عدلیہ اور اس کی آزادی پر جنرل پرویز مشرف نے ایک کاری ضرب ۹مارچ ۲۰۰۷ء کو لگائی تھی جس کا مقصد اپنے آمرانہ اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے عدلیہ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے آنا تھا۔ یہی چال فوجی آمر کے اقتدار کے زوال کا نقطۂ آغاز ثابت ہوئی۔
ماضی میں چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کے کچھ اقدامات پر ذہنی تحفظات کے باوجود، ۹مارچ کو جس جرأت، استقامت اور حکمت سے انھوں نے آمروقت کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور سارے دبائو کے باوجود اپنی، اعلیٰ عدالت کی عزت اور دستور کے احترام کے تحفظ کی جدوجہد کا آغاز کیا، اس نے انھیں قوم کی آنکھوں کا تارا بنا دیا۔ وکلا برادری نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، سول سوسائٹی اور سیاسی و دینی جماعتوں نے اس تحریک کی بھرپور معاونت کی اور چار مہینے کی جدوجہد کے نتیجے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق چیف جسٹس افتخار چودھری اپنے دستوری منصب پر بحال ہوگئے۔ لیکن ہٹ دھرم آمروقت کی آنکھوں میں یہ بحالی کانٹے کی طرح کھٹکتی رہی۔ جب اس نے دیکھا کہ عدالتِ عظمیٰ اس کے وردی میں نئے صدارتی انتخاب اور بدنامِ زمانہ مفاہمتی آرڈی ننس (NRO) کے بارے میں دستور کے مطابق اقدام کرنے کا عندیہ رکھتی ہے تو اس پر جنون کی کیفیت طاری ہوگئی۔ تب اس نے دوسرا اور نہایت مجرمانہ وار ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو ایمرجنسی پلس (emergency plus) کے نام پر کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے دستورِ پاکستان کو دوسری بار معطل کرکے ایک نئے پی سی او (PCO) کا نفاذ کیا۔ اطاعت اور تابع داری کے لیے عدلیہ کے لیے نیا حلف اٹھانا لازم کیا۔ جس کے نتیجے کے طور پر نہ صرف چیف جسٹس افتخار چودھری کو فارغ کر دیا گیا بلکہ اعلیٰ عدالتوں کے ۶۵ ججوں کو نیا حلف نہ لینے کی پاداش میں برطرف کر دیا گیا۔ ان کو اور ان کے اہلِ خانہ کو گھروں میں نظربند کر کے ایک تابع مہمل شخص عبدالحمید ڈوگر کو عدالت کا سربراہ مقرر کیا۔
۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے ۱۵ دسمبر ۲۰۰۷ء تک یہ نئی طرز کا مارشل لا نافذ رہا، جسے ڈوگر عدالت نے سندجواز عطاکر دی۔ اس وقت کی کرم خوردہ پارلیمنٹ نے جو اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہی تھی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ایما پر ۳ نومبر کی ایمرجنسی کو قرارداد کے ذریعے سندجواز دینے کی بے ڈھنگی (outlandish) حرکت بھی کرڈالی جو اس پارلیمنٹ کی طرف سے قوم کے لیے الوداعی ٹھوکر تھی۔ باضمیر ججوں، پوری وکلا برادری، تمام اہم سیاسی اور دینی جماعتوں نے دستور کو پارہ پارہ کرنے کی اس مذموم کوشش کی بھرپور مذمت کی۔ انھوں نے جنرل مشرف سے نجات اور عدلیہ کی آزادی اور اپنی اصل شکل میں بحالی کی ملک گیر مہم چلائی، جس کے ثمرات ۱۸فروری ۲۰۰۸ء کے انتخابی نتائج کی شکل میں رونما ہوئے۔ قوم نے جنرل مشرف اور اس کے حواریوں کورد کر دیا اور چیف جسٹس افتخار چودھری اور دستور اور عدلیہ کی بحالی کا وعدہ کرنے والوں کو تبدیلی کا اختیار عطا کیا۔
یہ ایک دل خراش حقیقت ہے کہ اس پورے دور میں چند ملکی قوتیں اور بیرونی طاقتیں عوام کے مینڈیٹ کو ناکام کرنے میں مصروف رہیں اور اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کی قیادت اور خصوصیت سے اس کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کا رویہ بہت ہی مشکوک رہا۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے انتخاب کے موقع پر ہی ججوں کی رہائی کا اعلان کیا، جس سے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ البتہ ججوں کی بحالی ، مشرف کے محاسبے اور دستور کو اس کی ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء سے پہلے کی اصل شکل میں بحال کرنے کے دعووں کو پسِ پشت ڈال دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ انھیں محض سیاسی تسلی کے لیے کیے گئے وعدے قرار دے کر فرار کا راستہ اختیار کیا۔ زرداری اور گیلانی کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ ڈوگر عدالت کو سینے سے لگایا بلکہ بہت بڑی تعداد میں نئے ججوں کا تقرر کردیا۔ یوں عدلیہ کی آزادی اور بحالی کا خواب چکنا چور کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ان حالات میں وکلا برادری، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے، خصوصیت سے جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بالآخر ۱۶مارچ ۲۰۰۹ء کے فیصلہ کن معرکے میں ججوں، وکلا برادری اور عوام کی تحریک کامیاب رہی اور حکومت کو عدلیہ کی بحالی کے مطالبے کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔
۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کو عدالتِ عظمیٰ کے ۱۴ رکنی بنچ کا جو اہم فیصلہ آیا ہے، وہ اس مہم کا ثمرہ اور عدلیہ کی آزادی کو دستوری، قانونی اور سیاسی تحفظ فراہم کرنے کا قانونی چارٹر ہے۔ تفصیلی فیصلہ ابھی آنے والا ہے، لیکن مختصر فیصلہ بھی ایک تاریخی دستاویز ہے، جس نے ۳نومبر ۲۰۰۷ء کو نافذ کیے جانے والے ایمرجنسی کے نام پر نافذکردہ مارشل لا اور اس کے تحت کیے جانے والے دستوری، قانونی اور انتظامی فیصلوں اور اقدامات کو غیردستوری، غیرقانونی اور ناجائز قرار دیا ہے۔ اس طرح اس فیصلے نے دستور سے بغاوت اور انحراف کے ایک تاریک باب کو ہمیشہ کے لیے بند کرنے کا کارنامہ انجام دیا ہے۔
یہ فیصلہ ہماری دستوری، قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے ہراعتبار سے تاریخی، انقلابی اور معیاری کہنے کے بارے میں تو دو آرا ہوسکتی ہیں، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی حد تک، اس فیصلے نے ماضی کے کچھ عدالتی فیصلوں اور غلط روایات کو دوٹوک انداز میں رد کر دیا ہے۔ اس بات تک کو خاطر میں نہیں لایا گیا کہ اس سے خود اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ جج متاثر ہوں گے، اور جن میں ایک محترم جج وہ بھی ہیں، جو خود اس ۱۴ رکنی بنچ کے ممبر ہیں۔ لیکن اصول کی بالادستی اور دستور کے الفاظ اور حقیقی مفہوم کے تحفظ اور تعبیر کی صحت کے لیے اس بنچ نے متفقہ طور پر دستور کی صحیح تشریح کردی ہے۔ اس طرح ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے ماوراے آئینِ اقدام اور اس کے تحت قائم ہونے والے عدالتی انتظام بشمول اس وقت کے چیف جسٹس کے تقرر کو خلافِ دستور و قانون کالعدم (null and void) قرار دیا ہے۔
چیف جسٹس حمود الرحمن کے ۱۹۷۳ء کے عاصمہ جیلانی بنام حکومت پنجاب کے فیصلے کے بعد، یہ پہلا فیصلہ ہے جس نے دستور اور عدلیہ پر فوجی قیادت کے شب خون مارنے کے اقدام کو غلط قرار دیا ہے، اور ’نظریۂ ضرورت‘ کو کم از کم جزوی حد تک رد کر دیا ہے۔ اس فیصلے میں جو اہم اصول طے کردیے گئے ہیں، وہ بہت اہم اور دُور رس اثرات کے حامل ہیں۔ اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ان اصولوں کو صاف لفظوں میں بیان کر دیں:
۱- دستورِ پاکستان، مملکت کی بنیاد اور تمام اداروں اور کارفرما قوتوں کے لیے ضابطۂ کار متعین کرتا ہے، جسے کسی صورت میں بھی توڑنے، معطل کرنے اور غیرمؤثر بنانے کا کوئی قانونی جواز نہیں۔ حکومتِ وقت کی کارکردگی کو بہانہ بناکر کسی کو دستور سے انحراف یا اس کے اِبطال کا حق نہیں اور جو ایسا کرے، اس کی حیثیت دستور کے باغی کی ہے۔
۲- ماضی میں دستور کے ساتھ یہ کھیل کھیلا جاتا رہا ہے۔ عدالتیں اور پارلیمنٹ دستور پر کیے جانے والے ان قاتلانہ حملوں کو جواز دینے کی مذموم حرکت کرتے رہے ہیں۔ ۳نومبر ۲۰۰۷ء کے اقدام کو بھی ایک غیردستوری عدالت نے جواز فراہم کرنے کی کوشش کی، لیکن وہ اپنے اولیں لمحے (ab initio) ہی سے غلط اور غیرقانونی تھی اور عدالت عالیہ کے ۱۴ رکنی بنچ نے اسے اس کی مکمل شکل میں باطل (void) قرار دیا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ دستور میں ترمیم کا حق کسی چیف آف آرمی اسٹاف کو نہیں اور جو کچھ ۳نومبر کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف نے کیا، وہ غلط اور قانون کی سند سے عاری تھا۔
۳- ۳نومبر کے اقدام کے غیرقانونی ہونے کا یہ فطری اور لازمی تقاضا ہے کہ جن ججوں کو اس کے تحت فارغ کیا گیا، وہ غلط تھا اور وہ اس جبری معزولی کے تمام زمانے میں دستور اور قانون کے مطابق جج تھے۔ اسی طرح چیف جسٹس کا عہدہ کبھی خالی نہیں ہوا اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس تقرر غیرقانونی تھا۔ اس لیے ان کے مشورے سے اعلیٰ عدلیہ کے جتنے جج صدر نے مقرر کیے، خواہ وہ مشرف کے دور میں ہوں یا صدر زرداری کے زمانے میں، وہ تمام تقرر غلط اور غیرقانونی تھے اور اس فیصلے کی رُو سے وہ سب جج فارغ ہوگئے یا اپنی اس پوزیشن پر لوٹ گئے جس پر وہ موجودہ تقرر سے پہلے تھے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ جو ۳نومبر کے اختیارات کے تحت آرڈی ننس کے ذریعے قائم کی گئی تھی، وہ بھی غیرقانونی تھی اور اسے فی الفور ختم کر دیا گیا ہے۔
