ستمبر ۲۰۰۹

فہرست مضامین

تعوذاتِ نبویؐ

زاہد اقبال | ستمبر ۲۰۰۹ | تذکیر

Responsive image Responsive image

استعاذۃ کے لغوی معنی پناہ مانگنے اور کسی چیز کے سہارے سمٹ کر تکلیف سے محفوظ ہونے کے ہیں۔ عُذْتُ بِفُلَانٍ اور وَاسْتَعَذْتُ بِفُلَانٍ دونوں الفاظ پناہ حاصل کرنے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں۔دین میں تعوذ یا استعاذہ کا مطلب ہے کہ ہر شریر کے شر سے بچنے کے لیے  اللہ تعالیٰ کی پناہ لی جائے۔ بندۂ مومن کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر طرح کے ظاہری و باطنی خطرات و مصائب، آفات و بلیاّت اور مضرتوں اور نقصان رساں چیزوں سے فقط اس رب العزت کی ذات ہی پناہ دے سکتی ہے، جس کی فرماں روائی سے کائنات کا کوئی ذرّہ تک باہر نہیں ہے، جو مسبّب الاسباب بھی ہے اور فوق الفطرت طریقوں سے اپنے بندوںکو اپنی پناہ میں لینے اور ان کی مدد کرنے پر مکمل قدرت بھی رکھتاہے۔ اس عقیدے کا لازمی جزیہ بھی ہے کہ اس کے سوا اور کوئی نہیں جو عالمِ اسباب سے ماورا پنا ہ دینے اور مدد کرنے پر قادر ہو (یا د رہے کہ عالم اسباب میں بھی فاعل حقیقی اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے)۔

قرآن سورۂ جن میں مشرکین کا یہ شرک بیان کرتا ہے کہ ’’انسانوں میں سے کچھ لوگ جنوں میں سے کچھ لوگوں کی پناہ مانگا کرتے تھے‘‘ (۷۲: ۶)، جب کہ قرآن اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ پیغمبروں کے حوالے سے بیان کرتا ہے کہ وہ بھی پناہ کے لیے اللہ تعالیٰ ہی کی بارگاہ سے رجوع فرماتے تھے۔ چنانچہ سورۂ ہود میں ہے کہ جب حضرت نوح ؑکو ایک بے جا د عاکرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہہ فرمائی گئی تو انھوں نے فوراً عرض کیا : رَبِّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ اَنْ اَسْئَلَکَ مَا لَیْسَ لِیْ بِہٖ عِلْمٌ ط (۱۱:۴۷) ’’پروردگار!میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ تجھ سے وہ چیز مانگوں جس کا مجھے علم نہیں‘‘۔ اسی طرح جب حضرت موسٰی ؑ نے بنی اسرائیل کو گائے ذبح کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے اسے آپ ؑکا مذاق قرار دیا، تو آپؑ نے جواب میں فرمایا: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْجٰھِلِیْنَo (البقرہ ۲:۶۷) ’’میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں کہ جاہلوں کی سی باتیں کروں‘‘۔ اسی طرح جب فرعون نے بھرے دربار میں آپؐ کے قتل کا ارادہ ظاہر کیا تو آپؐ نے فرمایا : اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ o (المؤمن ۴۰:۲۷) ’’میں نے تو ہر اس متکبر کے مقابلے میں جو یوم الحساب پر ایمان نہیں رکھتا، اپنے رب اور تمھارے رب کی پناہ لے لی ہے‘‘ اور ایک دوسرے مقام پر ہے : وَاِنِّیْ عُذْتُ بِرَبِّیْ وَرَبِّکُمْ اَنْ تَرْجُمُوْنِ o (الدخان۴۴:۲۰)’’اور میں اپنے اور تمھارے رب کی پناہ لے چکا ہوں اس سے کہ تم مجھ پر حملہ آور ہو‘‘۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد بار نبی کریمؐ کو نہ صرف استعاذے کی تلقین فرمائی بلکہ آپؐ  کو معوذتین جیسی عظیم سورتیں عطا فرمائیں جو کُل کی کُل استعاذے پر مشتمل ہیں اورمستقل طور پر آپؐ  کے وظائف میں شامل رہی ہیں۔ ان قرآنی سورتوں کے علاوہ بھی آپؐ  سے بہت سے تعوذات روایت ہوئے ہیں۔ چونکہ آپؐ  جوامع الکلم تھے ، چنانچہ آپؐ کی یہ خصوصیت آپؐ کی تعلیم کردہ الہامی دعائوں اور تعوذات سے بھی پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔ آپؐ  کے انھی جامع تعوذات کو متن اور سند کے اہتمام سے صحت کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے۔

