اچھی تقریر، اچھی بات اور اچھے مدرس کو کون پسند نہیں کرتا۔ کئی مقرر، کئی لکھنے والے اور کئی مدرس ہیں جن کی باتیں ہیرے موتیوں جیسی ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو ہمیں سننے والے نظر آتے ہیں اور اگر اس دوسری جانب سننے سمجھنے کا ذوق، چاہت، اور پیاس نہ ہو تو یہی ہیرے موتی خشک پتوں، بکھرے تنکوں اور آواز کی ناقابلِ فہم سنسناہٹ سے زیادہ اہم نہیں۔ باتیں کتنی ہی اچھی ہوںاگر سننے کی چاہت اور پیاس نہ ہو تو یہی باتیں بے معنی ہوکر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر ۱۹ جگہ پر کیا ہے، جن میں سے ۱۷ مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے۔ انسان کو زمین پر گزربسر کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں اور انھی نعمتوں میں سننے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس نعمت کا اندازہ کان بند کر کے کیجیے کہ کتنی اُلجھن ہوتی ہے، بلاشبہہ سماعت جہاں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وہاں اس کی بازپُرس بھی ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے: ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘(۱۷: ۳۶)۔ خیال رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بازپُرس کا معاملہ وہیں فرماتے ہیں جہاں ہمیں اختیار دیا جاتا ہے۔ سننے کے لیے ہمیں دو کان دیے گئے اور جب کان کے متعلق بازپُرس ہوگی تو یقینا یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم کیا سنیں اور کیا نہ سنیں۔ سورئہ انفال میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنھوں نے کہا ہم نے سنا، حالانکہ وہ نہیں سنتے‘‘۔ (۸:۲۰- ۲۱)
یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف ہدایت آگئی اور ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی اور منشا کیا ہے۔ یہ احکام ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمہ تن گوش ہوکر احکام سنے جائیں اور سمجھے بھی جائیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت ہو۔ یہ احکام ہدایت کے لیے ہیں اور ہدایت تبھی حاصل ہوگی اگر ہم احکامات کو غور سے سنیں، ذہن نشین کریں اور عمل بھی کریں۔ علما فرماتے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ کہ بندہ کہے تو سمعنا واطعنا لیکن اطاعت کے آثار اس پر ظاہر نہ ہوں۔ یہی غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورئہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے، فرمایا گیا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘(۲۵:۴۴)۔ اگرچہ انسان کو ’احسن تقویم‘ اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے مگر یہاں جو معاملہ بیان ہوا ہے وہ لاپروائی سے سننے کے بارے میں ہے۔ گویا اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اگر یہی کیفیت مسلسل رکھی جائے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ ہم سنتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ ہم ایسی حالت تک گرنے سے محفوظ رہیں۔ آمین!
سورئہ جاثیہ میں یہی بات مختلف انداز میں فرمائی گئی ہے: ’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘ (۴۵:۲۳)
یہاں ایک خاص ذہنی کیفیت کی طرف اشارہ اور ہدایت ہے۔ جب ہم بات کرنے والے کی بات پہلے سے طے شدہ ذہن (pre-set mind) سے سنتے ہیں، یعنی سننے والا سنتا ہے مگر ذہن میں طے رکھتا ہے کہ جو بات یا جو فیصلہ اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، وہی صحیح ہے اور دیگر سب لایعنی باتیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں علم کے باوجود گمراہی میں پھینکے جانے کی نوید سنائی جارہی ہے کہ بات نہ کانوں سے گزرتی ہے، نہ دل پر اثرکرتی ہے۔ یہی تو کبر کا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق ہی چھین لیتے ہیں۔
اسی طرح سورئہ یونس میں فرمایا گیا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو (کھلے کانوں سے پیغمبرؐ کی دعوت کو) سنتے ہیں‘‘۔ (۱۰:۶۷)
