ستمبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

ناکام امریکی افغان پالیسی اور پاکستان

پروفیسر خورشید احمد | ستمبر ۲۰۰۹ | شذرات

Responsive image Responsive image

پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت نے تقریباً ہر میدان میں پاکستانی عوام کو بُری طرح مایوس کیا ہے۔ عوام نے ۱۸ فروری ۲۰۰۸ء کو بنیادی تبدیلی کا جو مینڈیٹ سیاسی جماعتوں کو دیا تھا اور مشرف کی داخلی و خارجہ پالیسیوں سے نجات کی جو امید پیدا ہوئی تھی، وہ دم توڑ رہی ہے۔

۲۲ اکتوبر ۲۰۰۸ء کو اپنی متفقہ قرارداد کی شکل میں پارلیمنٹ نے خارجہ پالیسی، قومی سلامتی کی حکمت عملی اور امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ کے بارے جن بنیادی تبدیلیوں کی ہدایت دی تھی، ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اس کے برعکس امریکا کے اشاروں پر جنرل پرویزمشرف سے بھی زیادہ تابع داری کے ساتھ بگ ٹٹ عمل ہو رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں سوات، مالاکنڈ، فاٹا اور بلوچستان میں حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ پورا ملک لاقانونیت، مہنگائی اور اشیاے ضرورت کی عدم فراہمی سے دوچار اور زندگی کے ہر شعبے میں بدعنوانی نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔

حکومت کی داخلی پالیسیاں بگاڑ کو بڑھانے کا سبب ہیں لیکن بِس کی اصل گانٹھ امریکا کی ’دہشت گردی‘ کے خلاف جنگ میں پاکستان کی شرکت اور اس کے نتیجے میں ملک کے خارجی اور داخلی تمام ہی امور پر امریکا کی عمل داری (writ ) ہے، جس کی گرفت اب تعلیم، ثقافت، معیشت اور توانائی ہر دائرے میں بڑھتی جا رہی ہے۔ سیاست کی جزئیات تک کا اہتمام (مائیکرو مینجمنٹ)، واشنگٹن کے نمایندوں اور امریکی سفارت کاروں کا رہینِ منت ہے۔ بظاہر یہ سب افغانستان کی وجہ سے ہو رہا ہے، لیکن فی الحقیقت نظر یہ آ رہا ہے کہ امریکا کی توجہ کا مرکز اب افغانستان سے بھی   کچھ زیادہ پاکستان ہے۔ جس کے بڑے دُوررس اور تباہ کن اثرات ہماری آزادی، نظریاتی شناخت، تہذیب و تمدن اور سیاسی اور معاشی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں اوران کے مزید بڑھنے کے خطرات اُفق پر منڈلا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم، اس کی سیاسی اور دینی قیادت، امریکا کی افغان پالیسی کا گہری نظر سے جائزہ لے اور پاکستان کو ان کے تباہ کن اثرات سے بچانے کے لیے فی الفور اقدام کرے۔

صدر اوباما نے عراق سے امریکی افواج کی مرحلہ وار اور تدریجی انخلا کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، مگر افغانستان میں فوجوں کو بڑھانے اور نائن الیون کے ملزموں کو پکڑنے، امریکی سلامتی کو   ان سے بچانے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد کا عندیہ دیا ہے، اور ساتھ ہی ۱۷ ہزار مزید فوجی بھیجنے کا بھی اہتمام کیا ہے۔ بظاہر یہ سب کام ہو رہے ہیں لیکن صاف نظر آرہا ہے کہ افغانستان میں بھی امریکی پالیسیاں اسی طرح ناکام رہی ہیں، جس طرح عراق میں رہیں۔ اب خود امریکی دانش ور اور عوام آہستہ آہستہ اس نتیجے پر پہنچ رہے ہیں کہ عراق کی طرح افغانستان میں بھی یہ جنگ ناقابلِ فتح ہے۔