ان تعوذات میں اللہ تعالیٰ کے حضور اس عاجزی و بے کسی کا اظہار بھی ہے جو بندگی کا جوہر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر وہ اعتماد و توکل بھی جھلکتا ہے جو بندۂ مومن کو دنیا کے ہر خوف سے آزاد کر دیتا ہے۔ یہ تعوذات معبود اور عبد کے رشتے کو زندہ بھی کرتے ہیں اور اسے ثبات و استحکام بھی دیتے ہیں۔ یہ ایمان وتقویٰ ، اخلاص و للّٰہیت اور سوزوگداز کے حصول اور ان میں مسلسل بڑھوتری کا سرچشمہ بھی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی قربت ، رضا اور خوشنودی کا ذریعہ بھی۔ اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت پر کاربند ہر بندہ ٔ مومن کے لیے یقین اور شعور کے ساتھ ان پر مداومت نہ صرف دفع مصائب و آلام ، رفع خطرات و مشکلات اور ازالۂ حزن و ملال کے لیے کارگر ہوگی بلکہ سکونِ قلب، تہذیبِ نفس اور تطہیرِ فکرو عمل کے لیے بھی نسخۂ کیمیا ثابت ہوگی۔

  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لاَّ یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لاَّ یَخْشَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لاَّ تَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لاَّ یُسْتَجَابُ لَھَا (مسلم: ۶۹۰۶) یااللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جوفائدہ نہ دے، اور ایسے دل سے جس میں خشیت نہ ہو، اور ایسے نفس سے جو سیر نہ ہو، اور ایسی دعا سے جس کی پذیرائی نہ ہو۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ یَوْمِ السُّوْئِ ، وَمِنْ لَیْلَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ سَاعَۃِ السُّوْئِ وَمِنْ صَاحِبِ السُّوْئِ وَمِنْ جَارِ السُّوْئِ فِی دَارِ الْمُقَامَۃِ (المعجم الکبیر :۱۴۲۲۷) یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں بُرے دن سے، اور بُری رات سے، اور بُرے وقت سے، اور بُرے ساتھی سے، اورمستقل جاے قیام کے برے پڑوس سے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ کُلِّ عَمَلٍ یُّخْزِیْنِیْ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ کُلِّ صَاحِبٍ یُّوئْ ذِیْـنِیْ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ کُلِّ اَمَلٍ یُّلْھِیْنِیْ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ کُلِّ فَقْرٍ یُّنْسِیْنِیْ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ کُلِّ غِنًی یُّطْغِیْنِیْ (ابن السنی: ۱۲۱) یا اللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ہر اس عمل سے جو مجھے رسوا کرے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر ایسے ساتھی سے جو مجھے تکلیف دے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر ایسی امید سے جو مجھے غافل کردے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر ایسی احتیاج سے جو مجھے نسیا ن میں ڈال دے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں ہر ایسی دولت سے جو مجھے سرکش بنا دے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ مُنْکَرَاتِ الْاَخْلَاقِ وَالْاَعْمَالِ وَالْاَ ھْوَائِ  (ترمذی: ۳۵۹۱) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں برے اخلاق سے اور( بُرے )اعمال سے اور( بُری) خواہشات سے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّ سَمْعِیْ وَمِنْ شَرِّ بَصَرِیْ وَمِنْ شَرِّ لِسَانِیْ وَمِنْ شَرِّ قَلْبِیْ وَمِنْ شَرِّمَنِیِّیْ (ابوداؤد : ۱۵۵۱) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اپنی سماعت کی برائی سے، اور اپنی بصارت کی برائی سے، اورا پنی زبان کی برائی سے، اور اپنے دل کی برائی سے، اور نفسانی خواہشات کے شر سے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَائِ وَ ادَرْکِ الشَّقَائِ وَسُوْئِ الْقَضَائِ  وشَمَاتَۃِ الْاَعْدَائِ (بخاری: ۶۶۱۶) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں (ہر) مصیبت کی سختی سے، اور بدبختی کے گھیر لینے سے، اور بُری تقدیر سے، اور دشمنوں کے (ہم پر )ہنسنے سے۔

