آپ نے سنا کہ ایک شخص گناہوں میں مبتلا ہے یا خود اپنی آنکھوں سے اس کو گناہ میں مبتلا دیکھا تو بے تعلق ہوکر گزر گئے کہ جیساکرے گا ویسا بھرے گا۔ دل میں نفرت اور بے زاری کی ہلکی سی خلش رہ گئی مگر جلد ہی آپ نے ذہن جھٹک دیا اور اپنے کاموں میں لگ گئے۔ بے شک وہ گناہ گار شخص اپنے کیے کی سزا پائے گا اور آپ جن اچھے کاموں میں اللہ کی رضا کے لیے لگے ہوئے ہیں ان کا بھرپور صلہ پائیں گے لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ جس شخص کو آپ نے گناہوں کی دلدل میں پھنسا دیکھا ہے اور جن کی طرف سے بے زاری اور حقارت کا جذبہ دل میں محسوس کر رہے ہیں، کیا اس کے ساتھ آپ کا یہ رویہ صحیح ہے کہ دل میں ہلکی سی خلش لے کر اس سے بے تعلق ہوجائیں اور بغیر کسی حق کے یہ فیصلہ کرلیں کہ جو بوئے گا، وہ کاٹے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ اس معاملے میں آپ کی یہ روش اللہ کو پسند نہ ہو۔
دین سر تا سر خیرخواہی کا نام ہے۔ اس گناہ گار کے ساتھ آپ نے کیا خیرخواہی کی؟ کیا اتنا کافی ہے کہ آپ اس سے بے تعلق رہیں؟ اپنا دامن بچائے رکھیں اور خود کو اس گناہ سے محفوظ رکھ کر یہ اطمینان کرلیں کہ کل خدا کے حضور آپ کہہ دیں گے کہ پروردگار میں نے اس گناہ گار سے تعلق نہیں رکھا اور خود کو اس کے شر سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی، یا اس سے آگے بھی اس گناہ گار کا آپ پر کچھ حق ہے؟ وہ غافل ہے اور آپ باشعور ہیں۔ وہ آخرت سے بے پروا ہے اور آپ کو آخرت کی فکر ہے۔ وہ دین سے ناواقف ہے اور آپ دینی علم رکھتے ہیں۔ اس کو صالح ماحول نہیں مل سکا ہے اور آپ صالح ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کیا آپ پر اس کا یہ حق نہیں ہے کہ آپ اس کو آخرت کی سخت پکڑ سے بچائیں اور گناہ کے بدترین اثرات اور ہولناک انجام سے ڈرائیں۔ کیا آپ کے نزدیک اس کا امکان نہیں ہے کہ وہ آپ کی نصیحت قبول کرلے اور توبہ کر کے خدا کی طرف لوٹ آئے۔
وہ شخص جس گناہ میں مبتلا ہے، اس سے اپنا دامن بچا کر آپ نے سمجھ لیا ہے کہ آپ اس سے محفوظ ہوگئے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر آپ اور آپ جیسا شعور رکھنے والے سارے لوگ یہی اندازِ فکر وعمل اپنا لیں گے تو گناہ بڑھتے چلے جائیں گے اور پورامعاشرہ اس کی لپیٹ میں آجائے گا۔ آپ بھی اس سے متاثر ہوں گے اور آپ کی نسلیں بھی،گناہ کی قباحت و شناعت دھیرے دھیرے کم ہونے لگے گی۔ گناہوں سے مصالحت اور برداشت کرلینے کی کیفیت بڑھتی چلی جائے گی اور نبی صادق و امینؐ کے الفاظ میں آپ گناہ بطور خود نہ کرنے کے باوجود گناہ کرنے والوں ہی میں شامل قرار دیے جائیں گے۔ بات کسی اور کی ہو تو آپ سنی اَن سنی بھی کردیتے لیکن یہ بات تو اُن کی ہے جن کی صداقت پر آپ کا ایمان ہے اور جن کے واسطے سے ہی آپ آخرت میں نجات کا یقین رکھتے ہیں۔ رسولؐ اللہ کا ارشاد ہے: ’’جس مقام پر لوگ گناہوں میں مبتلا ہوں اور کچھ ایسے لوگ وہاں موجودہوں جو اس گناہ کو برداشت نہ کر رہے ہوں تو وہ گویا وہاں موجود ہی نہیں ہیں، اور جو لوگ ان گناہوں پر مطمئن ہوں اور ان کو برداشت کررہے ہوں، وہ اگر موقع پر موجود نہ بھی ہوں تو بھی وہ گویا ان لوگوں میں موجود ہیں‘‘۔
