مولانا عبدالباقی حقانی صاحب افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ زیرنظر مفصل کتاب میں انھوں نے مغرب زدہ اور لادینی عناصر کے اس اعتراض کو دلائل کے ذریعے رفع کیاہے کہ یا تو اسلام کا کوئی سیاسی نظام ہے ہی نہیں اور اگر ہے بھی تو ماضی کے قصوں میں درج ہے۔ اس نقطۂ نظر سے کتاب لادینی عناصر کے لیے اعتراضات کا ایک عمدہ جواب فراہم کرتی ہے۔
کتاب اصلاً پشتو میں لکھی گئی ہے جس کا ترجمہ دو فاضل مترجمین نے اُردو میں کیا ہے۔ پہلی جلد میں جن موضوعات کو اٹھایا گیا ہے وہ یہ ہیں: اسلامی خلافت، معنی، اقسام، استخلاف، مترادف الفاظ، خلافت کے ثمرات، اسلامی آئین و قانون، قانونِ الٰہی کی خصوصیات پر سلف کے اقوال، مکارمِ اخلاق، اسلام کے عادلانہ نظامِ عدل کے مختلف پہلو، مساوات کی تعریف، اجتماعیت کے فوائد، اسلامی قانون کے ماخذ، فقہ اور سیاست، سیاست شرعیہ، سیاست کی اقسام، سلف اور علما کی نگاہ میں شریعت و سیاست کا تلازم، اسلامی دولت و حکومت، اسلامی امیر کے انتخاب کی شرائط اور اس پر علما کی مفصل آرا، امیر کی تقرری کا حکم، خلیفہ اور اس کے انتخاب کے طریقے، اہل حل وعقد کی صفات، امیر اور خلیفہ ایک ہی فرد ہو، اسلامی حکومت کی خصوصیات، حکومت کے عناصر، شوریٰ کا مفہوم، پارلیمان کی حیثیت اور اوصافِ ارکان، اسلامی حکومت کے اہداف، فوج اور سیاست، رعیت اور اس کی اقسام اور بحث کا خلاصہ۔
دوسری جلد میں جن مضامین سے بحث کی گئی ہے اس کی ایک جھلک یہ ہے: ادارے کا مفہوم اور اقسام، اسلامی ادارے کے سربراہ کی صفات اسلاف کے اقوال کی روشنی میں، تقویٰ، حق، عید، عدل، حیا ، علم، نظم، قوت، شجاعت، صبر، عفو ودرگزر، حفظ مراتب و وظائف کی تقسیم، توکل، مشورے کی اہمیت، استغنا، تواضع، ایثاروقربانی، جود وسخاوت، بلندہمتی، جواب دہی، شکر، خوش مزاجی، لباس میں سادگی، مروت۔ اسی طرح سلبی صفات پر تعقلی بحث ہے، مثلاً ظلم، جھوٹ، غصہ، حسد، کینہ، بدگمانی، بخل وغیرہ۔ اداروں کے لیے ذمہ داران کے انتخاب کی شرائط ان کے حقوق اور ذمہ داریاں، اسلامی اداروں میں کام کرنے والوں کے باہمی تعلقات، امیر کی ذمہ داریاں، وزرا کی ذمہ داریاں، معزولی اور اس کے اسباب ، استعفا اور اس کے اسباب وغیرہ۔
موضوعات کا تنوع ظاہر کررہا ہے کہ بات کو ضرورت سے زیادہ پھیلا دینے کے نتیجے میں اصل موضوع سے توجہ ہٹ جاتی ہے۔ اکثر موضوعات پر معروف مسلم مفکرین کے خیالات سے استفادہ کرتے ہوئے انھیں بطورِ سندکے پیش کیا گیا ہے لیکن ڈیڑھ ہزار صفحات پر مبنی کتاب میں کسی ایک مقام پر، چاہے بطور تنقید و اختلاف، سید مودودی کا ذکر نہیں آنے پایا۔ تمام حسنِ ظن کے باوجود معروضی طور پر اسے مؤلف کی ’لاعلمی‘ ہی سمجھنا ہوگا اور اسے کتمانِ حق سے تعبیر نہیں کرنا پڑے گا۔
غیرضروری طوالت کے باوجود کتاب طالبان کے تصورِ حکومت و ریاست پر ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ (ڈاکٹر انیس احمد)
استاذ حسن الہضیبی اخوان المسلمون مصر کے دوسرے مرشدعام تھے۔امام حسن البنا کی شہادت کے بعد اخوان المسلمون کے مرشدعام مقرر ہوئے۔مرشدعام کے طورپر ان کو اندرونی و بیرونی طور پر کئی چیلنجوں کاسامنا کرنا پڑا۔ ان کٹھن اورمشکل حالات میں انھوں نے نہایت دانش مندی اورحوصلے سے اخوان کی قیادت کی اوربحرانوں کامقابلہ کیا۔ انھوں نے اپنی کتاب دعاۃ الاقضاۃ میں ان حقیقی مسائل کاتذکرہ کیا ہے جو اس زمانے میں ان کو پیش آئے۔ زیرنظر، مذکورہ کتاب کاترجمہ ہے۔ کتاب کا نام داعی کامنصب زیادہ مناسب ہوتا۔
کتاب ایک خاص پس منظر میں لکھی گئی ہے ۔ مصر میں اخوان پر جس طرح ظلم وستم ڈھایا گیا، قریبی زمانے میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔اس کے نتیجے میںاخوانی نوجوانوں میں ردعمل پیدا ہوا اوروہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کلمۂ توحید کااقرار کرنے اورخدا اورآخرت کو ماننے والے دین اسلام کے پیرئووں پر اتنے ظلم وستم کیوں روا رکھے جاتے اوراتنی سخت سزائیں کیوں دی جاتی ہیں۔