سیاسی اعتبار سے تو یہ جنگ ناکام ہوچکی ہے۔ معاشی اعتبار سے اس کا بوجھ اب امریکی معیشت اور عالمی کساد بازاری کے پس منظر میں ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔ امریکی اور ناٹو کی اتحادی افواج کوبھی جان و مال دونوں کے اتلاف کی صورت میں اس کی جو قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے، امریکی عوام کو اس کے جواز پر قائل کرنا روز بروز مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

اکتوبر ۲۰۰۱ء میں افغانستان پر فوج کشی کر کے صدر بش نے جس جنگ کا آغاز کیا تھا وہ اب رفتہ رفتہ امریکی عوام کی تائید سے محروم ہوتی جا رہی ہے، جس کا تازہ ترین اظہار اس سروے کے نتائج سے ہوتا ہے جو امریکا میں واشنگٹن پوسٹ اور اے بی سی نیوز کے ایما پر منعقد کیا گیا ہے، اور جس کا اعلان ۲۲؍ اگست ۲۰۰۹ء کو نیشنل پبلک ریڈیو اور دوسرے نشری اداروں نے کیا ہے۔ اس سروے کی رُو سے پہلی بار امریکی عوام کے ۵۱ فی صد نے یہ کہا ہے: War in Afghanistan is not worth fighting (افغانستان کی جنگ جاری رکھنے کے لائق نہیں)۔

ان میں ۵۲ سے ۴۱ فی صد نے افغانستان کی جنگ میں امریکا کے حصہ لینے کی سختی سے مذمت کی ہے اور نیشنل پبلک ریڈیو نے خود اپنا یہ نتیجۂ فکر پیش کیا ہے:

امریکی عوام کو کوئی ایسی شہادت نظر نہیں آ رہی ہے کہ امریکی قبضے نے افغانستان کو زیادہ مستحکم، محفوظ، آزاد یا پُرامن بنا دیا ہے۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکا کے نیشنل پبلک ریڈیو نے افغانستان میں امریکی کردار کو ’قبضے‘ (occupation) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ یہ احساس اب امریکا کی کانگریس کے ارکان میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔ میساچیوسٹس سے کانگریس کے رکن جم میک گورن نے کانگریس میں ایک بل پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کے مطالبے پر مشتمل ہوگا۔ اس مجوزہ مسودۂ قانون پر اب تک ۹۵ ارکانِ کانگریس نے دستخط کر دیے ہیںاور ان میں خود     ری پبلکن پارٹی کے وہ ارکان بھی شامل ہیں جنھوں نے افغانستان پر فوج کشی کے لیے صدربش کی پُرزور حمایت کی تھی۔ میک گورن نے جو قانون کانگریس کے ایوانِ نمایندگان میں پیش کیا ہے اس میں صاف لفظوں میں کہا گیا ہے: ’’امریکا کو طویل تر قبضہ رکھنے کے باوجود کچھ حاصل نہیں ہونا ہے اور اسے انخلا کی حکمت عملی پر ابھی غور کرنا چاہیے‘‘۔

کانگریس سے باہر بھی ایسے گروپ وجود میں آرہے ہیں، جو ویت نام میں امریکی جنگ کے زمانے میں متحرک تھے۔ ایسا ہی ایک مؤثر گروپ ’پروگریسو ڈیمو کریٹس آف امریکا‘ (PDA) کے نام سے متحرک ہوا ہے جس کا پیغام یہ ہے: ’’قبضوں کی جنگ ختم کرو اور وسائل قوم پر خرچ کرو‘‘۔

میک گورن بل اور ’پروگریسوڈیموکریٹس آف امریکا‘ دونوں کا مطالبہ ہے کہ ملک کے وسائل کو امریکا کے عوام کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے جو صحت کے میدان میں خصوصیت سے سخت مشکلات سے دوچار ہیں اور عالمی کساد بازاری اور بے روزگاری کی وجہ سے آبادی کے نچلے طبقے سخت تنگی سے دوچار ہیں، یہی بات ایک امریکی دانش ور ڈاکٹر اناطول لیون نے پورے زور و شور سے خود اپنے پاکستان اور افغانستان کے دورے کے موقع پر کہی ہے کہ امریکا کے لیے افغانستان کو دیر تک فوجی قبضے میں رکھنا ممکن نہیں اور وقت آگیا ہے کہ انخلا کی حکمت عملی پر کام کیا جائے۔

