اگست ۲۰۰۹ء کے شمارے میں تین مضامین بہت پسند آئے جو اپنے لوازمے اور اپروچ کے لحاظ سے جامع تھے۔ یومِ آزادی کی مناسبت سے ’اشارات‘ نے مایوسی اور تاریکی میں اُمید اور حوصلہ دیا۔ بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو جن مسائل اور چیلنجوں کا سامنا ہے، کافی عرصے بعد اس موضوع پر ایک عمدہ تحریر سامنے آئی۔ فی الواقع بنگلہ دیش جماعت بڑی مشکلات سے دوچار ہے۔ چین میں مسلمانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے، ان کے مطالعے سے بہت سے ایسے پہلو سامنے آئے جن کے بارے میں معلومات کم ملتی ہیں۔
’تفہیم القرآن: شعوری ایمان کی دعوت‘ (اگست ۲۰۰۹ء) بہترین فکر کا عکاس ہے۔ مولانا مودودیؒ دین حنیف کے سچے پیروکار تھے اور تفہیم القرآن میں انھوں نے جو طرزِ استدلال اختیار کیا ہے وہ درحقیقت ان کی بہترین ریسرچ اور تحقیقات کا نتیجہ ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب پر ان کی گہری نظر تھی۔ تحقیقی مطالعے کے بعد ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اسلام سے زیادہ معقول اور مدلل مذہب کوئی اور نہیں۔ جب ہم سید مودودیؒ کے تحقیقی مطالعے اور علمی کام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ فہم دین کے لیے انھوں نے کتنی جستجو کی، اور کتنا طویل سفر کتنے مختصر عرصے میں طے کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی تربت پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین!
محترمہ افشاں نوید کا توبہ و استغفار کی تلقین پر مشتمل مضمون ’اپنے رب کی طرف پلٹو…‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) فی نفسہٖ بڑا مؤثر ہے۔ یقینا ہمارے جملہ عوارضِ قومی کا سبب انفرادی اور اجتماعی سطح پر احکامِ خداوندی سے سرتابی اور بغاوت ہی ہے اور اس کا علاج رجوع الی اللہ ہی ہے۔ تاہم، اوّلین ضرورت امریکی طاغوت اور اس کے بدبخت غلاموں کی پیدا کردہ زبوں حالی کے پس منظر میں اُس شعور اور ادراک کی ترویج کی ہے جس کا اظہار پروفیسر خورشیداحمد صاحب نے اپنے اداریے ’۱۴؍اگست: یومِ تشکر، یومِ احتساب بھی‘ (اگست ۲۰۰۹ء) میں کیا ہے اور جس کا عملی مظاہرہ ’گو امریکا گو‘ مہم کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ طاغوت کے خلاف جدوجہد یقینا اللہ کی بندگی اور غلامی ہی کا فطری تقاضا ہے۔
’دنیا کی بے ثباتی‘ (اگست ۲۰۰۹ء) حضرت علیؓ کا ایک اثرآفریں ، مختصر اور جامع مگر فکرانگیز خطبہ ہے۔ فی زمانہ مادیت کے لیے ہر فرد ہلکان ہو رہا ہے، اور آخرت کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے۔ ایسے میں یہ خطبہ ایک عمدہ تذکیر اور آخرت کے لیے زادِ راہ اور توشۂ آخرت ہے۔
’جاپان میں: پاکستان اور جنوبی ایشیا پر تازہ کاوشیں‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) پڑھ کر ذہن کو جھٹکا لگا کہ جاپان جس کو ہم صرف ایک صنعتی ملک سمجھتے تھے، وہ علمی دنیا میں کتنا تیز رَو ہے___ متعدد زبانوں پر کاوشیں، مختلف ممالک پر کاوشیں۔ اُردو زبان کے بارے میں جتنا کچھ جاپان میں ہو رہا ہے، پاکستانی تعلیمی منصوبہ سازوں کے لیے اس میں بڑی رہنمائی ہے۔ تحقیق میں اشتراکِ عمل کی جو مستحسن اور مفید روایت جاپان نے قائم کی ہے، کاش! ہمارے ملک میں عام ہوسکے۔
’رسائل و مسائل‘ (جولائی ۲۰۰۹ء) میں ایک سائلہ نے بیوٹی پارلر کے بارے میں پوچھا اور جواب میں فاضل مصنف نے جزوی اجازت مرحمت فرمائی ہے، یعنی کوئی خاتون اگر اپنے گھر میں صرف خواتین کا بنائوسنگھار کرے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ اس موقف کو اگر شرعی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور ان احادیث اور روایات کو پیشِ نظر رکھا جائے جن میں نبی کریمؐ نے مصنوعی بال لگوانے اور بھنوئوں کو باریک کرنے اور کروانے والیوں پر لعنت کی ہے تو گھر کے اندر بیوٹی پارلر کا کام کرنے کی اجازت دینا، یا اِس کے لیے یہ جواز فراہم کرنا کہ بنائوسنگھار عورت کا فطری حق ہے محض لاعلمی ہے، واللّٰہ اعلم بالصواب۔