۴- اسی طرح اس فیصلے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ زرداری گیلانی حکومت نے ۲۰۰۸ء کے فنانس بل کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں جو اضافہ کیا، وہ بھی غلط تھا۔ فنانس بل کے ذریعے تنخواہوں کے لیے مالی سہولت تو بہم پہنچائی جاسکتی ہے، مگر ججوں کی تعداد کے قانون میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ اس فیصلے کے بڑے اہم اور دُور رس اثرات ہوں گے، اس لیے کہ گذشتہ ۱۰،۱۵سال سے حکومتِ وقت فنانس بل کے ذریعے درجنوں قوانین میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرتی رہی ہے، جس پر سینیٹ میں بار بار اعتراض بھی اٹھایا جاتا رہا ہے اور سیاسی تجزیہ نگار بھی اس پر تنقید کرتے رہے ہیں، مگر ہر حکومت نے اس روش کو جاری رکھا ہے۔ اب اس فیصلے کی رُو سے اس دروازے کو بند کردیا گیا ہے۔
۵- اس فیصلے کے ذریعے بڑے واضح انداز میں یہ اصول بھی طے کر دیا گیا ہے کہ جج بھی اسی طرح دستور اور قانون کے پابند ہیں جس طرح باقی تمام ادارے اور افراد۔ بلاشبہہ قانون کی تعبیر کے باب میں ان کی بات حرفِ آخر ہے، لیکن ان کا تقرر، طریق ترقی و تنزل، دستور اور قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ان کو بھی اسی طرح قانون کی گرفت میں آنا چاہیے، جس طرح باقی تمام شہری آتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے ۱۰۶ ججوں پر اس فیصلے کی ضرب پڑی ہے اور یہ ایک اچھی مثال ہے۔
۶- گو عدالت کو دستور میں ترمیم کا اختیار نہیں لیکن عدالت دستور میں ترمیم کی ضرورت کی نشان دہی کرسکتی ہے اور ماضی میں بھی کرتی رہی ہے۔ اس فیصلے میں دستور توڑنے والوں کے نظام کے تحت ججوں کے نئے حلف لینے کی روایت پر گرفت کی گئی ہے اور یہ اصول طے کیا گیا ہے کہ اگر کوئی جج دستور کے شیڈول میں دیے ہوئے حلف سے ہٹ کر کوئی حلف کسی پی سی او کے تحت لیتا ہے تو یہ ایک عدالتی بداخلاقی (judicial misconduct) ہوگی اور ایسے جج کو عدلیہ سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے دستور کی دفعہ ۲۰۹ میں ترمیم تجویز کی گئی ہے۔
۷- سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے دستور میں ان ترامیم کو بھی رد کر دیا ہے جو جنرل پرویز مشرف نے ۳نومبر کے اقدام کے تحت کی تھیں۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام اقدام اور آرڈی ننس جنھیں دستور کے آرٹیکل AAA-۲۲۷ کی شکل میں تحفظ دیا گیا تھا، وہ سب غیرمؤثر ہوگئے ہیں۔ البتہ عدالت نے ان کو فوراً کالعدم قرار دینے کے بجاے دستور میں مرکزی اور صوبائی آرڈی ننس کے لیے جو مدت مقرر کی ہے (یعنی مرکزی آرڈی ننس کے لیے ۴ مہینے اور صوبائی کے لیے ۳مہینے)، وہ عدالت کے فیصلے کی تاریخ سے دے دی ہے تاکہ مقننہ اس عرصے میں ردوقبول کے عمل کے ذریعے ان کی قسمت کا فیصلہ کرسکے۔ اس کے لیے عدالت نے جس اصول کا سہارا لیا ہے، وہ دستور میں طے کردہ تقسیمِ اختیارات کا نظام ہے۔ اس طرح بظاہر عدالت نے یہ ذمہ داری اپنے اُوپر سے منتقل کرکے پارلیمنٹ کے کندھوں پر ڈال دی ہے، حالانکہ ۳نومبر کے اقدام کو اس کی زندگی کے اولیں لمحے سے کالعدم اور غیرقانونی قرار دینے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ان آرڈی ننسوں کو جن پر تین،چار مہینے نہیں، ۱۸ مہینے گزر چکے ہیں، کالعدم قرار دیا جاتا۔ لیکن یہاں عدالت نے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے اور نظام کو بچانے کی خواہش کی بنیاد پر انھیں اور ایسے بہت سے انتظامی اقدامات کو جن میں صدرزرداری کا حلف بھی شامل ہے سندِجواز دے دی ہے جس پر کچھ حلقوں نے بجاطور پر تنقید کی ہے۔
ہماری نگاہ میں اس فیصلے کے قانونی مضمرات بے حد اہم ہیں اور ملک کو دستور اور قانون کی حکمرانی کی طرف لاتے ہیں۔ اس کا کردار بہت مثبت ہوسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے ہم چاہتے ہیں کہ اس فیصلے کے چند اقتباسات یہاں دے دیں، تاکہ عدالت کی سوچ اسی کے الفاظ میں سب کے سامنے آسکے۔ عدالت کی یہ تصریحات (observations) ہراعتبار سے بے حد اہم ہیں۔ ہم آگے جو تجزیہ پیش کرنا چاہتے ہیں، اس کی ضرورت اور اہمیت کو بھی ان کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے۔
