انسانی معاشرہ کسی جامد چیز کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک زندہ وجود کا نام ہے۔ جس طرح انسان اچھی یا بُری چیز سے تاثر لیے بغیر نہیں رہتا، اسی طرح ایک معاشرہ بھی اچھی یا بُری قدروں سے لازماً متاثر ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں تو پاکستانی معاشرہ بھی ہر دو طرح کے رویوں سے اثرپذیری کا زندہ ثبوت پیش کرتا ہے۔ ایک جانب اگر اسلامی تہذیب، معاشرت اور اخلاقیات سے بغاوت اور اباحیت پسندی کا رویہ طوفان اُٹھا رہا ہے، تو دوسری جانب نمازِ جمعہ کی طرف رجوع، عمرے اور حج کا شوق، اعتکاف کے لیے تڑپ، نعت کی شبینہ مجالس کی کثرت، مذہبی اجتماعات اور مذہبی پارٹیوں سے وابستگی کا رجحان بھی روز افزوں ہے۔
دوسری طرف یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ مذہبی شعائر پر عمل کرنے والوں کی تعداد میں اضافے کے باوجود، دینی اور اسلامی تہذیبی اقدار کے مخالف عناصر، ماضی کی نسبت کہیں زیادہ جارحیت اور بے باکی کا رویہ اپنائے نظر آتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں اسلامی اور تہذیبی اقدار کے علَم بردار طبقے اور افراد عمومی طور پر لاتعلق، بے حِس یا اس یلغار کے سامنے بے عمل نظر آتے ہیں، یعنی اکثریت بے بسی کی تصویر اور اقلیت جارحیت کے جذبے سے سرشار اور درجہ بہ درجہ آگے بڑھنے کی علامت۔ یہ تو نہیں کہ جارحیت کا جواب جارحیت سے دیا جائے، مگر یہ ضروری ہے کہ اسلامی تہذیبی اقدار پر اس جارحانہ یلغار کو جرأت، دلیل، بالغ نظری اور منظم طریقے سے بے نقاب کیا جائے۔مثال کے طور پر:
۱- ہمارے ہاں، نجی شعبے میں موجود سفری سہولتوں (کوچز، بسوں اور ویگنوں) میں اگرچہ پہلے تو ٹیپ ریکارڈر پر گانوں کے شور نے اذیت ناک صورت حال پیدا کر رکھی تھی، لیکن جب ٹرانسپورٹروں اور ڈرائیور حضرات نے دیکھا کہ معاشرے نے خاموشی کے ساتھ اس طوفانِ بدتمیزی کو ہضم کر لیا ہے تو اگلے قدم کے طور پر ان میں وی سی آر پر فلموں کی نمایش کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں ذرا جھجک تھی تو کچھ ڈراموں، کارٹون اور دستاویزی فلموں سے ابتدا کی گئی، مگر جلد ہی بھارتی فلموں اور گانوں کی نہ ختم ہونے والی ریکارڈنگ نے جگہ لے لی۔ آج حالت یہ ہے کہ کوئی معقول انسان اس بے حیائی کے ہم قدم سفر کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ ان آلایشوں کے ساتھ سفر کرنا تو ناممکنات میں شامل ہوچکا ہے۔ انسان مجبوری کے تحت سفر کرتا ہے، غصہ پی کر رہ جاتا ہے۔ اُس کی اس مجبوری پر آوارگی اور بے حیائی حملہ آور ہوتی ہے تو وہ بے بسی میں خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ دورانِ سفر اگر کوئی فرد ہمت کرکے کہہ بیٹھے کہ ’’ڈرائیور صاحب اسے بندکردیجیے‘‘، تو پہلے ڈرائیور صاحب اور پھر متعدد مسافر اس فرد کو یوں دیکھتے ہیں، جیسے یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے۔ ایک دو تو آوازہ بھی کس دیتے ہیں، حالانکہ اس کوچ میں اکثریت ان لوگوں کی ہوتی ہے جو اسے دیکھنا نہیں چاہتے، مگر وہ سب غیرت اور حیا کو تھپک کر سلاتے اور پھر آنسو بہاکر شیطنت کا نظارہ کرنے یا اہلِ خانہ کو نظارہ کرانے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔
ایسا ہی معاملہ بعض اوقات ان گانوں کی شکل میں سامنے آتا ہے، جنھیں ڈرائیور حضرات پوری آواز کے ساتھ مسافروں کے کانوں میں انڈیل رہے ہوتے ہیں، اور اس پر غضب یہ کہ نہایت لچر اور واہیات بول آگ برسا رہے ہوتے ہیں۔ مگر اپنی بے بسی کا ماتم کرتے ہوئے، مجسم غلامی کی تصویر سواریاں خاموشی سے سفر کرتی رہتی ہیں۔ اب مصیبت یہ دَر آئی ہے کہ چھوٹی ویگنوں میں بھی چھوٹی اسکرین پر گانے دکھانے اور دھماچوکڑی کا ظلم ڈھانے کا کلچر ترقی کر رہا ہے۔ یوں رفتہ رفتہ یہ چیزیں ہماری سماجی زندگی کا حصہ بنتی جارہی ہیں اور شرافت منہ چھپا کر کڑھنے کو اپنا نصیب قرار دے رہی ہے۔ کیا واقعی حیا اور شرافت کا مطلب بے بسی اور بے عملی ہے؟
۲- اسی طرح بڑے اور چھوٹے شہروں میں خواتین کے کپڑے فروخت کرنے والوں کی دکانوں پر عورتوں کی شبیہیں، بت یا ڈمّیاں (dummies) بہ کثرت دکھائی دیتی ہیں۔ ان دکان داروں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ ان بتوں کے سہارے ہی ان کا کاروبار چل سکتا ہے۔ ایسی اُمت کہ جس کے رسولؐ نے فتح مکہ کے موقع پر بتوں کو گرایا، انھی کے نام لیوا دولت کی ہوس کے لیے نہ صرف بتوں بلکہ شرمناک بتوں کا سہارا لیتے اور اسے ’کاروباری مجبوری‘ قرار دیتے ہیں ؎
بتوں سے تجھ کو اُمیدیں، خدا سے نومیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے؟
اب سے ۲۵، ۳۰ سال قبل جن دکانوں پر ایسے ماڈل رکھے ہوتے تھے، لوگ انھیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے اور توجہ بھی دلاتے تھے، مگر اب یہ ’ڈمی کلچر‘ اس پیمانے پر پھیل چکا ہے کہ بت شکن اُمت کی نئی نسل یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ شاید روزِ اوّل سے کاروبارِ زندگی میں یوں ہی ہوا کرتا تھا، حالانکہ یہ چیز حالیہ عشروں میں ہمارے ہاں زبردستی در آئی ہے۔ ان مظاہر کا سامنا کرتے ہوئے کوئی بھی معقول انسان نظریں نیچی کیے اور شرمندگی کے پسینے میں نہائے بغیر رہ نہیں سکتا۔
۳- خاص طور پر بڑے شہروں کے بس اسٹاپوں پر بعض اوقات یہ مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ کوئی خاتون یا طالبہ بس، ویگن کے انتظار میں کھڑی ہے۔ اچانک کسی کار یا موٹرسائیکل پر سوار کوئی مرد اسے گُھورتا، گاڑی کو کبھی آگے اور کبھی پیچھے کرکے، ایسی گھٹیا نظروں سے اشارے کرتا نظر آئے گا کہ بے چاری خاتون تو سہم جائے گی اور شرمندگی کے احساس میں کانپ رہی ہوگی، مگر اسی بس اسٹینڈ پر کھڑے بیسیوں نوجوان، شریف اور باوقار مرد اس جارحانہ ڈرامے سے لاتعلق دکھائی دے رہے ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ نہایت ضروری کام اور مجبوری کے ہاتھوں اگر کوئی شریف زادی سواری کا انتظار کرنے کے لیے اسٹاپ پر کھڑی ہے تو وہ ایسے توہین آمیز رویے کو کیسی بے بسی میں برداشت کرے گی اور شریف اکثریت، ریت میں منہ دھنسائے اپنی راہ لے گی؟ کیا غنڈا کلچر کے سامنے شرافت نے یوں ہی زندگی بسر کرنی ہے؟
۴- کیبل سروس کے ذریعے بیسیوں چینل ایک انگوٹھے کی ضرب سے تمام برے بھلے پروگراموں کے ذریعے ٹیلی ویژن اسکرین پر آموجود ہوتے ہیں۔ یہ امر بھی سامنے رہے کہ اکثر ٹیلی ویژن اور اخبارات نے منظم دبائو کے ساتھ پورے معاشرے کو فکری اور تہذیبی طور پر یرغمال بنالیا ہے۔ پریس کی آزادی کے تمام تر احترام اور ایک صحت مند معاشرے کے لیے اس کی کماحقہٗ ضرورت کا پاس و لحاظ رکھنے کے باوجود، یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ کیا تہذیب اسی کو کہتے ہیں کہ اس سے وابستہ چند سو افراد، ۱۷ کروڑ افراد کو جس انداز سے چاہیں، ہانکتے چلے جائیں مگر یہ عظیم اکثریت ان سے سوال کربیٹھے تو ’آزادیِ صحافت‘ پر حملے کی دہائی دی جاتی ہے۔
