ایف اے کے نتائج کا اعلان ہوا تو اسراء ضیاء فرحات نے پورے ملک میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ پورے خاندان میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ مبارک باد دینے والوں اور ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کا تانتا بندھ گیا۔ صحافی نے مصری لہجے میں پوچھا: باباک فین؟ آپ کے بابا کہاں ہیں؟ جواب کے بجاے دو آنسو اُبھرے اور پلکوں پر ٹک گئے۔ اسراء نے فوراً ہی خود کو سنبھال لیا اور کہا: میرے بابا معروف سرجن، ڈاکٹر ضیاء فرحات گذشتہ اڑھائی سال سے بلاوجہ گرفتار ہیں۔ وہ علاقے کی انتہائی نیک نام اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں۔ ان کا گناہ صرف یہ ہے کہ وہ اخوان المسلمون کے رکن ہیں۔ اخوان کا نام سنتے ہی انٹرویو لینے والا بھی گھبرا گیا۔ اِدھر اُدھر کی ایک آدھ بات کے بعد انٹرویو ختم ہوگیا لیکن ساری دنیا کو معلوم ہوگیا کہ پورے مصر میںاول آنے والی اسراء کے والد بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں۔
سب اس بات پر حیران تھے کہ والد گرفتار تھے، پورا گھرانا بحران و اذیت کا شکار تھا، اس ماحول میں اسراء نے اتنی نمایاں کامیابی کیسے حاصل کرلی؟ اسراء نے ان کی حیرت کا جواب دیتے ہوئے کہا: بابا گرفتار ہوئے تو سب اہلِ خانہ کا پریشان، اداس اور مضطرب ہونا فطری امر تھا، لیکن ہم نے خود کو دکھ اور صدمے کی نذر نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب کے لیے اصل تشفی یہ تھی کہ ہمارے بابا کا صرف اور صرف گناہ ان کی اسلامی تحریک سے وابستگی ہے۔ امتحانات کا مرحلہ آیا تو میں نے سوچا کہ میں اپنے بابا کو کوئی ایسا تحفہ ارسال کروں گی جو شاید آج تک کسی قیدی کو نہ ملا ہو۔ میں نے خاموشی سے ایک فیصلہ کیا اور الحمدللہ آج میں اپنی کامیابی کا تحفہ اپنے قیدی بابا کو پیش کر رہی ہوں۔ اسراء نے مزید بتایا کہ میرے بابا کی یہ چوتھی گرفتاری ہے جو ۱۷ جنوری ۲۰۰۷ء سے شروع ہوئی۔ انھیں اس سے پہلے ۱۹۹۵ء تا۲۰۰۵ء اور ۲۰۰۶ء میں بھی گرفتار کیا جاچکاہے کیونکہ وہ اپنے مریضوں کا جسمانی ہی نہیں فکری، نظریاتی اور روحانی علاج بھی کرتے ہیں۔ وہ زمانۂ طالب علمی ہی سے اسلامی تحریک سے وابستہ ہیں اور میڈیکل کالج یونین کے صدر بھی منتخب ہوچکے ہیں۔
ایک اسراء ہی کا گھر نہیں، اس وقت مصر کے تقریباً ساڑھے چار سو گھرانے اپنے اپنے پیاروں کی گرفتاری کا دکھ سہہ رہے ہیں۔ اخوان المسلمون کی تشکیل کے بعد سے لے کر اب تک شاید ہی کوئی وقت ایسا ہو کہ اخوان کے سیکڑوں کارکنان و ذمہ داران پسِ دیوار زنداں نہ ہوں۔ ایک وقت میں تو یہ تعداد اڑھائی ہزار تک جا پہنچی تھی۔ شاہ فاروق کا زمانہ تھا تو مرشد عام امام حسن البنا کو شہید کردیا گیا۔ ۱۹۵۲ء میں فوجی انقلاب کے بعد جنرل جمال عبدالناصر کا زمانہ آیا تو مفسرقرآن سیدقطب سمیت سیکڑوں افراد کو شہید اور ہزاروں کو گرفتار کرلیا گیا۔