اچھی تقریر، اچھی بات اور اچھے مدرس کو کون پسند نہیں کرتا۔ کئی مقرر، کئی لکھنے والے اور کئی مدرس ہیں جن کی باتیں ہیرے موتیوں جیسی ہیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو ہمیں سننے والے نظر آتے ہیں اور اگر اس دوسری جانب سننے سمجھنے کا ذوق، چاہت، اور پیاس نہ ہو تو یہی ہیرے موتی خشک پتوں، بکھرے تنکوں اور آواز کی ناقابلِ فہم سنسناہٹ سے زیادہ اہم نہیں۔ باتیں کتنی ہی اچھی ہوںاگر سننے کی چاہت اور پیاس نہ ہو تو یہی باتیں بے معنی ہوکر ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سمع و بصر یعنی سننا اور دیکھنا کا ذکر ۱۹ جگہ پر کیا ہے، جن میں سے ۱۷ مواقع پر سمع کا ذکر بصر سے پہلے آیا ہے۔ انسان کو زمین پر گزربسر کرنے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے بہت سی نعمتیں عطا کی ہیں اور انھی نعمتوں میں سننے کی صلاحیت بھی ہے۔ اس نعمت کا اندازہ کان بند کر کے کیجیے کہ کتنی اُلجھن ہوتی ہے، بلاشبہہ سماعت جہاں اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وہاں اس کی بازپُرس بھی ہے۔ سورئہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا ہے: ’’یقینا آنکھ، کان اور دل سب ہی کی بازپُرس ہونی ہے‘‘(۱۷: ۳۶)۔ خیال رہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ بازپُرس کا معاملہ وہیں فرماتے ہیں جہاں ہمیں اختیار دیا جاتا ہے۔ سننے کے لیے ہمیں دو کان دیے گئے اور جب کان کے متعلق بازپُرس ہوگی تو یقینا یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم کیا سنیں اور کیا نہ سنیں۔ سورئہ انفال میں فرمایا گیا: ’’اے ایمان لانے والو! اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جنھوں نے کہا ہم نے سنا، حالانکہ وہ نہیں سنتے‘‘۔ (۸:۲۰- ۲۱)
یہاں اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف ہدایت آگئی اور ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرضی اور منشا کیا ہے۔ یہ احکام ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دینے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہمہ تن گوش ہوکر احکام سنے جائیں اور سمجھے بھی جائیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت ہو۔ یہ احکام ہدایت کے لیے ہیں اور ہدایت تبھی حاصل ہوگی اگر ہم احکامات کو غور سے سنیں، ذہن نشین کریں اور عمل بھی کریں۔ علما فرماتے ہیں کہ اس کا کیا فائدہ کہ بندہ کہے تو سمعنا واطعنا لیکن اطاعت کے آثار اس پر ظاہر نہ ہوں۔ یہی غور سے سننے اور سمجھنے کی بات سورئہ فرقان میں سختی سے کہی گئی ہے، فرمایا گیا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے اور سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے‘‘(۲۵:۴۴)۔ اگرچہ انسان کو ’احسن تقویم‘ اور اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے مگر یہاں جو معاملہ بیان ہوا ہے وہ لاپروائی سے سننے کے بارے میں ہے۔ گویا اگر ہم سنتے اور سمجھتے نہیں تو اشرف المخلوقات ہونے کے باوجود ہماری حیثیت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہاں جانوروں جیسی بلکہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتی ہے۔ اگر یہی کیفیت مسلسل رکھی جائے تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بھی سلب کرلی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر کانوں پر مہر لگا دی جاتی ہے کہ ہدایت کی کوئی بات نہ ہم سنتے ہیں نہ سمجھ سکتے ہیں اور نہ عمل کرنے کی توفیق ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاگو رہنا چاہیے کہ ہم ایسی حالت تک گرنے سے محفوظ رہیں۔ آمین!
سورئہ جاثیہ میں یہی بات مختلف انداز میں فرمائی گئی ہے: ’’پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر غور کیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا اور اللہ نے علم کے باوجود اُسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟ اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟‘‘ (۴۵:۲۳)
یہاں ایک خاص ذہنی کیفیت کی طرف اشارہ اور ہدایت ہے۔ جب ہم بات کرنے والے کی بات پہلے سے طے شدہ ذہن (pre-set mind) سے سنتے ہیں، یعنی سننے والا سنتا ہے مگر ذہن میں طے رکھتا ہے کہ جو بات یا جو فیصلہ اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے، وہی صحیح ہے اور دیگر سب لایعنی باتیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں علم کے باوجود گمراہی میں پھینکے جانے کی نوید سنائی جارہی ہے کہ بات نہ کانوں سے گزرتی ہے، نہ دل پر اثرکرتی ہے۔ یہی تو کبر کا معاملہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہدایت کی توفیق ہی چھین لیتے ہیں۔
