ستمبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

سانحہ گوجرہ اور مریدکے: غورطلب پہلو

حافظ محمد ادریس | ستمبر ۲۰۰۹ | پاکستانیات

Responsive image Responsive image

وطنِ عزیزاسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین پاکستان کے تمام شہریوں کو بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ یہاں بسنے والی اقلیتیں اکثریتی آبادی کے ساتھ نہ صرف ہم آہنگ ہیں بلکہ جہاں تک سب سے بڑی اقلیت مسیحی برادری کا تعلق ہے، وہ معاشرتی اور اقتصادی لحاظ سے اکثریت کے ساتھ مشترکہ مفادات کی حامل ہے۔ دونوں آبادیوں کے درمیان فرقہ وارانہ منافرت  کی فضا، اللہ کے فضل سے، کہیں نہیں پائی جاتی۔ بعض اوقات کچھ واقعات ایسے رونما ہوجاتے ہیں کہ جس کا بروقت سدّباب اور تدارک نہ کیا جائے تو وہ شعلۂ جوالہ بن جاتے ہیں۔ یہ واقعات اتفاقی بھی ہو سکتے ہیں اور ان کے اندر کسی سوچی سمجھی سازش کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔

۳۰ جولائی ۲۰۰۹ء کو گوجرہ، ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ناخوش گوار واقعہ رونما ہوا،جو مسیحیوں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات بھڑکانے کا سبب بنا۔ پھر اسی ہفتے میں ۴؍ اگست کو مریدکے ضلع شیخوپورہ میں ایک اوردرد ناک سانحہ رونما ہوا، جس میں ہنگامہ کرنے والے بھی مسلمان تھے اور اس  ہنگامے کی نذر ہونے والے بھی مسلمان۔ دونوں واقعات کی نوعیت الگ الگ بھی ہے اور ایک لحاظ سے یکساں بھی۔ گوجرہ کے واقعے میں، روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق، چک نمبر ۹۵جے بی میں عیسائیوں کی بستی میں شادی کی کسی تقریب میں طالب مسیح کے بیٹے عدنان مسیح نے کرنسی نوٹوں کے ساتھ قرآنی آیات پر مشتمل اوراق مقدسہ کو بھی ہوا میں اُچھالا۔ یہ مبینہ واقعہ کتابِ مقدس کی بے حرمتی کے مترادف تھا۔ جوں ہی بے حرمتی کی یہ خبر بستی اور اس کے گردونواح کے دیہاتوں میں پہنچی تو لوگ مشتعل ہوگئے۔ اس دوران میں عیسائی آبادی سے لوگ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مشتعل ہجوم نے کچھ خالی گھروں کو آگ لگائی مگر کوئی جانی نقصان اس میں نہیں ہوا۔ اس موقع پربڑے بزرگوںاور اصحاب الراے کا ایک جرگہ فوراً میدان میں آیا اور انھوں نے بڑی حکمت و دانش سے ایک جانب احتجاجی ہجوم کو کنٹرول کیا اور دوسری جانب متعلقہ عیسائی افرادسے مطالبہ کیا کہ وہ اس واقعے پر مسلمانوں سے معذرت بھی کریں اور آیندہ ایسا جرم نہ کرنے کی یقین دہانی کرائیں، مگر مذکورہ افراد طالب مسیح اور اس کے دیگر ساتھیوں مختار مسیح اور عمران مسیح نے اس واقعے کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے معذرت کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر اشتعال اور پھیل گیا مگر ڈان ہی کی رپورٹ کے مطابق ڈی پی او انکسار خان، مقامی ایم پی اے بلال اصغر وڑائچ اور ایک مقامی عالمِ دین  مولانا نور احمد نے مشتعل ہجوم سے درخواست کی کہ وہ منتشر ہوجائیں۔ لوگوں نے اس موقع پر کہا کہ: ’’اگر ملزمان گرفتار کر لیے جائیں تو وہ منتشر ہوجائیں گے‘‘۔ ان ذمہ داران نے اس کا وعدہ کیا۔