کیبل سروس کے حوالے سے دو باتیں قابلِ غور ہیں: اوّل یہ کہ کیبل آپریٹر کون سے چینل فراہم کر رہا ہے اور دوم: یہ کہ خود کیبل کے ذریعے در آنے والے ٹیلی ویژن چینل کیا دکھا رہے ہیں؟ ان چینلوں پر نمایاں طور پر تین چیزیں توجہ طلب ہیں: اشتہارات، ڈرامے اور ٹاک شو___ اشتہارات کے سلسلے میں یہ بات توجہ طلب ہے کہ جب تک اشتہار لچرپن سے آلودہ نہیں ہوگا، وہ اپنا مدعا بیان نہیں کرسکے گا؟ خصوصاً کثیر قومی (multi national) کمپنیوں کے اشتہار، وہ کمپنیاں جو دنیا بھر سے مال ودولت جمع کرکے اپنی تجوریاں بھرنے نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ ان کے نزدیک اصل چیز پیسہ ہے، وہ جس طرح اور جس قیمت پر بھی آئے۔ ان کے نزدیک صارف ممالک کی رعایا، ان کے سامنے بے بس اور ’بے وقوف شکار‘ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ ان کے ہاں اخلاقی یا تہذیبی قدروں کا مسئلہ تو سرے سے خارج از بحث ہے۔
اب اہلِ وطن کو سوچنا ہے کہ ہم اپنا پیسہ دینے اور فنی سہولت حاصل کرنے کے ہمراہ، تہذیبی اور ایمانی سطح پر کیا لے رہے ہیں؟ ماہرین ابلاغیات کے نزدیک اشتہار ایک مختصر، مگر نہایت مؤثر ڈراما ہوتا ہے اور اس ڈرامے کے سب سے بڑے شکار بچے ہوتے ہیں اور پھر دوسرے درجے میں خواتین۔ ان اشتہاروں میں متعدد ایسے ہیں کہ جنھیں کوئی غیرت مند انسان ایک بار بھی دیکھنا گوارا نہیں کرتا، مگر وہ بار بار دیکھنے کو ملتے ہیں۔ دوسری جانب بچے ان کی گرفت میں مسحور ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا پورا معاشرہ ان عالمی ساہوکاروں کے سامنے محض ایک ایسا گونگا گاہک ہے، جو حمیت، دولت اور تہذیب کو ان کی چوکھٹ پہ قربان کرنے پر مجبور ہے!
ایک اور اہم چیز ٹی وی کے ڈرامے ہیں جن کا ہماری عمومی سماجی زندگی سے تو تعلق نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے، مگر گلیمر، فیشن، بے ہودہ لباس، بے باکی اور بدیسی طرزِ زندگی کا ایک چلتا پھرتا سرکس بن کر یہ ڈرامے انسانوں کو فتح کرنے اور اپنے رنگ میں رنگنے کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ ڈراما بہرحال مقامی ڈراما نویسوں اور مقامی پروڈیوسروں کے دماغ کی اختراع ہوتا ہے۔ اسی طرح دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی معاشرت میں اس طبقے کا کیا حجم ہے کہ جہاں بیٹی چیخ اور چلّا کر اپنے ابّا اور امّی سے یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ: ’’زندگی میری ہے، جیسے چاہوں اسے بسر کروں‘‘۔ یا یہ جملہ کہے: ’’ٹھیک، شادی نہیں کرتے، مگر اچھے دوستوں کی طرح تو ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں گے‘‘۔ یہ دو جملے جس طرزِ زندگی اور طرزِ فکر کی نشان دہی کرتے ہوئے، نوجوان بچوں اور بچیوں کو اپنی تقلید کی طرف مائل کرتے ہیں، کیا وہ یہاں کے کروڑوں انسانوں کی زندگی کا چلن ہے یا ایک نہایت قلیل اباحیت پسند ٹولے کا ذہنی فتور؟ انھی ڈراموں میں غیرحقیقی امیرانہ شان و شوکت اور بے زاری و بے قراری کے طوفان___ کہاں ہے یہ پاکستانی معاشرے کی تصویر؟ مگر بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ’سفلی محبت‘ کے ان ریفریشر کورسوں کو درست سمت عطا کرنے کے لیے کتنے شرفا نکلتے، لکھتے یا اپنے اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہیں؟ شاید کوئی بھی نہیں۔
