جب پاکستان بننے کے بعد یہاں ایک دستور کی تدوین کے لیے مجلسِ دستور ساز قائم ہوئی اور قوم کے سامنے یہ سوال آگیا کہ وہ اپنی آزاد زندگی کی تعمیر مغربی جمہوریت یا اشتراکیت کے اصولوں پر کرے یا اسلام کے پاکیزہ اصولوں پر، تو اس مرحلے پر جماعت اسلامی اس سوال کا صحیح جواب لے کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور اسے شہر شہر، قریہ قریہ ایک ایک مسلمان تک پہنچایا۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں ’مطالبۂ نظامِ اسلامی‘ نمودار ہوا جس کے لیے جماعت اسلامی نے اتنی منظم تحریک بپا کی کہ دستور ساز اسمبلی نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۹ء کو اس مطالبے کو دستوری حیثیت سے تسلیم کر کے وہ قراردادِ مقاصد پاس کر دی کہ جس کے ہوتے ہوئے کسی غیراسلامی دستور و نظام کو جاری کرنے کے دستوری راستے بہرحال بند ہیں۔
پھر اس قراردادِ مقاصد کے پاس ہونے کے بعد جب جماعت اسلامی نے یہ محسوس کیا کہ اس قرارداد کے تقاضوں کے مطابق ملّت جن تبدیلیوں کے ظہور کی آرزومند ہے، ان کے واقع ہونے میں بدقسمتی سے اربابِ اقتدار کا وہ گروہ حائل ہے جو اپنے ذہن و سیرت کی مخصوص ساخت کی وجہ سے یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ اسلامی نظام کی امامت کا فرض ادا کرسکے تو جماعت نے پورے دلائل کے ساتھ انقلابِ قیادت کی دعوت کو اپنے عوام تک پہنچانے کا آغاز کر دیا۔ اب اس انقلابِ قیادت کو اسلام کے منشا کے مطابق برپا کرنے کے لیے راے عام کو اسلامی اصولوں کی تربیت دینے کا جو مرحلہ سامنے آگیا ہے۔ اس میں جماعت اسلامی قول و عمل سے شہادتِ حق کا فریضہ انجام دینے اُٹھی ہے۔ پس اس کام میں کامیابی کے اصل معنی صرف یہ ہیں کہ جماعت اسلامی نے شہادتِ حق کا حق ادا کر دیا۔ رہا یہ سوال کہ حالات کے دھارے کا رُخ عملاً کس حد تک مڑ سکے گا، یہ اللہ تعالیٰ کے اپنے اختیار میں ہے۔
کامیابی کا یہ تصور پیشِ نظر رکھنے کے معنی یہ نہ سمجھے جائیں کہ ہم لوگ ذرائع و وسائل، احوال و ظروف اور تاریخی عوامل کو ناپ تول کر کام کی اسکیم مرتب کیے بغیر آنکھیں بند کرکے آگے بڑھ رہے ہیں۔ احوال کی سازگاری و ناسازگاری کے جملہ پہلو ہمارے سامنے ہیں اور ان کا پورا پورا اندازہ کرنے کی ہم نے کوشش کی ہے۔ (’اشارات‘، نعیم صدیقی، ترجمان القرآن، جلد۳۲، عدد۴، رمضان ۱۳۶۸ھ، ستمبر ۱۹۴۹ء، ص ۴-۵)