روایت کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چار چیزوں سے اللہ کی پناہ طلب کرنے کی ترغیب فرمائی۔

  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنْ زَوَالِ نِعْمَتِکَ وَتَحَوُّلِ عَافِیَتِکَ وَفُجَائَ ۃِ نِقْمَتِکَ  وَجَمِیْعِ سَخَطِکَ (ابوداؤد: ۱۵۴۵) یا اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں تیری عطاکردہ کسی نعمت کے چھن جانے سے، اور تیری دی ہوئی عافیت کے پلٹ جانے سے، اور تیری ناگہانی پکڑ سے، اور تیری تمام تر ناراضیوں سے۔

بعض نسخوں میں’ تحویل‘ کے بجاے’تحول‘ ہے، دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔

  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ اَعْمَلْ (مسلم : ۶۸۹۵) یااللہ !میں تیری پناہ چاہتا ہوںاپنے کیے ہر عمل کے شر سے اور ہر اس عمل کے شر سے بھی جسے میں نے نہیں کیا۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْ ذُبِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَلِمْتُ وَمِنْ شَرِّ مَالَمْ اَعْلَمْ (تحفہ: ۵۹۰) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ان چیزوں کی برائی سے جنھیں میں جانتا ہوں اور ان چیزوںکی برائی سے بھی جنھیں میں نہیں جانتا۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُ بِکَ مِنْ اَنْ نُشْرِکَ بِکَ شَیْأً نَعْلَمُہٗ وَنَسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا نَعْلَمْ (احمد: ۴ /۴۰۳،۱۹۶۰۶، ابی شیبۃ: ۳۰۱۶۳) یااللہ ! ہم تیری پناہ چاہتے ہیں اس بات سے کہ جانتے بوجھتے کسی کو تیرے ساتھ شریک کریں، اور ہم تجھ سے (اپنے کیے) ہر اس شرک کی بھی مغفرت طلب کرتے ہیں جس کا ہمیںادراک نہیںہے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَا ئِ السَّفَرِ وَکَا ٓبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ وَدَعْوَۃِ الْمَظْلُوْمِ وَسُوْئِ الْمَنْظَرِ فِی الْاَہْلِ وَالْمَالِ وَالْوَلَدِ       (نسائی : ۵۴۹۹) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں سفر کی سختیوں سے، اور( سفر سے ناکام) واپسی کی اذیت سے، اور ترقی کے بعد تنزل سے، اور مظلوم کی (بد)دعا سے اور (سفر سے واپسی پر) خاندان، اور مال و اولادمیں کسی تکلیف دہ منظر کے دیکھنے سے۔

روایت کے مطابق آپؐ جب سفر اختیار فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اور ابنِ ماجہ کی روایت میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب نبی کریمؐ سفر سے واپس تشریف لاتے تو بھی یہی دعا پڑھتے۔ (ابن ماجہ: ۳۸۸۸)