اسی طرح مباحث یا ’ٹاک شوز‘ میں اکثر توازن نہیں ہوتا۔ بعض اوقات کسی ایک ہی فکر کے لوگوں کی کثرت ہوتی ہے اور اکثر تو خود ’اینکرپرسن‘ کا رویہ نہایت تحکمانہ اور گاہے توہینِ آمیز ہوتا ہے، جب کہ بحث میں حصہ لینے والے حضرات اور گلی میں لڑتے جھگڑتے بچوں کے طرزِعمل میں کوئی بنیادی فرق نہیں نظر آتا۔ ظاہر ہے ٹیلی ویژن، استاد کی طرح بڑے پیمانے پر افکار کی تشکیل کرنے اور شائستگی یا ناشائستگی سکھانے کا کام انجام دے رہا ہے۔ مذکورہ صورت حال کسی صحت مند مستقبل کی طرف نہیں، بلکہ عدمِ برداشت کے کلچر کی طرف لے جانے کا کام کرتی ہے۔ کیا کوئی توانا اور باوقار آواز اس رویے کو درست کرنے کے لیے توجہ دلاتی نظر آتی ہے؟ شاید کوئی نہیں۔
۵- اگرچہ بدکاری ایک معاشرتی ناسور کی شکل میں موجود تھی، تاہم نومبر ۲۰۰۷ء میں ’روشن خیال‘ جنرل مشرف کی زیرقیادت مسلم لیگ (ق)، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے حدود قوانین کا جو حلیہ بگاڑا ہے، اس نے اس گھنائونے جرم کی رفتار کو بہت تیز کردیا ہے۔ اس کاروبار کی حرکیات اور مظاہر پر تفصیلات بیان کرنے کی یہاں گنجایش نہیں، فقط ایک دوحوالوں سے معروضات پیش ہیں:
پہلی بات تو یہ کہ ’حدود قوانین‘ میں ترمیم ۲۰۰۷ء کے بعد عمومی سطح پر یہی تاثر عوام تک منتقل ہوا کہ: ’’اب بالرضا بدکاری، قابلِ دست اندازیِ پولیس نہیں رہی ہے۔ اور اس تاثر کو گہرا کرنے کے لیے روزنامہ جنگ، جیو ٹیلی ویژن اور خودساختہ ’علماے کرام‘ کی دو سال پر محیط جارحانہ، یک رُخی اور مسلسل مہم نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اس قانون کی منظوری کے بعد لاری اڈوں، بازاروں، بعض ہوٹلوں اور کئی گیسٹ ہائوسوں تک میں بے باکی اور ’کاروباری فعالیت‘ کے مناظر ترقی پانے لگے۔ اس تاثراتی دبائو کے نتیجے میں خود پولیس دس قدم پیچھے ہٹی ہے، اور انسانیت کی تذلیل کے ایجنٹ بیس قدم آگے بڑھے ہیں۔
دوسری بات: اس ناسور کی جارحیت کا اندازہ اہلِ پاکستان کو اُس وقت ہوا جب جولائی ۲۰۰۹ء میں کراچی میں جنسی کنونشن منعقد ہوا۔ جس کی بہت سی تفصیلات بیان کرنا قرین مصلحت نہیں ہیں، بہرحال بی بی سی لندن نے ۲۲ جولائی ۲۰۰۹ء کو اس کنونشن کے بارے میں جو رپورٹ نشر کی، اس کے چند اقتباسات اُس کے نمایندے ارمان صابر کے حوالے سے پیش ہیں:’’جنسی کارکنوں کے کنونشن کی ایک ۲۸سالہ مندوب نے بتایا: اب معاشرے نے ہمارے وجود کا احساس کرلیا ہے، تاہم بدکاری ابھی تک اس مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں غیرقانونی دھندا ہے۔ اگرچہ اس کا وجود تو صدیوں سے ہے، مگر کبھی اس کے لیے سپاس و اعتراف کا اظہار نہیں کیا گیا۔ ہرچند کہ گذشتہ دوعشروں کے دوران میں، پاکستان میں اسلامیت میں اضافہ ہوا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمارا یہ دھندا بھی ترقی پا رہا ہے۔ پہلے ہم چوری چھپے یہ کاروبار کرتے تھے، لیکن اس کنونشن نے ہمیں مل بیٹھنے، تبادلۂ خیال کرنے اور اپنے تجربات بیان کرنے کا موقع اور تقویت دی ہے۔ہمیں کشادہ روی کا احساس دیا ہے۔ اب ہم اپنے حقوق کے لیے بھی آواز اُٹھا سکیں گے‘‘۔
بی بی سی کے نمایندے کے بقول: این جی او، جینڈر اینڈ ری پروڈکٹیو ہیلتھ فورم (GRHF) نے یہ کنونشن اقوامِ متحدہ کے ادارے فنڈ فار پاپولیشن (UNFP) سے مل کر منعقد کیا ہے۔ ایک سو طوائفوں پر مشتمل اس کنونشن کے احوال بیان کرتے ہوئے نمایندے نے رپورٹ دی ہے:
کنونشن میں شریک پیشہ وروں میں سے بہت سی ایسی تھیں، جنھوں نے کیمرے کی تصویر بنانے سے روک دیا اور کہا: ’’ہمیں خوف ہے کہ اپنے اہلِ خاندان کے سامنے بے نقاب ہوجائیں گے‘‘۔ بہت سی کہہ رہی تھیں: ہمارے خاوند اور اہلِ خانہ نہیں جانتے کہ ہم اس کاروبار سے منسلک ہیں، وہ یہی جانتے ہیں کہ ہم نجی کمپنیوں میں ملازم ہیں‘‘۔ ایک مقامی این جی او کے سروے کے مطابق کراچی میں ایسی فاحشہ عورتوں کی تعداد ایک لاکھ ہے، لاہور میں ۷۵ ہزار اور فوجیوں کے شہر راولپنڈی میں ۲۵ ہزار‘‘۔
اسی رپورٹ کو انگریزی روزنامہ دی نیوز نے ۴؍اگست ۲۰۰۹ء کو ہوش ربا تفصیل کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یہی گروپ آیندہ لاہور اور دوسرے شہروں میں ’کنونشن‘ منعقد کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو ایک این جی او ’عمل ہیومن ڈویلپمنٹ نیٹ ورک‘ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ: ’’ہم نے ۲۰۰۶ء میں ایسی ۹۱۸ شرکا کی، ملک بھر میں ’تربیت‘ کی تھی۔ اس تربیتی پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوتا تھا‘‘۔
جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ یہاں بہت سی تفصیلات عمداً بیان نہیں کی جارہی، فقط چند سطور نقل کی گئی ہیں۔ اس مناسبت سے چند امور توجہ طلب ہیں:
___ پہلا یہ کہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حسی دیکھ کر نہ صرف اس جرم میں اضافہ ہورہا ہے، بلکہ اس جرم کو ایک ’کاروبار‘ اور ’کارکن‘ یا ’مزدوری‘ سے منسوب کرکے، ایک معمول کی چیز کا قرار دیا جا رہا ہے۔
___ دوسرا یہ کہ عالمی اداروں کی امداد پر چلنے والی این جی اوز معاشی اور سماجی استحصال سے پاک معاشرے کے قیام سے زیادہ دل چسپی اس امر میں رکھتی ہیں کہ جو خرابی موجود ہے، اسے جوں کا توں رہنے دیا جائے، تاہم کچھ آرایشی اقدامات کرکے سبک دوش ہوا جائے۔ انھیں اس چیز کی کوئی فکر نہیں کہ کسی ستھرے متبادل کاروبار کا بندوبست کیا جائے، بلکہ دل چسپی اس سے ہے کہ گندگی خوش نما نام سے برقرار رہے۔
___ تیسرا یہ کہ اپنے ہدف کی ایسی مبالغہ آمیز تصویر پیش کی جائے کہ عامۃ الناس ذہنی شکست سے دوچار ہوجائیں۔ ایسے مبالغہ آمیز اعداد وشمار کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی ہیں، تاہم اُوپر بیان کردہ رپورٹ کے اعداد و شمار کا ذرا تجزیہ کریں، مثلاً کراچی کی آبادی ایک کروڑ ۱۰لاکھ ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہرعمر کی خواتین کی تعداد تقریباً ۵۵ لاکھ ہوگی۔ تو کیا مذکورہ رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ایک لاکھ عورتیں اس ’کاروبار‘ کا حصہ ہیں تو گویا وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہر۱۰۰میں ۲عورتیں ایسی ہیں۔ کیا عقل اور مشاہدہ ان گھنائونے اعداد و شمار کی تائید کرتا ہے؟ بالکل یہی فی صد لاہور کے بارے میں پیش کیا گیا ہے اور اسی سے ملتی جلتی شرح راولپنڈی سے منسوب کی گئی ہے۔ یہ کون سی این جی اوز ہیں، اور ان کی ایسی مبالغہ آمیز تصویرکشی کے کیا مقاصد ہیں؟ یہ ثابت کرنا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک اخلاق باختہ اور اخلاقی و جنسی اعتبار سے گندا ملک ہے۔ یہ کہ یہاں اس صورت حال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کرلیا گیا ہے اور ایسی مبالغہ آمیز صورت کے سامنے اخلاقی اور دینی پہچان رکھنے والی قوتیں عملاً شکست کھاچکی ہیں۔
___ چوتھا یہ کہ بی بی سی کی رپورٹ نے ’ بے نقاب‘ ہونے سے بچنے کے لیے شرکا کی جس ’مجبوری‘ کی طرف اشارہ کیا ہے، اس نے توگویا محنت، دفتر اور ہُنر سے وابستہ دیگر خواتین کی ساکھ کو دائو پر لگا دینے کی کوشش کی ہے۔ شک، بے اعتمادی اور جرم کے اس منظرنامے کو پیش کرکے این جی او نے کارکن اور محنت کش خواتین کی پوزیشن خراب کی ہے۔
___ پانچواں یہ کہ ان لوگوں کو: ’’ایسے پروگراموں سے تقویت ملی ہے اور وہ معاشرے میں اپنی تمام آلایشوں کے باوجود ’’باقاعدہ حقوق کے امیدواربھی ہیں‘‘۔
ان افسوس ناک اور شرم ناک حالات میں اہلِ ایمان کا ردعمل کیا ہونا چاہیے؟