لوگ تو منتشر ہوگئے مگر تعجب ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے اس معاملے میں نااہلی کا ثبوت دیا اور کوئی گرفتاری عمل میں نہ لائی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے روز جمعہ کی نماز کے بعد مختلف مساجد سے احتجاجی مظاہروں کے شرکا مین روڈ پر آئے، انھوں نے روڈ بلاک کی اور جب عیسائیوں کی بستی کی طرف بڑھنے لگے تو وہاں سے فائرنگ کی گئی۔ فائر کرنے والے کون تھے، یہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکا۔ عینی شاہدین اور علاقے کے سنجیدہ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سات آٹھ نقاب پوش تھے، جن کے پاس کوئی ایسا آتش گیر مادہ تھا کہ وہ پہلے یہ مواد پھینکتے، پھر آگ لگاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ گھروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی۔ مقامی لوگوں کے مطابق جس طرح بے نظیربھٹو کے قتل پر جگہ جگہ خاص ٹیکنیک سے فوری آگ لگائی گئی تھی اور پھر جس طرح گذشتہ سال کراچی میں وکلا کو ان کے چیمبر میں جلایا گیا تھا، بالکل ایسا ہی انداز اس واردات میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ پڑوسی ملک کے بارے میں ہمارے حکمران بار بار یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس کے ایجنٹ ہمارے ملک میں دخل اندازی کررہے ہیں۔ ممکن ہے یہ انھی کا کارنامہ ہو۔ عیسائی آبادی کے اکثر و بیش تر گھر تو خالی تھے لیکن جن گھروں میں لوگ موجود تھے وہ نکلنے میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ آتش گیر مادہ ایسا سریع شعلہ انگیز تھا کہ اس نے فوراً ہی ہر چیز کو بھسم کر کے رکھ دیا۔

اس دوران میں توجہ طلب بات یہ ہے کہ مرکزی اور صوبائی وزرا دوست محمد کھوسہ،    خلیل طاہر سندھو، کامران مائیکل، شہباز بھٹی اور این جی اوز کے کئی نمایندگان یہاں کے چکر لگاتے رہے مگر جرگے کے فیصلے کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کی طرف کوئی پیش رفت نہ ہوئی۔ اگر ان لوگوں کو حراست میں لے لیا جاتا تو ایک جانب بہت سی قیمتی جانیں بچ جاتیں اور دوسری جانب مشتعل لوگوں کے جذبات بھی ٹھنڈے ہوجاتے اور قانونی و عدالتی کارروائی سے سب کا اطمینان ہوجاتا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مرکزی وزیر اور عیسائیوں کے نمایندے شہباز بھٹی صاحب نے این جی اوز کی معیت میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر تحفظ ناموس رسالت ایکٹ (۲۹۵سی) کے خلاف فضا پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ اور شہباز بھٹی نے اپنے اخباری بیانات میں کہا کہ قرآن پاک کی تو سرے سے کوئی توہین ہی نہیں ہوئی۔ ان غیر ذمہ دارانہ بیانات نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم بھی بعد از خرابیِ بسیار یہاں آئے۔ ان پر عالمی عیسائی تنظیموں اور این جی اوز نے بے انتہا دبائو ڈالا۔ یہاں آکراصحابِ اقتدار نے متاثرین کے لیے معاوضہ جات کا اعلان کیا مگر یہ مسائل کا حل، نہ کل تھا نہ آج ہے۔ اصل میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عمل داری ہی سے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

جہاں تک دفعہ ۲۹۵سی ، کا تعلق ہے تو حقیقت یہ ہے کہ توہینِ رسالتؐ کا یہ ایکٹ جہاں ایک جانب مقدس ہستیوں اور الہامی کتب و مقدسات کے تقدس کے لیے ضروری ہے، وہیں اس کے نتیجے میں لوگوں کی جان و مال کو بھی تحفظ ملتا ہے۔ اسی تناظر میں ایک مرکزی وزیر (براے حقوق انسانی) میاں ممتاز عالم گیلانی نے کہا ہے کہ حکومت توہینؐ رسالت قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے۔      یہ بیان انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز ہے۔ وزیر موصوف کا مبلغ علم یہ ہے کہ انھوں نے  پانچ الہامی کتابوں پر ایمان لانے کا فتویٰ صادر کیا۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے مذہبی ہم آہنگی کے نام پر دفعہ ۲۹۵ سی کو تبدیل کرنے کا اعلان ہے۔ واضح رہے کہ یہ دفعہ تمام انبیاے کرام اور جملہ الہامی کتابوں کو تقدس فراہم کرتی ہے اور ہرگز مذہبی ہم آہنگی میں کسی قسم کی رکاوٹ اور رخنے کا باعث نہیں ہے۔