  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ خَلِیْلٍ مَّا کِرٍ عَیْنَاہُ تَرَیَانِیْ وَقَلْبُہٗ یَرْعَانِیْٓ اِنْ رَّاٰی حَسَنَۃً دَفَنَھَا وَاِنْ رَّاٰی سَیِّئَۃً اَذَا عَھَا (کنز : ۳۶۶۳) یااللہ ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے مکار دوست سے جس کی آنکھیں مجھے دیکھتی ہوں اور جس کا دل میری نگرانی کرتا ہو ، اگر وہ (مجھ میں) کوئی اچھائی دیکھے تو اسے چھپا لے اور اگر(مجھ میں) کوئی برائی دیکھے تو اس کی تشہیر کرتا پھرے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْھِکَ الْکَرِیْمِ وَ اِسْمِکَ الْعَظِیْمِ مِنَ الْکُفْرِ وَالْفَقْرِ  (کنز : ۳۶۸۲) یا اللہ! میں تیرے کریم چہرے اور عظمت والے نام کی پناہ چاہتا ہوں کفر اور فقروفاقہ سے۔
  •  اَللّٰھُمَّ اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ  لَا اُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ (مسلم: ۱۰۹۰، ابوداؤد:۸۷۹) یااللہ ! میں پناہ چاہتا ہوں تیری رضا کی تیرے غصّے سے اور تیری بخشش کی تیر ے عذاب سے، اورمیں تجھ سے تیری ہی ذات کی ناراضی کی پناہ چاہتا ہوں ، میں تیری تعریف ادا کرنے سے قاصر ہوں بس تو ایسا ہی ہے جیسا تو نے خود اپنی تعریف میں بیان فرمایا۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک رات میں نے رسولؐ اﷲ کو ان کے بستر پر نہ پایا تو میں نے انھیں ٹٹولا تو میرے ہاتھ آپؐ  کے قدموں پر پڑے ، آپؐ  سجدے میں تھے اور آپؐ  کے پائوں کھڑے تھے اورآپؐ  یہ کلمات پڑھ رہے تھے۔(ایضاً)

  •  اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِوَجْھِکَ الْکَرِیْمِ وَکَلِمَاتِکَ التَّامَّۃِ مِنْ شَرِّمَا اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَـتِہِ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ تَکْشِفُ الْمَغْرَمَ وَالْمَاْثَمَ اَللّٰھُمَّ لَا یُھْزَمُ جُنْدُکَ     وَلَا یُخْلَفُ وَعْدُکَ وَلَا یَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ (ابوداؤد: ۵۰۵۲) یااللہ! میں تیرے کریم چہرے اور تیرے مکمل تاثیر والے کلِمات کی پناہ چاہتا ہوں ہر اس چیز کے شر سے جس کی پیشانی تیرے دستِ قدرت میں ہے۔ یااللہ! تو ہی (اپنے بندوں کے ) بوجھ اور گناہ دور کرنے والا ہے ۔ یا اللہ! تیرا لشکر کبھی شکست نہیں کھاتا اور تیرا وعدہ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا اور کسی بھی صاحبِ ثروت کو اس کی دولت تیری پکڑ سے نہیں بچا سکتی ، تو سب عیوب سے پاک ہے اور تیرے ہی لیے ساری حمدو ثنا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ سوتے وقت یہ کلمات پڑھا کرتے تھے۔ (ایضاً)

  •  اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْاَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَاَلَکَ مِنْہُ  نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ (ﷺ) وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَااسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ وَاَنْتَ الْمُسْتَعَانُ وَعَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَلَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ (ترمذی: ۳۵۲۱) یااللہ! ہم تجھ سے اس تمام خیروبھلائی کا سوال کرتے ہیںجو تجھ سے تیرے نبی محمدؐ نے مانگی ہے، اور ہم ان تمام چیزوں سے تیری پناہ چاہتے ہیںجن سے تیرے نبی محمدؐ نے پناہ چاہی ہے، اور توہی وہ ذات ہے جس سے مدد طلب کی جائے، اور تیری ہی عطا پر موقوف ہے مرادوں کا پورا ہونا، اور اللہ کی توفیق کے بغیر نہ کسی برائی سے بچنا ممکن ہے اور نہ کسی نیکی کا حصول۔

آیئے آخر میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثنا کرتے ہیں اور نبی کریمؐ پر درود و سلام پیش کرتے ہیں:

سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَo وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ o وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo (الصفٰت ۳۷:۱۸۰-۱۸۲) پاک ہے تیرا معزز اور برتر رب ان تمام عیوب سے جنھیں لوگ اس کے ساتھ متصف کرتے ہیں۔ اور سلامتی ہو تمام رسولوں پر۔ اور تمام تر شکر و ثنا سب جہانوں کے پروردگار اللہ ہی کے لیے ہے۔