یہ سوال دنیا میں کامیابی اور آخرت میں جواب دہی دونوں اعتبار سے اہم ہے۔ تاریخ کا ناقابلِ فراموش سبق یہ ہے کہ برائی کو اگر برداشت کیا جائے تو وہ پنپتی اور بڑھتی ہے اور اگر نیکی کی قوتیں اس کا مقابلہ کریں تو بالآخر اسے پسپا ہونا پڑتا ہے۔ خاموشی اور بے غیرتی سے برائی کو گوارا کرنا اگر ایک طرف اخلاقی جرم ہے تو دوسری طرف تہذیبی بگاڑ اور اجتماعی تباہی کا ذریعہ اور پیش خیمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہرمسلمان اور بحیثیت مجموعی اُمت مسلمہ کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا حکم دے کر بگاڑ کے غلبے کا راستہ بند کیا ہے۔ منکر کے مقابلے میں مداہنت محض بے غیرتی ہی کا رویہ نہیں بلکہ ایمان کے تقاضوں کے بھی منافی ہے۔ اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے اپنی تعلیمات اور اسوئہ مبارکہ دونوں کے ذریعے اہلِ ایمان کو بدی کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنے سے روکا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ صرف انفرادی نیکی ان کو اجتماعی تباہی اور آخرت کی جواب دہی سے نہیں بچاسکتی۔
جس معاشرے میں خدا کی نافرمانی اور فحش کا رواج عام ہوجائے اس کے دن گنے جاتے ہیں اور اس معاشرے کے وہ افراد جو صرف اپنے دامن کو بدی سے بچانے پر قناعت کرلیتے ہیں اور بدی سے معاشرے کو پاک کرنے کی مناسب سعی و جہد نہیں کرتے وہ بھی اللہ کے عذاب کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ جن اصولوں کو بیان کیا گیا ہے، ان میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں: ایک یہ کہ برائی، بدی، فحش اور بداخلاقی، اخلاقی اور اجتماعی جرم ہیں اور ان سے بچنا دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ دوسرے یہ کہ صرف خود بچنا کافی نہیں بلکہ معاشرے کو ان سے پاک کرنا اور ان کے فروغ کے آگے بند باندھنا ایمان کا تقاضا اور اجتماعی زندگی کو بگاڑ اور تباہی سے بچانے کے لیے ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اس قاعدہ کلیے کو مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ تفہیم القرآن میں اسی آیت کی تشریح میں یوں بیان کرتے ہیں: ’’اس سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وباے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں، ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں جنھوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہوجاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سَمِیّت [زہریلاپن] پھیل جاتی ہے، اور اس کے نتیجے میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے اور گندے ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو ان کے نقصانات محدود رہتے ہیں۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہوجاتا ہے، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اُس میں نہیں رہتی، جب اس کے درمیان بُرے اور بے حیا اور بداخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو علانیہ اُچھالنے اور پھیلانے لگتے ہیں، اور جب اچھے لوگ بے عملی (passive attitude) اختیار کر کے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہوجاتے ہیں، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنۂ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسولؐ جس اصلاح و ہدایت کے کام کے لیے اُٹھا ہے، اور تمھیں جس خدمت میں ہاتھ بٹانے کے لیے بلا رہا ہے، اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمھارے لیے زندگی ہے۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جو سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے، تو وہ فتنۂ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی، خواہ بہت سے افراد تمھارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں‘‘۔ (تفہیم القرآن، ج ۲، ص ۱۳۸-۱۳۹)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی اصولی ہدایت کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ: اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامۃ الناس کی یہ حالت نہ ہوجائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہارِ ناراضی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہارِ ناراضی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔ (مسنداحمد، ۴؍۱۹۲، مشکوٰۃ المصابیح)
۱- سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے ٹریفک کے کیا اصول وضع کیے ہیں؟ کیا ان قوانین کے تحت سڑک پر دوڑتی گاڑیوں میں ریکارڈنگ اور فلم بینی کی گنجایش موجود ہے؟ اگر قوانین میں سقم ہے تو اسے بدلوانے کے لیے کاوش کرنا ہوگی اور اگر پابندی ہے تو انھی قوانین کی بنیاد پر ٹریفک پولیس، ہائی وے پولیس، موٹروے پولیس وغیرہ کو فون کر کے مسلسل اطلاع دینا ہوگی۔ اس شعور کی بیداری کے لیے قوانین اور ٹیلی فون نمبروں پر مشتمل پمفلٹ اڈوں پر تقسیم کرنے ہوں گے۔ جب بھی گاڑی میں بیٹھیں، گاڑی کا نمبر نوٹ کر کے بیٹھیں اور اگر ایسی بے راہ روی ہو تو فون کر کے پولیس کو اطلاع کریں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ انتہائی نرمی سے ڈرائیور یا کنڈکٹر سے کہیں کہ آپ کی مہربانی ہوگی، یہ نہ چلائیں۔ ڈرائیور الجھنا چاہے تو الجھنے سے اجتناب کریں۔ ممکن ہو تو اکیلے بات کرنے کے بجاے کسی اور سواری کو بھی ساتھ لے لیں۔ ممکن ہے آپ کی فوری طور پر یہ کاوشیں کامیاب نہ ہوں، لیکن اس کے باوجود اس کوشش کا اثر ضرور ہوگا۔
۲- دکانوں پر عورتوں کی ڈمیاں رکھنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کے لیے: اگر دکان دار رشتہ دار ہیں تو سمجھائیں، اگر محلے دار ہیں تو جاکر توجہ دلائیں، اگر بازار میں ہیں تو کچھ شہریوں پر مشتمل، کسی بھی نام کی انجمن کی شکل میں، اکٹھے جاکر متوجہ کریں۔ اگر گاہک ہیں تو سودا لیتے وقت یا سودا لینے کے بعد مالکِ دکان سے کہیے۔ اگر اس کام کو تسلسل کے ساتھ بار بار لوگ کریں گے تو لازماً اس کا مثبت نتیجہ نکلے گا۔ اگر استاد ہیں تو اپنے طلبہ و طالبات کے ذہن نشین کرائیں کہ اس خرابی کو پروان چڑھتے یوں ہی دیکھتے رہے تو یہ بت فروش اور بت پرست معاشرہ بن کر رہ جائے گا۔
۳-بس اسٹاپوں پر جو لوگ خواتین کو اس طرح تنگ کریں، انھیں سمجھانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اگر جذبات پر کنٹرول رکھ کر متوجہ کریں گے تو یقینا جھگڑا نہیں ہوگا۔ اگر آگے بڑھ کر روک نہیں سکتے تو کم از کم ان کی گاڑیوں کے نمبر نوٹ کرکے پولیس کو ۱۵ پر اطلاع کریں۔