اسی طرح سورئہ یونس میں فرمایا گیا: ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے تمھارے لیے رات بنائی کہ اس میں سکون حاصل کرو اور دن کو روشن بنایا۔ اس میں نشانیاں ان لوگوں کے لیے جو (کھلے کانوں سے پیغمبرؐ کی دعوت کو) سنتے ہیں‘‘۔ (۱۰:۶۷)
ان سننے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ جنھیں یہ گھمنڈ ہوتا ہے کہ جو وہ جانتے ہیں صرف وہی صحیح ہے اور آنے والی ہدایت پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ بار بار قرآن مجید کا مطالعہ کرنے والے بھی انھیں قرآنی آیات میں کئی مرتبہ نئی روشنی اور ہدایت پاتے ہیں۔ یہ کیفیت جبھی ہوگی کہ پڑھنے والا ہدایت کے لیے تیار رہے۔ یعنی کان کھلے رکھے اور ذہن کو نئی ہدایت قبول کرنے کے لیے بھی تیار رکھے۔
ہم مسلمان لوگوں کے نزدیک یہ یقینی بات ہے کہ جنت میں ماحول اور صورتِ حال حددرجے کی معیاری ہوگی۔ کئی مقامات پر اس کا ذکر قرآن مجید میں ہوا ہے اور سننے سے متعلق نعمتوں کا ذکر بھی ہے:
گویا جنت کا ماحول ایسا ہوگا کہ وہاں لوگ بے ہودگی، یاوہ گوئی، جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان، گالی، لاف و گذ اف، طنزوتمسخر اور طعن و تشنیع جیسی باتیں نہیں سنیں گے۔ وہ سوسائٹی بدزبان اور بدتمیز لوگوں کی سوسائٹی نہ ہوگی جس میں لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالتے ہیں۔ وہ شریف اور مہذب لوگوں کا معاشرہ ہوگا جہاں لغویات ناپید ہوں گی۔ جو لوگ دنیا میں شائستگی اور مذاق سلیم کے حامل ہیں، وہ محسوس کرسکتے ہیں کہ دنیا کی زندگی میں یہ کتنا بڑا عذاب ہے جس سے نجات پانے کی نوید سنائی گئی ہے۔
کیوں نہ ہم آج ہی عہد کریں کہ ہم کسی بھی بے ہودہ بات، افترا، تہمت اور یاوہ گوئی جیسی باتوں پر کان نہیں دھریں گے اور نہ ایسی صورت حال کا حصہ بنیں گے۔ اس طرح ہم کئی ایک سمعی قباحتیں چھوڑ کر کئی مصیبتوں سے بچ سکیں گے۔
احادیث اور سیرتِ النبیؐ کے مطالعے سے بھی پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرامؓ مجلسِ نبویؐ میں اس طرح بیٹھتے تھے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے ہیں جو ہلنے سے اُڑ جائیں گے۔
امام طبرانی نے صحیح سند سے عمروؓ بن عاص سے روایت فرمایا کہ اللہ کے نبی قوم کے ادنیٰ ترین آدمی کی طرف بھی بھرپور متوجہ رہتے اور اس سے بات کرتے تاکہ اس کی تالیف قلب ہو اور وہ میری طرف اس طرح متوجہ ہوتے، حتیٰ کہ میں نے گمان کیا میں ہی قوم کا بہترین آدمی ہوں۔ ہجرت سے تین سال قبل حج کے موقع پر حسب ِ معمول حضوؐر مکہ میں حاجیوں کو اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ سوید بن صامت آپؐ کی تقریر سن کر بولا: آپ جو باتیں پیش کر رہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے۔ آپؐ نے پوچھا: وہ کیا ہے؟ اس نے کہا: مجلۂ لقمان۔ پھر آپؐ کی فرمایش پر اُس نے اس مجلے کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔ آپؐ نے فرمایا: یہ بہت اچھا کلام ہے مگر میرے پاس ایک اور کلام اس سے بھی بہتر ہے۔ اس کے بعد آپ نے اسے قرآن سنایا اور اس نے اعتراف کیا کہ یہ مجلۂ لقمان سے بلاشبہہ بہتر ہے (سیرۃ ابن ہشام۔ تفصیل ملاحظہ ہو، سیرت النبیؐ، ج۴، ص ۱۳)۔ یہاں رسول اکرمؐ کی حکمت اور صبر ملاحظہ ہوکہ اُنھوں نے دوسرے کی بات کی نفی نہیں کی، بلکہ اس کی بات سنی اور پھر اپنی بات سنائی۔ یہاں اس یقین کی کیفیت پر غور بھی کیجیے جو پیغمبروں کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنی بات روک کر زمانۂ جاہلیت کا کلام سننے کی فرمایش کرنا یقینا بڑے ضبط، حلم اور بُردباری کی زندہ مثال ہے۔
بات کو اچھی طرح سننا، اختلاف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ مشہور قول ہے کہ عالِم کے پاس بیٹھو تو خاموشی اختیار کرو اور جاہل کے پاس بیٹھو تو بھی خاموشی اختیار کرو۔ حکمت یہ ہے کہ عالِم کی بات سن کر علم میں اضافہ ہوگا اور جاہل کے ساتھ خاموش رہنے سے بُردباری اور حلم میں اضافہ ہوگا۔ سننے کے بارے میں علما ہدایت کرتے ہیں کہ بات اس لیے دھیان سے سنو کہ تم سمجھنا چاہتے ہو نہ کہ اس لیے کہ اس میں غلطیاں نکالنی ہیں اور لغزشوں کو گننا ہے۔ دوسرے کی بات کی تشریح اپنے نقطۂ نظر سے نہ کرو بلکہ اُسی کے زاویۂ نگاہ سے بات سمجھو۔ اسی طرح امام ابن حزمؒ فرماتے ہیں کہ جو بہترین طریقے سے خاموشی اختیار کرنا چاہے تو اپنے آپ کو دوسرے فریق کی جگہ تصور کرے۔ اس طرح اُس کی بات اور نقطۂ نظر واضح ہوجائے گا۔ یہ بھی تعلیم دی گئی ہے کہ جو کوئی پریشان اور غم زدہ ہو، اس کی بات سننے سے اس کی پریشانی اور غم میں کمی آجاتی ہے، جب کہ جلدبازی اور بات کاٹنے کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے، وقت کا ضیاع ہوتا ہے اور تعلقات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔
آج کل مینجمنٹ کے مضامین میں ’سننا‘ یعنی ’listening‘ پر کئی مضامین لکھے گئے ہیں اور سننے میں مانع امور پر بحث کی گئی ہے:
۱- موضوع کو ’بور‘ (bore) اور بے روح قرار دینا، یعنی مکمل بات سنے بغیر ہی راے قائم کر لینا۔ ممکن ہے کہ ہم اس موضوع سے پہلے ہی بے زار ہوں اور چڑ رکھتے ہوں اور سننا بھی نہ چاہتے ہوں کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ اچھے سننے والے تحمل سے اس انتظار میں سنتے ہیں کہ کوئی کام کی بات گفتگو سے نکل آئے۔
۲- موضوع ہی نہیں ہم بعض اوقات مقرر سے چڑرکھتے ہیں اور راے رکھتے ہیں کہ یہ مقرر ہمارا وقت ہی برباد کرے گا۔ ہم اپنی راے اپنے آپ پر ٹھونسنا چاہتے ہیں اور اپنا نقصان کربیٹھتے ہیں۔ یہ صورت حال اپنے ہی گھر میں چھوٹی عمر کے افراد کے ساتھ اور بعض اوقات اساتذہ کی شاگردوں کے ساتھ ہوجاتی ہے۔ وہ نہیں مانتے کہ چھوٹی عمر میں بھی کوئی کام کی بات کہہ سکتا ہے، جب کہ یہاں معاملہ تو تجربے اور مطالعے کا ہے۔
۳- بعض اوقات تقریر یا گفتگو کے ایک حصے سے بھرپور اثر لے لیا جاتا ہے اور بقیہ تقریر یا گفتگو محض وقت کا ضیاع محسوس ہوتی ہے۔ اس رویے سے سننے پر اثر پڑتا ہے۔ یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ بعض مقرر خاص طور پر سامعین سے درخواست کرتے ہیں کہ پوری بات سننے کے بعد ہی راے قائم کی جائے۔
۴- سننے والے کئی مرتبہ صرف حالات سننے پر اکتفا کر لیتے ہیں اور تجزیہ نہیں سنتے۔ اچھے سامع دونوں باتیں سن کر تجزیہ اور حالات کا ربط دیکھ کر راے قائم کرتے ہیں۔
۵- کئی مرتبہ تقریر سنتے وقت سامع اُس تقریر کے بارے میں ایک خاکہ بنانے کی کوشش کرتا ہے جو اُس خاکے سے مختلف ہوتا ہے جو مقرر کے ذہن میں ہوتا ہے۔ یقینا ہر شخص کی سوچ کا اپنا زاویہ ہوتا ہے اور مقرر اور سامع مختلف سمتوں میں سوچتے ہیں اور سامع کی سمجھ میں پوری بات نہیں آتی۔
۶- کئی سامع یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ (جھوٹ موٹ) ہمہ تن گوش ہیں مثلاً سر کو برابر جنبش دینا کہ بات سمجھ آرہی ہے یا یہ کہ پوری توجہ لیکچرر کی طرف ہے جب کہ اصل میں ان کا سننا سطحی ہی ہوتا ہے ۔صحیح سنا جا رہا ہو تو دل کی دھڑکن اور جسم کا درجۂ حرارت بات اور موضوع کے مطابق تبدیل ہوتا رہتا ہے۔
۷- جو لوگ کمزور سامع ہیں، اُن کا دھیان بہت آسانی سے اِدھر اُدھر ہونے والے واقعات کی طرف بٹ جاتا ہے مثلاً کسی موبائل فون کی گھنٹی بجی تو دھیان اُس طرف ہو گیا یا کسی کی پنسل گرگئی تو دھیان اس لڑھکتی ہوئی پنسل کی طرف ہی ہوگیا یا دھیان بانٹنے کے لیے یہی احساس کافی ہے کہ لوگ مجھے دیکھ رہے ہیں۔
۸- آسانی کسے پسند نہیں؟ کئی سامع موضوع کے صرف آسان پہلوئوں پر غور کرتے ہیں۔ اس طرح کے سننے والے موضوع کا مکمل احاطہ نہیں کرپاتے اور پوری بات سمجھ میں نہیں آتی۔ کئی موقعوں پر مقرر اپنی بات میں کوئی ایسا لفظ بولتا ہے یا ایسی حرکت کر بیٹھتا ہے جو سامع کی سوچ کسی پرانے موقع یا تجزیہ کی طرف لے جاتی ہے یعنی اس کا تعلق ماضی میں کسی معاملے سے رہا ہو مثلاً مقرر کو چھینک آئی، اُس نے رومال استعمال کر کے جیب میں رکھنے کے بجاے آستین ہی میں اڑس لیا۔ سامع کو اُس کی دیکھی ہوئی ’جناح‘ فلم یاد آگئی اور پھر سوچ اُسی فلم کی طرف ہورہی۔
۱۰- سننا ایسا عمل ہے جس کے لیے بولنا ایک ضروری حصہ ہے ۔ اگر الفاظ فی منٹ گنے جائیں تو بولنے والا ایک سو الفاظ فی منٹ بولتا ہے، جب کہ سننے کی صلاحیت پانچ سو الفاظ فی منٹ تک ہوسکتی ہے۔ اس طرح بولنے والا اور سننے والے کی ایک ہی معاملے میں مختلف رفتار ہوتی ہے۔ یہ فاصلہ زیادہ ہوجائے تو بات سمجھنے پر اثر پڑتا ہے۔
۱۱- سامع کا ذہن اگر کسی دوسری بات میں الجھا ہو تو سننے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ مثلاً کسی عزیز کی بیماری، بچے کا رزلٹ یا سڑک پر ہونے والا حادثہ۔
۱۲- اردگرد کا شور شرابہ بھی سماعت پر اثر ڈالتا ہے۔ شور کی وجہ سے مقرر کی آواز بھی دب جاتی ہے اور سامع کی توجہ ہٹ جاتی ہے۔
۱۳- ممکن ہے جس کرسی پر سامع بیٹھا ہے، وہ آرام دہ نہ ہو اور دھیان کرسی کی طرف ہی جائے۔ یہی صورت حال تکلیف دہ لباس اور جوتوں سے بھی ممکن ہے۔