۲۹ستمبر ۱۹۷۰ء کو دنیا سے اُٹھ جانے سے جمال کا اقتدار ختم ہوا تو ایک اور فوجی ڈکٹیٹر انورالسادات کا عہدِ سیاہ شروع ہوگیا۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدے سمیت کئی قومی خیانتوں اور بے گناہوں کو عذاب و اذیت سے دوچار کرنے کا بوجھ لادے، ۱۴؍ اکتوبر ۱۹۸۱ء کو سادات قتل ہوا تو قتل کے وقت اس کے پہلو میں بیٹھا تیسرا فوجی ڈکٹیٹر قوم کی گردن پر سوار ہوگیا۔ وہ دن اور آج کا دن، مصر سے حسنی مبارک کی عائدکردہ ایمرجنسی بھی ختم نہیں ہوئی۔ اس ۲۸ سالہ ’عہدنامبارک‘ میں بھی اخوان کے ذمہ داران و کارکنان کو جبر کے کولہو میں مسلسل کچلا جا رہا ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ مصر کے کسی نہ کسی شہر میں چھاپے مار کر درجنوں افراد کی آزادی سلب نہ کی جاتی ہو۔
اڑھائی سال قبل اسراء کے والد سمیت ۲۵ معزز افراد گرفتار ہوئے۔ تقریباً سب کے سب گرفتارشدگان انجینیرہیں یا ڈاکٹر۔ ان میں سے نمایاں ترین ہستی اخوان کے نائب مرشدعام انجینیر خیرت الشاطر ہیں۔ سب پر ایک نام نہاد عسکری عدالت میں مقدمہ چلا گیا اور سب کو ۱۰ سے ۳سال تک گرفتاری کی سزائیں سنا دی گئیں۔ انجینیر خیرت کو سات سال، جب کہ متعدد ضعیف افراد کو ۱۰سال قید کا پروانہ عطا کیا گیا۔ اسراء کے والد ڈاکٹر ضیاء کو تین سال کی سزا سنائی گئی۔ اس بار عمومی گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مزید ظلم یہ ڈھایا جارہا ہے کہ اخوان سے تعلق رکھنے والے نسبتاً متمول افراد کے کاروباری اثاثہ جات، تجارتی کمپنیاں اور ذاتی مال و متاع بھی ضبط کیا جا رہا ہے۔ ملک کی درجنوں بڑی اور اہم کمپنیاں اس ’جرم‘ میں بند کردی گئی ہیں کہ یہاں سے اخوان کو مالی امداد فراہم کی جارہی تھی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس خطرناک جماعت کے تمام مالی سوتے خشک کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ واضح رہے کہ دینی جماعتوں کے مالیاتی سوتے خشک کرنا، امریکا کی عالمی جنگ کا اہم ترین جزو ہے۔
ابھی ان معزز افراد کی سزائوں اور ان کے اثاثہ جات ضبط کرنے پر ہی احتجاج ہو رہا تھا کہ ۲۸ جون کو پوری عرب دنیا کے ڈاکٹروں کی یونین کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح اور ان کے پانچ اہم ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب سربراہ ہی نہیں، دنیا بھر میں ریلیف اور امدادی سرگرمیوں میں بھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ گذشتہ چند برسوں میں ان کی تین بار پاکستان آمد ہوئی۔ پہلے افغانستان پر امریکی حملے کے دوران افغان مہاجرین کے لیے امدادی سامان اور ادویات لے کر آئے۔ پھر پاکستان میں زلزلے کے وقت ڈاکٹروں کی ایک ٹیم لے کر آئے۔ مصری عوام کی طرف سے ان کے توسط سے آنے والی ایمبولینس کا تحفہ اب بھی زلزلہ زدہ علاقے میں ان کی اور مصری بھائیوں کی یادیں مسلسل تازہ کرتا ہے، اور تیسری بار سوات آپریشن کے دوران میں مہاجرین کی مدد کے لیے ان کی طرف سے امداد موصول ہوئی۔
