۔ ان کی پکار ساری مخلوق سنتی ہے، مگر انسان اور جِن نہیں سن پاتے… وہ پکارتے ہیں:
اے محمدؐ کی اُمت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف! تمھارا پروردگار بہت ہی زیادہ دینے والا اور بڑے سے بڑے قصور کو معاف کرنے والا ہے۔ اور جب مسلمان عیدگاہ کی طرف جانے لگتے ہیں تو خداے عزوجل اپنے فرشتوں سے مخاطب ہوکر پوچھتا ہے: میرے فرشتو! اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے رب کا کام پورا کیا؟ فرشتے کہتے ہیں: اے ہمارے معبود! اے ہمارے آقا! اس مزدور کا صلہ یہ ہے کہ اسے بھرپور مزدوری دی جائے۔ اس پر خدا کا ارشاد ہوتا ہے: فرشتو! تم سب گواہ ہوجائو کہ میں نے اپنے بندوں کو جورمضان بھر روزے رکھتے رہے اور تراویح پڑھتے رہے، اس کے صلے میں اپنی خوش نودی سے نواز دیا اور ان کی مغفرت فرما دی۔
پھر خدا اپنے بندوں سے کہتا ہے: میرے پیارے بندو! مانگو مجھ سے جو کچھ مانگتے ہو۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! آج عید کے اس اجتماع میں تم اپنی آخرت بنانے کے لیے مجھ سے جو مانگو گے، عطا کروں گا اور اپنی دنیا بنانے کے لیے جو چاہو گے، اس میں بھی تمھاری بھلائی کو پیش نظر رکھوں گا… جب تک تم میرا دھیان رکھو گے، میں تمھارے قصوروں پر پردہ ڈالتا رہوں گا۔ مجھے میری عزت کی قسم! مجھے میرے جلال کی قسم! میں تمھیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل اور رسوا نہ کروں گا۔ جائو تم اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جائو، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے ہو، میں تم سے راضی ہوگیا۔
فرشتے اس بشارت پر خوشی سے جھوم اُٹھتے ہیں اور خدا کی اس بخشش اور نوازش پر خوشیاں مناتے ہیں، جو وہ اپنے بندوں پر فرماتا ہے، جو رمضان بھر کے روزے رکھ کر آج اپنا روزہ کھولتے ہیں (الترغیب، ج۲، ص ۱۰۱)۔ (شعورحیاتِ سے انتخاب)