۱۴- ہمارے ہاں آنکھوں کا معائنہ کروانا اور عینک کا استعمال ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔ بعض اوقات عینک فیشن کے ضمن میں بھی آتی ہے۔ لوگ اپنی سماعت کا معائنہ نہیں کرواتے۔ اگرچہ ہماری سماعت کئی ایک وجوہات سے کمزور بھی ہوسکتی ہے۔ آلۂ سماعت لگانے سے گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر سماعت کمزور ہو تو یہ ایک ضرورت ہے۔
۱۵- ہم دیکھتے ہیں کہ پریزنٹیشن (presentation) میں مقرر حضرات کم وقت میں بہت سا لوازمہ سامعین کے کانوں میں انڈیلنا چاہتے ہیں۔ مقرر جلد جلد بولتا ہے، جب کہ سلائیڈوں پر بہت سا لوازمہ ٹھونس کر بھر دیا جاتا ہے اور یہ کمزوری کئی اہم مواقع پر بھی درست نہیں کی جاتی۔ کئی دفعہ مقرر بھی مجبور ہوتا ہے، جب کہ تقریر سے پہلے ہی اسے بتایا جاتا ہے کہ اگرچہ ۴۰منٹ کا وقت تھا مگر آپ اپنی تقریر ۲۵ منٹ ہی میں ختم کریں۔ یہ قصور مقرر کا نہیں بلکہ پروگرام کے منتظمین کا ہے جو وقت کو منصوبے کے مطابق تقسیم نہ کرسکے۔
۱۶- کئی مواقع پر سوالات کا وقفہ آخر کے بجاے تقریر کے دوران میں رکھا جاتا ہے اور کئی سامعین لایعنی سوال یا پھر سوال براے سوال لے کر بات شروع کردیتے ہیں۔ یہ صورت حال سننے والوں پر گراں گزرتی ہے۔
۱۷- کئی مرتبہ سامعین بے صبری اور جلدبازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کم عرصے میں بہت سا لوازمہ بشمول ذاتی راے ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجتاً اصل بات سمجھنے سے رہ جاتی ہے۔
ہم بات کیوں سنتے ہیں؟ یا اچھا سامع ہونا کیوں ضروری ہے؟ ہر کام کا ایک ہدف ہوتا ہے اور سامع کے سامنے چند مقاصد ہوتے ہیں:
بات سنتے وقت اس کا ایک مقصد واضح ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح بات سنانے والے کا بھی وہی مقصد ہونا چاہیے جو بات سننے والے کا ہے، وگرنہ اختلاف پیدا ہونے کا خدشہ ہوگا۔
۱- آپ بات سنتے وقت فوری فیصلہ یا راے قائم کرنے سے باز رہیں کیونکہ آپ کی یک طرفہ سوچ آپ کے فیصلے اور راے پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔
۲- بات سنتے وقت اندازہ لگائیں کہ بات کرنے والے کے احساسات کیا ہیں۔ سنانے والے کی جسمانی حرکات (body language) آواز کا اُتارچڑھائو، باتوں میں پیغام، سب کچھ ہمدردی سے برداشت کریں تاکہ آپ پوری بات کُلّی طور پر سمجھ سکیں۔
۳- بات سنانے والے کے احساسات کی قدر کریں اور اعتراف بھی کہ سنانے والا کن حالات اور ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہے۔
۴- بات مکمل سننے کے بعد اپنے لفظوں میں مختصراً بیان کریں کہ آپ نے کیا سمجھا۔ سنانے والے سے مدد کی درخواست بھی کریں کہ اگر آپ نے بات سمجھنے میں غلطی کی ہے تو وہ خود تصحیح کردے، یعنی correct me if I am wrong۔
۵- اگر آپ نے سوال کرنا ہو تو کھلا سوال (open ended) ہو، مثلاً فرمایئے میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں؟ یا آیا یہ اپنی قسم کا پہلا واقعہ ہی ہے یا اس سے پہلے بھی یوں ہی ہوتا رہا ہے؟ اس طرح آپ کو زیادہ معلومات مل سکیں گی۔
بات غور سے سننا ایسا موضوع ہے کہ اس پر خال خال ہی بحث ہوتی ہے، جب کہ سارا زور اچھی تقریر، اچھے الفاظ اور اچھے فقروں پر ہوتا ہے، حقیقت یہ ہے کہ بات اچھی طرح سننا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ اچھی بات کہنا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ گھر پر تربیت کرتے ہوئے اس بات کا دھیان رکھیں۔ خطبۂ جمعہ، تقاریر اور تبادلۂ خیالات اور دعوتِ دین کے سلسلے میں اور دفاتر میں روزمرہ کے کام میں بھی اس امر پر بھرپور توجہ ہو کہ بات سننے والوں نے کیا رویہ رکھا۔ اس طرح کم از کم دگنا فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں ایک خاندان کا حصہ بنایا ۔ ایک وقت آتا ہے جب بزرگ ساتھی دنیا سے چلے جاتے ہیں اور کچھ ننھے ننھے بچے اسی خاندان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ زندگی اسی طرح رواں دواں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ انعام مانگے بغیر ہی عنایت کردیا کہ خاندان کے افراد میں آپس میں محبت پیدا کردی۔ ماں باپ کی محبت، بیوی کی محبت، خاوند کی محبت، بچوں کی محبت اور پھر اگلی پود، یعنی بچوں کے بچوں سے محبت۔ یہ محبت نہ صرف بڑوں کو بچوں سے ہوتی ہے بلکہ بچے بھی اپنے سے بڑوں کی محبت کا معصومانہ انداز میں اظہار کرتے ہیں۔ چند بدنصیب اس دنیا میں ایسے بھی ہوسکتے ہیں، اور ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس سے محروم رکھا، یا وہ خود محروم رہ گئے۔ محبت کا یہی باہمی جذبہ ہے جو ہمیں ایک دوسرے کا خیال رکھنے اور ایک دوسرے کی بہتری کے لیے کوشش اور مدد کرنے پر اُبھارتا ہے۔ کوئی عزیز تکلیف میں ہو تو آنکھیں پُرنم ہوجاتی ہیں۔ کسی کو خوشی ملتی ہے تو خوشیاں بانٹنے کو دل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا کا ہتھیار دیا ہے۔ ہم ہروقت دعائوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کی خوشی،عافیت اور سلامتی کے لیے دعائیں مانگتے ہیں، ایک دوسرے کی بہتری چاہتے ہیں، اور اپنی تمنائیں اللہ تعالیٰ کے سامنے رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا انعام بھی ہم پر کیا ہے۔ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کو اچھائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں___ کیوں؟ اس لیے کہ لوگ بُری عادات اور بُرے انجام سے بچ سکیں۔ یہ امربالمعروف نہی عن المنکرمسلم معاشرے کی خوب صورتی ہے۔ یہاں انسان نہ صرف ایک دوسرے کی بھلائی چاہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے بھی تیار رہتے ہیں۔ آج کل کے لوگ اس عمل کو شخصی آزادی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ معاشرہ ظالم کو ظلم سے نہ روک کر دراصل ظالم کی مدد کر رہا ہوتا ہے۔
بات محبت کے جذبے کی ہو رہی تھی۔ جب کوئی اپنا اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو قدرتی طور پر دل بے تاب ہوجاتا ہے۔ پھر دعا کا سہارا لیا جاتا ہے___ اے اللہ! اسے جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما، اس کے مراحل آسان کردے، اس کے درجات بلند فرما دے___ کون چاہتا ہے کہ اس کا عزیز، والدین، بچے، بیوی، خاوند اور دیگر عزیز و اقارب جنت میں نہ جائیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ اہلِ خاندان کا جنت میں ساتھ ناممکن نہیں تو پھر کیوں نہ ہم کوشش کریں کہ اکٹھے جنت چلیں۔
محبت کے جذبے کا سرچشمہ اللہ کی ذات پاک ہے مگر اس محبت کا حصول مشروط ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ ’’اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمھاری خطائوں سے درگزر فرمائے گا۔ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے‘‘۔ اُن سے کہو کہ ’’اللہ اور رسولؐ کی اطاعت قبول کرو‘‘۔ پھر اگر وہ تمھاری یہ دعوت قبول نہ کریں، تو یقینا یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں‘‘۔ (اٰل عمرٰن۳:۳۱-۳۲)
یہ آفاقی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بتا دیا ہے اور زندگی کا اصول بھی یہی ہے کہ یہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت کرے جو اس کی اور اس کے رسولؐ کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہے کہ اگر ہم اللہ سے محبت کریں گے، تو وہ ہم سے محبت کرے گا___ کوئی خاندان، کوئی رشتے داری، کوئی حسب و نسب ہمیں اللہ کی محبت کا دعوے دار نہیں بناسکتا۔ یہ محبت کیا ہے؟ اور پھر اللہ سے محبت!___ اللہ سے محبت یہی ہے کہ ہماری مرضی اور پسند، اللہ اور اس کے رسولؐ کی پسند کے تابع ہوجائے۔ اس کا کہا مانا جائے، اس پر عمل کیا جائے، اور اس کا حکم بلاچوں و چرا بجا لایاجائے۔ یہ نہیں کہ حی علی الصلٰوۃ ، حی علی الفلاح کی صدا بلند ہو اور ہم ٹس سے مس نہ ہوں۔
یہ بڑی سادہ اور سیدھی بات اور واضح اصول ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے، اور جو یہ اصول نہیں مانتے ان کے لیے کسی لگی لپٹی کے بغیر تنبیہہ ہے: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی اپنا رفیق نہ بنائو اگر وہ ایمان پر کفر کو ترجیح دیں۔ تم میں سے جو ان کو رفیق بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے‘‘ (التوبہ ۹:۲۳)۔ گویا جن سے محبت کے دعوے ہوتے ہیں، جن کے لیے آدمی راتوں کو جاگتا اور تکلیف اٹھاتا ہے، اگر وہ بھی ایمان پر کفر کو ترجیح دیں تو ان کو ساتھی بنانے سے بھی منع کردیا گیا ہے۔ اس کے باوجود جو ایسا کرے اسے ظالم قرار دیا گیا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ظالم کے لیے قرآن مجید میں کیا کیا احکام ہیں اور ان کا کیا انجام بتایا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ظلم کرنے سے باز رکھے، اور اللہ نہ کرے کہ کسی وجہ سے ہمارا شمار ظالموں میں ہو۔ اللہ تعالیٰ بڑی صاف بات فرما رہے ہیں کہ یہ دوغلی پالیسی نہیں چلے گی، اور پھر دعاے قنوت میں بھی ہم روزانہ وعدہ کرتے ہیں کہ: ’’ہم نافرمانی نہیں کرتے اور چھوڑ دیتے ہیں اس شخص کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘۔
دنیا میں ہمارے ساتھی___ والدین، زوجین، یعنی خاوند اور بیوی اور پھر اولاد___ یہی لوگ مل کر عموماً خاندان بناتے ہیں، اور اکٹھے ماہ و سال بسر کرتے ہیں۔ مغرب کے خاندان کا تصور ہمارے پیشِ نظر نہیں جہاں والدین کو خاندان سے باہر بلکہ بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، آپس میں محبت کی لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہیں جن کی ہمیں فکر رہتی ہے، ان کی بہتری کی خواہش بھی رہتی ہے، اور اگر انھیں تکلیف پہنچے تو طبیعت غمگین ہوجاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بشارت دی ہے کہ یہی والدین، زوج اور اولاد جنت میں بھی ساتھی بن سکتے ہیں۔ یہ کیوں کر ممکن ہے اور اس کے لیے نسخۂ کیمیا کیا ہے؟ فرمایا:
اے ہمارے رب، اور داخل کر اُن کو ہمیشہ رہنے والی اُن جنتوں میں جن کا تو نے اُن سے وعدہ کیا ہے اور اُن کے والدین اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالح ہوں(اُن کو بھی وہاں اُن کے ساتھ ہی پہنچا دے)، ُتو بلاشبہہ قادرِ مطلق اور حکیم ہے۔ (المومن: ۴۰:۸)
ان آیات کے ذریعے دراصل ہمیں اِس دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ یاد رکھیے، یہ دعائیں اللہ تعالیٰ نے یونہی تو نہیں بتائیں___ یہ اس لیے بتائی ہیں کہ قبول بھی ہوتی ہیں۔ ہمیں قرآن پاک کے الفاظ پر جتنا یقین ہے، اسی طرح اس بات پر بھی یقین ہونا چاہیے کہ یہ دعائیں نری لفاظی نہیں ہیں بلکہ اللہ کا وعدہ ہیں۔ سوچیں تو سہی، وعدہ کون کر رہا ہے، پھر پورا کیوں نہ ہوگا! بہرحال شرائط تو ہمیں پوری کرنی ہیں۔ یہاں دیکھیے والدین، بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کی نوید ہے اور پھر شرط بھی ہے___ کہ وہ جو صالح ہوں، وہی مستحق ہوں گے۔
قرآنِ مجید میں متعدد مقامات پر بیویوں اور اولاد کے لیے جنت کا وعدہ ہے مگر یہ وعدہ دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے___ صالح ہونا اور صابر ہونا۔ سورئہ رعد میں اہلِ ایمان کی صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:
آخرت کا گھر اِنھی لوگوں کے لیے ہے، یعنی ایسے باغ جو اُن کی ابدی قیام گاہ ہوں گے۔ وہ خود بھی ان میں داخل ہوں گے اور ان کے آباواجداد اور اُن کی بیویوں اور اُن کی اولاد میں سے جو جو صالح ہیں وہ بھی امن کے ساتھ وہاں جائیں گے۔ ملائکہ ہرطرف سے اُن کے استقبال کے لیے آئیں گے اور اُن سے کہیں گے کہ ’’تم پر سلامتی ہے، تم نے دنیا میں جس طرح صبر سے کام لیا، اُس کی بدولت آج تم اِس کے مستحق ہوئے ہو‘‘۔ پس کیا ہی خوب ہے یہ آخرت کا گھر! (الرعد۱۳:۲۳-۲۴)
یہ کتنی بڑی خبر اور خوش خبری ہے کہ ہمارے گھر والے بھی جنت میں اکٹھے ہوں گے! اللہ تعالیٰ ہمیں اور اہلِ خاندان کو اس مرتبے کے قابل بنادے___ آمین!
کام کا آغاز کیسے ہو؟ کیا محنت کرنی ہے، کیا ہے جو سمجھنا ضروری ہے اور کون سا راستہ ہے جو پورے خاندان کو اکٹھے جنت کی طرف لے جاسکتا ہے؟
یہ کام بڑی ذمہ داری اور سنجیدگی کا حامل ہے۔ جب ہماری اگلی نسل کا دارومدار اسی پر ہے تو پھر سُستی کیوں؟ پھر یہ کام انتخاب پر رُک تو نہیںجاتا۔ آپ کی شادی ہوگئی تو آگے چھوٹے بہن بھائی ہیں، بچے ہیں___ یہ تو ہمیشہ چلنے والا کام ہے اور بڑی سنجیدگی اور دانش مندی سے کرنے کا کام ہے۔
شادی کے بعد اولاد کی فکر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر مکمل قدرت رکھتے ہیں کہ وہ جسے چاہیں اولاد عنایت فرما دیں: ’’اللہ زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملاجلا کر دیتا ہے، اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہرچیز پر قادر ہے‘‘ (الشوریٰ۴۲:۴۹)۔ اُس کی جناب سے عنایت ہوگئی تو شکر ادا کریں، نہیں تو صبر اور پھر صبر کا اجر بھی بہت ہے۔ ہاں، دعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے ہی۔
ہم تو بہت کمزور لوگ ہیں۔ نبیوں نے بھی یہ دعائیں مانگی ہیں۔ دیکھیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا: ’’اے پروردگار! ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو‘‘۔ مشروط دعا___ بیٹا ہو تو صالح ہو۔ اور پھر حضرت زکریاؑ کی دعا بھی___ نیک اولاد کی درخواست کی جارہی ہے۔ دعا کرنا نہ بھولیں۔ دعا مانگنا، ہمارا حق ہے اور بار بار دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ہر ہرقدم پر اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن۔
صالح اولاد بڑی نعمت ہے اور جیساکہ ہم نے پہلے دیکھا، صالح ہونا ایسی شرط ہے جس کے پورا کرنے پر براہِ راست جنت کی بشارت ہے۔