گوجرہ کا یہ سانحہ تو دو مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان تھا، جس پر این جی اوز اور   سیکولر حلقے اپنی پرانی رٹ لگا رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے لیکن مرید کے کا واقعہ تو اکثریت و اقلیت اور مسلم مسیحی آبادی کا معاملہ نہیں۔ لا قانونیت کے اس واقعے میں تو ایک نیک اور پرہیز گار مسلمان شیخ نجیب ظفر اور اس کی فیکٹری میں کام کرنے والا ایک غریب مسلمان مزدور مزمل شاہ بے ہنگم ہجوم کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئے۔ اس واقعے کے پیچھے چند شر پسند عناصر کا ہاتھ ہے۔ شیخ نجیب ظفر مریدکے، کے قریب کٹھیالہ ورکاں میں ایسٹ لیدر فیکٹری کے نام سے چمڑے کا کارخانہ چلا رہے تھے، اپنے کاروباری حریفوں، فیکٹری کے ایک شرپسند ملازم کی شرارت اور بعض مذہبی جہلا کی اشتعال انگیزی کے نتیجے میں اس حادثے کا شکار ہوئے۔ تفصیلات کے مطابق قاسم مغل نامی ملازم ورکرز یونین کا نمایندہ بن کر ملازمین کے معاوضوں میں اضافے اور خود اپنے مفادات کے لیے مہمات چلاتا رہتا تھا۔ اسے کارخانے کے مالک سے پرانی عداوت بھی تھی۔ اسی نے شیخ نجیب ظفر سے ملاقات کی اور وہاں سے باہر نکلتے ہی شور مچا دیا کہ کارخانہ دار شیخ نجیب ظفر نے کیلنڈر پر لکھی ہوئی آیاتِ قرآنی کی بے حرمتی کی ہے۔ موبائل فون کے علاوہ بستی کی مساجد میں جاکر بھی یہ اعلان کر وایا گیا اور غیر ذمہ دار مؤذنین اور آئمۂ مساجد نے بلاتحقیق یہ اعلانات کر دیے۔ شیخ نجیب ظفر کے جاننے والے تمام لوگ گواہی دیتے ہیں کہ وہ   انتہائی نیک، مخیر اور متقی انسان تھا۔ اس کے خلاف شرپسندوں نے بے ہنگم ہجوم اکٹھا کیا اور فیکٹری پر    ہلہ بول دیا۔ سیکورٹی گارڈ نے جب انھیں روکنا چاہا تو ہجوم نے فائرنگ شروع کردی۔ ایک  سکیورٹی گارڈ مزمل شاہ اور فیکٹری کا مالک نجیب ظفر فائرنگ کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے۔   پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق نجیب ظفر کے جسم میں دو گولیاں پیوست ہوئی تھیں۔

پاکستان میں اس طرح کے دل دوز واقعات کئی بار وقوع پذیر ہوئے ہیں۔ ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۹۴ء کو گوجرانوالہ میں جماعت اسلامی کے بزرگ رکن     مستری حبیب اللہ مرحوم کے ۳۶ سالہ حافظ قرآن بیٹے سجاد فاروق کو کھیالی میں شرپسندوں نے ایک ہجوم کی صورت میں حملہ کرکے شہید کر دیا تھا۔ وہ حافظِ قرآن بھی تھے اور جامعہ عربیہ گوجرانوالہ سے  فارغ التحصیل ہونے کے علاوہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی تھے۔ نہایت نیک طینت اور ہمدرد، ہر وقت باوضو، پانچ وقت کے نمازی ،فارغ اوقات میں تلاوت قرآن میں ہمہ تن مصروف، کلینک پر آنے والے غربا کو مفت دوا دینا اور اپنے محلے میں غلط کاروں پر نظر رکھنا، ان کی صفات تھیں۔ علاقے کے کچھ شرپسند لوگوں نے ان پر الزام لگایاکہ انھوں نے قرآن پاک کی بے حرمتی کی ہے۔ اس    صالح نوجوان کی خوبیوں کا تفصیلی تذکرہ اس کی شہادت پر کئی کالم نگاروں نے کیا۔ ہفت روزہ زندگی لاہور کی اشاعت ۳۰؍اپریل ۱۹۹۴ء میں ابو شیراز نے خود گوجرانوالہ میں اہلِ محلہ کی   کثیر تعداد سے انٹرویو کرنے کے بعد جو مضمون لکھا، اس میں مرحوم کی زندگی ایک مثالی مسلمان اور سچے عاشقِ رسولؐ کی خوب صورت تصویر پیش کرتی ہے۔ فسادیوں کے حملے کے وقت حافظ سجاد  سورۃ یٰسٓ کی تلاوت کر رہا تھا۔ ان واقعات کو بنیاد بنا کر دفعہ ۲۹۵ سی کے خلاف فضا بنانا شرپسندی اور اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے پرانے سانحات ہوں یا گوجرہ اور مریدکے میں ہونے والے تازہ واقعات، سبھی لا قانونیت کی بد ترین مثالیں ہیں۔ قانون ہاتھ میں لے کر اور عوامی ہجوم کے بل پر انصاف(Mob Justice) کا کوئی تصور اسلام میں ہے، نہ پاکستان کی دستوری و قانونی دستاویزات کے اندر اس کی کوئی گنجایش ہے۔ مریدکے میں تو شر انگیزوں کے ہاتھوں سب کچھ بلااشتعال ہوا ہے، جب کہ گوجرہ میں آتش زنی اور قتلِ انسانی کا بہت بڑا اور قابلِ مذمت جرم ہونے کے باوجود اس میں اشتعال کا ایک سبب موجود تھا، جس سے نکلنے کا راستہ جرگے نے متعین کیا تھا مگر حکومت اور انتظامیہ اپنے فرائض ادا کرنے میں بری طرح ناکام رہی۔