حدیث کے اس صاف شفاف آئینے میں اپنے عمل و کردار کا چہرہ دیکھیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے کہ آپ جو رویہ اختیار کر رہے ہیں، وہ کس حد تک صحیح ہے اور حقیقت میں صحیح رویہ آپ کے لیے کیا ہے؟ صحیح رویہ صرف یہ ہے کہ آپ گناہگاروں کے گناہ پر کُڑھیں اور اس کی کُڑھن سے بے چین ہوکر ان بھٹکے ہوئے بندوں کو انجامِ بد سے ڈرائیں۔ گناہ کے اثراتِ بد سے بچائیں اور اپنے معاشرے کو گناہوں سے پاک رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں۔
گناہ آپ کی بستی میں ہو رہا ہو، یا محلے میں یا آپ کا کوئی پڑوسی اس میں مبتلا ہو، بہرحال آپ کی یہ اخلاقی اور دینی ذمہ داری ہے کہ آپ اسے روکیں اور گناہگار کے خیرخواہ بن کر اس کو گناہ سے بچانے کی فکر کریں اور ہرگز خود کو اس سے بے تعلق رکھ کر یہ نہ سمجھیں کہ آپ کل خدا کے حضور پکڑے نہ جائیں گے۔ آپ کا پڑوسی کل خدا کے حضور میدانِ حشر میں آپ پر خیانت کا الزام لگائے گا اور آپ کے اس رویے پر رب سے فریاد کرے گا۔ امام حنبلؒ نے ایک روایت نقل کی ہے:
قیامت کے روز ایک شخص اپنے پڑوسی کا دامن پکڑ کر یہ فریاد کرے گا: اے میرے رب! اس نے میرے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ جواب دے گا: پروردگار! میں تیری عزت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے اس کے اہل و عیال اور مال میں کوئی خیانت نہیں کی ہے۔ فریادی کہے گا: پروردگار! یہ بات تو یہ سچ کہتا ہے لیکن اس نے خیانت یہ کی کہ اس نے مجھے گناہ کرتے دیکھا لیکن کبھی مجھے گناہ سے روکنے کی کوشش نہیں کی۔(مسند احمد)
اللہ نے آپ کو دین کا شعور اور حلال و حرام کی تمیز دے کر اس ذمہ داری کے مقام پر کھڑا کیا ہے کہ آپ رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کریں۔ لوگوں کو معصیت اور منکرات سے روکیں اور بھلائیوں کی ترغیب دیں، دل سوزی کے ساتھ شیریں گفتاری کے ساتھ اور حکمت کے ساتھ اور اس کوشش میں اپنے اثرات بھی استعمال کریں۔ اگر آپ نے اپنی یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو گویا آپ نے خیانت کی اور آپ کا پڑوسی کل حشرکے میدان میں آپ سے اسی خیانت کا الزام لگائے گا چاہے وہ آپ کے محلے کا پڑوسی ہو یا آپ کی بستی کا۔
ایک پہلو اور بھی قابلِ غور ہے کہ جب عام لوگ گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور شعور رکھنے والے صرف اپنی ذات اور اپنے گھر کی فکر میں لگے رہتے ہیں اور مبتلاے گناہ لوگوں سے کوئی سروکار نہیں رکھتے، بلکہ اس سوچ سے خود کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ جیسا کریں گے ویسا بھریں گے اور ان کے گناہوں کو برداشت کرنے لگتے ہیں،تو یہ گناہ اور رب کی نافرمانیاں بڑھنے لگتی ہیں اور دھیرے دھیرے پورے سماج اور بستی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں اور اب تو ذرائعِ ابلاغ کی مدد سے پورے پورے ملک اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ پھر اللہ کی جانب سے عذاب کا فیصلہ ہوتا ہے اور اس سے پہلے کہ ان لوگوں کو موت آئے یہ سب لوگ اللہ کے عذاب میں مبتلا کر دیے جاتے ہیں۔ وہ لوگ بھی جو گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ لوگ بھی جو گناہوں سے دور رہتے ہیں۔ حضوؐر کا ارشاد ہے:
جن لوگوں کے درمیان بھی کوئی شخص گناہ کے کام کررہا ہو اور وہ لوگ اس کو روک سکتے ہوں پھر بھی نہ روکیں، تو اس سے پہلے کہ یہ لوگ مریں سب کے سب خدا کے عذاب میں گرفتار ہوں گے۔(ابوداؤد)