ان سننے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جنھیں یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ جو وہ جانتے ہیں صرف وہی صحیح ہے اور آنے والی ہدایت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ بار بار قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے بھی انھیں قرآنی آیات میں کئی مرتبہ نئی روشنی اور ہدایت پاتے ہیں۔ یہ کیفیت جبھی ہوگی کہ پڑھنے والا ہدایت کے لیے تیار رہے۔ یعنی کان کھلے رکھے اور ذہن کو نئی ہدایت قبول کرنے کے لیے بھی تیار رکھے۔
ہم مسلمان لوگوں کے نزدیک یہ یقینی بات ہے کہ جنت میں ماحول اور صورتِ حال حددرجے کی معیاری ہوگی۔ کئی مقامات پر اس کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے اور سننے سے متعلق نعمتوں کا ذکر بھی ہے:
گویا جنت کا ماحول ایسا ہوگا کہ وہاں لوگ بے ہودگی، یاوہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گذ اف، طنزوتمسخر اور طعن و تشنیع جیسی باتیں نہیں سنیں گے۔ وہ سوسائٹی بدزبان اور بدتمیز لوگوں کی سوسائٹی نہ ہوگی جس میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ وہ شریف اور مہذب لوگوں کا معاشرہ ہوگا جہاں لغویات ناپید ہوں گی۔ جو لوگ دنیا میں شائستگی اور مذاق سلیم کے حامل ہیں، وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں یہ کتنا بڑا عذاب ہے جس سے نجات پانے کی نوید سنائی گئی ہے۔
کیوں نہ ہم آج ہی عہد کریں کہ ہم کسی بھی بے ہودہ بات، افترا، تہمت اور یاوہ گوئی جیسی باتوں پر کان نہیں دھریں گے اور نہ ایسی صورت حال کا حصہ بنیں گے۔ اس طرح ہم کئی ایک سمعی قباحتیں چھوڑ کر کئی مصیبتوں سے بچ سکیں گے۔
احادیث اور سیرتِ النبیؐ کے مطالعے سے بھی پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ مجلسِ نبویؐ میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔
امام طبرانی نے صحیح سند سے عمروؓ بن عاص سے روایت فرمایا کہ اللہ کے نبی قوم کے ادنیٰ ترین آدمی کی طرف بھی بھرپور متوجہ رہتے اور اس سے بات کرتے تاکہ اس کی تالیف قلب ہو اور وہ میری طرف اس طرح متوجہ ہوتے، حتیٰ کہ میں نے گمان کیا میں ہی قوم کا بہترین آدمی ہوں۔ ہجرت سے تین سال قبل حج کے موقع پر حسب ِ معمول حضوؐر مکہ میں حاجیوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ سوید بن صامت آپؐ کی تقریر سن کر بولا: آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپؐ نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: مجلۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمایش پر اُس نے اس مجلے کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ مجلۂ لقمان سے بلاشبہہ بہتر ہے (سیرۃ ابن ہشام۔ تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت النبیؐ، ج۴، ص ۱۳)۔ یہاں رسول اکرمؐ کی حکمت اور صبر ملاحظہ ہوکہ اُنھوں نے دوسرے کی بات کی نفی نہیں کی، بلکہ اس کی بات سنی اور پھر اپنی بات سنائی۔ یہاں اس یقین کی کیفیت پر غور بھی کیجیے جو پیغمبروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی بات روک کر زمانۂ جاہلیت کا کلام سننے کی فرمایش کرنا یقینا بڑے ضبط، حلم اور بُردباری کی زندہ مثال ہے۔
بات کو اچھی طرح سننا، اختلاف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ مشہور قول ہے کہ عالِم کے پاس بیٹھو تو خاموشی اختیار کرو اور جاہل کے پاس بیٹھو تو بھی خاموشی اختیار کرو۔ حکمت یہ ہے کہ عالِم کی بات سن کر علم میں اضافہ ہوگا اور جاہل کے ساتھ خاموش رہنے سے بُردباری اور حلم میں اضافہ ہوگا۔ سننے کے بارے میں علما ہدایت کرتے ہیں کہ بات اس لیے دھیان سے سنو کہ تم سمجھنا چاہتے ہو نہ کہ اس لیے کہ اس میں غلطیاں نکالنی ہیں اور لغزشوں کو گننا ہے۔ دوسرے کی بات کی تشریح اپنے نقطۂ نظر سے نہ کرو بلکہ اُسی کے زاویۂ نگاہ سے بات سمجھو۔ اسی طرح امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ جو بہترین طریقے سے خاموشی اختیار کرنا چاہے تو اپنے آپ کو دوسرے فریق کی جگہ تصور کرے۔ اس طرح اُس کی بات اور نقطۂ نظر واضح ہوجائے گا۔ یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ جو کوئی پریشان اور غم زدہ ہو، اس کی بات سننے سے اس کی پریشانی اور غم میں کمی آجاتی ہے، جب کہ جلدبازی اور بات کاٹنے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔
آج کل مینجمنٹ کے مضامین میں ’سننا‘ یعنی ’listening‘ پر کئی مضامین لکھے گئے ہیں اور سننے میں مانع امور پر بحث کی گئی ہے:
۱- موضوع کو ’بور‘ (bore) اور بے روح قرار دینا، یعنی مکمل بات سنے بغیر ہی راے قائم کر لینا۔ ممکن ہے کہ ہم اس موضوع سے پہلے ہی بے زار ہوں اور چڑ رکھتے ہوں اور سننا بھی نہ چاہتے ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ اچھے سننے والے تحمل سے اس انتظار میں سنتے ہیں کہ کوئی کام کی بات گفتگو سے نکل آئے۔
۲- موضوع ہی نہیں ہم بعض اوقات مقرر سے چڑرکھتے ہیں اور راے رکھتے ہیں کہ یہ مقرر ہمارا وقت ہی برباد کرے گا۔ ہم اپنی راے اپنے آپ پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔ یہ صورت حال اپنے ہی گھر میں چھوٹی عمر کے افراد کے ساتھ اور بعض اوقات اساتذہ کی شاگردوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ وہ نہیں مانتے کہ چھوٹی عمر میں بھی کوئی کام کی بات کہہ سکتا ہے، جب کہ یہاں معاملہ تو تجربے اور مطالعے کا ہے۔
۳- بعض اوقات تقریر یا گفتگو کے ایک حصے سے بھرپور اثر لے لیا جاتا ہے اور بقیہ تقریر یا گفتگو محض وقت کا ضیاع محسوس ہوتی ہے۔ اس رویے سے سننے پر اثر پڑتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ بعض مقرر خاص طور پر سامعین سے درخواست کرتے ہیں کہ پوری بات سننے کے بعد ہی راے قائم کی جائے۔
۴- سننے والے کئی مرتبہ صرف حالات سننے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور تجزیہ نہیں سنتے۔ اچھے سامع دونوں باتیں سن کر تجزیہ اور حالات کا ربط دیکھ کر راے قائم کرتے ہیں۔
۵- کئی مرتبہ تقریر سنتے وقت سامع اُس تقریر کے بارے میں ایک خاکہ بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اُس خاکے سے مختلف ہوتا ہے جو مقرر کے ذہن میں ہوتا ہے۔ یقینا ہر شخص کی سوچ کا اپنا زاویہ ہوتا ہے اور مقرر اور سامع مختلف سمتوں میں سوچتے ہیں اور سامع کی سمجھ میں پوری بات نہیں آتی۔
۶- کئی سامع یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ (جھوٹ موٹ) ہمہ تن گوش ہیں مثلاً سر کو برابر جنبش دینا کہ بات سمجھ آرہی ہے یا یہ کہ پوری توجہ لیکچرر کی طرف ہے جب کہ اصل میں ان کا سننا سطحی ہی ہوتا ہے ۔صحیح سنا جا رہا ہو تو دل کی دھڑکن اور جسم کا درجۂ حرارت بات اور موضوع کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
۷- جو لوگ کمزور سامع ہیں، اُن کا دھیان بہت آسانی سے اِدھر اُدھر ہونے والے واقعات کی طرف بٹ جاتا ہے مثلاً کسی موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دھیان اُس طرف ہو گیا یا کسی کی پنسل گرگئی تو دھیان اس لڑھکتی ہوئی پنسل کی طرف ہی ہوگیا یا دھیان بانٹنے کے لیے یہی احساس کافی ہے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
۸- آسانی کسے پسند نہیں؟ کئی سامع موضوع کے صرف آسان پہلوئوں پر غور کرتے ہیں۔ اس طرح کے سننے والے موضوع کا مکمل احاطہ نہیں کرپاتے اور پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کئی موقعوں پر مقرر اپنی بات میں کوئی ایسا لفظ بولتا ہے یا ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو سامع کی سوچ کسی پرانے موقع یا تجزیہ کی طرف لے جاتی ہے یعنی اس کا تعلق ماضی میں کسی معاملے سے رہا ہو مثلاً مقرر کو چھینک آئی، اُس نے رومال استعمال کر کے جیب میں رکھنے کے بجاے آستین ہی میں اڑس لیا۔ سامع کو اُس کی دیکھی ہوئی ’جناح‘ فلم یاد آگئی اور پھر سوچ اُسی فلم کی طرف ہورہی۔
۱۰- سننا ایسا عمل ہے جس کے لیے بولنا ایک ضروری حصہ ہے ۔ اگر الفاظ فی منٹ گنے جائیں تو بولنے والا ایک سو الفاظ فی منٹ بولتا ہے، جب کہ سننے کی صلاحیت پانچ سو الفاظ فی منٹ تک ہوسکتی ہے۔ اس طرح بولنے والا اور سننے والے کی ایک ہی معاملے میں مختلف رفتار ہوتی ہے۔ یہ فاصلہ زیادہ ہوجائے تو بات سمجھنے پر اثر پڑتا ہے۔
۱۱- سامع کا ذہن اگر کسی دوسری بات میں الجھا ہو تو سننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً کسی عزیز کی بیماری، بچے کا رزلٹ یا سڑک پر ہونے والا حادثہ۔
۱۲- اردگرد کا شور شرابہ بھی سماعت پر اثر ڈالتا ہے۔ شور کی وجہ سے مقرر کی آواز بھی دب جاتی ہے اور سامع کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