ڈاکٹر ابوالفتوح عرب یونین کے منتخب صدر کی اہم ذمہ داری پر فائز ہونے کے باوجود ہروقت دستیاب اور مستعد رہتے۔ غزہ پر تباہ کن بم باری کی صورت میں صہیونی عذاب نازل ہوا تو غزہ جانے کے تمام راستے بند تھے۔ ڈاکٹر ابوالفتوح اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے ہمراہ کئی روز تک مصر، غزہ بارڈر پر رفح کے پھاٹک کے باہر کھڑے رہے۔ جیسے ہی کوئی گنجایش نکلتی، فوراً ادویات اور طبیب غزہ بھجوا دیتے۔ ان کا وہاں مسلسل رہنا پوری عرب دنیا میں بڑی خبر بنا۔ جسے نہیں معلوم تھا اس نے بھی جان لیا کہ اسرائیلی حصار کے ساتھ ہی ساتھ مصری حکومت بھی اہلِ غزہ کا دانہ پانی بند کیے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر ابوالفتوح اور ساتھی ڈاکٹروں پر اصل الزام بھی یہی اہلِ غزہ کی طبی و انسانی امداد کا لگایا گیا ہے۔ مصری حکومت کے ارشادات کے مطابق: ’’ڈاکٹر ابوالفتوح نے کئی ملین ڈالر غیر قانونی طور پر غزہ ارسال کیے‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے اس الزام کے جواب میں کہا کہ اگرچہ کئی ملین ڈالر کی بات صرف صہیونی ریاست کو خوش کرنے کے لیے اور زیب داستاں کی خاطر کہہ دی گئی ہے لیکن مجھے یہ الزام لگنے پر فخر ہے، البتہ مصری حکومت کو بھی سوچ لینا چاہیے کہ وہ اپنے رب کی عدالت میں لاکھوں بے گناہ فلسطینیوں کے حصار اور انھیں رمضان میں بھی تمام ضروریاتِ زندگی سے محروم رکھنے کے جرم کا کیا جواب دے گی؟ بجاے اس کے کہ لاکھوں انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دینا جرم سمجھا جاتا، کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کرنے کی کوشش کو جرم بنایا جارہا ہے۔
اہلِ غزہ کی مدد کے الزام کو اپنے لیے فخر قرار دینے پر ڈاکٹر ابوالفتوح اور ان کے ساتھیوں پر دوسرا الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ’کالعدم‘ اخوان المسلمون کی عالمی تنظیم کے اہم ذمہ دار ہیںاور دیگر ممالک میں اخوان کی شاخوں کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اس الزام کی حقیقت بھی پوری دنیا پر واضح ہے کہ ایک توجس پیشہ ورانہ تنظیم کے وہ منتخب سربراہ ہیں، اس کی ذمہ داریوں کا تقاضا ہے کہ پورے عالمِ عرب میں فعال رہیں۔ دوسرے وہ اتنی بڑی اور اہم تنظیم کے رہنماکی حیثیت سے متعارف ہوں گے، تو عالمی روابط یقینا ان کی زندگی کا لازمی حصہ بنیں گے۔ محترم میاں طفیل محمدصاحب اللہ کو پیارے ہوئے تو ہم نے دنیا بھر میں ای میل اور ایس ایم ایس کے ذریعے اطلاعات دیں۔ مصر سے سب سے پہلا تعزیتی فون ڈاکٹر ابوالفتوح کا آیا۔ ایک عالمی رہنما کی حیثیت سے ان سے یہی توقع تھی۔ اس فون کے تیسرے روز انھیں گرفتار کرلیا گیا۔ شاید یہ فون بھی ان کے خلاف فردِ جرم کا حصہ بنا ہو، لیکن یہاں تیسرا سوال سامنے آتا ہے کہ کیا اپنے بھائیوں کے ساتھ، اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتیوں کے ساتھ یہ روابط جرم ہیں؟ یورپ میں مقیم ایک اور مصری عالمِ دین ڈاکٹر ابوالمجد پر بھی اسی طرح کے الزام لگنے کی بات کی گئی تو انھوں نے کہا کہ جو نہیں جانتا وہ بھی جان لے کہ اخوان المسلمون کی تنظیم دنیا کے ۶۰ ملکوں میں قائم ہے، ان میں سے کسی کے ساتھ یا دنیا کے کسی بھی مسلمان ادارے کے ساتھ رابطہ، میرے ایمان کا حصہ ہے۔