دراصل اللہ نے مومن کا وصف ہی یہ بتایا ہے کہ وہ منکرات کو گوارا نہیں کرتا، بلکہ اس کو روکنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ رب سے وفاداری کا تقاضا ہی یہ ہے کہ وہ زمین پر رب کی نافرمانی کو برداشت نہ کرے اور رب کی فرماں برداری اور بھلائی کے پرچار پر لوگوں کو ہر ممکن ذریعے سے آمادہ کرے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اور اپنی اجتماعی زندگی میں بھی۔ صحابہ کرامؓ کا دورِ سعادت اس کی بہترین اور قابلِ تقلید مثال ہے۔ صحابہ کرامؓ جو قرآن پاک میں قطعی طور پر خیراُمت کے لقب سے یاد کیے گئے ہیں، اسی بنیاد پر ان کو اس لقب سے نوازا گیا کہ وہ امربالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے تھے اور اللہ پر کامل ایمان رکھتے تھے۔
انفرادی طور پر بھی صحابہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ہرہر موقع پر نیکی اور اصلاح کے حریص رہتے تھے اور اس معاملے میں اپنا فرض اور دوسروں کا حق ادا کرنے کے لیے ہمہ دم مستعد رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں کو بارآور بھی کیا اور انھوں نے اپنی مخلصانہ کوششوں کے نیک نتائج سے اپنی آنکھیں بھی ٹھنڈی کیں۔
حضرت عمرؓ کے پاس شام کا رہنے والا ایک شخص اکثر آیا کرتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ بہت دن گزر گئے اور وہ نہیں آیا۔ حضرت عمرؓ کو اس کی یاد آئی، لوگوں سے اس کے بارے میں معلومات کیں تومعلوم ہوا کہ وہ کچھ بُرے کاموں میں پڑ گیا ہے، پینا پلانا شروع کردیا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے کاتب کو بلایا اور اس کو ایک خط لکھوایا:
یہ خط ہے عمر بن الخطاب کی طرف سے… فلاں ابن فلاں ابن فلاں شامی کے نام۔
تمھارے اس اللہ کی حمدو تعریف کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جو گناہوں کو بخشنے والا، توبہ قبول کرنے والا، سخت سزا دینے والا اور زبردست احسان کرنے والا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب کو اسی کی طرف پلٹنا ہے۔
یہ خط لکھوا کر امیرالمومنین نے اس شامی شخص کی طرف روانہ فرمایا اور اپنے پاس کے ساتھیوں سے کہا کہ تم سب لوگ اس شخص کے لیے رب سے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل کو پھیر دے اور اس کی توبہ کو قبول فرمائے۔ ادھر اس شامی خطاکار کو جب امیرالمومنین کا خط ملا تو اس نے اس کو بار بار پڑھا، اور یہ کہنا شروع کیا کہ میرے رب نے مجھے اپنی پکڑ اور اپنے عذاب سے ڈرایا بھی ہے اور اپنی رحمت کی امید دلا کر مجھ سے گناہوں کی بخشش کا وعدہ بھی کیا ہے۔ یہ خط اس نے کئی بار پڑھا، رویا اور اللہ سے توبہ کی اور ایسی سچی توبہ کی کہ اللہ نے اس کی زندگی بدل دی۔
حضرت عمرؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ انتہائی خوش ہوئے اور لوگوں سے کہا کہ جب تم اپنے کسی مسلمان بھائی کو دیکھو کہ وہ بھٹک گیا ہے تو اس کو چھوڑ نہ دو، بلکہ اس کو سیدھا کرنے کی کوشش کرو۔
نیک اعمال میں توبہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے اور آپ کے ذریعے کسی کو اگر توبہ کی توفیق ہوجائے تو یہ آپ کی سب سے بڑی سعادت اور اللہ کی نظر میں سب سے بڑی نیکی ہے۔