صالح اولاد کا کیا مطلب ہے؟کیا نماز ادا کرلینا اور تلاوتِ قرآن کرنا ہی صالح ہونے کے لیے کافی ہے___ یا پھر اخلاق، معاملات اور عبادات کا درست ہونا بھی صالح ہونے کے لیے ضروری ہے، یا کچھ اور بھی خصوصیات درکار ہیں؟ صالح ہونا دراصل ایسی صلاحیت ہے جس پر بڑے انعام کا وعدہ ہے۔ جنت جیسا انعام، اور پھر بار بار بتایا گیا ہے کہ جنت ابدی قیام گاہ ہے۔
اس خوب صورت دعا میں ایسے ہی خاندان کی محبت جھلک رہی ہے___ بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کو ٹھنڈک ملے، اور دیکھیں اللہ تعالیٰ ہمیں کون سا درجہ دینا چاہتے ہیں___ پرہیزگاروں کا امام۔ یہ دعا محض کسی مقرر کی لفاظی نہیں، اللہ تعالیٰ کے اپنے الفاظ ہیں ___ ان کا پورا ہونا بالکل ممکن ہے۔ ہم اپنی کمزوریوں پر توجہ دیں تو سب کچھ ممکن ہے۔ ذرا مومن بن کر دیکھیں اور دکھائیں تو سہی۔
اب یہ عزم پھر دعا اور پھر عمل کا معاملہ آگیا۔ سوچیں آپ کا بیٹا آپ سے دعا کے لیے کہے کہ دعا کریں، امتحان میں کامیابی ہو، مگروہ خود کھیل میں مصروف رہے تو یقینا آپ کہیں گے کہ بیٹا تم خود تو امتحان کی تیاری نہیں کر رہے، مجھے دعا کے لیے کہہ رہے ہو۔ گویا عمل کی بڑی اہمیت ہے۔ بقول اقبال ؎
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، بچائو اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے، جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے۔ (التحریم۶۶:۶)
گویا عمل کے لیے والدین کو ذمہ دار ٹھیرایا گیا ہے۔ یہاںجمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے اور اہلِ ایمان کو اجتماعی طور پر حکم دیا جا رہا ہے: اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچائو۔ اس طرح سے والدین پر یہ ذمہ داری ڈال دی گئی ہے۔ اب نہ کوئی بہانہ ہے، نہ فرار کا موقع۔ لازماً اسے کرنا ہی ہوگا۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر اہل و عیال خدانخواستہ آگ سے نہ بچ سکے، توہم خود ذمہ دار ہوں گے۔ ذرا سوچیے، اہل و عیال کو آگ سے بچانے کے لیے نیک زوج کی کتنی اہمیت ہے، جو خود اس بات کی ضمانت ہو کہ بچوں کی تعلیم و تربیت صحیح طریقے پر ہوگی۔
فرمایا جا رہا ہے:’’اپنے اہل و عیال کو نماز کی تلقین کرو اور خود بھی اس کے پابند رہو‘‘ (طٰہٰ ۲۰:۱۳۲)۔ یہاں محنت کرنے کو کہا گیا ہے کہ بار بار کہو کہ نماز پڑھو اور پھر یہ دوغلی پالیسی نہیں___ خود بھی پابند رہنے کا حکم ہے۔ یہی نہیں بلکہ ایک مشہور حدیث میں حضوؐر ایک بچے کو سمجھاتے ہیں: اے بیٹے! بسم اللہ پڑھ کر، یعنی اللہ کے نام سے، دائیں ہاتھ سے اور اپنے سامنے سے کھانا کھائو۔ ایک ہی حدیث میں یہ تین تعلیمات ہیں۔ بڑی بدقسمتی کی بات ہے جب والدین فرار چاہتے ہیں اور اپنی ذمہ داری نبھانا چھوڑ دیتے ہیں کہ بچے کو ٹوکنا نہیں، اس سے وہ نفسیاتی مریض بن جائے گا۔ یہ اہلِ مغرب کی سوچ ہے جو خود نفسیاتی مریض بن گئے ہیں، وہ اپنے بچوں کو بھلا کیا سکھائیں گے۔ ہم امربالمعروف اور نہی عن المنکر والے لوگ ہیں، نہ خود برائی کریں گے نہ کرنے دیں گے۔
یقینا عمل کے ساتھ ٹھوس منصوبہ بندی کی بھی ضرورت ہے کیونکہ عمربھر کا منصوبہ جو مل گیا ہے۔ حکم آگیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو آگ سے بچائو!
اس کے بعد بچے کی پیدایش کا مرحلہ آجاتا ہے اور والدین اگلی نسل کی ذمہ داری سنبھالتے ہیں۔ تربیت اولاد سے متعلق لٹریچر میں ہم پڑھتے ہیں کہ بچوں کو ۷ برس کی عمر میں نماز کا حکم دو۔ ۱۰برس کی عمر میں سزا دینے کی بات کی گئی ہے اور بستر علیحدہ کرنے کا کہا گیا ہے، یعنی جنسی تعلیم شروع ہوگئی۔ عموماً ۱۰ برس میں سزا دینے کی بات ہوتی ہے۔ جان لیجیے کہ والدین پر فرض ہے کہ وہ سنِ تمیز، یعنی ساڑھے تین سال سے بچے کو نماز میں ساتھ رکھیں۔ والدہ اسے تیار کرے۔ والد صاحب چھے ساڑھے چھے برس تک لگاتار محنت کریں___ خود بھی مسجد جائیں، بچے کو بھی لے کر جائیں۔ والدہ بہانہ نہ بنائے کہ ابھی تو تھکا ہوا ہے، ابھی کھانا کھا رہا ہے۔ والدین کی سالہا سال کی لگاتار محنت کے بعد سزا دینے کی بات ہورہی ہے، یعنی والدین سزا دینے سے قبل اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے بارے میں خوب غور کرلیں۔