۱۳- ممکن ہے جس کرسی پر سامع بیٹھا ہے، وہ آرام دہ نہ ہو اور دھیان کرسی کی طرف ہی جائے۔ یہی صورت حال تکلیف دہ لباس اور جوتوں سے بھی ممکن ہے۔
۱۴- ہمارے ہاں آنکھوں کا معائنہ کروانا اور عینک کا استعمال ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات عینک فیشن کے ضمن میں بھی آتی ہے۔ لوگ اپنی سماعت کا معائنہ نہیں کرواتے۔ اگرچہ ہماری سماعت کئی ایک وجوہات سے کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ آلۂ سماعت لگانے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر سماعت کمزور ہو تو یہ ایک ضرورت ہے۔
۱۵- ہم دیکھتے ہیں کہ پریزنٹیشن (presentation) میں مقرر حضرات کم وقت میں بہت سا لوازمہ سامعین کے کانوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں۔ مقرر جلد جلد بولتا ہے، جب کہ سلائیڈوں پر بہت سا لوازمہ ٹھونس کر بھر دیا جاتا ہے اور یہ کمزوری کئی اہم مواقع پر بھی درست نہیں کی جاتی۔ کئی دفعہ مقرر بھی مجبور ہوتا ہے، جب کہ تقریر سے پہلے ہی اسے بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ ۴۰منٹ کا وقت تھا مگر آپ اپنی تقریر ۲۵ منٹ ہی میں ختم کریں۔ یہ قصور مقرر کا نہیں بلکہ پروگرام کے منتظمین کا ہے جو وقت کو منصوبے کے مطابق تقسیم نہ کرسکے۔
۱۶- کئی مواقع پر سوالات کا وقفہ آخر کے بجاے تقریر کے دوران میں رکھا جاتا ہے اور کئی سامعین لایعنی سوال یا پھر سوال براے سوال لے کر بات شروع کردیتے ہیں۔ یہ صورت حال سننے والوں پر گراں گزرتی ہے۔
۱۷- کئی مرتبہ سامعین بے صبری اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم عرصے میں بہت سا لوازمہ بشمول ذاتی راے ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً اصل بات سمجھنے سے رہ جاتی ہے۔
ہم بات کیوں سنتے ہیں؟ یا اچھا سامع ہونا کیوں ضروری ہے؟ ہر کام کا ایک ہدف ہوتا ہے اور سامع کے سامنے چند مقاصد ہوتے ہیں:
بات سنتے وقت اس کا ایک مقصد واضح ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح بات سنانے والے کا بھی وہی مقصد ہونا چاہیے جو بات سننے والے کا ہے، وگرنہ اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہوگا۔
۱- آپ بات سنتے وقت فوری فیصلہ یا راے قائم کرنے سے باز رہیں کیونکہ آپ کی یک طرفہ سوچ آپ کے فیصلے اور راے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
۲- بات سنتے وقت اندازہ لگائیں کہ بات کرنے والے کے احساسات کیا ہیں۔ سنانے والے کی جسمانی حرکات (body language) آواز کا اُتارچڑھائو، باتوں میں پیغام، سب کچھ ہمدردی سے برداشت کریں تاکہ آپ پوری بات کُلّی طور پر سمجھ سکیں۔
۳- بات سنانے والے کے احساسات کی قدر کریں اور اعتراف بھی کہ سنانے والا کن حالات اور ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے۔
۴- بات مکمل سننے کے بعد اپنے لفظوں میں مختصراً بیان کریں کہ آپ نے کیا سمجھا۔ سنانے والے سے مدد کی درخواست بھی کریں کہ اگر آپ نے بات سمجھنے میں غلطی کی ہے تو وہ خود تصحیح کردے، یعنی correct me if I am wrong۔
۵- اگر آپ نے سوال کرنا ہو تو کھلا سوال (open ended) ہو، مثلاً فرمایئے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ یا آیا یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ ہی ہے یا اس سے پہلے بھی یوں ہی ہوتا رہا ہے؟ اس طرح آپ کو زیادہ معلومات مل سکیں گی۔
بات غور سے سننا ایسا موضوع ہے کہ اس پر خال خال ہی بحث ہوتی ہے، جب کہ سارا زور اچھی تقریر، اچھے الفاظ اور اچھے فقروں پر ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بات اچھی طرح سننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اچھی بات کہنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر پر تربیت کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھیں۔ خطبۂ جمعہ، تقاریر اور تبادلۂ خیالات اور دعوتِ دین کے سلسلے میں اور دفاتر میں روزمرہ کے کام میں بھی اس امر پر بھرپور توجہ ہو کہ بات سننے والوں نے کیا رویہ رکھا۔ اس طرح کم از کم دگنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