۲۴؍اگست کو امریکی کمانڈر ایڈمرل مولن نے جو بیان دیا ہے، وہ ہوا کے رُخ کو سمجھنے کے لیے بے حد مددگار ہے۔ مولن کا کہنا ہے کہ میں دو سال سے چیخ رہا ہوں کہ افغانستان میں جنگ ناکام ہو رہی ہے اور طالبان مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان حالات میں امریکا کے انخلا کی حکمت عملی پر غور کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اسی طرح لندن کے موقر رسالے دی اکانومسٹ، ۲۲اگست ۲۰۰۹ء میں افغانستان کو امریکا کا مرکزی ایشو بتاتے ہوئے اعتراف کیا گیا ہے کہ  امریکا کی حکمت عملی ناکام رہی ہے۔ اب اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں کہ تمام افغان عناصر سے بات چیت کا آغاز اور امریکی و ناٹو افواج کی واپسی کا راستہ تلاش کیا جائے۔

یہ سب ہوا کے رُخ کا پتا دیتے ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ہماری موجودہ قومی قیادت کو اس کا کوئی احساس اور شعور نہیں ہے، اور وہ ہر آن امریکا کی اس جنگ کی دلدل میں مزید دھنستی چلی جارہی ہے۔ اس وقت افغان دانش ور بھی اس منظرنامے کی باتیں کر رہے ہیں، جو امریکی قبضہ ختم ہونے کے بعد کے افغانستان پر مشتمل ہوگا، مگر یہاں پر زرداری ، گیلانی حکومت امریکا سے بھی زیادہ امریکا کی پالیسیوں کو آگے بڑھانے کی ہولناک غلطی کر رہی ہے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ ملک کی سیاسی اور دینی قوتیں حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس ہاری ہوئی امریکی جنگ سے جلد گلوخلاصی اختیار کرے اور افغان عوام سے یک جہتی کی پالیسی اختیار کرے تاکہ یہ دونوں برادر ملک ایک دوسرے کے لیے سہارا بنیں اور علاقائی استحکام حاصل ہوسکے۔ اس کے لیے افغانستان سے امریکی فوجوں کی ایک متعین پروگرام کے تحت واپسی، افغانستان کے تمام سیاسی اور دینی عناصر کا باہم افہام و تفہیم سے اپنے ملک کے معاملات کو سنبھالنا، نیز افغانستان میں بھارت اور اسرائیل کے گماشتوں کی سرگرمیوں کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ پاکستان، ایران اور وسط ایشیا کے ہمسایہ ممالک کو اعتماد میں لے کر افغانستان کی آزادی، خودمختاری اور سالمیت کی حفاظت کرتے ہوئے تعمیرنو میں تعاون کا اہتمام حددرجہ ضروری ہے۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ اور وہاں کے نظام کے دروبست کا تعین افغانستان کے لوگ اپنی آزاد مرضی سے کریں اور اس میں کوئی بھی اور کسی نوعیت کی بھی بیرونی مداخلت نہ ہو۔ البتہ مشترک مفادات کے تحفظ کے لیے پوری شفافیت کے ساتھ تعاونِ باہمی کی راہ اختیار کی جائے، تاکہ علاقے میں حقیقی امن رونما ہو، جو سب کی ترقی کا ضامن ہوسکتا ہے۔

امریکا اور یورپ کی اقوام تو افغانستان سے انخلا کی حکمت عملی کی طرف بڑھ رہی ہیں، مگر دوسری طرف پاکستان کی حکومت اس دلدل میں مزید پھنستی چلی جارہی ہے۔ ہم کیا اس سے بھی گئے گزرے ہیں جس کا ذکر شاعر نے ان الفاظ میں کیا ہے  ع

ٹھوکریں کھا کر تو کہتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