مشاورت، اخوت و محبت، احتساب، نظم و ضبط، اقامت دین یہ اجتماعی صفات، صالح معاشرے کی ضرورت ہیں اور ایسے معاشرے کی تشکیل صالح افراد ہی کرتے ہیں۔ ایسا معاشرہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا جہاں فیصلے مشاورت سے ہوتے تھے، اخوت و محبت کی قدر تھی، اور یہ سب کچھ آج بھی ممکن ہے اگر ہمارا قبلہ درست ہوجائے۔ بھائی چارے سے کام ہورہا ہو تو تھکاوٹ نہیں ہوتی۔ جنگ ِ خندق کے دوران اگر صحابہ کرامؓ نے پیٹ پر پتھر باندھے تو پتا چلا کہ حضوؐر نے دوپتھر باندھے ہوئے تھے۔ غلطی کون نہیں کرتا۔ جنگ اُحد کی مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جیسی جماعت کے بعض افراد سے کمزوری ظاہر ہوئی، مگر احتساب اور نظم و ضبط سے شکست فتح میں تبدیل ہوگئی۔ نظم وضبط ان تمام خوبیوں کا نتیجہ ہے۔ ان تمام باتوں سے اقامت ِ دین کو تقویت ملتی ہے۔ ہرمسجد میں پانچ مرتبہ جماعت کے ذریعے نظم و ضبط کا درس ملتا ہے تو پھر مسلمان معاشرے میں بدنظمی کی کوئی وجہ نہیں، جب کہ یہ تربیت سال ہا سال سے صبح و شام جاری ہے۔ ہمیں اس کی طرف من حیث القوم توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ہماری معاشرتی کمزوریوں میں کبر، نفسانیت، بے اعتدالی اور ضعفِ ارادہ کے علاوہ بھی کئی پہلو ہیں۔
خرابی کے خارجی اسباب میں سب سے پہلا تو کمزور اور غلط نظامِ حکومت ہے۔ اسی وجہ سے میڈیا، نظامِ تعلیم، ناقص نصاب، سب کسی بھی نوجوان کے اچھا مسلمان بننے کی راہ میں مانع ہیں۔ ہمارے داخلی عوامل بعض اوقات اتنے زیادہ ہوجاتے ہیں کہ ان خارجی عوامل کے لیے وقت ہی نہیں ملتا کہ انھیں ٹھیک رکھا جائے اور یوں معاشرہ بے حسی کا شکار ہوجاتا ہے۔
اس ضمن میں علماے کرام رہنمائی کرتے ہیں کہ بچوں میں یہ خوبیاں تب پیدا ہوں گی جب والدین میں یہ صفات ہوں گی۔ یہ نہ ہو کہ والد نے کہہ دیا کہ باہر کہہ دو گھر پر نہیں ہوں۔ والدہ فون پر جھوٹ بول رہی ہوں۔ پڑوس کی گیند گھر میں آگئی تو جھوٹ بول دیا،والدین خاموش رہے۔ بچہ ٹی وی رات گئے تک دیکھتا رہا، صبح وقت پر نہ اُٹھ سکا، لہٰذا اسکول میں بیماری کی درخواست دے دی___ یہ سب تضادات ہیں۔ بے عملی اور کمزوری کا نتیجہ ہیں۔ بظاہر یہ معمولی باتیں چھوٹی ہیں مگر شیطان تو تاک میں لگا رہتا ہے۔
اس ساری بحث کے نتیجے میں گھر والوں کی تربیت، اللہ کے سامنے جواب دہی کی اہمیت بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔ یہ سب اسی وجہ سے ہے کہ ہمیں اپنے اہلِ خانہ سے محبت ہے اور محبت کے اپنے تقاضے ہیں۔ صورت حال کی بہتری کے لیے ہمارے لیے ضروری ہے کہ یقین محکم، عملِ پیہم کے مصداق اہلِ خاندان کو مسلسل تذکیر و نصیحت کرتے رہیں اور یہ کہ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ نیکی کے لیے سازگار ماحول فراہم کریں۔ تربیت کا خاطرخواہ انتظام کریں۔ اخلاقی اعتبار سے مضبوط بنائیں اور شخصیت کی تشکیل و تعمیر پر توجہ دیں۔ جبھی تو گھر کے آنگن میں خوب صورت پھول کھلیں گے اور میٹھے پھل لگیں گے۔
کامیابی___ اصل کامیابی تو جنت کا حصول ہے کہ ہم آتشِ دوزخ سے بچ جائیں۔ یہ خوش خبری ملاحظہ ہو: ’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجۂ ایمان میں ان کے نقشِ قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں گے۔ ہرشخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے‘‘۔ (الطور۵۲:۲۱)
یہ خوش خبری ایک چھوٹ، ایک آسانی کی خبرہے، ایک رعایت (concession) ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اولاد کسی بھی درجہ ایمان پر ہو تو جنت میں ملا دی جائے گی۔ مگر ہمیں خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہیے۔ اسی طرح بچوں کی تربیت کے لیے بھی بلندمعیار پیشِ نظر رہنا چاہیے۔ ہم تو پرہیزگاروں کے امام بننا چاہتے ہیں۔ یہی دعا بھی مانگتے ہیں۔ گویا best of the best کے متلاشی رہیں۔ درجۂ احسان ہمارا مطمح نظر ہونا چاہیے اور حقیقی کامیابی یہ ہے کہ جنت میں ہمارا اور گھروالوں کا ساتھ ہو۔ آمین!
مقام غوروفکر ہے ___ اپنی اور اولاد کی اخروی کامیابی کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا ہے، کوشش کرنی ہے، کمرہمت باندھ لینی ہے۔
ہمیں اپنے آپ کو اور اہلِ خانہ کو آگ سے بچانا ہے___ اس کے لیے ہم جواب دہ ہیں۔ یہ کیسی روح پرور اور خوش کُن اور قابلِ عمل بشارت ہے کہ اگر ہم صالح ہوں اور صبر سے کام لیں تو ہم اور اہلِ خانہ جنت کے ساتھی بن سکتے ہیں ورنہ یہ افسوس ہی رہے گا کہ مہلتِ عمل تو ملی تھی مگر ہم اِدھر اُدھر وقت ضائع کرتے رہے۔
آیئے! اس دعا کے ساتھ اختتام کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ عزم بھی کرتے ہیں کہ ہمیں اہلِ خانہ کے لیے اور اپنے لیے کوشش کرنی ہے___ اے ہمارے رب! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا۔ آیئے ہم عزم کریں کہ کوشش میں کسر نہیں اُٹھا رکھیں گے۔ آمین!
(کتابچہ دستیاب ہے۔ منشورات، لاہور قیمت: ۷ روپے، ۵۰۰ روپے سیکڑہ)