۸- فیصلے کے پیراگراف ۹ اور ۱۰ میں دستور پر فوج کی قیادت کی دست درازیوں کا جس انداز میں ذکر کیا گیا ہے، وہ اس لیے اہم ہے کہ ان تبدیلیوں کو اپنے اپنے دور میں عدالتوں نے جواز (validation ) دیا ہے۔ لیکن جو زبان ان حصوں میں استعمال کی گئی ہے، وہ ماضی سے بہت مختلف ہے۔ البتہ جیساکہ ہم بعد میں عرض کریں گے، عدالت نے اس تجزیے کے قانونی تقاضے اپنے فیصلے میں پورے نہیں کیے، جس کی تشنگی ہرصاحبِ نظر محسوس کرے گا:
۹- تقسیم کے بعد آزادی کے ۶۰ برسوں میں عوام کی بدقسمتی سے مقننہ کے بنائے ہوئے دساتیر کو کئی بار منسوخ کیا گیا اور عوام کی حکمرانی کو نشوونما پانے اور ملک کی سیاست میں گہری جڑیں پکڑنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ۳ نومبر ۲۰۰۷ء سے قبل متعدد بار دستور منسوخ کیا گیا یا معطل کیا گیا اور حکمرانی کے جمہوری نظام کو ختم کر دیا گیا۔ پہلی دفعہ ۱۹۵۶ء کا دستور ۷؍اکتوبر ۱۹۵۸ء کو منسوخ کیا گیا اور اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے مارشل لا نافذ کیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو برخواست کردیا، مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کر دی، تمام سیاسی پارٹیوں کو ختم کر دیا اور اس وقت کے کمانڈر ان چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔ چند ہی دن بعد سکندر مرزا کی جگہ موخرالذکر نے لے لی۔ ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء کو پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل آغا محمد یحییٰ خاں نے ۱۹۶۲ء کا دستور منسوخ کر دیا اور اپنے اعلان (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء مرکزی قوانین ۴۲) کے ذریعے مارشل لا لگا دیا جس کے بعد عارضی دستوری حکم نامہ (پی سی او) نافذ کیا گیا (گزٹ آف پاکستان غیرمعمولی، ۴؍اپریل ۱۹۶۹ء)۔ ۵جولائی ۱۹۷۷ء کو ایک دفعہ پھر اس وقت کے آرمی کے سربراہ جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لا لگا دیا۔ انھوں نے مارشل لا حکم نامہ (پی ایل ڈی ۱۹۶۹ء، مرکزی قوانین ۳۲۶) کے ذریعے قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کر دی اور ۱۹۷۳ء کے دستور کو معطل کردیا۔ جس کے بعد لاز آرڈر ۱۹۷۷ء نافذ کیا گیا۔ جب یہ دستور بحال ہوا تو بدنامِ زمانہ ۸ویں ترمیم کے ذریعے مسخ شدہ حالت میں بحال ہوا۔
۱۰- بعد میں، جاری جمہوری نظام پر ایک اور حملہ کیا گیا۔ ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے، جو اب ریٹائرڈ ہیں، ایک دفعہ پھر دستور کو معطل کردیا اور پورا ملک مسلح افواج کے کنٹرول میں لے آیا گیا۔ قومی اسمبلی، سینیٹ، اور صوبائی اسمبلیاں معطل کر دی گئیں۔ ساتھ ہی سینیٹ کے چیئرمین اور قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر بھی معطل کردیے گئے اور یہ اعلان کیا گیا کہ وزیراعظم، وفاقی وزرا، پارلیمانی سیکرٹری، صوبائی گورنر، صوبائی وزراے اعلیٰ اور ان کے مشیر اپنے منصب پر برقرار نہیں رہے۔ اس کے بعد پی سی او اور ججوں کا حلف نامہ ۲۰۰۰ جاری کیا گیا۔ جنرل (ر) پرویز مشرف نے اپنے آپ کو چیف ایگزیکٹو قرار دے دیا اور نئے نظام کے تحت ملک پر حکومت کرنا شروع کر دی۔ بعد میں انھوں نے صدر کے منصب پر بھی قبضہ کرلیا اور آنے والے برسوں میں دستور کو ۱۷ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا۔
۸ (vii ) حیرت ہے کہ ماضی میں اس وقت کی عدالتوں نے مہم جوؤں کو نوازنے کے لیے انھیں دستور میں ترمیم کا اختیار دیا جو دراصل ان کے کھلے اور چھپے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے تھا، لیکن اس دفعہ جنرل (ر) پرویز مشرف نے پی سی او کے ذریعے یہ اختیارات خود سنبھال لیے اور اپنے مفاد میں متعدد غیردستوری ترامیم کیں۔
اس کے بعد عدالت نے ۳نومبر کے اقدام کی تفصیلات بیان کی ہیں اور اپنے فیصلے کے اطلاقی پہلوئوں میں توجہ کو صرف ۳نومبر کی ایمرجنسی تک محدود کرلیا ہے۔ حالانکہ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت اپنے نظرثانی (review) کے اختیارات کا بجا طور پر استعمال کرتے ہوئے ماضی میں عدالتوں کے فراہم کردہ جواز اور آمروں کے دستور میں ترمیم کے حق پر واضح فیصلہ دیتی، تاکہ کم از کم دستور اور اس کی تعبیر کے باب میں دستور پر فوجی قیادتوں کی دست درازیوں کا دروازہ حتمی طور پر بند کیا جاتا۔نہ معلوم کس مصلحت کی بنا پر عدالت نے اپنی باقی توجہ صرف ۳نومبر پر مرکوز رکھی اور ۱۲؍اکتوبر ۱۹۹۹ء تک کے اقدام اور آٹھویں اور سترھویں ترمیم کو قابلِ مذمت (obnoxious) قرار دینے کے باوجود ’نظریۂ ضرورت‘ کے اس قاتلانہ کردار کو ہمیشہ کے لیے دفن نہیں کیا۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ عدالت صاف الفاظ میں یہ وضاحت کرتی کہ:
ا- دستور کو معطل کرنے، منسوخ کرنے یا غیرمؤثر کرنے کی ہر کوشش بغاوت ہے اور دستور کی دفعہ ۶ کے تحت آتی ہے۔ ایسا کرنے والے اور ایسا کرنے والے کی معاونت کرنے والے تمام افراد ایک سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں اور ان کو قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔
ب- اگرچہ یہ بات تو فیصلے میں آگئی ہے کہ کسی جج کو پی سی او کے تحت حلف نہیں لینا چاہیے، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کسی عدالت کو پی سی او کو سندِجواز دینے کا اختیار نہیں۔ اور جو ایسا کرے گا، وہ بھی دستور کی دفعہ ۶ کی زد میں آئے گا۔
ج- تیسری بات جسے دو ٹوک انداز میں عدالت کے فیصلے میں آنا چاہیے تھا، وہ یہ ہے کہ دستور میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہے جو صرف دستور میں دیے ہوئے طریقے کے مطابق کوئی ترمیم کرسکتی ہے۔ کسی عدالت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ خود دستور میں ترمیم کرے یا کسی کو ترمیم کرنے کا اختیار دے یا کسی غاصب کی طے کردہ ترمیم کو دستور کا حصہ تصور کرے۔
یہ تین بنیادی اصول اس فیصلے میں آنا چاہییں تھے، لیکن نگاہیں ان کو تلاش کرتی ہیں، ناکام ہوکر لوٹ آتی ہیں۔
۸- عدالت نے بجاطور پر یہ فیصلہ دیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کا اقدام قطعاً غیرقانونی تھا، ملاحظہ ہو پیراگراف ۱۳ (۱):
(i) ۱۳- جنرل (ر) پرویز مشرف نے ایمرجنسی پلس اور پی سی او کے پردے میں خود حاصل کردہ اختیارات کے تحت دستور میں ترامیم کیں جو سب غیردستوری ہیں، بغیر اختیار کے ہیں، بغیر کسی قانونی بنیاد کے ہیں اور اس لیے کسی قانونی نتائج کے بغیر ہیں۔
لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اس نتیجے کے باوجود اور اس اقدام کے تحت عدالتوں کے نظام میں تقرریوں اور ترقیوں کے اقدام کو کالعدم کرنے کے باوجود، غیردستوری عدالتوں کے بہت سے اقدامات پر اور غیردستوری عدالتوں کے ہاتھوں حلف لینے والی سیاسی تقرریوں پر کوئی گرفت نہیں کی گئی، حالانکہ عدالت کے لیے یہ موقع تھا کہ ایسے بیش تر اقدام کو ’نظرثانی‘ (review ) اور ’تجدید‘ (renewal) سے مشروط قرار دیتی، تاکہ ’نظریۂ ضرورت‘ کو ہمیشہ کے لیے دفن کیا جاسکتا۔ ایسے معاملات میں عدالت نے بدنامِ زمانہ ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لیا ہے، حالانکہ سیاسی نظام کو تہ و بالا کیے بغیر، ایک متعین مدت کے اندر ایسے تمام قوانین، ترجیحات، احکامات کا دوبارہ جائزہ لیا جاسکتا ہے اور تمام تقرریوں کا نیا حلف ہوسکتا ہے، جو دستور کے مطابق ہو۔ اس سے نظام کے پٹڑی سے اُترنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ اس طرح ایک غیرقانونی عمل کو ’قانونی‘ بنانے کی روایت ختم کی جاسکتی تھی۔ لیکن عدالت نے اسی نظریۂ ضرورت کا سہارا لیا ہے، خواہ جزوی طور پر ہی سہی:
۲۲ (ii) یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا منصب ۳ نومبر ۲۰۰۷ء کو ہرگز خالی نہیں ہوا اور اس کے نتیجے میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ مسٹر جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت چیف جسٹس آف پاکستان تقرر غیردستوری تھا، ابتدا ہی سے بے بنیاد تھا اور کسی قانونی اثر کے بغیر تھا۔
آگے جو کچھ کہا جائے اس کے باوجود جسٹس عبدالحمید ڈوگر کا بہ حیثیت جسٹس آف پاکستان مذکورہ غیردستوری تقرر ان کے کسی انتظامی یا مالی اقدامات کے جواز کو متاثر نہیں کرے گا۔ اور نہ کسی حلف کو جو اس منصب کے معمول کی کارروائی کے دوران ان کے سامنے لیا گیا ہو۔
۲۲ (v) سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے کسی بنچ نے فیصلے کیے ہوں، حکم نامے جاری کیے ہوں یا decrees منظر کیے ہوں، جو مذکورہ ججوں پر مشتمل ہوں یا وہ ان میں شامل ہوں، ان کو ملک اسد علی کیس پی ایل ڈی ۱۹۹۸، ایس سی ۱۶۱ میں طے شدہ دستور کے مطابق تحفظ دیا جا رہا ہے۔