ڈاکٹر ابوالفتوح کی گرفتاری پر مصری حکومت دنیا بھر میں مطعون ہو رہی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں ان گرفتاریوں پر اظہار تشویش اور مذمت کی گئی ہے۔ خود مصر کے سابق وزیرخارجہ اور عرب لیگ کے حالیہ سیکرٹری جنرل عمرو موسیٰ نے ان کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ وہ ذاتی طور پر ان کی رہائی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن افسوس کہ حکومت مصر نے اس ضمن میں ابھی تک کوئی قدم نہیںاٹھایا بلکہ ۲۳؍اگست کو انھیں اور ان کے پانچ ساتھیوں کو مزید ۱۵ روز کے ریمانڈ پر فوجی جیل خانے بھیج دیا ہے۔
طرفہ تماشا یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ظالمانہ گرفتاریاں ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ اخوان نے حکومت کے ساتھ سازباز شروع کر دی ہے، خفیہ مذاکرات کر رہی ہے۔ یہ شوشے اس لیے چھوڑے جا رہے ہیں تاکہ ایک طرف تو اخوان کے کارکنان اور گرفتارشدگان اپنی قیادت کے بارے میں شکوک و شبہات اور غلط فہمیوں کا شکار ہوں، اور دوسری طرف مصری راے عامہ کو دھوکا دیا جاسکے کہ گرفتاریاں کوئی سنگین بحران نہیں ہیں، ظالم حکومت اور مظلوم اخوان باہم گٹھ جوڑ میںمصروف ہیں۔ اخوان کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے اس بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے ان شوشوں کی تردید کرتے ہوئے ایک واقعہ سنایا۔ انھوں نے کہا: ۱۹۷۳ء کے اواخر میں ہم گرفتار تھے، ہمارے درمیان ایسے ساتھی بھی تھے جو ۲۰سال سے قید تھے۔ کئی اپنی قیدکے نو سال پورے کرچکے تھے۔ ایک روز ایک اہم سرکاری ذمہ دار فواد علام جیل آیا۔ ہم سب کو جیل کے صحن میں ایک درخت کے نیچے اکٹھا کیا گیا۔ فواد نے کہا کہ صدر سادات آپ سب کو رہا کرنا چاہتا ہے لیکن آپ اس سلسلے میں ان کی مدد کریں۔ ہمارے ساتھ حامد ابوالنصر صاحب بھی گرفتار تھے وہ ابھی اخوان کے مرشد منتخب نہیں ہوئے تھے، بیماری کے باعث وہ قطار کے آخر میں کرسی پر بیٹھے تھے، وہیں سے پکارے: ’’جناب فواد صاحب! کیا اخوان کے کسی قیدی نے آپ سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی ہے؟ اخوان جیل سے نکل کر بھی اخوان ہی رہیں گے۔ جو بھی درست کام کرے گا ہم اسے کہیںگے تم نے ٹھیک کیا اور جو کوئی بھی غلط کام کرے گا ہم اسے کہیں گے تم نے غلط کیا۔ اگر اس اصول کے مطابق اخوان کو رہا کرنا چاہتے ہو، تو خوش آمدید، اور اگر یہ منظور نہیں تو ہم میں سے کسی نے تم سے کوئی شکایت نہیں کی‘‘۔ سیکرٹری جنرل نے یہ واقعہ یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اب بھی کسی سازباز یا اپنے موقف سے دست بردار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اخوان المسلمون کے خلاف گرفتاریوں میں اچانک تیزی آجانے پر سب تجزیہ نگار حیرانگی کا شکار ہیں۔ مختلف اندازے لگائے جارہے ہیں۔ اکثر افراد کا دو نکات پر اتفاق ہے۔ ایک تو وہی مسئلہ فلسطین کہ مصری انتظامیہ اخوان کے خلاف کارروائیوں سے صہیونی انتظامیہ کی خوشنودی چاہتی ہے اور اہلِ غزہ کو مزید مایوس و پریشان کرنا چاہتی ہے۔ دوسرے، خود مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ برس ہونے والے عام انتخابات میں اخوان کو مزید کنٹرول کرنے کی خواہش۔
بڑھاپے کی آخری حدوں کو چھوتا حسنی مبارک (پ: ۱۹۲۸ء) اب اپنا ۲۸ سالہ اقتدار اپنے وارث جمال حسنی مبارک کو سونپنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کی راہ میں اخوان ہی سب سے بڑی، بلکہ اکلوتی رکاوٹ ہیں۔ گذشتہ انتخابات میں تمام تر رکاوٹوں کے باوجود اخوان نے ۸۸نشستیں حاصل کرلی تھیں۔ آیندہ اس منظرنامے کو ہر صورت روکنا، مصری حکومت کا سب سے بڑا خواب بن چکا ہے۔ سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمود عزت سے دریافت کیا گیا کہ: ’’سنا ہے کسی حکومتی ذمہ دار نے مرشدعام کو پیش کش کی ہے کہ آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو تمام گرفتار شدگان رہا کیا جاسکتے ہیں…؟ انھوں نے کہا: جو بات ہوئی وہ یہ ہے کہ ایک صاحب مرشدعام سے ملنے کے لیے آئے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک اہم حکومتی ذمہ دار سے رابطے میں ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اخوان آیندہ انتخاب سے باہر رہیں تو ہم تمام قیدی چھوڑنے کے لیے تیار ہیں، لیکن مرشدعام کا جواب واضح تھا۔ انھوں نے کہا: ’’پہلی بات تو یہ ہے کہ اس اہم حکومتی ذمہ دار نے اگر کوئی بات کرناہے تو براہِ راست ہم سے کرے، تاکہ ہمیں بھی معلوم ہو کہ ان کی پوری اور اصل بات کیا ہے۔ دوسرے انھیں یہ یقین رہنا چاہیے کہ اگر وہ کوئی بھی ایسی تجویز پیش کریں گے جو مصر کے قومی مفاد میں ہو تو ہم حکومت سے تمام تر اختلاف کے باوجود اسے قبول کرسکتے ہیں، اور تیسری بات یہ کہ ہم ایک منظم جماعت ہیں جس میں فیصلے مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی سنجیدہ اور مبنی بر اخلاص تجویز سامنے آئے گی تو ہماری شوریٰ ہی اس بارے میں حتمی فیصلہ کرنے کی مجاز ہوگی‘‘۔ مرشدعام کی یہ بات سن کر وہ شخص چلا گیا اور پھر لوٹ کر نہیں آیا۔
مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو حالیہ گرفتاریوں کی تینوں ممکنہ وجوہات درست ہیں۔ مسئلہ فلسطین، مصر میں تبدیلی کے امکانات اور آیندہ انتخابات۔ اس تناظر میں خدشہ ہے کہ گرفتاریوں کا سلسلہ مزید دراز اور وسیع ہوگا لیکن یہ حقیقت بھی سب ہی جانتے ہیں کہ اخوان کو جتنا بھی کچلا گیا وہ اتنا ہی زیادہ توانا و مضبوط اور کامیاب ہوئے۔ اب بھی گرفتاریوں کا نتیجہ یقینی طور پر یہی نکلے گا کہ آزمایشیں اخوان کو مزید کندن بنائیں گی۔ یہی تاریخ کا سبق ہے، یہی سنتِ الٰہی ہے اور یہی اسلام کی فطرت ہے۔