۴- کیبل والوں سے جاکر اجتماعی طور پر بات کی جاسکتی ہے کہ کن چینلوں کو آگے نہ بھیجیں۔ اسی طرح ٹیلی ویژن کے مالکان یا ان کے علاقائی دفاتر کولگاتار فون کرکے، وفود کی صورت میں مل کر اور میمورنڈم بناکر بھی متوجہ کیا جاسکتا ہے کہ کون سے اشتہار قابلِ اعتراض ہیں۔ مخربِ اخلاق پروگرام کون سے ہیں اور کون سے ٹاک شو دینی، تہذیبی اور قومی حوالے سے غلط پیغام پہنچا رہے ہیں۔ پھر مختلف کمپنیوں سے کہا جاسکتا ہے کہ آپ کے یہ اشتہار اور مخرب اخلاق ماڈلوں پر مشتمل بڑے بڑے ہورڈنگ ہماری معاشرتی اقدار سے مطابقت نہیں رکھتے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ تاجر لوگ آپ کے ایسے چند سو ٹیلی فونوں کی بنیاد پر اپنی اشتہاری مہم کو تبدیل کردیںگے۔ پھر اشتہار بنانے والی کمپنیوں سے مرد حضرات، خواتین کے وفود اور طالب علموں کی ٹیمیں جاکر ملیں، دلیل سے بات سمجھائیں تو یقینا اس کا اثر ہوگا۔ اس مقصد کے لیے ٹیلی ویژن چینلوں کے پتے، افراد کے رابطہ نمبر، کثیر قومی کمپنیوں کے دفاتر اور ڈائرکٹروں، ڈراما نویسوں اور پروڈیوسروں کے رابطہ نمبر اور اشتہارساز کمپنیوں کے پتے، پمفلٹوں کی صورت میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔
۵- بے راہ روی کے اڈوں یا کرداروں کے بارے میں بھی یہی حکمت عملی مناسب رہے گی کہ اہلِ محلہ اس بارے میں مشترکہ کاوش کریں، پہلے سمجھائیں ورنہ انتظامیہ کو اطلاع دیں۔ یہی رویہ بازاروں میں اپنانا چاہیے۔
نہایت اہم بات یہ ہے کہ یہ ساری جدوجہد، آئین، قانون اور اخلاقی دائرے کے اندر رہتے ہوئے مگر زوردار اور دبنگ انداز میں ہونی چاہیے۔اگر قانون کو ہاتھ میں لیں گے تو نتائج ضائع ہوسکتے ہیں۔ اس سمت میں پیش رفت کے لیے لازم ہے کہ تشدد کا راستہ ہرگز نہ اپنایا جائے اور بے جا اشتہاربازی سے اجتناب کیا جائے۔ تحقیق و تجزیے اور ضروری معلومات کی فراہمی کے لیے انتظامی دفاتر، اور وکلا سے مدد لی جاسکتی ہے، جب کہ استدلال کے لیے اجتماعی بحث و تمحیص مددگار ہوسکتی ہے۔ ان پانچوں نکات کے بارے میں تمام مکاتبِ فکر کے علما کو اعتماد میں لیا جائے، اساتذہ کو متوجہ کیا جائے، اپنے اپنے محلے، قصبے یا گلی میں درسِ قرآن (مردوں اور عورتوں) کے حلقوں میں شعوری طور پر خیر پھیلانے کی جانب راغب کیا جائے۔ اس کام کو گروہی اور سیاسی مفادات سے بالاتر رہتے ہوئے، تمام شہریوں کی مدد سے آگے بڑھایا جائے۔
بلاشبہہ معاشرے کی اصلاح اور اسے اخلاق سے عاری رویوں اور حرکات سے پاک رکھنا حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی اولیں ذمہ داری ہے، لیکن اجتماعی زندگی کی اصلاح کے تمام کام صرف حکومت اور انتظامیہ پر نہیں چھوڑے جاسکتے۔ جس طرح کہ گھر کو آگ لگ جائے تو فائربریگیڈ کی آمد سے پہلے آگ بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے، اور سیلاب آجائے تو انتظامیہ کی مدد آنے سے پہلے جان و مال کو بچانے کے لیے کاوشیں کی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح ایمان، اخلاق، تہذیب اور خاندان کے ادارے کو بچانے کے لیے ہرشہری کو اپنا فرض ادا کرنا ہے۔ معاشرے کے سنجیدہ طبقوں کو بھی قانون اور شائستگی کے دائرے میں رہ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ اپنے جس فرض کو انتظامیہ پورا نہ کر رہی ہو، اس کی تکمیل کے لیے امداد باہمی سے منزل سر کی جاسکتی ہے۔