اس اہم فیصلے کے یہ تضادات نگاہوں کو بہت کھٹکتے ہیں۔ اگر ۱۰۶ ججوں کو فارغ کرنے سے پاکستان میں عدل کا نظام تہ و بالا نہیں ہوا تو چند سیاسی تبدیلیوں، عہدوں کے نئے حلف اور قوانین یا اقدامات کو ایک متعین مدت کے اندر اندر دوبارہ روبہ عمل لانے اور تصحیح (rectify) کرنے سے کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔ اگر صوبہ بلوچستان کی عدالت کے سارے جج اس فیصلے سے متاثر ہوئے تو کیا غضب ہوگیا۔ ۴۸گھنٹے میں نئی تقرریاں ہوگئیں اور عدالتی عمل کی گاڑی چلنے لگی۔ جب تک اس باب میں سمجھوتے کی روش کو ترک نہیں کیا جائے گا، صحیح مثال قائم نہیں ہوسکے گی۔ اس فیصلے کی نظریاتی اور قانونی بنیادوں اور فیصلے کی زبان اور تجزیے اور تحلیل کے باوجود اسی پرانے ’نظریۂ ضرورت‘ کا سہارا لینا، یقینا اضطراب کا باعث ہے۔ بہت سے اقدامات کا ذکر کر کے جو ۳نومبر والے اختیارات کے تحت ہوئے ہیں، سیاسی نظام کے تحفظ کے نام پر ضرورت کے تحت انھیں جواز دینا تشویش ناک ہے:
(vi) ان اقدامات کو زمانۂ قدیم کے اصول Salius Populi Est Surmalex (جس کا اظہار پی ایل ڈی ۱۹۷۲ء ایس سی ۱۳۹ میں کیا گیا ہے) کے مطابق مکمل تحفظ حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے کے ان مثبت اور قابلِ غور پہلوئوں کی نشان دہی کے بعد اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس اہم فیصلے کے بعد کرنے کے بڑے بڑے کام کیا ہیں:
۱- عدالت کا تفصیلی فیصلہ ابھی آنا ہے۔ اس لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ اس میں جس حد تک بھی ممکن ہو، جن تضادات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یا جن پہلوئوں کی مزید وضاحت کی ضرورت ہے، ان کا اس میں احاطہ کرلیا جائے۔ اس طرح یہ فیصلہ ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا اور آیندہ کے لیے طالع آزمائوں اور ان کے اعوان و انصار کا راستہ روکنے کا کردار بھی ادا کرسکے گا۔
۲- عدلیہ میں نئی تقرریوں کو خالص اہلیت کی بنیادوں پر کرنے اور حکومتِ وقت کی سیاسی دراندازیوں کا دروازہ بند کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جہاں عدلیہ اور انتظامیہ میں ’اختیارات کی مکمل علیحدگی‘ کے اصول اور ضابطوں کی پابندی کی جائے، وہیں ذاتی پسند و ناپسند کا دروازہ بھی بند کردیا جائے۔ اس لیے پارلیمنٹ کو ججوں کی تقرری کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر طے کرنا چاہیے اور اس میں حکومت اور حزبِ اختلا ف کو مل کر ایک متفقہ معروضی اور شفاف طریق کار طے کر دینا چاہیے۔ یہ کام فوری توجہ کا متقاضی ہے۔
۳- وہ تمام قوانین اور آرڈی ننس جو جنرل (ر) پرویز مشرف کے پورے دورِ حکومت میں نافذ ہوئے ہیں، ان کا فوری طور پر جائزہ لیا جائے۔ جن کو ختم کرنا ضروری ہو، (جیسے شیڈول ۶ کے تحت تحفظ یافتہ قوانین یا این آر او وغیرہ) ان کو فی الفور ختم کیا جائے۔ جن کو ترمیم کے ذریعے دستور اور جمہوری اصولوں سے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہو، ان کے بارے میں فوری نئی قانون سازی کی جائے۔ اصل مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ نے ۱۸ مہینے گزر جانے کے باوجود دستور کے بگاڑ کی اصلاح اور ضروری قانون سازی کے باب میں مجرمانہ غفلت برتی ہے، اور اس کی اولین ذمہ داری پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں پر آتی ہے۔ اگرچہ سترھویں ترمیم کو ختم کرنے کا غلغلہ ہے، مگر ۱۸مہینے میں اس منزل کی جانب ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھایا گیا، حالانکہ یہ ’میثاق جمہوریت‘ (COD) اور ۷جولائی ۲۰۰۷ء میں لندن کے مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے۔ تمام بڑی جماعتوں نے اپنے اپنے منشور میں اس کا وعدہ بھی کیا ہے اور صدرزرداری، پارلیمنٹ سے اپنے دونوں خطابات میں یہ تحفہ دینے کا اعلان بھی کرچکے ہیں مگر ان کے بارے میں تو یہ کہاجاسکتا ہے ’’وہ وعدہ ہی کیا جسے وہ وفا کردیں!‘‘
۴- میڈیا اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ اگر حکومت ان بنیادی کاموں کے سلسلے میں غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے، تو وہ ان امور کو اپنی توجہ کا محور بنائیں اور راے عامہ کو ہموار بلکہ بیدار کریں۔ پارلیمنٹ میں پرائیویٹ ممبربل کی شکل میں اہم ایشو پر متبادل قوانین کو پیش کریں۔ ہمیں اچھی طرح یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ دستور، آزادی اور حقوق کا تحفظ، جدوجہد اور قربانیوں کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ۰۹-۲۰۰۷ء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے آئینے میں سیاسی جدوجہد کی اہمیت کا نقشہ دیکھا جاسکتا ہے۔ آیندہ کے لیے دستور اور جمہوری نظام کو فوجی یا دوسرے طالع آزمائوں کی یورش سے بچانا اسی وقت ممکن ہے، جب پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کرے اور غاصبوں کے مقابلے کے لیے سینہ سپر ہوجائیں۔ جن حالات سے آج پاکستان دوچار ہے، ان کا تقاضا ہے کہ جس طرح عوام نے قیامِ پاکستان کے لیے جدوجہد کی اسی طرح پاکستان کی آزادی، خودمختاری، اسلامی شناخت اور انصاف پر مبنی فلاحی اور جمہوری نظام کے قیام، دستور کی حفاظت اور قانون کی حکمرانی کے قیام اور آزاد عدلیہ کی حفاظت کے لیے بھرپور جدوجہد کریں۔