کتاب کے ابتدائی مخاطبین اخوان کے وہ رفقا و کارکنان تھے جو ابتلا و آزمایش سے گزرے ۔ اس کتاب میں الہ، رب، عبادت، دین، کفروشرک، ارتداد، منافقت، حاکمیت الٰہی اور تقاضے،جہالت،خطا،اوراکراہ، طاغوت کا مفہوم اورفہم دین کا طریق کار کوموضوع بنایا گیا ہے۔ اسلامی حکومت کا قیام ضرورت، تقاضے، اسلامی جماعت کی شرعی حیثیت، فرائض، حقوق، فرد کی ذمہ داری اوراطاعتِ امر کے ساتھ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ضرورت،طریق کار اورقوت کا استعمال اورداعی دین کی ذمہ داریوں پر تفصیلی بحثیں موجود ہیںجن پر نہایت عمدگی کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہے۔ داعیان دین کے لیے یہ ایک اہم اورقیمتی دستاویز ہے۔ (عمران ظہور غازی)
زیرنظر کتاب کے دیباچہ نگار اے خیام کے الفاظ میں: ’’اُردو کے جدید نثری ادب کا احاطہ کوئی آسان کام نہیں‘‘۔ پروفیسر ہارون الرشید نے (جو نیاز فتح پوری کے دینی افکار کے عنوان سے ایک قابلِ قدر کتاب لکھ چکے ہیں) جدید نثری ادب کی تاریخ لکھنے کے مشکل، نازک اور پیچیدہ کام میں ہاتھ ڈالا مگر اس ذمہ داری سے کامیابی کے ساتھ عہدہ برآ نہیں ہوسکے۔ یہاں ہم پھر اے خیام کے الفاظ مستعار لیتے ہیں کہ اکثر کتابیں یا تو: ’’سرسری طور پر لکھی گئی ہیں یا پھر ایک سی باتیں دہرائی جاتی رہی ہیں۔ کچھ کتابیں ایسی بھی ملیں گی جن کے مرتبین نے تحقیق اور مطالعے کے بجاے محض تلخیص اور تقلید سے کام لیا ہے‘‘۔
مصنف کا زاویۂ نظر (تنقیدی جائزوں میں اخلاقیات اور ادیب کے ذہن کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے) تو قابلِ قدر ہے مگر ان کی فہرست میں اخلاقیات کے ممتاز علَم بردار افسانہ نگاروں (جیلانی بی اے، محمود فاروقی اور ابوالخطیب وغیرہ) کے نام نظر نہیں آتے۔ اسی طرح ’چند ممتاز ناقد و محقق‘ کے زیرعنوان گیان چند، امتیاز علی خاں عرشی، ابن فرید، نجم الاسلام اور رشیدحسن خاں جیسے جید محقق و ناقد نظرانداز ہوگئے ہیں۔ ’چند ممتاز مصنفین‘ میں فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، مختارمسعود، شیخ منظورالٰہی، مشتاق احمد یوسفی اور رضا علی عابدی جیسے منفرد صاحبانِ اسلوب کا ذکر نہیں ملتا، البتہ بعض نام فقط نام لینے یا گنتی کی حد تک درج کردیے گئے ہیں۔ کتاب میں کہیں کہیں تکرار ہے اور کہیں معلومات میں کمی اور غلطی بھی۔ (ص ۹۳، ۱۱۹ وغیرہ)
مجموعی تاثر یہ بنتا ہے کہ ایک وسیع اور متنوع جہات والا موضوع، ہمارے محترم مؤرخ ادب کی گرفت میں نہیں آسکا، چنانچہ کتاب کا موجودہ معیار انٹرمیڈیٹ سطح سے اُوپر نہیں آسکا۔ بایں ہمہ یہ کتاب ہر درجے کے (بی اے اور ایم اے وغیرہ) طلبہ کے لیے یقینا اپنے اندر افادیت کا پہلو رکھتی ہے کیوں کہ خود بی اے اور ایم اے کا معیار بہت نیچے آگیا ہے۔ (رفیع الدین ہاشمی)
رمضان المبارک میں نیکیوں کی طرف رجحان فطری امر ہے۔ رجوع الی اللہ کے اس موسم بہار میں استقبالِ رمضان کی روایت کو بھرپور انداز میں آگے بڑھانے میں خرم مراد مرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔ تجلیاتِ رمضان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
یہ ان تقاریر کا مجموعہ ہے جو سالِ گذشتہ میں ریڈیو پاکستان سرگودھا کی سحری کی نشریات میں پورے ۳۰ روز (ایک گھنٹہ روزانہ) نشر ہوئیں۔ اب انھیں نظرثانی اور اضافوں کے بعد کتابی صورت میں پیش کیا گیاہے۔ رمضان المبارک کے احکام و مسائل، برکات و فضائل، ضبطِ نفس، یوم الفرقان، فتحِ مکہ، لیلۃ القدر، اعتکاف اور دیگر بہت سے موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے اور قرآنی آیات، احادیث مبارکہ اور تاریخِ اسلام کے مستند حوالوں سے استشہاد کیا گیا ہے۔ اندازِ بیان مؤثر، عام فہم اور دل نشین ہے۔ نیکیوں کے موسمِ بہار میں یہ کتاب جہاں فرد کو عمل کے لیے تحریک دیتی ہے، وہاں رجوع الی اللہ اور ان بابرکت لمحات سے استفادے کے لیے ترغیب کاباعث بھی ہے۔ (عبداللّٰہ شاہ ہاشمی)