بعد از خرابیِ بسیار حکومت پنجاب نے لاہور ہائی کورٹ سے عدالتی تحقیقات کی درخواست کی تو ہائیکورٹ نے سیشن جج مقبول احمد باجوہ کو سانحۂ گوجرہ کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی۔ گوجرہ کے واقعے کی پوری اور تفصیلی تحقیق ہونی چاہیے۔ جن لوگوں کا جو جو جرم ہے، اس کا تعین اور اس جرم کے مطابق ملزموں کو عدالتی سزا ملنی چاہیے۔ جہاں تک مریدکے، کے سانحے کا تعلق ہے، اس میں ملزمان کی کافی حد تک نشان دہی ہوچکی ہے۔ شیخوپورہ کے ڈی پی او، رائے طاہر حسین نے وقوعہ کے روز ہی اخباری نمایندوں کو بتایا کہ ۲۴افراد موقع پر گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ پولیس کے مطابق اصل سرغنہ قاسم مغل کے علاوہ گائوں کی مسجد کا امام مولوی شبیر بھی اشتعال انگیزی کا سبب بنا۔ اسی طرح روزنامہ ڈان نے ۵؍ اگست کی اشاعت میں یہ رپورٹ بھی شائع کی ہے کہ وقوعہ سے دو ہفتے قبل  شیخ نجیب ظفر کے کچھ شراکت کاروں کا بھی اس سے ایک کاروباری تنازعہ ہوا تھا۔ واقعے میں ان کے ملوث ہونے کا شبہہ بھی کیا جارہا ہے۔ عدالتی ذرائع سے اس کی تحقیق بھی ہونی چاہیے اور جو لوگ موقع سے پکڑے گئے ہیں، ان کو بھی مکمل تفتیش کے بعد دہرے قتل کے اس جرم میں قانون کے مطابق سزا ملنی چاہیے۔

اس طرح کے واقعات ملک کی سا لمیت اور عوام کی جان و مال کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔ ان کا سدِباب بہت ضروری ہے۔ اس ضمن میں چند اقدامات ناگزیر ہیں: (۱)مقدس شخصیات اور مذہبی مقدسات کے خلاف ہرقسم کی توہین آمیز حرکات کو قانون کے مطابق کچلنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی غیر ملکی ایجنٹوں کا قلع قمع اور اسلام دشمن این جی اوز کو بھی ان کی حدود میں پابند کرنا ضروری ہے۔ (۲) اشتعال انگیزی اور لاقانونیت کا پرچار اور جرم کا اقدام کرنے والے عناصر سے بھی سختی سے نمٹنا اور قانون کے مطابق ان کو سزائیں دینا، خواہ وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم، ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ (۳) سب سے اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ اپنی فرض شناسی کا اہتمام کرے اور اداے فرض میں سستی اور کوتاہی کرنے والے افسران کو ہر گز معاف نہ کیا جائے۔(۴) قانون  نافذ کرنے والے ادارے اور امن و امان کی ذمہ دار پولیس فورس کو محض حکمرانوں کی خدمت اور  ان کے مخالفین کی تادیب کے بجاے اپنے فرائض ادا کرنے کا پابند بنایا جائے۔ (۵) وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور وفاقی وزیر کے اُس بیان کی سرکاری سطح پر تردید کی جائے جس میں ۲۹۵ سی کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون جہاں توہینِ رسالتؐ جیسے سنگین اقدامات کی روک تھام کا ذریعہ ہے، وہاں مقدس ہستیوں کے تقدس اور احترام کو ممکن بناتا ہے،   نیز لوگوں کی جان و مال کے تحفظ کا بھی ذریعہ ہے۔ مسئلے کی حساسیت اور نزاکت کے پیش نظر اسے مؤثر بنانے کی ضرورت ہے نہ کہ مغربی دبائو کے تحت اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے۔