جہدِ پیہم اور مسلسل قربانیوں کے بغیر علامہ اقبال اور قائداعظم کے تصور اور وژن کے مطابق معاشرے اور ریاست کی تعمیر ناممکن ہے۔ اقبال نے یہی پیغام ہمیں دیا ہے کہ ؎
یا مُردہ ہے یا نزع کی حالت میں گرفتار
جو فلسفہ لکھا نہ گیا خونِ جگر سے
۵- ان تمام دستوری، پارلیمانی، عدالتی اور عوامی کاموں کے ساتھ ساتھ جو سب سے اہم اقدام ضروری ہے، وہ احتساب ہے۔ عوام اور عدلیہ دونوں نے دوٹوک انداز میں یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا اقتدار غاصبانہ اور ناجائزتھا۔ جنرل موصوف نے دستور کو توڑ کر دفعہ۶ کے تحت بغاوت (treason) کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے دورِاقتدار میں پاکستان کی آزادی، نظریاتی تشخص، جمہوری عمل، عوام کے حقوق، صوبوں کے مفادات پامال ہوئے ہیں۔ پھر فوج اور عوام میں دُوری ہی نہیں تصادم کی کیفیت پیدا کردی گئی ہے۔ ملک کو عملاً امریکا کی ایک کالونی بنادیا گیا ہے۔ اس افسوس ناک منظرنامے کا تقاضا ہے کہ دستور اور قانون کے تحت جنرل مشرف کا بھرپور محاسبہ ہو، اسے صفائی کا پورا موقع دیا جائے۔ جن جرائم کا اس نے ارتکاب کیا ہے، اس کے بعد محض این آر او یا مغربی اقوام کے دبائو میں اسے قانون کی گرفت سے باہر رکھنا اس قوم پر ظلم اور مستقبل کے طالع آزمائوں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔ ہم انتقام کو گناہ سمجھتے ہیں، لیکن انصاف کا قیام دین اور دنیا دونوں کا تقاضا ہے۔ صدر زرداری صاحب توجنرل پرویز مشرف کو تحفظ دے ہی رہے تھے، لیکن اب وزیراعظم گیلانی نے بھی عدالت کے فیصلے پر اولیں ردعمل میں اُلٹی زقند لگائی ہے۔ اس بات کا اعتراف کرنے کے بعد کہ ’’عدالت نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے، اب دستور کے مطابق پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا ہے‘‘، اب ایک طرف تو فرما رہے ہیں کہ ’’میں نے معاف کیا‘‘ (جیسے مشرف کے ساتھ ان کی کوئی ذاتی رنجش تھی جسے سبک سر بن کر وہ معاف کر رہے ہیں۔ سمجھنا چاہیے کہ مشرف آپ کا ذاتی نہیں، قومی مجرم اور غدار ہے۔ اس نے حدوداللہ تو پامال کیے ہی، بندوں کی حق تلفیاں بھی کیں۔ آپ حقوق العباد کے ضمن میں کیسے معافی دے سکتے ہیں)، اور دوسری طرف ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ کا راگ الاپا جا رہا ہے جو سیاسی شاعری ہے اور محض ایک فریب کاری اور مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے کے مترادف ہے۔
ایک اور کھیل بھی کھیلا جا رہا ہے، جس میں یہ نیا فلسفہ گھڑ کے بیان کیا جا رہا ہے کہ: ’’پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد ہی کے ذریعے مشرف کا محاسبہ ہوسکتا ہے‘‘۔ یہ بھی ایک فریب کاری ہے۔ ۱۹۷۳ء اور ۱۹۷۴ء کے بغاوت ایکٹ کی رُو سے دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ چلانے کی ذمہ داری مرکزی حکومت پر ہے، اور صرف اس کے ایما پر اس دفعہ کے تحت مقدمہ دائر کیا جاسکتا ہے۔ یہ قانون اپنی جگہ اس اعتبار سے بہت ناقص ہے۔ غداری اور بغاوت پوری قوم کے خلاف جرم ہے، اور ہر فرد اس کی زد میں آتا ہے۔ پارلیمنٹ میں بار بار یہ آواز اٹھائی گئی ہے کہ کسی بھی شہری کو اس قانون کے تحت مقدمہ دائر کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیے، لیکن موجودہ قانونی پوزیشن یہی ہے کہ صرف مرکزی حکومت کی مقرر کردہ اہل اتھارٹی ہی اس جرم کے مرتکب فرد کے خلاف مقدمہ دائر کرسکتی ہے۔ اس میں پارلیمنٹ یا کسی اور کا کوئی دخل نہیں ہے۔ اس لیے پوری قوم کو یک زبان ہوکر مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمے کا مطالبہ کرنا چاہیے اور حکومت کو مجبور کرنا چاہیے کہ وہ قوم کو اس غاصب کے مقابلے میں انصاف دلائے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ حکومت عوامی دبائو کے بغیر یہ اقدام نہیں اٹھائے گی۔ اگر آیندہ طالع آزماؤں کا دروازہ بند کرنا ہے تو اس مجرم کو جسے مغربی اقوام پناہ دے رہی ہیں، کیفرکردار تک پہنچانا ضروری ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا ہے اور یہ آیندہ کے لیے ملک اور دستور کی سلامتی کے تحفظ کے لیے بھی ضروری ہے۔
۶- ویسے تو جتنے قوانین اور آرڈی ننس مشرف دور میں آئے ہیں، ان سب کے جائزے کی ضرورت ہے لیکن سب سے اہم آرڈی ننس جسے منسوخ کرنا فوری ضرورت ہے، وہ این آراو ہے۔ یہ قانون شرم ناک تو ہے ہی، لیکن اس کے سایے تلے مجرموں اور قوم کی دولت لوٹنے اور معصوم انسانوں کو قتل کرنے اور غائب کرنے کے مرتکب افراد نے قانون کی گرفت سے خلاصی حاصل کر لی ہے اور لوٹ مار کے نئے کاروبار کرنے میں مشغول ہیں۔ یہ ایک قومی جرم ہے۔ احتساب کے بغیر کوئی نظام ٹھیک ٹھیک نہیں چل سکتا۔
بدعنوانی پورے ملک کو گھن کی طرح کھائے جارہی ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے ۲۰۰۹ء کے جائزے کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا ۱۵ فی صد کرپشن کی وجہ سے چند لٹیروں کے ہاتھوں میں جا رہا ہے اور مشرف کے دورِحکومت میں ملک میں کرپشن میں ۴۰۰فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ این آر او بدعنوانی کو تحفظ دینے کا کالا قانون ہے۔ امریکا، برطانیہ، مشرف اور پیپلزپارٹی کی قیادت سب اس کالے قانون کی تشکیل اور تحفظ کے جرم میں برابر کی شریک ہیں۔ زرداری صاحب، جنرل مشرف کو تحفظ بھی اسی کالے قانون کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ ہماری نگاہ میں محاسبے کا قانون اچھی حکمرانی کے لیے ازبس ضروری ہے۔ بلاشبہہ اسے اعلیٰ جوڈیشل ادارے کے ذریعے انجام دیا جانا چاہیے۔ سارا عمل شفاف ہونا چاہیے۔ ہر شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جانا چاہیے۔ یہ انتظام سب کے لیے ہونا چاہیے۔ جس میں سیاست دان، سرکاری عہدے دار، جرنیل، جج اور تاجر سب کا احتساب ہو۔ عدالتی عمل کے ذریعے جس کا جرم ثابت ہو، اسے قرارواقعی سزا ملنی چاہیے اور لوٹی ہوئی دولت وطنِ عزیز میں واپس آنی چاہیے۔ اگر سیاسی انتقام کے لیے لوگوں کو نشانہ بنایا جائے تو وہ غلط ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا ملنا چاہیے، لیکن اگر فی الحقیقت کچھ لوگوں نے بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی ہے اور قومی خزانے کو لوٹا ہے تو ان کو معاف کردینا ناقابلِ معافی جرم ہے۔
جن لوگوں پر دسیوں افراد کے قتل کے مقدمے تھے، اس قانون کے تحت انھیں کھلی چھوٹ (carte blanche) مل گئی ہے۔ جن کے اربوں ڈالر بیرونِ ملک میں موجود ہیں اور ان میں سے کچھ کی تفصیل انٹرنیٹ پر موجود ہے (مثلاً ویکی پیڈیا کی ویب سائٹ پر بنکوں کے ناموں کے تعین کے ساتھ معلومات موجود ہیں) تو آخر کس دلیل پر ان کو کھلی چھٹی دی جارہی ہے؟ جو شخص بھی پبلک لائف میں ہے، اس کا فرض ہے کہ اپنی دولت کے ذرائع کا اعلان کرے اور ثابت کرے کہ اس نے اسے جائز ذرائع سے کمایا ہے۔ اگروہ یہ نہیں کرسکتا تو اس کا احتساب ہونا چاہیے۔ محض یہ بات کہ ماضی میں مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوا، کوئی دلیل نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ کس طرح مقدمات میں پیشیاں لے لے کر فیصلے کو تعویق میں ڈالا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جھوٹے حلف نامے اور بیماریوں کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔ ان سب حیلوں بہانوں کے ساتھ پاک دامنی کا دعویٰ چہ معنی دارد۔
احتساب سب کا ہونا چاہیے، کسی کو بھی اس سے استثنا نہیں دیا جاسکتا۔ اس لیے این آر او کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیے اور جو افراد اس کالے قانون کی وجہ سے فیض یاب ہوئے ہیں، ان کو اپنی پاک دامنی عدالتی عمل کے ذریعے ثابت کرنا ہوگی۔ اگر مشرف کا محاسبہ اور این آر او میں پناہ لینے والے پردہ نشینوں کا کھلا اور شفاف احتساب نہیں ہوتا، تو نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور نہ ملک کو کرپشن سے پاک کیا جاسکے گا۔ ۳۱ جولائی ۲۰۰۹ء کے فیصلے کا یہ بھی اتنا ہی اہم تقاضا ہے جتنے دوسرے دستوری اور قانونی اقدامات___ اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف پر دفعہ ۶ کے تحت مقدمہ اور این آر او کو ختم کرکے اس کے تحت رخصت لینے والے تمام افراد کا اعلیٰ عدالتی ٹریبونل کے سامنے احتساب اور متعین وقت میں ان کا فیصلہ ملک کو جمہوریت اور ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کے لیے ضروری ہے ع
گر یہ نہیں تو بابا، پھر سب کہانیاں ہیں!